انتساب پڑھ کر آپ شاید یہ پوچھیں کہ "ہندوستان کے غریب کون ہیں، جن کا ذکر ہو رہا ہے؟" "میرا ہندوستان سے کیا مراد ہے؟" یہ سوال مناسب ہیں۔ دنیا میں ہندوستانی کا لفظ ایک بہت بڑے جزیرہ نما علاقے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو شمال سے جنوب دو ہزار میل سے زیادہ لمبا اور مشرق سے مغرب تک اتنا ہی چوڑا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے تو شاید یہ لفظ اپنا مفہوم ادا کر دے مگر لوگوں کے حوالے سے ایسا کہنا ممکن نہیں۔ چالیس کروڑ انسان نسل، قبیلے اور ذات پات کے ذریعے یورپ سے کہیں زیادہ منقسم ہیں اور اس کے علاوہ مذہبی طور سے بھی ایک دوسرے سے انتہائی فرق ہیں۔ یہ نسل نہیں بلکہ مذہب تھا جس نے ہندوستان کی سلطنت کو دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم کیا۔
اب میں اس کتاب کے عنوان کی وجہ تسمیہ بیان کرتا ہوں۔
"میرا ہندوستان" میں، میں نے دیہاتی زندگی اور اس سے متعلق امور کے بارے بات کی ہے اور اس میں ان مقامات کا تذکرہ ہے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی بسر کی تھی اور جہاں میں نے کام کیا تھا اور ان سادہ لوح لوگوں کا بھی تذکرہ ملے گا جن کے درمیان میں نے لگ بھگ ستر سال بسر کیے۔ ہندوستان کے نقشے پر نظر ڈالیے۔ اس جزیرہ نما کا انتہائی جنوبی مقام راس کماری ہے اور پھر آپ اس سے اوپر دیکھتے جائیں حتیٰ کہ ہمالیہ کے عظیم الشان سلسلے تک پہنچ جائیں گے جو صوبجات متحدہ کے شمال میں ہے۔ یہاں آپ کو نینی تال دکھائی دے گا جو صوبجات متحدہ کے گرمائی صدر مقام کا درجہ رکھتا ہے اور اپریل سے نومبر تک یورپیوں اور امیر ہندوستانیوں سے بھرا رہتا ہے جو میدانی علاقوں کی گرمی سے جان چھڑانے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سردیوں میں محض چند مستقل افراد رہتے ہیں اور ان میں سے میں بھی ایک تھا۔
اب اس پہاڑی مقام سے ہٹ کر اپنی نظریں دریائے گنگا پر دوڑائیں جو الہ آباد، بنارس اور پٹنہ سے ہوتا ہوا سمندر کو گامزن ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو پٹنہ کے بعد موکمہ گھاٹ دکھائی دے گا جہاں میں نے ۴۱ سال کام کیا۔ میرے بیان کردہ واقعات انہی دو مقامات یعنی نینی تال اور موکمہ گھاٹ سے متعلق ہیں۔
بہت سارے پیدل راستوں کے علاوہ نینی تال تک باقاعدہ سڑک بھی جاتی ہے جس پر ہمیں فخر ہے کہ یہ پہاڑی سڑک پورے ہندوستان میں سب سے اچھی بنی ہوئی ہے اور سب سے اچھی طرح اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کاٹھ گودام میں جہاں ریل کی پٹڑی ختم ہوتی ہے، وہاں سے یہ سڑک شروع ہو کر بائیس میل تک گھنے جنگلوں سے گزرتی ہوئی ۴،۵۰۰ فٹ کی اونچائی چڑھتی اور آسان موڑوں پر گھومتی ہوئی نینی تال پہنچتی ہے۔ راستے میں بعض اوقات آپ کو شیر اور شیش ناگ بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔نینی تال ایک کھلی وادی ہے جو مشرق سے مغرب کی سمت پھیلی ہوئی ہے اور اس کے تین جانب پہاڑ ہیں جن میں سب سے بلند پہاڑ چینا ہے جو ۸،۵۶۹ فٹ بلند ہے۔
