شادی کے بعد اس کی سب سے پہلے دعوت اویس کے گھر تھی اس نے سرینہ ہوٹل میں ان دونوں کے لیے پہلے سے ٹیبل ریزرو کرا لی تھی آمنہ کی شادی کے کپڑے سب ہی بہت نفیس اور کارآمدار تھے شادی سے پہلے وہ سادہ حلیے میں رہتی ریشمی کپڑے بہت کم کم پہنتی تھی مگر نگین اور عمارہ نے اس کے لیے ایک سے ایک سوٹ خریدا تھا پہلے وہ میک اپ بھی نہ ہونے کے برابر کرتی تھی اب روز نک سک سے تیار ہوتی تو افروز بیگم نہال ہو جاتیں۔
عمارہ بھابی نے دعوت پر جانے کے لیے اس کا جو سوٹ نکالا تھا وہ کاپر اور اسکن کلر میں تھا آثیر نے خود لیا تھا خالصتا اس کی چوائس تھی نگین بھابی نے ناں ناں کرنے کے باوجود اس کا میک اپ بھی کر دیا وہ بہت ہوا تو لپ اسٹک لگا لیتی تھی۔
" اتنا خوب صورت سوٹ ہے جیولری ہے میک اپ میں اچھی لگو گی یہی دن ہیں فرصت کے بعد میں چیاؤں پیاؤں گود میں آئیں گے تو انہی کے پیچھے بھاگتی رہو گی۔"
نگین بھابی نے چھیڑا تو اس کے رخسار تپ گئے آثیر بھی قریب بیٹھا آمنہ کی تیاری کے انتظار میں تھا اس نے تو بھابی کے مزاق کو بہت انجوائے کیا پر آمنہ سے ادا کاری نہیں ہو پا رہی تھی اس نے شکر کیا جب بھابی میک اپ کے لوازمات اٹھا کر گئیں۔
افروز آنٹی گاڑی تک آمنہ کو چھوڑنے آئیں۔
اویس انہی کے انتظار میں تھا اس نے چوشدلی سے آمنہ سے دعا سلام کی ہلکی پھلکی گپ شپ ہو رہی تھی۔
" بھابی یقین کریں جب اس نے کہا کہ مجھے محبت ہو گئی ہے تو ہم فرینڈز میں سے کسی کو بھی اس کی بات کا یقین نہیں تھا کیونکہ یہ ہر لڑکی کو عام سی ہے کچھ خاص نہیں ہے اس میں کہہ کرا گنور کر دیتا۔ ہم اس کے گھر گئے جناب بیمار ہو کے پڑے ہوئے تھے وہیں سے پتا چلا کہ آپ کے شوہر نامدار کو محبت ہو گئی ہے۔ بھابی واقعی آپ بہت خاص ہیں جب تک آپ کو دیکھا نہیں تھا کچھ رائے نہیں تھی کیونکہ میں یہی سمجھتا رہا کہ آثیر کی محبت اس کی فرینڈز کی طرح ہی ہو گی لیکن اب میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ ایسی ہیں جیسی آثیر کہتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔"
اویس شروع ہوا تو بولتا گیا آثیر پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ اس کے راز بتا رہا تھا آمنہ پہلے ہی اس کے بارے میں اتنی بری رائے رکھتی ہے پتا نہیں اب کیا سوچے گی وہ ندامت سے عرق آلود ہو رہا تھا۔ لائف پہلے ہی مشکل تھی یہ اویس گھا مڑا سے مشکل ترین بنانے پر تلا ہوا تھا کاش وہ اویس کا منہ اور فرا ٹے بھرتی زبان بند کر سکتا۔
" اب ذرا کس کے رکھیے گا کیونکہ ان کی فرینڈز ان کی شادی کے بعد کافی غم زدہ ہیں. " اویس نے اپنے تیئں بہت خلوص سے مشورہ دیا تھا آمنہ بہت دلچسپی سے سن رہی تھی اویس نے جانے کب کب کے بدلے چکائے تھے۔
" سویٹ ہارٹ اس کی باتوں پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" آثیر آمنہ کے ساتھ ہی بیٹھا تھا اس کی طرف جھک کر پیار سے کہتے ہوئے جانے اس نے اویس کو کیا جتانے کی کوشش کی تھی۔ شاید یہی کہ وہ اس پر اعتبار کرتی ہے وہ جس طرح تیزی سے پیچھے ہوئی صد شکر کہ اویس نے نہیں دیکھا ورنہ ابھی اس کی ساری محبت کا بھرم کھل جاتا۔
