اپنے بالوں میں سرسراہٹ محسوس کرکے ترتیل نے گلال بھری نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں کھول کر دیکھا ۔ہائیسم نظروں میں شوق کا جہاں آباد کیے دلکش مسکراہٹ سے نگاہوں سے ہی اس کی نظر اتار رہا تھا
وہ جھٹ سے لجاجت سے سرخ پڑتی کمبل میں منہ چھپا گئی تھی ہائیسم کی مسکراہٹ لبوں کے کناروں پر مزید گہری ہوئی بنا کچھ کہے اس کا بے جان ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا اس میں اتنی سکت بھی نا تھی کہ اپنا ہاتھ ہی اس دل مہربان سے چھڑا لیتی ۔
" کالج سے چھٹی تو ہوگئی ہے ۔چلو اب اٹھ کر جلدی سے چینج کرلو ۔مجھے ماما کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے شاباش اٹھو بعد میں شرما لینا یار ۔"
اس کے یوں ہی بے توہجی سے لیٹنے پر آخر میں ملتجی ہوا ۔وہ بھی ہمت کرتی بغیر اس کی طرف دیکھے باتھ روم چلی گئی
" تالی اتنی شرم۔ میری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا یہ تو پھر غلط بات ہے ۔اچھا میری بات سنو ماما کے ساتھ تم بھی ڈاکٹر کے پاس چلو گی اور بغیر کوئی ضد اور احتجاج کیے چیک اپ کرواو گی ۔"
شیشے کے سامنے اس کے بالوں میں برش پھیرتے ہوئے کہا تھا ۔اسے منہ کھول کر کچھ کہتے دیکھ ہائیسم نے زرا سنجیدگی سے تنبیہ کی
" ہائیسم میرا ہاتھ ٹھیک نہیں ہو گا ۔یہ ایسا ہی رہے گا ۔آپ بلاوجہ اپنا پیسہ اور وقت برباد کر رہے ہیں ۔"
اس کی مایوسی پر ہائیسم کا خوشکوار موڈ ایک دم ہی اندیشوں میں گھرا ۔
" کیوں دو ماہ میں اتنی تو بہتری ہوئی ہے اب تم خود سے ہاتھ کو حرکت دینے لگی ہو ۔کچھ نا ہونے سے کچھ ہونا بہت بہتر ہے ۔ضروری تو نہیں اپنی کمی پر مایوسی کو دماغ پر سوار کرکے ہم خود کو بے بس کرلیں ۔بعض اوقات ایک روشن دیہ بھی سیاہی کو خوبصورت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے
اگر یوں خود اللہ سے مایوس ہوگی تو فرق صرف تمہیں خود کو پڑے گا ۔نا تو اس پاک ذات کو نا کسی انسان کو ۔علاج کروانا میرا فرض ہونے کے ساتھ ذمہ داری بھی ہے شفا تو اللہ ہی دے گا اب میں تمہیں اپنے آپ کو ڈی گریڈ کرتا ہوا نا دیکھوں ۔کبھی کبھی بنجر زمین پر بھی زرا سی محنت کے بعد ہریالی پھوٹ پڑتی ہے "
اس کے سمجھانے کا اثر تھا کہ وہ کچھ حد تک اپنے آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے راضی کر گئی تھی ۔
آفس چیئر پر بیٹھے فودیل کے تاثرات اس وقت بالکل سنجیدہ تھے ۔گزرے وقت کی ضربوں کے گہرے نشانات اس کی شخصیت کے ہر پہلو سے واضح ہوتے تھے ۔
نانا کی نظریں اس کے عجیب وغریب حلیے کی جانب مرکوز تھیں ۔وہی گردن سے نیچے تک آتے بڑے بال جو کبھی آزاد ہوتے تو کبھی پونی کی قید میں اس پر متضاد ہونٹوں پر اگی بڑی کالی مونچھیں ۔
" اور کتنا اتنظار کرنا ہے تم نے فادی ایک سال بیت گیا اس نے پلٹ کر نا دیکھا ۔"
فائل پر لکھتے ہاتھ یک لخت ساکت ہوئے تھے ۔وجہ ہمیشہ کی طرح روفہ عالم کی ہی ذات تھی ۔
" جب تک میں بے جان نہیں ہوجاتا ۔"
ان کے سوالوں پر وہ ایسے ہی جواب دیتا تھا ۔بالکل روفہ کی شخصیت کی مانند پرسکون سنجیدہ گہرے الفاظ میں ۔
" دوسری شادی کرلو فادی ۔تمہیں ایک ساتھی کی ضرورت ہے ۔"
وہ آج پھر اس کی برداشت کی حد آزمانے پر تلے تھے اور وہ جانتا تھا وہ اس کا امتحان لیتے تھے کہ وہ روفہ کے معاملے کب تک ڈگمگا نہیں جاتا ۔
