فودیل جب سے اپنا ٹاک شو ریکارڈ کروا کر آفس سے گھر آیا تھا روفہ تب سے اردگرد کا ہوش بھلائے اس کو سرے سے نظرانداز کیے بیڈ پر بیٹھی لیپ ٹاپ پر آفیشل میلز کا جواب دینے میں مصروف تھی ۔جبکہ ہاشم کو وہ نیچے جلیس اور ہدا کے پاس دیکھ چکا تھا ۔
آج صبح ہی تو اس کا کمرہ ہاشم اور روفہ کے وجود سے آباد ہوا تھا ۔
اس کے سنہری کرنوں کے مانند شفاف بھرپور نزاکت سمیٹے عارضوں پر جھولتی ریشم کے دھاگوں کو مات دیتی جابجا بکھری بالوں کی براون لٹیں اس کی توجہ اپنی جانب پوری طرح کھینچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔۔
وہ مرد ہو کر اس کی موجودگی فراموش نہیں کرپارہا تھا اور وہ کانچ سی عورت ہوکر اس سے غفلت برت رہی تھی ۔
فودیل اس کے اندز و اطوار پر حیرت زدہ سا اس کو سمجھنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگا ۔مگر بےچینی سی پورے وجود میں سرایت کرنے لگی تھی ۔پتا نہیں وہ گھڑیاں کب اس کی زندگی میں آنی تھیں جب روفہ کو اس کا وجود بھی ہاشم کی طرح عزیز ہوتا ۔۔
" تم بہت عجیب ہو روفہ ۔تمہیں سمجھنا کسی عام انسان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ایک مدت درکار ہے تم کو جاننے میں ۔"
بہت پہلے کا کہا جملہ پھر دہرایا گیا تھا ۔مگر آج اپنی دل کی بات اس نے قصدا جان بوجھ کر اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کی تھی ۔
" عورت کو ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔دوسروں کے لیے عجیب الجھی ہوئی پراسارا پہیلی اگر میں ایسی ہوں تو اس میں " عجیب " کچھ نہیں ۔وہ عورت نہیں ہوتی جو ہر کسی کی سمجھ میں آجائے ۔عورت تو وہ ہے جس کو مشکل سوال جان کر کوئی اس کی کمزوریوں کو تلاش نا کرپائے ۔"
اس کے فلسفے پر وہ متحیر سا اس کا شان بے نیازی والا انداز دیکھ کر رہ گیا ۔زندگی کو جینے کا روفہ عالم کا اپنا فلسفہ تھا ۔
" مگر ایک شوہر کو تو اپنی بیوی کی سمجھ ہونی چایئے تاکہ وہ ہر گھڑی اس کا ساتھ نبھا سکے ۔یہ رشتہ جانے بغیر پائیدار نہیں ہو سکتا ۔"
وہ اس کو بولنے پر اکسانے لگا ۔روفہ کے بولتے وقت ہلتے ہونٹ اسکی دھڑکنوں کو منتشر کر رہے تھے۔ وہ اپنی ان دھڑکنوں کے زیروبم کو مزید محسوس کرنا چاہتا تھا ۔
" شادی کے ایک سال بعد "ایک شوہر " کو "اپنی بیوی" کے بارے میں جاننے کا وقت مل ہی گیا ۔اچھا خیال ہے کوشش جاری رکھیں کیا پتا کبھی نا کبھی وہ شوہر اپنی بیوی کو سمجھ ہی جائے ۔"
طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتی وہ اس کو شرمندہ کرگئی تھی ۔فودیل نے ایک پل کو اس سے نظریں نا ہٹائیں تھیں ۔اور روفہ نے ایک پل کو بھی اس سے نظریں نا ملائیں تھیں ۔دونوں ہی اپنے آپ میں کمال تھے ۔
" چلو آ تو گیا ۔تم بھی جان لو پھر مجھے ۔"
مسکراتے لہجے میں پیش کش کی ۔۔
" میں آپ کو آپ کی خود کی ذات سے زیادہ جانتی ہوں ۔"
لیپ ٹاپ سکرین پر نظریں جمائے مضبوط لہجے میں بولی ۔فودیل لمحہ بھر کو ساکت ہوا ۔اس کا انذاز چونکا دینے والا تھا ۔
" جیسے کہ ؟؟؟ "
وہ بےساختہ سوال کر بیٹھا تھا ۔۔
" سب کچھ ۔شوہر غافل ہو سکتا ہے ۔پر میرے جیسی بیوی نہیں ۔ پھر چاہے مقابل فودیل زکی جیسا غیر زمہ دار بےدرد بے پراوہ انسان ہی کیوں نا ہو ۔"
اس کے چلتے نشر سے وہ زخمی نگاہوں سے اس کو دیکھنے لگا ۔وہ بڑی اچھی طرح میٹھے پرسکون انداز میں اس کو آگ میں جھونکنے کا فن رکھتی تھی ۔
" اگر میری جگہ تم کسی دوسری کی بیوی ہوتی تو شاید آج بہت خوش مطمئین ہوتی ۔ہیں نا ؟؟"
یہ سوال اس نے کیوں کیا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا مگر اس کا روم روم روفہ کے ہونٹوں سے اس جملے کی نفی سننے کو بےتاب سماعت بن بیٹھا تھا۔
" اس بات میں تو کوئی شک نہیں ۔بابا میرے معاملے میں کوتاہی برت گئے ۔جس کا احساس ان کو بڑی اچھی طرح ہے ۔زندگی بھر کا پچھتاوا جو کما لیا انہوں نے ۔"
اس کے برجستہ مصروف سے انداز میں بولنے پر فودیل کے اندر باہر حشر سا برپا ہونے لگا ۔۔
یہ بات وہ کیسے تصور کرلیتا اس کے پہلو میں بیٹھی اس کی محبوب بیوی کسی دوسرے مرد کو اس پر ترجیج دیتی ۔کسی دوسرے کا ساتھ اس کی نظر میں اپنے شوہر کے ساتھ سے بہتر ہوتا ۔۔
اس کی برداشت کی حد شاید یہاں تک ہی تھی ۔جارحانہ انداز میں اس کا لیپ ٹاپ ایک ہی جست میں بند کرکے دور کیا۔دوسرے ہی پل اس کا بازو کھینچ کر ایک جھٹکے میں اس کو تکیے پر لٹا کر اس کے اوپر جھکا ۔
" مانا کہ غلطی سرزد ہو گئی مجھ سے اس کا مطلب یہ تو نہیں تم ایک سال کی دوری کا بدلہ مجھ سے یوں لو گی اپنے لفظوں کے تیر چلا کر تڑپاو گی مجھے۔ایک سال کا فاصلہ میں چٹکیوں میں دور کرسکتا ہوں ۔تم میری بیوی ہی نہیں محبت بھی ہو یہ بات نا میں خود بھولوں گا نا تمہاری یاداشت سے مٹنے دوں گا ۔"
اس کا تپش بھرا لہجہ گرم سانسوں کا جھونکا روفہ کے چہرے کو حیا سے سرخ کر گیا تھا ۔۔مگر اپنی بغاوت کرتی دھڑکنوں پر جبر کرتی وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے لیٹی تھی ۔
