اے سی کی ہلکی ہلکی خنکی میں موجود مونیٹر کی ٹوں ٹوں کی آواز وقفے وقفے سے دھڑکنوں کو آڑی ترچھی لکیروں میں دکھاتی کمرے میں پھیلی دو نفوس کی گہری وحشت زدہ خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔۔
کمرے کے بیچ وبیچ موجود بیڈ کے عین وسعت میں چھوٹا سا وجود نالیوں اور سویوں میں جھکڑا اپنی ماں کو تختئہ دار پر لٹکائے بے فکر سا تھا ۔ان کو ہسپتال آئے تیرہ گھنٹے بیت چکے تھے اس دوران صرف ایک بار ہاشم اپنی کالی گھنی پلکوں والی آنکھیں کھول کر تکلیف سے رویا تھا ۔اس کے بعد پھر سے دوائی کے زیر اثر اس کو بے ہوش کر دیا گیا تھا ۔
ننھے سے گلابی روئی کی نرمی پوشیدہ کیے بائیں پیر میں کینولہ لگا ہوا تھا ۔شاید کہیں اور رگ نا ملنے کی بناہ پر پاوں پر لگایا گیا تھا ۔۔
جس طرح روفہ نے اپنے جگر گوشے سے ایک پل کو نظریں نا ہٹائیں تھیں ویسے ہی فودیل اپنی عزیز از جان کو ٹکٹکی باندھے دیکھے گیا تھا ۔
وقت کیا گھڑیاں لے آیا تھا دونوں ہی اپنی اپنی محبت کو دیکھ کر رات بیتانے پر مصر تھے ۔
فودیل نے سب کو ہی گھر بھیج دیا تھا ۔سوائے ماں باپ کے کمرے میں کسی تیسرے کو اندر آنے کی اجازت بھی نا تھی ۔صرف جلیس ہی ضد کر کے رکا تھا البتہ وہ کمرے کے باہر ہی رکا ہوا تھا ۔
روفہ بنا پلکیں جھپکائے ہاشم کی خون کی کمی کے باعث پیلی پڑتی نازک سی مٹھی کو اپنی ہتھیلی پر رکھے بیڈ کے پاس کرسی لگائے سر جھکائے بیٹھی تھی ۔۔ڈرائیور سے وہ چارد منگوا چکی تھی اب کالی چادر کے اوٹ میں ہولے ہولے کسی چیز کا ورد کر کے ہاشم پر اپنے ہونٹوں کو اس کے بخار میں تپتے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے پھونک مارتی ۔
اس کی کرسی کے بالکل ساتھ ایک اور کرسی لگا کر فودیل کہنی بیڈ پر رکھ کر اس کی ایک ایک جنبش کو ملاخطا کر رہا تھا ۔اتنی فرصت سے وہ ان دوہفتوں میں بھی اس کو دیکھ نا سکا تھا ۔جب بھی وہ گھر آتا دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے سے چپکے سو رہے ہوتے ۔وہ ہو کر بھی نہیں تھا ۔روفہ کی نظراندازی کبھی کبھی دل پر بڑی کاری ضرب لگاتی تھی ۔
مگر ہاشم کے ساتھ ہوئے حادثے کے بعد جانے انجانے میں روفہ اس کے ساتھ تھی ۔حیرت انگیز طور پر وہ اس کو نظر انداز بھی بالکل نا کر رہی تھی ۔وقفے وقفے سے اس کو ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہتی کبھی نرس کو بلانے کا بولتی ۔کبھی اس کو سو جانے کا کہنے لگتی۔
کچھ اور نا سہی جانے انجانے مین ہاشم کا ننھا بےرعیا وجود ہر بار ان کی دوریوں کو کم کرنے کا باعث بن جاتا تھا ۔پہلے روفہ ہاشم کے باعث اس کے ساتھ رہنے کو تیار ہوئی پھر ہائیسم کے سامنے ہاشم کو وجہ بنا کر اپنے اور فودیل کے رشتے کا دفاع کیا اور اب ایک جھجھک کی دیوار جو تھی وہ بھی ہاشم کی بدولت گرتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی ۔
یہ سب سوچتے ہوئے فودیل اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا ۔روفہ نے چونک کر اپنے بائیں طرف فودیل کی جانب دیکھا جو کمرے سے نکل رہا تھا ۔وہ پہلے تو الجھی پھر سر جھٹک کر دوبارہ ہاشم کی مٹھی کو چوم کر ورد کرنے لگی ۔
" روفہ یہ کھا لو تم کافی دیر سے بھوکی ہو ۔"
کمرے میں آتے ہی اپنی جگہ واپس بیٹھا ۔خاکی رنگ کے کاغذ کا شاپر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے تفکر سے بولا ۔
روفہ نے چونکتے ہوئے اس خاکی لفافے کو دیکھا جس میں سے آتی خوشبو پورے کمرے میں پھیل چکی تھی ۔
" حلق سے اتر سکتا تو ضرور کھا لیتی ۔"
اس کے چہرے پر نظریں جمائے کھوکھلے لہجے میں بولی ۔فودیل اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو اتنے بڑے دل دہلا دینے والے حادثے پر ایک آنسو نا روئی تھی ۔
یہ اس کی بیماری تھا یا بہادری وہ سمجھ نا سکا تھا جو بھی تھا وہ ہزاروں تو کیا سینکڑوں میں واحد تھی ۔عورت کیا ہے یہ اس نے کبھی سمجھنے کوشش کی تھی نا کبھی دلچسبی رہی تھی ۔ اب اس کے نزدیک عورت اصل معنوں میں روفہ جیسی ہی ہونی چاہئیے تھی ۔پوشیدہ سی کبھی نرم کبھی سخت نڈر خول میں سمٹی سرد سپاٹ ہونے کے باوجود گہری ۔تنہائی میں بے رخی برت کر بھری محفل میں شوہر کی لاج رکھنے والی ۔اس جیسے نا کبھی دیکھی تھی نا تصور کی تھی ۔وہ جنونی ماں تھی تو بہترین بیوی بھی تھی ۔جانے وہ اس سے محبت کرنے پر آئے گی تو کیا ہوگی ۔؟؟ فودیل کا دل اس سوال پر شدت سے دھڑک اٹاھا تھا ۔۔
" فودیل نے آگے بڑھ کر اس کی سلکی بے قابو لٹ کو اس کے کانوں کے پیچھے نرمی سے اڑسایہ ۔ لفافہ کھول کر چکن سینڈ وچ کے اوپر سے کور اتر کر اس کے ہونٹوں کے قریب لے کر آنکھوں میں نرمی اور محبت سمیٹے اس کو کھانے کا اشارہ کرنے لگا ۔
وہ بے اختیار آنکھوں کے سرخی مائل کناروں کو مسل کر نفی میں سر ہلانے لگی ۔فل حال روفہ کو ہر چیز سے اکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔ہاشم کو صبح ہوش آنا تھا تب تک وہ ماں ہو کر کیسے کھا لیتی ۔وہ بہادر مضبوط سہی پر ایک روائیتی ماں ہی تھی ۔
" تم ماں ہو تو میں بھی باپ ہوں ۔بے شک تم نے اس کو تکلیف اٹھا کر پیدا کیا ہے مگر یہ میرے جسم کا حصہ بھی ہے ۔اور سچ یہ بھی ہے کہ تم بھی میرے وجود کا حصے ہو ۔میری برداشت دیکھو جو اپنی ذات سے بڑھ کر دو عزیز جانوں کو تکلیف میں دیکھ رہا ہے ۔"
