لوگ کہتے ہیں
محبت پھول ہوتی ہے مگر پھول بکھر بھی تو جاتے ہیں
محبت آئینہ ہوتی ہے مگر آئینے ٹوٹ بھی تو جاتے ہیں
ایک دل سے دوسرے دل میں سفر کرتی رگ و جاں میں اتر جاتی ہے
محبت خوشبو ہوتی ہے مگر خوشبو مر بھی تو جاتی ہے
دو دلوں کو حصار میں لے کر اپنی تپش سے جلاتی ہے
محبت آگ ہوتی ہے مگر آگ بجھ بھی تو جاتی ہے
رنگین امنگوں سے مزین سرسبز باغوں میں کھلکھلاتی
محبت شام ہوتی ہے مگر شام ڈھل بھی تو جاتی ہے
دل میں جذبوں سے منور خوشی سے بھر پور
محبت جان ہوتی ہے مگر جان نکل بھی تو جاتی ہے
مگر " راقب " محبت پھول نہیں محبت آگ نہیں یہ شام نہیں یہ جان نہیں
محبت کی کوئی مثال نہیں محبت تو بس محبت ہوتی ہے.
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آثیر کا کمرا خوب صورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا اور جا بجا سرخ گلاب نظر آ رہے تھے۔ دہلیز پر پاؤں دھرتے ہی سرخ گلابوں نے اسے خوش آمدید کہا تھا۔
آمنہ نے تکئیے پر بکھرے پھولوں میں سے ایک اٹھایا اسے سونگھا پھر مسل کر فضا میں اچھال دیا اسے بڑی شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ اس کمرے میں کوئی چیز بھی اس کی اپنی نہیں ہے سب پرایا ہے کسی اور کا ہے کیونکہ آثیر نے ہر قسم کے جہیز سے منع جو کر دیا تھا۔
یہاں پڑی ایک ایک چیز کا مالک کوئی اور تھا اور وہ خود بھی اب آثیر علوی کی ملکیت ہو گئی ہے پر نہیں وہ خود کو ہر گز اس کی جاگیر یا ملکیت نہیں بننے دے گی اب وہ پہلے والی نرم و نازک سلجھی ہوئی آمنہ نہیں ہے جسے آثیر علوی نے پہلی بار دیکھا تھا یہ تو بدنامی اور توہین کے احساس سے ڈسی ہوئی آمنہ ہے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے اس کے لبوں کا تلخ مسکراہٹ نے احاطہ کیاتھا۔
دن بھر بیٹھ بیٹھ کر اس کی گردن اور کمر جیسے اکڑ کر رہ گئی تھی نگین بھابی نے اس کے عام استعمال کے کپڑے ڈریسنگ روم میں لٹکا دئیے تھے آمنہ سادہ سے کپڑوں کی تلاش میں نظر دوڑا رہی تھی عین سامنے ہینگر پر پنک کلر کی انتہائی نفیس و ریشمی نائٹی لٹکی ہوئی تھی آمنہ کے چہرے کے تاثرات اس وقت بہت خوفناک ہو رہے تھے۔
" آثیر علوی! تمہارے تو میں سارے ارمان ایک ایک کر کے خاک میں ملاؤں گی۔"
آج کچھ گھنٹے قبل جب اس کی رخصتی ہوئی تھی تو سب گھر والے اس سے مل کے رؤئے تھے پر ابو اسے گلے لگاتے ہی دور ہٹ گئے تھے یوں لگ رہا تھا ان میں پہلے والی محبت و شفقت مفقود ہے فواد بھائی اور تایا ابو نے اسے تھام کر گاڑی میں بٹھایا تھا عباس صاحب پیٹھ موڑے اپنے آنسو خشک کر رہے تھے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
دروازہ کھلتے ہی قدموں کی چاپ ابھری پرفیوم اور کلون کی ملی جلی مہک بھی اب گلاب کے پھولوں کی خوشبو کے ساتھ شامل ہو گئی تھی آمنہ تکیے کے سہارے بیٹھی ہوئی تھی دوپٹہ اس کے چہرے سے ہٹا ہوا تھا آج کوئی آڑ اور پردہ اس کے اور آثیر کے درمیان نہیں تھا۔
وہ دھیرے سے اس کے قریب جا کر بیٹھا تھا آمنہ کی گردن اوپر اٹھی ہوئی تھی اور آنکھیں آثیر پر مرکوز تھیں یہ آنکھیں اور یہ دیکھنے کا انداز ہر گز ایک نئی نویلی شرمائی ہوئی دلہن کا نہیں تھا اس کے آنے پر بھی وہ اس طرح بیٹھی رہی۔
