آج تو اس بیہودہ کتے سے اپنی توہین کا بدلہ لینے کی خوشی میں زرش بی بی تہجد ہی میں جاگ گئیں تھیں اور اب دادا ابو کے اٹھنے کا انتظار تھا کئی دفعہ دبے قدموں وہ ظفر صاحب کے کمرے کا چکر لگا چکی تھی پر وہ بھی اسی کے دادا تھے ہاتھی گھوڑے سب بیچ باچ کے سو رہے تھے تھک ہار کر وہ خود ہی مرچوں کا ہتھیار تیار کرنے کچن میں آگئی اب دادا ابو تو سو رہے تھے کہ ان سے مقدار کا اندازہ لیتی اس لئیے اپنی مدد آپ کے تحت اس نے اخبار کا ٹکرا لیا اور پہلے مٹھی بھر سرخ پسی مرچ ڈالی پھر کچھ سوچ کر پسی ہوئی کالی مرچ بڑے انہماک سے سرخ مرچوں میں ملائی اور پھر اخبار کو اچھی طرح سے لپیٹ کر پڑیا بنائی لو جی مرچی بم تیار تھا ۔۔۔
کمرے میں آکر بڑے اہتمام سے جینز اور کرتا پہنا اپنے گھونگریالے بالوں کی اونچی پونی بنائی اور گلے میں دوپٹہ ڈال کر خود کو آئینے میں دیکھ ہی رہی تھی کہ ظفر صاحب نے اپنی چھڑی سے اس کا دروازہ بجا کر کھولا ۔
” تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے صاحبزادی آج خود ہی اٹھ گئی ہو اور تیار بھی ہو ۔“ ظفر صاحب نے مشکوک نظروں سے اپنی پوتی کو گھورا
”سلام دادا ابو آپ نے نماز پڑھ لی ہو تو واک پر چلیں ۔“ ۔ وہ ان کی مشکوک نظروں کو نظر انداز کرتی اپنی جیب تھپتھپاتے ہوئے شیریں لہجے میں گویا ہوئی
*********************************************
ایس پی اسامہ کا آج کا پورا دن ایک بڑے گروہ کو گرفتار کرنے میں گزرا تھا اسے کئی دھمکی آمیز کال بھی آرہی تھیں پر وہ سب کو نظر اندازکئیے تمام مجرمين کو اسپیشل سیل میں لے گیا تھا اور اب ان سے اعتراف جرم اور باقی مجرمین کا پتہ چلانے کیلئیے ان کی جم کر پٹائی لگا رہا تھا ۔
”ایس پی ہمیں چھوڑ دو ورنہ کل کا دن تمہارا اس دنیا میں آخری دن ہوگا یہ منا چھولے والے کا وعدہ ہے ۔“
ایک مخنچوں سا بڑی مونچھیں گھونگریالے شانوں تک آتے بال اور بانس کی طرح لمبے آدمی نے اسامہ کو دھمکی دی
اسامہ نے اسے رکھ کے ایک چپیٹر ماری اور منا چھولے والا الٹ کے دور جاگرا ۔
حوالدار کو ان سب کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت دیتا ڈیوٹی انسپکٹر کو ساتھ لیکر باہر نکل آیا اور اس کو ہدایات دیتے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔۔
منا چھولے والے نے لاک اپ میں آکر ڈیوٹی پر موجود سپاہی کو رشوت دیکر ایک فون کرنے کی اجازت مانگی ۔
فون کرنے کے بعد وہ نیا نیا بنا دھشت گرد بڑے آرام سے آکر لاک اپ میں لیٹ گیا۔
”ایس پی کل صبح کا سورج تیری موت کا پیغام لیکر طلوع ہوگا ۔“ وہ بڑبڑاتے ہوئے آنکھیں موند گیا
************************************************
گھر آکر اسامہ نے کپڑے تبدیل کئیے ہی تھے کہ اکرم دروازہ کھٹکھٹاتا اندر آیا ۔۔۔
”اسامہ بھائی آج آپکا اوزی تھوڑا چڑچڑا ہورہا ہے صبح سے چپ چاپ لیٹا ہوا ہے لگ رہا ہے کسی دشمن کی نظر لگ گئی ہے ۔“ اکرم نے بڑے ہی مودب انداز میں اوزی کی ناسازی طبع کی اطلاع دی ۔
