فہد سونے جا چُکا تھے اور سدرہ راضیہ کہ کمرے میں رُکی تھی۔۔
جبکہ راضیہ احمد کہ لئیے کھانا لینے گئ تھیں۔ احمد جب سے گھر پُہنچا تھا بالکل خاموش تھا اور جو بھی بات پوچھو اُسکا جواب بہت ہی ٹوٹے پھوٹے انداز میں دے رہا تھا باقی دونوں کو لگا شاید اُس حادثے کا اثر ہے پر راضیہ بیگم کو کچھ شک سا گُزرا تھا کہ شاید کوئی مسئلہ ضرور ہے۔
انہوں نے جیسے ہی کھانا لا کر میز پر رکھا احمد تھوڑی دیر تک کھانے کو گھورتا رہا پھر کرسی گھسیٹتے کھڑا ہوگیا۔
کیا ہوا احمد کھانا تو کھا لو۔۔
احمد بنا جواب دئیے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
اللہ جانے کیا ہوا ہے اس لڑکے کو اتنا گُم سُم پتہ نہیں کیوں ہے وہ اپنے دماغ میں سوچوں کہ تانے بانے بنتی احمد کے پیچھے آئیں جو اب بھی ویسے ہی کسی غیرمرعی نقطہ کو گھورتا پلنگ پر بیٹھا ہوا تھا۔
احمد کیا ہوا ہے بچے کیوں ماں کو پریشان کررہا ہے مجھے بتا کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟
انکے پوچھنے پر بھی احمد میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔
تیری ممانی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟پھر سے کوئی جواب نہیں آیا۔
احمد کیا ہوا ہے کچھ تو بول کیوں میرا دل ہولا رہا ہے کچھ تو کہہ۔۔
امی۔۔
ہاں میرا بچہ کیا ہوا
امی وہ ۔۔۔وہ۔۔۔ چلی گئی
(اب کہ احمد راضیہ بیگم کہ گلے سے لگا دھاڑیں مار کر رونے لگا تھا)
کیا ہوا ہے احمد راضیہ کے تو ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے۔
احمد میرے بچے کون کون چلی گئی۔۔مریم چلی گئی ہے امی مریم میرے پاس نہیں رہی اب۔ احمد نے روتے ہوۓ بتایا۔
بیٹا ہاسپٹل ہی تو گئی ہے اور کہاں گئی ہے تم نے تو میرا دل ہی دہلا دیا تھا بچے۔
راضیہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
تبھی احمد نے الف سے ے تک ساری بات بتا دی جو کچھ ہسپتال میں ہوا اور کیسے شادی ہوئی سب کچھ بتانے کہ بعد وہ ایک بار پھر سے ماں کی گود میں سر رکھے بلکنے لگا تھا۔۔ اور راضیہ کی تو سب سننے کہ بعد ہمت ہی نہیں ہوئی کہ کیسے اپنے جوان جہان بچے کو بکھرنے سے بچائیں۔۔۔۔
**************
سدرہ عادل کے ہاتھ کا سہارا لیتے کھڑی ہو چکی تھی اور اب سارا وزن عادل پہ ڈالے دھیرے دھیرے چل کر اندر جانے لگی تھی۔۔ دوسری طرف عادل ناک منہ چڑھاتے جلد سے حلد مریم کو اندر لے جا کر پٹخ دینا چاہتا تھا۔۔
عادل نے مریم کو اپنے کمرے کہ بجاۓ اس کمرے میں ہی ٹھرایا جہاں ہمیشہ رضوانہ رُکتی تھیں۔۔جو شادی سے بھی پہلے اُنکی ملکیت تھا۔
یہ گھر جسکا نام ممتاز منزل تھا بہت پرانا بنا ہوا تھا ۔اور آج بھی وہ کمرہ ویسے کا ویسے تھا جس میں شادی سے پہلے رضوانہ رہتی تھیں۔ یہ کمرہ پُرانے طرز کا تھا پر بہت کشادہ اور صاف تھا۔
مریم نے اب پلنگ پر بیٹھ کر اپنے پیر کو بغور دیکھا ابھی سے ہی سوجن آگئی تھی۔عادل کمرے کہ باہر ہی چھوڑ کر جا چکا تھا پتہ نہیں گھر پر تھا بھی کہ نہیں۔ تبھی کہیں سے
فجر کی اذان کی آواز آنے لگی۔۔
آخرکار ایک بھیانک رات کا اختتام ہوگیا تھا۔ مریم چت لیٹےکمرے کی چھت کو گھور رہی تھی کل شام سے اب تک جو بھی ہوا وہ سب سوچتے اب مریم کی آنکھ لگ گئ تھی۔۔
