ہندوستان جیسے بڑے ملک کا بڑا حصہ جنگلات سے بھرا ہے اور ذرائع نقل و حمل کم ہیں اور آبادی کا بہت بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اور یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ لوگ جرائم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور حکومت کو ان کی سرکوبی میں مشکل پیش آتی ہے۔
عام جرائم پیشہ افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں مگر ہندوستان میں باقاعدہ قبائل بھی ہیں جو مختلف جرائم میں مہارت رکھتے ہیں۔ حکومت ان قبائل کو عام آبادیوں سے الگ رکھتی ہے اور ان کے جرائم کی نوعیت کے مطابق سختی بھی روا رکھتی ہے۔ پچھلی جنگ کے اختتام کے دوران میں فلاحی کاموں میں مصروف تھا تو ایسی کئی آبادیوں میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ ان لوگوں کو نظربند نہیں رکھا جاتا اور ان لوگوں اور ان کی نگرانی کرنے والے حکومت نمائندے کے ساتھ میری اچھی بحثیں ہوتی رہیں۔ ان لوگوں کی جرائم پیشہ عادات چھڑانے کے لیے حکومت نے دریائے جمنا کے بائیں کنارے پر ضلع میروت میں زرخیز زمین مفت دی ہوئی ہے۔ اس زمین پر گنے، گندم، جو اور دیگر غلہ جات کی بہترین فصلیں اگتی تھیں مگر جرائم بھی موجود تھے۔ حکومتی نمائندے نے اس کی ذمہ داری مقامی لڑکیوں پر عائد کی کہ وہ محض ماہر مجرموں سے ہی شادی کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔ یہ قبیلہ ڈاکہ زنی کا ماہر تھا اور اس میں بڑے بوڑھے نئے جوانوں کی تربیت کرتے تھے اور ان کی کمائی سے حصہ وصول کرتے تھے۔
اس آبادی سے مردوں کو مخصوص مدت کے پروانے دے کر باہر جانے کی اجازت دی جاتی تھی مگر عورتیں نہیں جا سکتی تھیں۔ اس قبیلے کے بزرگ تین اصولوں پر سختی سے عمل کرتے تھے، پہلا، تمام لوٹ مار اکیلا بندہ کرے گا، دوسرا یہ کہ جائے واردات ان کی رہائش گاہ سے جتنی دور ہو، اتنا بہتر سمجھا جاتا تھا اور تیسرا یہ کہ کسی بھی حالت میں تشدد نہیں کیا جائے گا۔ ان کے جرائم کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ نوجوان تربیت مکمل کر کے کلکتہ، بمبئی یا کسی دوسرے بڑے اور دور دراز کے شہر میں کسی امیر بندے کے ہاں ملازمت کر لیتے تھے اور جب بھی موقع ملتا، ان کا قیمتی سامان مثلاً سونا، زیورات یا قیمتی جواہرات چرا کر بھاگ جاتے۔ ایک بار میں اس قبیلے کے کئی نوجوانوں کے ساتھ کالے تیتر کا شکار کھیل رہا تھا۔ دن کے اختتام پر میں نے انہیں مزدوری دی۔ ایک نوجوان کو میں نے دن کی مزدوری آٹھ آنے اور ایک زخمی تیتر کو تلاش کرنے پر الگ سے دو آنے دیے۔ بعد میں مجھے حکومتی نمائندے نے بتایا کہ یہ نوجوان ایک سال غائب رہنے کے بعد چند روز قبل لوٹا ہے اور اس کے پاس چرایا ہوا کم از کم تیس ہزار روپے مالیت کا ہیرا بھی تھا۔
قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے ہیرے کو اچھی طرح پرکھا اور پھر اسے چھپا دیا۔ قبیلے کی سب سے خوبصورت لڑکی نے اعلان کیا کہ وہ سب سے ماہر چور سے شادی کے موسم میں شادی کرے گی۔ ایک نوجوان جو ہمارے ساتھ شکار میں تو شامل نہیں تھا، مگر ساتھ ہی کھڑا تھا، کے بارے پتہ چلا کہ اس نے منصوبہ بنایا ہوا ہے کہ وہ کلکتہ سے چوری کی ہوئی بالکل نئی کار کو انتہائی خراب پگڈنڈی پر چلا کر اس آبادی تک لائے گا تاکہ اس لڑکی سے شادی کر سکے۔ اس مقصد کے لیے پہلے اسے ڈرائیونگ سیکھنی پڑے گی۔
بعض جرائم پیشہ قبائل کے لوگون پر زیادہ پابندی نہیں ہوتی اور یہ لوگ گھروں میں چوکیدار کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ بہت سی جگہوں پر چوکیدار کے جوتے سیڑھیوں پر رکھ دیے جائیں تو چوری سے بچاؤ کے لیے کافی رہتے ہیں۔ عموماً چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ تین سے پانچ روپے ہوتی ہے سو چوکیدار رات کو جوتے رکھ جاتے ہیں اور صبح آ کر اٹھا لے جاتے ہیں۔
صوبجات متحدہ میں بھنٹو قبیلہ پرتشدد جرائم کے لیے مشہور ہے اور ان کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ سلطانہ ڈاکو جو تین سال تک حکومت کے ہاتھ نہ آیا، اسی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ داستان سلطانہ ڈاکو کے بارے ہے۔ نیا گاؤں کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ ترائی اور بھابھر کا سب سے خوشحال گاؤں تھا۔ ترائی اور بھابھر دراصل ہمالیہ کے دامن میں موجود زمینی پٹی کو کہا جاتا ہے۔ گھنے جنگل سے نکالی گئی انتہائی زرخیز زمین کے چپے چپے پر کاشتکاری ہوتی ہے اور سو سے زائد رہائشی خوشحال، مطمئن اور خوش باش تھے۔ سر ہنری ریمزے، کماؤں کے بادشاہ ان لوگوں کو پہاڑوں سے نیچے لائے تھے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ایک ہی نسل میں یہ لوگ خوشحال ہو گئے۔
اس دور میں ملیریا کو بھابھر بخار کہا جاتا تھا اور اس وسیع علاقے میں ڈاکٹر اکا دکا ہی تھے اور لوگ اس بیماری کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ جنگل کے عین وسط میں واقع نیا گاؤں اس بیماری کے ہاتھوں اجڑنے والا پہلا دیہات تھا۔ کاشتکاروں کے مرنے پر یکے بعد دیگر کھیت اجڑتے گئے اور بہت کم آبادی بچی۔ جب ان بچے کچھے لوگوں کو ہمارے گاؤں میں پناہ اور زمین دی گئی تو یہ گاؤں اجڑ کر پھر سے جنگل کا حصہ بن گیا۔
کئی برس بعد پنجاب کے ایک ڈاکٹر نے ان زمینوں کو آباد کرنے کا سوچا مگر پہلے اس کی بیٹی، پھر بیوی اور پھر وہ خود ملیریا سے ہلاک ہوئے اور نیا گاؤں ایک بار پھر سے جنگل بن گیا۔ انتہائی محنت سے صاف کی گئی زمین پر جہاں گنے، گندم، سرسوں اور چاول وغیرہ کی کاشت ہوتی تھی، اب وہاں لہلہاتی گھاس اگ آئی۔ اس گھاس کو دیکھتے ہوئے تین میل دور ہمارے گاؤں سے مویشی یہاں چرانے کو بھیجے جانے لگے۔ جب مویشی جنگل سے گھرے قطوں میں طویل عرصے تک چرتے رہیں تو درندوں کا متوجہ ہونا فطری بات ہے۔ ایک سال جب ہم نینی تال میں اپنے گرمائی گھر سے اتر کر نیچے کالاڈھنگی آئے تو پتہ چلا کہ ایک تیندوے نے پاس موجود جنگل میں رہائش اختیار کر لی ہے اور ہمارے مویشیوں سے بھاری خراج وصول کر رہا ہے۔ چونکہ گھاس کے میدان میں کوئی درخت نہیں تھا، اس لیے تیندوے کے شکار کردہ جانور پر مچان باندھنا ممکن نہ تھا۔ واحد طریقہ یہ تھا کہ صبح سویرے جب تیندوا پیٹ بھرنے کے بعد دن کو گھنی جھاڑیوں میں آرام کرنے جا رہا ہو یا پھر جب شام کو وہ تازہ شکار کی تلاش میں نکلا ہو۔ مگر دونوں طریقوں کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ تیندوا اردگرد کے جنگلوں میں کس جگہ رہتا ہے۔ اس لیے علی الصبح میں اور روبن یہ جاننے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
اگرچہ کاشتکاری متروک ہو چکی ہے مگر نیا گاؤں کا نام ابھی تک مستعمل ہے۔ اس کے شمال سے گزرنے والی سڑک کو کندی سڑک کہتے ہیں اور مشرق میں پرانی جی ٹی روڈ گزرتی ہے جو ریلوے لائن تعمیر ہونے سے قبل کماؤں کے اندرونی علاقوں کو میدانی علاقوں سے ملاتی تھی۔
نیا گاؤں جنوب اور مغرب کی سمت میں گھنے جنگل سے گھرا ہے۔ کندی سڑک اور ٹرنک روڈ اُن دنوں کم ہی استعمال ہوتی تھیں۔ اس لیے میں نے جنوب اور مغرب کی بجائے اس آسان جانب کو پہلے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں سڑکوں کے سنگم پر کہ جہاں کچھ عرصہ قبل ڈکیتوں سے بچاؤ کے لیے پولیس گارد ہوتی تھی، روبن اور میں نے مادہ تیندوے کے پگ دیکھے۔ روبن اور میں ان پگوں کو بخوبی پہچانتے تھے کہ یہ مادہ تیندوا کئی برس سے ہمارے گاؤں کے زیریں جانب لانتانا کی جھاڑیوں میں رہتی تھی۔ اس نے ہمارے مویشیوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا تھا اور سوروں اور بندروں کو کھا کر وہ ہماری فصلیں بھی بچاتی رہی تھی۔ اس لیے ہم نے اس کے پگوں کو نظرانداز کیا اور ٹرنک روڈ پر گروپو کی طرف چل دیے۔ چونکہ پچھلی شام سے یہاں سے کوئی انسان نہیں گزرا تھا، اس لیے تب سے گزرنے والے تمام جانوروں کے پگ محفوظ تھے۔
روبن بہت عقلمند کتا تھا اور میرے ہاتھوں میں رائفل دیکھ کر اسے علم ہو گیا تھا کہ ہم پرندوں کے شکار پر نہیں نکلے اور اس نے راستے پر موجود موروں اور آس پاس چگتے جنگلی مرغوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چلنا شروع کیا۔ راستے میں اس کی توجہ ایک شیرنی اور اس کے دو بچوں کے پگوں کو مبذول ہوئی جو ہم سے ایک گھنٹہ قبل یہاں سے گزرے تھے۔ اس چوڑی سڑک پر کئی جگہ چھوٹی مگر گھنی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شبنم سے بھری ہوئی اس گھاس میں شیرنی کے بچوں نے لوٹنیاں لگائی تھیں اور یہاں رک کر روبن نے ان کی بو کو اچھی طرح سونگھا۔ ایک میل تک سڑک پر چلنے کے بعد شیرنی اپنے بچوں سمیت جانوروں کی ایک گزرگاہ کو مڑ گئی۔ سنگم سے تین میل اور گروپو سے دو میل اوپر جانوروں کی ایک گزرگاہ جو نیا گاؤں سے آ رہی تھی، نے سڑک کو کاٹا۔ اس گزرگاہ پر ہمیں ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دکھائی دیے۔ یہ تیندوا پوری طرح جوان گائے ہلاک کرنے پر قادر تھا اور اس علاقے میں ایک ہی جسامت کے دو تیندوے ہونا لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔ روبن ان نشانات کا پیچھا کرنا چاہتا تھا مگر تیندوے کا رخ گھنے اور جھاڑیوں سے بھرے جنگل کی جانب تھا، جہاں کئی برس پہلے کنور سنگھ اور ہار سنگھ کے ساتھ اوپر بیان کیا گیا حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ جنگل تیندوے جیسے ہوشیار جانور کا پیچھا کرنے کے لیے مناسب نہیں تھا۔ اس کے علاوہ میرے پاس زیادہ آسان حل موجود تھا، سو ہم ناشتہ کرنے گھر کو روانہ ہو گئے۔