" وہ تو ہے میرے پاس ۔"
مونچھوں کو تاو دے کر بھنویں سکیڑ کر بولا تھا ۔فائل اب بند کر دی تھی ۔نظریں ٹیبل پر پڑے اس فوٹو فریم پر جمی تھیں جس میں عروسی جوڑا پہنے وہ جان جاناں ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ہر بار کی آج بھی اس کا دل دھڑکا گئی تھی ۔جانے وہ سامنے آئے گی تو روبرو جذبات کا عالم کیا ہوگا ۔
" کہاں ہے ؟؟ مجھے تو نظر نہیں آرہی ۔"
اب کی بار وہ طنزیہ گویا ہوئے ۔فودیل ان کی بات پر پھر مسکرا اٹھا ۔
" میں پوچھتا ہوں وہ کہاں نہیں ہے ۔؟؟ "
یہاں سراج لاجواب ہوئے تھے ۔اس کے انداز آج بھی نہیں بدلے تھے مگر پھر بھی بدل تو کافی کچھ گیا تھا۔
" مکالمے بازی میں تم سے کبھی جیت نہیں سکا میں ۔"
سرد آہ بھرتے انہوں نے اسے سراہا تھا ۔
" حلانکہ آپ کو ہرانا کبھی میرا مقصد نہیں رہا ۔"
نفی میں سر ہلاتے نظریں اب بھی اس دلبر کو حفظ کرنے کو کوشاں تھیں ۔جو رخ موڑے تصویر میں بھی اپنے آدھے سراپے سے محروم رکھے ہوئے تھی ۔
" کیا پتا وہ آگے بڑھ چکی وہ ۔سب کچھ تو پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ "
فودیل نے چونک کر ان کو دیکھا جو بڑی گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے ۔
" شاید ہو ہوسکتا ہے ۔مگر منزل سے اب بھی وہ دور ہی ہوگی ۔کیونکہ وہ تو میں ہی ہوں اس کا اصل ، اس کی بنیاد "
وہ جتنا اسے الجھانے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی ان الفاظ کو سلجھا دیتا تھا ۔لفظوں کے کھیل میں نانا نواسے کا اہم موضوع روفہ ہی ہوتی تھی
" اس ایک سال میں تم ڈھونڈ تو سکے نہیں اس کو ۔منزل کی بات ہے تو وہ آج تمہارے پاس ہوتی دوری کی مشقت نا کاٹ رہے ہوتے تم ۔"
نانا براہراست اس کی ناکامی پر چوٹ کرتے ہوئے بولے اس بار اس کی مسکراہٹ میں بے بسی کا عنصر بھی شامل تھا
" میں خود ہی اس کو ڈھونڈنا نہیں چاہتا تھا نانا تو ناکامی کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ۔"
پرسکون انداز میں بول کر روفہ کی چاندی کی انگوٹھی جو کہ اس نے اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہن رکھی تھی اس کو غور سے دیکھتے ہوئے انگلی میں ہی گھومانے لگا ۔
۔
" کیا مطلب ہے ؟؟ "
وہ سمجھ نا سکے ان کے اندازے کے مطابق تو فودیل اس ایک سال میں روفہ کو دھونڈتا رہا تھا ۔
" جب انسان ، انسانوں کو ملانے کا وسیلا بنتا ہے تو بچھڑے کبھی مل نہیں پاتے مگر جب اللہ کسی کو ملانے کا وسیلا بنتا ہے پھر بچھڑے بھی کبھی الگ نہیں ہو پاتے "
نانا دنگ سے اس کے الفاظ کو سن کر اس کی شکل کو دیکھ کر رہ گئے ۔وہ واقع ہی سر پھرا تھا نانا نے ہمیشہ والا اعتراف ایک بار پھر دل میں کیا ۔
" میرے خیال میں تمہیں آرام کی ضرورت ہے فادی ۔"
وہ بس اتنا ہی کہہ سکے تھے ۔
" مجھے روفہ فودیل زکی کی ضرورت ہے ۔"
وہ اپنے الفاظ پر زور دے کر بولا ۔ماتھے پر لکیریں واضح ہونے لگی تھیں ۔۔نانا نے بے اختیار گہرا سانس بھرا
" تم عورت ذات کو سمجھ ہی نہیں پائے فادی ۔شاید تم ماں کے وجود سے محروم تھے اس لیے ۔"
تصویر میں اس کی نظریں اب روفہ کی مدھم مسکرہٹ سے پھسل کر چاند روشن ماتھے پر سجے جھومر پر جم گئی تھیں ۔لال جوڑے کی لالی بھری چمک اس کی آنکھوں میں پھوٹتی قندیلوں کو بھی مات دینے کا ہنر رکھتی تھی ۔
