اسامہ ایک ہاتھ سے مناچھولے والے کو پکڑے تیز قدموں سے چلتا پارک سے باہر نکل گیا اوزی بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا تبھی منا چھولے والے کو ٹھوکر لگی۔۔۔
”خدا کا واسطہ ایس پی مجھ اندھے پر رحم کرو آہستہ چلو یار مجھے اندھے پن کا کوئی تجربہ نہیں ہے چوٹ لگ جائے گئی ۔“
خاموش اندھے ورنہ یہی گاڑ دونگا ۔“ اسامہ غرایا
گھر پہنچ کر اسامہ نے گیٹ کھولا اور اندر داخل ہوا ۔
اکرم جو باہر پورچ میں اسامہ کی جیپ پر کپڑا مار رہا تھا انہیں حال سے بےحال سرخ آنکھیں اور ان سے بہتا پانی دیکھ کر چونک گیا اور قریب آیا ۔۔
”اسامہ بھائی نصیب دشمناں کیا ہوا کس کا انتقال ہوگیا ۔“
اسامہ نے منا چھولے والے کو گھانس پر دھکا دیا۔
”اوزی مائی بوائے اس کا خیال رکھنا یہ یہاں سے ہلنے نہ پائے ۔“
”اسامہ بھائی یہ غریب بیچارہ اندھا کون ہے ۔“ اکرم مناچھولے والے کو گھاس کو ٹٹولتے دیکھ کر بولا
”اکرم خدا کیلئیے خاموش ہوجاؤ اور میرے کمرے میں آئی ڈراپس لیکر آؤ۔“اسامہ دھاڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
منا چھولے والا گھاس کو ٹٹولتے ٹٹولتے اوزی کے قدموں تک پہنچ گیا
”ایس پی تجھے اللہ کا واسطہ مجھے اسپتال لیجا ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی اندھے کو کون لڑکی دیگا میری توبہ میرے باپ دادا کی توبہ اب کبھی بھی تیرے علاقے میں واردات نہیں کرونگا ۔“ وہ گڑگڑایا
اکرم نے دور سے یہ دلخراش منظر دیکھا اور تاسف سے سر ہلاتا اندر چلاگیا ۔
اسامہ یونیفارم پہن کر تیار ہو کر نیچے آیا تو ممی ڈیڈی ناشتے پر اسکا انتظار کرہے تھے ۔
”اسلام و علیکم ممی ڈیڈی ۔“ وہ سنجیدگی سے سلام کرتا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا
وسیم صاحب اور بیگم وسیم نے حیرانگی سے اسکا سرخ چہرہ اور لال آنکھیں دیکھیں
”اسامہ بیٹے کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے ۔“
اس سے پہلے اسامہ کچھ جواب دیتا اکرم تیزی سے اس کے پاس آیا ۔
”اسامہ بھائی وہ اندھا آپ کو پکارے جارہا ہے ۔“
”کون اندھا “مسز وسیم چونکی اور اٹھ کر باہر کی جانب بڑھی۔
”ممی پلیز وہ ایک خطرناک مجرم ہے جسے میں ابھی اپنے ساتھ تھانے لیکر جاؤنگا ۔“
پر مسز وسیم سنی ان سنی کرتی پورچ کی جانب چلی گئی ان کی دیکھا دیکھی وسیم صاحب بھی اٹھ گئے اسامہ بےبسی سے سر دھنتا ان کے پیچھے لپکا جہاں اس کی پیاری راج دلاری ممی مناچھولے والے سے تفتیش شروع کرچکی تھی ۔
مسز وسیم جب باہر پہنچی تو دیکھا ایک دبلا پتلا تیلی نما آدمی ہاتھ اٹھا اٹھا کر معافیاں مانگ رہا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہہ رہے تھے ۔
”ایس پی مجھے معاف کردو ڈاکٹر کے لیجاؤ میری آنکھیں ہائے ربا میری آنکھیں ۔۔۔“
”کون ہو تم اور اسامہ نے تمہیں کیوں پکڑا ۔“ مسز وسیم اس کے پاس جاکر گویا ہوئیں ۔
”ہائے بیگم صاحبہ میں منا چھولے والا ہوں ایس پی صاحب صبح سویرے پارک میں ایک لڑکی کا ہاتھ زبردستی تھامے کھڑے تھے میں پاس گیا تو میری یہ حالت کردی ۔“ منا بڑے مسکین انداز میں کرآہ کر بولا
”اسامہ “ مسز وسیم شاک کی کیفیت میں مڑی
