موکمہ گھاٹ پر میرا یا میرے عملے کا سارا وقت کام یا سو کر ہی نہیں گزرتا تھا۔ شروع میں ہم سب کے لیے کام بہت مشکل تھا اور مشکل ہی رہا مگر جوں جوں وقت گزرتا رہا، ہمارے ہاتھ سخت اور عضلات مضبوط ہوتے گئے، ہم لوگ آگے بڑھتے گئے کہ ہمارا مقصد ایک ہی تھا کہ ہم اپنے متعلقین کے لیے بہتر زندگی پیش کر سکیں۔ کام تسلسل سے جاری رہا اور درمیان میں ہمیں تفریح کا بھی کچھ وقت ملنا شروع ہو گیا۔ موکمہ گھاٹ میں پھنسے ہوئے سامان کی کامیاب ترسیل اور پھر بعد میں سامان کی متواتر اور کامیاب منتقلی کی وجہ سے ہماری شہرت پھیل گئی اور یہ ہم سب کی مشترکہ کامیابی تھی اور ہم اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ سو جب کوئی بندہ کسی ذاتی کام سے چھٹی کرتا تو اس کا کام اس کے ساتھی بخوشی کر لیتے۔ جب مجھے کچھ وقت ملنے لگا اور کچھ پیسے بھی جمع ہو گئے، اولین کاموں میں سے ایک میں نے اپنے ملازمین اور ریلوے کے نچلے عملے کے بیٹوں کے لیے سکول شروع کیا۔ یہ خیال رام سرن کا تھا جو تعلیم کا بڑا حامی تھا اور تعلیم کی وجہ سے وہ موجودہ مقام پر پہنچا تھا۔ ہم دونوں نے مل کر ایک جھونپڑا کرائے پر لیا اور ایک استاد کا بندوبست کیا۔ بعد میں یہ سکول رام سرن کے نام سے مشہور ہوا، میں ابتدا میں بیس بچے داخل ہوئے۔ پہلا مسئلہ ذات پات سے متعلق تھا مگر ہمارے استاد نے جھونپڑے کی دیواریں ہٹا دیں۔ چونکہ اونچی اور نیچی ذات کے بچے ایک ہی جھونپڑے میں نہیں بیٹھ سکتے تھے اس لیے ان کے لیے چھپر میں بیٹھنا ممکن ہو گیا۔ ابتدا سے ہی سکول بہت کامیاب رہا اور اس کا سہرا رام سرن کے سر تھا۔
جب مناسب عمارت کھڑی ہو گئی تو سات دیگر استاد بھی رکھ لیے گئے اور طلباء کی تعداد دو سو تک بڑھ گئی اور حکومت نے اس سکول کی معاشی ذمہ داری ہم سے لے لی۔ حکومت نے اس کو مڈل سکول کا درجہ دیا اور رام سرن کو "رائے صاحب" کا خطاب عطا کیا۔
رام سرن کا مقابل دوسرے کنارے پر رام سرن تھا جو براڈ گیج کو سنبھالتا تھا۔ وہ بہت اچھا شکاری تھا اور ہم دونوں نے مل کر تفریحی کلب شروع کیا۔ ہم نے زمین کا ایک گوشہ خالی کیا اور اس پر فٹبال اور ہاکی کی لکیریں کھینچیں اور گول پوسٹ بنا دیے اور پھر فٹ بال اور ہاکیاں خرید کر اپنی اپنی فٹبال اور ہاکی کی ٹیموں کی تربیت شروع کر دی۔ فٹبال کی تربیت آسان تھی مگر ہاکی میں مشکل پیش آئی۔ چونکہ ہمارے پاس اصلی ہاکیاں خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے، ہم نے خالصہ ڈنڈے خریدے تھے جو پنجاب میں کیکر یا بلوط سے بنتے تھے اور آگے سے مڑے ہوتے تھے۔ شروع شروع میں زخمی ہونے کا تناسب بہت زیادہ یعنی ۹۸ فیصد تھا کہ یہ ڈنڈے بھاری اور لکڑی سے بنے ہوتے تھے اور گیند لکڑی کی۔ جب ہماری ٹیموں نے بنیادی باتیں سیکھ لیں یعنی گیند کو کس سمت میں لے جانا ہے تو ہم نے انٹر ریلوے میچ شروع کرا دیے۔
ان میچوں کو نہ صرف کھلاڑی بلکہ تماشائی بھی دل و جان سے پسند کرنے لگے۔ کیلی ہمیشہ اپنی ٹیم کا گولی بنتا اور اگر ہمارا میچ دوسری ٹیم سے ہوتا تو وہ ہمارا گولی بنتا۔
میں دبلا پتلا تھا اور سینٹر فارورڈ کھیلتا اور جب ہاکی یا ٹھوکر سے گرتا تو کیلی کے سوا دونوں ٹیموں کے سبھی کھلاڑی بھاگ کر مجھے کھڑا کرتے اور میرے کپڑے جھاڑتے تو مجھے شدید شرمندگی ہوتی۔ ایک بار ایسے ہی موقع پر مخالف ٹیم کے کھلاڑی نے گول کرنے کی کوشش کی تو تماشائیوں نے گیند اور کھلاڑی، دونوں کو پکڑ لیا۔