(شکر ہے پریشانی میں بھی نیند آ جاتی ہے کم از کم کچھ دیر کہ لئیے ہی سہی سوچوں سے آزادی مل جاتی ہے)۔۔۔
**************
رات جہاں احمد کہ لئیے مشکل تھی وہیں راضیہ کہ لئیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں تھی اپنی نظروں کہ سامنے اپنے جوان جہان بیٹے کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھنا قطعاً آسان نہیں تھا۔اُنہوں نے احمد کو تو نیند کی گولی بہت مشکل سے دے کر سُلا دیا تھا پر خود ایک لمحے کہ لئیے بھی آرام نہیں کر پائ تھیں۔۔
جس کی وجہ سے اب شدید سر میں درد تھا تبھی وہ صبح ہی صبح لاونج میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھیں۔۔تبھی فہد کمرے سے باہر آتا دکھا (اُسے ویزہ وغیرہ کا کوئ کام تھا تبھی وہ جلدی جاگ گیا تھا۔)
کیا ہوا امی اس وقت تو آپ اپنے وظائف میں بزی ہوتی ہیں خیر تو ہے آج؟؟
کچھ نہیں ہوا بس ایسے ہی اُنہوں نے اُکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہا۔۔تبھی سدرہ بھی باہر آئ گُڈ مارننگ ایوری ون۔۔
گُڈ مارننگ چلو اُٹھ ہی گئ ہو تو ناشتہ بنا دو مجھے۔۔
او ہیلو یہ تم کیا مجھے ہر وقت شوہروں کی طرح آرڈر دیتے رہتے ہو کبھی یہ بنا دو کبھی وہ خود بھی کچھ کر لیا کرو۔۔۔
ویسے یہ شوہر والا آئیڈیا بُرا نہیں ہے۔۔ ہاہاہاہا
پاس بیٹھی انکی باتیں سنتی راضیہ کا غصہ اب کہ عود آیا تھا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے لڑکی (سدرہ نے حیرانگی سے دیکھا)۔۔
بات کرنے کی تمیز ہے یہ نہیں تمھاری ماں نے صرف زبان کہ جوہر دیکھانا ہی سکھایا ہے کیا۔۔
امی آپ کیا کہہ رہی ہیں یہ فہد نے حیرانگی سے پوچھا۔۔
ہاں تو صحیح ہی کہہ رہی ہوں اسکی بہن کو تو اپنے گلے ڈال کہ دیکھ ہی چکی ہوں اب یہ بھی گلے پڑھ رہی ہے نہ بھئ نہ مجھے اور میرے بیٹوں کو بخش دوجان چھوڑ دو ہماری۔
سدرہ کو تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنی جان چھڑکنے والی پھوپھو کو ہوا کیا ہے آخر؟؟(جب اولاد پہ آۓ تو بکری بھی پنجے نکال لیتی ہے پر یہاں وہ سدرہ کہ ساتھ غلط کر گئ تھیں۔۔۔تبھی سدرہ روتے ہوۓ اُنکے گھر سے ہی نکل گئ اور پیچھے فہد حیرت سے اپنی ماں کو دیکھنے لگا کہ آخر ہوا کیا یے۔۔۔
**************
ممتاز بیگم کی حالت اب پہلے سے کافی بہتر تھی تبھی رضوانہ اور فرید کچھ دیر کہ لئے گھر آۓ تھے۔۔
یہ کیا فرید آپ تو کہہ رہے تھے سدرہ راضیہ کی طرف ہے پر یہاں تو لاک نہیں لگا ہوا؟؟
کیا پتہ سدرہ گھر آگئ ہو اُنہوں نے bell پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔۔سدرہ نے پہلے تو اگنور کیا کہ شاید فہد یہ پھوپھو میں سے کوئ ہو پر جب مسلسل bell ہوئ تب جا کر سدرہ نے دروازہ کھول دیا۔۔
کہاں مر گئ تھی کب سے دروازہ بجا رہے ہیں۔یقیناً ابھی تک سوئ پڑی ہوگی ذرا یہ نہ ہوا کہ نانی بیمار ہے کچھ دم درود ہی پڑھ لوں راضیہ کو تو موقع چاییے ہوتا تھا۔
کیسی ہیں نانو ااب کیسی طبیعت ہے اُنکی امی۔۔
ہممممم منہ دکھاوے کی پوچھ اپنے پاس رکھو۔ کیا مسئلہ ہے امی پوچھو تو مصیبت نہ پوچھو تو مصیبت حد ہے۔۔مریم کہاں ہے وہ کیوں نہیں آئ؟؟(سدرہ کہاں کسی کہ رُعب میں آتی تھی)
