بابا یہ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ عادل کا نام کیوں لے رہے ہیں؟؟؟مریم نے فرطِ حیرت سے پوچھا۔
تمھارا نکاح عادل سے ہو رہا ہے اس لئیے جلدی سے قبول کرو۔رضوانہ نے دوبارہ سے گھونگھٹ نکالتے ہوۓ کہا۔مریم نے وہیں اُنکا ہاتھ روک دیا۔
پر بابا۔۔
مریممممم اب کے رضوانہ نے اُسکا ہاتھ زور سے دباتے ہوۓ تنبیہی لہجے میں پُکارا۔
میرے ساتھ آو مریم۔ آپ سب تھوڑی دیر ویٹ کریں ہم ابھی آتے ہیں فرید صاحب مریم کو لئیے باہر نکل گۓ۔
عادل بھی غصے سے باہر نکل گیا اور اُس کے پیچھے پیچھےساجد علی بھی چل دئیے۔۔رضوانہ اور ریحانہ پیچھے اکیلی رہ گئیں۔
*************
تم کیوں باہر آگۓ چلو اندر چلو عادل۔
اندر رہ کر کیا کروں اُس لڑکی کو دیکھا آپ نے اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو اب تک خوشی سے پاگل ہو چکی ہوتی اور ایک یہ ہے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے عادل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مریم کا گلا ہی دبا دے۔ویسے بھی اُسے اپنی ذات پر بہت زعم تھا
بیٹا اس کے لئیے یہ سب قبول کرنا تھوڑا مشکل ہے کچھ تو عقل کا ثبوت دو ۔کیا عقل کا ثبوت دوں ہاں کیا میرے لئیے یہ سب بہت آسان ہے۔
میرے لئیے بھی اُسے قبول کرنا بہت مشکل ہے عادل نے لال بھبھوکا چہرہ لئیے کہا۔اگر آپ نے اماں کو طلاق دے دینے کی دھمکی نہ دی ہوتی تو میں یہاں کبھی نہ ہوتا اور اب تو دادو کی طبیعت بھی ٹھیک ہے پھر کیا مسئلہ ہے؟؟؟؟
تو تم کیا چاہتے ہو کہ اگر وہ ٹھیک ہو رہی ہیں تو انکار کر کے پھر سے اُنھیں بیمار کردوں تم بھی حد کرتے ہو۔چلو پیچھے آو میرے۔وہ پھر سےاندر کمرے کی طرف بڑھ گۓ۔
*************
بابا کیا ہے یہ سب ؟؟
ابھی شام ہی کو تو میری منگنی کی ہے آپ نے آپ کیا چاہتے ہیں انگوٹھی کسی کہ نام کی پہن کر اور نکاح میں کسی اور کے چلی جاوں۔
آہستہ بولو میری محبت کا ناجائز فائدہ مت اُٹھاو مریم۔۔
(مریم نے اب کے حیرت سے دیکھا کیا یہ وہی باپ تھا جو بن کہے ہر ضرورت پوری کر دیتا تھا؟؟)
پر بابا۔۔
بس اب چُپ ایک لفظ بھی اور مت کہنا جیسے وہ فیصلہ ہمارا تھا ویسے ہی یہ بھی ہمارا فیصلہ ہے اور یہ بھی تمھیں ماننا ہوگا۔۔ سمجھی۔
پر بابا احمد ؟؟
کیا احمد کو پتہ ہے وہ ہے کہاں اُسے پتہ ہے کیا یہ سب ؟؟ مریم نے بےچینی سے پوچھا
وہ ہمارے ایک بار سمجھانے پر ہی سب سمجھ گیا ہے بہت سمجھدار ہے وہ۔ فرید صاحب نے غصے سے کہا۔
کیا؟؟
(اب کہ مریم کی آواز کپکپا گئی) اس نے کچھ نہیں کہا مریم نے حیرت سے پوچھا؟؟
نہیں اور اب چلو اور چپ چاپ حامی بھرلو وہ اُسکا ہاتھ پکڑے تقریباً گھسیٹتے ہوۓ اندر لے جانے لگے۔۔
