تمھیں کیا لگتا ہے احمد بابا مان گۓ ہونگے؟؟؟
احمد اور مریم چاۓ کہ کپ اُٹھاۓ بالکنی میں کھڑے تھے۔
ماموں تو مان ہی گۓ ہونگے پر ممانی جان کو کون منائیگا۔۔
احمد مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا کے اب کیا ہوگا پتہ نہیں کیا بنے گا ہمارا؟؟؟
تم خود کو ہلکان مت کرو ۔
اللہ پہ چھوڑ دو سب وہ وہی کریگا جو ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔۔احمد نے مریم کو خاطر خواہ تسلی دی۔۔
اور اگر اللہ نے ہی ہمارا ساتھ نہ لکھا ہوا ہو پھر تم کیا کروگے احمد ۔
اب کہ احمد نے مریم کو گھور کر دیکھا جو بلکل سامنے ہی بےبی پنک کلر کا لان کا سوٹ وائٹ پاجامے کے ساتھ پہنے کھڑی تھی لئیر کٹنگ میں کٹے نئے نئے کلر کرواۓ بال کیچر میں مقید تھے ۔اُسکی کانچ جیسی براون آنکھیں تجسس لئیے اُسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
جواب تو دے دو۔مریم نے ہاتھ ہلاتے ہوۓ پوچھا۔۔
اب کے احمد نے اپنا دل کھولنے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔۔
میں بالکل نہیں جانتا کہ مجھے کب سے تم سے محبت ہے۔ شاید تب سے جب میں صرف چار کا سال کا تھا اور تم دنیا میں آئی تھی۔
(یہ شاید پہلی بار تھا کہ احمد نے یوں اپنے دل کی بات کہی تھی۔مریم بالکل پلکیں جھپکے اُسکے سامنے کھڑی تھی اُسے ڈر تھا کہ کہیں پلک جھپکنے سے یہ حسین خواب ٹوٹ نہ جاۓ)
مجھے تو یاد بھی نہیں ہے اب کے میں نے کتنی بار خُدا سے تمھیں اپنی دعاوں میں مانگا ہے۔احمد نے جذب سے کہا۔
اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ مجھے میری محبت سے ضرور ملوائیگا--
مریم کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔مریم نے جیسے ہی اپنے آنسو چھپانے کو نیچے دیکھا وہاں کمپاونڈ میں ایک گاڑی روکتی دکھی۔
اوہ یہ تو ماموں کی گاڑی ہے پر رات کہ گیارہ بجے اللہ خیر کرے احمد بھی کمپاونڈ میں دیکھنے لگا تھا تبھی رضوانہ گاڑی سے اُتر کہ اندر کی طرف بڑھنے لگیں۔
یہ امی اس وقت کیسے؟؟ مریم کے تو چھکے ہی چھوٹ گۓ تھے--
سدرہ
سدرہ
مریم نے اندر بڑھتے ہی آواز دی کیا ہے یار آگے ہی ہار رہی ہوں۔۔مریم نے لوڈو کھیلتے منہ بنا کر کہا۔
جلدی کرو سدرہ کی بچی امی آگئ ہیں ۔۔
ہیں کیا آپی ؟؟
آپ نے کسی اور کو دیکھا ہوگا امی اس وقت نہیں آسکتی
مریم نے ٹالنا چاہا ۔سدرہ جلدی اُٹھو وہ امی ہی ہیں اب کہ مریم نے سدرہ کو ہاتھ پکڑ کہ کھینچا اور دروازے کی جانب بڑھ گئ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر رضوانہ نے دیکھ لیا تو انکی خیر نہیں ہوگی۔
*************
رضوانہ گاڑی کا دروازہ کھول کہ غصے میں باہر نکلیں ساجد آوازیں ہی دیتے رہ گۓ پر اُنہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔
وہ اُنکے پیچھے جانا چاہتے تھے پر وہ اپنی بہن کو بھی اچھی طرح جانتے تھے اور اپنے بہنوئ کے سامنے بات بڑھ جانے کے ڈر سے وہ باہر سے ہی واپس چل دئیے۔۔
***********
رضوانہ نےجیسے ہی گھنٹی پہ ہاتھ رکھا ویسے ہی سدرہ اور مریم اپنے بستر میں گُھس گئیں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کے اس ٹائم دروازہ کھولیں اور رضوانہ کے درجن سوالوں کے جواب دیں۔۔
کچھ ہی دیر میں فرید صاحب نے دروازہ کھول دیا تھا۔
ہیں یہ تم اور اس وقت کیسے؟؟ فرید نے حیرت سے آنکھیں مَلتے پوچھا؟؟
کیوں میرا گھر ہے میری مرضی میں جب چاہے آوں۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا پر کوئ وقت ہوتا ہے کس کے ساتھ آئ ہو؟؟تم تو رہنے گئیں تھیں نا؟؟
ہاں گئ تھی رہنے پر اب آگئ ہوں واپس پر تمھیں میرا آنا اگر اتنا ہی بُرا لگ رہا ہے تو سیدھی طرح کہو واپس چلی جاتی ہوں
اور یہ کہتے ہی وہ اندر کمرے میں چلی
گئیں تھیں (کسی کے رُعب میں آنا تو کبھی اُنہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا)
کمال عورت ہے یہ بس وہ اتنا ہی کہہ سکے۔۔
۔ ***********
مریم۔۔۔۔
مریم۔۔۔۔
سدرہ نے کمبل میں سے سر نکالے ہلکے سے آواز دی
یہ ان دونوں کا مشترکہ کمرہ تھا جو بے حد نفاست سے سجا ہوا تھا۔دو سنگل بیڈ ایک رائٹنگ ٹیبل اور ایک کپڑوں والی الماری اور ڈریسنگ ٹیبل ان دونوں کی ملکیت تھی۔
کیا ہوامریم نے پوچھا۔۔
آپی مجھے لگتا ہے کہ نانو کے گھر کوئ بڑی بات ہوئ ہے۔
تبھی امی اس وقت واپس آئ ہیں اور اتنے غصے میں ہیں۔۔پر ایسی بھی کیا بات ہوئ ہوگی؟؟اور بھلا امی کو بھی کوئ کچھ کہہ سکتا ہے کیا؟؟ مریم نے سوالیہ نظروں سے سدرہ کو دیکھا۔
کہیں عادل بھائ نے کچھ نہ کہہ دیا ہو اُنکے علاوہ کسی میں کم ازکم امی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔
عادل کا نام سُنتے ہی مریم کا حلق تک کڑوا ہوا تھا پتہ نہیں کب تک عادل نام کی تلوار میرے سر پر لٹکتی رہے گی(مریم سوچ کر رہ گئ۔
**************
مریم اور عادل کی کبھی بھی آپس میں نہیں بنی تھی جہاں مریم اپنی ماں کو ہر وقت عادل کہ آگے پیچھے پھرتا دیکھ کر دل ہی دل میں کُڑھتی تھی وہیں۔۔
عادل ہر وقت اپنی ماں کو رضوانہ سے دبتے دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں بُغض پال چُکا تھا وہ رضوانہ کو تو کچھ نہیں کہہ پاتا تھا سو اپنا سارا غصہ مریم پر نکالتا تھا۔کبھی اُس کو مار کر یا کبھی اُسکی کوئ چیز چھین کر وہ اپنی بھڑاس نکال لیتا تھا دس سال کی عمر کہ بعد سے تو مریم نے اپنی نانو کے گھر جانا ہی کم کر دیا تھا پر اُسکے جانے یا ناجانے سے کسی کو کوئ فرق نہیں پڑا تھا ۔۔۔پر اس سے یہ ضرور ہوا تھا کہ وہ اور احمد قریب ہو گۓ تھے اچھے دوست بن گۓ تھے۔۔۔مریم اپنے خیالوں سے چونکی تو سدرہ بھی سو چکی تھی وہ خود بھی سونے کو کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