اس کی آنکھوں سے جھلکتی محبت پر روفہ کا یقین کرنے کو جی چاہا ۔اس پل دل کی صدا پر لبیک کہتی وہ یقین کر بھی چکی تھی ۔
" ہاشم نے تین گھنٹوں سے دودھ نہیں پیا ۔وہ بھوکا ہی سو رہا ہے ۔"
اب وہ اپنی بے چینی اس کو بتانے لگی۔۔اس وقت فودیل کو خود کے بیٹے پر ہی رشک محسوس ہونے لگا تھا ۔جس کے درد میں روفہ کی جان حلق میں ہی کہیں پھنسی ہوئی تھی ۔
" جب تک اس کی ڈرپ ختم نہیں ہو جاتی اس کو دودھ نہیں دینا ۔اب تم کچھ کھالو تاکہ میں بھی کھا سکوں "
نرمی سے اس کے بال سہلا کر اس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر بولا ۔۔روفہ نے اچھنبھے سے اس کی پونی میں بندھے بالوں کو دیکھ کر اس کی گہری کالی آنکھوں میں اپنی بادامی آنکھیں گاڑیں ۔
" آپ نے کیوں نہیں کھایا ابھی تک اب تو بارہ بج رہے ہیں ۔"
وہ حیرت رذہ سی آئی سی یو کی دیوار پر لگی گھڑی کی جانب دیکھ کر بولی ۔
" تمہارے بغیر میرے حلق سے اتر سکتا تو ضرور کھا لیتا ۔"
روفہ کے الفاظ اس کو ہی لوٹا کر گھمبیر لہجے میں بولا ۔ایک بار پھر سینڈوچ اس کے ہونٹوں کے پاس کیا اب کی بار وہ اس کی گھنی مونچھوں کو دیکھ کر خاموشی سے اس کے ہاتھ سے ہی کھانے لگی ۔
" آپ کو نہیں کھانا ۔؟؟ "
اس کو باقے کے سینڈوچ ایک جانب رکھی چھوٹی سی میز پر رکھتے بے اختیار پوچھ بیٹھی ۔۔اس کے سوال پر فودیل کے ہونٹ مسکرا اٹھے۔ وہ اس سے غافل نہیں تھی ۔یہ بات اس ٹینشن زدہ ماحول میں اس کو پرسکون کر گئی تھی ۔
" مجھے لگا تم اپنے ساتھ کھانے کو کہو گی تبھی تمہارے کہنے کے اتنظار میں نہیں کھایا ۔"
وہ صاف گوئی سے مسکرا کر بولا ۔روفہ گہری سانس بھر کر اس کو کھانے کا کہنے لگی ۔اب وہ اس کی طرح تو خود سے کھلانے نہیں والی تھی اس لیے خود ہی پیکٹ کو اٹھا کر کھولنے لگا ۔۔
روفہ نے اس کے پکڑنے سے پہلے ہی اچک لیا ۔ناصرف پکڑا بلکہ بغیر جھجھک کے سینڈوچ اپنے ہاتھ سے اس کی طرف بڑھا بھی چکی تھی ۔۔
وہ شدید جھٹکے کے زیر اثر متحیر سا اس کو دیکھے گیا جو ہنوز اس کے تاثرات کو نظر انداز کرکے اس کو کھانے کا اشارہ کر رہی تھی ۔
" کھانا ہے کہ نہیں ۔۔؟؟ "
اب کی بار وہ اس کو ساکت دیکھ کر کوفت سے بولی ۔فودیل اس کی آواز پر ہوش میں آتے ہی گڑبڑا کر منہ کھول چکا تھا ۔
" تم نے معاف کیا مجھے ۔؟؟ "
آخری نوالہ اس کے ہاتھ سے کھاتے فودیل اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان دبا کر امید سے پوچھنے لگا ۔۔روفہ نے اس کا سوال سن کر ہاشم پر نظریں جما دیں جو اپنے ماں باپ سے بے خبر کمزور وجود پیلی رنگت سمیت کروٹ کے بل گہری نیند میں تھا ۔ڈرپ قطروں کی صورت پاوں میں لگے کینولے کے باعث رگوں میں اتر رہی تھی ۔
" سوری مت کہا کریں مجھے اس " سوری " سے سخت چڑ ہے "
وہ ہنوز اپنے بیٹے کو دیکھ کر سپاٹ لہجے میں بولی ۔
" وہ کیوں ۔غلطی پر معافی ہی مانگی جاتی ہے۔ "
وہ تعجب سا اس کا ہاتھ تھامے اس کو دیکھ کر بولا تھا ۔۔
" لفظ " معافی " کسی زخم کا مداوہ نہیں کر سکتا مگر سامنے والے فقط اس لفظ کے سہارے خود کو بری الذمہ ضرور سمجھنے لگتا ہے ۔تبھی مجھے وحشت ہوتی ہے ان حروف سے ۔"
وہ دم بخودہ سا بیٹھا رہ گیا۔ اس کے ہاتھ پر گرفت یک لخت ہی ڈھیلی پڑ گئی تھی ۔روفہ نے اپنے ہاتھ پر ہلکی گرفت محسوس کرکے اس کو دیکھا جس کی رنگت پہلے کی طرح ہشاش بشاش نا رہی تھی ۔
" مطلب تم مجھے کبھی معاف کرو نہیں گی۔بالکہ سزا دو گی ۔اور وہ یقینا " دوری " کی ہو گی ہے نا ۔۔"
وہ بے بسی سے شرگوشی نما آواز میں بولا ۔روفہ نے بے تاثر چہرے سے نفی میں سر ہلایا ۔دونوں کی نگاہیں ہاشم کے وجود کے گرد طواف کر رہی تھیں ۔فودیل روفہ کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا ۔
" میری اوقات ہی کیا ہے کسی کو معافی دینے والی ۔"بندہ " معافی نہیں دیتا " بندگی " کے لائق والا دیتا ہے ۔۔یہ صفت میری نظر میں اس پر ہی جچتی ہے ۔۔"
فودیل کو اس کی جانب چہرہ موڑ کر ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگا ۔اس کے لفظوں پر وہ مسمرائیز ہوا تھا ۔۔
" اور میں ناراض تو تھی ہی نہیں تو کہاں کی معافی ۔۔؟؟"
وہ کندھے اچکا کر لاپرواہی سے اپنے ازلی انداز میں بولی ۔۔
" کیا مطلب ؟؟ تم خفا نہیں تھی ۔۔؟؟ میں نے اتنا برا کیا تمہارے ساتھ ۔تم پھر بھی ناراض نہیں تھی ۔؟؟ "
وہ ناسمجھی سے جھٹکا کھا کر بولا ۔۔اس کی بات فودیل کی سمجھ سے باہر تھی ۔بھلا کوئی بندی کیسے یہ الفاظ کہہ سکتی ہے ۔وہ شدید الجھن میں اس کے بولنے کا منتظر تھا ۔۔
کون سی ناراضگی ؟؟ کہاں کی خفگی ؟؟ ہمارے درمیان تو شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد تک روٹھنے منانے کا کوئی چکر ہی نہیں تھا ۔ہم دونوں ہی اپنی زندگیوں میں مگن ایک دوسرے سے غفلت برتنے کی کوشش میں تھے ۔
ویسے بھی مجھ سے یہ روٹھنے اور منانے والے چونچلے نہیں ہوتے ۔"
وہ سانس لینے کو رکی ۔۔سانس تو فودیل بھی روکے بیٹھا تھا ۔روفہ کی آواز سرگوشی سے زیادہ نا تھی ۔
" آپ نے مجھ پر کوئی ظلم تو نہیں ڈھایا تھا ۔صرف زبان کے طنز ہی تھے۔ جو تھوڑے تکلیف دیتے تھے مجھے ۔۔مگر وہ بھی آپ کا وقتی غصہ تھا بابا نے آپ کو ترتیل کے حوالے سے جو دھمکی دی تھی اس کا ری ایکشن تھا ۔
