عادل جب صبح سو کر اُٹھا تو اس نے اپنے سامنے مریم کو کھڑا پایا۔۔۔
پہلے تو وہ کچھ دیر آنکھیں پھاڑے غور سے دیکھتا رہا۔۔۔
پھر ایک دم اپنی آنکھیں ملتا اُٹھ بیٹھا۔۔۔مریم تم۔۔۔ تم۔۔۔۔ واپس آگئ؟؟؟
تبھی مریم چلتے ہوۓ بیڈ پر آ بیٹھی۔۔۔تمھارے بغیر رہنا بہت مشکل لگا عادل بس تبھی آگئی۔۔ عادل کی حالت ان الفاظ کو سُننے کہ بعد غیر ہونے لگی تھی۔۔
تبھی اُس نے مریم کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔۔۔۔پر یہ کیا مریم تو غائب ہوگئ۔۔تبھی عادل مریم کو پُکارنے لگا۔۔
مریم۔۔۔۔۔۔مریم۔۔۔
پر وہاں مریم ہوتی تو سُنتی نہ۔۔
عادل اپنا سر پکڑتا پھر سے بستر پر ڈھے گیا۔
اُف اب اس سب کی ہی کسر باقی تھی اب یہ مجھے خیالوں میں آکر بھی ستاۓ گی۔۔۔
تُف ہے مجھ پر پوری زندگی محبت نہیں کی اور جب کی تو ایسی لڑکی سے جو میری ہو کہ بھی میری نہیں ہے۔۔
تبھی دروزہ کھٹکا۔۔۔
کون ہے آجاو۔۔۔۔صاب جی آپکو بڑے صاب بُلا رہے ہیں۔۔۔
تم جاو میں فریش ہو کہ آتا ہوں۔۔۔
جی اچھا صاب۔۔
ملازمہ کہ جانے کہ بعد عادل بھی سر جھٹکتے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
*************
مریم فجر کہ بعد سونے کہ لئیے لیٹی تھی تبھی اب تک سو رہی تھی۔۔۔
سدرہ کالج جا چُکی تھی۔۔
جبکہ فرید صاحب ناشتہ کررہے تھے اور رضوانہ چاۓ کا کپ پکڑے مسلسل کپ کو گھور رہی تھیں۔ کل سے وہ اسی طرح گومگو کی حالت میں تھیں۔۔۔فرید صاحب اُنہیں دیکھتے ناشتہ کرتے ہوۓ بولے۔۔۔
مجھے کل راضیہ نے بُلوایا تھا۔۔
وہ اُسی طرح بیٹھی رہیں تب فرید صاحب نے اُنہیں دوبارہ سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوۓ آواز دی۔۔۔
رضوانہ۔۔۔
رضوانہ۔۔۔
جی۔ ۔۔۔وہ اس جی پر حیران ہوۓ تھے
میں کچھ بتا رہا تھا تمھیں۔۔۔۔۔
ہاں کیا۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔
میں کل راضیہ کی طرف گیا تھا۔۔
اچھا۔۔۔(پہلے ہمیشہ وہاں کہ ذکر پر وہ واویلا مچاتی تھیں اس لئیے فرید کہ لئیے حیرت میں پڑنا ضروری تھا)
وہ فہد کہ لئیے سدرہ کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہیں اگر تم رضامندی دو تو وہ باقاعدہ رشتہ ڈالنے آنا چاہتی ہیں۔۔۔
جیسے تمھیں بہتر لگے ویسے کرلو فرید(اپنا فیصلہ دیتے وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں)
فرید کو تو یقین ہی نہیں آیا تھا کہ یہ وہی رضوانہ ہیں۔۔۔
تبھی وہ اُنہیں جاتا ہوا حیرت سے دیکھنے لگے
************
نہایا دھویا عادل اب ناشتے کی میز پرآ چُکا تھا جہاں پہلے سے ہی ساجد اور ریحانہ موجود تھے۔۔۔۔
ساجد نے سلام کرتے ہوۓ عادل کو گھورا۔۔۔