ابھی اس کلب کو شروع ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا کہ بنگال اور شمال مغربی ریلوے کے یورپی عملے کے لیے ایک کلب اور ٹینس کورٹ بنایا گیا جو مجھ سمیت کل چار تھے۔ کیلی کو اس کلب کا اعزازی ممبر بنایا گیا اور وہ بہت مفید ثابت ہوا کہ وہ بلیئرڈ اور ٹینس، دونوں کا ماہر تھا۔ کیلی اور میں مہینے میں بمشکل دو یا تین بار ٹینس کھیل پاتے تھے مگر شام گئے کام سے فارغ ہو کر ہم اکثر بلیئرڈ کھلیتے تھے۔
موکمہ گھاٹ پر شیڈز کی طوالت ڈیڑھ میل تھی اور کیلی کو بار بار کی زحمت سے بچانے کے لیے ریلوے نے ایک ٹرالی اور چار مزدور دیے ہوئے تھے جو ٹرالی کو دھکا لگاتے۔ یہ ٹرالی ہمارے لیے بہت بڑی سہولت تھی کہ سردیوں میں ہم چاندنی راتوں میں نو میل دور جا کر چھوٹے تالابوں پر مرغابیوں کا شکار کھیلتے۔ بعض تالاب چند گز چوڑے ہوتے تو بعض کی وسعت ایکڑ سے بھی زیادہ ہوتی۔ ان تالابوں کے پاس دالوں کی فصل اگی ہوتی تھی جہاں ہمیں چھپنے کے لیے مناسب جگہ مل جاتی۔ ہماری آمد غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی ہوتی اور ہم دو مختلف تالابوں پر بیٹھتے تو مرغابیاں آنا شروع ہو جاتیں۔
ان مرغابیوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی اور دن کا وقت یہ دریائے گنگا میں بنے جزیروں پر گزارتیں اور شام ہوتے ہی یہاں پیٹ بھرنے پہنچ جاتیں۔ ریلوے لائن ہماری کمین گاہوں اور گنگا کے وسط میں تھی اور یہاں پہنچ کر مرغابیاں نیچے ہونا شروع ہو جاتیں اور ہمارے سروں سے گزرتے ہوئے وہ آسانی سے مار کھا جاتیں۔ چاندنی رات میں شکار کے لیے کچھ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور اوپر سے گزرتے پرندے اصل مقام سے زیادہ دور دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ زیادہ آگے کا نشانہ لے کر فائر کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو مرغابیاں بندوق کا جھماکہ دیکھ کر اور دھماکہ سن کر سیدھا اونچائی کو چلی جاتی ہیں اور بندوق کی مار سے نکل جاتی ہیں۔ موکمہ گھاٹ میں گزارے ہوئے وقت میں ایک بہترین یادیں ان چاندنی راتوں کی ہیں جب چاند درختوں کے اوپر سے نکل رہا ہوتا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں مرغابیاں شور مچاتی اوپر سے گزرتی تھیں۔
میرا کام ہمیشہ دلچسپ ہوتا تھا اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ سامان کو دریائے گنگا کے پار لے جانے، کئی لاکھ ٹن سامان کی ترسیل کے علاوہ مجھے ہر سال کئی لاکھ مسافروں کی دریا کو عبور کرنے کے لیے کشتیاں بھی چلوانی ہوتی تھیں۔ ہمالیہ پر بارشیں ہوتیں تو دریا کا پاٹ چار سے پانچ میل چوڑا ہو جاتا اور مجھے نہ صرف آرام کرنے کا زیادہ وقت ملتا بلکہ اپنے مشاغل میں سے ایک، انسانوں کا مطالعہ کرنے کا بھی وقت مل جاتا۔ شمال سے جنوب آنے جانے والی دو ریلوے کو یہ کشتیاں ملاتی تھیں اور ہر بار سات سو مسافر دریا عبور کرتے جن کا تعلق نہ صرف ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتا بلکہ دیگر ممالک سے بھی۔