وہ نہیں آئیگی اب وہیں رہیگی۔۔ اُنہیں لگا کہ شاید مریم نے فون پر یہ پھر احمد نے بتا دیا ہوگا۔۔۔
اللہ نہ کرے وہ کیوں رہے گی ہاسپٹل میں امی۔۔
آۓ ہاۓ ہاسپٹل نہیں نانو کہ گھر
اور نانو کہ گھر وہ کیوں رہےگی بھلا؟؟؟
لڑکی شادی کہ بعد سسرال ہی جاتی ہے کیا بے تکے سوال کررہی ہو آگے تھکی ہوئ ہوں اور تم مزید تھکا رہی ہو اپنے جیسے سوال کر کے۔
شادی کس کی شادی امی؟؟؟
مریم کی اور کس کی احمد نے کچھ نہیں بتایا کیا؟؟؟
تبھی احمد کی حالت سدرہ کی آنکھوں کہ سامنے گھوم گئ۔
*************
پوری رات تھکاوٹ اور رونے کی وجہ سے مریم کی آنکھ بہت دیر سے کُھلی تھی آنکھ کھلنے پر خود کو اجنبی جگہ پر پایا تبھی وہ آنکھیں پھاڑے کمرے کو گھورنے لگی تھی کہ کل کا پورا دن کسی سین کی طرح آنکھوں کہ سامنے سے گُزرا۔اور وہ سر پکڑے اُٹھ بیٹھی۔۔ تبھی دروازہ کھولے اندر آتی اپنی ممانی کو پر نظر گئ۔۔۔ (ممانی کہ ساتھ کوئ خاص گہرا تعلق نہیں رہا تھا اُنھیں ہمیشہ ہر چھوٹی سی بات پر نانو اور اپنی ماں سے جھڑکیں کھاتے ہی دیکھا تھا)۔۔
اُنھیں دیکھتے وہ مزید خود میں سمٹتی چلی گئ۔۔
کیسی ہو مریم ؟؟
جی ٹھیک۔۔
تم یہاں کیوں ہو عادل کہ کمرے میں کیوں نہیں گئ بیٹا۔۔
وہ ممانی وہ مجھے اس ہی کمرے میں لاۓ تھے۔۔تبھی انکی نظر اُسکے پیر پر پڑی یہ کیا ہوا دکھاو مجھے۔۔ وہ میرا پاؤں مڑ گیا تھا اوہو رُکو میں آئیوڈیکس لاتی ہوں یہ کہتے ہی وہ اُٹھ کر چلی گئیں۔
مریم کو ہمیشہ سے لگتا تھا کہ ممانی اُنہیں اُنکی ماں کی وجہ سے ضرور ناپسند کرتی ہونگی۔ پر یہ سب ایک خام خیالی تھی۔
***********
آپ لوگ مریم کی شادی کیسے کر سکتے ہیں امی (مریم نے حیرت سے کہا۔۔)
رضوانہ کو تو پہلے حیرت ہوئ کہ مریم اور احمد میں سے کسی نے کیوں نہیں بتایا۔۔
ہم ماں باپ ہیں ہم کر سکتے ہیں تم ہوتی کون ہو پوچھنے والی۔۔ہم نے اپنا فرض پورا کیا ہے بیٹی بیاہی ہے۔ اور یہ آئیں ہیں سوال کرنے والی ہممممم
آج تک کونسے ماں ہونے کہ فرض نبھاۓ ہیں آپ نے؟؟
اے لڑکی تمیز سے۔۔رضوانہ نے چلا کر کہا ۔۔
کہنے دیں امی آج مجھے سب کہہ لینے دیں۔۔
آج تک کبھی پیار کرنا تو دور پیار سے بات تک کرنے کی زحمت نہیں کی آپ نے آج تک نہیں پوچھا کہ ہم کیا کرتے ہیں کیا چاہتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں۔۔
(مریم سانس لینے کو رُکی۔)
آج تک آپ کو اپنی ماں بھائ اور بھتیجے سے فرصت ملتی تو آپ کو ہمارا خیال آتا نہ۔۔
بیٹی کی زندگی تباہ کر کے آپ کہتی ہیں کہ ماں کا فرض ہے۔
سدرہ منہ بند کرو اپنا بہت ہوا۔۔
امی کیا آپکو کبھی آپی کو دیکھ کر یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ احمد بھائ کو کتنا پسند کرتی ہیں ۰آپ ماں ہو کر کیسے اپنی بیٹی کی خوشی اُجاڑ سکتی ہیں امی؟؟
سدرہ اب روتے روتے زمین پر بیٹھ چُکی تھی۔لگاتار رونے اور چلانے سے گلا بیٹھنے لگا تھا ۔کیا کردیا آپ نے امی آخر کیوں اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کردیا؟؟ کیوں امی کیوں؟؟