دوپہر کا کھانا کھا کر میگی اور روبن کے ساتھ میں اس جگہ لوٹا۔ اگرچہ گزشتہ روز تیندوے نے کوئی مویشی نہیں شکار کیا تھا مگر ہو سکتا ہے کہ اس نے کوئی چیتل مارا ہوتا جو مویشیوں والی جگہ پر ہی چرتے تھے کہ جس کو کھانے لوٹتا، پھر بھی اس کی واپسی کے اچھے امکانات تھے۔ میگی اور میں راستے کے ساتھ جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور روبن ہمارے درمیان لیٹا ہوا تھا۔ تیندوا صبح جس گزرگاہ سے گیا تھا، وہ یہاں سے سو گز دور تھی۔ ہم ایک گھنٹہ بیٹھے پرندوں کی آوازیں سنتے رہے کہ ایک مور ہمارے سامنے اپنے خوبصورت پروں کی نمائش کرتا ہوا گزرا۔
میرے اندازے کے مطابق تیندوا جنگل میں جس مقام پر تھا، کچھ دیر بعد اس سمت سے دس بارہ چیتلوں کی آواز آئی جو جنگل والوں کو تیندوے کی موجودگی کا بتا رہے تھے۔ دس منٹ بعد ہمارے قریب سے ایک چیتل نے خطرے کی آواز نکالی۔ تیندوا چلتا ہوا ہماری جانب آ رہا تھا اور چونکہ اس کی آمد خفیہ نہیں تھی، شاید وہ اپنے شکار کردہ کسی جانور کو لوٹ رہا ہوگا۔ روبن ہمارے درمیان آرام سے لیٹا ہوا آوازیں سنتا رہا تھا کہ میں نے اپنی ایک ٹانگ کھڑی کر کے گھٹنے پر رائفل رکھی تو اس کا جسم کانپنے لگا۔ تیندوے سے زیادہ روبن کو کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ اسے علم تھا کہ تیندوا سڑک پر آنے سے قبل جھاڑیوں سے سر نکال کر جائزہ لے گا اور پھر باہر نکلے گا اور چاہے گولی لگتے ہی ہلاک ہو جائے یا کچھ دیر تڑپ کر مرے، روبن ذرا سا بھی نہیں ہلتا۔ یہ ایک ایسا کھیل تھا کہ جس کے ہر پہلو سے روبن بخوبی واقف تھا اور اس سے جتنا لطف اندوز ہوتا، اتنا ہی خوفزدہ بھی ہوتا۔
گزرگاہ پر کچھ دیر چلنے کے بعد مور آلوبخارے کے درخت پر چڑھا اور پکے ہوئے آلوبخارے کھانے لگا۔ اچانک شور مچاتے ہوئے اس نے اڑان بھری اور ایک مردہ درخت پر جا کر بیٹھ گیا اور چیخنے لگا۔ چند منٹ، شاید پانچ منٹ بعد، کہ تیندوے بہت آہستہ اور محتاط ہو کر سڑک کو عبور کرتے ہیں، میں نے گوشہ چشم سے سڑک پر ایک حرکت دیکھی۔ ایک بندہ سڑک پر دوڑتا آ رہا تھا اور بار بار پیچھے کو مڑ کر دیکھتا۔
غروبِ آفتاب کے وقت اس سڑک پر کسی آدمی کو دیکھنا غیر معمولی بات تھی اور اس کا اکیلا ہونا بھی عجیب لگا۔ اس آدمی کے اٹھائے ہوئے ہر قدم پر تیندوے کے شکار کا امکان کم سے کم ہوتا گیا۔ تاہم اس بندے کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ کسی مصیبت میں ہے، شاید اسے مدد درکار ہو۔ ابھی وہ کچھ فاصلے پر تھا کہ میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ ہمارے ہمسائیہ گاؤں کا کسان تھا اور سردیوں میں گروپو میں مویشی چراتا تھا۔
ہماری جھلک دیکھتے ہی وہ ٹھٹھکا مگر جب اس نے پہچانا تو پھر ہمارے پاس آ کر ہیجان بھرے انداز میں بولا، "صاحب، بھاگو۔ سلطانہ کے آدمی میرا پیچھا کر رہے ہیں۔" اس کی ہوا بگڑی ہوئی تھی اور مصیبت میں لگ رہا تھا۔ میں نے اسے بیٹھنے کا کہا تو اس نے انکار کیا اور اپنی ٹانگ موڑ کر مجھے دکھائی اور بولا، "دیکھیں انہوں نے کیا کیا ہے۔ اگر وہ مجھے پا لیں تو یقیناً مار ڈالیں گے اور آپ بھی اگر نہ بھاگے تو مفت میں مارے جائیں گے۔" اس کی ٹانگ کا عقبی حصہ ایڑی سے گھٹنے تک کھل گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ میں نے اس بندے کو کہا کہ اگر وہ بیٹھ نہیں سکتا تو کم از کم اسے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر میں نے جھاڑیوں سے نکل کر سڑک کا جائزہ لیا اور وہ وہ بندہ لنگڑاتا ہوا گاؤں کو چل دیا۔
نہ تیندوا اور نہ ہی سلطانہ کے آدمی دکھائی دیے اور جب شکار کے لیے روشنی ختم ہو گئی تو میگی اور روبن کے ساتھ میں کالا ڈھنگی گھر کو لوٹا۔ اگلی صبح مجھے اس بندے کی کہانی پتہ چلی۔ وہ گروپو کے پاس مویشی چرا رہا تھا اس نے بندوق چلنے کی آواز سنی۔ اس گاؤں کے نمبردار کا بھتیجا چیتل کے چور شکار کی نیت سے آیا ہوا تھا۔ یہ بندہ آواز سن کر درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ آیا چیتل شکار ہوا ہوگا یا نہیں اور یہ بھی کہ کیا مویشیوں کے باڑے میں اس کے لیے شام کو کچھ گوشت باقی بچا ہوگا کہ اس نے اپنے پیچھے ہلکی سی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پانچ آدمی کھڑے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس جگہ تک لے جائے جہاں بندوق کی آواز آئی تھی۔ اس بندے نے عذر پیش کیا کہ میں سو رہا تھا، ابھی جاگا ہوں۔ مجھے بندوق کے بارے کوئی علم نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ باڑے کو چلو کہ شاید بندوق بردار وہاں آیا ہو۔ ان کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا مگر ان کے سردار کے پاس ایک تلوار تھی اور اس نے دھمکی دی کہ اگر شور مچایا یا بھاگنے کی کوشش کی تو وہ اس کا سر قلم کر دے گا۔
جب وہ باڑے کو جا رہے تھے تو ان بندوں نے بتایا کہ وہ سلطانہ کے ساتھی ہیں اور سلطانہ یہیں قریب ہی مقیم ہے۔ جب سلطانہ نے بندوق کی آواز سنی تو اس نے بندوق بردار کو لانے کا حکم دیا۔ اگر کسی نے باڑے میں مزاحمت کی تو وہ باڑے کو جلا کر اس رہنما کو قتل کر دیں گے۔ اس بات سے یہ بندہ جھجھک گیا۔ اسے علم تھا کہ باڑے میں رہنے والے افراد نڈر اور طاقتور ہیں، اگر انہوں نے مزاحمت کی تو یہ بندہ تو مارا ہی جائے گا۔ اگر انہوں نے مزاحمت نہ بھی کی تو بھی اسے تاحیات اس بات پر کبھی معاف نہیں کیا جائے گا کہ وہ سلطانہ کے بندوں کو وہاں تک لے گیا تھا۔ ابھی وہ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ ایک چیتل اور اس کے پیچھے لگے جنگلی کتے چند گز کے فاصلے سے گزرے۔ اس کے اغواکار یہ منظر دیکھنے لگے تو اس بندے نے لمبی گھاس میں جست لگائی اور اس بندے کی تلوار سے لگنے والے زخم کے باوجود اس نے تعاقب والوں کو جھٹک دیا اور ٹرنک روڈ پہنچ کر دوڑتا ہوا وہ ہم تک پہنچا تھا جہاں ہم تیندوے کے منتظر تھے۔
سلطانہ بھنٹو قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جو جرائم پیشہ مشہور ہے۔ مجھے اسے بات سے غرض نہیں ہے کہ کسی پورے قبیلے کو کیوں جرائم پیشہ کہا جاتا ہے یا پھر انہیں نجیب آباد کے قلعے میں کیوں رکھا جاتا ہے۔ سلطانہ کو اس کی نوجوان بیوی اور شیرخوار بیٹے کے ہمراہ قلعے میں سالویشن آرمی کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ قید سے تنگ آ کر ایک روز اس نے قلعے کی مٹی سے بنی دیوار میں سوراخ کیا اور نکل گیا۔ اب سلطانہ کو فرار ہوئے ایک سال ہو گیا تھا اور اس دوران اس نے ایک سو سے زیادہ بندے جمع کر لیے تھے جن کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔ ان کا مقصد ڈکیتیاں تھا اور یہ لوگ ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں زندگی بسر کرتے تھے اور ان کی سرگرمیاں گونڈا سے سہارنپور تک پھیلی ہوئی تھیں جو کئی سو میل بنتا ہے اور بعض اوقات وہ پاس والے صوبے پنجاب میں بھی واردات کرتے تھے۔
سرکاری دفاتر میں سلطانہ کی سرگرمیوں سے متعلق کئی موٹی فائلیں موجود ہیں۔ مجھے ان فائلوں تک رسائی نہیں اور اگر میری کہانی کسی بھی طور سرکاری تفصیلات سے فرق ہو تو میں اس پر افسوس کا اظہار تو کر سکتا ہوں، مگر اپنے ایک حرف سے بھی لاتعلقی اختیار نہیں کروں گا۔
سلطانہ کے متعلق پہلی بار تب سنا جب وہ گروپو جنگلوں میں ہمارے کالا ڈھنگی والے گھر سے چند میل دور مقیم تھا۔ اس وقت کماؤں کے کمشنر پرسی ونڈہم تھے۔ چونکہ سلطانہ کی سرگرمیاں ترائی اور بھابھر سے متعلق تھیں جو ان کے ماتحت علاقہ تھا، اس لیے پرسی نے فریڈی ینگ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت سے درخواست کی۔ فریڈی ینگ کئی برس سے صوبجات متحدہ میں کام کر رہا تھا۔ حکومت نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ڈکیتیوں کے خلاف باقاعدہ تین سو منتخب افراد کو فریڈی کے حوالے کر دیا۔ اس بارے فریڈی کو آزادی تھی کہ وہ کون سے تین سو افراد چنتا ہے۔ چونکہ فریڈی نے آس پاس کے محکمہ پولیس سے بہترین افراد چنے، اس لیے ہم پیشہ افراد اسے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ چونکہ سلطانہ کی گرفتاری پر بھاری انعام مقرر تھا، اس لیے تمام متعلقہ افراد اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور اب فریڈی ان سے ان کے بہترین ماتحت لے گیا۔