ایک بار صبح کے وقت میں بالائی عرشے پر جھکا ہوا تیسرے درجے کے مسافروں کو نشستوں پر بیٹھتے دیکھ رہا تھا۔ میرے ساتھ انگلستان سے آیا ایک نوجوان بھی تھا جس نے حال ہی میں ریلوے میں ملازمت اختیار کی تھی اور وہ موکمہ گھاٹ میں کام سیکھنے آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ دو ہفتے رہا اور اب میں اسے سماریہ گھاٹ چھوڑنے جا رہا تھا جہاں سے وہ گورکھا پور کے طویل سفر پر روانہ ہوتا۔ ہمارے سامنے آلتی پالتی مارے ایک ہندوستانی نچلے عرشے پر بیٹھا تھا۔ میرے ہمراہی کا نام کراستھویٹ تھا اور اسے اس ملک کی ہر چیز جاننے کا شوق تھا اور وہ لوگوں کو باتیں کرتا سنتا رہا اور پھر بولا کہ کاش وہ لوگوں کی زبان سمجھ سکتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کے سفر کی غایت کیا ہے۔ مجمع اب سارڈین مچھلیوں کی طرح گھتا ہوا تھا سو میں نے کہا کہ میں اسے بتاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ دائیں سے شروع کرتے ہیں اور ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو بیرونی جنگلے سے پشت ٹکائے کھڑے ہیں۔ ہمارے قریب ترین تین برہمن ہیں اور ان کے پاس گیلی مٹی سے منہ بند پیتل کے برتنوں میں گنگا جل ہے جس کو وہ پوری احتیاط سے لے جا رہے ہیں۔ دریائے گنگا کے دائیں کنارے کا پانی زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہ تینوں ایک مشہور مہاراجہ کے بندے ہیں اور یہ پانی بذریعہ ریل اسی میل دور لے جائیں گے اور یہ پانی مہاراجہ کے ذاتی استعمال کے لیے ہے۔ مہاراجہ چاہے سفر میں ہو یا گھر پر، ہمیشہ گنگا جل استعمال کرتا ہے۔ ان کے پاس مسلمان بیٹھا ہے جو دھونی ہے اور مختلف سٹیشنوں پر اتر کر پرانے لحافوں کی روئی دھنکتا ہے۔ اس کا اوزار ساتھ ہی رکھا ہے۔ اس کے ساتھ تبت سے آئے دو لاما ہیں جو گیا کے مقدس مقام کی زیارت کے بعد واپس جا رہے ہیں اور اتنی سردی میں بھی انہیں گرمی لگ رہی ہے اور ان کے گنجے سروں پر پسینہ چمک رہا ہے۔ ان کے ساتھ چار مرد بیٹھے ہیں جو بنارس سے یاترا کر کے واپس نیپال میں اپنے گاؤں کو لوٹ رہے ہیں۔ ہر بندے کے پاس بنارس کے مقام پر گنگا جل سے بھرے گئے شیشے کے دو مرتبان ہیں جو ٹوکریوں میں محفوظ کر کے بانس سے لٹکائے گئے ہیں۔ اپنے دیہات اور دیگر دیہاتوں میں جا کر یہ لوگ قطرہ قطرہ کر کے یہ مقدس پانی مذہبی رسومات کے لیے بیچیں گے۔ اسی طرح لوگوں کے بارے بتاتے بتاتے بائیں جانب کے آخری بندے کی باری آئی۔ میں نے بتایا کہ یہ بندہ میرے ایک ملازم کا باپ اور میرا دوست ہے اور دریا کے دوسرے کنارے پر ہل چلانے جا رہا ہے۔ کراستھویٹ نے یہ سب باتیں نہایت اشتیاق سے سنیں اور پھر پوچھا کہ ہمارے قریب بنچ پر کون بیٹھا ہے۔ میں نے بتایا، "اوہ، یہ مسلمان ہے۔ کھالوں کا تاجر، گیا سے مظفر پور جا رہا ہے۔" جونہی میں رکا، اس بندے نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور ہنسنے لگا۔ پھر میری جانب رخ کر کے اس نے بے داغ انگریزی میں کہا، "میں آپ دونوں کی گفتگو بغور سن رہا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ ایک کو چھوڑ کر باقی سب تفصیلات آپ نے بالکل درست بتائی ہیں۔ میں مسلمان ہوں اور گیا سے مظفر پور جا رہا ہوں، اگرچہ مجھے علم نہیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ میں نے ٹکٹ گیا سے خریدی تھی اور کسی کو نہیں دکھایا۔ تاہم میں کھالوں کی تجارت نہیں بلکہ تمباکو کی تجارت کرتا ہوں۔" میرا رنگ ایسا ہے کہ شرمندگی سے لال نہیں پڑ سکتا۔