**************
ساجد صاحب گھر آ چکے تھے اور رات کے بارہ بجے ممتاز بیگم کی عدالت لگ چُکی تھی۔۔۔
ریحانہ۔۔۔۔۔
اے ریحانہ۔۔۔۔۔۔
ریحانہ کو اپنا وجود ٹھنڈا پڑتا ہوا محسوس ہوا پر اس طوفان کا سامنا کرنے کہ علاوہ اور کوئ چارہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔
کہاں چھپ کر بیٹھ گئ ہے ؟؟
ادھر آ کہ مر ذرا (ممتاز بیگم کا جاہ وجلال خوب زوروں پر تھا)۔۔
ریحانہ ہابپتی کانپتی اُڑی ہوئ رنگت کے ساتھ لاونج میں پہنچیں جہاں ممتاز بیگم بڑے کروفر سے اپنے تخت پر براجمان تھیں۔۔
اور ساجد علی سر جھکاۓ صوفے پر بیٹھے تھے۔
کچھ ہی دیر پہلے عادل باہر محلے میں اپنے کسی دوست کے بُلانے پر گیا تھا۔۔
ہاں تو بتا ذرا گھُنی میسنی کہیں کی شکل تو دیکھو کتنی معصوم ہے اور حرکتیں اللہ معاف کرے توبہ بھئ توبہ۔۔۔
( وہ ایک بار پھر سے شروع ہوئیں)۔
آج سے تیس سال پہلے تجھے بہو بنا کر تجھ پر میں نے احسان کیا تھا۔۔اپنا اتنا قابل بیٹا تیرے پلو سے باندھ دیا اور اسکا یہ صلہ دیا تو نے۔۔۔
پر ماں جی میں نے کیا کیا ہے۔۔منمناتے ہوۓ پوچھا گیا۔
یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے تیرے خاندان والوں کو تو کبھی یہاں پھٹکنے ہی نہیں دیا میں نے نہ ہی کبھی عادل کو وہاں جانے دیا تو یہ تیری بھانجی کہاں ٹکرا گئ اُسے؟؟؟
اس وقت اُنہیں اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا کہ کاش میں عادل سے نبتٰھل کہ لییے بات ہی نہ کرتی تو یہ نہ ہوتا(پر اُنہیں یہ نہیں پتا تھا کے وہ ہوتی یہ نا ہوتی عادل نے مریم کہ لئیے پھر بھی نہیں ماننا تھا۔۔)
اب بول بھی کیوں منہ میں دہی جما کہ کھڑی ہے؟؟؟
ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھیں کے عادل اندر داخل ہوا اس وقت کیوں عدالت لگی ہے سب خیر تو ہے۔۔
ریحانہ نے اب سُکھ کا سانس لیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں کے عادل اُنکی ڈھال ضرور بنےگا۔۔
تو ادھر آ ذرا اور بتا کہ یہ سارا چکر کیا ہے ہاں۔
کیسا چکر میں شادی کرنا چاہتا ہوں نبتھل سے۔
مریم سے کیوں نہیں آخر کیا کمی ہے اُس میں۔
میں نے کب کہا کہ اس میں کوئ کمی ہے۔تو پھر انکار کا مطلب اب کے ساجد علی بولے۔۔
زندگی میں نے گزارنی ہے اور مجھے ایز لائف پارٹنر مریم پسند نہیں ہے بس۔۔
کیا بس ہاں ؟؟ممتاز کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ دو ہاتھ جڑ ہی دیں۔۔
اگر اس گھر میں مریم نہ آئ تو کوئ اور بھی نہیں آئیگی یہ بات یاد رکھنا۔۔
ٹھیک ہے نہ آۓ یہ کہتے ہی عادل کندھے اُچکاتے اندر کو بڑھ گیا۔
ممتاز بیگم سر پکڑتے بیٹھ گئیں۔۔
************