**** اُسکے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں۔۔مطمئین ہے وہ ایسا کہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں۔۔او میرے صنم تمہیں ہے قسم۔۔ نہ توڑ میرا تو آج بھرم**
***********
کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے پھر سے مولوی صاحب نے اپنے الفاظ دُہراۓ۔۔
ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔
بولو مریم اب کہ فرید صاحب کی آواز گونجی۔
جی قبول ہے۔۔
آپکو قبول ہے۔۔
جی
قبول ہے جی قبول ہے
ہر بار کہ اقرار پر حیسے اُسکا دل کرلایا تھا یہ صرف وہ ہی جانتی تھی اُسکے اپنے دل کا دکھ ہی اتنا تھا کہ اُدھر اور کیا ہوا کیسے ہوا اُسے کچھ سُنائ ہی نہیں دیا احمد نے مجھے اتنی آسانی سے چھوڑ دیا میں اُس کے لئیے اتنی بے مول تھی کس کس بات کا غم کروں کس کس بات پر رووں احمد کی بے وفائ پہ اپنی قسمت پر یہ اپنے والدین کی بے اعتنائ پر ۔۔اس کے اندر بیک وقت اتنا کچھ چل رہا تھا کہ ساتھ بیٹھی رضوانہ کی آواز سُنائ ہی نہیں دے رہی تھی۔
مریم۔۔ جی جی امی مریم نے آنسو صاف کر کے گھونگھٹ سِرکایا۔ایسا کرو مریم تم عادل کہ ساتھ چلی جاو۔میں اور تمھاری ممانی ہیں یہاں۔۔
عادل گھر لے جاو تم اسے یہیں سے ہورہی ہے رُخصتی ولیمہ اماں جی کہ ٹھیک ہونے پر کرلیں گے۔
مریم صرف اپنی ماں کو تکتی ہی رہ گئ (پتہ نہیں اتنی جلدی اُنہیں کیوں تھی)
**************
فرید صاحب نے رضوانہ کو بازو سے کھینچتے ہوۓ ایک سائیڈ پر کیا۔
تم چاہتی کیا ہو ہاں؟؟
اتنی جلدی اور ایسے کوئ کرتا ہے رُخصتی کیا آخر مسئلہ کیا ہے تمھارا؟؟ لوگ کیا کہیں گے یہ سوچا ہے تم نے؟؟اب کہ اُنہوں نے نہایت غصہ سے دانت کچکچاتے ہوۓ کہا۔۔
میں ماں ہوں میں سب سمجھتی ہوں۔۔۔وہ اپنے ہی زعم میں تھیں
جو کچھ تم سمجھ رہی ہو کیا مجھے سمجھانا پسند کرو گی؟؟اُنکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُنکے سر پر کچھ دے ماریں۔پتہ نہیں کس مٹی کی بنی تھیں بیٹی کا دل اُجاڑ کر بھی سکون نہیں آیا تھا۔
آپ کیا چاہتے ہیں اسے گھر بھیج دوں ؟؟
(اُنہوں نے مریم کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
جو ایسے سر جھکاۓ کھڑی تھی جیسے سزاۓ موت کی سزا سننے کہ بعد کوئ قیدی گُم سُم کھڑا ہو مریم کو دیکھ کر اُنکا دل ڈوب سا گیا تھا پر اب اس سب کا کوئ فائدہ نہیں تھا۔)
تاکہ روز اپنی آنکھوں کے سامنے اُس احمد کو دیکھتی رہے اور کبھی آگے نہ بڑھ سکے آج نہیں تو کل رخصتی تو ہونی ہی ہے تو ابھی کیوں نہیں جتنا جلدی اس سب کو قبول کر لے سب کہ لئیے یہی بہتر ہے۔اپنی سُنا کر وہ وہاں سے ہٹ گئیں ۔۔
کسی کی سُنتی تو وہ ایسے بھی نہیں تھیں۔
***********