باخدا میں کوئی ستی ساوتری نہیں کہ آپ مجھ پر ہاتھ اٹھاتے ظلم کرتے اور میں مظلوموں کی طرح ایک کونے میں روتے سسکتے خود کو اپنے شوہر پر وار کر اس کا دل جیتے کی انتھک کوشش کرتی ۔ مجھے اس ہاتھ کو جڑ سے اکھاڑنا آتا ہے جو میری طرف آئے گا ۔جو آنکھیں مجھ پر اٹھیں گی ان کو نوچنے میں مجھے کوئی عار محسوس نا ہوگی "
وہ نفی میں سرہلاتے ہوئے دیھمی آواز میں کہہ رہی تھی ۔۔ہاشم رزا سا کسمسا کر کروٹ بدل کر پھر سو گیا تھا ۔فودیل نے ابھی تک اپنی پلکیں تک نا جھپکیں تھیں ۔
" میں نے ہمارے رشتے کو صرف اپنے ضمیر کو مطمئین کرنے کے لیے ایک موقع دیا تاکہ کل کو میں خود کو اور دوسروں کو جواب دینے والی تو بنوں ۔قربت کے وہ لمحات میرے اندر کوئی ہل چل نا مچا سکے تھے ۔آپ کی محبت بھی میرے اندر پیدا نہیں ہوئی تھی ہاں مگر میں اندر باہر سے آپ کو موقع دے کر خود کو پرسکون ضرور کر چکی تھی ۔۔"
جبکہ فودیل اس وقت صرف یہ سوچ رہا تھا کہ۔ قربت کے وہ لمحات اس کو کتنے عزیز تھے۔ محبت تو پہلے ہی دل میں پھوٹ چکی تھی مگر اس رات کے بعد تو دل میں جڑہیں پھلا چکی تھی ۔جبکہ اس کی بیوی کے لیے تو وہ کوئی اہمیت ہی نا رکھتے تھے ماسوائے اپنی ذات کو مطمئین کرنے کے ۔
" میں یہ بھی جانتی ہوں شادی کے دوسرے ہفتے آپ نے مجھ پر غورو فکر کرنا شروع کیا تھا ۔میری حرکتوں کو نوٹس کرنے لگے تھے ۔تیسرے ہفتے راتوں کو اٹھ اٹھ کر بالکنی میں آکر مجھے بے خودی میں دیکھتے تھے ۔چوتھے ہفتے آپ اپنی کیفیت سے گھبرانے لگے تھے ۔اس لیے مجھ پر مزید طنز شروع کر دیئے ۔آپ صرف خود کو یہ باور کرانا چاہتے کہ بابا سے ان کی بلیک میلنگ کا بدلہ لینے کے لیے ایک دن مجھے چھوڑ دیں گے ۔ پھر شاید آپ خود سے لڑتے لڑتے تھک کر بے خودی میں میرے قریب آئے ۔۔
اس کے بعد آپ خود کو ملامت کرنے لگے ۔میری محبت آپ کے اندر گہری سے گہری ہوتی گئی جس سے ہر قیمت پر آپ کو جان چھڑانی تھی ۔تبھی نانا سے بات کر کے آپ نے مجھے خلع لینے کو کہا ۔
آپ چاہتے تو مجھے موقع پر طلاق دے کر فارغ کرتے مگر بابا کو وجہ بنا کر آپ نے مجھے خلع لینے کو کہا آپ کو امید تھی شاید میں منع کروں گی آپ کی منتیں کروں گی اور فودیل زکی اپنے ضمیر کو مطئین کرنے کے لیے مجھ پر ترس کھا کر یہ رشتہ نبھائے گا ۔۔مجھ سے محبت تو کرے گا مگر اظہار نہیں کرے گا ۔رشتہ تو نبھائے گا مگر ظاہر یہ کرے گا کہ وہ بہت مجبوری میں میرے ساتھ زندگی کاٹ رہا ہے۔ "
اے سی کی خنکی میں بھی اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں تھیں ۔وہ دم سادھے بھونچکا سا اپنی بیوی کو دیکھے گیا جس کا حرف با حرف سچ تھا ۔جو باتیں اس کے دل کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا نا اس نے کبھی کسی کو بتائیں تھیں یہاں تک کہ نانا کو بھی نہیں ۔وہ ساری باتیں روفہ جانتی تھی ۔
وہ لڑکی پل میں اس کی شخصیت کا خلاصہ اس کے سامنے کھول کر بیان کر چکی تھی ۔فودیل کو آنکھوں کے سامنے کمرہ کھومتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔وہ اندر تک سب بھید سے واقف تھی ۔جبکہ وہ خود اس کا باطن تو کیا ظاہر بھی نہیں جان سکا تھا ۔
کمرے میں ایک دم ہی اس کو آسیکجن کی کمی سی محسوس ہونے لگی تھی ۔وہ کبھرا کر ٹیبل کے اوپر پڑی پانی کی بوتل منہ کو لگا کر غٹا غٹا سارا پانی ایک ہی سانس میں چڑھا گیا ۔۔
روفہ اس کی زرد پڑتی رنگت کو دیکھ کر پر اسرار سا مسکرانے لگی ۔۔
" جب آپ نے مجھے چھوڑنے کو کہا اس وقت میں شاک میں چلی گئی ۔ایک پل کو تو پیروں تلے زمین بھی نکلی تھی میں نے ان پندرہ منٹ میں بہت سوچا پھر سچ کہوں تو آپ پر سو لعنتیں بھیج کر بابا کو آٹھ منٹ میں منا کر اسلام آباد سی ایس ایس کرنے چلی گئی روفہ کو جھکنا نہیں آتا البتہ جھکانا میری فطرت میں شامل ہے جس کی زندہ مثال آپ کی اپنی ذات ہے ۔"
اس کے لہجے میں غرور نہیں تھا البتہ اعتماد ضرور تھا وہ پرسکون سی ہاشم کے بال سہلانے کے دوران بولی ۔۔فودیل اپنی کنپٹی کو مسلتا ہوا باہر چلا گیا تھا ۔اس وقت وہ روفہ سے کہیں دور چھپ جانا چاہتا تھا ۔اس کا سامنے کرنے کی نا تو ہمت تھی نا ہی سکت ۔۔
فودیل جیسے ہی دکھتے سر کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا سامنے ہی جلیس دروازے سے کان لگائے کھڑا تھا ۔۔فودیل کو باہر نکلتے دیکھ کر بوکھلا کر پیچھے ہٹا ۔
تم یہاں کیا کر رہے ہوں ؟؟ "
وہ عجیب سے لہجے میں بولا ۔جلیس سٹپٹا کر اس سے دور ہوا اب وہ یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ ان کی پرسنل باتیں وہ سن چکا تھا ۔
" وہ ۔۔۔۔وہ کچھ نہیں بس ہاشم کو چیک کرنے آیا تھا ۔"
گردن پر خارش کرکے ہموار لہجے میں بولنے کی کوشش کی ۔فودیل نے محض سر ہلا دیا ۔وہ اگر حواسوں میں ہوتا تو ضرور اس کی اچھے سے خبر لیتا ۔
جلیس بھی غور کرنے پر اس کی حالت سمجھ چکا تھا
" کہیں جارہے ہو تم ؟؟ اس وقت باہر مت جاو ایک گھنٹے میں ڈاکٹر راونڈ لگانے والا ہے اس وقت تمہارا ہاشم کے پاس موجود ہونا ضروری ہے ۔"
اس کو باہر کی طرف جاتے دیکھ کر سنجیدگی سے بولا ۔۔
"ہاں ۔۔اچھا ۔۔"
وہ اب بھی غائیب دماغ سا باہر جانے کی بجائے کمرے کے باہر پڑے بینچ پر سر جھکا کر بیٹھ گیا ۔۔
" تم سے ایک بات کہو ۔مگر مجھے ڈر ہے تم نے مجھے کوئی مکا یا گھونسا جڑ دینا ہے ۔"
وہ شرمندہ سا اس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر بولا ۔۔فودیل کے ماتھے پر تیوری چڑھی ۔