اسامہ فوراً باہر گارڈن میں ڈاگ ہاؤس کی جانب بڑھا ڈاگ ہاؤس کے سامنے ہی اوزی بڑے انداز سے محواستراحت تھا۔
”اوزی مائے بوائے کیا ہوا ۔“ اسامہ نے اوزی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا
اوزی نے اپنا منہ اٹھایا اور اسامہ کے پیروں میں ڈال کر رگڑنے لگا ۔۔۔
”بڈی آئی نو کہ تم میرے دیر سے آنے پر بور ہوئے ہو پر وعدہ کل پارک میں تمہیں زیادہ ٹائم دونگا ۔“
اوزی کے لاڈ اٹھا کر اسامہ اندر آیا تو مسز وسیم اس کی پیاری ممی اس کے انتظار میں بیٹھیں تھی ۔۔
”سلام ممی “ وہ سلام کرتا کاؤچ پر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا
” ممی کی جان تھک گئے ہو ۔“
”نہیں ممی بس ایسے ہی آپ کی گود میں لیٹنے کو دل کررہا ہے ۔“
” اچھا یہ بتاؤ کوئی لڑکی ہے تمہاری نظر میں نازک لمبی دبلی پتلی سی گھونگریالے بال گوری رنگت ۔“ مسز وسیم کی آنکھوں میں زرش کا سراپا لہرا رہا تھا
ممی کی باتیں سنتے اسامہ کی آنکھ میں منا چھولے والے کا سراپا لہرایا وہ لاحول پڑھتا اٹھ بیٹھا ۔۔۔
”کیا ہوا اسامہ لڑکی کا ذکر سنتے ہی لاحول پڑھ رہے ہو بس بہت ہوگیا تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تم سے بات کی جائے ۔“ مسز وسیم غصہ سے اٹھتے ہوئے گویا ہوئی
”ممی جان پلیز آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔“ اسامہ بےبسی سے بولا
”ایک دن گزر چکا ہے اب تمہارے پاس صرف دو دن باقی ہیں یا تو اپنی پسند بتا دو ورنہ لڑکی تو میں آج دیکھ چکی ہوں پرسوں رشتہ ڈال آؤنگی بس تم اتنی زحمت کرنا کہ اپنی شادی کے دن وقت پر پہنچ جانا ۔“ مسز وسیم نے قطعی لہجے میں کہا اور اندر رات کے کھانے کی تیاری کرنے چلی گئی ۔
اسامہ بھناتا ہوا اٹھا ممی نے شادی کو اس کی ضد بنالیا تھا کچن کے دروازے پر آکر رکا ۔
”ممی میں بہت تھک گیا ہوں سونے جارہا ہوں پلیز ڈنر پر مت اٹھائیے گا ۔“
ابھی وہ کمرے میں آکر لیٹا ہی تھا کہ اکرم دودھ کا لبالب بھرا گلاس لئیے چلا آیا ۔
”اسامہ بھائی بیگم صاحبہ نے کہا ہے یہ دودھ پی لیں پھر سو جائیے گا ۔“
دودھ پی کر صبح چار بجے کا الارم لگا کر وہ نیند کی گہری وادی میں اتر گیا ۔
************************************************
زرش اور ظفر صاحب دونوں باتیں کرتے پارک پہنچ گئے تھے ۔۔
”زرش بچی آج تو وہ کتے کا بچہ دور دور تک نظر نہیں آرہا تم آرام سے واک کرو میں وہاں شمسی صاحب کے ساتھ جا کر بیٹھتا ہوں ۔“ ظفر صاحب چاروں جانب دیکھتے ہوئے بولے
زرش نے اپنی جیب تھپتھپا کر اثبات میں سر ہلایا اور چاروں جانب دیکھتی واک کرنا شروع ہوگئ اسے وہ نامعقول کتا دور دور تک نظر نہیں آیا تو بڑے اطمینان سے اس نے ہیڈ فون چڑھایا اور تیز تیز چلنے لگی ۔
ابھی اس نے دو چکر ہی لگائے تھے کہ اچانک سے وہ کتا اس کے سامنے آگیا وہ ٹھٹک کر رکی ہاتھ جیب میں رینگ گیا مگر کتے کے ڈر وخوف سے اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ٹانگوں پر لرزہ طاری تھا من تو کیا فوراً دوڑ لگا دے مگر انتقام بھی کوئی چیز ہوتی ہے دوسری جانب وہ کتا بھی عظیم الشان ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے اپنی زبان نکالے اسے گھورنے کا فریضہ سرانجام دے رہا تھا ۔
