احمد نے ابھی ابھی گھر میں قدم رکھا تھا۔
امی۔۔امی
یہ لیں مٹھائی اور کہاں ہے آپکا نالائق احمد نے مُسکراتے ہوۓ پوچھا- یہ دھیمی مسکراہٹ احمد کی شخصیت کا خاصہ تھی جو اُسے مزید پُرکشش بناتی تھی۔۔
احمد ایک اٹھائیس سالا خوبرو مرد ہے-جو ایک textile فرم میں کام کرتا ہے۔۔جبکہ اسکی نسبت فہد ایک لااُبالی لڑکا ہے۔۔راضیہ نے اپنے بچوں کو بہت مشکل حالات میں پالا ہے۔۔
فہد تو اپنے دوستوں کہ ساتھ ابھی باہر نکلا ہے- چلیں کوئ نہیں آ جاۓ گا تھوڑی دیر تک۔۔اور آپ بتائیں کیسی طبیعت ہے آپکی میں تو ٹھیک ہوں بیٹا مجھے کیا ہونا ہے -آج ممانی آئ تھیں تمھاری ۔۔۔
ہیں سب خیر تو ہے احمد نے چونکتے ہوۓ پوچھا۔۔مبارک دینے آئیں تھیں فہد کہ لئیے۔۔۔۔۔
ہیں ممانی اور مبارک حیرت ہے ۔۔۔
اس میں حیرت والی کیا بات ہے بھلا راضیہ نے چونکتے ہوۓ پوچھا"وہ رضوانہ کی حیرت اور رویہ سب کمال مہارت سے چھپا گئ تھیں۔ وہ بڑوں کے معاملات میں بچوں کو رگڑنے کی قائل نہیں تھیں اور ویسے بھی وہ مریم اور احمد کی ایک دوسرے کہ لئیے پسندیدگی سے واقف تھیں۔۔
**************
جلدی کرو سدرہ دیر ہو رہی ہے-
(سدرہ کالج اور مریم سکول جانے کہ لئیے تیار ہو رہی تھیں)
ہاں چلو آپی یہ کیا تم تیار نھیں ہوئ؟؟
آپی وہ امی نے آج نانو کہ گھرجانا ہے اس لئیے آج میں چھٹی کرونگی-آئیں آپکو نیچے تک چھوڑ دوں-
چھٹی ہے تو گھر میں رہو روز سکول تک بھی تو اکیلی جاتی ہوں کمپاونڈ تک بھی چلی جاونگی-(انکا فلیٹ 6 فلور پر تھا اور لفٹ عموماً خراب ہی رہتی تھی)
سدرہ نے جیسے دروازہ کھولا سامنے سے احمد کو آتے ہوۓ دیکھا۔
اسلام وعلیکم!احمد بھائ کیسے ہیں آپ؟؟ میں ٹھیک پر تم کالج کیوں نہیں جا رہی آج-احمد نے استفسار کیا۔۔۔
میرا تو آج سونے کا موڈ ہے اس لئیے چھٹی مارونگی آج -آپ جا ہی رہے ہیں تو آپی کو بھی چھوڑ دیںِ-سدرہ نے ساتھ کھڑی مریم کی طرف اشارہ کیا جو بالکل ایسے کھڑی تھی جیسے کسی کو جانتی ہی نہ ہو۔۔
ہاں کیوں نہیں چلو مریم احمد کے کہنے پر مریم نے احمد کی طرف دیکھا اوا سر جھکاتے ہوۓ اُسکے ساتھ چل دی جب کہ سدرہ نے واپسی کے لئیے قدم بڑھا دئیے۔۔
**************
عادل سوبھی جاؤ اب اور کتنا جاگو گے۔ یاد ہے نہ تمھاری پھوپھو نہ آنا ہے صبح ریحانہ بیگم نے عادل کو یاد دلاتے ہوۓ کہا۔۔۔
تو کونسا نئ بات ہے وہ ہفتے کے چار دن یہیں تو پائ جاتی ہیں عادل نے اُکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔۔چُپ کرو بدتمیز! کہیں تمھاری دادو نہ سُن لیں ریحانہ کو فوراً اپنی ساس کی طرف سے دھڑکا لگا- کیونکہ وہ کبھی بھی اپنی بیٹی کے متعلق کچھ نہیں سُنتی تھیں۔۔