" السلام علیکم!" آثیر کی آواز میں وارفتکی اور بے پناہ خوشیوں کی چہکار تھی جواب میں آمنہ کے لب باہم پیوست ہی رہے۔
آثیر اس کے بہت قریب تھا آج نہ کوئی اسکارف آمنہ کے سر پر تھا اور نہ کسی دوپٹے نے اس کے وجود کو ڈھانپ رکھا تھا جو اس کے جوبن کی خوب صورتی چھپ جاتی۔ آج تو وہ اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں سجی سرخ نگ والی انگوٹھی کو بھی چھو سکتا تھا۔ آمنہ کے عروسی ہوشر با وجود کی ساری خوب صورتیاں ہی سامنے تھیں۔
" سلام کا جواب تو دے دیں۔" آثیر کی کھنکتی آواز شرارت سے ابھری تب آمنہ کے ساکت وجود میں ہلچل مچی۔
" میں تمہیں سلامتی دعا نہیں دے سکتی کیونکہ میں کبھی بھی نہیں چاہوں گی کہ تم جیسے لوگ سلامت رہیں تم جیسے ہوس کے اسیر کے لیے میرے دل سے بد دعا نکلتی ہے۔ اپنی گندی نگاہوں سے تم نے مجھے آلودہ کر دیا میں پورے خاندان میں بدنام ہو گئی ہوں عزت نفس اور انا ہی تو میرا اثاثہ تھی تم نے چھین لیا۔ تم کیا سمجھتے ہو مجھے حاصل کر لو گے تو ایسا کبھی نہیں ہو گا یہ تمہاری بھول ہے۔" آثیر تو جیسے شاک کی حالت میں تھا وہ کیا کچھ کہہ رہی تھی اس کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔
" آمنہ ایسا کچھ نہیں ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں نے آپ سے محبت کی ہے آپ کی روح سے محبت کی ہے۔"
بہت دیر بعد وہ بولنے کے قابل ہوا تھا۔
" محبت روح سے بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی جسمانی ہوس کو تم نے روح سے محبت کا نام دے دیا تمہیں اگر میری روح اتنی ہی محبت تھی تو شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی کیوں مجھ سے نکاح کیا تمہیں تو میری روح سے محبت تھی ناں کرتے رہتے روح سے محبت ۔ میرے ابو اسرار کی فیملی کو ہاں کرنے لگے تھے تم نے درمیان میں آ کر مجھے ان کی نگاہوں سے بھی گرا دیا. تم کلام پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہو کہ تمہیں میری روح سے محبت ہے؟ نہیں اپنی ہوس کو چھپا نے کے لیے تم نے خوب صورت جملہ گھڑا ہے اسے محبت کا نام نہ دو۔"
آمنہ کا لفظ لفظ زہر میں ڈوبا ہوا تھا یہ زہریلے الفاظ اس کے نرم و نازک احمریں لبوں سے ادا ہو رہے تھے انہی ہونٹوں سے جن کی نرماہٹ کو وہ کچھ دیر پہلے محسوس کرنا چا رہا تھا۔
" مجھے بتاؤ محبت اور ہوس میں کیا فرق ہے؟ پر تم جیسے لوگوں کو کیا پتا ہو گا اس فرق کا تم مرد ہو مجھ سے طاقتور ہو میں ایک کمزور سی لڑکی ہوں تم کھلونے کی طرح مجھ سے کھیلو گے میں کچھ نہیں کر پاؤں گی زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ مزاحمت کروں گی. تم میری مزاحمت کا گلا گھونٹ دو گے میں ذہنی طور پر اپنی شکست تسلیم کر چکی ہوں میں کوئی احتجاج نہیں کروں گی کیونکہ مجھے پتا ہے جیت تمہاری ہی ہو گی ہوس کی ہی ہو گی۔ یہ صبح تمہاری فتح کے ساتھ طلوع ہو گی۔" بولتے بولتے آمنہ کا سانس پھول چکا تھا یکدم ہی وہ خود کو انتہائی کمزور محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ اسی پوزیشن میں تھی آثیر جہاں بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا۔
" آمنہ آپ چینج کر کے ریسٹ کریں۔" وہ بے تاثر لہجے میں بولتا ٹیرس میں جا کھڑا ہوا۔
" آثیر علوی یہ بھی تمہاری بال ہے۔" وہ اب بھی زہر خند تھی۔