" کوئی بکواس تو مت ہی کرنا تم ۔اس وقت ویسے بھی دماغ کام نہیں کر رہا میرا ۔"
اس کے جھلا کے بولنے پر جلیس تھوک نگل کر سر ہلا گیا ۔۔
" تمہاری اور روفہ کی باتیں سن لیں میں نے ۔پر قسم سے جان بوجھ کر نہیں سنیں ۔"
اس کے بولنے پر فودیل نے ایک ناگوار نظر ڈال کر زیرلب اس کو گالی دی ۔جلیس جبکہ خود کو دی گئی گالی سن چکا تھا تبھی اس پر لعنت بھیج کر وہیں بیٹھا رہا ۔
" تمہیں پتا ہے روفہ ہاشم کو لے کر بہت جنونی ہے ۔اس کے پیدا ہونے کے پہلے سے ہی ۔ہم سب نے بہت کہا تھا اس کو ابارشن کا مگر وہ مانی ہی نہیں ۔ماما نے تو باقاعدگی ہاتھ تک جوڑ ڈالے تھے اس کے سامنے مگر وہ پھر بھی نہیں مانی ۔میں نے ایک سال میں روفہ کو قریب سے جانا ہے ۔میری بہن واقعی غیرمتوقع ہے ۔خاص کر ہاشم کے معاملے میں ۔مجھے روفہ نے بتایا تھا کہ اس نے کس طرح بابا کو تم سے الگ ہونے کے لیے منایا ۔۔۔"
ایک سال پہلے ۔۔
اس رات وہ اپنا سارا ہوش بھلائے اردگرد سے بےنیاز عالم کے کمرے کے باہر جا کھڑی ہوئی تھی۔دماغ میں بس فودیل کی باتیں گردش کر رہی تھیں ۔وہ اس سے خلع لینے کو بول رہا تھا ۔اس سے چھٹکارا چاہتا تھا ۔اور وہ سوچ چکی تھی ۔اگر اس شخص کو اس کے ساتھ نہیں رہنا تو سو بار نا رہے وہ پلٹ کر اس کو دیکھے گی تک نہیں ۔
جو انسان محبت کرنے کے باوجود بھی اس کے ساتھ رہنے نا چاہے اس بندے پر وہ صرف افسوس ہی کر سکتی تھی ۔کوئی اور ہوتی تو ایک بار تو شکوہ شکایت یا وجہ دریافت ضرور کرتی پر روفہ نے اس کی ضرورت نا سمجھی تھی ۔
دروازے کے باہر کھڑے ہو کر وہ بس اندر جا کر عالم سے بات کرنے کے لیے الفاظ تلاش رہی تھی ۔
آہستہ سے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولا سامنے عالم بیڈ پر بیٹھے ناک پر چشمہ رکھے خبریں دیکھنے میں مگن تھے پاس ہی فضا کمبل اوڑھ کر سو رہی تھیں ان دنوں سردی اپنے جوبن پر تھی ۔
عالم اس کو رات کے اس پہر اپنے کمرے میں دیکھ کر چونکے تھے پر فضا کی نیند سے خیال سے ہاتھ کے اشارے سے اندر آنے کو بولا ۔
وہ بھی ماں پر نگاہ ڈال کر ان کو سٹڈی روم میں آنے کا اشارہ کرکے کمرے کے اندر بنی سٹڈی میں چلی گئی ۔
دونوں باپ بیٹی آمنے سامنے تھے کمرے میں آئے اس کو دو منٹ بیت چکے تھے ۔وہ شش و پنج میں تھی ۔عالم کی فکرمند نگاہیں اس پر ہی جمی تھیں ۔آتش دان میں جلتی لکڑیوں کے باعث کمرے کا درجہ حرارت نارمل تھا ۔۔
" اگر میں آپ کی طرف سے خود کو اپنی ہی گھر سے دور کرنے کی بچپن میں کی گئی زیادتی کے عوض کچھ مانگوں تو کیا دیں گے مجھے ۔"
وہ سپاٹ لہجے میں لکڑی کے جدید خانوں میں رکھی گئی کتابوں پر نظریں جما کر بولی ۔عالم کو جانے کیوں اس وقت کسی انہونی کا احساس شدت سے ہوا تھا ۔
" ککک کیا مطلب بچے ؟؟؟"
وہ بے ساختہ ہکلا کر بول اٹھے زبان جیسے الفاظ کا ساتھ دینے سے ڈر رہی تھی ۔
" مطلب صاف ہے زندگی کے بیس سالوں تک میں اپنی حقیقت سے ناواقف تھی ۔آپ سے میں نے آج تک کچھ نہیں مانگا ایک سوئی برابر چیز تک نہیں ۔پر اب مجھے چایئے ۔ہاں یا نا میں جواب دیں ۔۔دیں گے یا نہیں ؟؟"
وہ سراپائے سوال بنی اپنے باپ کا کڑا امتحان لینے پر تلی ہوئی تھی ۔عالم دھڑکتے دل سے ہاں میں سر ہلا گئے ۔یہ بات بھی سچ تھی اس نے آج تک ان سے کچھ بھی نا مانگا تھا بالکہ وہ ماہانہ خرچ تک نا لیتی تھی ۔سکولرشپ سے اس کو اتنے پیسے مل جاتے کہ اس کو اپنے باپ سے بھی پیسے مانگنے کی کبھی ضرورت پیش نا آئی تھی ۔
" فودیل سے علیحدگی اور اس گھر سے دور اسلام آباد جانے کی اجازت ۔۔"
وہ نظریں چرا کر جھکے سر سے دیھما سا بولی ۔جو بھی تھا عالم کے چہرے کی بے یقینی وہ دیکھ نا پائی تھی ۔عالم حق دق سے سناٹے کی زد میں اس کو دیکھے گئے ۔۔
گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز خاموشی میں ایک عجیب سی آواز پیدا کرتی ۔پورے چار منٹ بیت چکے تھے ۔عالم کا سکتہ ابھی تک نا ٹوٹا تھا ۔ان کی زبان پر جیسے فقل پڑ گئے تھے ۔جس رشتے کو جوڑنے کے اتنے جتن کیے وہ آخر کار ٹوٹنے کے لیے ہی جڑا تھا ۔۔
" کیوں روفہ ۔۔"
وہ بس یہ ہی کہہ سکے ۔دماغ میں تو جھکڑ چل رہے تھے ۔ان کی بیٹی خود کو اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہی تھی ۔وہ کس حوصلے سے اس کو اجازت دیتے جبکہ آج وہ خود کے ساتھ کی گئی حق تلفی کا مداوا چاہ رہی تھی ۔
" کیوں کہ فودیل چاہتا ہے میں اس سے خلع لے لوں ۔میں نے اس رشتے کو بچانے کی اپنی سی کوشش کی مگر اس کو میرے ساتھ رہنا ہی نہیں تو پھر میں بھی اس سب کو ختم کرکے اسلام آباد سی ایس ایس کرنے جانا چاہتی ہوں ۔آپ کے کہنے پر میں نے شادی کی یہ میرا فرض تھا اب مجھے امید ہے میرے فیصلے کو ترجیح دے کر مجھے اس کمرے سے نا حق جانا نہیں پڑے گا ۔ بیس سال پہلے کی طرح۔۔۔فودیل پر میں ان چاہا بوجھ ہوں اور وہ میرے لیے میری برداشت کا مشکل ترین امتحان ہمارے الگ ہونے میں ہی سب کی بہتری ہے ۔آپ کا فیصلہ غلط ثابت ہوا پر امید ہے مجھے انکار کرکے آپ مزید کوئی غلطی دھرانا نہیں چاہیں گے ۔"
اس کے دوٹوک فیصلہ کن انداز پر وہ شکوہ کرتی آنکھوں سے اس کو دیکھنے لگے ۔وہ خود کے ساتھ ہوئی حق تلفی کا حوالہ دے کر بولنے کا حق بھی ان سے چھین گئی تھی پھر بھی ان سے اجازت طلب کر رہی تھی ۔۔روفہ نے ہر طرف سے ان کو گھیرا تھا۔ وہ بے بسی سے کنپٹی مسلنے لگے ۔
" جو تمہاری مرضی ۔۔"