"تمہیں مجھے معاف کرکے میرے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ۔تمہیں مجھ سے محبت کرنی پڑی گی ۔قسم خدا کی اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ کسی کے حق میں اچھا نہیں ہوگا ۔روفہ فودیل زکی ۔"
اس کے نام کے ساتھ اپنا جوڑ کر دھونس بھرے انداز میں بہت کچھ باور کرگیا تھا ۔۔روفہ سپاٹ نگاہوں سے بغیر پلکیں جھپکائے اس کے چہرے پر غصے کی رمق دیکھتی رہی ۔
فودیل بائیں ہاتھ سے اس کی دونوں نرم سی کلائیوں کو جڑ کر تکیے سے لگا گیا ۔دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے اس کے ہونٹوں کی ساخت کو چھو کر محسوس کرنے لگا ۔
جبکہ گہری بولتی اندر تک اتر جانے والی نگاہیں اس کے سنہری رنگت والے چہرے پر جمائے ہوئے تھا ۔
روفہ بغیر مزاحمت کیے اس کی انگلیوں کا لمس بڑے تحمل سے اپنی کلائیوں اور ہونٹوں سے اب گال پر محسوس کررہی تھی ۔پھر یکا یک اس کے چہرے پھر مسکراہٹ بکھری ۔فودیل سمجھ نا پایا یہ شرمگین مسکراہٹ تھی یا اس کی مخصوص پراسرار ہنسی۔۔
" میں تو ایک سال تک آپ سے دور رہی ہوں ۔پچھلے تین ماہ سے پچاس مردوں کے ساتھ دفتر میں بیٹھ کر کام کرتی ہوں ۔کیا ثبوت ہے میں آج بھی آپ کی پابند ہوں ۔"
فودیل لب سختی سے پیوست کیے شاک کی کیفیت میں اس کے ازلی بےنیاز انداز کو دیکھنے لگا ۔وہ تو اپنے ایک ایک پل کا حساب بڑے برے طریقے لینے پر قابض تھی۔ آنکھوں کو میچ کر اس نے خود کے بےقابو ہونے پر پہرے بٹھائے ۔
" اب کچھ مت بولنا روفہ مجھ میں صبر ہے مگر اتنا نہیں کہ تمہاری ہر بات سہہ جاو۔بس کرو ۔مجھے تکلیف دینے کے چکر میں خود کو یوں تو مت کہو ۔جانتی بھی ہو کہہ کیا رہی ہو تم ۔۔"
جبڑے بھیجنے وہ خود پر ضبط کھونے کو تھا۔ تبھی اذیت سے اس کی سانسوں کو اپنی ناک پر محسوس کرکے بولا ۔۔
" ہاں میں اپنے ہی کردار کو مشکوک کرکے آپ کا چھوٹا سا امتحان لے رہی ہوں ۔"
اب کی بار روفہ نے اس پر سے نظریں ہٹا لیں۔
" کیوں ۔مت کرو نا واپس آجاو ۔پہلے بھی تو موقع دیا تھا اب میرے لیے خود کے لیے ناسہی ہاشم کے لیے دے دو ۔تمہیں تو وہ اپنی جان سے پیارا ہے نا۔ "
تھکے سے انداز میں اس کے کندھے پر سر رکھ کر بولا ۔روفہ سانس روک گئی ۔پورے ایک سال بعد وہ اس کے انتہائی قریب آیا تھا۔ وہ رات یاد کرکے زخم پھر سے تازہ ہونے لگے ۔
" اب کیوں میرا ساتھ بھیک میں مانگ رہے ہو ۔میں اب بھی وہی بد دماغ مغرور میڈل کلاس چار گز کا ڈوپٹا لینے والی روفہ عالم ہوں ۔مجھ سے بہتر تو وہ ماریہ تھی نا ۔اب کیوں میرے ساتھ کسی دوسرے مرد کا سوچ کر تکلیف ہو رہی ہے بولو ۔کیوں درد اٹھ رہے ہیں ۔