جب فریڈی ماتحت منتخب کر رہا تھا تو اس وقت سلطانہ ترائی اور بھابھر کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں لوٹ مار میں مصروف تھا۔ فریڈی نے سلطانہ کو پکڑنے کی پہلی کوشش رام نگر کے مغرب کے جنگلات میں کی۔ انہی دنوں محکمہ جنگلات نے ان جنگلات کی کٹائی شروع کرائی تھی اور ایک ٹھیکیدار کو کہا گیا کہ وہ سلطانہ کو مدعو کرے جو ان دنوں قریب ہی کہیں مقیم تھا۔ دعوت میں پہلے ناچ گانا اور پھر کھانا تھا۔ سلطانہ اور اس کے ساتھیوں نے بخوشی یہ دعوت قبول کر لی اور دعوت شروع ہونے سے ذرا قبل اس نے میزبان کو کہا کہ وہ پہلے کھانا کھائیں گے تاکہ پھر ناچ گانے سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں۔
یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مشرق میں مہمانوں کو ناچ پر بلانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مہمان بھی ناچیں گے۔ ناچنے کا کام پیشہ ور خواتین کرتی ہیں اور ان کے ساتھ مرد سازندے ہوتے ہیں۔ مخبری پر انعام دونوں جانب سے دیا جاتا تھا اور اس بارے دونوں کے اپنے اپنے خفیہ مخبر تھے۔ سلطانہ کو فائدہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف مخبری پر انعام دیتا بلکہ اطلاع چھپانے پر یا غلط مخبری پر سزا بھی دیتا تھا جبکہ فریڈی کے پاس صرف انعام دینے کا اختیار تھا۔ جب سلطانہ کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کی خبریں پھیلینے لگیں، لوگ مخبری کرنے سے کترانے لگے۔
نجیب آباد کے قلعے میں رہتے ہوئے سلطانہ کو بخوبی علم تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے اور اسے غریبوں سے دلی ہمدردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ نے کبھی کسی غریب سے ایک آنہ بھی نہیں چھینا، کبھی مدد کی درخواست رد نہیں کی اور چھوٹے دوکانداروں سے خریدی گئی ہر چیز کی دوگنی قیمت ادا کی۔ ظاہر ہے کہ اس کے مخبروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور اسے بخوبی علم تھا کہ ناچ اور کھانے کی دعوت کے پیچھے فریڈی ہے۔
دعوت کے انتظامات جاری تھے۔ ٹھیکیدار امیر بندہ تھا، سو اس نے اپنے دوستوں کو رام نگر اور کاشی پور سے بلوا بھیجا اور ناچ کے لیے بہترین خواتین اور سازندے منگوائے۔ کھانے پینے کا سامان اور شراب کو بیل گاڑیوں پر لاد کر جنگل پہنچایا گیا۔
رات کو مطلوبہ وقت پر ٹھیکیدار کے مہمان جمع ہوئے اور دعوت شروع ہوئی۔ ٹھیکیدار کے مہمانوں سے سلطانہ اور اس کے آدمیوں کو چھپایا جانا مشکل نہیں تھا کہ ہندوستان میں مختلف ذاتوں کے الگ الگ بیٹھنے کی جگہیں تھیں اور الاؤ اور چند لالٹینوں کی روشنی قطعی ناکافی تھی۔ سلطانہ اور اس کے ساتھیوں نے کھانے پینے اور شراب کے استعمال میں عقلمندی دکھائی اور طعام اختتام پزیر ہو رہا تھا تو سلطانہ نے اپنے میزبان کو ایک طرف لے جا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ انہیں طویل سفر درپیش ہے اور وہ اب رخصت چاہیں گے۔ اس نے درخواست کی کہ باقی ساری دعوت حسبِ معمول چلتی رہے۔ سلطانہ کی درخواست کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔
ناچ کے دوران سب سے زیادہ آواز ڈھول کی ہوتی ہے اور فریڈی کے لیے یہی اشارہ مقرر تھا کہ وہ اپنی کمین گاہ سے نکل کر دعوت کے مقام کا گھیراؤ کر لے۔ اس کی سپاہ کا ایک حصہ ایک مقامی فارسٹ گارڈ کے ذمے تھا جو تاریک رات میں راستہ بھول گیا۔ اس حصے کا کام سلطانہ کے فرار کا راستہ روکنا تھا مگر ان کی ساری رات راستہ تلاش کرتے ہوئے گزری۔ یہ فارسٹ گارڈ سلطانہ کی طرح اسی جنگل میں رہتا تھا اور اسے راستہ بھولنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کی مخبری پر ہی سلطانہ نے اپنے پروگرام میں معمولی سی تبدیلی کر کے اپنا بچاؤ کر لیا تھا۔ سو جب یہ سب انتہائی دشوار جنگلات سے راستہ بناتے جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہاں محض متحیر تماشائی اور گھبرائی ہوئی لڑکیاں اور ان کے سازندے ہی ملے۔
رام نگر کے جنگلات سے فرار ہو پنجاب چلا گیا جہاں اس کے چھپنے کے لیے کوئی جنگلات نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں مختصر قیام کے بعد جب سلطانہ صوبجاتِ متحدہ کے گھنے جنگلات کو لوٹا تو اس کے پاس ایک لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کے طلائی زیورات تھے۔ پنجاب سے واپسی پر اسے دریائے گنگا عبور کرنا تھا اور تمام ایسے پُلوں پر پہرہ تھا جہاں سے اس کے گزرنے کے امکانات تھے۔ یہ پُل چار چار میل کے فاصلے پر بنے تھے۔
اپنے مخبروں کی مدد سے ان پلوں سے بچ کر سلطانہ نے ایسی جگہ سے عبور کیا جہاں چوکی پہرہ نہیں تھا اور عبور کرتے ہوئے وہ ایک بڑے دیہات کے قریب سے گزرا جہاں سے موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ جب سلطانہ کو علم ہوا کہ ایک امیر آدمی کے بیٹے کی شادی ہے، سو اس نے وہاں کا رُخ کیا۔
شادی کی تقریب گاؤں کے وسط میں میدان میں ہو رہی تھی اور ہزاروں مہمان جمع تھے۔ جب سلطانہ تیز روشنی کے دائرے میں داخل ہوا تو اس وضع قطع سے لوگ گھبرا گئے۔ مگر سلطانہ نے انہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور بولا کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر اس نے گاؤں کے نمبردار اور دلہے کے باپ کو بلا کر بولا کہ یہ خوشحالی کا وقت ہے اور تحفے دینے اور لینے کا بھی۔ اس لیے وہ نمبردار کی حالیہ خرید کی گئی بندوق اپنے لیے اور اپنے آدمیوں کے لیے دس ہزار روپے چاہتا ہے۔ فوراً سے بیشتر بندوق اور دس ہزار روپے پیش کیے گئے اور مجمعے کو شب بخیر کہتے ہوئے سلطانہ اور اس کے آدمی چلے گئے۔ اگلی صبح جا کر سلطانہ کو علم ہوا کہ اس کے نائب پیلوان نے دلہن اغوا کر لی تھی۔ سلطانہ کسی قیمت پر خواتین کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتا تھا اور اس نے پیلوان کو سخت سزا دی دلہن کو اس تکلیف کے بدلے مناسب تحائف کے ساتھ واپس بھیج دیا۔
چرواہے کی ٹانگ زخمی کرنے کے واقعے کے بعد سلطانہ کچھ عرصہ اس مقام پر رہا۔ اس کی قیام گاہ اکثر بدلتی رہتی تھی اور کئی بار شکار کے دوران میں نے اس کی چھوڑی ہوئی قیام گاہیں دیکھی تھیں۔ ایک بار ایسے موقع پر دلچسپ تجربہ ہوا۔
ایک بار میں نے فائر ٹریک پر گھر سے پانچ میل دوری پر خوبصورت تیندوا مارا اور چونکہ گھر جا کر ملازمین کو لانے کا وقت نہیں تھا، اس لیے میں نے وہیں اس کی کھال اتاری اور گھر روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میرا پسندیدہ شکاری چاقو وہیں رہ گیا ہے۔
اگلی صبح میں بہت جلدی چاقو لانے روانہ ہوا اور جب اس جگہ پہنچا تو مجھے جنگل کے ایک قطعے سے روشنی جھلملاتی دکھائی دی جو اس مقام سے کچھ دور تھی۔ سلطانہ کی موجودگی کے بارے کئی دن سے اطلاعات مل رہی تھیں اور نجانے کس خیال کے تحت میں نے جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ شبنم کی وجہ سے پتہ نرم ہو چکے تھے اور انتہائی خاموشی سے میں ان کے قریب جا پہنچا۔ وہاں ایک چھوٹے سے نشیب میں بیس پچیس افراد دائرے کی صورت میں آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ایک درخت کے ساتھ بندوقیں کھڑی کی ہوئی تھیں اور ان کی نالیاں آگ کی روشنی منعکس کر رہی تھیں۔ سلطانہ موجود نہیں تھا۔ مجھے سلطانہ کا حلیہ معلوم تھا کہ وہ دبلا پتلا اور پھرتیلا جوان ہے اور اس نے ہمیشہ خاکی کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔
صاف لگ رہا تھا کہ یہ لوگ اس کے گروہ کا حصہ ہیں، مگر ان کا کیا کیا جائے؟ کالاڈھنگی میں بوڑھا ہیڈ کانسٹیبل اور اس کے دو سپاہی بیکار تھے۔ نزدیکی چوکی پھر پندرہ میل دور ہلدوانی میں تھی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندے نے کہا کہ چلنا چاہیے۔ اب اگر میں چھپنے کی کوشش کرتا تو پکڑا جاتا اور مشکلات بڑھ جاتیں۔ میں نے تیز تیز چند قدم اٹھائے اور سیدھا ان بندوں اور ان کی بندوقوں کے درمیان پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہروں پر حیرت کے آثار نظر آنے لگے کہ میں تھوڑا بلندی پر تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آخرکار ایک بولا، "کچھ بھی نہیں۔"مزید سوال جواب کرنے پر پتہ چلا کہ یہ لوگ بریلی سے آئے ہیں اورلکڑی جلا کر کوئلہ پیدا کرنا ان کا پیشہ ہے۔ راستہ بھول کر یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پھر میں نے مڑ کر ان کی بندوقوں کی جانب دیکھا تو وہ ان کی کلہا ڑیاں تھیں جن کے مسلسل استعمال سے چمکتے ہوئے دستے مجھے پہلی نظر میں بندوقوں کی نالیاں محسوس ہوئی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پیر ٹھنڈے اور بھیگے ہیں سو میں پیر سینکنے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جب میرے دیے ہوئے سگریٹ پینے اور گپ شپ سے فراغت ہوئی تو میں نے انہیں ان کی منزل کا راستہ سمجھا دیا۔ پھر میں نے اپنا چاقو تلاش کیا اور گھر لوٹ آیا۔ جب سنسنی خیز صورتحال ہو تو انسانی تصورعجب تماشا دکھاتا ہے۔ ایک بار شیر کے شکار کردہ سانبھر کے قریب میں زمین پر چھپ کر بیٹھا تھا اور شیر کو آتے سنا جو مسلسل آئے جا رہا تھا مگر کسی طور بھی فاصلہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ جب تجسس ناقابلِ برداشت ہو گیا تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک چھوٹا سا کیڑا میرے سر کے قریب ایک خشک پتے کو کتر رہا تھا۔ ایک باراور بھی جب شیر اپنےشکار کردہ جانور کو لوٹنے والا تھا تو میں نے گوشہ چشم سے ایک بڑے جانور کو آتے دیکھا۔ جب میں رائفل کو تان کرگولی چلانے کو تیار ہو رہا تھا کہ میں نے غور کیا کہ میرے سر کے پاس موجود ایک خشک ٹہنی پر چیونٹی چل رہی تھی۔ سلطانہ کے بارے سوچتے ہوئے جب میں نے کلہاڑیوں کے چمکدار دستے چمکتے دیکھے تو انہیں بندوقوں کی نال سمجھا اور ان کی طرف دوبارہ تب دیکھا جب ان افراد نے بتایا کہ وہ کوئلہ جلانےو الے ہیں۔
