سدرہ اور مریم اپنے اپنے سکول کالج جا چُکی تھیں۔فرید صاحب اور رضوانہ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کہ تبھی فرید نے گلا کھنکھارتے ہوۓ رضوانہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوۓ گویا ہوۓ۔۔
راضیہ نے کل مجھ سے بات کرنے کہ لئیے بلوایا تھا۔اچھا کیابات کرنی تھی۔ فرید صاحب اتنا آرام سے پوچھنے پر کافی حیران ہوۓ تھے۔پر پھر بھی اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ بولے۔
وہ۔۔
وہ۔۔۔اصل میں
ہاں جی بول بھی چکیں اب ۔اُنہوں نے اب کہ بے زاری سے کہا تھا۔۔
وہ ہماری مریم کا رشتہ چاہتی ہیں احمد کے لئیے۔۔
رضوانہ نے چونکتے ہوۓ دیکھا دوسری طرف فرید خود کو اُس سب کہ لئیے تیار کرنے لگے جو وہ ابھی سننے والے تھے۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے آپ ان سے کہیں کےشام کو آجائیں منگنی کی رسم کے لئیے چاۓ پیتے ہوۓ اُنہوں نے نہایت آرام سے کہا جب کے دوسری طرف فرید صاحب بےہوش ہونے کہ قریب تھے۔۔
کیااااااا کیا کہا ہے تم نے ابھی۔۔
اگر رشتہ چاہیے تو آج شام ہی کو ہوگی منگنی ورنہ نہیں ہوگی۔۔۔ باقی جیسے آپکی مرضی۔۔۔یہ کہتے ہی وہ برتن اُٹھاۓ کچن کی طرف چل دئیں۔ جبکہ فرید صاحب کچھ دیر ششدر بیٹھے رہنے کہ بعد راضیہ کو خوشخبری دینے چلے گۓ۔۔
*************
راجا کی آئیگی بارات۔۔۔۔
چُپ بھی کر جاو کان کھا گئ ہو کب سے۔۔۔
جب سے سدرہ اور مریم کو پتہ چلا تھا تب سے مریم شرمانے کا اور سدرہ اُسے ستانے کہ کام میں لگی ہوئ تھی۔۔۔
ہاۓ آپی کتنی لکی ہیں آپ جسے آج تک چاہا اُسے ہی پانے والی ہیں واااااوووو نا۔
سدرہ مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا یہ کیسے ہو گیا امی اتنے آرام سے کیسے مان گئیں؟؟؟کہیں یہ خواب تو نہیں مریم نے آنکھیں بند کرتے ہوۓ کہا۔۔
آآآآآآآ۔۔۔بدتمیز ایسے بھی کوئ نوچتا ہے کیا مریم نے اپنی بازو ملتے ہوۓ کہا۔۔
آپ کو یقین دلا رہی تھی اور کیا۔۔۔
اتنی زور سے مارنے کی کیا ضرورت تھی بھلا ۔۔۔
کیا کر رہی ہو لڑکیو ؟؟؟
کچھ نہیں ہم نے کیا کرنا ہے رضوانہ کے پوچھنے پر سدرہ نے جواب دیا۔۔
یہ جوڑا دے گئ ہیں تمھاری پھوپھو تیار ہو جاو جلدی سے۔۔۔
رضوانہ جوڑا دیکر باہر چلی گئیں۔۔
اب آپ کیا سوچ رہی ہیں آپی؟؟؟؟
کچھ نہیں یار اپنی دوست کی امی یاد آگئیں وہ کیوں یاد آگئیں بھلا؟؟؟
لاسٹ ٹائم جب میں اُسکی منگنی میں گئ تھی تب بار بار اُسکی امی اُسے روتے ہوۓ خود سے لپٹا لیتی تھیں اور ایک ہماری امی ہیں مجال ہے جو کبھی پیار سے بُلایا بھی ہو
چھوڑیں یار اداس مت ہوں ۔
ہر کسی کہ پیار جتانے کا طریقہ الگ ہوتا ہے چلیں اٹھیں اب۔۔۔
***********
رضوانہ کے میکے والے آچکے تھے سواۓ عادل کہ۔۔۔
یہ کیا کیا رضوانہ اتنی جلدی بھی کیا تھی میں منا لیتی عادل کو۔۔۔ممتاز بیگم نے رازداری سے کہا۔۔۔
میری مریم کوئ گری پڑی نہیں ہے کے آپ لوگوں کی منتیں کرتی پھریں دیکھ لیں احمد بھی کم تو نہیں ہے کسی سے ہر لحاظ سے اچھا ہے انہوں نے ریحانہ کو گھورتے ہوۓ کہا۔فرید صاحب کو رضوانہ کی جلدی اب سمجھ آئ تھی۔ پر چلو جو بھی جیسے بھی ہوا مریم کہ لئیے اچھا ہی ہوگیا۔
دوسری طرف دروازے میں کھڑی مریم جو ان سے ملنے جا رہی تھی اپنی ماں کی رضامندی کی وجہ جان گئ تھی۔
اسے عادل بےشک کبھی پسند نہیں تھا پر اپنا ٹھکراۓ جانا تکلیف دے گیا تھا۔۔
**************
شام میں صرف راضیہ اور انکی فیملی آئ نہایت سادگی سے مریم کو انگوٹھی پہنا دی گئ ۔۔احمد اور مریم کی خوشی انکے چہروں سے ہی عیاں تھی
تھوڑی دیر میں سب کھانے کہ لئے اٹھے ۔۔
ممتاز بیگم ابھی جگہ سے اُٹھنے ہی لگی تھیں کہ دل پر ہاتھ رکھے بیٹھتی چلی گئیں۔۔۔