بالکل اسی طرح مجھے بھی کانٹے کی طرح وہ الفاظ چبھے تھے جو ریسٹوریٹ میں بیٹھ کر نانا کو میرے حوالے سے کہے تھے ۔کہ ماریہ جیسی لڑکی روفہ سے بہتر ہے ۔وہ لڑکی مجھ سے بہتر ہے جو مردوں کو فرصت کے اوقات میں مصروف رکھتی ہے ۔"
اس کا تلخ لہجہ فودیل کو تازیانے کی طرح لگا ۔وہ بس اس کے کہہ جملے ہی لوٹا رہی تھی ۔مگر اپنے ہی لفظ اس کے منہ سے سننے میں وہ ضبط کے کتنے مراحل سے گزارا تھا یہ بس اس کا دل جانتا تھا ۔
" نہیں تم بہتر ہو سب سے ۔میری محبت بہترین ہے ۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا بے ساختہ اس کے کندھے سے سر اٹھا کر بول اٹھا بولتے وقت اس کے ہونٹوں کا لمس روفہ کے گال کو چھو رہا تھا ۔وہ سرد انداز میں اس سے رخ موڑ گئی ۔
" مرد چاہے عورت سے درجے میں اونچا ہو مگر ازدواجی زندگی میں دونوں برابر ہیں ۔جو آپ کریں گے میری طرف سے بھی اس ہی چیز کی توقع رکھیئے گا ۔
وہ عزت ہو یا پھر بے وفائی ہی کیوں نا ہو ۔"
اور لفظ" بےوفائی" پر فودیل سانس لینا بھول گیا تھا ۔وہ بھونچکا سا بس اس کے بے اتنہاء سرد سپاٹ انداز کو زہر کی طرح خود میں اتر ہوا محسوس کرنے لگا ۔
" نہیں روفہ معاف کر دو "
وہ سلگ کر تڑپ اٹھا تھا ۔۔
" معافی مت مانگیں ۔نا میں نے کبھی معافی مانگی ، نا معاف کیا ہے ۔اس لفظ سے میری شناسائی نہیں ہے ۔"
آیت الکرسی والی سینری پر نظریں جما کر بولی ۔اس کمرے میں روفہ کی سب سے پسندیدہ چیز یہ ہی تھی۔ فودیل مسکرا دیا ۔روفہ سے اس ہی طرح کے غیر متوقع جواب کی امید تھی ۔
بغیر کچھ بولے وہ اس کی کلائیوں کو آزاد کر گیا ۔مگر اس پر سے اٹھا نہیں ہنوز جھکا رہا ۔روفہ نے پھر بھی اس سے نظریں نہیں ملائیں ۔
اس کو پرشوق نظروں سے ازبر کرتے ہوئے اس کی شیشے سی چمکتی گندمی گردن پر جھک کر اپنا لمس چھوڑنا لگا ۔۔
روفہ کو اس گستاخی کی امید ہرگز بھی نا تھی۔ وہ ہونق سی اپنی گردن سے اب دونوں گالوں پر اس کے جلتے ہونٹوں کا شدت بھرا لمس محسوس کرنے لگی ۔
" فودیل "
وہ وارننگ والے انداز میں سختی سے بولی مگر مزاحمت نہیں کی ۔خود کو کمزور ثابت کرنا اس لڑکی کو برداشت کہاں تھا۔
فودیل بغیر کان دھرے اب اس کے کندھے کو لبوں سے چھونے لگا ۔اس لڑکی کی قربت جان لیوا تھی ۔مدہوش کن نشے کی طرح رگوں میں اترجانے والے ۔وہ پاگل ہونے لگا تھا ۔
روفہ سے مزید سہن نا ہو پایا تو اس نے ایک جھٹکے میں سائیڈ لمپ نیچے گرا دیا ۔
فودیل شور کی دھمک سے حواسوں میں واپس لوٹا تھا ۔سر اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھا جو اس کی طرف ہی خفت سے لالی بھرے چہرے سے جان لیوا تیور سے گھور رہی تھی ۔مگر اب بولی تو انداز بالکل نارمل تھا ۔