ایک تو آپ پوری زندگی ڈرتی ہی رہیے گا- (عادل کو اپنی ماں سے بہت پیار تھا اور اُس نے ہمیشہ اپنی ماں کو ہر ایک سے ڈرتے ہی دیکھا تھا۔۔جس پر وہ ہمیشہ کُڑھتا ہی رہتا تھا -اور اپنے دل کو ان سب کہ رویوں کی وجہ سے نفرت سے بھر رکھا تھ پرکبھی بھی یہ بات آج تک کسی پر عیاں نہیں ہونے دی تھی--)
*********
فرید آپ سُن کیوں نہیں رہے۔۔۔۔
ہاۓ ہماری ایسی مجال کہ ہم آپکو نہ سُنیں فرید صاحب نہ مُسکراتے ہوۓ کہا۔۔۔اچھا تو یہ اخبار تو بند کریں پھر رضوانہ نے چڑتے ہوۓ کہا۔۔۔اچھا کر دیا بند بولو اب۔۔
وہ جانتے تھے کہ اب آدھا گھنٹہ تو کہیں نہیں گیا۔۔
وہ نہ آج میں ملیر جا رہی ہوں امی کی طرف۔۔۔تو یہ کونسا نئ بات ہے تم روز ہی جاتی ہو فرید صاحب نے طنزاً کہا۔۔
آۓ ہاۓ اب روز تو نہیں جاتی ایک ہی ایک ماں ہے میری ان سے بھی مسلہ ہے آپکو۔۔ جب تک ماں ہے میری تب تک ہی تو میکہ آباد ہے میرا-
اُنھوں نے مظلومیت سے کہا -
ماوں کے بعد پھر کہاں بھائ بھابھی پوچھتے ہیں بھلا
- اُنہوں نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوۓ کہا۔۔۔
اچھا اچھا اب رونا مت شروع کر دینا مجھے دیر ہو رہی ہے دوکان پر بھی جانا ہے۔۔(اُنکا اپنا جنرل سٹور تھا)
تو آپ سنیں بھی تو۔۔۔
اچھا نہ اب بول بھی چُکو۔۔
میں چاہ رہی تھی کہ اب کہ جاوں تو اماں سے کہوں کہ وہ مریم کہ رشتے کہ لئیے بھائ سے بات کریں تاکہ وہ آ کر رشتہ ڈالیں۔۔ تمھارا جو جی میں آۓ وہ کرو ویسے بھی تم کہاں سُنتی ہو کسی کی--
پر ایک بات میری بھی سُن لو کسی سے بھی بات کرنے سے پہلے اپنی بیٹی سے اُسکی مرضی ضرور پوچھ لینا--فرید صاحب نے تنبیہ لہجے میں کہا۔۔
اُسکی بھی وہی مرضی ہوگی جو میری ہوگی-رضوانہ نے گردن اکڑا کر کہا۔
شادی اُس نے کرنی ہے تم نے نہیں رضوانہ ۔
زندگی اُس کی ہے تو فیصلہ بھی وہی کریگی(فرید صاحب کافی ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے بلا وجہ بحث کرنا اُنکی شرست میں نہیں تھا)پر یہ اُنکی بیٹی کی زندگی کا معاملہ تھا یہاں اُنکا بحث کرنا ضروری تھا-
مائیں تو بیٹیوں کی سہیلیاں ہوتی ہیں اُنہیں سمجھتی ہیں تم کیسی ماں ہو کہ اپنی بیٹی کی آنکھوں میں دیکھ کر بھی انجان ہو کہ وہ کیا چاہتی ہے۔۔فرید نے اُنہیں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی پر اثر ہوتا دِکھ نہیں رہا تھا۔
جو اُسکی آنکھوں میں دِکھتا ہے نا وہ میں دیکھنا نہیں چاہتی فرید- میں کبھی بھی تمھارے اُس ٹٹ پونجیے بھانجے کو اپنا داماد نہیں بناونگی یہ بات یاد رکھیں آپ میری۔
پر مریم احمد کو پسند کرتی ہے یہ بھی تو دیکھو۔
اب کے وہ چِلائیں
کچھ نہیں دیکھنا میں نہ پوری زندگی آپ کی بہن میرے سینے پر ناچتی رہی ہے(اُنہوں نے سینے پہ دوہتڑ مارتے ہوۓ کہا)اب مزید نہیں سُنا آپ نے۔۔