منظم ہونےکے علاوہ بہتر ذرائع نقل و حمل کی وجہ سے فریڈی کا دباؤ سلطانہ پر پڑنے لگا اور اس سے بچنے کے لیے سلطانہ نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ضلع کے مشرقی کنارے پر پیلی بھیت کا رخ کیا۔ اُس وقت تک سلطانہ کے کافی ساتھی یا تو اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے یا گرفتار ہو گئے۔ پیلی بھیت میں چند ماہ قیام کے دوران سلطانہ پیلی بھیت گورکھا پور تک وارداتیں کرتا اور سونا جمع کرتا رہا۔
ہمارے علاقے کے جنگلات کو واپسی کے بعد اسے پتہ چلا کہ ریاست رام پور کی ایک بہت امیر ناچنے والی لڑکی لام چور گاؤں کے نمبردار کے پاس رہنے آ گئی ۔ یہ گاؤں ہمارے گھر سے سات میل دور تھا۔ متوقع حملے کے پیشِ نظر نمبردار نے تیس مزارعوں کو چوکیداری پر لگا دیا۔ چوکیداروں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور جب سلطانہ پہنچا تو جتنی دیر وہ اس گھر کا محاصرہ کرتے، وہ لڑکی اپنے زیورات کے ساتھ پچھلے دروازے سے فرار ہو گئی۔ جب نمبردار اور اس کے ملازمین نے لڑکی کے وجود سے لاعلمی ظاہر کی تو سلطانہ نے حکم دیا کہ ان سب کو باندھ کر تشدد کیا جائے۔ اس پر مزارعین نے اعتراض کیا کہ وہ ملازمین کے ساتھ جو چاہے کرے، مگر نمبردار کی اس طرح بے عزتی نہیں کر سکتا۔ سلطانہ نے اس بندے کو بکواس بند کرنے کو کہا۔ ایک ڈاکو رسی لے کر نمبردار کی طرف بڑھا تو اس مزارع نے دیوار سے ٹکا باس اٹھا کر اس پر حملہ کیا۔ اسی اثنا میں ایک اور ڈاکو نے اس پر گولی چلا دی جو مزارع کی چھاتی میں لگا۔ سلطانہ کو یہ ڈر لگا کہ کہیں گاؤں والے گولی کی آواز سے خبردار ہو کر حملہ نہ کر دیں، یہ لوگ فرار ہو گئے۔ مگر فرار ہوتے ہوئے نمبردار کے نئے گھوڑے کو ساتھ لیتے گئے۔ اگلی صبح مجھے اس بہادر مزارع کے قتل کا پتہ چلا۔ میں نے اس کے خاندان کے بارے معلومات لینے ایک بندہ بھیجا اور آس پاس کے تمام دیہاتوں کے نمبرداروں کو کھلا خط بھیجا کہ وہ متوفی کے خاندان کے لیے چندہ جمع کرنا چاہیں تو کریں۔ میرے خط کا جواب بہت فراغدلانہ تھا کہ ہندوستان کے غریب ہمیشہ سخی ہوتے ہیں۔ مگر یہ چندہ جمع کرنے کی نوبت نہیں آئی کہ اپنے مالک کے لیے جان دینے والا یہ بہادر آدمی ۲۰ برس قبل نیپال سے آیا تھا اور اس کے دوستوں اور نیپال سے میرے استفسار پر اس کے بیوی بچوں کے بارے کوئی پتہ نہ چل سکا۔
اس واقعے کے بعد میں نے فریڈی کی درخواست قبول کر لی کہ سلطانہ کے خلاف اس کی مدد کروں۔ ایک ماہ بعد میں ہردوار اس کے صدر دفتر پہنچا۔ مرزا پور میں اپنی تعیناتی کے اٹھارہ برس کے دوران ونڈہم نے دس کول اور دس بھونیوں کو شیروں کے شکار کے لیے بھرتی کیا تھا۔ یہ لوگ مرزا پور کے جنگلات میں رہتے تھے۔ ان میں چار بہترین لوگ جو میرے دوست بھی تھے، کو ونڈہم نے فریڈی کے حوالے کیے تھے اور وہ لوگ ہردوار میرے منتظر تھے۔
فریڈی کا منصوبہ یہ تھا کہ میں اور یہ چار افراد مل کر سلطانہ کو تلاش کریں اور جب اس کا اتہ پتہ مل جائے تو ہم فریڈی کے مسلح ساتھیوں کو مناسب مقام تک لے جائیں جہاں سے حملہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا تھا، یہ دونوں کام رات کے وقت ہونے تھے۔ سلطانہ مسلسل حرکت میں رہتا تھا۔ شاید وہ پریشان تھا یا پھر اسے فریڈی کے منصوبوں کے بارے قبل از وقت علم ہو جاتا تھا، اس نے ایک روز سے زیادہ وقت کہیں نہیں گزارا اور رات کو ہمیشہ طویل سفر پر نکل جاتا تھا۔
موسم انتہائی گرم تھا اور بیکار بیٹھے رہنے کی وجہ سے ہم تھک گئے تھے۔ اس لیے اُس رات کھانے کے بعد میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر کے فریڈی سے بات کی۔ فریڈی برآمدے میں ایسی جگہ بیٹھا جہاں سے کوئی ہماری گفتگو نہ سن سکتا، میں نے اس کے سامنے یہ منصوبہ پیش کیا۔ فریڈی یہ بات پھیلاتا کہ ان چار افراد اور مجھے ونڈہم نے شیر کے شکار پر بلایا ہے اور ہمارے لیے ہلدوانی کے لیے ٹکٹ خریدے جائیں اور ہم رات کی ٹرین پر روانہ ہو جاتے۔ تاہم اگلے سٹیشن پر اتر کر میں اپنی رائفل اور میرے ساتھی فریڈی کی دی ہوئی بندوقوں کے ہمراہ ٹرین سے اتر جاتے۔ اس کے بعد ہمیں کھلی اجازت ہوتی کہ زندہ یا مردہ، جیسا بھی ہو، ہم سلطانہ کو لے آتے۔
میری تجویز سن کر فریڈی نے کافی دیر تک آنکھیں بند کر کے سوچ بچار کیا۔ اس کا وزن بیس سٹون اور چار پاؤنڈ (۱۲۷ کلو) تھا اور ظاہر ہے کہ کھانے کے بعد غنودگی طاری ہو گئی ہوگی۔ مگر وہ پوری طرح ہوشیار تھا کہ اچانک سیدھے ہوتے ہوئے اس نے کہا، "نہیں۔ میں آپ لوگوں کی زندگیوں کا ذمہ دار ہوں اور اس پاگل پن کی اجازت نہیں دوں گا۔"
چونکہ اس کے ساتھ بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا، سو اگلی صبح ہم پانچوں افراد بذریعہ ٹرین واپس گھروں کو لوٹ گئے۔ میری تجویز غلط تھی اور فریڈی نے اسے رد کر کے بالکل ٹھیک کیا تھا۔ ہماری کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی اور سلطانہ کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کی کوششوں کی صورت میں ہمیں کوئی سرکاری تحفظ نہ ملتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے تھا کہ سلطانہ کو زندہ گرفتا ر کرنا ہے۔ چونکہ سلطانہ کی جان یا ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے فوری کوئی مجبوری نہیں تھی۔
تین ماہ بعد جب برسات پورے عروج پر تھی، فریڈی نے محکمہ جنگلات کے ہربرٹ سے کو ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ فریڈ اینڈرسن کو مانگا اور مجھے بھی ہردوار بلا بھیجا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ فریڈی نے سلطانہ کی مستقل قیام گاہ کا پتہ چلا لیا ہے جو نجیب آباد کے جنگلات میں تھی اور ہمیں اپنی مدد کو بلوایا تھا تاکہ ہم جنگل میں اس کا گھیراؤ کر کے فرار کا راستہ مسدود کرسکیں۔
ہربرٹ پولو کا مشہور کھلاڑی تھا اور اسے پچاس مسلح گھڑ سواروں کے ساتھ سلطانہ کے فرار کا راستہ مسدود کرنا تھا جبکہ اینڈرسن اور میں فریڈی کے ساتھ رہتے اور گھیراؤ میں مدد کرتے۔ اب فریڈی کو سلطانہ کے مخبروں کے بارے کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا اور فریڈی کے دو نائبین اور ہم تین کے علاوہ کسی کو اس حملے کے بارے علم نہیں تھا۔ ہر روز شام کو پولیس کے مسلح دستے طویل گشت پر بھیجے جاتے اور ہم بھی الگ سے گشت پر نکلتے اور اندھیرا چھانے پر ہم ڈیم بنگلے کو لوٹ جاتے جہاں ہمارا قیام تھا۔ مطلوبہ رات کو بجائے گشت پر جانے کے، ہم نے انہیں ہردوار کے گودام کی طرف بھیجا جہاں کئی بوگیاں کھلے دروازوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ یہ دروازے دفتری عمارات کی مخالف سمت تھے۔ انجن اور دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔ جب ہم پہنچے تو پورا دستہ سوار ہو چکا تھا اور دروازے بند ہو رہے تھے۔ ہم لوگ گارڈ کی بوگی میں سوار ہوئے اور بغیر کسی سیٹی کے ٹرین چل پڑی۔ کسی قسم کے شک سے بچنے کے لیے ہم نے ہر کام معمول کے مطابق کیا تھا، چاہے وہ جوانوں کے کھانے کا معمول ہو یا پھر ہمارا۔
ہم نے تاریکی چھانے کے ایک گھنٹے بعد سفر شروع کیا۔ نو بجے ٹرین جنگل کے وسط میں موجود دو سٹیشنوں کے درمیان رک گئی۔ ہم نے پیغام بھجوایا کہ تمام افراد اتر جائیں اور پھر ٹرین آگے روانہ ہو گئی۔
فریڈی کے دستے کی تعداد ۳۰۰ مسلح جوان تھی اور ان میں سے پچاس ہربرٹ کے زیرِ کمان تھے۔ ہربرٹ پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستانی گھڑ سوار دستے کے ساتھ فرانس میں جنگ لڑ چکا تھا۔ ان لوگوں کو ایک رات قبل ہی طویل چکر کاٹ کر ان کے گھوڑوں کی جانب بھیج دیا گیا تھا۔ اب باقی کے اڑھائی سو جوان اور ہم لوگ بیس میل کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ فریڈی سب سے آگے اور میں سب سے پیچھے تھا۔ سارا دن بادل جمع ہوتے رہے تھے اور جب ہم روانہ ہوئے تو موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔
ہم نے شمال کی جانب ایک میل، پھر دو میل مشرق، پھر دو میل مغرب اور پھر باقی کا سفر شمال کو طے کرنا تھا۔ مجھے علم تھا کہ سمتوں کی تبدیلی کی وجہ ان دیہاتوں سے بچ کر گزرنا تھی جہاں سلطانہ کے مخبر موجود تھے۔ اس سفر کو جتنی مہارت سے طے کیا گیا، اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک بار بھی کوئی مقامی کتے، جو کہ دنیا کے بہترین چوکیدار کتے ہیں، نہیں بھونکے۔ گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے گئے اور ہمارا مارچ جاری رہا۔ میرے سامنے زمین دلدل بنی ہوئی تھی جہاں ہر دوسرا قدم گھٹنے تک کیچڑ میں دھنس جاتا کہ اس کیچڑ پر اڑھائی سو افراد مجھ سے قبل چل کر گئے تھے۔ کئی میل کا سفر ایلیفنٹ گھاس میں ہو کر گزرا جو میرے قد سے زیادہ اونچی تھی اور وہاں ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں بچائے اور بمشکل توازن برقرار رکھے جا رہا تھا۔ اس روز مجھے فریڈی کی ہمت پر حیرت ہوئی کہ اگرچہ اس کے سامنے کیچڑ زیادہ نہیں تھا مگر اس کا وزن مجھ سے لگ بھگ نو سٹون یعنی ۴۵ کلو زیادہ تھا۔ سارا سفر ہم نے رکے بنا طے کیا۔
ہم لوگ نو بجے روانہ ہوئے تھے اور دو بجے میں نے فریڈی کو زبانی پیغام بھجوایا کہ کیا ہم درست سمت جا رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک گھنٹہ قبل ہم نے شمال کی بجائے مشرق کو رخ کر لیا تھا۔ طویل وقفے کے بعد جواب آیا کہ کپتان صاحب نے کہا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ مزید دو گھنٹے ہم گھنے جنگلات اور گھاس کے میدانوں سے گزرے اور پھر میں نے دوسرا پیغام بھجوایا کہ سب رک جائیں، میں اس سے بات کرنے آ رہا ہوں۔ روانگی کے وقت سے ہم خاموش تھے اور میں خاموش اور تھکے ہوئے جوانوں کے پاس سے گزرتا ہوا آگے گیا جن میں سے کچھ گیلی زمین پر بیٹھے تھے تو کچھ نے درختوں سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔
فریڈی اور اینڈرسن چار رہنماؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔ جب فریڈی نےپوچھا کہ کیا بات ہے تو میں نے بتایا کہ جوان تو سب ٹھیک ہیں مگر باقی سب غلط ہے کہ ہم دائروں میں گھوم رہے تھے۔ جنگلات میں ساری زندگی رہنے کی وجہ سے مجھے سمتوں کا تعین کرنے کی عادت ہو گئی تھی اور یہ صلاحیت دن اور رات، ہر وقت بخوبی کام کرتی تھی۔ سفر کے شروع میں سمت کی تبدیلی اتنی ہی واضح تھی جتنی کہ دو گھنٹے قبل شمال سے مشرق کی سمت تبدیلی۔ اس کے علاوہ ایک گھنٹہ قبل جب میں نے رکنے کا پیغام بھجوایا تھا تو میں سیمل کے درخت کے نیچے تھا جس پر گدھ کا گھونسلہ بنا ہوا تھا اور پہلا پیغام بھجواتے وقت بھی میں اسی درخت کے نیچے تھا۔
ہمارے چار رہنماؤں میں سے دو بھنٹو تھے جو سلطانہ کے ساتھ رہ چکے تھے اور انہیں چند روز قبل ہردوار کے بازار سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہی کی معلومات پر اس حملے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ لوگ دو سال سے وقتاً فوقتاً سلطانہ کے ساتھ کام کر چکے تھے اور آج رات کی کامیابی پر ان کو چھوڑ دینے کا وعدہ تھا۔ دیگر دو افراد مقامی چرواہے تھے جو ساری عمر انہی جنگلوں میں مویشی چراتے رہے تھے اور سلطانہ کو روزانہ دودھ بھجواتے تھے۔ چاروں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے سختی سے راستہ بھولنے سے انکار کیا۔ تاہم جب سختی کی گئی تو جھجھک کر بولے کہ اگر انہیں پہاڑ دکھائی دیں تو وہ راستہ بہتر جان سکیں گے۔ اندھیری رات میں تیس میل دور پہاڑ کسی طور بھی دکھائی نہیں دے سکتے تھے کہ دھند اترنا شروع ہو گئی تھی۔ اس طرح فریڈی کا شب خون کا سارا منصوبہ خطرے میں پڑ گیا۔ یہ بات ہمارے رہنما واضح کر چکے تھے کہ دن کےو قت اس سمت سے پیش قدمی ممکن نہیں تھی کہ اونچے درخت پر بنی مچان پر سلطانہ کے دو آدمی مستقل نگرانی کرتے تھے۔
ہمارے رہنما بھٹکنے کے بارے بتا چکے تھے اور اب ہمارے پاس ایک گھنٹہ بچا تھا کہ پھر روشنی ہونے لگ جاتی اور ابھی ہمیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ ہم مطلوبہ مقام سے کتنی دور ہیں۔ ہر گزرتا لمحہ ہماری ناکامی کے امکانات بڑھاتا جا رہا تھا۔ پھر مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا مطلوبہ سمت میں کوئی پگڈنڈی یا کوئی ایسی بڑی علامت ہے کہ جہاں سے وہ راستہ پہچان سکیں۔ انہوں نےبتایا کہ سلطانہ کے کیمپ سے ایک میل جنوب میں بیل گاڑیوں کا راستہ گزرتا ہے۔ فریڈی کی اجازت سے میں نے رہبری سنبھالی اور سارے جوان میرے پیچھے چل پڑے۔ میں نے رفتار تیز رکھی اور میرے علاوہ شاید سبھی یہ سوچ رہے تھے کہ ہمارا رخ واپسی کی جانب ہے۔ بارش رک گئی تھی اور تازہ ہوا کی وجہ سے بادل چھٹ گئے تھے اور مشرق میں روشنی نمودار ہونے لگی تھی میں بیل گاڑی والے راستے پر پہنچا۔ اسی راستے کے بارے ہمارے رہنماؤں نے کہا تھا۔ راستے کو دیکھتے ہی ان کی خوشی سے اندازہ ہو گیا کہ وہ سچ بول رہے ہیں اور وہ جان بوجھ کر راستہ نہیں بھولے۔ یہاں سے انہوں نے رہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا اور ایک میل دور جا کر انہوں نے جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی سنبھالی۔ نصف میل آگے جا کر تیس فٹ چوڑی ندی آئی اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ ہمیں یہ ندی عبور نہیں کرنی ہوگی۔ ترائی کی ندیوں سے مجھے ہمیشہ خوف آتا ہے کہ ان کے کناروں اور بہاؤ میں بڑے اژدہے دیکھے ہیں۔ ہمارا راستہ اس ندی کے دائیں کنارے کو مڑا جہاں ہمارے کندھوں تک گھاس آ رہی تھی۔ چند سو گز آگے جا کر ہمارے رہنما آہستہ ہوگئے اور مسلسل بائیں جانب دیکھنے لگے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم قریب پہنچ رہے ہیں۔ اب روشنی ہو چکی تھی اور سورج درختوں سے بلند ہو گیا تھا۔ اب مچان سے دیکھ لیے جانے کا پورا امکان تھا۔ اچانک اگلا بندہ زمین پر بیٹھ گیا اور اس کا ساتھی بھی بیٹھ گیا۔ پھر اس نے مڑ کر ہمیں بلایا۔
سب کو رکنے کا اشارہ کر کے فریڈی، اینڈرسن اور میں احتیاط سے آگے پہنچے۔ ان کے پاس لیٹ کر ہم نے گھاس سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک بڑے درخت کی بالائی شاخوں پر زمین سے تیس یا چالیس فٹ بلندی پر مچان بنی ہوئی تھی۔ مچان پر دو آدمی تھے جن میں ایک کا دائیاں شانہ ہماری جانب تھا اور وہ حقہ پی رہا تھا جبکہ دوسرا بندہ پشت کے بل لیٹا ہوا تھا۔ یہ درخت عین اس جگہ تھا جہاں گھاس کا میدان اور جنگل ملتے تھے۔ رہنماؤں کے بقول سلطانہ کا کیمپ مزید تین سو گز جنگل کے اندر تھا۔
پہلا خیال تو یہ تھا کہ ہم جہاں لیٹے تھے، وہاں بیس گز چوڑی اونچی گھاس کی پٹی تھی جو سیدھا نہر تک جاتی تھی۔ ہم لوگ تھوڑا پیچھے جا کر ندی عبور کرتے اور مخالف سمت سے سلطانہ کے کیمپ کو پیش قدمی کرتے مگر رہنماؤں نے بتایا کہ ایسا ممکن نہیں۔ ندی بہت گہری تھی اور دوسرے کنارے پر دلدل بھی تھی۔ واحد امکان یہی تھا کہ ہم پورے دستے کو اس گھاس سے گزارتے مگر نگران کسی وقت بھی ہماری جانب دیکھ سکتے تھے۔
فریڈی کے پاس سروس ریوالور تھا اور اینڈرسن غیر مسلح۔ پورے دستے میں میں واحد بندہ تھا جس کے پاس رائفل تھی۔ پولیس والوں کے پاس بارہ بور کی بندوقیں اور بک شاٹ یعنی گراپ والے کارتوس تھے جو ساٹھ سے اسی گز تک موثر ہوتے ہیں۔ سو ان دو چوکیداروں سے مجھے ہی نپٹنا تھا۔ رائفل کی آواز سلطانہ کے کیمپ تک جاتی تو سہی مگر ہمارے رہنماؤں کا خیال تھا کہ جب رائفل کی آواز سننے کے بعد چوکیدار کیمپ نہ پہنچے تو پھر کیمپ سے صورتحال جاننے کے لیے بندے بھیجے جائیں گے۔ ان کے خیال میں یہ وقفہ ہمیں محاصرے کے لیے درکار وقت دے سکتا تھا۔
مچان پر بیٹھے دونوں بندے عادی مجرم اور قاتل تھے اور اپنی رائفل سے میں چاہتا تو ایک کے ہاتھ سے حقہ اور دوسرے کے جوتے کی ایڑی اڑا دیتا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچتا مگر کسی انسان کو قتل کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ اس لیے میں نے متبادل تجویز پیش کی، فریڈی کی اجازت سے میں چھپتا چھپاتا ان کی طرف جاتا ہوں جو کہ میرے آسان کام تھا کیونکہ جنگل کی اونچی گھاس اس درخت تک پھیلی ہوئی تھی اور شبنم نچڑ رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں مچان پر قبضہ کر لیتا اور فریڈی کے ساتھی محاصرے کا کام کر لیتے۔ پہلے پہل فریڈی نے ہچکچاہٹ دکھائی کہ مچان پر دو بندوقیں بھی تھیں، پھر اس نے اجازت دے دی۔ میں فوراً روانہ ہو گیا کہ رہنماؤں نے بتایا کہ چوکیداروں کی تبدیلی کا وقت ہو چکا تھا۔
ایک تہائی راستہ طے ہو چکا تو میں نے اپنے پیچھے آہٹ سنی اور مڑ کر دیکھا کہ اینڈرسن بعجلت چلا آ رہا تھا۔ اینڈرسن اور فریڈی کے درمیان کیا بات چیت ہوئی تھی، اس بارے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ دونوں بہترین دوست تھے۔ خیر، اینڈرسن میرے ساتھ رہنے پر مصر تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ جنگل میں خاموشی سے نہیں گزر سکتا سو اس بات کا کافی امکان تھا کہ مچان والے بندے آہٹ سن کر ہمیں دیکھ لیتے یا نئے آنے والے چوکیدار ہمیں دیکھ لیتے یا یہ بھی ممکن تھا کہ درخت کے پاس چاروں چوکیدار ایک ساتھ کھڑے ملتے۔ نہتا ہونے کی وجہ سے اینڈرسن اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ہوتا مگر پھر بھی میری خاطر وہ آن پہنچا۔ اینڈرسن سے زیادہ ضدی کوئی نہیں۔