دونوں بازو سامنے دیوار پر لٹکائے وہ آگے کی طرف جھکا ہوا تھا نیچے لان اور گیٹ کے سامنے اسٹریٹ لائٹ جل رہی تھی سارا ہنگامہ اور شور دم توڑ چکا تھا۔ دائیں پاکٹ میں سے آثیر نے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ سلگائی۔ یاسر اور عاشر بھائی سمیت پاپا بھی اسموکنگ نہیں کرتے تھے اسے یہ لت کالج کے آخری سال میں لگی تھی اب کوشش کے باوجود بھی وہ اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا تھا۔ پریشانی اور اضطراب میں اس نے اکٹھے کئی سگریٹ پگونک ڈالے پر سکون تھا کہ پھر بھی مل رہا تھا. اپنی محبت اپنی چاہت اپنی آرزو کو کتنی دھوم دھام سے اسے اپنے گھر لایا تھا اس کے جملہ حقوق آثیر کے نام محفوظ ہو چکے تھے وہ اس کی بن گئی تھی ۔
" تو یہ تھا اس محبت کا انجام آثیر علوی !" کوئی اس کے اندر بولا تھا۔
+++++++++' ( میر__االزام بھی تم )'++++++++++++
Episode No 13
°------------------------------------------------------------------------°
************************
********************
**************
*********
*****
**
رات کے زخم ابھی ہرے تھے جب ہی صبح نگین بھابی نے دروازہ بجایا تو وہ بمشکل اپنی سرخ سرخ آنکھیں کھول پایا صبح صادق کے قریب وہ آ کر صوفے پر لیٹا تھا اب ساڑھے نو بج رہے تھے۔ آمنہ نے ہی اٹھ کے دروازہ کھولا وہ باتھ روم میں بند ہو گیا نہیں چاہتا تھا کہ نگین بھابی رات کی تحریر اس کی آنکھوں میں پڑھ لیں۔
" بھئی ناشتے پر آپ دونوں کا انتظار ہو رہا ہے تیار ہو کر فورا آؤ۔" نگین بھابی وہیں سے پلٹ گئیں آمنہ بیڈ کے کنارے ٹک گئی نیا گھر نئے مکین تھے اسے اجنبیت سی ہو رہی تھی۔ آثیر کب کمرے میں آیا کب سویا اسے کچھ خبر نہیں تھی اسے پتا تھا آثیر علوی اسے متاثر کرنے کے لیے خود سے پیش قدمی نہیں کر رہا ہے اور یہ تو طے تھا کہ وہ اس سے متاثر ہونے والی نہیں تھی۔
آثیر نہا کر باتھ روم سے نکلا بال بنائے عادت کے مطابق پرفیوم اور کلون لگایا وہ اب بالکل کل والا آثیر ہی نظر آ رہا تھا مضبوط اور گہرا۔
" آئیں آمنہ ! ناشتے کے لیے نیچے چلتے ہیں۔" عمارہ بھابی آمنہ کو ناشتے کے لیے لے جانے آئیں آمنہ کو قدرے سکون کا احساس ہوا۔
نیچے ڈائننگ ہال میں انہی کا انتظار ہو رہا تھا افروز نے کھڑے ہو کر آمنہ کا ماتھا چوما اور اسے اپنے پاس ہی کرسی پر بٹھا لیا۔ سب ہی آمنہ کا حال احوال دریافت کر رہے تھے ہر ایک انداز میں اپنائیت و گرمجوشی تھی۔ اتنی پزیرائی کا اس نے تصور نہیں کیا تھا افروز آنٹی اور عمر انکل اسے محبت کرنے والے سادہ دل والے لگے تھے۔ عاشر اور یاسر بھائی کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے آمنہ برسوں سے اسی گھر میں رہتی آ رہی ہے اپنے روئیے سے انہوں نے اجنبیت کی دیواریں گرا دی تھیں۔
" اب اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہو۔ عمارہ اور نگین کی طرح اب تم بھی ہماری بیٹی ہو۔"
عمر انکل بالکل ابو کی طرح بول رہے تھے اس کی اجنبیت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی اس میں سارا کمال عمر انکل اور افروز آنٹی کی محبت کا تھا۔
ناشتے کے کافی دیر بعد وہ دونوں اس کے پاس بیٹھے رہے شام میں ولیمہ تھا نگین بھابی نے کہا۔