" میرا عورتوں سے کیا لینا دینا نانا ۔میں تو فقط روفہ نامی عورت کو ازبر نا کر سکا ۔وہ ایک الجھی سی پہیلی تھی ۔جس کو اب میں پہروں بیٹھ کر سلجھاتا ہوں مگر سلجھاتے سلجھاتے اس دائیرے میں بے بس ہو جاتا ہوں ۔"
جھومر سے اب نظریں ناک میں پہنی نتھ میں اٹکی تھیں۔نتھ کے اندر اٹکا سنہری موتی اس کی رنگت پر اپنا سونے جیسا خیرہ کر دینے والا سایہ چھوڑ رہا تھا ۔
نانا سانس روکے ششدر سے اس کو دیکھے گئے ۔۔
" میں سمجھتا تھا وہ ڈھیٹ ہے جو مسکراتی نہیں ، وہ بے حس ہے جو روتی نہیں ، وہ ناسمجھ ہے جس کو کسی کا احساس نہیں۔مگر وہ تو کھلی کتاب نکلی جس کو میں نے پڑھنے میں کبھی دلچسبی ہی نہیں رکھی ۔"
مہندی بھرے ہاتھ میں نزاکت سے تھاما گوٹے کناری والا ڈوپٹہ جیسے روفہ کے چہرے کو اس سے چھپانا چاہتا تھا ۔اس کو بے اختیار اس چمکتی دمکتی چنری سے رقابت سی محسوس ہوئی ۔نانا اس کی نظروں کے ارتکاز پر بہم سا مسکرا دیئے ۔
" ۔اس کو سوچنے کی عادت ہے اس کے کہے ہوئے چند جملوں کی بازگشت کانوں میں گونجتی رہتی ہے ۔ وہ ہر جگہ ہے میرے کمرے میں صوفے پر پڑھتی ہوئی ، بالکی میں دیر تک چاند کو تکتی ہوئی ، میرے بستر سے آتی اپنی خوشبو میں ، شیشے کے سامنے اپنے بالوں کو چادر سے ڈھانپٹے ہوئے ، پول سائیڈ پر پانی اور روشنی کے عکس میں خود کو تلاش کرتے ہوئے ، پریشانی میں نیند میں بھی کروٹیں بدلتے ہوئے ،آدھی آدھی رات کو چائے کا کپ پیتے ہوئے ، ہر جگہ ہے وہ سب جگہ ۔مجھے اس روئے زمین پر صرف اور صرف وہ عورت ہی دیکھائی دیتی ہے نانا ۔مجھے تو اپنا نام بھی بھولنے لگا ہے ۔آئینے میں مجھے خود کے نہیں اس کے نقش دیکھائی دیتے ہیں ۔اگر یہ سب محبت میں ہوتا ہے تو پھر مجھے محبت ہے ۔بے حد بے شمار اپنے فنا ہوجانے کی مدت تک ۔۔۔"
اس سے زیادہ سننے کی سکت نانا میں نہیں تھی ۔اس لڑکی نے بنا کوئی شکوہ کیے بنا کوئی احتجاج کیئے اس کے کہے پر اسے چھوڑ دیا تھا مگر بےخبری میں ہی محبت کی بیماری اس کو لگا کر بدلہ بھی لے لیا تھا ۔
جو لوگ بددعا دیتے ہیں ان سے زیادہ ان لوگوں سے ڈرنا چاہئیے جو زیادتی پر بھی چپ کی بکل مار کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔یہ بات فودیل زکی کو اس ایک سال میں بڑی اچھی طرح سمجھ آگئی تھی ۔
نانا نے ایک نظر دلہن بنی آفس ٹیبل پر پڑی روفہ کی تصویر کو دیکھا اور چپ چاپ وہاں سے نکل گئے ۔سزا کی مدت کتنی ہوگی یہ تو وہ بھی نا جانتے تھے مگر انتظار کی گھڑیوں میں ان کا نواسا جلتے انگاروں پر جھلس رہا ہے یہ وہ جان گئے تھے ۔۔
ریسٹوریٹ میں ہائیسم اور ترتیل اس وقت اپنی اینی ورسیری منا رہے تھے ۔جب سے روفہ گئی تھی تب سے اس گھر میں کوئی بھی فنکشن نہیں منایا جاتا تھا مگر آج چونکہ روفہ اور فودیل کے ساتھ ان دونوں کی بھی شادی کی سالگرہ تھی تبھی ہائیسم ترتیل کی خاطر ریسٹوریٹ میں رات کا کھانا کھانے اور کھومنے پھرنے کیلئے لے آیا تھا ۔
" چھوٹی ماما اور چاچو بھی آ جاتے تو کتنا اچھا ہوتا نا ۔"
اپنی شادی کی پہلی سالگرہ پر وہ دونوں یاد آرہے تھے یاد تو اس کو ہائسیم کی طرح اس کو فودیل اور روفہ کی بھی آئی تھی
" پتا تو ہے یار تمہیں ماما کے چیک آپ کے لیے ان کو ہر چھ ماہ بعد امریکا جانا ہوتا ہے ۔ہماری خوشی سے زیادہ ماما کی صحت ضروی ہے ۔خونی رشتوں کی کمی کوئی پوری تو نہیں کرسکتا نا ۔"