" دیکھا دی اپنی مردانگی ۔مل گیا سو نفلوں کا ثواب ۔"
فودیل تعجب سے اس کے تپتے چہرے اور پرسکون لہجے میں فرق کرنے لگا جو ایک دوسرے سے بالکل میل نا کھاتے تھے ۔
" بیوی کا ہاتھ محبت سے پکڑو تو ایک نیکی ملتی ہے ۔اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلاو تو دس نیکیاں ملتی ہیں ۔میرے اتنے محبت بھرے لمس پر یقینا نفلوں جتنا ثواب ہی ملا ہو گا ۔۔"
مسکراہٹ چھپا کر وہ بھی اس کے انداز میں بولا ۔روفہ کچھ دیر تک تو اس کی شوخ نظروں کو چپ کر کے خاموشی سے دیکھتی رہی پھر اپنا ڈوپٹا ڈونڈھ کر کپڑے درست کرتے بیڈ سے اٹھ گئی۔
" کہاں جارہی ہو "
اس کے یوں اٹھنے پر دل پھر بے یقین ہوا وہ سمجھا کہ غصے میں وہ اپنے کمرے میں جانے والی ہے ۔مگر اس کے انداز میں کہیں بھی غصہ نہیں تھا بلکہ تھوڑی دیر پہلے والی شرم و خفت بھی نا تھی
" ہاشم کو لینے ۔"
مختصر لٹھ مار انداز میں بول کر باہر چلی گئی ۔۔
آج کی تلخ کلامی کا اختتام تلخ نہیں ہوا تھا ۔ایک بات تو طے تھی روفہ نامی پہیلی وہ بہت جلد حل کرنے والا تھا ۔۔
سیڑھیاں اتر کر وہ لانج میں آئی فودیل کے انداز وہ بڑی اچھی طرح سمجھ رہی تھی ۔مگر وہ شاید ابھی اس کو جانتا نہیں تھا ۔ساری سوچوں کو جھٹک کر گلاس ڈور دھکیل کر لاونج میں ایک نظر سب کو دیکھا جہاں جلیس اور ہدا ہاشم کو پکڑنے کے لیے لڑائی کر رہے تھے ۔ہاشم نے جلیس کے بال اپنی چھوٹی چھوٹی نرم مٹھیوں میں پکڑ رکھے تھے ۔
ہائیسم ہدا کو جلیس سے لڑنے پر اکسا رہا تھا جس سے جلیس مزید تپ رہا تھا۔البتہ ترتیل شاید کیچن میں تھی کیونکہ نجمہ اور اس کی آوازیں کیچن سے آرہی تھیں ۔
" کتنا ظالم بیٹا ہے تمہارا روفہ ۔پکڑو اس چھٹانک بھر کے چوزے کو بال کھینچ کھینچ کر درد سر کردیا ہے ۔"
روفہ کو دیکھ کر وہ ایک ہی جست میں اس کے پاس آیا ۔وہ بے چارہ بہت بری طرح بیوی اور بھانجے کے ہاتھوں خوار ہوتا تھا۔
" تمہارا ہی بھانجا ہے مجھے کیا کہہ رہے ہو ۔"
وہ بھی اس کو ٹکا سا جواب دیتی مسکرا کر ہاشم کو گود میں لے کر اس کے گال چومنے لگی ۔جو ماں کے پاس آتے ہی سب سے منہ پھیر کر اس کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر رہا تھا ۔۔
" کبھی تو غصہ کر لیا کرو ۔اپنا غصہ بھی تم اتنے پرسکون انداز میں اتارتی ہو کہ اگلا بندہ جواب دینے کے بھی قابل نہیں رہتا ۔"