وہ کتنی روکھی اور سرد تھی لوگوں کے سامنے ذرا دیر کو ہی سہی اس کا مان تو رکھتی اویس کے سامنے وہ ہنستا مسکراتا رہا پر جونہی اجازت لے کر کھانے کے بعد وہ اپنی گاڑی تک پہنچا اس نے تیزی سے گاڑی نکالی اور روڈ پر آتے ہی گاڑی چلانے کے ساتھ ہی سگریٹ سلگا لیا۔
" آمنہ! مجھے پتا ہے آپ کے دل میں میرے لیے رتی بھر بھی جگہ نہیں ہے لیکن یہ بات آپ سب کے سامنے اپنے روئیے سے ظاہر کریں میں کبھی بھی برداشت نہیں کروں گا۔
ہم دونوں عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں آپ کبھی بھی نہیں چاہئں گی کہ آپ کے گھرانے کی عزت پر حرف آئے سو آئندہ خیال رکھیے گا دکھاوے کے لیے ہی سہی میرا ساتھ دیں آخر میں بھی تو بھرم نبھا رہا ہوں۔" وہ سگریٹ کا ایک طویل کش لیتے ہوئے بولا۔
انجانے میں خاندان اور عزت کی بات کر کے آثیر نے اس کی دکھتی رگ پر انگلی رکھی تھی اور یہ اس کا کمزور پہلو تھا۔ باقی کا سفر خاموشی میں طے ہوا آثیر پھر کچھ نہیں بولا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
شادی کے بعد دعوتیں نمٹاتے ہوئے مہینہ تو گزر ہی چکا تھا ہر روز ہی وہ کہیں نہ کہیں انوائٹ ہوتے آخری دعوت فائقہ اور رومیل نے دی تھی۔
آثیر کی شادی سے پہلے فائقہ اسے پسند کرتی تھی دل سے چاہتی تھی کہ آثیر اس کا ہو جائے پر بات ایک حد سے آگے نہیں بڑھی تھی اس کے منہ سے محبت کا اظہار سن کر وہ بہت ہنسا تھا تب وہ وہیں چپ ہو گئی تھی۔ آثیر کی شادی کے بعد اب رومیل اسی کے ساتھ نظر آتی تھی۔ وہ دونوں مشترکہ طور پر اسے انوائٹ کر رہے تھے فائقہ کے بارے میں آثیر کی فیملی کو پتا تھا اس نے فون کرکے افروز آنٹی سے بات کی تھی اور دعوت کا بھی اس نے ان ڈائریکٹ پہلے ان سے کہا بعد میں آثیر سے بات کی تھی۔ اگر وہ مما سے بات نہ کر چکی ہوتی تو وہ یہ دعوت قبول نہیں کرتا۔ فائقہ کی اپنے بارے میں پسندیدگی سے وہ اچھی طرح آگاہ تھا۔
وہ دیکھنا چاہتی تھی کی آثیر کی محبت کیسی ہے ساتھ ہی وہ اسے جلانا بھی چاہتی تھی رومیل اس کے ساتھ ہوتا وہ اسے بتاتی کہ مجھے ایک اور قدر دان مل گیا ہے۔
***********************************************
عین وقت پر رومیل کو کوئی ایمرجنسی پیش آ گئی تھی سو فائقہ نے ان کا استقبال اکیلے ہی کیا۔ فائقہ کی مما کی بہت پہلے وفات پا چکی تھی ڈیڈی نے دوسری شادی کر لی تھی اپنے بزنس کی وجہ سے وہ ملک بھر میں گھومتے رہتے تھے ان کی دوسری بیوی بھی بزنس وومن تھی وہ ان کے ساتھ ہی ہوتی۔
فائقہ اکثر و بیشتر اکیلی ہی رہتی برگر فیملی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کی لڑکوں سے دوستی بھی تھی جو ان کے ہاں کوئی ایسی معیوب بات نہیں تھی. آثیر سے اس کی ملاقات اتفاقیہ طور پر ہی اس کے آفس میں ہوئی تھی فائقہ کو وہ اچھا لگنے لگا پھر جوں جوں وہ اس سے واقف ہوتی گئی یہ پسندیدگی محبت میں بدل گئی کیونکہ وہ ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھتا تھا اور فائقہ یہ حد توڑ کر اس کے قریب ہونا چاہتی تھی آثیر نے نوبت ہی نہیں آنے دی اور شادی کر لی۔
فائقہ نے دوستوں کی زبانی سنا تھا کہ بڑی زبردست محبت کے بعد شادی ہوئی ہے فائقہ اس خوش نصیب لڑکی کو دیکھنا چاہتی تھی آثیر کی محبت جس کا نصیب بنی تھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