بعض اوقات خاص شخصیات کے لیے خصوصی ٹرینیں چلائی جاتی تھیں اور ان کی خاطر خصوصی کشتی کا بندوبست کرنا بھی میری ذمہ داری تھی۔ ایک بار دوپہر کو میں نے ایسی ہی ٹرین د یکھی جو نیپال کے وزیرِ اعظم کو لا رہی تھی اور اس کے حرم کی بیس خواتین کے علاوہ سیکریٹری اور بہت سارے ملازمین بھی نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو سے ساتھ کلکتہ کے سفر پر آئے تھے۔ جب ٹرین رکی تو سفید بالوں والا ایک دیوزاد نیپال کے قومی لباس میں ٹرین سے باہر نکلا اور وزیرِ اعظم کی بوگی کی جانب لپکا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بڑی چھتری کھولی اور پھر اپنا دائیاں ہاتھ اپنے کولہے پر رکھ لیا اور بوگی کی جانب پشت کر لی۔ پھر دروازہ کھلا اور وزیرِ اعظم نمودار ہوا اور سہولت سے اس بندے کی بغل میں سوار ہو گیا۔ جب وزیرِ اعظم بیٹھ گیا تو اس دیوزاد نے چھتری کو وزیرِ اعظم کے سر پر تانا اور چلنے لگا۔ انتہائی آسانی سے اس نے وزیرِ اعظم کو تین سو گز نرم ریت پر اٹھا کر چلتے ہوئے کشتی تک پہنچایا جیسے وہ کوئی ربر کی گڑیا ہو۔ جب میں نے وزیرِ اعظم کے سیکریٹری، جو کہ میرا جاننے والا تھا، سے کہا کہ یہ بہت طاقتور انسان ہے۔ اس پر وہ بولا کہ جب کوئی اور سواری نہ ملے تو وزیرِ اعظم اسی دیوزاد پر سوار ہوتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ بندہ نیپالی ہے مگر میرا اندازہ ہے کہ وہ شمالی یورپ کا باشندہ ہے جو معلوم نہیں کس وجہ سے نیپال میں یہ ملازمت کر رہا تھا۔
جتنی دیر وزیرِ اعظم کو کشتی پر پہنچایا جاتا، اتنی دیر میں چار ملازمین کالے ریشم کا چوکور ٹکڑا لائے جو بارہ فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا تھا۔ ہر طرف سے بند بوگی کے سامنے انہوں نے یہ کپڑا زمین پر رکھا۔ اس کے چاروں کونوں پر ڈنڈوں کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی۔ جب چاندی کے بنے آٹھ آٹھ فٹ لمبے چار ڈنڈوں پر بنے آنکڑے ان جگہوں پر پھنسا کر انہیں کھڑا گیا گیا تو مستطیل ڈبہ سا بن گیا۔ پھر ایک سرے کو اٹھا کر اس بوگی کے دروازے سے لگا دیا گیا اور حرم کی بیس خواتین اتر کر اس مستطیل میں داخل ہو گئیں۔ اس طرح یہ ڈبہ حرکت میں آ گیا اور نیچے سے محض ان خواتین کے پیٹنٹ لیدر والے جوتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس کا رخ سٹیمر کی جانب تھا۔ سٹیمر کے نچلے عرشے کے قریب اس کا ایک کونا اٹھایا گیا اور یہ خواتین بمشکل سولہ سے اٹھارہ سال کی ہوں گی اور آسانی سے بالائی عرشے کو جانے والی سیڑھیوں پر چڑھ گئیں۔ میں وزیرِ اعظم سے بات کر رہا تھا۔ پچھلی بار ایسے ہی موقع پر میں نے اجازت چاہی تھی کہ خواتین بالائی عرشے پر آ رہی تھیں مگر وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ پردے کا انتظام محض عام لوگوں کی نگاہوں سے خواتین کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان خواتین کے لباس کی تفصیل بتانا میرے بس سے باہر ہے مگر یوں سمجھ لیں کہ شوخ بھڑکیلے کپڑوں سے بنے لباس اوپری جسم سے چپکے ہوئے تھے اور نیچے بہت گھیر دار غرارے تھے۔ ہر غرارہ کم از کم چالیس گز چوڑے ریشمی کپڑے سے بنا تھا۔ یہ خواتین ایک سمت سے دوسری کی طرف بھاگ دوڑ رہی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مناظر دیکھ سکیں۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے بہت نایاب قسم کی خوبصورت تتلیاں اڑ رہی ہوں۔ موکمہ گھاٹ پر عین یہی عمل دہرایا گیا جہاں ایک اور خصوصی ٹرین منتظر تھی۔ سامان کا پہاڑ بھی ساتھ منتقل ہوا اور یہ سب کلکتہ روانہ ہو گئے۔ دس روز بعد ان کی واپسی ہوئی اور وہ کھٹمنڈو چلے گئے۔