اس کے لہجے کی کسک ترتیل کو بڑی اچھی طرح محسوس ہوئی تھی ۔
پی سی میں دونوں اس وقت آمنے سامنے بیٹھے گلاس وال سے پول ایریا میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ رہے تھے جہاں بچے آگے پیچھے دوڑ رہے تھے ۔
سامنے کرسی پر کوئی سنگر بیٹھی مائیک ہاتھ میں پکڑے گانا گا رہی تھی ۔ترتیل کی نظریں اس لڑکی کے ہاتھوں پر گئیں جہاں وہ دونوں ہاتھوں سے مائیک کو تھامے بیٹھی تھی پھر سامنے والے ٹیبل پر ہی ایک دوسری لڑکی چھری کانٹوں سے سٹیک کو کاٹ کاٹ کر کھانے میں مگن تھی ۔
مدھم روشنی میں ترتیل کی نظریں بے اختیار اپنے ہاتھ پر گئیں ۔اس ایک سال میں ہاتھ میں بہت بہتری آئی تھی مگر اتنی نہیں کہ وہ عام لوگوں کی طرح اس کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کرلیتی ۔
وہ اب بھی اپنے کاموں میں ہائیسم پر انحصار کرتی تھی ۔سامنے بیٹھا جاذب نظر ڈیسنٹ پرسنیلٹی والا شخص اس جیسی نقص زدہ ہمسفر کے لائق تو نا تھا ۔
کہاں روفہ کے بھائی نے اس کو اب تک پیار محبت سے کانچ کی گڑیا کی مانند رکھا تھا اور کہاں غیر معملولی ذہانت کی مالک ایک مکمل لڑکی کو اس کے ہی بھائی نے دوکوڑی کا کرکے چھوڑ دیا تھا ۔
اب ذہن ہاتھ سے ہٹ سے پھر روفہ کی جانب گامزن ہو گیا ۔
" کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں ہائیسم جو میں سوچ رہی ہوں ۔"
ہائیسم کے ہاتھ سے چیز بول کھا کر ترتیل نے کھوجتی نگاہوں سے استفسار کیا ۔اس نے ایک گہری نظر ترتیل کے نرم عارضوں پر ڈالی ۔وہ سٹپٹا کر نظریں بدل گئی ۔
" ہاں وہی سوچ رہا ہوں ۔مگر سوچوں کے علاوہ ہمارے اختیار میں کچھ ہے بھی تو نہیں ۔"
وہ سمجھ گیا تھا ۔اس موقع پر روفہ کی یاد فظری عمل تھا ۔ہائیسم کو تو وہ پل پل یاد آتی تھی ۔اس کی اکلوتی بہن اس کے بھائی کی سزا کاٹ کر دربدر ہوچکی تھی ۔
" اگر کبھی وہ میرے سامنے آگئی تو شاید میں اس کا سامنا نا کر سکوں ہائیسم ۔صرف میرے بھائی کی وجہ سے وہ اپنے سالوں بعد ملے رشتوں سے ایک بار پھر پچھڑ گئی ۔"
اس کے نمناک لہجے پر ہائیسم نے تڑپ کر بغیر اردگر کے ماحول پر توجہ دیئے اسے اپنے باہوں کے گھیرے میں لے کر اس کا سر چوما
" سویٹی اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے یہ تو اللہ کے فیصلے ہیں ہم انسان تو صرف سرخم کرکے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں جو اس نے سوچا ہے بہتر ہی سوچا ہوگا ۔"
" کیا یہ قصور کم ہے کہ وہ میرے بھائی ہیں۔"
رندھے لہجے میں بول کر ہائیسم کے سینے پر سر رکھا۔اس وقت وہ دونوں ہی روفہ اور فودیل کی موجودہ حالت پر غم زدہ تھے ایک کی بہن اجڑی تھی تو دوسرے کا بھائی بھی برباد ہوا تھا جب دکھ ایک تھا تو سہارا بھی ایک دوسرے کا ہی بننا تھا ۔
" مت رویا کرو یار ۔تمہارے آنسو میری برادشت کی سکت آزماتے ہیں ۔کھانا تو کھا لیا اب ہم آئیس کریم کھا کر تمہارے نانا کے گھر جائیں گے ۔چلو اٹھو ۔کافی لیٹ ہو گیا ہے ۔"
اپنے انگوٹھے کے پوروں سے اس کے آنسو صاف کرتے اپنے بازو کے حصار میں لیئے ہی بل پے کرکے باہر کی جانب رخ کیا
" یہاں رکو زرا میں گاڑی لے کر آیا ۔"
اس کا سر تھپتھپا کر کہتا چلا گیا ۔ترتیل وقت گزانے کو اردگرد نگاہیں دوڑانے لگی