گاڑی کا ہارن سنتے ہی فائقہ خود خوش آمدید کہنے کے لیے باہر آئی وہ اپنے بے پروا حلیے میں تھی ٹراؤزر کے اوپر سلیولیس ٹاپ جس کے گہرے گلے سے گردن میں جھولتا وہ پینڈینٹ پہلی نگاہ میں ہی توجہ مبذول کرواتا تھا۔ سنہرے اسٹیپ میں کٹے بال جو بے پروائی سے کندھے پر پڑے تھے آثیر کے ساتھ اس نے پرانے انداز میں گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور آمنہ سے گلے ملی۔ وہ غور سے آمنہ کو دیکھ رہی تھی آثیر کی وائف تو بہت سادہ سی تھی پہلی نظر میں تو اسے اچھی خاصی مایوس ہوئی وہ تو سمجھ رہی تھی کہ آثیر نے کسی دھانسواپ ٹوڈیٹ قسم کی لڑکی سے شادی کی ہو گی پر یہاں تو صورتحال ہی اور تھی آثیر کی وائف نے اسکارف سے سر ڈھانپ رکھا تھا پوری آستین کی شرٹ پہنی تھی اور سلیقے سے دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا آثیر آمنہ کو سمجھا کے لایا تھا اس لیے وہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
" اچھا آثیر! مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں آمنہ سے کب محبت ہوئی؟" اتنا دیر سے دل میں مچلتا سوال وہ لبوں تک لے ہی آئی۔
" چار ماہ دس دن پہلے۔" آثیر نے جھٹ جواب دیا۔
" بہت محبت کرتے ہو آمنہ سے؟" فائقہ لہجے میں در آنے والی حسرت کو چھپانے میں ناکام ہو رہی تھی۔
" آف کورس۔" آثیر نے اپنا بازو آمنہ کے کندھے پر پھیلاتے ہوئے اسے لمحہ بھر کے لیے اپنے قریب کیا تھا۔
آثیر کا ری ایکشن اتنا غیر متوقع تھا کہ آمنہ کو کچھ کہنے یا ناگواری دکھانے کا موقع ہی نہیں ملا۔
" اچھا تمہیں آمنہ کی کس چیز یا بات نے متاثر کیا؟"
" میری وائف میں متاثر کرنے والی بہت سی چیزیں ہیں مگر اسے پتا ہے کہ ایک لڑکی جس نے کل کو کسی کی بیوی بھی بننا ہے اسے اسے کس طرح رہنا چاہیے۔"
( اداکار کہیں کا دوغلا منافق) آمنہ جی ہی جی میں جل بھن سی گئی۔
وہ جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہتی تھی جبکہ فائقہ بڑی فرصت میں بیٹھی تھی باتوں کے دوران وہ بڑی بے تکلفی سے آثیر کا ہاتھ پکڑ لیتی اس کے کندھے پر دھیپ رسید کرتی۔ وہ صوفے پر آثیر کے بالکل قریب بیٹھی تھی وہ ایسی ہی بے تکلف تھی۔ آثیر نے آج کوئی پروا نہیں کی تھی واپسی پر وہ دونوں کو گیٹ تک چھوڑنے آئی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
واپسی پر اس کا سامنا سب سے پہلے عمارہ بھابی سے ہوا انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
" فائقہ کیسی لگی تمہیں؟"
" اچھی ہے بس بولڈ بہت زیادہ ہے۔" اس نے سچائی سے اپنے خیالات کو بیان کیا۔
" ہاں یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔" انہوں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ اتنے میں آثیر بھی گاڑی لاک کر کے ادھر آ گیا۔ نگین بھابی اور عاشر بھائی پرسوں دوبارہ سعودیہ واپس جا رہے تھے وہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔ کافی دیر گپ شپ ہوتی رہی وہ جب سونے کے لیے اوپر گیا تب آمنہ نیچے ہی تھی وہ اس کے بعد اوپر آئی اور سڑھیوں کا داخلی دروازہ لاک کرنا بھول گئی۔ دیر سے سوئی تھی آنکھ بھی دیر سے کھلی وہ بھی دروازہ ناک کرنے پر مندی مندی آنکھوں سے اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا جو ساڑھے دس کا ٹائم بتا رہا تھا اتنی دیر وہ کبھی نہیں سوئی تھی۔ صبح فجر کی نماز کے وقت مشکل سے آنکھ کھلی تھی نماز پڑھ کر پھر سو گئی تھی باہر دروازے پر افروز آنٹی تھیں وہ شرمندہ سی تھی۔