رضوانہ حیرت سے سدرہ کو تکتی رہیں وہ اپنی ہی بیٹی سے اپنے متعلق اس کے خیالات جان کر حیران تھیں ۔۔
( کوئ نہیں جان پایا تھا آج تک کہ ہر وقت ہنستی بولتی رہنے والی سدرہ کہ اندر کیا تھا۔)
************
ریحانہ ہلکے ہلکے اب مریم کہ پیر کا مساج کر رہی تھیں۔ کچھ فرق پڑا بیٹا ؟؟
جی ممانی اب بہتر ہے ۔۔
تبھی اُنکی نظر اُسکے کپڑوں پر گئ۔
تمھاری تو قمیض بھی پیچھے سے پھٹی ہوئ ہے اب وہ اُنھیں کیا بتاتی کہ یہ سب کُتے کا کارنامہ ہے۔وہ ممانی جب میں گری تھی تو یہ کہیں اٹک کر پھٹ ہوگی شاید۔۔
جھوٹ بولنا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا تھا مریم کہ لئیے ۔۔
اوہ اچھا تم فکر مت کرو تمھارے بابا نے عادل کو بلوایا ہے تمھارا سامان لینے کہ لئیے وہ گیا ہے کچھ دیر پہلے ۔جب تمھاری ضرورت کی چیزیں آ جائیں تو چینج کر لینا میں ناشتہ لاتی ہوں تمھارا۔۔
ریحانہ چاہ کر بھی اپنی نند کہ رویہ کا بدلہ مریم سے نہیں لے سکتی تھیں اُنکی نیچر ہی ایسی تھی۔ کسی کو تکلیف دینا تو کبھی اُنہیں آیا ہی نہیں تھا۔۔تبھی اس گھر میں اتنے سالوں سے گُزارا کر رہی تھیں۔۔
************
سدرہ ۔۔۔۔
سدرہ۔۔۔
مریم کی ضرورت کا سامان باندھ دو کچھ جوڑے اور جو بھی تمھیں ضروری لگے وہ سب کہتے ہوۓ روتی ہوئ سدرہ کو اگنور کر کہ گزر جانا چاہتے تھے۔۔تبھی سدرہ نے اُنھیں پُکارا۔۔
بابا یہ کیا کردیا آپ نے۔۔
وہ جس بات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔اب وہی سوال اُنکے سامنے کھڑا تھا۔۔
بس بیٹا سمجھ لو یہی لکھا تھا قسمت میں سب چھوڑو جو کہا ہے وہ کرو شاباش فرید سدرہ کہ سر پر ہاتھ رکھتے باہر چلے گۓ۔۔
کچھ دیر بعد وہ پھر سے آۓ سدرہ کہ پاس مریم کا سامان لینے۔۔
سدرہ عادل آیا ہے۔۔
مجھے دے دو بیگ میں نیچے دے آوں۔۔
سدرہ نے سر پہ دوپٹہ اوڑھا اور بیگ گھسیٹتے باہر لے جانے لگی۔۔
میں لے جاونگی ۔۔میری بہن کو میری بہت ضرورت ہے اس وقت اور مجھے اُسکے پاس ہونا چاہیے۔۔تبھی سدرہ دروازہ کھولے باہر نکلتے چلی گئ۔
عادل گاڑی سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا سدرہ نے بیگ پکڑایا اور خود گاڑی میں بیٹھ گئ۔عادل نے حیرانگی سے دیکھا۔اور بیگ پیچھے رکھ کر سٹئیرنگ سنبھالا۔۔
کچھ دیر تک گاڑی میں خاموشی رہی پھر سدرہ نے ہی بات کا آغاز کیا۔۔
میں نےسُنا ہے کہ آپکو میری بہن کہ شوہر ہونے کا شرف بخشا جا چُکا ہے؟؟؟؟
جی بدقسمتی سے۔۔
واقعی میری بہن بہت بدقسمت ہے۔۔ (سدرہ نے بات اُلٹتے اُسی کہ منہ پر دے ماری تھی)
پر میں نے تو خود کو بدقسمت کہا ہے۔۔(عادل نے سدرہ کہ طنز کا دوبدو جواب دیا)
کہنے سے کیا ہوتا ہے۔؟؟
کیا مطلب ہے تمھارا۔۔
میرے خیال سے احمد بھائ اگر آپکی جگہ ہوتے تو میری بہن بہت خوش قسمت ہوتی۔۔
ہاہاہاہاہا اور احمد کیا ہوتا بدقسمت؟؟
آپی اُنکی محبت تھیں اور محبت جسے مل جاۓ وہ خوش قسمتی کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔۔سدرہ نے آبرو اُچکاتے ہوۓ کہا۔
لیکچر اچھا دے لیتی ہو۔۔عادل نی اس کی ہنسی اُڑاتے ہوۓ کہا۔۔
آپکی ڈھٹائ دیکھ کر حیرت نہیں ہوئ مجھے یہ تو آپکے خاندان کی سپیشیلٹی ہے۔۔۔
اب کی بار عادل ہنستا چلا گیا تھا۔۔
********************