مایوسی کی حالت میں میں نے واپسی کا سفر اختیار کیا تاکہ فریڈی کی مدد لے سکوں۔ فریڈی اس دوران مجھے اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کر چکا تھا (بعد میں مجھے پتہ چلا کہ بھنٹو رہنماؤں نے بتایا تھا کہ مچان والے چوکیداروں کا نشانہ بہت عمدہ ہے) اور جب اس نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو اس نے حملے کا حکم دے دیا۔
پچاس یا اس سے زیادہ افراد کھلا میدان عبور کر چکے تھے اور سب سے آگے والے کیمپ سے ۲۰۰ گز دور تھے کہ ایک پرجوش جوان کانسٹیبل نے مچان کو دیکھتے ہی اس پر اپنی بندوق سے گولی چلا دی۔ مچان پر موجود چوکیدار ایک لمحے میں زمین پر پہنچ گئے اور وہاں بندھے گھوڑوں کو کھول کر ہوا ہو گئے۔ اب چونکہ خاموشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے فریڈی نے اپنی بلند آواز میں حملے کا حکم دے دیا۔ ایک سیدھی قوس کی شکل میں ہم سب کیمپ جا پہنچے۔
کیمپ چھوٹے سے قطعے پر بنا تھا اور میں تین خیمے اور ایک گھاس پھونس سے بنا جھونپڑا تھا جو باورچی خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ایک خیمے میں آٹا، چاول، دال اور چینی کی بوریوں کے علاوہ گھی کے ڈبے، دو بڑے ڈبوں میں بارہ بور کے کئی ہزار کارتوس بھی تھے اور گیارہ بندوقیں ڈبوں میں بند تھیں۔ دیگر دو خیمے بطور خوابگاہ استعمال ہوتے تھے جہاں کپڑے اور کمبل وغیرہ بکھرے ہوئے تھے۔
باورچی خانے کے پاس ہی ایک درخت سے تین کھال اتری بکریاں ٹنگی ہوئی تھیں۔ عین ممکن تھا کہ چوکیداروں کی آمد پر گھبرا کر کچھ لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہی بھاگ کر کیمپ کے پاس موجود گھاس میں چھپ گئے ہوں، سو ایک لمبی قطار کی کل میں جوانوں کو جنگل کی تلاشی کا حکم دیا گیا۔ یہ تلاشی ہربرٹ اور اس کے جوانوں کے مقام تک جانی تھی۔ جب تک قطار بنتی، میں نے اس کیمپ کے گرد چکر لگا کر قدموں کے نشانات تلاش کیے۔ دس بارہ افراد ننگے پیر بھاگتے ہوئے پاس موجود نالے میں گھسے تھے۔میں نے فریڈی سے کہا کہ چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ نشان کہاں جاتے ہیں۔ نالہ پندرہ فٹ چوڑا اور پانچ فٹ گہرا تھا اور فریڈی اور اینڈرسن کے ہمراہ میں اس کے کنارے کنارے چل پڑا۔ دو سو گز آگے جا کر پتھریلی سطح آئی جہاں نشانات گم ہو گئے۔ اس جگہ سے آگے نالہ پھیل جاتا تھا اور جہاں ہم کھڑے تھے، اس کے مقابل دوسرے کنارے پر برگد کا ایک بہت گھنا درخت تھا جس کے کئی تنے تھے اور شاخیں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ مجھے یہ جگہ چھپنے کے لیے انتہائی مناسب نظر آئی۔ کنارے پر پہنچ کر دیکھا تو وہ میری تھوڑی تک آتا تھا۔ میں نے چڑھنے کی کوشش کی۔ کنارے پر گرفت کے لیے کوئی چیز نہیں تھی اور کنارے میں قدم جمانے کی گنجائش نہیں تھی کہ مٹی بہت بھربھری تھی۔ میں ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ تھوڑا آگے جا کر کنارے پر چڑھوں اور پھر لوٹ کر اس جگہ کو دیکھوں کہ اچانک کیمپ کی سمت سے کئی بندوقوں کی آواز آئی۔ ہم نے بھاگم بھاگ کیمپ کا رخ کیا تو دیکھا کہ ایک حوالدار کو سینے میں بندوق کے چھرے لگے ہیں اور اس کے پاس ہی ایک ڈاکو پڑا تھا جس کی دونوں ٹانگوں پر بندوق کے چھرے لگے تھے۔ حوالدار درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور اس کی چھاتی پر بائیں جانب خون کا بڑا نشان تھا۔ فریڈی نے اپنی چھوٹی بوتل کھول کر حوالدار کے منہ سے لگائی مگر حوالدار نے اپنا منہ موڑ کر کہا، "صاحب، یہ شراب ہے، میں نہیں پی سکتا۔" جب ہم نے اصرار کیا تو وہ بولا، "ساری عمر میں نے شراب نہیں چکھی۔ اب میں اپنے ہونٹوں پر شراب لے کر خالقِ حقیقی سے کیسے ملوں؟ مجھے پیاس لگی ہے، تھوڑا سا پانی پلا دیں۔" اس کا بھائی ساتھ ہی کھڑا تھا کسی نے اپنا ہیٹ اتار کر اسے دیا جو وہ بھاگ کر ندی کے گدلے پانی سے بھر لایا۔ یہی ندی پہلے ہمارے لیے مشکلات کا سبب دکھائی دیتی تھی۔ اس کے زخم کا سبب ایک گراپ بنا تھا اور جب میں نے اسے کھال کے نیچے ٹٹولنے کی کوشش کی تو نہیں ملا۔ میں نے کہا، "حوالدار صاحب، حوصلہ رکھو۔ نجیب آباد کا ڈاکٹر تمہیں ٹھیک کر دے گا۔" مسکراتے ہوئے وہ بولا، "صاحب، میں حوصلہ رکھے ہوئے ہوں۔ مگر کوئی ڈاکٹر میرا علاج نہیں کر سکتا۔"
ڈاکو کو شراب کی کوئی ممانعت نہیں تھی سو اس نے فوراً ہی بوتل خالی کر دی۔ شاید اسے اس کی ضرورت بھی تھی کہ بارہ بور کے گراپ بہت قریب سے لگے تھے۔
سلطانہ کے کیمپ سے سامان لے کر دو سٹریچر بنائے گئے اور پولیس کے جوانوں نے ذات پات کو بھلا کر اس نچلی ذات والے ڈاکو اور حوالدار کو اٹھایا اور ان کے ساتھ اضافی بندے بھی تھے۔ یہ جماعت جنگلوں سے ہوتی ہوئی بارہ میل دور نجیب آباد کے ہسپتال کو روانہ ہو گئی۔ ڈاکو تو راستے میں ہی صدمے اور جریانِ خون سے مر گیا اور حوالدار ہسپتال میں داخلے کے چند منٹ بعد فوت ہوا۔ تلاشی کا کام ختم کر دیا گیا۔ ہربرٹ کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ سلطانہ کو اس کی خبر پہلے مل چکی تھی اور کسی بھی ڈاکو نے ان کی قطار کا رخ نہیں کیا۔ انتہائی احتیاط سے منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد بیکار گئے جبکہ کسی کی کوئی غلطی بھی نہیں تھی۔ ہمارے ہاتھ محض سلطانہ کا سامان اور چند بندوقیں لگیں اور دو جانیں ضائع ہوئیں۔ ایک بیچارہ غریب آدمی جو نجیب آباد کے قلعے میں قید سے تنگ آ کر فرار ہوا اور زندہ رہنے کے واحد طریقے کو اپنانے کے بعد اب ہلاک ہوا اور اس کی بیوہ نجیب آباد کے قلعے میں سوگ منائے گی۔ دوسرا بندہ جس کے افسران اس کو پسند کرتے اور اس کے ماتحت اس سے محبت کرتے تھے اور اس کی بیوہ کی دیکھ بھال سرکاری فریضہ بن گئی تھی اور وہ اپنے اصول کی خاطر مرا، ورنہ چاہتا تو وہ شراب پی لیتا اور عین ممکن تھا کہ شراب اسے اتنی توانائی پہنچاتی کہ وہ جراحی تک زندہ رہتا۔
تین دن بعد فریڈی کو سلطانہ کا خط ملا جس میں اس نے پولیس کے پاس اسلحے کی کمی کا مذاق اڑایا تھا اور پیشکش کی تھی کہ آئندہ پولیس کو جس اسلحے کی ضرورت ہو، سلطانہ کو بتا دیا کرے تاکہ مطلوبہ اسلحے کا بندوبست پیشگی ہو سکے۔
اسلحے والا نکتہ فریڈی کی دکھتی رگ تھا۔ اسلحے کے بارے تمام اسلحہ برداران اور تاجران کو سختی سے احکامات دیے گئے تھے مگر سلطانہ کے علاقے میں بسنے والا کوئی شخص اس کے حکم پر اسلحہ دینے سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ ورنہ اس کے گھر ڈکیتی پڑتی اور عین ممکن ہے کہ اسے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے۔ اس لیے حکومتی ناراضگی کی کسی کو پروا نہیں تھی۔ سو یہ بات فریڈی کو سخت ناگوار گزری کہ وہ خصوصی طور پر ڈکیتی کے انسداد کے محکمے کا سربراہ تھا۔
پناہ گاہ چِھن جانے کے بعد ترائی اور بھابھر کے کونے کھدرے میں پناہ کی تلاش میں سرگرداں سلطانہ کے ساتھ اب محض چالیس بندے رہ گئے تھے جو پوری طرح مسلح تھے۔ ڈاکوؤں نے اسلحے کی کمی بخوبی پوری کر لی تھی۔ فریڈی کا خیال تھا کہ اب سلطانہ کی گرفتاری قریب تھی۔ سو حکومت سے منظوری کے بعد فریڈی نے سلطانہ کو ملاقات کے لیے بلوایا کہ وہ جب اور جہاں چاہے، فریڈی ملنے کو تیار ہے۔ حکومت نے اس شرط پر اجازت دی تھی کہ اس کے نتائج و عواقب کی ذمہ داری فریڈی پر ہوگی۔ سلطانہ نے دعوت قبول کر لی اور مطلوبہ جگہ اور وقت کے بارے بھی بتا دیا۔ یہ بھی طے ہوا کہ دونوں اکیلے اور غیر مسلح ہو کر آئیں گے۔ مطلوبہ وقت پر کھلے قطعے کے ایک جانب سے فریڈی نمودار ہوا اور دوسرےس ے سلطانہ۔ دونوں وسط میں موجود واحد درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور سلطانہ نے فریڈی کو تربوز پیش کیا۔ دونوں کی ملاقات دوستانہ تھی، جیسا کہ مشرق میں رہنے والے افراد جانتے ہیں۔ ایک بندہ توانائی سے بھرپور اور پوری حکومتی مشینری کے ساتھ تھا اور دوسرا غریب آدمی جس کے سر پر انعام مقرر تھا۔ ملاقات بلا نتیجہ رہی کہ سلطانہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے خلاف تھا۔ اسی ملاقات میں سلطانہ نے فریڈی کو غیرضروری خطرات مول لینے سے منع کیا۔ اس نے بتایا کہ حملے والے روز سلطانہ اور اس کے دس مسلح ساتھی اسی برگد کے درخت کے نیچے چھپے ہوئے تھے جہاں میں کنارے پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ انہوں نے تین صاحب آتے دیکھے تھے اور اگر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے والا صاحب کنارے پر چڑھ جاتا تو سلطانہ اور اس کے ساتھیوں کو تینوں صاحبوں کو گولی مارنی پڑتی۔
سو آخری مقابلے کا وقت آن پہنچا اور فریڈی نے ونڈہم اور مجھے ہردوار بلوا بھیجا تاکہ ہم اس کا ساتھ دے سکیں۔ سلطانہ اور اس کے بقیہ ساتھی اب بہت محتاط ہو گئے تھے اور ان کی رہائش اب نجیب آباد کے جنگلات کے عین وسط میں ایک باڑے میں تھی۔ فریڈی کا منصوبہ تھا کہ پورے دستے کو کشتیوں کی مدد سے دریائے گنگا سے گزار کر کسی مناسب مقام پر اتارا جائے اور اس باڑے کا محاصرہ کر لیا جائے۔ پچھلی مرتبہ کی طرح یہ حملہ بھی رات کو ہونا تھا۔ تاہم اس بار حملے کا وقت ایسا تھا کہ چودہویں کا چاند نکلا ہوتا۔