" اندھی ہو کیا دکھائی نہیں دیتا ۔جاہل زرا بھی عقل ہے کہ نہیں اب ہٹو یہاں سے منہ کیا دیکھ رہی ہو میرا "
وہ جو اپنے دیہان میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہی اچانک لگنے والے دھکے سے ہل کر رہ گئی تھی ۔ٹاپ جینز پہنے بالوں کو کھلا چھوڑ کر ایک لڑکے کی گردن میں ہاتھ ڈالے وہ لڑکی اس پر چینخ رہی تھی جس کا حلیہ ہی آوارہ تھا پھٹی جینز اور دھیڑوں مالا گلا میں پہنے ایکسرے کرتی نگاہوں سے اس کے ساتھ کھڑا لڑکا ترتیل کا فرصت سے جائیزہ لے رہا تھا
" تم کیا اس کو دیکھ رہو چلو یہاں سے ۔سارا موڈ سپوئیل کردیا ۔"
اپنے بوائے فرینڈ کی نظریں ترتیل پر جمی دیکھ کر اس لڑکی کو مزید آگ لگی تھی
" او ہو بےبی تم بھی نا میں اس کو دیکھوں گا ۔اس میں دیکھنے والا ہے کیا ۔بلڈی ہینڈی کیپ میرا ٹیسیٹ اتنا خراب بھی نہیں کہ ایک ہاتھ سے معذور لڑکی کو دیکھو اس سے اچھا میں اس سویپر کو نا دیکھ لوں ۔"
تمسخر اڑاتے الفاظ سے اس کی دھجئیاں اڑا کر سامنے صفائی کرتی ایک تیس سالہ عورت کی جانب اشارہ کیا جو فرش چمکانے میں مگن تھی ۔لڑکی نے ایک حقارت بھری نظر ایک کے بےجان ہاتھ پر ڈالی۔
ترتیل متحیر سی ساکت کھڑی ان لفظوں کا زہر خود میں اترتا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔دل تو چاہا تھا چینخ چینخ کر بین کرے رو رو کر اپنا سر پیٹ لے ۔مگر بے بسی ایسی کہ وہ یہ بھی نا کر سکی ۔بس بے دم سی بے جان ہو کر اس کی حقارت بھری نظریں اپنے وجود کے آر پار ہوتے محسوس کرتی رہی ۔
" کتے کمینے ۔ذلیل انسان ۔میں تجھے چھوڑوں گا نہیں تیری اتنی مجال میری بیوی کی طرف آنکھ اٹھا کر تو نے غلیظ الفاظ بولے ۔سالے ۔"
ہائیسم ترتیل کی زرد پڑتی رنگت سے چونک کر اس کے پاس آیا تھا مگر اس لڑکے کے الفاظ سن کر تو جیسے کسی نے اسے جلتے تندور میں دھکیل دیا تھا ۔
وہ تو بھوکے شیر کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا تھا ۔ترتیل بھونچکا سی ہائیسم کو فٹ بال کی طرح اس لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھنے لگی ۔۔کچھ ہی دیر میں ہوٹل کی سیکورٹی ٹیم منیجر تک وہاں پہنچ گئے تھے۔
معاملہ کافی خراب ہو گیا تھا ۔اس دوران ترتیل نے رو رو کر خود کو نڈھال کر لیا تھا
اور ہائیسم اس کو دیکھ دیکھ کر پاگل ہو رہا تھا ۔اس کی ابتر حالت پر اس کا بس نا چل رہا تھا جلدی سے جا کر اس کو سینے میں بھینج لے مگر معاملے کو سنبھالتے سنبھالتے اس کو دس سے پندرہ منٹ کا وقت لگ گیا تھا ۔اپنے وکیل کو فون کر کے اب وہ ترتیل کو گھسیٹ کر گاڑی میں بیٹھا کر گھر کی طرف جا رہا تھا ۔
" چپ ایک دم چپ اگر تمہاری آواز بھی مجھے آئی تو میں بہت برا حشر کروں گا تمہارا تالی ۔وہاں اس لڑکے کے منہ ہر تھپڑ مارنے کی بجائے چپ کرکے اس کی باتیں سن رہی تھی اور میرے سامنے رونے بیٹھ گئی ہو ۔ایک ہاتھ کام نہیں کرتا نا تمہارا دوسرا تو سلامت ہے کیوں نہیں منہ توڑا تم نے اس کا ۔"
گاڑی ایک سائیڈ پر روک کر اس کی بازو میں اپنی انگلیاں گاڑ کر دھاڑا تھا ۔ترتیل اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر چینخ کر دروازے کے ساتھ چپک کر اور شدتوں سے رونے لگی ۔
" تمہیں سمجھ نہیں آرہا کیا کہا ہے میں نے مجھے تمہاری آواز نا آئے ۔"