”غضب خدا کا شادی کیلئیے راضی نہیں ہو اور پرائی لڑکیوں کے ہاتھ پکڑتے ہو شرم کرو بس فیصلہ ہوگیا میں آج ہی تمہارا رشتہ لیکر جارہی ہوں “ مسز وسیم اسامہ کو گھورتے ہوئے اندرچلی گئی
اسامہ نے ڈیڈ کو مدد کیلئیے دیکھا پر وہ بھی تاسف سے سر نفی میں ہلاتے اندر چلے گئے
اسامہ نے منا چھولے والے کو گردن سے پکڑ کر جیپ میں ڈالا اور تھانے روانہ ہوگیا ۔۔۔۔۔
***********************************************
زرش سارے راستے اپنے دادا کی لعن طعن سنتے گھر پہنچی جہاں حسب روایت سامنے گارڈن میں احمد اور عالیہ چائے پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ دادا پوتی کا انتظار کیا جارہا تھا ۔۔
”احمد آج تو زرش نے پھر ہماری ناک کٹوا دی غصب خدا کا ایک پولیس آفیسر پر حملہ کیا ۔“
” حملہ ۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں اباجان “ عالیہ دہل کر سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئیں ۔
زرش تیزی سے اپنے بابا احمد صاحب کی جانب بڑھی ۔
”بابا دیکھیں نا دادا ابو ناحق خفا ہورہے ہیں مجھے کیا پتہ تھا وہ آدمی پولیس آفیسر ہے وہ خبیث کتا آج پھر آگیا تھا میں نے تو صرف اپنا سیلف ڈیفینس کیا تھا “ زرش روہانسے لہجے میں بولی
”آخر ہوا کیا ہے ۔“ عالیہ نے عاجز آکر پوچھا
”بہو تمہاری لڑکی نے ایک پولیس آفیسر کی آنکھ میں مرچیں جھونکیں ہیں وہ تو آفیسر بھلا مانس انسان تھا جو زرش کو گرفتار نہیں کیا ۔“
”دادا ابو سارا قصور اس خبیث کتے کا ہے اور اگر اب وہ کتے کا بچہ مجھے کہیں مل گیا نا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑونگی۔“
”ہونہوں “ ظفر صاحب نے مکھی اڑائی
”محترمہ کتا دیکھ کر تو سانس لینا بھول جاتی ہیں بڑی آئی کتا مارنے والی ۔“
***********************************************
شام ڈھل رہی تھی جب مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے سے لدی پھدی مسز وسیم اپنے ہسبنڈ ریٹائرڈ کمشنر وسیم کے ساتھ زرش کے گھر کے باہر کھڑی بیل بجا رہی تھیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز آئی ۔۔۔۔
”کون ہے ۔“ زرش نے پوچھا
”بیٹا ہمیں زرش سے ملنا ہے ۔“
زرش نے آئی ہول سے جھانکا تو گروسری اسٹور والی آنٹی نظر آئیں فوراً دروازہ کھولا
”اسلام و علیکم آنٹی “ ۔
”وسلام بیٹا “ انہوں نے بڑے پیار سے گلابی لباس میں ملبوس گڑیا سی زرش کو دیکھا
اتنے میں ظفر صاحب جو بیل کی آواز سن کر ادھر ہی آرہے تھے وسیم صاحب کو دیکھ کر چونک گئے اور بڑی گرم جوشی سے آگے بڑھے ۔
”مسٹر وسیم واٹ آ سرپرائز ۔“
وسیم صاحب بھی ریٹائرڈ میجر ظفر کو دیکھ کر حیران تھے ماضی میں وہ ایک مشن پر ایک ساتھ کام کرچکے تھےظفر صاحب ان کے سینئرز میں سے تھے ۔۔
”چلیں آئیں اندر اور زرش جا کر اپنے بابا اور امی کو بلا لاؤ ۔“ ظفر صاحب ان کو لیکر اندر چلے پیچھے پیچھے اکرم مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے لئیے آرہا تھا ۔
اندر پہنچ کر تعارف کی رسم کے بعد سب گھل مل گئے پرتکلف چائے کے بعد مسز وسیم نے اپنا مدعا بیان کیا ۔
