باپ کی وفات کے بعد اب اسرار کی والدہ ہی کرتا دھرتا تھیں عباس صاحب نے ان کا نمبر ملایا انہوں نے خوشگوار انداز میں خیر خیریت پوچھی۔ اسرار کی والدہ کا رویہ روکھا تھا۔
" مجھے پتا ہے آپ نے کس لیے فون کیا ہے ہمیں آپ کا فیصلہ منظور ہے اگر آپ عمر صاحب کو ہاں کرنی تھی تو ہمیں اتنے چکر کیوں لگوائے؟ آپ کی بیٹی آثیر کو پسند کرتی ہے آپ ہمیں بتا دیتے میں امید تو نہ رکھتی۔ خیر ہاں یا ناں کرنا آپ کا حق تھا میں خود آپ کو فون کرنے والی تھی عباس بھائی! میں نے آپ کی بہن ندا کے گھر سے بیٹے کا رشتہ مانگا ہے ندا بہن کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہفتہ دس دن تک بیٹے کی دھوم دھام سے مگنی بھی کروں گی آپ سب آئیے گا۔"
اسرار کی والدہ نے انہیں کچھ کہنے کا موقعہ ہی نہیں دیا تھا۔
فون بند ہو چکا تھا وہ تھکے تھکے انداز میں وہیں صوفے پر ڈھے گئے ان کا سارا مان و فخر غرور آمنہ نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ آثیر کو پسند کرتی ہے اس بات نے انہیں بہت دکھی کیا تھا اپنی بہن ندا کے منہ سے یہ سن کر کہ لڑکا ان کی بیٹی کو پسند کرتا ہے انہیں بہت غصہ آیا تھا۔ آج اسرار کی والدہ نے کہا تھا کہ آپ کی بیٹی آثیر کو پسند کرتی ہے آمنہ نے انہیں آسمان سے زمین پر لا پٹخا تھا۔ اب عزت اسی میں تھی کہ وہ عمر علوی کو ہاں کر دیتے۔
انہیں دکھ اسی بات کا تھا کہ اگر آمنہ آثیر میں انڑسٹڈ تھی تو اپنی ماں یا بھابی سے ذکر کر دیتی وہ اسرار کے گھر والوں کو ادھر ہی جواب دے دیتے۔ دن بھر وہ اپنے کمرے میں بند رہے دوبار ثمامہ آئی ایک بار نور افشاں دیکھ کر گئی شام ہو چکی تھی انہوں نے ثمامہ سے کہا کہ آمنہ کو میرے پاس بھیجو۔
وہ اسی وقت چلی آئی وہ خود پریشان تھی کہ ابو صبح سے کمرے میں بند ہیں انہوں نے خود بلایا تو اس نے شکر کیا کہ اسی بہانے وہ ان سے پوچھ سکتی ہے کہ آپ کمرے سے کیوں نہیں نکلے صبح سے شام ہو گئی ہے۔
" بیٹھو آمنہ!" انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا ان کا چہرہ اضطراب اور پریشانی کی آما جگاہ بنا ہوا تھا۔
" جی ابو! خیریت ہے آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟" وہ پریشان نظر آ رہی تھی۔
" ہو نہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" انہوں نے ہنکارا بھرا۔
" بیٹا اس گھر میں تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہے تو بتاؤ میں نے تم پر بے جا سختی کی ہو یا زیادتی کی ہو یا تم پر کوئی اپنا نا پسندیدہ فیصلہ مسلط کیا ہو تو بتاؤ." وہ بغور اس کا چہرہ جانچ رہے تھے۔
" نہیں ابو آپ کیسی بات کر رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔" وہ تڑپ ہی تو گئی تھی۔
" بیٹا اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر تم نے مجھ سے نہ سہی اپنی ماں سے ذکر کر دیا ہوتا ثمامہ کو بتایا ہوتا کہ تم آثیر کے رشتے میں انڑسٹڈ ہو۔ میں اتنا ظالم نہیں ہوں کہ اپنی اولاد کی مرضی کو مقدم نہ جانوں خیر میں نے عمر صاحب کو ہاں کر دی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ تھوڑی دیر تک آ جائیں جا کے مہمانوں کی خاطر مدارت کی تیاری کرو۔" اس کے حواسوں پر بم گرا کے وہ کمرے سے جا چکے تھے۔ شرم حیا اور غصے سے اس کی حالت نا گفتہ بہ تھی۔ فطری شرم و حیا کی وجہ سے وہ باپ سے یہ نہیں کہہ پائی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ اپنی صفائی میں وہ ایک لفظ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب اس سے رائے لی جائے گی تو وہ حافظ اسرار کے حق میں فیصلہ دے گی پر یہاں تو ابو اسے بتائے بغیر فیصلہ کر چکے تھے۔ شام کو آثیر کے گھر والے آ رہے تھے آمنہ کے دل میں جو قیامت برپا تھی اسے ہی پتا تھا۔
