رمنا سے بمشکل تمام اجازت لے کر وہ بھائی کے ساتھ واپس آئی۔ امی ابو دونوں اسی کے انتظار میں تھے امی گزشتہ ماہ سڑھیوں سے گر کر ٹانگ کی ہڈی تڑوا بیٹھی تھیں۔ کچھ دن اسپتال میں ایڈمٹ رہنے کے بعد وہ گھر آئی تھیں ٹانگ پر چڑھے پلاستر کی وجہ سے چلنا پھرنا محال تھا۔ کوئی نہ کوئی عیادت لیے بھی چلا آتا اسی دوران رمنا کی شادی طے پائی رمنا اس کے بہت قریب تھی اپنی ہر بات شئیر کرتی۔ رمنا اور آمنہ کے ابو آپس میں بھائی تھے۔ رمنا آمنہ کو بہت پسند کرتی تھی اور دل سے اس کی معترف تھی سماویہ' ہادیہ کی نسبت اس نے آمنہ کا کبھی مذاق نہیں اڑایا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ اس کے چچا کی یہ بیٹی کس نیچر کی ہے۔ ان دونوں کی بنتی بھی خوب تھی۔
ابو تو رمنا کی رخصتی کے بعد تایا کے پاس ہی رک گئے تھے اور کافی دیر بعد گھر واپس آئے تھے۔ آمنہ ان کے آنے کے گھنٹہ بعد واپس آئی اس نے سب سے پہلے امی سے ان کی طبیعت کا پوچھا۔ ابو سے گپ شپ کی پھر عشاء کی نماز پڑھنے کے ارادے سے کمرے میں آئی۔ پاؤں جوتوں کی قید سے آزاد کیے سر سے اسکارف اتارا تو ریشمی بالوں نے اس کی کمر کو ڈھانپ لیا تھا۔ نماز سے فارغ ہوئی تو اسی فرصت میں اسے فرحان بھائی کے ساتھ بیٹھا نوجوان یاد آیا۔ کس طرح اسے گھور رہا تھا جیسے کچھ تلاش کرنا چاہ رہا ہو کسی کھوج میں ہو عجیب بے باک سی نگاہ اس کی اخلاق کی ہر حد سے آزاد ۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
سجی سنوری رمنا کل کے مقابلے میں آج بے پناہ حسیں لگ رہی تھی اس حسن میں یقینا فرحان کی محبتوں کا اعجاز بھی شامل تھا۔ آمنہ نے بے اختیار اس کا ماتھا چوما تو رمنا نے ہاتھ پکڑ کر پاس ہی بٹھا لیا۔ سماویہ اور ہادیہ پہلے سے پہنچی ہوئی تھیں سماویہ کی نگاہ آثیر علوی کو ڈھونڈ رہی تھی وہ کھانے کے دوران نظر آئی ہی گیا۔ ایک اچھے میزبان کی طرح وہ سب پر توجہ دے رہا تھا۔ آمنہ ٬ چچی ندرت اور خاندان دیگر عورتوں کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھی تھی اس کی دائیں طرف سماویہ اور ہادیہ تھیں۔
آثیر علوی ان کی ٹیبل پر بھی آیا آخر کو وہ اب فرحان کے سسرالی تھے۔ اس نے آثیر پر ذمہ داری ڈالی تھی کہ ان کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے وہ آمنہ کی ٹیبل کے پاس رکا تو سماویہ نے معنی خیز نگاہوں سے ہادیہ اور ماں کی طرف دیکھا۔ وہ ان سب سے خیر خیریت دریافت کر رہا تھا۔
" آپ نے کچھ لیا ہی نہیں میں گرم کھانا منگواتا ہوں۔" اس کی مخاطب آمنہ تھی جس نے پلیٹ میں صرف تھوڑی سی بریانی اور سلاد ڈالا تھا۔ آثیر نے پاس سے گزرتے بیرے کو مزید کھانا لانے کے لیے کہا۔ آمنہ سے کھانا کھانا دو بھر ہو گیا۔ سماویہ کی معنی خیز کھنکار اس کی سماعتوں تک پہنچ گئی تھی آثیر کی بیک پر سماویہ بیٹھی تھی۔
" ہمیں کولڈ ڈرنک منگوا دیں۔" سماویہ نے خود دخل اندازی کی تو آثیر فورا الرٹ ہو گیا۔ " ہم بھی آپ کی رمنا بھابی کے رشتہ دار ہیں۔" اس نے جتایا تو جوابا وہ ہنس پڑا۔
" مجھے پتا ہے۔"
" لگتا تو نہیں ہے کچھ خاص لوگ ہی آپ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔"
" ارے نہیں آپ بھی ہمارے لیے اہم ہیں۔" وہ خالی پڑی کرسی پر ان کے پاس ہی بیٹھ گیا تو سماویہ کو بڑی خوشی ہوئی۔