اس کا نچلا سرا کھلا ہے جہاں سے سڑک آتی ہے۔ وادی میں ایک جھیل بھی ہے جو دو میل سے تھوڑی زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ اس جھیل میں پانی بالائی سرے سے سارا سال آتا ہے اور اضافی پانی سڑک والے سرے سے نکل جاتا ہے۔ وادی کے بالائی اور نچلے حصے پر بازار ہیں اور اطراف کی پہاڑیوں پر رہائشی گھر، چرچ، اسکول، کلب اور ہوٹل پھیلے ہوئے ہیں۔ جھیل کے کنارے پر بوٹ ہاؤس، ایک ہندو مندر اور ایک انتہائی مقدس مقام ہے جس کو میرا پرانا دوست اور برہمن پجاری سنبھالتا ہے۔
ماہرینِ ارضیات اس جھیل کی ابتدا کے بارے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ بعض کے مطابق یہ گلیشیر اور لینڈ سلائیڈ سے بنی ہے تو بعض اسے آتش فشانی عمل کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق یہ جھیل تین قدیم گیانیوں اتری، پلاستیا اور پُلاہا نے بنائی تھی۔ سکندا پران نامی مقدس کتاب میں درج ہے کہ یہ تین گیانی چینا کی ڈھال پر پہنچے اور انہیں پینے کو پانی نہ مل سکا۔ اس لیے انہوں نے یہاں گڑھا کھود کر تبت کی ایک مقدس جھیل مناسرور سے پانی یہاں منتقل کر دیا۔ ان کے جانے کے بعد نینی دیوی آئی اور اس جھیل کے پانیوں میں رہنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جھیل سے نکلی ہوئی مٹی پر جنگل اگ آئے اور پھر پانی اور سبزے کے باعث جانور اور پرندے بھی بڑی تعداد میں آ کر رہنے لگے۔ دیوی کے مندر سے چار میل کے دائرے میں میں نے بہت دیگر جانوروں کے علاوہ شیر، تیندوے، ریچھ اور سانبھر بھی دیکھے ہیں اور اسی علاقے میں ۱۲۸ مختلف اقسام کے پرندے بھی شمار کیے ہیں۔
جب اس جھیل کے بارے معلومات ہندوستان کے ابتدائی حکمرانوں کو ملیں اور چونکہ مقامی لوگ اپنی مقدس جھیل کا محلِ وقوع بتانے سے کتراتے تھے، ۱۸۳۹ میں ایک حاکم نے اس جھیل کو تلاش کرنے کا انوکھا طریقہ سوچا۔ اس نے ایک مقامی بندے کے سر پر بہت بھاری پتھر رکھا اور اسے کہا کہ وہ نینی تال جھیل پر پہنچ کر ہی اسے اتار سکے گا۔ کئی دن تک آس پاس پہاڑیوں میں پھرتے رہنے کے بعد اس بندے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ ان لوگوں کو جھیل تک لے گیا۔جب میں بچہ تھا تو مجھے وہ پتھر دکھایا گیا۔ یہ پتھر بہت بڑا تھا اور اکیلا آدمی اسے نہ اٹھا پاتا۔ اس کا وزن اندازاً چھ سو پاؤنڈ ہوگا۔ جب میں نے اس پتھر کو دکھانے والے مقامی پہاڑی بندے سے کہا کہ یہ پتھر ایک آدمی سے تو نہیں اٹھ سکتا۔ تو اس نے جواب دیا، "بے شک پتھر بہت بڑا ہے مگر اُس دور کے لوگ بھی بہت مضبوط ہوتے تھے۔"