مطلوبہ روز تین سو افراد کے دستے کے ساتھ فریڈی کا عم زاد، ونڈہم اور میں بھی ساتھ روانہ ہوئے اور رات شروع ہو رہی تھی کہ ہم کشتیوں پر سوار ہوئے۔ یہ کشتیاں دریائے گنگا کے دائیں کنارے پہلے ہی ایک سنسان جگہ پر جمع تھیں۔ یہ مقام ہردوار سے چند میل نیچے تھا۔ میں اگلی کشتی میں تھا۔ سفر بخوبی شروع ہوا اور جب ہم بائیں کنارے سے نکل کر چھوٹی شاخ میں گھسے تو سفر کا انتہائی خطرناک مرحلہ شروع ہوا۔ خشکی سے ہٹ کر یہ تجربہ سب سے زیادہ خطرناک رہا۔ چند سو گز تک کشتی چاندنی میں چمکتے پانی پر پھسلتی رہی جس پر کوئی لہر یا موج نہیں تھی اور کناروں پر درختوں کے سائے پڑ رہے تھے۔
آہستہ آہستہ یہ شاخ تنگ سے تنگ تر ہوتی گئی اور ہمیں دور سے پانی کا شور بھی سنائی دینے لگا۔ ان کناروں پر میں نے بہت مرتبہ مچھلی کا شکار کیا تھا کہ مچھلی دریا کی نسبت ان شاخوں میں زیادہ پائی جاتی ہے اور آنے والی لہروں کے بارے سوچ سوچ کر مجھے ملاحوں کی ہمت پر حیرت ہونے لگی کہ وہ کیسے اپنی جان اور کشتی کو خطرناک مقام کو لے جا رہے ہیں۔ یہ دس کشتیاں دریائے گنگا پر سامان کی منتقلی کے لیے بہترین تھیں مگر اس تنگ شاخ میں جہاں پانی کا بہاؤ تیز ہے، کو سنبھالنا انتہائی دشوار کام تھا۔ جگہ جگہ تہہ میں موجود پتھروں سے کشتی کا پیندا ٹکراتا تو خوف آتا کہ کہیں کشتی الٹ یا ڈوب نہ جائے۔ کپتان اور ملاح مسلسل کشتی کو پتھریلے کناروں سے دور اور بہاؤ کے وسط میں رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور جب بھی کشتی پہلو کے بل دریا کے پیندے سے ٹکراتی تو ڈر لگتا کہ الٹ نہ جائے۔ بھیانک خواب ختم ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ رات بہت طویل محسوس ہوئی تھی کہ ہمیں بیس میل کا سفر طے کرنا تھا اور زیادہ تر حصہ پانی ساکن نہیں تھا، مگر پھر ایک ملاح بائیں کنارے پر اترا اور کشتی کو رسی کی مدد سے ایک درخت سے باندھ دیا۔ ساری کشتیاں یکے بعد دیگرے اس جگہ کنارے سے باندھی جانے لگیں۔
سارا دستہ اترا اور سفر کے دوران لگنے والے تمام زخموں اور چھالوں کی مرہم پٹی ہو گئی تو ملاحوں کو پانچ میل مزید نیچے جا کر انتظار کرنے کا حکم ملا۔ ہم ایک قطار کی شکل میں نصف میل انتہائی دشوار گزار ایلیفنٹ گھاس سے گزرے۔ گھاس کی اونچائی دس سے بارہ فٹ تھی اور دریائی کہرے اور شبنم سے جھکی پڑی تھی۔ سو گز بھی طے نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے کپڑے مکمل طور پر بھیگ گئے۔ ہمارے سامنے اچانک پانی کا بہت بڑا تالاب آ گیا۔ ہم نے سوچا کہ یہ دریائے گنگا کا پرانا بہاؤ ہوگا۔ سو فریڈی نے کچھ لوگوں کو دائیں اور کچھ کو بائیں جانب بھیجا تاکہ وہ جا کر عبور کرنے کا کوئی مقام تلاش کریں۔ دائیں جانب والے پہلے آئے اور بولا کہ چوتھائی میل دور "جھیل" کا بہاؤ تنگ ہو گیا تھا اور اس جگہ پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ جلد ہی دوسری جماعت بھی واپس آ گئی اور بولی کہ جھیل کے بالائی سرے پر دریا کا بہاؤ ناقابلِ عبور ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جان بوجھ کر یا غلطی سے، ملاح ہمیں ایک جزیرے پر چھوڑ گئے تھے۔
کشتیاں چلی گئیں اور دن نکلنے میں زیادہ وقت نہیں رہا، سو ہم نے دائیں جانب رخ کیا تاکہ جا کر دیکھیں کہ کہیں سے دریا عبور ہو سکتا ہے یا نہیں۔ جہاں بہاؤ تنگ ہو گیا تو ایک جگہ اسے عبور کرنا ممکن دکھائی دینے لگا۔ اس سے اوپر پانی کی گہرائی بیس فٹ اور نیچے بہاؤ بہت تیز تھا۔ جتنی دیر ہم کھڑے ہو کر بہاؤ کا جائزہ لیتے، ونڈہم نے کپڑے اتار لیے۔ میں نے اسے کہا کہ کپڑے تو پہلے ہی پوری طرح بھیگے ہیں، اتارنے سے کیا فائدہ تو اس نے جواب دیا کہ وہ کپڑوں کے بارے نہیں بلکہ اپنی جان کے بارے فکرمند ہے۔ تمام کپڑے اتار کر اس نے اپنی قمیض میں باندھ کر گٹھڑی بنا کر سر پر رکھی اور پاس کھڑے ایک جوان کانسٹیبل کا بازو پکڑ کر بولا، "چلو۔"
کمشنر صاحب کے ساتھ ڈوبنے کی عزت ملنے پر وہ کانسٹیبل ہکا بکا رہ گیا اور کچھ نہ کہہ سکا۔ ونڈہم نے اس کے بازوؤں میں بازو ڈالے اور دونوں پانی میں اتر گئے۔ جتنی دیر وہ دریا عبور کرتے، ہمارے سانس رکے رہے۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا اور کبھی ان کی کمر تک تو کبھی ان کی بغلوں تک آ جاتا۔ اگر ان کا پیر پھسلتا تو آگے پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ وہ زندہ نہ بچ سکتے۔ ثابت قدمی سے دونوں بہادر دوسرے کنارے پر پہنچ گئے حالانکہ ایک ہماری جماعت کا معمر ترین اور دوسرا شاید سب سے کم عمر تھا۔ ان کو بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچتا دیکھ کر ہماری جان میں جان آئی۔ اگر ہمیں خاموشی کا حکم نہ ہوتا تو ہمارے خوشی بھرے نعرے بلا مبالغہ بیس میل دور ہردوار تک سنائی دیتے۔
جب دو افراد دریا عبور کر سکتے تھے تو باقی تین سو کو کیا مشکل تھی۔ زنجیر سی بنا دی گئی اور بعض اوقات کچھ لوگوں کے پیر پھسلتے رہے، مگر زنجیر قائم رہی اور پورا دستہ بعافیت دوسرے کنارے پہنچ گیا۔ وہاں ہمیں فریڈی کا ایک انتہائی قابلِ بھروسہ مخبر ملا جس نے ابھرتے سورج کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور کھلے قطعے سے گزرتے ہوئے تین سو آدمی فوراً مقامی چرواہوں کو دکھائی دے جائیں گے۔ واحد حل واپس جزیرے کو جانا تھا۔ اس بار واپسی پر زیادہ دقت نہیں ہوئی اور ہم جزیرے کو پہنچ گئے۔
ایلیفنٹ گھاس میں پہنچ کر ہم نے اپنے کپڑے خشک کیے کہ سورج کی حدت اب تیز ہو گئی تھی۔ پھر فریڈی نے اپنے تھیلے سے ایک مرغی اور ڈبل روٹی نکالی اور ہم نے اس سے پورا انصاف کیا۔ میں کسی وقت اور کہیں بھی سو سکتا ہوں، سو ایک ریتلے گڑھے میں آرام سے سو گیا۔ سہ پہر کو میری آنکھ چھینک کی آواز سے کھلی۔ جب اپنے ساتھیوں کے قریب گیا تو دیکھا تینوں کو الرجی یعنی ہے فیور ہو چکا ہے۔ ہم جس گھاس میں تھے، اس سے زردانے نکلتے تھے اور صبح جب ہم یہاں سے گزرے تو شبنم کی وجہ سے یہ گیلے تھے۔ مگر دن میں خشک ہو کر جب یہ اڑنا شروع ہوئے تو میرے ساتھیوں کا حشر برا کر دیا۔
ہندوستانی افراد کو یہ بیماری نہیں ہوتی اور مجھے بھی کبھی نہیں ہوئی۔ مگر اس روز میں نے جب پہلی بار کسی کو یہ بیماری ہوتے دیکھی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ فریڈی کا عم زاد جو بنگال میں پلانٹر تھا، کی حالت سب سے خستہ تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا اور اتنی سوج گئی تھیں کہ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ فریڈی تھوڑا بہت دیکھ تو سکتا تھا مگر اس کی چھینکیں نہیں رک رہی تھیں اور جب بھی وہ چھینکتا، دھرتی ہل جاتی۔ ونڈہم سخت جان تھا مگر اس کا رومال اس کی آنکھوں اور ناک پر ہی تھا۔ سوچیے کہ پہلے کھلی کشتی کا سفر، پھر بیابان جزیرے میں اترنا اور پھر تیز بہاؤ والے دھارے کو دو بار عبور کرنا مشکل تھا تو اب ہماری مشکلات کا عروج ہو گیا۔ تین اندھوں کو چلا کر ہردوار تک پہنچانا اور اپنے پیچھے تین سو سپاہیوں کے ساتھ یہ سفر کرنے کا خیال ہی ڈرا رہا تھا۔ خیر، شام ہوتے ہوتے ان کی حالت بہتر ہوتی گئی اور ہم نے تیسری بار دھارا عبور کیا تو فریڈی اور ونڈہم ٹھیک ہو چکے تھے اور فریڈی کے عم زاد کو اب دکھائی دینے لگ گیا تھا۔
فریڈی کا مخبر اور ایک رہنما ہمارے منتظر ملے اور ہمیں خشک بہاؤ سے ہوتے ہوئے لے چلے۔ یہ بہاؤ سو گز چوڑا تھا۔ چاند نکل آیا تھا اور اب دور تک بخوبی دکھائی دیتا تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی ہمیں ایک ہاتھی دکھائی دیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس علاقے میں ایک مست ہاتھی موجود ہے۔ اس کے دانت چاندنی میں چمک رہے تھے اور کان آگے کو پھیلے ہوئے اور ہاتھی شور مچا رہا تھا۔ ہمارے رہنما نے بتایا کہ یہ ہاتھی کئی بندے مار چکا ہے اور اب ہماری خیر نہیں۔ پہلے پہل تو ایسا لگا کہ ہاتھی حملہ کرے گا کہ اس نے سونڈ اٹھا کر چند قدم ہماری جانب اٹھائے۔ پھر مڑ کر جنگل میں شور مچاتا غائب ہو گیا۔
ایک میل آگے جا کر ایک ندی دکھائی دی اور اس جگہ ہمارے رہنما نے ہمیں ایک فائر ٹریک دکھایا۔ یہاں سفر بہت آسان ہو گیا کہ قدموں تلے پستہ قامت ہری گھاس تھی اور چاند خوب روشن تھا۔ اس خوبصورت جنگل میں عین ممکن تھا کہ ہم اپنا مقصد بھول جاتے۔ جلی ہوئی گھاس کے ایک قطعے کو پہنچے تو ٹنڈ منڈ درخت پر موجود مور خطرے کا اعلان کرنے لگا۔ پھر دو تیندوے جنگل سے نکل کر فائر ٹریک پر آئے اور ہمیں دیکھ کر واپس جنگل میں غائب ہو گئے۔ یہاں تک میں اپنے عنصر سے باہر تھا مگر ہاتھی کو دیکھتے ہی میں واپس اپنے عنصر کو لوٹ آیا۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ ہاتھی محض تجسس کی وجہ سے ہمیں دیکھنے آیا تھا اور اس کی نیت بری نہیں تھی اور پھر مور جنگل کے باسیوں کو خطرے سے آگاہ کرنے لگا اور پھر تیندوے دکھائی دیے۔