تبھی مکھن اُٹھاتے ہوۓ عادل نے اُنہیں ایسے دیکھتے ہوۓ پوچھا کیا ہوا کوئی بات ہے ابا؟؟؟
تم سے یہ اُمید نہیں تھی مجھے۔۔۔
کیوں میں نے ایسا کیا کردیا(عادل نے دانتوں سے ٹوسٹ کو کاٹتے ہوۓ پوچھا)
تمھارے سامنے میری مری ہوئی ماں کی یہ وقعت تھی کہ اُسکی خواہش کا احترام بھی تم نہ کر پاۓ۔۔۔اور ایک مہینے میں ہی مریم کو نکال باہر کیا۔۔۔ساجد اس وقت بے حد غصے میں تھے۔۔
عادل نے گھر میں کسی سے یہ نہیں کہا تھا کہ مریم اپنی مرضی سے گئی ہے(آفٹر آل اُسے اپنی ناک بھی تو اُونچی رکھنی تھی ہمیشہ کی طرح)۔۔
تم بھول گۓ کہ وہ تمھاری پھوپھو کی بیٹی ہے وہ بھی وہ پھوپھو جو پوری زندگی جان چھڑکتی رہی تم پہ۔۔۔
یہ صلہ دیا ہے ہماری محبتوں کا تم نے۔۔۔اب کی بار اُنکی آواز اُونچی ہوئی تھی۔۔
(عادل کو اُنہیں اتنے صدمے میں دیکھ کر دُکھ پُہنچا تھا پر اپنا بھرم بھی تو قائم رکھنا تھا۔)
ہمارے بیچ بالکل بھی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے ابا۔۔آج نہیں تو کل بھی یہ رشتہ ایسے ہی ختم ہونا تھا تو اتنا وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ابھی کیوں نہیں۔۔
تم سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔۔
ناشتے سے فارغ ہو کر شرافت سے سٹور پہنچو وہ اُسے تنبیہ کرتے اُٹھ کھڑے ہوۓ۔۔
( اُنکا سٹور کراچی کہ چند بڑے اور مشہور سٹورز میں شمار ہوتا تھا۔۔۔) ۔۔
عادل سر جھکاۓ ناشتے میں مگن رہا جیسے اس سے ضروری کوئ کام ہی نہیں ہو۔۔۔
ریحانہ تاسف سے اُسے تکتی ہوئی اُٹھیں اور اندر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔
*************
مریم آرام سے دوپہر کہ دو بجے اُٹھ کر اب تیار ہو رہی تھی۔۔۔۔ اُس نے بلیک کلر کا جوڑا نکالا(بلیک فیورٹ کلر تھا احمد کا)فُل بلیک سوٹ کے ساتھ ملٹی کلر کا چُنری کا ڈوپٹہ اس پر خوب جچ رہا تھا۔۔ چھوٹی چھوٹی جھمکیاں کانوں میں ڈالے۔۔گولڈن سٹونز والا کھسہ پہنے وہ مکمل تیار تھی۔۔۔کندھے پر بیگ ڈالتی جیسے ہی کمرے سے باہر آئی نظر رضوانہ پر گئ۔۔۔اُنہیں دیکھ کر وہ چونکی اور کوئ بہانہ سوچتی باہر کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔پر باہر نکل کر دروزہ بند کرتے ہوۓ حیرت ہوئی کیونکہ اُنہوں نے کچھ پوچھا ہی نہیں ۔۔ مرہم حیرت سے قدم اُٹھاتی اپنی منزل کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
*************
فرید صاحب نے سٹور پر بیٹھے بیٹھے ہی راضیہ کو کال ملائی۔۔۔۔راضیہ آج رات آجاو سدرہ کہ رشتے کہ لئیے۔۔۔کیا بھابھی مان گئی ہیں؟؟؟