وہ چیختے چلاتے اپنی چادر لیتی گھر سے نکلتی چلی گئیں
************
احمد مریم کو اپنی بائیک پہ سکول چھوڑنے جا رہا تھا۔۔
کیسی ہو مریم اِتنی چُپ کیوں ہو؟؟
کچھ نہیں مجھے کیا ہونا ہے (مریم نے ٹالتے ہوۓ کہا) پھر مجھ سے ناراض ہو کیا۔ (اب کہ احمد نے سمجھاتے ہوۓ کہا)یار دیکھو ابھی میں اتنا سٹیبل نہیں ہوں کہ امی سے ہمارے لئیے بات کر سکوں۔
تو پھر تُم مجھے عادل کی دُلہن بنتا دیکھنے کہ لئیے تیار رہو۔۔
اب ایسے بھی مت کہو کیوں ہارٹ فیل کروانے پر تُلی ہو۔۔۔(عادل نے دہلتے ہوۓ کہا)
تو اور کیا تم تماشہ دیکھتے رہنا اور امی میرا ہاتھ اپنے اُس کھڑوس بدتمیز بھتیجے کہ ہاتھ میں دے دینگی۔
اب کہ مریم نے اپنے آنسووں کو پیچھےدھکیلا۔۔
مریم کا سکول آگیا تھا۔۔
مریم فوراً بائیک سے اُتری احمد نے مریم کا ہاتھ پکڑ لیا۔
چھوڑو احمد کوئ دیکھ لیگا تمھیں پتہ ہے نہ یہ سب مجھے پسند نہیں ہے(مریم نے اپنا ہاتھ چھوڑواتے ہوۓ کہا)
احمد نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیا۔۔
سُنو تو میں آج ہی امی سے کہتا ہوں کہ وہ ماموں سے بات کریں پلیز اُداس مت ہو۔
اچھا ٹھیک ہے۔
اوکے اب ناراض تو نہیں ہو نا؟؟احمد نے بیچارا سا منہ بناتے ہوۓ پوچھا۔
بالکل نہیں اور یہ کہتے ہی جھٹ سے مریم اندر چلی گئ -احمد نے بھی مُسکراتے ہوۓ بائیک سٹارٹ کی اور اپنے آفس کی طرف چل دیا۔۔
*************
عادل فریش ہو کر جب کمرے سے باہر ناشتے کہ لئیے آیا تو اپنی دادو کے ساتھ پھوپھو کو بیٹھے ہوۓ دیکھا۔
اسلام و علیکم! پھوپھو کیسی ہیں آپ عادل نے جُھک کر پیار لیتے ہوۓ دریافت کیا۔
پہلے تک صحیح نہیں تھی پر اب ٹھیک ہو گئ ہوں اپنے بیٹے کو جو دیکھ لیا ہے "رضوانہ بیگم نے شیرینی بھرے لہجے میں کہا۔
آئیں پھوپھو ناشتہ کر لیں عادل نے ڈایننگ ہال میں جاتے ہوۓ پوچھا۔
نا میرا بچہ تم کرو ناشتہ میں ابھی ادھر ہی ہوں آرام سے بات کرتے ہیں جی جیسے آپ کہیں۔۔
آو عادل آملیٹ بنا دوں کہ ہاف فراۓ؟؟
رات والا سالن دے دیں امی پراٹھے کہ ساتھ ویسے بھی آج آپکو بہت کام ہوگا- عادل نے کُرسی پر بیٹھتے ہوۓ اپنی پھوپھو کی طرف دیکھ کر کہا جو ایک بار پھر سے اپنی باتوں میں مشغول ہو جکی تھیں
اچھا بیٹا کر دیتی ہوں- ریحانہ نے سالن کی پلیٹ مائیکرو ویو میں رکھی اور خود لہسن لے کر عادل کے پاس بیٹھ گئیں۔
عادل جی امی بیٹا ایک بات کرنی تھی
آپ بات مت کریں حُکم کریں عادل نے اُنکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔۔
بیٹا میں سُوچ رہی تھی کہ اب تم شادی کرلو ٹھیک ہے کس سے کرنی ہے
میں سیریس ہوں بیٹا۔۔