" بیٹا آثیر کو جگاؤ نیچے فرحان آیا ہے رات آثیر کا سیل نیچے رہ گیا فرحان فون کرتا رہا اب خود آیا بیٹھا ہے کوئی کام ہے شاید." بات کرتے کرتے افروز کی نگاہ اندر کمرے کی طرف چلی گئی وہ اس زاوئیے سے کھڑی تھیں کہ بیڈ انہیں صاف نظر آ رہا تھا اور آثیر کہیں نہیں تھا۔
" آثیر کہاں ہے باتھ روم میں ہے ؟" انہوں نے پوچھا تو آمنہ گڑ بڑا گئی۔
" ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔" آمنہ کی گھبراہٹ انہیں پریشانی میں ڈال گئی وہ اندر آ گئیں۔ باتھ روم کا دروازہ کھولا اندر کوئی بھی نہیں تھا۔
" آثیر کہاں ہے؟" ان کی جانچتی نگاہ آمنہ پر جمی تھی اس سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا اتنے میں آثیر خود ہی بیدار ہو کر ادھر چلا آیا افروز کا ماتھا ٹھنکا تھوڑی دیر بعد انہوں نے ماسٹر بیڈ روم میں جھانک کر تصدیق بھی کر لی کہ آثیر نے رات یہیں گزاری تھی ابھی سوال جواب کا وقت نہیں تھا اس کام کو انہوں نے بعد کے لیے اٹھا رکھا کیونکہ ابھی فرحان آیا ہوا تھا۔
آثیر شام کو واپس آیا تو اس کی جواب طلبی ہوئی وہ سمجھ گیا کہ اس کا راز کھل گیا ہے۔ یہ سب آمنہ کی بے وقوفی کی وجہ سے ہوا تھا آمنہ پہلے سے سر جھکائے ان کے پاس بیٹھی تھی۔
" تم الگ بیڈ روم میں کیوں سو رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا کب سے ہو رہا ہے؟"
" مما میں رات کو ہی ادھر سویا تھا۔" اس نے صفائی سے جھوٹ بولا۔
" کیوں سوئے تھے ادھر؟"
" اصل میں مما اس کی طبیعت خراب تھی اس لیے میں ماسٹر بیڈ روم میں سو گیا تھا۔" وہ جیسے سب کچھ سمجھ گئی تھی آثیر کی بے صبری سامنے تھی یقینا آمنہ خفا ہوئی ہو گی جس کے بعد دونوں کی لڑائی ہو گی اور آثیر الگ کمرے میں جا کر سو گیا ہو گا۔ انہوں نے کڑی سے کڑی جوڑی اور مطمئن ہو گئیں۔
" اتنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر خفا نہیں ہوتے۔" اس کے علاوہ وہ آثیر سے اور کیا کہتی پر آمنہ کا شرمندگی سے برا حال تھا۔
آثیر اسی وقت اوپر گیا اور پھر سے اپنی چیزیں پرانے بیڈ روم میں منتقل کیں وہ نہیں چاہتا تھا مما پر اس کا جھوٹ کھلے۔
رات آمنہ اوپر آئی تو آثیر بیڈ روم پر دراز ٹی وی دیکھ رہا تھا۔
" میں کوئی رسک نہیں لے سکتا آپ نے مما کا رویہ ملاحظہ کیا ہو گا آج انہوں نے چوری پکڑی کل کوئی اور پکڑے گا۔ یہ تو مما تھیں چپ ہو گئیں لیکن کسی اور نے دیکھا تو خاموش نہیں رہے گا۔ مجھے تماشہ بنوانا گوارا نہیں ہے مگر میں جلد ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکال لوں گا۔ وہ سامنے صوفہ پڑا ہے آپ سو جائیں اعتبار تو آپ کرتی نہیں ورنہ بیڈ حاضر تھا۔" آخر میں اس کے لہجے سے شوخی چھلک پڑی پر اپنی پریشانی میں آمنہ کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔
نا چار وہ صوفے پر سکڑ کر لیٹ گئی بڑی دیر بعد آنکھ لگی تھی۔ آثیر بہت دن بعد اپنے بیڈ روم میں سکون کی نیند سویا تھا مما صبح پھر بہانے سے اوپر آئی آثیر اپنے بیڈ روم میں ہی تھا انہوں نے اطمینان کا سانس لیا ان کا شک ختم ہو چکا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