ہاں اُس نے فیصلے کا اختیار مجھے دے دیا ہے۔ ۔دیکھ لیں بھائی صاحب پچھلی بار بھی بھابھی مان گئ تھیں پر بعد میں چلائی اُنہوں نے اپنی ہی تھی۔۔۔
اس بار تم فکر مت کرو ہم ڈائریکٹ نکاح کریں گے۔۔۔کیا سچ میں بھائی جان ؟؟؟
ہاں بالکل تم اپنی تیاری رکھو۔۔۔
راضیہ خوش ہوگئی تھیں کم از کم ایک بیٹے کی دل کی مراد تو بر آئی تھی۔۔۔۔۔
*************
مریم جیسے ہی کیفے پُہنچی وہاں احمد پہلے سے ہی موجود کسی سے فون پر بات کرنے میں مصروف تھا۔۔۔
تبھی مریم اُس تک پُہنچی مریم کو دیکھتے ہی احمد نے کال ڈسکنکٹ کی۔۔۔
آو بیٹھو مریم۔۔۔اُسے دیکھتی ہی احمد کی آنکھوں میں ستائش اُبھری تھی۔۔
کیسی ہو مریم۔۔
تمھیں دیکھ لیا اب ٹھیک ہوں۔۔۔
کیا لوگی؟؟؟ کیا منگواوں؟؟؟
کچھ بھی منگوا لو۔۔۔(مریم نے شانے اُچکاتے ہوۓ مسکرا کر کہا)
تبھی احمد نے اپنا آرڈر لکھوایا اور مریم کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
تم کب آئ تھیں ماموں کی طرف پتہ ہی نہیں چلا ہمیں تو عادل چھوڑ کر گیا تھا کیا؟؟
احمد نے بات کا آغاز کرتے ہوۓ پوچھا؟؟
نہیں میں خود آئ تھی۔۔
تم اکیلی آئ تھی؟؟
ہاں۔۔
حد ہے بڑا لاپرواہ ہے عادل تمھیں ایسے ہی اکیلے بھیج دیا۔۔۔
بس کرو عادل کا پہاڑا پڑنا۔۔۔
اوکے تم غصہ کیوں ہو رہی ہو۔۔
میں ہماری بات کرنے کے لئیے آئ ہوں یہاں۔۔تمھیں عادل کی خیریت بتانے نہیں۔۔
ہماری کونسی بات؟؟؟
میں عادل سے خُلع لے رہی ہوں احمد۔۔۔
مگر کیوں مریم(احمد نے حیرت سے پوچھا)
کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔
مریم کی بات پر احمد نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
مریم دیکھو ٹھنڈے دل ودماغ سے میری بات سُنو۔۔
مریم کہ کچھ کہتے لب ویٹر کو دیکھ کر خاموش ہوۓ تھے۔۔۔
ویٹر اُنکا آرڈر رکھ کر جیسے ہی پلٹا۔۔
مریم نے بے چینی سے احمد کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
ہاں بولو میں سُننا چاہتی ہوں تمھیں۔۔
میں مانتا ہوں مریم کہ میں نے تم سے بے حد محبت کی ہے۔۔۔تمھارے سوا کبھی کسی کہ متعلق نہیں سوچا۔۔ اور آئندہ بھی شاید یہ محبت قائم رہے پر۔۔۔۔۔پر میں تمھیں اپنا نہیں سکتا۔۔۔
احمد نے مریم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔جو جیرت کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔
مگر کیوں احمد صرف اس لئیے کہ میری شادی کر دی گئ تھی۔۔۔
یقین مانو احمد وہ سب صرف ایک کاغذ کےٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔۔۔اس کے علاوہ میرا اور عادل کا کوئ تعلق نہیں تھا۔۔
میں آج بھی پہلے کی طرح صرف تمھاری ہوں۔۔