پورے تین منٹ بعد ان کی شکستہ سی آواز گونجی ۔ان کا ہارا ہوا لہجہ جھکے کندھے نڈھال سراپا اس کو تکلیف دینے لگا ۔پر سب کچھ نظر انداز کرتی وہ خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے ان کے کمرے سے نکلتی چلی گئی ۔۔
عالم نے ڈبڈبائی نظروں سے اس کی پشت کو دیکھا ۔وہ شاید روفہ کو فودیل کے ساتھ جوڑ کر بہت بڑی غلطی کر چکے تھے ۔آج اس بات کے اعتراف نے ان کو مزید بوڑھا کر دیا تھا ۔۔
کمرے سے باہر آکر فودیل کو جواب دے کر وہ وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں گئی تھی ۔۔فودیل کے شاک بھرے تاثرات پر روفہ نے کوئی ردعمل نا دیا تھا ۔اس کی نظر میں ایسی محبت کرنے کا فائیدہ ہی کیا تھا جس میں وہ اس کے ساتھ رہنے کا روادار نا ہو ۔ساری رات افسوس دکھ اور بے چینی میں کٹ گئی تھی ۔مگر وہ ایک پل کو بھی اس فیصلے پر پچھتائی نا تھی ۔
رات تو جاگتی آنکھوں سے کٹ چکی تھی پر دن کے اجالے کے ساتھ ہی وہ بنا کسی سے ملے محض عالم کو میسج کرکے اسلام آباد جلیس کے گھر چلی گئی ۔فودیل کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ رکی ضرور تھی مگر پلٹی نا تھی ۔پلٹنے کے سارے راستہ وہ خود ہی بہت پیچھے چھوڑے جارہی تھی ۔
جلیس کو عالم سب بتا چکے تھے تبھی وہ سنجیدہ سا اس کو ائیر پورٹ پر لینے آیا تھا نا اس نے کچھ پوچھا تھا نا روفہ نے بتایا ۔خاموشی سے ائیرپورٹ سے گھر تک کا سفر بیت گیا تھا ۔
گھر پہنچتے ہی اس کا سامنہ لاونج میں بیٹھی ہدا سے ہوا جو سامنے جوس اور چپس کا پیکٹ لیے ان کے انتظار میں کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھی ۔جلیس اسے بھی سب بتا چکا تھا ۔۔
" شکر آگئے آپ لوگ میں کافی دیر سے انتظار کر رہی تھی ۔آو روفہ بیٹھو میں جوس لاتی ہوں ۔بیٹھ جاو ۔۔"
اس کو ہنوز گھر کا پرسکون انداز میں جائیزہ لینے میں مگن دیکھ کر وہ پھر سے بولی ۔روفہ سر ہلا کر اس کی جگہ پر ہی بیٹھ گئی البتہ جلیس باہر اس کا سامان نکالنے کے لیے چلا گیا تھا۔
" بہت افسوس ہوا مجھے تمہارا سن کر فادی بھائی کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ "
اس کے ہمدادنہ لہجے میں کہنے پر روفہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔پر ظاہر کرنا اس کی فطرت میں نا تھا ۔تبھی اپنے تاثرات سپاٹ رکھ کر بولی ۔
" جب مجھے کوئی افسوس نہیں تو تمہیں کس چیز کا ہو رہا ہے ۔"
اس کے کہنے پر ہدا یک دم گڑبڑا گئی بھلا وہ کیسے بھول گئی روفہ کے ساتھ ہمدردی مطلب آ بیل مجھے مار ۔۔
" نہیں میں تو بس یوں ہی کہہ "
" جوس پیو ہدا گرم ہو رہا ہے ۔اور زرا احتیاط سے کہیں کپڑے نا گندے کر لینا ۔۔"
روفہ اس کی بات کاٹ کر بولی ۔اس کے لفظوں میں چھپے مطلب پر وہ سٹپٹا کر جوس کا گلاس منہ کو لگا گئی ۔روفہ سے پنگا لینا ہدا کے بس میں نا تھا ۔
وہ بھی ایک نظر اس پر ڈالتی باہر جلیس سے اپنا سامان لینے چلی گئی ۔اب جب رہنا یہاں تھا تو خود پر کوئی حرف برداشت کرنا اس کے بس میں نا تھا پھر چاہے وہ اس کے بچپن کی دوست ہدا ہی کیوں نا ہوتی ۔
دن اپنے رفتار سے گزر رہے تھے ۔اس دوران ہائیسم نے اسلام آباد اکر اس سے بہت جھگڑا کیا تھا کہ وہ واپس گھر آئے فضا نے بہت منت کی مگر وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ نا ہلی تھی ۔عالم اور جلیس اس دوران ان کے جھگڑے میں بس خاموش تماشائی ہی بنے رہے تھے ۔ان دنوں سب ہی ترتیل سے جھوٹ بول کر روفہ سے ملنے آئے تھے ۔
"میں تمہیں کسی قیمت پر بھی یہاں رہنے نہیں دوں گا روفہ ۔وہ گھر تمہارے نام ہے بابا نے اپنی زندگی میں ہم تینوں کی جائیداد ان کے نام کر دی ہے اور وہ گھر تمہارے حصے میں لکھا ہے ۔روفہ مت کرو ایسا ماما کی حالت دیکھو وہ نہیں رہ پائیں گی تمہارے بنا ۔۔"
پچھلے دو گھنٹوں کی بحث سے تنگ آکر فضا کے روتے چہرے کو دیکھ کر ہائیسم تھکے لہجے میں بولا ۔۔۔پر وہ تھی جو کسی کی آہ و بکا پر بھی راضی ہونے کو تیار نا تھی ۔۔
" بیس سال تک دور ہی رہی تھیں نا مجھ سے اب ہو گئی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے یہ ہی سمجھ لیں کہ بیٹی شادی کرکے دوسرے شہر چلی گئی بات ختم ۔"
وہ کندھے اچکا کر صاف انکار کرتے ہوئے آرام سے بولی ۔جیسے یہ کوئی بڑی بات نا ہو ۔فضا نے تڑپ کر اس کو دیکھا جو ایک شخص کی سزا ان سب کو اپنی دوری کی صورت دینے پر تلی تھی ۔
" میں نے دور نہیں کیا تھا تمہیں روفہ ۔تمہارے بابا نے بہن کی محبت میں بیٹی اور بیوی کو قربان کیا تھا ۔"
وہ ایک نظر روفہ کو دیکھ کر زخمی نگاہوں سے عالم کو دیکھنے لگیں ۔۔عالم نے شکوہ کرتی نظروں سے فضا کو دیکھا جو اب بھی غصے سے بھری ان کو قصور وار سمجھتی تھیں ۔
" ہاں سب میری ہی غلطی ہے ۔پہلے خود سے اپنی بیٹی کو دور کر دیا اور پھر ہمیشہ کے لیے خود سے جوڑے رکھنے کے لیے فودیل سے زبردستی باندھ دیا ۔"
وہ نڈھال سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے لگے ۔روفہ ان کو اس طرح تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی جو بھی تھا سیف کی محبت باپ کے روپ میں اسے ملی نا تھی مگر عالم کی محبت اس کے دل میں ہر جگہ تھی ۔
" بابا ضروری نہیں بیٹیاں اجڑ جائیں تو اس میں والدین کا قصور ہو ۔کچھ لوگوں کے نصیب میں بسنا نہیں لکھا ہوتا ۔۔بالکہ بسانا لکھا ہوتا ہے جیسے میں نا سہی مگر میرے عوض میرے بھائی کا گھر بسا ہے یہ بہت ہے ۔"