افروز بہت خوش تھی کہ آثیر کے پرپوزل پر ہاں کر دی گئی ہیں نگین نے مناسب نہیں سمجھا کہ اور انہیں اپنے پاس روکے رکھے۔ عاشر نے سیٹ بک کرا دی تھی۔ ائرپورٹ پر آثیر انہیں خود لینے آیا تھا خوشی اس کے انگ انگ سے چھلک رہی تھی کھلنڈرے اور شوخ آثیر کا یہ روپ بالکل نیا تھا۔ محبت نے اسے کتنا بدل دیا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ خوشی اور سر مستی میں کیا کر ڈالے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ندا پھوپو کی بیٹی سدرہ کی مگنی حافظ اسرار سے ہو رہی تھی یہی سدرہ اسرار کا مزاق اڑاتی تھی اس کا نام مولوی رکھ چھوڑا تھا اب شاہانہ جوڑے میں ملبوس گردن اکڑائے سب سے مبارکباد وصول کر رہی تھی۔ آمنہ کو دیکھ کر عورتوں نے دبی دبی آواز میں باتیں اور اشارے کرنے شروع کر دئیے۔
نہ وہ بہری تھی نہ انجان ضبط کے باوجود بھی اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ ایک شخص کی وجہ سے وہ اتنی ناقابل اعتبار ہو گئی تھی۔ اسرار کی والدہ بہت خوش نظر آ رہی تھیں انہوں نے ہنستے ہنستے نور افشاں کو مبارک باد دی ساتھ ہی طنزیہ کا تیر بھی چلا دیا۔
" آپ نے بھی بہت اچھا کیا جو ان اولاد کی مرضی کے خلاف فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ۔" آمنہ پاس ہی تھی اسے مزید یہاں بیٹھنا دو بھر ہو گیا تھا۔ اس نے شکر کیا جب امی واپسی کے لیے اٹھیں۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
افروز بھی دھوم دھام سے مگنی کرنا چاہ رہی تھیں مگر عباس صاحب کا ارادہ براہ راست شادی کا تھا افروز نے اپنے گھر فنکشن کیا تھا جس میں آمنہ کے گھر والوں کے علاوہ بہت سے رشتہ دار اور دوست احباب مدعو تھے انہوں نے اپنی خوشی اس طرح پوری کر لی تھی۔ عباس نے عمر علوی سے کہا کہ آپ اب شادی کی تیاری کریں آثیر ستائیس سال کا میچور نوجوان تھا اپنا بزنس کر رہا ہے شادی کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ عمر علوی بھی اسی حق میں تھے کہ شادی میں تا خیر مناسب نہیں۔
°______________________________________________°
فرحان کے ولیمے کے بعد آثیر نے آمنہ کو نہیں دیکھا دوبارہ ان کے گھر بھی گیا ہر کوشش اور خواہش کے باوجود اس کی ایک جھلک تک نہیں دیکھ پایا۔ عباس صاحب اتنے ماڈرن نہیں تھے کہ اسے گھر بلا کر آمنہ سے ملاتے۔
رمنا کی زبانی اس کی برتھ ڈے کا پتا چلا تو اس نے خوب صورت سا کارڈ خریدا سرخ گلاب کے پھولوں کا بکے لیا اور رمنا کی خدمات حاصل کی وہ اور فرحان شام کو آمنہ کے گھر گئے۔
نور افشاں اور ثمامہ نے خاطر مدارت کی آمنہ نظر نہیں آ رہی تھی ثمامہ نے بتایا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اپنے کمرے میں ہے۔ رمنا اندر داخل ہوئی آمنہ لیٹی ہوئی تھی۔
اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔
" ہیپی برتھ ڈے جناب!" اس نے لگے ہاتھوں وش کیا۔