”کتے بھائی یہاں سے چلے جاؤ پیارے کتے نہیں ہو کیا ۔“ زرش نے بڑے پیار سے اس منحوس سے گذارش کی ۔۔۔
مگر وہ بھی ایک ڈھیٹ تھا ہلکے سے بھونک کر زرش کے قریب آنے لگا
زرش نے کانپتے ہاتھوں سے مرچی بم ہاتھ میں لیا
”جل تو جلال تو اس منحوس کتے کو ٹال تو “ کا ورد کرتے ہوئے اپنی آنکھیں میچ کر مرچیں بم والا ہاتھ اوپر کیا ۔۔۔
منا چھولے والا رات کو لاک اپ سے باہر نکل گیا تھا آخر سفارش اور رشوت بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اب ایس پی اسامہ کے گھر کے باہر درخت کے پیھچے چھپا بیٹھا صبح ہونے اور اسامہ کے باہر آنے کا انتظار کررہا تھا فجر کے قریب اس کی آنکھ لوہے کے گیٹ کے کھلنے کی آواز سے کھل گئی فریش سا اسامہ جاگنگ کیلئیے تیار گھر سے نکل رہا تھا اس پہلے وہ اسامہ کی طرف بڑھتا اسے اسامہ کے ساتھ ایک بڑا خطرناک سا کتا دکھائی دیا جسے دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گیا ۔۔
”غضب خدا کا اس خطرناک ایس پی کو کتے کی کیا ضرورت ہے لیکے سارا پروگرام غارت کردیا ۔“ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا منا چھولے والا دور سے اسامہ کا پیچھا کرتا پارک میں داخل ہوگیا ۔۔۔۔۔
اسامہ پارک کے ایک نسبتاً ویرانی گوشے میں پش اپ کر رہا تھا جب اس کے حساس کانوں میں اوزی کے بھوکنے کی آواز آئی وہ تیزی سے اٹھ کر ہاتھ جھاڑتے اوزی کی آواز کی سمت بڑھا ۔۔۔
اوزی کے سامنے آنکھیں سختی سے میچے لرزتے سراپے کہ ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی اسامہ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس لڑکی نے اپنی جیب سے کوئی چیز اپنی مٹھی میں بھری اور ہاتھ اٹھایا ۔
اسامہ نے غور سے لڑکی کا جائزہ لیا ۔۔پرکشش
دبلی پتلی تقریباً پانچ فٹ چھ انچ قد گھنے گھونگھریالے بالوں کی پونی جو ہوا سے اٹکھیلیاں بھر رہی تھی۔۔
”او گاڈ کہیں یہ منا چھولے والے کی بہن تو نہیں ہے کہیں اس کے ہاتھ میں بم تو نہیں “ اس کے دماغ میں منا چھولے والے کی تصویر آئی وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اس لڑکی کا اٹھا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا ۔
زرش جو مرچی بم اس منحوس کتے پر پھیکنے ہی والی تھی چونک گئی کسی نے بڑی سختی سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا
”کون ہو تم کس نے بھیجا ہے ۔۔“ اسامہ غرایا
”ہاتھ چھوڑو میرا “ زرش نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی
”میں تو میں ہوں تم کون ہو بدمعاش اکیلی لڑکی کو چھیڑتے ہو شرم نہیں آتی ۔“