”ظفر صاحب میں آپ کی پوتی زرش سے گروسری اسٹور میں ملی تھی اور یہ معصوم بچی مجھے اپنے بیٹے کیلئیے بیحد پسند آئی ہے میں آپ سے اس کا رشتہ مانگنے آئی ہوں ۔“
سب چونک گئے اور مسز وسیم اور وسیم صاحب انہیں اسامہ کے بارے میں بتانے لگے ۔
”دیکھیں پرسوں سے رمضان شروع ہو رہے ہیں آپ لوگ کل ہی ہمارے گھر آجائیں اسامہ سے مل لیں اپنی تسلی کرلیں تو ہم رسم ادا کرلینگے اور عید پر انشااللہ نکاح رکھ لیتے ہیں ۔ “
مزید چند باتوں کے بعد انہوں نے اجازت چاہی اور زرش کو بلوایا ۔
”اچھا زرش بیٹا اب ہم چلتے ہیں ۔“ زرش کے ہاتھوں میں ہزاروں کے نوٹ تھما کر مسز وسیم نے پیار سے اسکا ماتھا چوما جو حیرانی سے کبھی نوٹ تو کبھی انہیں دیکھ رہی تھی -
” ارے ہاں یاد آیا بیٹی اس خبیث کتے کا کیا ہوا کیا تم نے مرچیں استمال کی ۔“ مسز وسیم نے چلتے چلتے پوچھا
”جی آنٹی آج ملا تھا وہ پر مرچیں غلطی سے اس کے ساتھ جو کھڑوس آدمی تھا اس کی آنکھوں میں بھی چلی گئی تب سے دادا ابو ڈانٹے جارہے ہیں ۔“ زرش نے اپنا دکھڑا رویا
”ظفر صاحب آپ پلیز ہماری گڑیا سے ناراض نہ ہو جب وہ کتا اتنا خبیث ہے تو اسکا مالک تو مہا خبیث ہوگا ۔“ یہ کہہ کر وہ زرش کی طرف مڑیں
”اچھا کیا جو دونوں کو سبق سکھا دیا ۔“
پھر سب سے اجازت لیکر وہ دونوں روانہ ہوئے ۔
اگلے دن عالیہ اور احمد ظفر صاحب کے ساتھ جاکر اسامہ سے مل آئے ظفر صاحب کو اسامہ دیکھا دیکھا سا لگا پر وہ اسے پہچان نہیں سکے دوسری طرف اسامہ بھی انہیں نہیں پہچانا کیونکئ جب پہلی بار وہ پارک میں ملا تھا تو آنکھوں میں مرچیں بھری ہوئی تھیں اور یوں ان دونوں کی بات بڑوں میں پکی ہوگئی ۔
**********************************************
رمضان کابابرکت مہینہ شروع ہوگیا تھا روزے تیزی سے گزر رہے تھے زرش اور دادا دونوں سحری تک جاگتےاور پھر آدھا روزہ سو کر گزار دیتے مگر زرش نے اپنے دادا سے بول چال کم کررکھی تھی اسی لئیے آج سحری کے بعد ظفر صاحب اسے زبردستی باہر گارڈن میں لے آئے تھے
”کیا بات ہے محترمہ منہ کیوں پھولا ہوا ہے میں دیکھ رہا ہو جب سے منگنی ہوئی ہے بڑی مغرور ہوگئی ہو “انہوں نے پیار سے اسے گدگدایا
”دادا ابو نہ کریں میں ناراض ہو سب سے ۔“
”پر کیوں اب بتا بھی دو ورنہ عید کی شاپنگ بھول جاؤ “
”دادا ابو ۔۔۔دیکھیں آپ سب نے میری منگنی کردی نہ کوئی انگوٹھی نہ جوڑا نہ تصويريں کیا ایسے ہوتی ہیں منگنیاں اور جس سے کی ہے نہ اس کا کوئی اتہ پتہ کیا پتا کوئی غنڈہ بدمعاش ہو ۔“
” ارے نہیں محترمہ وہ ایک پولیس آفیسر ہے اور اسکا نام اسامہ ہے اچھا چھوڑو سب تیار رہنا آج دن میں جیولرز کے چلتے ہیں تم اپنی پسند سے انگوٹھی خرید لو میری طرف سے ۔“ دادا ابو نے حاتم طائی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
*******************************************
دوپہر کا وقت تھا جب اسامہ اپنی جیپ پورچ میں کھڑا کرتا اپنی کیپ اتارتا اندر داخل ہوا جہاں مسز وسیم لاؤنچ میں بیٹھی اسکا انتظار کررہی تھیں ۔۔
”سلام ممی خیریت آپ نے بلایا ۔“
”ہاں بیٹا تم یونیفارم بدل آؤ پھر ذرا جیولرز سے زیور اٹھا لانا اس کا فون آیا تھا ہمارا آرڈر تیار ہے ۔“
اسامہ نے شاک کی کیفیت میں ممی کو دیکھا