*************
سب اُنہیں لے کر ہسپتال پہنچے عادل بھی آ چکا تھا۔۔۔کچھ ہی دیر میں سب پلٹ گیا تھا جن چہروں پر کچھ دیر قبل خوشی تھی وہاں اب فکرمندی جھلک رہی تھی۔ممتاز بیگم کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر باہر آئیں اور اُنکی کنڈیشن بتانے لگیں ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مریضہ کسی فرید کا نام لے رہی ہیں جن سے وہ ملنا چاہتی ہیں یہ بات سب کہ لئیے حیران کن تھی سب فرید صاحب کو اندر بڑھتے ہوۓ دیکھنے لگے۔۔۔۔۔۔
***********
فرید صاحب جب اندر پہنچے تب اُنہوں نے اپنی ساس کو مشینوں میں جکڑا پایا۔۔اُنہوں نے قریب جا کر اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔تب ممتاز بے اُنہیں آنکھیں کھول کر دیکھ۔فرید۔۔
جی ماں جی۔۔
اگر میں کچھ تم سے مانگوں تو کیا تم وہ مجھے دو گے؟؟
میرے بس میں ہوا تو ضرور ماں جی۔
اپنی مریم میرے عادل کو ے دو۔میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں فرید۔۔۔۔ مجھ مرتی ہوئ عورت کی بات کا بھرم رکھ لو۔۔۔۔ کچھ نہیں تو اس بات کا ہی خیال کر لو کے میں تمھاری ماں کی عمر کی ہوں۔۔۔۔۔۔ ناہید بیگم نے ہمت نا ہارتے ہوۓ یہ سب کچھ بول تو دیا پر اگلے کو کس مشکل میں ڈال دیا ہے وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔۔وہ شروع سے ہی ایک ایسی عورت تھیں جن کی ہمیشہ ہر بات مانی گئ تھی اور صرف ایک بات جو وہ منوانے سے رہ گئ تھیں وہ وہ جاتے جاتے منوا لینا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
فرید صاحب تو اس قدر شش و پنج کے عالم میں تھے کے ان سے تو ان کے پیروں پر کھڑا ہونا ہی محال تھا۔۔
آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ماں جی یہ سب بھلا کیسے ممکن ہے مریم کی منگنی میری بہن کے بیٹے سے کچھ ہی دیر ْ پہلے ہو چکی ہے وہ بھی تب جب آپ ہی کے پوتے نے انکار کیا تھا۔۔(فرید صاحب پل بھر کو رکے انکے لیئے یہ سب اتنا غیر معمولی تھا کے وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کے انہیں کیسے سب سمجھائیں انہوں نے پھر سے کہنا شروع کیا) میں آپکی بہت عزت کرتا ہوں ہمیشہ آپکو اپنی ساس نہیں بلکہ ماں کا درجہ دیا ہے پر مجھے معاف کر دیں میں اپنی بیٹی کی زندگی آپ کے فیصلے پر قربان نہیں کر سکتا۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ ناہید بیگم کی طرف دیکھے بنا دروازے کی طرف بڑھ گۓ۔۔۔ فرید آئ۔سی۔یو۔ سے جیسے ہی باہر آۓ۔۔انہوں نے سب کو اپنا منتظر پایا وہاں کھڑا ہر شخص یہ جاننے کو بےتاب تھا کے اندر کیا بات ہوئ۔۔۔۔۔۔
رضواناُنکی جانب لپکیں کیا ہوا کیا کہا امی نے۔اُنہوں نے ایک نظر سامنے کھڑے احمد کو دیکھا۔
احمد ۔۔جی ماموں یہ دوائیں لے آو۔۔۔
احمد دواوں کا پرچہ لئیے باہر چل دیا۔۔
احمد کو منظر سے ہٹانے کہ بعد انہوں نے اندر جو کچھ کہا اور سنا وہ سب من و عن دہرا دیا۔۔۔ باہر کھڑے ہر شخص کو تو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا تھا۔۔۔ سب سے پہلے رضوانہ (فرید صاحب کی بیوی) ہی ہمت کر کے بولیں آپ کیسے میری مرتی ہوئ ماں کو انکار کر سکتے ہیں۔۔۔۔ارے مرتے ہوۓ تو مجرم کی بھی آخری خواہش کا خیال کیا جاتا ہے وہ تو پھر میری ماں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد جیسے ہی دوائیں لیکر آیا فرید صاحب نے اُسے گھر جا کر مریم کو یہاں لے آنے کہ لئیے بھیج دیا (یہ صرف وہ ہی جانتے تھے کہ رضوانہ نے کیا کہہ کر اُنہیں منایا ہے)وہ یہ سوچتے ہوۓ چلا گیا کہ شاید بیمار نانی اپنی نواسی سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔
**************