جب کافی دیر تک دیر تک وہ چپ نا ہوئی تو ایک بار پھر چینخ کر بولا ۔مگر ہنوز اس کو روتے دیکھ کر اس نے جبڑے بھینج کر گاڑی سٹارٹ کردی ۔سارے راستے وہ روتی آئی تھی اب تو ہچکی بھی بندھ چکی تھی ۔
" چلو نکو باہر ۔"
پورچ میں گاڑی کھڑی کرکے غضیلے انداز میں اس کو کھینچ کر باہر نکالا ۔اپنی کلائی پر اس کی سخت گرفت محسوس کرنے کے باوجود بھی وہ مزاحمت نا کرسکی تھی ۔۔
کمرے میں پہنچ کر ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پر بٹھایا ۔خود دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا ۔وقفے وقفے سے اس کی سسکی گونج رہی تھی ۔
ایک نظر آنکھیں میچے سسکیاں بھرتی اپنی محبوب بیوی کو دیکھا بے اختیار گہرا سانس بھر کر نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا ۔
اس کو چینج کروانے کے دوران بھی وہ اس کا رونا برداشت کرتا رہا تھا ۔زندگی تو ان دونوں کی بھی آسان نہیں تھی ۔جب جب اسے لگتا کہ وہ ترتیل کو بہتری کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو رہا ہے تب ہی کچھ ایسا ہو جاتا کہ وہ واپس وہی آجاتی جہاں سے سفر شروع کیا تھا ۔ ہائیسم کو بیک وقت اس پر غصہ اور ترس آرہا تھا ۔
اپنے بازو میں اس کو اٹھاکر باہر لایا۔ بیڈ پر لٹا کر خود قدرے فاصلے پر بیٹھ گیا ۔رونا وہ بند کر چکی تھی مگر ہچکیاں اب بھی بھر رہی تھی ۔
" تالی ادھر آو میرے پاس ۔"
اس کی آواز میں بے بسی کے ساتھ اذیت بھری تڑپ بھی تھی ۔اتنا سننے کی دیر تھی وہ پلک جھپک کر اس کے پاس آکر سینے سے لگ کر دوبارہ بے آواز رونے لگی۔ہائیسم نے اپنے دونوں بازو اس کے گرد لپیٹ کر اس کو یوں بھینج لیا جیسے اپنے سینے میں گم کر لینا چاہتا ہو ۔
" ایسے تو مت کیا کرو میرے ساتھ ۔آج کتنا اچھا دن تھا ہمارے لیے ۔آج کے دن ہی میری سالوں سے مانگی ہوئی دعا قبول ہوئی تھی تمہارا ساتھ ملا تھا مجھے ۔جب تم میرے لیے مکمل ہو تو کیوں لوگوں کے گھٹیا جملوں پر خود کو اذیت دیتی ہو ۔یہاں دیکھو میری آنکھوں میں ۔"
خود سے رزا سا الگ کر کے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما ۔۔
" ہائیسم عالم ہے تمہارا بازو تمہاری محرومی کو محروم کر دینے والا تمہارا شوہر ہے ۔میری نظر میں تم اس دنیا کی سب سے پرفیکٹ عورت ہو ۔جو دل میں بستے ہوں ان کی خامیاں نہیں نظر آتی ان کی ہر ادا پر دل قربان ہونا جانتا بھی ہے اور چاہتا بھی ہے "
اس کے الفاظ میں چھپی محبت کی تاثر ترتیل کی رگوں میں سکون بن کر دوڑی تھی ۔یہ شخص اس کو اپنے وجود سے مکمل کرنا جانتا تھا ۔وہ واقع ایک باظرف مرد تھا ۔ترتیل نے آنکھیں موند کر اس کے سینے کی خوشبو خود میں اتاری تھی ۔
" جو میں نے کہا ہے وہ سمجھ آیا کہ نہیں "
اس کو آرام سے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکتے ہوئے سرگوشیانہ بولا ۔ساتھ ہی اس کے کندھے پر بنے برتھ مارک کو بار بار ہونٹوں سے چھونے لگا ۔
" اب اگر کوئی تمہیں کچھ کہے گا تو آگے سے چپ نہیں رہو گی بالکہ اس کے چہرے پر تھپڑ مار کر منہ توڑ جواب دو گی اوکے ۔"
سنجیدہ مگر نرم لہجے میں کہتے ہوئے اس کے چہرے کے نقش اور اسی بے جان ساکت ہاتھ پر اپنے لبوں کی عقیدت بھری چھاپ چھوڑنے لگا ۔
ہائیسم کی قربت میں وہ لوگوں کی طنزیہ جملوں کی بازگشت ان کی تحرم بھری نظریں بھولنے لگی تھی ۔