”سیریسیلی ممی آپ نے مجھے ایک اہم میٹنگ سے صرف فضول سے زیوروں کیلئیے بلوایا ہے ۔“
” میں دیکھ رہی جب سے تمہاری بات طے ہوئی ہے تم خوش نہیں ہو سب کو ایٹیٹیوڈ دکھاتے رہتے ہو ایک تو اتنی اچھی لڑکی ڈھونڈی اور یہاں صاحب زادے کے مزاج ہی نہیں ملتے“ مسز وسیم غصہ سے تلملائیں ۔
اسامہ اوپر جا کر لباس تبدیل کرکے آیا
”اوکے ممی جارہا ہوں ۔“
باہر نکل کر جیپ اسٹارٹ کی پھر پیچھے کا دروازہ کھول کر اوزی کو آواز لگائی ۔۔
”اوزی بڈی کم لیٹس گو فار رائیڈ۔“
اوزی بڑے شان سے چلتا ہوا جیپ تک آیا اور جمپ لگا کر اندر برآجمان ہوگیا ۔
ظفر صاحب اور زرش دونوں جیولری کی ایک بڑی دکان میں بیٹھے انگوٹھیاں دیکھ رہے تھے جب ظفر صاحب کا فون بجا چند لمحے بات کرنے کے بعد وہ زرش کی طرف متوجہ ہوئے ۔
” زرش تمہارے شمسی انکل ہاسپٹل میں ہیں میں گاڑی اور اپنا کریڈٹ کارڈ دے رہا ہو تم انگوٹھی خرید کر سیدھی گھر چلی جانا ۔“
زرش نے بڑی تابعداری سے سر ہلایا پر اندر ہی اندر اس کا دل بلیوں کی طرح آزادی سے خود ڈرائیو کرنے کی خوشی میں اچھلا جا رہا تھا ۔
بڑے اطمینان سے زرش نے انگوٹھی پسند کی اور بل ادا کرکے انگوٹھی پہن کر توصیفی نگاہوں سے اپنے ہاتھ کو دیکھا باہر نکلی اور گاڑی میں بیٹھ کر ریورس کرہی رہی تھی کے دھماکے کی آواز آئی ۔
اسامہ جیولری شاپ پہنچ گیا تھا اور ابھی پارکنگ ہی میں تھا کہ کسی گاڑی نے زور سے اس کی پولیس جیپ کو ٹکر ماری وہ تیزی سے اتر کر تاسف سے اپنی جیپ کو دیکھتا گاڑی کی طرف بڑھا ڈرائیونگ سیٹ پر آنکھیں میچے اپنے گھنے گھونگریالے بالوں کی پونی بنائے پارک والی خوبصورت بلا بیٹھی ہوئی تھی یہ وہ لڑکی تھی جس کی وجہ سے وہ دو روز تک نیم اندھا بنا رہا تھا جس کی وجہ سے ممی نے اس پر شک کیا تھا ذرا اس بلا کی معصوم شکل تو دیکھو ۔
”شکل مومنہ کرتوت کافرانہ “۔اسامہ نے بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کا شیشہ بجایا
زرش نے دھماکے کی آواز سنتے ہی آنکھیں بند کرکے اللہ سے مذاکرات شروع کردئیے ابھی وہ نفل پڑھنے کا ارادہ اللہ کو بتا ہی رہی تھی کہ گاڑی کی کھڑکی پر کھٹ کھٹ ہوئی جھٹ سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو پولیس جیپ اور وہ پارک والا ہینڈسم کھڑوس کھڑا اسے گھور رہا تھا اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے کھڑکی کھولی ۔
”محترمہ آپ کا لائسنس “ اسامہ اپنا کارڈ دکھاتے ہوئے گویا ہوا
” جی وہ تو نہیں ہے ۔“ زرش اپنے حواس بحال کر کے بولی
” آپ کی اطلاع کیلئیے میں آپ کو بلا لائسنس گاڑی چلانے کے جرم میں گرفتار کرسکتا ہوں ۔“
اب کے زرش نے اپنا دماغ لڑایا اور فوری بولی ۔
”دیکھیں اب یہ تو صریحاً دشمنی نکالنے والی بات ہوگئی آپ میرے منگیتر کو نہیں جانتے وہ بھی پولیس میں ہیں اور میرا لائسنس ان کے پاس ہے ۔“
”کیا نام ہے آپ کے منگیتر کا ۔“اسامہ اپنا فون نکالتے ہوئے بولا
” اسامہ احمد خان “ زرش نے جلدی سے دادا ابو سے سنا نام دہرایا
اسامہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا صبیح چہرہ چمکتی آنکھیں لمبے گھونگھریالے بال گلابی قمیض شلوار میں چہرے پہ بلا کی معصومیت۔