روفہ نے آنکھیں گھمائیں جلیس کو وہ اپنی سگی بہن ہی لگتی تھی بے شک وہ ہائیسم اور اس کا سگا بھائی نہیں تھا مگر وہ اپنی زندگی بھی اپنے بہن بھائی پر قربان کر سکتا تھا ۔ایک سال میں وہ دونوں ایک دوسرے سے کافی مانوس بھی ہو گئے تھے ۔
" وہ دیکھو ہدا تمہارا موبائل شہید کرنے لگی ہے ۔"
جتنی آرام سے اس نے جواب دیا جلیس کرنٹ کھا کر پیچھے مڑا تھا ۔ہدا اپنے موبائل کا بدلہ لینے کے لیے ہر وقت تاک میں رہتی تھی ۔۔
ان دونوں کو پھر سے آپس میں لڑتے دیکھ کر روفہ نے ہائیسم کو دیکھا جو اس کے آتے ہی وہاں سے جانے لگا تھا ۔۔کل سے ہی وہ اس سے ناراض تھا ۔
اس سے پہلے وہ جاتا روفہ نے ایک ہاتھ سے اس کا بازو تھام لیا جبکہ دوسرے بازو پر ہاشم سو چکا تھا ۔
ہائیسم یوں ہی رخ موڑے کھڑا تھا روفہ بھی خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی ۔
" کیا ہے بھئی میں نہیں ہوں ناراض ۔۔"
ہائیسم نے جھنجھلا کر اپنا بازو اس سے چھڑا کر ہاشم کو اس سے لے کر اپنے کندھے سے لگایا ۔انداز اب بھی خفا خفا سا تھا ۔
" کیا میں نے کل کچھ غلط کہا تھا ۔صرف اس ایک بات کا جواب دے دو ۔"
" ہاں غلط نہیں کہا تھا یہ ہی تو مسئلہ ہے تم کبھی غلط نہیں کہتی ۔مگر رہ پاو گی اس کے ساتھ ۔"
اس کے سوال کے بدلے سوال پر روفہ گہرا سانس بھر کر رہ گئی
" ہاں رہ لوں گی ۔محبت کرتا ہے وہ مجھ سے ۔"
وہ بڑے آرام سے کندھے اچکا کر مسئلے کا حل بتا گئی ۔ہائسیم اس کو گھورنے لگا ۔
" تم تو نہیں کرتی نا اس سے ایک نمبر کا خبیث انسان ہے وہ ۔"
سر ہوا میں مار کر پھنکار کر بولا ۔وہ کسی صورت فودیل کو معافی دینے پر راضی نا تھا ۔
" ہائیسم "
اس کے خبیث بولنے پر روفہ نے اس کو تینبہ کی جس کو وہ کسی خاطر میں نا لایا ۔
" جس سے آپ کو محبت ہو اس کی بجائے جس کو آپ سے محبت ہو اس کے ساتھ زندگی زیادہ سہل انداز میں گرز جاتی ہے ۔اور میں نے یہ کب کہا مجھے اس سے محبت نہیں ہے ۔؟؟ "
وہ متحیر سا خود سے چھ سال چھوٹی بہن کو دیکھنے لگا جو عمر میں کم تھی مگر فہم و فراست میں بہت اونچی تھی
" تو "
ہائیسم اس کو مزید سننا چاہتا تھا
" تو یہ کہ مجھے شوہر سے نا سہی مگر ہاشم کے باپ سے محبت ضرور ہے۔ "
دھیما سا مسکرا کر کہتی وہ اس کو حیرت زدہ کر گئی تھی ۔وہ بس ٹکر ٹکر اس کو دیکھے گیا
" ہممم سہی ۔۔"
اس میں بس اتنا کہنے کی ہی سکت بچی تھی ۔۔روفہ اس کے تاثرات کو بڑی اچھی سمجھ رہی تھی فل حال اس کا بھائی اس کے اعتراف کو ہضم کرنے کی کوشش میں تھا ۔
" تم ترتیل سے ناراض ہو کیا ۔؟؟ "
ہائیسم نے روفہ کی نظروں کے تعاقب میں ہدا کے ساتھ مصنوعی مسکراہٹ سے ہنستی اپنی بیوی کو دیکھا ۔۔