فواد بھائی نے کہا تھا کہ واپسی میں چچی اور سماویہ لوگوں کے ساتھ آ جانا کیونکہ گاڑی خراب ہو گئی تھی اب وہ صبر سے ان کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ کھانا کھا کے سب لوگ کب کے فارغ ہو چکے تھے سماویہ کی باتیں ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھیں۔ آمنہ ان کی ٹیبل پر آ گئی۔
" چچی گھر چلیں ناں کافی ٹائم ہو گیا ہے۔" آثیر تب فورا اس کی طرف گھوما اب وہ پوری جی جان سے اس کی طرف متوجہ تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے ان دونوں کے سوا اور وہاں کوئی نہیں ہے خود پر گڑی نگاہیں آمنہ کو احساس توہین میں مبتلا کر رہی تھیں۔
آثیر نے بغور اس کا جائزہ لیا تھا آمنہ پنک کلر کے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ سر پر کپڑوں کی ہمرنگ اسکارف تھا اور اس کے سر کے بالوں کی کوئی جھلک تک نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ پاؤں نازک سی جوتیوں میں مقید تھے۔
" میں آپ لوگوں کو ڈراپ کر دوں؟" آثیر نے فورا آفر کی۔
" ارے نہیں ہم اپنی گاڑی میں جائیں گے۔" چچی قدرت نے فورا جتایا۔ آمنہ خاموش ان کو دیکھ رہی تھی۔
" یہ ہماری کزن ہیں آمنہ!" سماویہ نے آثیر کی توجہ آمنہ کی طرف محسوس کی تو جھٹ اس کا ادھورا سا تعارف کروایا۔
" کیا کرتی ہے آپ آمنہ !" آثیر کے دل کی کلی ہی کھل اٹھی ۔ سماویہ اور ہادیہ سمیت اب قدرت بھی ان دونوں کی طرف متوجہ تھی اور دل میں کچھ سوچ رہی تھی۔
" میں گھر پر ہی ہوتی ہوں۔" وہ مختصر جواب دے کر بہانے سے وہاں سے ہٹ گئی۔ سماویہ نے جانے کیوں اس کا تعارف کروایا تھا۔ اس کا انداز اور نگاہیں طنزیہ تھیں وہ بچی تو تھی نہیں کہ محسوس نہ کرتی۔ آمنہ اندر آ کر رمنا سے ملی تب تک قدرت کا بھی جانے کا موڈ بن چکا تھا آثیر فرحان اور اس کی دیگر فیملی گیٹ تک ان کے ساتھ آئی۔
آخری وقت آثیر نے پھر آمنہ کو بھرپور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خدا حافظ کہا۔
مہمان سب کے سب جا چکے تھے شادی کا ہنگامہ بھی سرد پڑ چکا تھا۔ ایسے میں فرحان نے آثیر کو پکڑا شادی میں بہت سے لوگوں نے آثیر کو آمنہ کی طرف بار ہا گھورتے دیکھا تھا جس میں اویس و حسان کے ساتھ فرحان بھی شامل تھا۔
" مجھے بتاؤ یہ سب کیا سلسلہ ہے؟" فرحان بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔
" کون سا سلسلہ یار۔۔۔۔۔۔۔۔؟" وہ سر کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے غائب دماغی سے بولا۔
" بچے مت بنو آثیر! تمہیں پتا ہے سب۔"
" کیا کہہ رہے ہو آخر مجھے بھی تو پتا چلے؟"
" رمنا کی کزن آمنہ کو تم کیوں ندیدوں کی طرح گھورتے رہے۔ کیا پہلے کبھی کوئی لڑکی نہیں دیکھی۔"
" میں نے ندیدوں کی طرح کب دیکھا اور تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ کتنی لڑکیوں کو دیکھ چکا ہوں۔"
" آثیر ! مجھے چکر دینے کی کوشش مت کرو لڑکیاں تمہارے لیے شجر ممنوعہ نہیں رہی ہیں پھر تمہاری یہ حرکت کیا معنی رکھتی ہے۔ آمنہ نے رمنا سے تمہاری شکایت کی ہے اور یقین کرو رمنا کے سامنے میں بہت شرمندہ ہوا ہوں۔
بڑی مشکل سے اسے قائل کیا کہ آمنہ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی آثیر ایسا نہیں ہے۔"
