کیا یار ابھی تو میں صحیح سے اپنی بہن کی منگنی انجواۓ بھی نہیں کر پائ تھی کہ نانو نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔۔۔سدرہ کو اپنے ڈانس نہ کر پانے کا بہت دکھ تھا۔۔
اہممممممم۔۔۔ ایسے نہیں کہتے۔
ہاں آپ تو بس منگنی ہو جانے پر ہی خوش ہیں۔سدرہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا
میں بہت خوش ہوں بہت خوش مریم نے گول چکر میں گھومتے ہوۓ سدرہ کو بتایا۔۔میں نے آج تک جس چیز کی سب سے زیادہ خواہش کی تھی وہ اللہ نے بےحد آسانی سے مجھے سونپ دی۔۔
مریم نے آنکھیں بند کئیے جذب سے کہا۔
سدرہ نے زندگی میں پہلی بار اپنی آپی کو اتنا خوش دیکھا تھا۔۔دل ہی دل میں اُسکی خوشیاں قائم رہنے کی دعا بھی مانگ ڈالی(پر ہر دعا قبولیت کا درجہ نہیں پاتی)
پتہ نہیں نانو کی طبیعت کیسی ہوگی(ان دونوں بہنوں کی اپنے ننھیال سے کوئ دلی وابستگی نہیں تھی کیونکہ وہاں کبھی بھی کسی نے اُنہیں کوئ اہمیت نہیں دی تھی جب ماں ہی اہمیت نہ دے تو باقی کہاں پرواہ کرتے ہیں)ویسے آپی اگر نانو کو یہ دورہ آپکی منگنی سے پہلے پڑتا تو میں یقین سے کہہ سکتی تھی کہ یہ ایک ڈرامہ ہے چپ کرو بدتمیز مریم نے ہنسی دباتے ہوۓ کہا۔
بابا کو فون کرکے پوچھو تو سہی۔ اب کہ مریم نے فکرمندی سے کہا۔۔
کیا تھا یار اُٹھایا ہی نہیں بابا نے
ٹنگ ٹونگ۔۔۔۔
ٹنگ ٹونگ۔۔
یہ کون آگیا بابا تو نہیں آگۓ؟؟سدرہ نے اندازہ لگاتے ہوۓ کہا۔
باتیں بعد میں بنانا جاو پہلے دروازہ کھولو۔ مریم نے آرام سے بستر پر پھیلتے ہوۓ کہا۔۔
سدرہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی احمد کو کھڑے دیکھ کر اُسکی حِس مزاح پھڑک گئ۔
آئیے آئیے دولہا بھائ۔۔
اب کہاں اپنے گھر میں آپکو آرام آئیگا۔۔
تمھیں میرا آنا برا لگا کیا؟؟
نہیں نہیں
آپ تو داماد ہیں جب چاہے آئیں۔
احمد نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوۓ مریم کا پوچھا۔اتنی جلدی یاد آگئ آپی کی؟؟
نہیں یار وہ ماموں نے مریم کو ہاسپٹل بلایا ہے۔ ہیں؟؟
آپ وہاں تھے مجھے لگا آپ گھر آگۓ ہونگے اور اتنی رات کو کیوں بُلایا ہے بابا نے؟؟
یار بس کر دو سوال ہی ختم نہیں ہوتے تمھارے اچھا اچھا غصہ تو نہ ہوں
آپی آپی
کیا ہوا سددددد
احمد کو دیکھتے ہی مریم کو بریک لگا۔
آپ اس وقت !!خیر تو ہے ہاں خیر ہے ماموں نے کہا کہ آپکو ہاسپٹل لے آوں۔
ہیں مجھے سب ٹھیک ہے نانو تو ٹھیک ہیں نہ؟؟؟
جی جی بس چلیں آپ ویسے بھی کافی رات ہو چکی ہے۔
ہاں میں بس چادر لے آوں
ہاۓ نانو کو کچھ ہو ہی نا گیا ہو مریم کو وہم ستانے لگے۔
**************
مریم اور احمد ہاسپٹل کے کوریڈور سے ہوتے ہوۓ آئ سی یو کے باہر پُہنچے جہاں سب کھڑے تھے عادل کو دیکھتے ہی مریم کو بہت عجیب لگا۔ جو ایسے گھور رہا تھا جیسے کچا ہی چبا جائیگا۔۔اسکے انداز دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مریم کو گھبراہٹ ہوئ تھی۔
مولوی صاحب کو بُلا لاۓ ہو نہ ساجد ہاں ویٹنگ روم میں ہیں وہ اور ڈاکٹرز سے اجازت لے لی ہے نا آئ سی یو میں نکاح کی؟؟
نکاح کس کا نکاح ہے بابا مریم نے اپنے ہولتے ہوۓ دل کو سنبھالتے ہوۓ پوچھا
ہاں لے لی ہے بس کھڑے کھڑے قبول ہی کروانا ہے باقی نکاح نامہ تو فِل ہو ہی چُکا ہے۔
بابا کس کا نکاح ہے مریم نے پھر سے پوچھا پر اب کے رضوانہ بیگم اس کا ہاتھ پکڑے اندر ممتاز بیگم کہ پاس لے گئیں ۔
پر یہاں ایک اور شخص بھی تھا جو شش وپنج کے عالم میں کھڑا تھا اور وہ تھا احمد شاید وہ چاہتی ہوں کہ میرا اور مریم کا نکاح انکے سامنے کر دیا جاۓ