وہ بھی اپنی جاناں میں کھو کر کسی اور جہاں کا باسی بن جانا چاہتا تھا ۔۔
" فادی یہ میٹنگ چھوڑو اور جلدی سے اس آفیسر سے مل کر آو جس کا میں نے پرسوں تمہیں بتایا تھا ۔ہری آپ یار یہ سب کام بعد میں ہوتے رہے گے ان کا انٹر ویو ہمارے چینل کے لیے بہت ضروری ہے ۔"
فوفیل جو میٹنگ روم میں بیٹھا پروجیکٹر پر کچھ ہائی لائیٹ کرکے باقی کرسیوں کے گرد لوگوں کو سمجھا رہا نانا کی ہڑبڑی دیکھ کر وہیں چپ ہو گیا ۔
" آپ کسی اور بھیج دیں نا میں یہاں میٹنگ میں ہوں اور آپ اب مجھے باہر بھیج رہے ہیں ۔"
سب سے ایکسکیوز کرکے نانا کو سائیڈ پر لے جا کر دبے دبے لہجے میں بولا نانا نے ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر اس کو آنکھیں دکھائیں ۔
" تم ہی جاو گے ایک تو اتنی مشکل سے اس آفیسر سے وقت لیا ہےاور اب کسی دوسرے کو بھیج کر میں پرائیم ٹائیم میں چلنے والے شو کا بیڑہ غرق نہیں کروا سکتا ۔"
فودیل نے بھی نانا کو آنکھیں دکھائیں مگر اس بار آنکھوں کے مقابلے میں نانا کی جیت ہوئی تھی تبھی وہ غصے پر قابو پاتا تن فن کرکے میٹنگ روم سے چلا گیا ۔
نانا نے مسکراہٹ دبا کر اس کی پشت کو دیکھا اب وہ ایسے ہی جان بوجھ کر اس کو زیادہ مصروف رکھنے لگے تھے ۔
" افف یار اس ٹریفک کو بھی آج ہی بند ہونا تھا حد ہے لاہور میں جتنی مرضی سڑکیں بنا لو ٹریفک لازمی بند ہوگی ۔۔"
غصے سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ جھلا کر سٹیرنگ ویل پر مکا مارا ۔ایک تو ویسے ہی آج اس کا کوئی کام کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا اوپر سے نانا نے انٹرویو کے لیے دماغ کھپانے کو بھیج دیا تھا ۔
آخر کار ایک گھنٹے کی تھکا دینے والی ڈرائیو کے بعد Pearl continental hotel کی پارکنگ ایریا میں اس کی گاڑی رک چکی تھی ۔
" ہیلو جی اسلام علیکم میں ہوٹل پہنچ چکا ہوں آپ پلیز نیچے آکر مجھے ریسیو کرلیں ۔"
آفیسر کے سیکٹری کو فون کرکے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔مزید دو چار باتوں کے بعد وہ ہوٹل کی شاندار چمکتی بلڈنگ ایک نظر دیکھ کر انتظار میں ٹہلنے لگا ۔ساتھ ساتھ آفیسر سے پوچھنے والے سوالات جو کہ اس کے فون کی فائیل میں ہر وقت ایسے موقعوں کے لیے سیوو رہتے تھے ان پر بھی نظر دوڑانے لگا ۔
اس کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ چار منٹ بعد ہی آفیسر کا ظفر نامی سیکٹری آتا ہوا دیکھائی دیا تھا ۔
رسمی علیک سلیک کے بعد ظفر کے تعاقب میں وہ بھی چلنے لگا ۔ساتھ ساتھ اردگرد نظریں بھی دوڑا رہا تھا ۔
ہوٹل کی چکا چوند اردگرد بکھری روشنیوں نے اس کی طبیعت پر مثبت اثر ڈالا تھا ۔بوجھل پن زائل ہونے لگا تھا ۔
" سر آئیے اندر "
ہوٹل کے کمرے کے باہر اس کو اپنے پیروں پر جمے دیکھ کر ظفر نے اس کو آنے کی وعوت دی ۔
وہ بھی اپنے پورے اعتماد کے ساتھ اندر کو بڑھا ۔وہ تو بڑے بڑے سیاست دانوں بیوروکریٹس وزیراعظم تک کا انٹرویو لے چکا تھا یہ سب اس کے لیے نئی بات نا تھی اس کا پسندیدہ پیشہ ہونے کے ساتھ مشغلہ بھی تھا ۔
کمرہ کافی بڑا تھا ۔ظفر اس کو سیدھا سیٹنگ ایریا کی جانب لے کر آیا تھا جہاں سفید رنگ کے صوفوں کے ساتھ پڑی میز پر اسیسٹینٹ کمیشنر کے حروف کی سرکاری سٹینپ کے ساتھ ہوٹل کی طرف سے لکھی گئی تختی بھی پڑی ہوئی تھی