”یقیناً ممی اس شیطان کی خالہ کی خوبصورتی پر فدا ہوئی ہونگیں “ وہ بڑبڑایا
” چلیں آپ اتریں میں آپ کو گھر تک چھوڑ دوں اب بنا لائسنس گاڑی تو میں آپ کو چلانے کی اجازت نہیں دے سکتا آپ کی گاڑی میں آپ کے گھر پہنچا دونگا ۔“اسامہ قطعی لہجے میں بولا
زرش گاڑی سے اتری اسامہ نے جیپ کا فرنٹ ڈور کھول کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ جھجکتے ہوئے بیٹھنے ہی لگی تھی جب اسے پچھلی سیٹ پر وہ خبیث کتا نظر آیا جو اس سارے فساد کی جڑ تھا زرش ایک چیخ مار کر پیچھے ہوئی اور اسامہ کا بازو پکڑ کر اس کی آڑ میں ہوگئی ۔
اسامہ نے ایک نظر زرش کے کپکپاتے نازک ہاتھوں پر ڈالی جن سے وہ اس کا بازو تھامے ہوئے تھی انگوٹھی سے سجا نازک مرمریں ہاتھ کا لمس اسامہ کی ساری ناراضگی بہا کرلے گیا اب اس نے ایک استحقاق بھری نظر زرش پہ ڈالی
” کیا ہوا آپ اندر کیوں نہیں بیٹھ رہی ہیں“۔
”یہ خبیث کتا اس سارے فساد کی جڑ میں اس کے ساتھ تو ہرگز نہیں بیٹھ سکتی ۔“
اسامہ تو اپنے اوزی کیلئیے خبیث کا لفظ سن کر تڑپ گیا پیار سے اوزی کو دیکھا جس کی بدولت زرش اور وہ ملے تھے اور پھر مڑ کر زرش کا ہاتھ پکڑا اور اسے زبردستی جیپ میں بٹھا کر دروازہ لاک کر کے خود ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھ گیا جیپ اسٹارٹ کرتے ہوئے اوزی کے خوف سے لرزتی زرش کو دیکھا اور ہنستے ہوئے جیپ آگے بڑھا دی ۔
”آپ کو پتا ہے آپکا فیانسی ایک نڈر ایس پی ہے اور آپ اوزی سے ڈر رہی ہیں۔“
زرش بنا جواب دئیے چپ چاپ بیٹھی رہی اسامہ اسے اس کے گھر اتار کر زن سے جیپ بھگا کر لے گیا اور زرش حیران سی اندر چلی گئی آخر اس کھڑوس کو گھر کا پتہ کیسے چلا
***********************************************
آج آخری روزہ تھا اگلے دن عید پر زرش اور اسامہ کی تقریب نکاح تھی اور رخصتی بقرہ عید پر رکھی گئی تھی ۔۔۔۔
صبح سے گھر میں ہلچل مچی تھی عید کا پرمسرت دن تھا اور شام کی تقریب کی تیاریاں عروج پر تھیں سر شام ہی ظفر صاحب کا گارڈن سج گیا تھا مہمان آچکے تھے رنگ برنگے آنچل لہرا رہے تھے تھوڑی دیر بعد ایجاب و قبول کی رسم ہوئی پھر سجی سنوری زرش کو اسامہ کے ساتھ لاکر بٹھایا گیا ۔
اسامہ نکاح کے بعد اسٹیج پر بیٹھا تھا جب زرش کو لایا گیا گلابی سنہری میکسی میں سجی سنوری اپنی نظروں کو جھکائے سہج سہج کے قدم اٹھاتی زرش اس کے دل کے دروازے پر دستک دے رہی تھی اس نے آگے بڑھ کر زرش کا ہاتھ تھاما اور اسے اسٹیج پر لا کر بیٹھنے میں مدد دی ۔
اسامہ اور زرش کے بیٹھتے ہی تصاویر کا سیشن شروع ہوگیا اور جب فوٹوگرافر کے بیحد اسرار پر زرش نے اپنی جھکی نگاہ اٹھائی تو اسامہ کو دیکھ کر اسے صحیح کا شاک لگا ۔
”تم “
”اور وہ ؟“ زرش نے صدمہ سے بات ان کہی چھوڑ دی
اسامہ نے دلکشی سے مسکراتے ہوئے زرش کو دیکھا اور اسکا حنائی ہاتھ تھامتے ہوئے گویا ہوا
”کیا ہوا مائی اکلوتی وائف ڈونٹ وری رخصتی تک تمہاری اور اوزی کی دوستی کروا دونگا پھر بس میں تم اور وہ اور زندگی کی ایک حسین راہگزر ۔“
****************************************
اختتام