مشرق سے مغرب کو جانے والے راستے سے اتر کر رہنما ہمیں شمال کو ایک میل لے گیا اور یہ راستہ جھاڑیوں اور درختوں پر مشتمل تھا پھر ہمارے سامنے ایک چھوٹی سی ندی آئی جس پر برگد کا بہت بڑا درخت چھایا ہوا تھا۔ اس جگہ ہمیں رکنا تھا تاکہ ہمارا رہنما باڑے کو جا کر اپنے بھائی سے معلومات لے آئے۔ طویل انتظار اور بھوک سے ہمارا برا حال تھا کہ ہم نے مرغی کے علاوہ اور کچھ نہیں کھایا تھا اور اب نصف شب ہو رہی تھی۔ مزید یہ کہ میں واحد بندہ تھا جو تمباکو نوشی کرتا تھا اور میرے سگریٹ ختم ہو گئے تھے۔ صبح سے کچھ دیر پہلے رہنما واپس لوٹا اور بولا کہ سلطانہ اور اس کے ساتھی جو کہ اب نو بچے تھے، پچھلی شام کو ہردوار کی جانب ڈکیتی کرنے گئے تھے اور کسی وقت بھی لوٹ سکتے ہیں۔
چونکہ ہمیں بہت بھوک لگی تھی، رہنما کھانے کا انتظام کرنے چلا گیا اور بتا گیا کہ یہ علاقہ سلطانہ کا ہے، سو کوئی شخص برگد کی چھاؤں سے باہر نہ نکلے۔
ایک اور طویل ترین دن گزرا۔ ونڈہم کے ساتھ یہ آخری دن تھا کہ کماؤں کے کمشنر کے علاوہ وہ ریاست تہری کا پولیٹکل ایجنٹ بھی تھا اور دو روز بعد اسے نریندرا نگر کے راجہ سے ملنے جانا تھا۔ رات کو گھاس سے بھری بیل گاڑی آئی۔ گھاس کو ہٹایا تو نیچے سے چالیس پاؤنڈ گڑ اور بھنے ہوئے چنوں کے چند تھیلے نکلے۔ یہ سب کھانا جوانوں میں تقسیم کیا گیا۔ رہنما کو صاحب بھی یاد رہے تھے اور جانےس ے قبل اس نے بوسیدہ کپڑے میں لپٹی چند روٹیاں فریڈی کو تھما دیں۔ ہر موضوع پر گفتگو کے بعد ہم زمین پر لیٹ کر ہردوار میں گرم بستروں اور عمدہ کھانوں کے تصور میں کھوئے ہوئے تھے کہ مجھے چند سو گز دور تیندوے کے ہاتھوں چیتل کے مرنے کی آواز آئی۔ یہاں اب مناسب کھانے کا موقع پیدا ہو گیا کہ چپاتیوں نے میری بھوک مٹانے کی بجائے اس میں اضافہ ہی کیا تھا۔ میں اٹھا اور فریڈی سے اس کی ککری مانگی۔ اس کا پہلا سوال تھا کہ کیوں؟ میں نے اسے بتایا کہ تیندوے نے ابھی جو چیتل مارا ہے، میں اس کی پچھلی ٹانگیں کاٹ کر لاتا ہوں۔ فریڈی بولا، "کیا کہہ رہے ہو؟کون سا تیندوا اور کون سا چیتل؟" ظاہر ہے کہ اس نے چیتل کی آواز تو سنی تھی مگر کیا چیتل سلطانہ کے آدمیوں کو دیکھ کر نہیں بول رہے جو ہمیں گھیرے میں لینے کے لیے آ رہے ہوں؟ دوسرا اگر فرض کریں کہ میری بات درست بھی ہو تو بھی میں کیسے تیندوا کو بھگا کر چیتل کی ٹانگیں کاٹ کر لاتا کہ ہم باڑے کے اتنے قریب تھے کہ بندوق استعمال نہیں ہو سکتی (میں اس بار جان بوجھ کر رائفل گھر رکھ کر آیا تھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کب اور کس مقصد کے لیے میری رائفل استعمال ہوگی)۔ اس نے سارے خیال کو بکواس قرار دے دیا۔ مایوسی سے میں پھر جا کر لیٹ گیا۔ اب جو بندہ جنگل کی زبان سے واقف ہی نہیں ہے، اسے میں کیسے سمجھاتا کہ چیتل انسانوں کو دیکھ کر نہی بلکہ اپنے ساتھی کو تیندوے کے ہاتھون مرتا دیکھ کر بول رہے تھے اور تیندوے سے اس کے شکار کا کچھ حصہ لانا ہرگز کسی طور خطرناک نہ ہوتا۔
رات سکون سے گزری اور اگلی صبح نور کے تڑکے میں ونڈہم کے ساتھ ہردوار پہنچا۔ ہم نے دریائے گنگا کو بھیم گوڑا ڈیم سے عبور کیا اور ڈیم کے بنگلے پر کھانا کھانے کے بعد ہم نے شام کو ڈیم کے اوپر مچھلی کا یادگار شکار کھیلا۔ اگلی صبح جب ونڈہم مہاراجہ نریندرا سے ملنے روانہ ہونے لگا اور میں اپنے ساتھیوں کے لیے کھانے کا سامان جمع کر رہا تھا کہ ہرکارے نے اطلاع پہنچائی کہ فریڈی نے سلطانہ کو گرفتار کر لیا ہے۔
سلطانہ گزشتہ شام کو واپس لوٹا تھا۔ فریڈی کے جوانوں نے محاصرہ کر لیا اور فریڈی نے اندر جھانکا تو وہاں واحد چارپائی پر ایک بندہ چادر لپیٹے سویا دکھائی دیا۔ فریڈی اس پر بیٹھ گیا۔ اتنا وزن ہونے کی وجہ سے سلطانہ ہل بھی نہ سکا اور نہ ہی اپنی قسم پوری کر سکا کہ وہ زندہ کبھی گرفتار نہیں ہوگا۔
جھونپڑے میں چھ ڈاکو موجود تھے جن میں سے چار گرفتار ہوئے اور باقی دو بابو اور پیلوان پولیس کے محاصرے کو توڑ کر بھاگے۔ ان پر گولیاں بھی چلائی گئیں جو انہیں نہ روک سکیں۔
سلطانہ نے کتنے قتل کیے، اس کے بارے مجھے علم نہیں، مگر اس پر مقدمہ اس قتل کا چلا جو اس کے ایک ساتھی نے لام چور کے نمبردار کے مزارع کا کیا تھا۔ سلطانہ نے جیل میں فریڈی کو بلوایا اور اپنی بیوی، بیٹے اور اپنے پالتو کتے کی دیکھ بھال کی درخواست کی۔
فریڈی نے کتے کو پال لیا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ فریڈی نے سلطانہ کے گھر والوں کا پوری طرح خیال رکھا۔ بعد میں فریڈی شہنشاہِ انگلستان کے ہاتھوں C.I.E. بننے والا ہندوستانی پولیس سروس میں سب سے کم عمر افسر بنا۔ چند ماہ بعد فریڈی پولیس ویک میں شرکت کرنے مراد آباد پہنچا۔ یہاں ایک دعوت بھی تھی جس میں پورے صوبے کے پولیس افسران کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس کھانے کے دوران فریڈی کو ایک بیرے نے کان میں بتایا کہ اس کا اردلی بلا رہا ہے۔ سلطانہ کے تعاقب کے دوران یہی اردلی فریڈی کے ساتھ تھا۔ چونکہ شام کو اسے فرصت تھی، اس نے مراد آباد ریلوے سٹیشن تک چہل قدمی کی۔ اس جگہ ایک ٹرین آئی اور وہ ایسے ہی مسافروں کو اترتے دیکھنے لگا۔ اس کے ساتھ والے ڈبے سے دو مسافر اترے۔ ان میں سے ایک مسافر نے بعجلت اپنے منہ پر رومال رکھا مگر اردلی نے دیکھ لیا کہ اس بندے کی ناک میں کپاس رکھی ہوئی تھی۔ اردلی نے اس بندے پر توجہ رکھی اور جب وہ دونوں ایک کونے میں اپنے ڈھیروں سامان کے ساتھ آرام سے بیٹھ گئے تو اردلی نے اکہ منگوایا اور فریڈی کو بتانے آن پہنچا۔
سلطانہ کے دو ساتھی بابو اور پہلوان جب باڑے سے فرار ہوئے تو ان پر گولی چلائی گئی تھی۔ اس کے کچھ دیر بعد نجیب آباد کی ڈسپنسری میں ایک بندہ اپنے ناک کا علاج کرانے آیا تھا کہ اس کی ناک بقول اس کے کتے کے کاٹنے سے زخمی ہوئی تھی۔ کمپاؤنڈر نے پولیس کو اطلاع دی کہ یہ زخم کتے کی بجائے چھرے کا لگ رہا تھا۔ پورے صوبے کی پولیس اب زخمی ناک والے کی تلاش میں تھی اور یہ بات بھی اہم تھی کہ سلطانہ کے گروہ میں زیادہ تر قتل بابو اور پیلوان نے ہی کیے تھے۔
اردلی کی بات سنتے ہی فریڈی کار میں سوار ہو کر سیدھا وہاں پہنچا۔ جب فریڈی کو جلدی ہو تو ٹریفک اور موڑ ختم ہو جاتے ہیں۔ سٹیشن میں اس نے فرار کے تمام راستوں پر پہریدار مقرر کیے اور خود جا کر ان دونوں سے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ ان کا جواب تھا وہ تاجر ہیں اور بریلی سے پنجاب کو جا رہے ہیں۔ فریڈی نے پوچھا کہ پھر وہ ایسی ٹرین پر کیوں سوار ہوئے جو مراد آباد رک جاتی ہے؟ جواب ملا کہ بریلی میں پلیٹ فارم پر دو ٹرینیں تھیں اور انہیں غلط ٹرین پر سوار کرایا گیا۔ جب فریڈی کو علم ہوا کہ دونوں مسافر بھوکے ہیں اور اگلی ٹرین صبح کو آئے گی تو فریڈی نے انہیں بنگلے پر چلنے کی دعوت دی۔ اس پر وہ ہچکچائے مگر پھر بولے، "جیسے آپ کی مرضی صاحب۔"
واپسی کا سفر سست رفتار سے طے ہوا اور فریڈی ان سے کرید کرید کر سوال کرتا رہا اور ہر سوال کا تسلی بخش جواب ملتا رہا۔ پھر ایک بندے نے پوچھا کہ کیا یہ یہاں کی روایت ہے کہ صاحب رات کو ریلوے سٹیشن کا چکر لگا کر مسافروں کو ساتھ لے جائیں جبکہ ان کا سامان وہیں چوروں کے رحم و کرم پر پڑا رہے؟ فریڈی کو علم تھا کہ وارنٹ کے بغیر اس کا یہ فعل اس کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اگر سلطانہ کے گرفتار ساتھی انہیں نہ پہچانتے تو فریڈی کے لیے مشکلات مزید بڑھ جاتیں۔ ابھی وہ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ فریڈی کے عارضی قیام والا بنگلہ آ گیا۔ تمام کتے فریڈی کو پسند کرتے ہیں اور سلطانہ کا کتا بھی اس سے بہت ہل گیا تھا۔ یہ عام دیہاتی کتا تھا جس میں ٹیریئر کا کچھ خون بھی پایا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نیچے اترے تو کتا سیدھا فریڈی کی جانب بھاگا اور قریب پہنچ کر حیرت سے رک گیا اور پھر پیلوان کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ فریڈی اور دونوں مسافر کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ اپنی قسمت سے آگاہ پیلوان نیچے بیٹھ کر کتے کو پیار کرتے ہوئے بولا، "اس وفادار گواہ کی موجودگی میں کیسے انکار ہو سکتا ہے ہم ہی آپ کے مطلوبہ آدمی ہیں صاحب۔"
معاشرہ جرائم پیشہ افراد سے تحفظ مانگتا ہے اور سلطانہ مجرم تھا۔ اس پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا گیا اور مجرم قرار پایا اور اس کو سزائے موت ملی۔ تاہم تین سال تک پوری حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے والے اس عام سے بندے کی میں ہمیشہ تعریف کروں گا اور اس کی بہادری کی تعریف کال کوٹھڑی کے نگران بھی کرتے تھے۔
میری خواہش ہے کہ قانون سلطانہ کو بیڑیاں پہنا کر عوام کے سامنے تماشا بنا کر نہ پیش کرتا اور وہ لوگ جو اس کے نام سے لرز جاتے تھے، اب اس کا مضحکہ اڑانے آتے تھے۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ اسے نرم سزا ملتی کہ اسے پیدا ہوتے ہی مجرم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے مقدمے میں شفافیت نہیں تھی اور جب وہ آزاد تھا، اس نے کبھی کسی غریب پر ظلم نہیں کیا تھا اور جب میں برگد کے درخت کے قریب تھا تو اس نے میری اور میرے دوستوں کی جان بخشی کی تھی۔ مزید یہ کہ جب فریڈی نے اسے ملاقات کو بلایا تو وہ چاقو یا ریوالور کی بجائے تربوز لے کر آیا تھا۔