تم سمجھ نہیں رہی مریم۔۔۔
میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے ویسا مرد سمجھیں جو دوسروں کی بیویوں کو ورغلاتا ہے۔۔
تمھیں کیا لگتا ہے اگر میں تم سے شادی کرلونگا تو سب صحیح ہو جائیگا نہیں ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔جب بھی لوگ تمھارے متعلق بات کریں گے تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ وہ لڑکی ہے جس نے شادی کہ ایک مہینے بعد ہی طلاق لے لی اور اپنے عاشق کہ پاس آگئ کیا تم یہ سب برداشت کر پاوگی۔۔۔
مریم اس وقت صرف پھٹی پھٹی آنکھوں میں آنسو لئیے احمد کو گھور رہی تھی۔۔
اور کل کو جب ہماری بچے ہوگۓ یا فرض کرو بیٹی ہوئ اور جب اُسکو دیکھ کر لوگ کہیں گے کی یہ اس عورت کی بیٹی ہے جسے شادی کہ ایک ماہ بعد ہی طلاق ہوگئ تھی۔۔تو کیا تم سب برداشت کرلوگی۔۔۔طلاق جب بھی بھی کسی کی بھی ہو چاہے اُس میں غلطی جس کی بھی رہی ہو ہماری سوسائٹی میں قصوروار عورت ہی کو سمجھا جاتا ہے۔۔
میں مانتا ہوں میں تمھیں بہت چاہتا ہوں۔۔ پر جب عشق کا بھوت اترتا ہے نہ تب انسان کو عزت ضرورت سب دکھنے لگتا ہے جو ابھی تمھیں نہیں دکھ رہا ۔۔
مریم میری بات سمجھو تم عورت کہ معاملے میں ہمارے لوگوں کی یاداشت بہت پختہ ہوتی ہے جو اسے قدم قدم پر اسکی غلطی کا احساس دلاتی ہے۔۔۔
احمد اب بولتے بولتے خاموش ہوگیا تھا۔۔
تو۔۔۔۔تم۔۔۔۔ تم مجھ سے شادی نہیں کروگے کیا؟؟مریم نے روتے روتے پوچھا۔۔
نہیں مریم اب یہ پاسبل نہیں ہے۔۔
پر احمد۔۔۔۔میں۔۔۔میں تو عادل کو چھوڑ آئ ہوں۔۔۔
تو واپس چلی جاو مریم احمد نے پیار سے کہا۔۔
کیسے چلی جاوں۔۔۔ اب کہ مریم نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔
میں بہت زعم سے اُسے چھوڑ کر آئ تھی اب کس منہ سے واپس چلی جاوں ہاں۔۔۔
مریم ابھی کچھ نہیں بگڑا۔۔سمجھو میری بات۔۔
کاش مجھے پتہ ہوتا کہ تم ایک تنگ دل انسان ہو تو میں کبھی اتنا بڑا قدم نہ اُٹھاتی۔۔مریم نے ایک غصہ سے بھرپور نظر اُس پر ڈالی۔۔
احمد نے اب چُپ چاپ اُسکا ہر الزام سننے کہ لئیے خود کو تیار کیا۔
تم اس قابل ہی نہیں تھے کہ تم سے محبت کی جاتی اب مریم اپنا بیگ اُٹھاۓ کھڑی ہوگئ۔۔تم ایک بُزدل اور کم ہمت انسان ہو مجھے افسوس ہے خود پر کہ میں نے تم سے محبت کی۔۔۔
مریم جانے کہ لئیے جیسے ہی پلٹی تبھی احمد نے پُکارا آو میں چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔
پر وہ اُسے سُنی ان سُنی کرتی آگے بڑھ گئ۔۔
*************
کیا مسئلہ ہے عادل کیوں اتنے بے چین ہو یار بیٹھ جاو۔۔۔