وہ سنجیدگی سے عالم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کی ہاتھ کی ہشت پر بوسا دے کر بولی ۔۔عالم آسوگی سے مسکر کر آنکھوں میں ہلکورے لیتی نمی پوچھنے لگے ۔۔روفہ نگینہ تھی ۔یہ بات تو وہ اس کے پیدا ہونے کے بعد سے جانتے تھے ۔۔
ہائیسم اور جلیس اس کی گہری بات پر چپ کر کے اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر رہ گئے ۔فضا اب بھی اس کو منانے کی کوشش میں تھیں مگر وہ بھی نا جانے پر بضد تھی ۔
" ماما مجھے لگتا ہے کہ آپ چاہتی ہیں میں یہ ملک ہی چھوڑ کر چلی جاو۔باخدا آپ جو ابھی میرا چہرہ دیکھ رہی ہیں وہ بھی نہیں دیکھ پائیں گی ۔"
وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر چائے کا مگ لبوں سے لگا کر بڑے اطمینان سے بولی ۔۔فضا صدمے کی زد میں کچھ کہہ بھی نا پائیں تھیں ۔۔
" تم ایسا کچھ نہیں کرو گی روفہ ۔۔"
ہائیسم تیکھے چتونوں سے بولا ۔اس کا دماغ پل میں گھوما تھا ۔۔
" تو کیا تم روک سکتے ہو مجھے ؟؟ سچی ہائیسم تم چاہ کر بھی روک نہیں سکتے ۔۔۔"
بڑے انداز میں ڈوپٹا کندھے پر درست کرکے وہ استہزائیہ مسکرا کر بولی ۔۔اس کی یہ دھمکی خالی خولی نا تھی کیونکہ اس کے شاندار اکیڈمیک ریکارڈ کو دیکھ کر یونی ورسٹی کی ایک دوست نے اس کو ویزہ سپونسر کرنے کی آفر کی تھی جسے وہ ٹال گئی تھی ۔پر اب بروقت یہ دھمکی ان کو مزید بحث سے باز رکھنے کے لیے کام آگئی تھی ۔۔
یہ جاتی سردیوں کے خوشگوار دن تھے ۔جب وہ سی ایس ایس کی تیاری کے لیے ہر وقت مصروف رہتی تھی یہاں تک کہ کھانے پینے کا ہوش بھی بھلائے بیٹھی تھی ۔۔فضا اب زیادہ تر اسلام آباد ہی ہوتی تھیں ۔ترتیل اگر ہائیسم سے ان کے بارے میں کچھ پوچھتی تو وہ ان کے ٹریمنٹ کا بہانا کرکے اس کو مطمئین کر دیتا ۔وہ خود بھی بزنس میٹنگ کے بہانے عالم کے ساتھ روفہ سے ملنے جاتا تھا ۔
ان ہی دنوں عالم نے فودیل کا خلع کے حوالے سے انکار کے بارے میں اس کو بتایا ۔۔وہ حیران بالکل نا ہوئی تھی البتہ سرجھٹک کر رہ گئی تھی ۔
فودیل اب اس کا پتا پوچھنے کے لیے عالم اور ہائیسم سے جھگڑے کرنے لگا تھا جس کو سن کر وہ اندر ہی اندر کھول کر رہ جاتی ۔۔جب وہ پاس تھی تب کوئی قدر نا تھی اور اب فودیل صاحب مجنوں بنے پھر رہے تھے ۔
فودیل کے نانا عالم کے سگے چاچو تھے تبھی عالم نے ان سے کچھ بھی چھپایا نا تھا وہ پہلے دن سے روفہ کی رہائیش اور اس کی مصروفیات کے بارے میں عالم سے پوچھتے رہتے تھے ۔نانا نے جان بوجھ کر فودیل کو کچھ نا بتایا تھا ۔وہ اس کو آزما رہے تھے کہ آخر روفہ کولے کر اس کے جذبات میں کتنی سچائی تھی ۔اور وہ ہر قدم پر ان کو حیران کر دیتا تھا ۔اس کی یاد میں گھنٹوں گھنٹوں کھویا رہتا تھا ۔
اس دن وہ اپنے کمرے کے ساتھ بالکنی مین بیٹھی کتاب پر نظریں جما کر بڑے انہماک سے پڑھ رہی تھی ۔جب اچانک ہی پڑھتے پڑھتے آنکھوں کے آگے اندھیرہ سا چھا گیا تھا ۔ہاتھ پیر ایک دم ڈھیلے پر گئے تھے ۔۔وہ اپنی کیفیت سے پریشان ہوتی بامشکل سر تھامے خود کو گھسیٹ کر بالکنی سے کمرے میں آئی ۔
۔صبح سے اس نے ٹھیک سے کچھ کھایا بھی نا تھا ۔فضا ان دنوں لاہور گئی ہوئی تھیں اس لیے وہ لاپرواہی برت گئی تھی ورنہ وہ تو ہر وقت اس کے آگے پیچھے ہی رہنے لگیں تھیں ۔
ابھی وہ کمرے میں پہنچی ہی تھی جب اچانک متلی کا احساس جاگا تھا ۔۔یک دم پیٹ پر ہاتھ رکھے منہ کو ہاتھ سے سختی سے دباتی وہ اندھا دھند باتھ روم میں بھاگی تھی ۔۔
کچھ کھایا تو تھا نہیں مگر صبح کو پیا ہوا جوس بھی نکل گیا تھا ۔۔طبیعت اس قدر بے حال ہوچکی تھی آنتیں بھی پھیپھڑوں سمیت باہر آنے کو تھیں ۔۔زور لگانے کے باعث پوری کمر اور سر میں درد کی لہر اٹھی تھی جس کو بامشکل برداشت کرتی وہ دیوار کا سہارا لے کر بیڈ تک آئی ۔۔اتنی بھی ہمت نا بچی تھی کہ پاس ٹیبل پر جگ میں پڑا ہوا پانی ہی اٹھا کر پی لیتی ۔۔
اس جیسے مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی بھی اس وقت پیلی زرد پڑ گئی تھی ۔۔خود کو بیڈ پر ڈھیر کرتی وہ کتنی ہی دیر چھت پر لگے خوبصورت سے کالے رنگ کے پنگھے کو گول گول اپنے مدار میں گھومتا ہوا دیکھنے لگی ۔۔
خالی پیٹ اور درد کے باعث وہ آہستہ سے آنکھیں موند گئی ۔۔ایک خیال بجلی کی طرح ذہن کے پردے پر لہرایا تھا جس نے روفہ عالم کو سر سے لے کر پیر تک ہلا کر رکھ دیا تھا ۔۔
وہ پہلے بار حواس بانختہ ہوئی تھی اور اس احساس کے زیر اثر وہ لیٹے سے اٹھ بیٹھی تھی ۔۔
فہم وفراست کی حامل وہ بہت جلد خود میں آئی تبدیلی کے بارے میں اندازہ لگا چکی تھی ۔اگر جو اس کا قیاس درست ثابت ہوا تو ؟؟؟
اور اس "تو " میں پوشیدہ سوالیہ نشان روفہ کا منہ چڑھا رہا تھا ۔وہ سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر کتنی ہی دیر بیٹھی رہی ۔ آنکھیں موندیں ساکت جامد بے حس و حرکت ۔۔
اس کے اندر باہر گہرے سناٹے تھے ۔۔زندگی میں پہلی بار وہ خود کی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔
مگر جو شک تھا سب سے پہلے اس کی تصدیق لازمی تھی ۔وہ ہوش میں آتی فورا بیڈ سے اٹھ کر الماری کی طرف بڑھی ۔۔اگلے دس منٹ میں وہ خود پر چادر کی بکل مار کر ہدا سے نظر بچاتی گیٹ سے باہر سڑک پر ٹیکسی روک رہی تھی ۔۔