اپنے ساتھ اچھی دوربین لے کر میرے ساتھ چینا کی چوٹی کو چلیں۔ اس جگہ آپ کو نینی تال کے آس پاس پر طائرانہ نگاہ ڈالنےکا موقع مل جائے گا۔ سڑک کی چڑھائی کافی سخت ہے، اگر آپ پرندوں، درختوں اور پھولوں میں دلچسپی رکھتے ہوں تو تین میل کا یہ سفر طے کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اگر چوٹی پر پہنچ کر ان تین گیانیوں کی طرح آپ بھی پیاسے ہوں تو میں آپ کو پیاس بجھانے کے لیے انتہائی سرد چشمہ دکھاؤں گا۔ آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد ہم شمال کا رخ کریں گے۔ ہمارے بالکل نیچے گہری اور گھنے جنگلات سے گھری وادی ہے جس میں دریائے کوسی بہتا ہے۔ اس دریا کے پیچھے پہاڑ پر چھجے سے ہیں جن پر مختلف دیہات آباد ہیں۔ انہی میں سے ایک پر الموڑہ کا قصبہ ہے اور ایک دوسرے پر رانی کھیت کا کینٹ ہے۔ ان کے پیچھے مزید چھجے ہیں جن میں سے سب سے بلند ڈنگر بقول کہلاتا ہے اور ۱۴٫۲۰۰ فٹ بلند ہے اور اس کے پیچھے انتہائی بلند مستقل برفپوش ہمالیہ کے پہاڑ موجود ہیں۔
یہاں ہم سے شمال کی جانب ساٹھ میل دور تری سول ہے اور اس کے مشرق اور مغرب میں ۲۳٫۴۰۶ فٹ بلند پہاڑ کئی سو میل تک چلے جاتے ہیں۔ تری سول کے مغرب میں جب برف نظروں سے اوجھل ہوتی ہے، میں سب سے پہلے گنگوتری گروپ آتا ہے، پھر گلیشیر اور پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جو کیدار ناتھ اور بدری ناتھ کے مقدس مقامات ہیں۔
تری سول کے مشرق میں مزید پیچھے آپ کو نندہ دیوی (۲۵٫۶۸۹ فٹ) دکھائی دے گی جو ہندوستان کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ہمارے سامنے دائیں جانب نندہ کوٹ ہے جو پراوتی دیوی کا تکیہ کہلاتا ہے۔ ان سے ذرا مشرق کی جانب پنچولی کی خوبصورت چوٹیاں ہیں جو "پانچ چولہوں" کے نام سے مشہور ہیں۔ طلوعِ آفتاب کے وقت جب چینا اور درمیان کی چوٹیاں ابھی تاریکی میں چھپی ہوتی ہیں، برفپوش چوٹیاں جامنی نیلے سے گلابی رنگ تک رنگ بدلتی جاتی ہیں اور جب سورج سب سے بلند چوٹی سے ابھرتا ہے تو گلابی رنگ بتدریج آنکھیں خیرہ کر دینے والے سفید رنگ میں بدل جاتا ہے۔ دن کے وقت پہاڑ سرد اور سفید دکھائی دیتے ہیں اور ہر چوٹی برفپوش ہوتی ہے مگر غروب ہوتے سورج سے پھر ان کا رنگ گلابی، سنہرا یا پھر سرخ ہو جاتا ہے۔
اب اپنا رخ موڑیں اور جنوب کا رخ کرتے ہیں۔ ہماری حدِ نگاہ پر تین شہر دکھائی دیں گے، بریلی، کاشی پور اور مراد آباد۔ ان تین شہروں میں نزدیک ترین کاشی پور ہے جو ہم سے سیدھا پچاس میل دور ہے۔ یہ تینوں شہر کلکتہ اور پنجاب کے درمیان چلنے والی ریلوے پر بسائے گئے ہیں۔ ریلوے اور پہاڑ کے دامن کے درمیان تین پٹیاں دکھائی دیں گی، پہلی پٹی مزروعہ زمین کی ہے جو بیس فٹ چوڑی ہے، پھر دس میل چوڑی گھاس کی پٹی آتی ہے جسے "ترائی" کہا جاتا ہے، تیسری پٹی دس میل چوڑی ، درختوں سے بھری اور"بھابھر" کہلاتی ہے۔ بھابھر کی پٹی سیدھی پہاڑ کے دامن تک جاتی ہے اور اس میں کئی جگہوں پر جنگل صاف کر کے زرخیزمٹی اور پہاڑی ندیوں کے چشموں کے پانی سے سیراب کر کے مختلف سائز کے دیہات بس گئے ہیں۔ ان دیہاتوں کا سب سے قریبی مجموعہ کالا ڈھنگی کہلاتا ہے جو نینی تال سے سڑک کے راستے پندرہ میل دور ہے اور ان دیہاتوں میں سب سے اوپر والا دیہات چوٹی ہلدوانی کہلاتا ہےجو ہمارا گاؤں ہ جس کے گرد تین میل لمبی سنگی دیوار ہے۔ اس گاؤں میں ہمارے گھر کی چھت درختوں کے درمیان دکھائی دیتی ہےاور ہمارا گھر نینی تال سے آنےو الی سڑک اور پہاڑوں سے گزرنےو الی سڑک کے سنگم پر ہے۔ یہ سارے پہاڑ ہی لوہے کے ذخائر سے مالا مال ہیں اور شمالی ہندوستان میں سب سے پہلے کالاڈھنگی میں لوہے کو نکالنے کا کام شروع ہوا۔ اس کے لیے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا تھا اور کماؤں کے بادشاہ جنرل سر ہنری ریمزے نے اس خیال سے کہیں یہ صنعت بھابھر کے سارے ہی جنگل نہ صاف کر جائے تو انہوں نے اسے یکسر بند کر ادیا۔ کالاڈھنگی اور چینا پر ہماری موجودگی کے درمیان چھوٹی پہاڑیاں ہیں جو سال کے درختوں سے بھری ہوئی ہیں اور یہ درخت ریلوے کو سلیپر مہیا کرتے ہیں اور ساتھ والی پہاڑی پر کھرپہ تال نامی چھوٹی سی جھیل ہے جو کھیتوں سے گھری ہوئی ہے اور یہاں ہندوستان کا بہترین آلو پیدا ہوتا ہے۔
دائیں جانب بہت دور سورج کی روشنی میں چمکتا ہوا دریائے گنگا دکھائی دیتا ہے اور بائیں جانب دریائے سردا چمک رہا ہے۔ جن مقامات سے دونوں دریا پہاڑوں سے نکلتے ہیں، کا درمیانی فاصلہ اندازاً دو سو میل بنتا ہے۔
اب مشرق کی جانب رخ کرتے ہیں اور ہمارے سامنے موجود علاقہ وہ ہے جسے گزیٹیر میں "ساٹھ جھیلوں کی سرزمین" کہا جاتا ہے۔ میرے سامنے ہی ان میں سے بہت ساری جھیلیں مٹی بھر جانے سے ختم ہو گئی ہیں اور باقی بچنے والی جھیلوں میں نینی تال، ست تال، بھیم تال اور نکوچیا تال ہیں۔ نکوچیا تال سے آگے تکون شکل کی پہاڑی ہے جسے چوٹی کیلاش کہتے ہیں۔ اس مقدس پہاڑی پر دیوتا کسی پرندے یا جانور کی ہلاکت کو پسند نہیں کرتے اور آخری بار اس کی خلاف ورزی کرنے والا ایک فوجی جو جنگ سے چھٹی پر آیا ہوا تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑی بکری ہلاک کرتے ہی پیر پھسل جانے کے سبب ہزار فٹ نیچے وادی میں گر کر ہلاک ہو گیا۔
چوٹی کیلاش کے بعد کالا آگر کی پہاڑی آتی ہے جہاں میں نے چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں کا دو سال تک پیچھا کیا تھا اور اس کے پیچھے پھر نیپال کے پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ اب ہم مغرب کو رخ کرتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے ہم چند سو فٹ نیچے اترتے ہیں اور دیوپٹہ پہنچیں گے جو ۷٫۹۹۱ فٹ بلند پتھریلی چوٹی ہے اور چینا سے ملحق ہے۔ ہمارے بالکل نیچے گہری، وسیع اور گھنے جنگلات سے بھری ہوئی وادی ہے جو چینا اور دیوپٹہ کو ملانے والے مقام سے شروع ہوتی ہے اور دچوری سے کالاڈھنگی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وادی ہمالیہ کی کسی بھی دوسری وادی سے زیادہ نباتات اور حیوانات سے بھری ہوئی ہے اور اس خوبصورت وادی کے بعد پہاڑیاں دریائے گنگا تک چلی جاتی ہیں جس کے پانیوں کو سورج کی روشنی سو میل دور چمکتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ دریائے گنگا کی دوسری جانب شوالک کا پہاڑی سلسلہ ہے جو ہمالیہ سے بھی قدیم تر ہے۔