ایک نظر اس کو دیکھنے کے بعد وہ کوفت سے گھڑی دیکھنے لگا ۔ظفر اس کے تاثرات سمجھ کر باہر آفیسر کو بلانے چلا گیا وہ شاید کمرے میں نہیں تھا ۔
دروازے کے بند ہونے کی آواز پر فودیل نے رخ موڑ کر پیچھے کی جانب دیکھا جہاں ایک مرد ہلکے آسمانی رنگ کے کاٹن کےشلوار سوٹ میں اندر آرہا تھا اور اس کے پیچھے ایک لڑکی سفید چادر کے ہالے میں بیگ کندھے ہر ٹکائے کالی سادی شلوار قمیض پہنے جس پر سرخ رنگ کی کڑھائی ہوئی تھی ہاتھ میں موبائل پکڑے سنجیدہ روعب دار تاثرات لیے اندر آرہے تھی
فودیل بے ساختہ اس لڑکی کو دیکھے گیا ۔سادگی میں اتنی دلکشی اس نے پہلے کبھی نا دیکھی تھی ۔وہ لڑکی سچ میں سفید کھلے گلاب کی طرح مہکتی ہوئی اس کے قریب سے قریب تر آتی جارہی تھی ۔
اس پل فودیل کو اپنا دل سنبھالنا مشکل لگا ۔وہ خوبصورت تھی بہت خوبصورت ۔شاید اس کے دل کو اس چہرے سے زیادہ کوئی دلکش لگ ہی نہیں سکتا تھا اس کے جسم کے ہر غضو نے اس بات پر لبیک کہا تھا ۔وہ کہاں تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا ۔اردگرد ساری سماعتیں سارے الفاظ سارے مناظر کہیں پس منظر میں چلے گئے تھے۔ نظروں کے سامنے تھا تو بس وہ سفید چادر کے ہالے میں مقید چہرہ ۔سفیدی کا عکس کسی شبنمی موتیوں کی طرح اس مکھڑے کو اپنی پاکیزگی کے حصار میں مقید کیے ہوئے تھا
دل کی دھڑکن اس پل رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی رگوں میں خون کی حرارت مدھم سی پڑ کر سست روی اختیار کر گئی تھی ۔اتنا مکمل حسن اس نے دیکھا ہی کہاں تھا اور کیوں نا اس کو وہ چہرہ دلنشین لگتا آخر کو وہ روفہ عالم تھی ۔جس کی ایک سال کی جدائی میں وہ سدھ بدھ بھلائے پاگل ہو نے کو تھا ۔
اس پر نظر پڑتے ہی روفہ کی آنکھوں میں زمین آسمان گھوم کر رہ گئے تھے ۔ مزید ایک قدم اٹھانے کے بھی قابل نا رہی تھی ۔جس ماضی کو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی وہ حقیقت بنا مجسم اس کے سامنے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا ۔
" فودیل سر یہ ہیں ڈی ایس پی حیدر علی اور ان کے ساتھ اسیسٹینٹ کمشینر روفہ عالم "
" اسیسٹینٹ کمیشنر "
زیر لب فودیل نے فق رنگت سے دہرایا
" پڑھتی تو ایسے ہے جیسے سولویں گریڈ کی آفسر لگنا ہے ۔"
یہ الفاظ کبھی اس نے روفہ سے بے زار ہو کر خود سے کہے تھے جو آج اس کے کانوں میں گونج کر اس کا اپنا مذاق بنا رہے تھے ۔
آج وہ سولویں کی بجائے سترویں گریڈ کی آفیسر بنی اس کے سامنے کھڑی تھی ۔طاقت پوزیشن میں فودیل زکی سے کئی گنا اونچی ہوگئی تھی ۔
ڈی ایس پی حیدر کبھی فودیل کو دیکھتا تو کبھی روفہ کو جو ساکت و جامد ایک دوسرے کو سارا ہوش بھلائے دیکھ رہے تھے ۔اس سے پہلے کہ ظفر یا حیدر کچھ کہتے روفہ چونک کر ہوش کی دنیا میں آئی تھی اور پھر پتھریلے تاثرات لیے وہاں سے الٹے قدموں بھاگتی چلی گئی ۔
ظفر اور حیدر روفہ کے عمل پر ششدر سے ایک دورسرے کو دیکھنے لگے
فودیل بھی جیسے کسی خواب کی کیفیت سے بیدار ہوا ۔اور اندھا دھند اس کے پیچھے بھاگا تھا ۔جب تک وہ پارکنگ میں پہنچا روفہ اپنی گاڑی میں جا چکی تھی ایک بار پھر فودیل خالی ہاتھ لیے اس راستے کو تکنے لگا جہاں سے وہ گئی تھی ۔مگر اب وہ اس کی دسترس سے دور نہیں جا سکتی اس بات کا یقین اس کو ہو چلا تھا ۔۔