اوزی اسامہ کو دیکھ کر بھونکتا ہوا اس کے پیروں کے پاس آیا زرش نے کتے کو اپنے اتنے پاس دیکھ کر آنکھیں میچ کر ایک فلک شگاف چیخ ماری اور مرچی کی پڑیاں اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اخبار کا ٹکرا کھل گیا اور مرچیں ہوا میں اڑ کر اوزی تو اوزی اسامہ کی آنکھ میں بھی گریں ساتھ ہی ساتھ ایک فلگ شگاف دردناک آواز منا چھولے والے کی نکلی جو اسامہ کا پیچھا کرتے اور ایک انتہائی دلکش حسینہ کو دیکھ کر چھیڑنا اپنا ملکی فرض جانتے ہوئے سامنے آرہا تھا ۔
آنکھوں میں بلا کی جلن ہورہی تھی پانی تیزی سے بہہ رہا تھا اوزی بھی تکلیف سے بلبلا رہا تھا اسامہ نے اس مشکوک حسینہ کا ہاتھ چھوڑا اور اپنی آنکھیں مسلی ۔
جیسے ہی اس ہینڈسم مگر کھڑوس اجنبی نے زرش کا ہاتھ چھوڑا وہ تیر کی تیزی سے بھاگتی ہوئی پارک کے دور گوشے میں بیٹھے ظفر صاحب کے پاس چلی گئی ۔
” دادا ابو وہ وہاں ۔“ زرش نے ہانپتے ہوئے اشارہ کیا
” وہاں کیا بیٹی کیا وہ نامعقول کتا دوبارہ آگیا ہے ۔“
” صرف کتا نہیں وہاں ایک ہیرو جیسا دکھنے والا غنڈہ بھی ہے اس نے میرا آپ کی پوتی کا ہاتھ پکٹرا ۔“ زرش جذباتی انداز میں بولی ۔۔
ظفر صاحب اور ان کے دوسرے ریٹائرڈ دوست سارے جذبات میں کھڑے ہوگئے
”اس ناہنجار کی اتنی ہمت ابھی سبق سکھاتا ہوں زرش بیٹی تم پولیس کو فون کرو ۔“
زرش کو ہدایت دیکر چاروں ریٹائرڈ دوست اپنی چھڑیاں سنبھالتے اس بدمعاش کی جانب بڑھے ۔
اسامہ اپنی حالت پہ قابو پاچکا تھا مگر اس کی آنکھوں سے ابھی بھی پانی بہہ رہا تھا وہ اپنی تکلیف کو پس پشت ڈالتے ہوئے تیزی سے اوزی کی جانب بڑھا جو تکلیف سے گھانس میں لوٹیں لگا رہا تھا اوزی کے پاس ہی درد سے تڑپتا منا چھولے والا تڑپ رہا تھا ۔۔۔
” اوزی مائی بے بی “ اسامہ نے پیار سے اسے پچکارا پھر قریب چلتے فوارے میں اس کو لے گیا۔
”ایس پی تجھےاللہ کا واسطہ میری مدد کرو میں مررہا ہوں “ مرچوں سے نابینا ہوا منا چھولے والا چلایا
اوزی کی آنکھیں دھلوا کر ایس پی اسامہ واپس منا چھولے والے کے پاس آیا ابھی اس کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ چند ضعیف غصہ میں بھرے افراد اس کے پاس آئے ۔۔۔
”تم نے ہماری بچی کو ڈرایا دھمکایا ۔ “ شمسی صاحب بھڑکے
”جناب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے آپ کی بچی نے ہم پر حملہ کیا ہے ۔“ وہ دانت پیستے ہوئے بولا
مگر سارے بزرگوار اسے گھیرے کھڑے تھے اور اس کی سننے کو بلکل تیار نہیں تھے ۔
”ارے اللہ کا واسطہ کوئی مجھے ہسپتال لیجاؤ ۔“
منا چھولے والا کراہا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا
ابھی بحث جاری ہی تھی کہ حوالدار ڈنڈا پکڑے اپنی پینٹ سنبھالتے زرش کے ساتھ وقوع پر پہنچا
” گرفتار کرلیں اسے یہ ہے وہ بدمعاش اور یہ کتا بھی شاید اسی کا ہے جو لڑکیوں کو ڈراتا ہے ۔“ زرش گویا ہوئی ۔
حوالدار نے اسامہ کو دیکھا اور ایک زوردار سلیوٹ مارا ۔۔۔
”سر آپ ادھر ۔“
اسامہ نے اپنی سرخ آنکھوں سے فساد کی جڑ زرش کو گھورا ۔۔
اور سب سے معذرت کرتا منا چھولے والے کو گریبان سے پکڑ کر اوزی کے ساتھ وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔
**********************************************