میں بھی سیریس ہوں امی آپ اس دنیا کی جس بھی لڑکی سے کہیں گی میں شادی کرلونگا۔ عادل نے ریحانہ بیگم کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھتے ہوۓ اُنہیں یقین دلایا ۔ٹھیک ہے پھر تم اپنی خالہ کی بیٹی نبتٰھل سے شادی کرلو ٹھیک ہے کوئ مسلہ نہیں۔ عادل نے لاپرواہی سے شانے اُچکاۓ-
جیتے رہو بیٹا تم نے میرا مان بڑھا دیا ہے ریحانہ نے عادل کا ماتھا چومتے ہوۓ اُسے دُعا دی۔۔
ٹِنگ ٹونگ۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹِنگ ٹونگ۔۔۔۔۔۔۔
(سدرہ آج بارہ بجے سو کر اُٹھی تھی اور اپنی چُھٹی کو سو کر خوب انجواۓ کِیا تھا۔)
اُففففففف
اب کون آگیا سدرہ نے اپنا ناشتہ بناتے ہوۓ جھنجھلا کر کہا۔ ایک بار پھر سے آنے والا گھنٹی پر ہاتھ رکھ چُکا تھا۔۔
آ رہی ہوں صبر تو کرو۔۔
آنے والا شاید گھنٹی سے ہاتھ اُٹھانا بھول ہی گیا تھا۔۔
اور سدرہ کا پارہ اُوپر ہی اُوپر جا رہا تھا۔۔
سدرہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ہی فہد کو کھڑا پایا۔فہد کو مُسکراتا دیکھتے ہی سدرہ کو تو پتنگے ہی لگ گۓ۔۔۔
بدتمیز جاہل bell بجانے کی تمیز بھی نہیں ہے تمھیں۔ سدرہ نے کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح پوچھا۔
جس ٹیوشن سے تم نے bell بجانے کی تمیز حاصل کی ہے نہ مجھے وہاں ایڈمیشن نھیں ملا فہد نے ہنستے ہۓ جواب دیا۔۔۔
دانت تو بند کرو اپنے مجھے پتہ ہے تم برش کرتے ہو۔۔
ہاہاہا تمھیں تو موقع چاہیے مجھ پر غصہ کرنے کا۔۔
تم ہو ہی اس قابل اچھا ہٹو مجھے ناشتہ کرنے دو ڈایننگ پر بیٹھتے ہوۓ سدرہ نے کہا۔۔
مجھے بھی ایک ایسا ہی پراٹھا بنا دو۔ سدرہ کا بنایا ہوا کُرکُرا پراٹھا دیکھ کر فہد کا بھی دل للچایا۔۔
کس خوشی میں ہاں چلو اپنا راستہ ناپو شاباش۔۔
اچھا ایک نوالا تو دے دو اب کہ فہد نے معصومیت سے کہا۔
یہ لو یار تم تو میرے پیٹ میں درد کروا کہ ہی چھوڑو گے۔
سدرہ نے آدھا پراٹھا فہد کو دیتے ہوۓ کہا۔۔
کچھ دیر بعد پھر سے فہنے بات کا آغاذ کیا-
میں نے پڑھائ کہ لئیے کیینڈا کی یونیورسٹی میں اپلاۓ کیا ہے۔۔
فہد کی بات پر سدرہ کو چاۓ پیتے ہوۓ اچھو لگ گیا۔۔
یہاں تو تم سے پڑھا نہیں جاتا وہاں کون سے جھنڈے گاڑنے جا رہے ہو ہاں۔۔
سدرہ نے میز پر پڑی فروٹ باسکٹ میں سے چھری نکال کر فہد کو دکھاتے ہوۓ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
excuse me madam A+
آیا ہے میرا (فہد نے اپنے کالر جھاڑتے ہوۓ جواب دیا۔۔
ویسے سچ پوچھو تو امی کی طرح مجھے بھی تمھارے اس سو کولڈ اے پلس پہ ڈاوٹ ہے۔۔
اپنی امی کو تو رہنے ہی دو رہی تمھاری بات تم تو بچپن سے ہی مجھ سے جیلس ہو۔۔ (فہد نے کُرسی سے اُٹھتے ہوۓ کہا )اور سدرہ کے کان میں اُسے چِلا کر کٹ کھنی بلی کہتے ہوۓ دروازے کی جانب دوڑ لگا دی۔۔۔
**************