چند روز بعد میں ایک رپورٹ تیار کر رہا تھاجو اسی رات روانہ ہونی تھی کہ میرا واقف نیپالی وزیرِ اعظم کا سیکریٹری کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے کپڑے میلے اور سلوٹوں سے بھرے تھے اور ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کئی راتوں سے نہیں سویا۔ پچھلی مرتبہ کی نسبت اس کا حلیہ یکسر تبدیل تھا۔ میرے کہنے پر کرسی پر بیٹھا اور فوراً ہی بتایا کہ وہ بہت مشکل میں ہے۔ پھر اس نے یہ بتایا، "پچھلی مرتبہ جب ہم یہاں سے گزرے تو وزیرِ اعظم اپنی ایک خاتون کو ہیملٹن اینڈ کو سے خریداری کرانے لے گئے جو اس وقت شہر میں مشہور سنار کی دکان تھی۔ وہاں انہوں نے بہترین جواہرات خریدے۔ ادائیگی چاندی کے سکوں کی صورت میں ہوئی جو ہمیشہ وافر مقدار میں ہم ساتھ لے جاتے ہیں۔ جواہرات کے انتخاب، ان کی ادائیگی، ان کو مخصوص ڈبے میں بند کرنے اور پھر ڈبے پر سنار کی مہر لگانے تک ہماری توقع سے کہیں زیادہ وقت لگا۔ سو ہم بعجلت ہوٹل پہنچے جہاں سامان اکٹھا کر کے ہم نے سٹیشن کا رخ کیا جہاں ہماری خصوصی ٹرین منتظر کھڑی تھی۔
جب ہم رات گئے کھٹمنڈو پہنچے تو اگلی صبح وزیرِ اعظم نے مجھے بلا بھیجا کہ جواہرات والا صندوق کہاں ہے۔ محل کے ہر کمرے کی تلاشی لی گئی اور ہر بندہ جو اس سفر پر ہمارے ساتھ تھا، سے پوچھ گچھ ہوئی مگر صندوق نہ ملا اور نہ ہی کسی نے اسے دیکھا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہوٹل پہنچ کر میں نے وہ صندوق کار سے نکالا تھا مگر پھر مجھے یاد نہیں کہ کہیں دیکھا ہو۔ چونکہ اس صندوق اور اس کے اندر موجود اشیا کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، سو صندوق نہ ملا تو نہ صرف مجھے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے بلکہ ہمارے ملکی قوانین کے مطابق مجھے بہت بڑا مجرم شمار کیا جائے گا۔
نیپال میں ایک بزرگ ہے جو غیب کا حال جانتا ہے اور دوستوں کے کہنے پر میں اس کے پاس گیا۔ وہ ضعیف آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھا اور پہاڑ کی ایک غار میں رہتا تھا۔ میں نے اسے اپنی بپتا سنائی۔ اس نے خاموشی سے میری بات سنی اور اگلے روز صبح کو آنے کا کہا۔ اگلی صبح میں گیا تو اس نے بتایا کہ اسے نیند میں ایک منظر دکھائی دیا ہے۔ اس نے صندوق اور اس پر لگی ہوئی مہر کو صحیح سلامت دیکھا جو بہت سارے سامان سے بھرے کمرے کے ایک کونے میں پڑا تھا۔ یہ کمرہ ایک بڑے دریا کے پاس تھا اور اس میں صرف ایک ہی دروازہ تھا جس کا رخ مشرق کو تھا۔ اس بزرگ نے اتنا بتایا تھا۔ سو میں ایک ہفتے کی رخصت لے کر نیپال سے آپ کے پاس آیا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ وہ بڑا دریا گنگا ہی ہو۔" اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے بات پوری کی۔