" ان دونوں بھائی بہن کو ہم دونوں بھائی بہن کی قدر ہی نہیں ہے ۔۔"
اس کے ہوچھنے پر وہ بھنا کر بولا ۔ترتیل سے اس نے کل سے بول چال بند کی ہوئی تھی ۔اس کا بلاوجہ کا وہم ہائیسم کو طیش دلانے کو کافی تھا۔
" اپنے جملے میں ترمیم کر لو ۔پہلے نہیں تھی مگر اب ان دونوں کو ہماری بہت قدر ہو چکی ہے ۔"
اس کے کہنے پر ہائیسم نے روفہ کو خود سے لگا کر اس کے ماتھے پر پیار سے بوسا دیا ۔روفہ اس کو بہت عزیز تھی ۔
" تم قدر کیے جانے کے قابل ہی ہو ۔۔خیر اللہ تمہارے حال پر رحم کرے جس کے پیچھے ایک جن ہاتھ دھو کر پڑ چکا ہے ۔"
فودیل کو جن کہنے پر وہ خود بھی مسکرا کر اسے گھورنے لگی ۔۔
" اب تو کافی انسان بن گیا ہے ۔پہلے جیسا بالکل نہیں رہا بالکہ اس کی والی سیٹ اب میں نے سنبھال لی ہے۔ "
ڈھکے چھپے لفظوں میں اس کو بتا کر ہاشم کو اپنی گود میں لیا ۔جو نیند میں ہل جل کے باعث رونے کے لیے ہونٹ باہر نکال رہا تھا ۔۔روفہ نے آہستہ سے اس کو جھلایا جس سے وہ دوبارہ سو گیا ۔
" تو پھر آخر تم نے معاف کر ہی دیا اسے ۔۔"
" ہاشم کے لیے تو میں اپنا قتل بھی معاف کردو ایک انسان کو معافی دینا کوئی بڑی بات نہیں ۔۔"
اس کے کہنے پر ہائیسم نے ہاشم کو دیکھا جو اپنی ماں کا ڈوپٹا مٹھی میں پکڑے ہوئے گہری نیند میں تھا۔
" ماں کی محبت بہت خالص اور بے غرض ہوتی ہے یہ تو پتا تھا مجھے مگر جنونی بھی ہوتی ہے یہ آج معلوم ہوا ۔"
" ہاں میں کسی دوسرے کی محبت کی بجائے اپنے بیٹے کے لیے شدت پسند ہوں ۔ اور شاید سر پھری بھی ۔"
اس کے کندھے اچکا کر کہنے پر ہائیسم نے ٹھنڈی آہ بھری روفہ نے کچھ انوکھا ہی کرنا تھا یہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا۔ ۔۔اتنا کہہ کر روفہ کمرے میں چلی گئی ۔۔ہائیسم بھی ایک خفا سی نگاہ ترتیل پر ڈال کر کمرے میں چلا گیا ۔۔
وہ کھانے کی ٹرے کمرے میں لے کر داخل ہوا تو سامنے ہی ترتیل مجسمہ بنی بیٹھی کتاب پر غائیب دماغی سے نظریں دوڑا رہی تھی ۔
دروازہ کھلنے پر اس نے چونک کر دیکھا جہاں اب ہائیسم صوفے کے قریب رکھے ٹیبل پر کھانا رکھ رہا تھا ۔
" آکر کھانا کھاو ۔"
اس کو مخاطب کرکے بولا ۔ ترتیل اس کے سخت لہجے پر روہانسی ہو کر اس کے پاس آکر بیٹھی۔
" مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ترتیل کھانا کیوں نہیں کھارہی ہو کل سے تم ۔میں تمہیں پہلے ہی بتا دوں مجھے تمہای صحت بالکل پرفیکٹ چاہیئے ۔"
اس کے برہمی سے کہنے پر ترتیل آنسو ضبط کیے سر جھکائے اس کے ہاتھ سے نوالہ کھانے لگی ۔