احمد نے دل کو بہلانے کی ناکام کوشش کی پراس دل کا کیا کرتا جو نارمل سپیڈ میں دھڑکنا ہی بھول گیا تھا۔
ہماری طرف سے احمد اور میں گواہ ہو جائینگے ۔اور آپکی طرف سے دوسرا گواہ کون ہوگا ساجد بھائ؟؟
کس کا نکاح ہے ماموں یہ کیا سسپنس ہے کس کا گواہ بنا رہے ہیں آپ مجھے اب احمد کی بس ہوئ تھی ۔
ماں جی کے کہنے پر یہاں عادل اور مریم کا نکاح ہے اور مجھے امید ہے جیسے ہم سب نے انکی خواہش کا احترام کیا ہے میں تم سے بھی یہی امید کرتا ہوں احمد ۔
فرید صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا احمد نے عادل کو دیکھا جو اپنے موبائل میں ایسے گُم تھا جیسے اس سے ضروری کوئ کام ہی نہ ہو۔
پر ماموں وہ میری منگیتر ہے۔۔احمد نے احتججاجاً کہا۔
منگیتر ہی ہے منکوحہ نہیں اور منگیتر پر حق نہیں جتایا جاتا ہم ماں باپ ہیں اور وہ بیٹی ہے میری ہمارا حق ہے اُس پر چلیں اندر آپ سب۔
گواہان کہ لئیے میں نے وارڈ بوائز سے بات کر لی ہے یہ کہتے ہی رضوانہ بیگم سب کو لئیے اندر چل دیں۔
احمد سب کا منہ دیکھتے پیچھے ہی رہ گیا۔
۔ ***********
مریم کو ابھی تک کسی نے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔
مریم نے سر اُٹھاۓ ادھر اُدھر احمد کو ڈھونڈنا چاہا۔پر تبھی رضوانہ نے مریم کے ڈوپٹےکو گھونگھٹ کہ انداز میں آگے کو کھینچ دیا۔
شروع کریں مولوی صاحب
مریم فرید ولد ملک فرید کیا آپکو عادل علی ولد ساجد علی سے اپنا نکاح بعوض ایک لاکھ روپے سکہ رائج الوقت نکاح قبول ہے ؟؟
کیاااااا یہ کہتے ہی مریم نے اپنا گھونگھٹ اُلٹ کر فرید صاحب کی طرف پھٹی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔۔
ریحانہ اور فہد سدرہ کے پاس اُنکے فلیٹ پر آچُکے تھے۔ کیونکہ سدرہ گھر پر اکیلی تھی۔۔ فہد لاونج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا۔جبکہ سدرہ ریحانہ کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔
پھوپھو آپکو کیا لگتا ہے بابا نے آپی کو کیوں بلوایا ہوگا؟اور صرف آپی کو ہی کیوں مجھے کیوں نہیں؟
کیا پتا تمھاری نانو کے پاس رُکنا ہو تمھاری ممانی اور ماں تو اب اتنی جوان ہیں نہیں کے بھاگ بھاگ کے اُنکی خدمت کر سکیں تبھی بُلایا ہوگا مریم کو۔
پر مریم کو ہی کیوں اُسکی منگنی ہوئ ہے آج اتنا سپیشل دن تھا اُس کہ لئیے مجھے بُلوا لیتے۔ سدرہ کو افسوس ہوا۔
بیٹا وہ بڑی ہے معاملات کو صحیح سے سمجھ سکتی ہے شاید تبھی۔راضیہ نے پُرسوچ انداز میں کہا
میں بھی سمجھدار ہوں پھوپھو سدرہ کو اب بُرا لگ چُکا تھا۔تبھی منہ پھولاتے ہوۓ کہا۔
اوہ مس سمجھدار مہمانوں + بہن کے سسرالیوں کی کوئ خدمت ودمت کرو چلو اُٹھو شاباش۔
ہااااااا ابھی سے سسرالی بن رہے ہو آگے پتا نہیں کیا ظلم ڈھاو گے میری بیچاری مظلوم بہن پہ اور ہم پہ ۔سدرہ نے دل پہ ہاتھ رکھے آنکھیں بڑی کرتے ہوۓ کہا۔۔
ہاہاہاہاہا ڈرامہ کوئین کوئ ڈائیلاگ اگر رہ گیا ہو تو وہ بھی بول دو کام والی بات گول کر گئ ہو تاکہ ہلنا نہ پڑے
(سدرہ فہد کو ایسے گھور رہی تھی جیسے ابھی کچا ہی کھا جاۓ گی )کیا تمھیں کسی نے بتایا ہے کے بیٹھے بیٹھے تم کتنی موٹی ہوتی جا رہی ہو اب کہ فہد نے مزید چِڑاتے ہوۓ کہا
فہدددد کے بچےےےےےے۔۔۔سدرہ کہ صبر کا پیمانہ اتنا ہی تھا تبھی چلاتے ہوۓ فہد پر جھپٹنے ہی والی تھی کہ پھوپھو فہد کا کان پکڑے اُسے باہر لے گئیںں آو میں کروں تمھاری خدمت۔۔ شیطان کہیں کے
*************