ہمالیہ میں ایسے افراد پر اندھا اعتقاد کیا جاتا ہے جو غیب کا حال جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور گمشدہ چیزوں کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔ سیکریٹری کو اس پر پورا یقین تھا سو اس کی پریشانی اس صندوق کی تلاش تھی جس میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے (اُس وقت کے دس ہزار پاؤنڈ) رقم کے مساوی زیورات تھے۔ اگر وہ کسی چور کے ہاتھ لگتا تو وہ چمپت ہو جاتا۔
موکمہ گھاٹ پر متفرق سامان سے بھرے بہت سارے کمرے تھے مگر کسی کمرے پر اس بزرگ کی بیان کی تفصیل پوری نہیں آتی تھی۔ مگر مجھے علم تھا کہ ایک ایسا کمرہ یہاں سے دو میل دور ہے جو موکمہ جنکشن پر واقع ہے۔ کیلی کی ٹرالی مانگ کر میں نے رام سرن کے ساتھ سیکریٹری کو بھیجا۔ پارسل آفس کے کلرک نے ایسے کسی ڈبے یا صندوق سے لاعلمی کا اظہار کیا مگر اس نے تلاش کرنے سے نہیں روکا۔ سارا سامان نکالا گیا تو وہ صندوق اسی طرح مہر لگا نکل آیا۔
اب سوال یہ کھڑا ہوا کہ کلرک کی لاعلمی میں یہ صندوق یہاں تک کیسے پہنچا۔ سٹیشن ماسٹر بھی پہنچ گیا تھا اور اس کی پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ ڈبوں کی صفائی کرنے والا خاکروب لایا تھا کہ جب وہ وزیرِ اعظم کی کلکتہ سے موکمہ گھاٹ آنے والی ٹرین کی صفائی کرنے لگا تو یہ ڈبہ سیٹ کے نیچے پڑا ملا۔ یہ بندہ پورے عملے میں سب سے کم تنخواہ پاتا تھا۔ جب وہ صفائی کر کے فارغ ہوا تو اس صندوق کو لے کر دفتر آیا اور چونکہ دفتر میں کوئی موجود نہیں تھا، اس لیے اس نے ایک کونے میں رکھ دیا۔ اس خاکروب نے شرمندگی ظاہر کی کہ اس کی وجہ سے سب کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔
چھڑے بندے اور ان کے ملازمین کی عادات عموماً ملتی جلتی ہوتی ہیں اور میں اور میرے ملازمین اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر کام بہت زیادہ نہ ہوتا تو میں عموماً آٹھ بجے رات کو گھر لوٹ آتا تھا اور میرا ملازم برآمدے میں میرا منتظر ہوتا۔ مجھے آتا دیکھ کر بہشتی کو غسل کا پانی تیار کرنے کا حکم دیتا۔ گرمی ہو یا سردی، میں ہمیشہ گرم پانی سے غسل کرتا ہوں۔ گھر کے سامنے کے حصے میں تین کمرے تھے جو برآمدے میں کھلتے تھے۔ ایک کھانے کا کمرہ، ایک نشست کا اور ایک سونے کا۔ خوابگاہ کے ساتھ چھوٹا سا غسل خانہ بھی تھا جو دس فٹ لمبا اور چھ فٹ چوڑا تھا۔ اس غسل خانے کے دو دروازے اور ایک کھڑکی تھی۔ ایک دروازہ برآمدے کو کھلتا تھا اور دوسرا خوابگاہ میں۔ کھڑکی خوابگاہ کی مخالف سمت تھی اور کافی اونچی تھی۔ غسل خانے میں لکڑی سے بنا بیضوی ٹب تھا جس میں بیٹھ کر غسل کیا جا سکتا تھا اور فرش پر لکڑی کا فرش تھا جس میں پانی کی نکاسی کے سوراخ بنے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی ٹھنڈے پانی کے دو گھڑے رکھے ہوتے تھے۔ بہشتی کے پانی بھرنے کے بعد میرا ملازم غسل خانے کے بیرونی دروازے کو باہر سے کنڈی لگا کر خوابگاہ سے میرے جوتے اٹھاتا اور باورچی خانے میں انہیں صاف کر کے میرا انتظار کرتا کہ میں کھانے کے لیے کب بلاتا ہوں۔