سارا راستہ وہ خالی ذہن سے گاڑی کے شیشوں کے باہر نظر آتی اسلام آباد کی عمارتوں پر متوجہ تھی ۔۔فٹ پاتھ پر لگے پودے ہوا کے دوش سے لہرا کر موسم میں مزید تازگی کا سما باندھ رہے تھے ۔مگر وہ اپنے اندر بدلتے موسموں کی رت کو سمجھ نا پا رہی تھی ۔
" آپ کا شک بالکل درست تھا روفہ یو آر ایکسپیکٹنگ بہت مبارک ہو ۔۔"
ڈاکٹر نے روفہ کے ہمراہ الٹرا ساونڈ روم سے باہر آکر کہا ۔اس دوران پہلی بار ایک مدھم سمکراہٹ اس کے لبوں کو چھو کر گزری تھی ۔وہ بے ساختہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اندر پلتی زندگی کی رمق کو محسوس کرنے لگی ۔۔ڈاکٹر کے چند روائیتی جملے اور چارٹ پکڑ کر وہ جیسے گھر سے نکلی تھی ویسے ہی دبے قدموں اندر بھی داخل ہو چکی تھی
الٹرا ساونڈ کی بیک اینڈ وائیٹ رپورٹ پر روفہ نے بڑی احتیاط سے ہاتھ پھیرا ۔۔آنکھوں کے سامنے وہ منظر لہرایا تھا جب مونیٹر پر اس نے اپنے بچے کی ڈھرکنیں سنیں ہی نہیں دیکھیں بھی تھیں ۔
اپنے ہونٹوں سے اس رپورٹ کو چوم کر گود میں رکھ کر کتنی ہی دیر آنکھوں سے دیکھتی رہی ۔اس وقت وہ کچھ نا سوچ رہی تھی ۔فودیل نامی انسان دور دور تک کہیں نہیں تھا ۔اگر تھا وہ صرف وہ وجود جو ابھی آیا بھی نا تھا ۔
وہ فل حال گھر میں کسی کو بھی نہیں بتانا چاہتی کہ وہ ون منتھ پریگننٹ ہے ۔۔ابھی کچھ دن پہلے کا واویلا اس کو بھولا نا تھا ۔
الماری کھول کر احتیاط سے رپورٹ لوکر میں رکھ کر تالا لگا دیا ۔۔کم از کم جب تک وہ چھپا سکتی اس کو یہ خبر منظر عام پر نہیں لانی تھی ۔۔
اب وہ خود سے ہی اپنے کھانے پینے کا خیال رکھنے لگی تھی ۔فضا واپس آچکی تھیں مگر اب ان کو پہلے کی طرح اس کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑتا تھا ۔
" روفہ کیا بات ہے موٹی ہوتی جارہی ہو کم کھایا کرو ۔"
وہ جو رات کے کھانے پر پلیٹ بھر کر بریانی کھا رہی تھی جلیس کی بات پر منہ میں جاتا چمچ ایک پل کو ساکت ہوا تھا مگر دوسرے ہی پل وہ خود پر قابو پاتی آرام سے کھانے لگی اس کی پریگنینسی کو چار ماہ بیت چکے تھے ۔ کافی حد تک جسم بھرا بھرا سا ہو گیا تھا ۔مگر وہ بہت احتیاط سے کام لیتی تھی ہمیشہ سے کھلے کرتے پہنے کی وجہ سے کسی نے بھی اس کے سراپے پر غور نا کیا تھا ۔یہاں تک کہ فضا بھی جان نا پائیں تھیں ۔۔
مگر جلیس کی بات پر وہ چونک ضرور ہوگئی تھی ۔
" اپنی پلیٹ پر نظر رکھو چوتھی بوٹی پر ہاتھ صاف کر رہے ہو ۔"
بڑی سنجیدگی سے اس پر طنز کرتی وہ کباب کھانے لگی ۔ہدا جلیس کی پلیٹ دیکھ کر نفی مین سر ہلاتی ہنسنے لگی وہ اکثر ہی روفہ سے چونچ لڑانے بیٹھ جاتا تھا ۔۔
اس دن بھی وہ معمول کی طرح گارڈن میں بیٹھی انگلش کے مضمون لکھ رہی تھی جب فضا نے ہدا کے ہمراہ ایک فائیل اس کے سامنے میز پر پٹخی ۔وہ پہلے تو حیرت سے فائیل کو دیکھنے لگی پر سنجیدگی سے سر اٹھا کر فضا کو دیکھا جو اسے ہی طیش میں گھور رہی تھیں ۔
" کیا ہے یہ روفہ بتاو مجھے کیا ہے یہ ؟؟ "
وہ برہمی سے اس کے سر پر کھڑیں جبڑے بھینج کر بولیں ۔روفہ واقعی ان کی سمجھ سے باہر تھی ایک طرف فودیل سے خلع چاہتی تھی تو دوسری طرف اب اس ہی انسان کے بچے کو اپنے اندر پال رہی تھی ۔
" نانی بننے والی ہیں ۔آپ کو تو خوش ہونا چاہئیے پر بڑی عجیب بات ہے لگ تو بالکل نہیں رہیں ۔"
وہ مصنوعی حیرت سے کہہ کر ماں پر میٹھا سا طنز کرکے دوبارہ رجیسٹر پر جھک گئی ۔اس کے اطمینان نے پل میں فضا کا سکون غارت کیا تھا ۔وہ اپنی اس اولاد کو سمجھ نہیں پاتی تھیں ۔
" خوش ؟؟ کیا واقعی مجھے خوشیاں منانی چاہئے ایک طرف تمہیں اس کے ساتھ رہنا نہیں ہے تو دوسری طرف اس کا بچہ بھی پیدا کرنے جا رہی ہو ۔روفہ میں کیا کروں تمہارا مت کرو خود کو یوں برباد ۔"
وہ ان اس کے پاس ہی گھاس پر رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئیں ہدا اس دوران خاموش تھی ۔۔
" ماما ٹھیک بول رہی ہیں روفہ ۔۔تمہیں ہم سے یہ سب چھپانا نہیں چاہیئے تھا ۔"
روفہ نے سپاٹ چہرے سے دونوں ساس بہو کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑی پینسل کو دونوں مٹھیوں میں پکڑ کر ایک زور دار جھٹکا دیا جس سے لکڑی کی پنیسل دو ٹکروں مین بٹ کر ٹوٹ گئی ۔
" جس نے بھی میرے بچے کے خلاف یا اس کو اس دنیا میں لانے سے روکنے کو بولا اس کا حال میں اس ٹوٹی پینسل سے بھی بدتر کروں گی ۔۔"
اس کے سرد انداز میں کہنے پر ہدا اور فضا حق دق سی اپنی جگہ بیٹھی رہ گئیں تھیں۔رفضا نے آنکھوں میں آنسو بھر کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔روفہ ششدر ہی ان کے عمل کو دکھ سے دیکھنے لگی ۔۔
" مت پیدا کرو اسے باپ کے بغیر کیا زندگی دے پاو گی تم اسے بولو ۔میرے جڑے ہاتھوں کی لاج رکھ لو۔۔"
روفہ ہدا کی بات کو نظر انداز کرتی اپنی جگہ سے اٹھتی ان کے قدموں میں بیٹھ کر فضا کے آنسو صاف کرنے لگی ۔
" ضرور مانتی اگر آپ کی بات قابل قبول ہوتی ۔ماں باپ کی ماننا فرض ہے پر میں قتل کا گناہ کبھی نہیں کروں گی ۔اگر اولاد اور والدین میں سے مجھے کسی ایک کو چننا ہوا تو میں بغیر کسی جھجھک کے اولاد کو چنوں گی ۔آپ مجھے بے حس کہہ لیں پر میری نظر میں یہ مجرم بننے سے بہتر ہے ۔"
نرمی سے کہتی وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی اس کی بات فضا کو ہلا کر رکھ گئی ۔اس دن کے بعد انہوں نے روفہ کو کبھی دوبارہ ویسا کچھ نا کہا نا ہی کسی اور کو کہنے دیا ۔وقت گزرتا گیا اور روفہ کا آٹھواں ماہ ختم ہونے والا تھا ۔اس دوران وہ اپنے سی ایس ایس کے امتحان بھی دے رہی تھی ۔۔