" سوری "
جب آدھا کھانا وہ اسے کھلا چکا تب وہ ہلکی آواز میں منمنائی ۔جسے وہ بامشکل ہی سن پایا ۔
" چپ کرکے کھاو ۔"
ہائیسم کے ڈپٹنے پر اس نے نوالہ پکڑا اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔اس کی حرکت پر وہ کڑے تیوروں سے اس کو گھورنے لگا ۔۔
" ایک تھپڑ لگاو گا ساری بدتمیزی نکل جائے گی ۔اب میں تمہارا کوئی نخرہ برداشت نہیں کروں گا ۔حد ہوتی ہے پاگل پنے کی ۔تم ویسے ہی مجھے بول دو کہ تمہیں بچہ چاہیئے ہی نہیں۔ یوں بلاوجہ کے وہم کو بنیاد تو مت بناو ۔"
اس کے طیش میں جھڑکنے پر ترتیل خوفزدہ ہوتی اس کے ہی سینے سے لگ کر رونے لگی ۔۔ہائیسم کا غصہ بھی بس یہاں تک ہی تھا جہاں وہ روئی وہاں ہی وہ موم کی طرح پگھل گیا ۔۔
" میرا وہم بلاوجہ کا تو نہیں ہے ۔میں کیا کروں ۔مجھے سمجھ نہیں آتا ۔۔"
رندھے لہجے میں اس کا ہاتھ سختی سے اپنی مٹھی میں پکڑ لیا ۔اس کی گرفت میں اپنے ہاتھ کو دیکھ کر ہائیسم نے اس کے گرد حصار کھینچ کر اس کی ہتھیلی کو چوما ۔۔
" اللہ کی ذات پر یقین رکھو ۔اس کے بعد مجھ پر ۔وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرے مجھے کامل یقین ہے ۔"
اس کے مضبوط پر یقین انداز پر ترتیل دل ہی دل میں پر امید ہونے لگی مگر کچھ خدشات ابھی بھی باقی تھے ۔
" اگر جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا نا ہوا تو ۔؟؟ "
اپنی بھیگی سرخ پکیں اٹھا کر ہاتھ کی مٹھی سے رخسار رگڑ کر بھرائے لہجے میں بولی ۔
" اگر خدانخواستہ ایسا ہو بھی گیا تم مت سنبھالنا اس کو ۔جیسے تمہارا خیال رکھتا ہوں اپنے بچے کا بھی رکھ لوں گا ۔"
سرد انداز میں کہہ کر اس کو خود سے دور کیا ۔مقصد وہاں سے اٹھنا تھا مگر ترتیل زبردستی اس کے سینے سے لگ کر بیٹھ گئی ۔اس کی بچگانہ حرکت پر وہ مسکراہٹ چھپانے لگا ۔۔
" بہت ہی پاگل بے وقوف اور کچھ حد تک ڈنگر بھی ہو ۔"
مسکراتے لہجے میں اس کو تپانے کو بولا ۔۔
" آپ نے مجھے ڈنگر بولا میں آپ کو جانور دکھتی ہوں ؟؟ "
وہ صدمے اور بے یقینی سے اتنا ہی کہہ سکی ۔
" ہاں پوری کی پوری گدھی ہو۔ پتا نہیں وہ کون سی گھڑی تھی جب میرا منحوس دل تم پر آیا ۔۔"
مصنوعی سوگ سے بول کر وہ اس کا پارہ ہائی کر گیا تھا ۔۔
" آپ خود ہوں گے یہ سب ۔میں ابھی جا کر چاچو کو بتاتی ہوں ۔۔"
اس کو زبردست سی چٹکی کاٹ کر عالم کو بتانے کے لیے کمرے سے باہر بھاگ گئی ۔۔
" ڈرتا نہیں ہوں میں تمہارے چاچو سے ۔۔واپس آو شکیتو ماسی ۔۔"
وہ اپنا بازو سہلا کر قہقہہ لگا کر اس کے پیچھے بھاگا ۔۔