ایک رات جب میرا ملازم باورچی خانے چلا گیا تو میں نے چھوٹا دستی لیمپ اٹھایا اور غسل خانے جا کر اسے فرش کے قریب چھ انچ اونچی اور نو انچ چوڑی منڈیر پر رکھ دیا۔ پھر میں نے کنڈی لگائی کیونکہ ہندوستان میں اکثر دروازے کنڈی لگائے بغیر بند نہیں رہتے۔ دن کا زیادہ تر وقت میں نے کوئلے کے پلیٹ فارم پر گزارا تھا سو ابھی نہاتے ہوئے میں نے خوب صابن استعمال کیا۔ سر اور منہ پر خوب جھاگ بن گیا تو میں نے آنکھیں کھول کر صابن کو فرش پر رکھنا چاہا تو میرے عین سامنے پیر سے چند انچ دور سانپ کا سر دکھائی دیا۔ شاید پانی انڈیلنے اور صابن لگانے کی حرکات کی وجہ سے سانپ کو غصہ آ گیا تھا۔ یہ کوبرا سانپ اپنا پھن پھیلائے غصے سے پھنکارنے لگا اور دو مونہی زبان حرکت کر رہی تھی۔ اگر میں اپنے ہاتھوں کی حرکت جاری رکھتے ہوئے آہستگی سے اپنے پیر سمیٹتا اور پھر آہستگی سے اپنے پیچھے موجود دروازے سے نکل جاتا تو سب خیریت رہتی۔ مگر میں نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹب کی اطراف کو پکڑا اور کھڑے ہوتے ہوئے منڈیر کا رخ کیا۔ منڈیر پختہ تھی اور میرا پیر پھسلا۔ توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں میری کہنی سے پانی کا فوارہ اچھلا اور لیمپ کو بجھا گیا۔ اب چھوٹے اور گھپ اندھیرے کمرے میں میں ہندوستان کے زہریلے ترین سانپوں میں سے ایک کے ساتھ قید ہو گیا۔ ایک قدم بائیں یا ایک قدم پیچھے اور میں دروازے تک پہنچ جاتا مگر مجھے سانپ کے بارے علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہوگا۔ دونوں دروازوں کی کنڈی نیچے سے لگتی تھی۔ اگر میں سانپ سے بچ کر دروازے تک پہنچ بھی جاتا تو کنڈی تلاش کرتے ہوئے عین ممکن تھا کہ سانپ وہیں موجود ہوتا۔
ملازموں کے کمرے کم از کم پچاس گز دور صحن کے دوسرے سرے پر تھے اور واحد امید میرے اس ملازم سے تھی جو کھانے کے لیے میرا منتظر تھا۔ عین ممکن تھا کہ کوئی دوست ملاقات کو آ جاتا۔ میں خلوصِ دل سے توقع کر رہا تھا کہ ایسا سانپ کے کاٹنے سے پہلے ہوتا۔ مجھے یہ حقیقت بھی ڈرا رہی تھی کہ میری مانند سانپ بھی یہاں قید ہے۔ چند روز قبل ہی میرے ایک ملازم کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا۔ دوپہر کے وقت میں نے اسے مزدوری دی تھی اور وہ اسے رکھنے گھر آیا۔ صندوق کھولتے وقت پیچھے سے پھنکار سنی تو مڑ کر دیکھا کہ کوبرا اس کمرے کے واحد کھلے دروازے سے ہو کر اسی کی جانب آ رہا ہے۔ بدقسمت انسان نے اپنے ہاتھوں سے سانپ کو بھگانا چاہا اور سانپ نے اس دوران اسے بارہ مرتبہ ہاتھوں اور ٹانگوں پر ڈسا۔ اس کی چیخیں سن کر ہمسائے آئے تو وہ بندہ چند منٹ بعد مر گیا۔
اس رات مجھے علم ہوا کہ چھوٹے واقعات بسا اوقات بڑے واقعات سے زیادہ ہیجان اور پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ میری ٹانگوں پر پھسلتا ہوا پانی کا ہر قطرہ مجھے سانپ کی زبان لگتا جو ڈسنے سے قبل معائنہ کر رہا ہو۔ مجھے علم نہیں کہ میں یہاں کتنا دیر رہا۔ بعد میں مجھے ملازم نے بتایا کہ نصف گھنٹہ گزرا ہوگا۔ انتہائی طویل محسوس ہونے والے انتظار کے بعد مجھے ملازم کی آواز آئی کہ کھانا میز پر آ گیا ہے۔ میں نے اسے قریب بلایا اور اپنی صورتحال بتائی اور کہا کہ وہ لالٹین اور سیڑھی لے آئے۔ کافی طویل انتظار کے بعد باہر سے آوازیں آئیں اور پھر بیرونی دیوار سے سیڑھی لگنے کی آواز آئی۔ پھر لالٹین کھڑکی پر آئی جو زمین سے دس فٹ بلند تھی۔ مگر اس سے روشنی اندر نہ آ سکی۔ میں نے کہا کہ شیشہ توڑ کر لالٹین اندر داخل کریں۔ کھڑکی کا سوراخ چھوٹا تھا، سو کئی بار لالٹین بجھنے کے بعد اندر داخل ہوا۔ مجھے ڈر تھا کہ سانپ میرے پیچھے نہ ہو، مگر مڑ کر دیکھا تو وہ دو فٹ دور فرش پر لیٹا ہوا تھا۔ آہستگی سے جھک کر میں نے بھاری باتھ میٹ اٹھایا اور احتیاط سے نشانہ لے کر سانپ پر پھینک دیا جو اب میری جانب آ رہا تھا۔ خوش قسمتی سے میرا نشانہ درست تھا اور سانپ کے سر سے چھ انچ پیچھے لگا۔ جتنی دیر سانپ اس پر حملہ کرتا، میں نے باہر والے دروازے کو کھول کر جست لگائی اور برآمدے میں پہنچ گیا جہاں ایک ہجوم لاٹھیاں اور لالٹینیں اٹھائے منتظر کھڑا تھا۔ انہیں خبر ملی تھی کہ میں ایک بند کمرے میں سانپ کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوں۔
سانپ کو مار کر اور میری جان بچنے پر مبارکباد دیتے ہوئے جب سبھی لوگ چلے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ میرے سر پر صابن کا جھاگ ہے اور جسم پر ایک دھجی بھی نہیں۔ سانپ غسل خانے میں کیسے گھسا ہوگا، مجھے علم نہیں۔ شاید کسی دروازے سے آیا ہو یا پھر چھت سے گرا ہو کیونکہ چھت گھاس پھونس سے بنی تھی جس میں چوہے اور گلہریاں بکثرت رہتے تھے اور جگہ جگہ چڑیوں کے گھونسلے بھی بنے ہوئے تھے۔ خیر، میں اور میرا ملازم دونوں خوش تھے کہ اس روز ہم موت کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔
موکمہ گھاٹ پر ہندو یا مسلم تہوار منانے کی گنجائش نہیں تھی کہ ہر روز کام ہوتا تھا۔ تاہم پورے سال میں ایک دن کا نہ صرف انتظار ہوتا بلکہ اس کو منانے کی تیاریاں بھی زور و شور سے کی جاتیں۔ یہ کرسمس تھی۔ اس روز یہ رواج تھا کہ دس بجے تک میں اپنے گھر سے نہ نکلتا اور عین اس وقت رام سرن بہترین کپڑے پہن کر اور بہت بڑی گلابی پگڑی باندھ کر مجھے دفتر کے لیے لینے آتا۔ یہ پگڑی اس نے اسی مقصد کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ ہمیں جھنڈیاں نہیں لینی پڑتی تھیں کہ ہمارے پاس سرخ اور سبز رنگ کی جھنڈیوں کی بہت بڑی تعداد تھی اور ان جھنڈیوں کو یاسمین کے پھولوں کے ساتھ دھاگوں میں پرو کر رام سرن اور اس کے ساتھی دفتر اور آس پاس کی جگہوں کو بہت خوبصورت طور پر سجا دیتے۔ یہ کام وہ علی الصبح شروع کرتے تھے۔ دفتر کے قریب ہی کرسی اور میز رکھی ہوتی تھی اور میز پر دھاتیا مرتبان میں میرے پسندیدہ گلابوں کو بیل سے باندھ کر رکھا ہوتا تھا۔ میز کے سامنے ریلوے کا عملہ، میرے نگران اور سبھی مزدور سامنے ہوتے۔ ان سبھی افراد نے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوتے تھے کیونکہ سارا دن چاہے میلے کچیلے کپڑے ہوتے، کرسمس کے روز ہم صاف ستھرے ہوتے۔
جب میں کرسی پر بیٹھتا تو رام سرن یاسمین کے پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈالتا اور پھر رام سرن کی طویل تقریر سے تقریب کا آغاز ہوتا اور پھر میں مختصر تقریر کرتا۔ پھر بچوں میں مٹھائیاں بانٹی جاتیں اور جب یہ کام تسلی بخش انداز میں ہو جاتا تو اصل کام شروع ہوتا۔ میں رام سرن، عملے اور مزدوروں میں سالانہ بونس تقسیم کرتا۔ ریلوے سے مجھے انتہائی کم معاوضہ ملتا تھا اور سب لوگوں کی مشترکہ کوشش سے مجھے معمولی سا منافع ہوتا جس کا اسی فیصد میں کرسمس کے روز بانٹ دیتا۔ یہ بونس معمولی سا ہوتا اور اس کی مقدار کبھی ایک ماہ کی تنخواہ یا معاوضے سے زیادہ نہیں رہی۔ مگر یہ سب لوگوں کو خوش کرتا تھا اور اسی وجہ سے اکیس سال تک ہر سال دس لاکھ ٹن سامان کی ترسیل کبھی متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ایک دن کے لیے کام رکا۔
ختم شد