گرمی کے دن تھے اور شدید حبس میں وہ ہر روز اس حالت میں پیپر دینے جاتی تھی ۔۔سب نے اس کو اگلے سال امتحان دینے کو کہا تھا مگر وہ اس ہی سال دینے کے لیے بضد تھی ۔
ایگزیمینیشن سینٹر میں وہ اپنا آخری پیپر حل کر رہی تھی ۔آج اسلامیات کا پیپر تھا ۔گھڑی کی سویوں کے آگے بڑھنے کے ساتھ امتحان کا وقت ختم ہوتا جارہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کے ضبط کا پیمانا بھی ختم ہوتا جارہا تھا وہ کن مشکلوں سے وہاں بیٹھی تھی صرف وہ ہی جانتی تھی ۔۔
روفہ واحد ایسی لڑکی تھی جو اس وقت وہاں پریگنینسی کی حالت میں پیپر دینے آتی تھی ۔لوگوں کی گھورتی حیرت بھری نظروں کی پرواہ کیے بغیر اس نے سارے پرچے دیئے تھے مگر اس آخری پرچے پر اس کی ہمت جواب دے گئی تھی ۔اچانک سے لکھتے لکھتے قلم ہاتھ سے چھوٹ کر گرا تھا ۔
سامنے کھڑی نگران روفہ کی چینخ سے گھبرا کر ہواس باختہ سی اس کی طرف بڑھی تھی سب لوگ کمرے میں موجود طلبہ اس کی طرف ہونقوں کی طرح اپنے اپنے قلم روک کر دیکھنے لگے ۔نگران اس کو کالج کے دفتر میں لے گئی تھی ۔۔اس دوران روفہ درد کی لہروں کو برداشت کرتی نڈھال ہو چکی تھی ۔
" میرے میرے ۔۔فون سے ۔۔جلیس نام کا ۔۔۔نمبر ڈائیل کریں ۔۔اس کو فون کریں ۔۔۔"
روفہ درد سے دوہری ہوتی کراہتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں بولی ۔۔ دفتر میں اس وقت کوئی نہیں تھا نگران بوکھلا کر اس کی ہداہت پر عمل کرتی بھاگ کر دوسرے آفس سے روفہ کا موبائل لے کر آئی ۔۔اس دوران روفہ اپنی چادر کو مٹھی میں جکڑے گہرے گہرے سانس بھرتی رہی تھی ۔اس کا خود پر قابو پن کھوتا جارہا تھا ۔
ہسپتال کی عمارت تلے روفہ نے اپنی بوجھل سوجے پیپٹوں والی بادامی رنگ کی گہری آنکھیں آہستہ سے کھولیں ۔۔ہاتھ پر کینولے کی چبھن سے اس کی بے ہوشی ٹوٹی تھی ۔۔جسم اب بھی پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا سامنے دیکھا تو جلیس اور ہدا کسی نومولود کو تھامے کھڑے تھے ۔۔ہائیسم عالم کے ساتھ آہستہ آواز میں کچھ کہہ رہا تھا جبکہ فضا اس کے پیروں والی سائیڈ پر بیٹھی اس کو ہی دیکھ رہی تھیں ۔
اس کے آنکھیں کھولنے پر سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔عالم نے مسکرا کر آپنے نواسے کو جلیس کے ہاتھوں سے لے کر اس کے پہلو میں لٹایا ۔
جیسے ہی روفہ نے اس گل گوتھنے پر سر گھوما کر نظر ڈالی ۔وہ حیرت خوشی شاک کی کیفیت میں زندگی میں پہلی بار سر شار ہوئی تھی ۔۔
وہ پورا کا پورا اس جیسا تھا ۔روفہ کو اپنا آپ اس موم کے گڈے میں نظر آیا ۔وہ آسودگی سے مسکرا کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
"احتیاط سے روفہ ڈاکٹر نے ابھی ہلنے جلنے سے بالکل منع کیا ہے ۔"
فضا اس کو نرمی سے ٹوکتی بیٹھانے لگیں ۔۔روفہ کے کہنے پر فضا نے اس چھوٹے سے روئی کے سفید گالے کو روفہ کی گود میں لٹا دیا ۔
" ہاشم میرا ہاشم ۔۔"
روفہ کی بڑبڑاہٹ سب سن کر مسکرا دیئے تھے ۔۔
" ہاشم کے پیدائیش کی خبر اس کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیئے ۔اور میں دوبارہ یہ بات دہراوں گی نہیں ۔"
اس کے تنبیہی انداز پر سب ہی سنجیدہ ہوئے تھے ۔۔
" اس کے باپ کو نا بتا کر تم اب زیادتی کر رہی ہو روفہ ۔"
جلیس بے ساختہ ہی احتجاج کر بیٹھا۔۔ہائیسم کے گھورنے کو بھی وہ کیس خاطر میں نا لایا تھا ۔
" چلو ایسا ہی سہی ۔امید ہے آپ لوگ میری بات ماننے سے انکار نہیں کریں گے ورنہ مجھ سے آپ کسی بھی چیز کی امید رکھ سکتے ہیں ۔۔"
وہ نقاہت زدہ آواز میں بولی ۔۔اس کے بعد کسی نے بھی کوئی اعتراض نا کیا تھا ۔
روفہ کا سی ایس ایس کا رزلٹ آگیا تھا اس نے شہر بھر میں دسویں پوزیشن لی تھی ۔حیدر فضا کی دوست کا بیٹا جو کہ اس کا دودھ شریک بھائی بھی تھا ۔اس کے مشورے پر ہی روفہ نے اسیسٹینٹ کمیشنر کا شعبہ چنا تھا ۔۔
سب لوگ معمول کے مطابق زندگی بسر کر رہے تھے جب اچانک سے روفہ کا فودیل سے سامنہ ہوا تھا اس دن کے بعد سب کچھ ہی بدل گیا تھا ۔۔
فون کی چنگھاڑتی آواز پر جلیس ماضی سے حال میں لوٹا ۔۔۔
فودیل سب سن کر دم سادھے بیٹھا رہ گیا تھا ۔نانا کب آکر اس کے پہلو میں بیٹھے فودیل کو خبر بھی نا ہو سکی تھی ۔۔وہ چونکا تو تب جب جلیس ہڑ بڑا کر باہر کو بھاگا تھا ۔ہدا کی طبیعت اچانک بگڑ گئی تھی فضا ڈرائیور کے ساتھ ہدا کو اس ہی ہسپتال لے آئیں تھیں اوپری فلور پر اس وقت ہدا لیبر روم میں تھی۔۔اور جلیس کی جان جیسے حلق میں ہی پھینس گئی تھی ۔۔اس کو دیکھ کر فودیل کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا تھا کہ ہاشم کے وقت وہ روفہ کے پاس موجود نا تھا ۔۔اپنی پہلی اولاد کی اس خوشی سے وہ محروم ہو چکا تھا ۔۔اس بات کی کسک ساری عمر اس کے ساتھ رہنی تھی ۔۔
" فادی بچے ڈاکٹر روانڈ پر آچکا ہے چلو جاو اندر ۔۔ "
نانا ہاشم کی خبر لینے آئے تھے ۔۔ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کرنے سے وہ ہوش میں آکر آئی سی یو کی جانب بڑھا تھا ۔
جہاں اس کی بیوی بچہ اس کے منتظر تھے ۔وہ ہی اس کی پوری دنیا تھے ۔ اب ایک سایہ دار شجر کی طرح اس کو اپنی ٹھنڈی میٹھی چھاوں ان دونوں عزیز جانوں پر نچھاور کرنی تھی ۔۔