" رمنا بھابی نے کیا کہا تم سے ؟" وہ چونکا۔
" آثیر! آمنہ رمنا کی کزن ہے اور بہت ہی اچھی لڑکی ہے میں اس کی عزت کرتا ہوں وہ ایسی ویسی نہیں ہے۔"
" ہاں مجھے پتا ہے وہ ایسی ویسی نہیں ہے۔"
" پھر تم نے ایسی حرکت کیوں کی کہ تمہاری شکایت آگئی؟"
" ہاں جائز ہے شکایت۔" آثیر کا لہجہ عجیب سا تھا۔
" رمنا نے مجھے بتایا ہے کہ اس کی کزنز نے تمہارے حوالے سے آمنہ پر الٹے سیدھے طنز کیے ہیں اسی وجہ سے اس نے رمنا سے تمہاری شکایت کی۔" فرحان غصے میں آ گیا۔" وہ کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں ہے محترم آثیر علوی صاحب !" وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔ جواب میں آثیر خاموش رہا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
مما پاپا کے ساتھ بڑی بھابی نگین کے پاس سعودیہ گئی ہوئی تھیں۔ انہیں گئے ہوئے ایک ماہ سے زائد ہو گیا تھا نگین بھابی کے ہاں پورے چھ سال کے بعد ایسا موقعہ آیا تھا کہ وہ پھر سے ماں کے رتبے پر فائز ہونے جا رہی تھی۔ اس بار وہ بے حد ڈری ہوئی تھیں پہلا بیٹا بھی میجر آپریشن سے ہوا تھا اور وہ مرتے مرتے بچی تھیں اس بار تو جو ان کو الٹے سیدھے خواب آ رہے تھے اس کی وجہ سے وہ وہمی ہو رہی تھیں۔
فون پر بات کرتے کرتے رو پڑتیں نگین کی وجہ سے افروز بھی پریشان تھیں۔ ان کا دل کر رہا تھا کہ فورا سے بھی پیشتر بہو بیٹے کی پاس پہنچ جائیں۔ اس معاملے میں عمر علوی بھی بیوی کے ہمنواہ تھے وہ ریٹائرڈ لائف گزار رہے تھے انہیں گھومنے پھر نے کا بہانہ چاہیے تھا سوافروز کی ساتھ سعودیہ عاشر اور نگین کے پاس جا پہنچے۔ ان کی موجودگی سے نگین اب پر سکون تھی اس نے پھر سے ایک خوب صورت اور صحت مند بیٹے کو جنم دیا تھا۔ افروز کا ارادہ تھا کہ بہو اور پوتوں کے ساتھ ہی واپس پاکستان جائیں گی جہاں آثیر بے چینی سے ان کا منتظر تھا۔ جب بھی فون پر بات ہوتی وہ یہی پوچھتامما آپ کب آئیں گی افروز کو وہ کچھ پریشان سا لگا تھا اتنی دور بیٹھ کے وہ تفصیل بھی نہیں پوچھ سکتی تھی۔
ان کی تین اولادیں تھیں اور تینوں ہی بیٹے تھے۔ آثیر سب سے چھوٹا اور منہ پھٹ تھا۔ عاشر اور یاسر دونوں کی شادی ہو چکی تھی اب آثیر ہی باقی بچا تھا باقی دونوں صاحب اولاد تھے اور اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔ شادی کے بعد عاشر کو سعودیہ میں جاب ملی تو نگین کے ساتھ یہاں چلا آیا۔ نگین گھر سنبھالتی تھی اور ایک شرارتی سا بیٹا۔ اپنی مسیحائی آزمانے کا اسے موقعہ ہی نہیں ملتا تھا وہ گھر میں ہی خوش تھی۔ شادی کے بعد تھوڑا عرصہ ہی اس نے پریکٹس کی تھی پھر گھریلو زندگی میں ایسی گم ہوئی کہ کچھ فرصت ہی نہیں ملی۔ عاشر کو سالانہ چھٹیاں ملتیں تو نگین کے ساتھ پاکستان کا چکر لگا لیتا۔ یاسر اس سے بڑا تھا اور آرمی میں کرنل تھا اس کے بھی تین بچے تھے۔ پچھلے تین سال سے وہ افروز اور عمر علوی کے ساتھ مقیم تھا ورنہ تو وہ دونوں بیٹوں کی آئے روز کی پوسٹنگ سے تنگ آ گئے تھے اب کچھ سکون تھا۔
آثیر کے لہجے میں انتشار محسوس کر کے افروز پریشان تھی اور جلد از جلد پاکستان واپس جانا چاہتی تھی مگر جب تک نگین سفر کرنے کے قابل نہ ہوتی ان کا آنا محال تھا۔