" تمہیں پتا ہے میں سالگرہ نہیں مناتی۔" وہ نروٹھے پن سے بولی۔
" جی مجھے پتا ہے پر بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں۔ لو یہ کارڈ اور پھول۔" اس نے شوخی سے دونوں چیزیں اسے دیں. سرخ دہکتے گلابوں کا بکے بہت خوب صورت تھا کارڈ کا ڈیزائن بہت دلکش تھا۔ آمنہ نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا جواب میں رمنا نے شوخی سے شانے اچکا دئیے۔
آمنہ نے کارڈ لفافے سے نکالا اس پر آثیر کا نام دکھ کر پھولوں کا بکے اس نے زمین پر دے مارا۔
اتنی جرات اس گٹھیا شخص کی سارے خاندان میں مجھے بدنام کر کے رکھ دیا ہے اور تم یہ اس کے دئیے لوازمات مجھے دینے چلی آئیں مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔
" آمنہ کا ری ایکشن بہت سخت تھا رمنا دیکھتی رہ گئی۔ اس صورت حال کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
" آخر ہوا کیا ہے؟" وہ سنبھل کر بولی۔
" تم کو کیا پتا کیا ہوا ہے اس شخص نے مجھے اپنی ہی نگاہوں سے گرا دیا ہے اس کی وجہ سے خاندان میں جھوٹی سچی باتیں بنیں۔ کیا سمجھتا ہے خود کو آخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوفر کہیں کا۔" آمنہ کا لفظ لفظ نفرت میں ڈوبا ہوا تھا رمنا اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔
بات ایسی تھی کہ فرحان سے بھی کھل کے نہیں کہہ سکتی تھی آخر کو آمنہ اس کی کزن تھی۔ آثیر کے ساتھ اس کا رشتہ طے ہو چکا تھا فرحان کو وہ آمنہ کے اس انتہائی سخت ری ایکٹ کا بتاتی تو جانے وہ کیا سوچتا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سدرہ اپنی مگنی کے بعد بہت خوش تھی سدرہ اور اسرار کی شادی میں ابھی ٹائم تھا مگر آثیر نے پہلے میدان مار لیا تھا اسے ویسے بھی بہت جلدی تھی۔ آمنہ کے گھر تیاری ہو رہی تھی آثیر نے سختی سے کسی بھی قسم کے جہیز سے منع کر دیا تھا۔ اس نے کہا تھا ہمارے گھر دنیا کی ہر سہولت موجود ہے مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے اس معاملے میں مما پاپا مکمل طور پر اس کے ہمنوا تھے۔ انہوں نے عباس صاحب سے کہا کہ آپ ہمیں آمنہ جیسی پیاری بیٹی دے رہے ہیں ہمیں اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے. یہاں عباس اور نور افشاں مجبور ہو گئے تھے نور افشاں ماں تھیں ان کا ارمان تھا کہ بیٹی کو ہر چیز اعلی سے اعلی دیں پر آثیر کی ضد نے انہیں وہیں روک دیا وہ صرف آمنہ کے لیے کپڑوں کے کچھ سوٹ لے چکی تھیں افروز بیگم نے باقی کسی بھی چیز سے منع کر دیا تھا۔
عباس صاحب نے کچھ رقم آمنہ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی تھی۔
°______________________________________________°
آثیر اپنے کمرے کی ڈیکوریشن ازسر نو کروا رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ آمنہ کو اس کے پاس آکر کسی کمی کا احساس ہو۔ انٹرئیر ڈیزائز نے کمرے کے حساب اور کلر اسکیم کے مطابق سیٹنگ کی تھی اب کمرا آثیر کی خواہش کے مطابق تھا۔ بس کمی تھی تو اس دلربا کے وجود کی بس بہت جلد وہ اسے بتائے گا کہ وہ کس طرح پہلی نگاہ میں اس کے دل کے تار ہلا گئی تھی وہ اس کے لیے کتنی خاص ہے۔ ان غصیلی نگاہوں میں جب وہ اپنے نام کے رنگ اترے دیکھے گا تو ان سب رنگوں کو اپنے دل کے نہاں خانے میں قید کر لے گا۔ وہ اسے اپنی تڑپ بے چینی بے قراریوں کا حال سنائے گا اسے اپنی شکست کا بتائے گا اس کی اتنی محبت پاکر وہ کتنی خوش ہو گی۔ اپنا ہر جذبہ اپنی تمام تر محبت وہ اس کی جھولی میں ڈال دے گا۔ وہ محبتوں کے رنگوں سے اسے سرتا پارنگ دے گا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آثیر کی طرف سے مہندی کے کر سب آچکے تھے سماویہ نے جو اس گانے کی ٹانگ توڑی تھی سب انجوائے کر رہے تھے تھوڑی ہی دیر میں آثیر کی طرف سے آئی لڑکیاں بھی یہی گا رہی تھیں۔
آثیر بدنام ہوا آمو تیرے لیے
یاد کر کے زکام ہوا آمو تیرے لیے
کام یہ بھی کمال ہوا آمو تیرے لیے
آمنہ کے نام کو سماویہ نے آمو بنا دیا تھا. سماویہ نے کوئی چھٹی بار اس گانے کو اسٹارٹ کیا ہی تھا کہ کسی نے کہا۔
" آمو کو اور کتنا بدنام کرنا ہے یار۔" بات مذاق میں کہی گئی تھی سامنے عورتوں کے جھرمٹ میں آمنہ بیٹھی تھی. اس کے چہرے پر گھونگھٹ تھا ورنہ اس کی آنکھ سے گرتے آنسو صاف نظر آتے وہ سب کچھ سن رہی تھی سماویہ شاید اس صبر آزما رہی تھی ایک بار پھر تان اڑائی۔
آمو بدنام ہوئی آثیر تیرے لیے
زور کا قہقہہ پڑا۔ " لو جی آمو پھر ایک بار بد نام ہو گئی ہے۔" کوئی شرارتی لڑکی بولی تھی تب آمنہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا وہ صبر نہیں کر پائے گی یہاں سب کے سامنے نام لے لے کر اس کا مزاق اڑایا جا رہا تھا۔ وہ آثیر کو معاف کرنے والی نہیں تھی کسی صورت بھی نہیں۔ آج اس شخص کی وجہ سے سر محفل اس کا مزاق اڑایا گیا۔ وہ کس کس کے آگے اپنی صفائی پیش کرے پہلے ہی ابو کے سامنے اس کا سر جھک گیا تھا اسے یوں لگا جیسے ہر شخص اسے مشکوک مزاق اڑاتی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔
شادی سے دو دن پہلے اسے تیز بخار ہو گیا رمنا ادھر ہی تھی ڈاکڑ سے فواد بھائی دوائی کے آئے تھے پر اس کا بخار کم نہ ہوا۔ رات بھر وہ ہزیان بکتی رہی رمنا اس کے پاس اس کے کمرے میں ہی لیٹی تھی. آمنہ کا بخار بہت تیز تھا جسم آگ کی طرح تپ رہا تھا اور وہ بڑ بڑائے جا رہی تھی۔
" تم نے مجھے بدنام کر کے رکھ دیا ہے آثیر علوی! میں تمہیں بدنام کر دوں گی میں تمہیں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گی۔" پتا نہیں وہ کیا کیا بول رہی تھی رمنا پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
اس کے دل پر آمنہ کی حالت دیکھ کر بے پناہ بوجھ تھا دوسرے دن وہ کپڑے لینے کے لیے گھر آئی تو اس سے رہا نہیں گیا رات آمنہ کے منہ سے اس نے جو سنا فرحان کو بتا دیا۔
" مجھے نہیں لگتا کہ آثیر بھائی اور آمنہ کی بن پائے گی وہ سمجھتی ہے کہ خاندان بھر میں جو باتیں ہو رہی ہیں وہ آثیر کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ وہ آثیر بھائی کو بالکل پسند نہیں کرتی نہ کوئی ایسا چکر تھا پر سب یہی سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کا چکر تھا اور اب شادی ہو رہی ہے۔"
" مجھے پتا ہے کہ آمنہ کس نیچر کی ہے آثیر کی غلطی بھی مانتا ہوں پر یہ معاملات دل کے ہیں ان پہ کسی کا زور نہیں چلتا اور تم فکر نہ کرو آمنہ کی نا پسندیدگی شادی سے پہلے تک ہی ہے اگلے دن دیکھنا سب سیٹ ہو چکا ہو گا۔ عورت مرد کی محبت کے آگے موم ہو جاتی ہے۔" فرحان کی اپنی لاجک تھی رمنا اختلاف نہیں کر سکتی تھی۔