" تھوڑی دیر آرام کر لو۔"
" نہیں میں ادھر ٹھیک ہوں۔" اس نے سہولت سے منع کر دیا اتنے میں رمنا اور فرحان بھائی چلے آئے۔
افروز آنٹی مہمان عورتوں کے پاس تھیں رمنا آمنہ کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ بغور اس کا چہرہ جانچ رہی تھی۔ آمنہ بہت سنجیدہ لگ رہی تھی رمنا کو ہمت ہی نہیں ہوئی کچھ پوچھنے کی آثیر البتہ ہشاش بشاش اور پر سکون نظر آ رہا تھا اسے قدرے ڈھارس ہوئی۔
ولیمے کی تقریب سے پہلے آمنہ کے گھر والے آ گئے وہ پارلر سے تیار ہو کر آچکی تھی سب سے یوں ملی جیسے صدیوں بعد ملی ہو۔ عباس صاحب نے لمبے چوڑے آثیر کو خود لپٹا لیا اب وہ ان کا داماد تھا وہ سب سے عزت و گرمجوشی سے ملا عباس نے آمنہ کا چہرہ دیکھا وہ قدرے اداس نظر آ رہی تھی شاید اپنے سب گھر والوں کو درمیان پا کر گزرا وقت یاد آ گیا تھا جو وہ یوں اداس سی تھی۔
ولیمے کے بعد جونہی مہمان رخصت ہوئے آثیر کچھ دوستوں کے ساتھ باہر نکل گیا آمنہ تھکی ہوئی تھی رات بھی کافی ہو چکی تھی اسے آثیر کی طرف سے خوف بھی تھا ذہنی طور پر وہ ہار مان چکی تھی پر ہتھیار پھینکنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ جلد ہی لوٹ آیا تب تک وہ بھاری بھر کم کپڑوں سے جان چھڑا چکی تھی۔
آثیر صوفے پر بیٹھا شوز اتار رہا تھا پھر کوٹ اتار کے صوفے پر بے پروائی سے ڈالا اس کے بعد ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی بے شک آمنہ آنے والے لمحات سے شکست مان چکی تھی پر اب اسے خوف محسوس ہو رہا تھا آثیر کے چہرے پر غصہ تھا اور آنکھوں میں سرخی تھی وہ اسی حال میں اٹھ کر باتھ روم میں بند ہو گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اسی طرف آ رہا تھا اس کا دل بہت ہی تیزی سے دھڑکنے لگا کہیں جائے فرار نہیں تھی۔
" میں ساتھ والے روم میں سونے جا رہا ہوں مین ڈور میں لاک کر دیا ہے صبح آپ جب اٹھیں تو میرا دروازہ ناک کر دیجیے گا میرا خیال ہے آپ بہت سمجھ دار ہیں میں جو کہہ رہا ہوں آپ اچھی طرح جان گئی ہوں گی۔" خوف کا طلسم چھنا کے سے ٹوٹا تھا وہ جا چکا تھا آمنہ کے سینے سے اطمینان بھری سانس خارج ہوئی ۔
" ہونہہ! ہیرو بننے کی ناکام کوشش۔" ایک بار پھر اسے سوچتے ہوئے وہ زہر آلودہ ہو رہی تھی اٹھ کر اپنا دروازہ اس نے اندر سے لاک کیا۔
یہ گھر ڈبل اسٹوری تھا آثیر اوپر والے پورشن میں تھا شروع سے ہی وہ ادھر سوتا تھا اب تو اوپر رہنے کی عادت پڑ گئی تھی اوپر تین بیڈ رومز کے ساتھ ایک ماسٹر بیڈ روم بھی تھا اور گیسٹ روم اس کے علاوہ تھا ماسٹر بیڈ روم میں سویا تھا ادھر ڈسٹرب کرنے والا کوئی نہیں تھا اس پورشن کا داخلی دروازہ سڑھیوں کے اختتام پر تھا وہ اس نے سونے سے پہلے لاک کر دیا تھا نہیں چاہتا تھا کہ اتنی جلدی یہ تماشہ سب پر عیاں ہو جائے اپنی عزت نفس اور انا اسے بھی تو عزیز تھی۔
آمنہ نے اسے ہوس کا اسیر اور غلام کہا تھا اس کے سارے نرم و کومل جذبے اپنی موت آپ مر گئے تھے اب تو دور دور تک ویرانی تھی اور ابھی جب وہ اس کے قریب رکا تھا تو اس کے تاثرات میں کتنی بے یقینی تھی وہ اپنی ہی نگاہوں میں گرسا گیا تھا۔ آمنہ اسے اتنا ناقابل اعتبار تصور کر رہی تھی کسی ڈاکو اور لٹیرے کی طرح وہ اس پر شب خون مارے گا۔