عادل اپنے ایک دوست کی طرف آیا ہوا تھا۔۔ تاکہ اپنا دماغ کسی اور طرف لگا سکے۔۔۔
پتہ نہیں یار بہت بے چینی سی ہو رہی ہے جیسے۔۔ جیسے کچھ بُرا ہونے والا ہے۔۔۔
ہاں اتنا تو نجومی فراز نے اُسکی ہنسی اُڑائ تھی۔۔نہیں یار تو نہیں سمجھے گا۔۔
گرمی بہت ہے تبھی ایسا لگ رہا ہے آ تجھے اندر اے۔سی والے کمرے میں لے جاوں۔۔
نہیں میں اب چلتا ہوں۔
رُک یار ابھی تو تو آیا ہے۔۔ فراز نے اُسے روکنا چاہا نہیں یار پھر آونگا۔۔۔
عادل معذرت کرتا باہر کو نکل گیا۔۔۔
***************
امی آپی کہاں گئ ہیں۔۔۔اتنی دیر ہو گئ ہے۔۔۔
مجھے کیا پتہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔۔ رضوانہ نے جاۓ نماز بچھاتے ہوۓ جواب دیا۔۔
پھر بھی بنا بتاۓ تو نہیں گئ ہونگی وہ۔۔۔
جو اپنے سسرال سے بنا بتاۓ آ سکتی ہے وہ کہیں بھی بنا بتاۓ جا سکتی ہے۔۔۔جاو مجھے تنگ نا کرو۔
مریم کو بہت پریشانی ہو رہی تھی۔۔
کیا کروں فون بھی کر لیا کب سے بیل جا رہی ہے اُٹھا ہی نہیں رہیں۔۔کیا کروں؟؟؟ کیا کروں؟؟
احمد بھائ سے پوچھتی ہوں احمد کا خیال آتے ہی سدرہ نے فون ملایا۔۔۔
ہیلو احمد بھائ۔۔
ہاں سدرہ کہو مجھے کیسے یاد کر لیا آج۔۔ بھائ وہ مریم پتہ نہیں کہیں باہر گئ تھی ابھی تک نہیں آئیں دو بجے گئ تھیں اب چار بج رہے ہیں۔۔۔کیا آپکو پتہ ہے اُنکا؟؟
ہاں وہ میرے آفس کہ لنچ ٹائم پہ مجھ سے ملنے آئ تھی۔۔۔ اب تو آنے والی ہوگی شاید ٹریفک میں پھنس گئ ہو۔۔
پر وہ آپ سے کیوں ملیں وہ بھی باہر سدرہ نے اپنے ذہن میں اُٹھتے بار بار سوال کہ متعلق اب پوچھ ہی لیا تھا۔۔
وہ اپنی اُلجھن مجھ سے شئیر کرنا چاہتی تھی بس صرف اس لئے مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔۔۔
میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا تھا بھائ پر شاید آپ بُرا مان گۓ۔۔
نہیں ایسا نہیں ہے بچے۔۔
اچھا مجھے کام ہے پھر بات کرتے ہیں۔۔
احمد نے فون رکھ دیا تھا۔۔۔
سدرہ اب لاونج میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔
*************
کافی دیر تک بس سٹاپ پر بیٹھ کر رونے کہ بعد جب مریم کو احساس ہوا کہ وہاں پر موجود یر شخص اُسے ہی گھور رہا ہے تو وہ تھکے قدموں سے اُٹھتی رکشہ روکتی اب اُس میں بیٹھ چُکی تھی۔۔
رکشہ میں بجتے گانے کی جانب جب مریم کا دھیان گیا تو ایسا لگا جیسے اس گانے میں مریم کا ہی درد بیان کیا گیا ہو۔۔
میں ہاسے پُل گئ وے
تیری راہ میں رُل گئ وےےےے
بن ساون آکھیاں دے ہنجواں وچ
دھل گئ وے۔۔۔
کی کراں زمانہ دُشمن میرا ہویا سارا
تیرے بنا جاوں کہاں کوئ بھی نا میرا سہارا
سب نے قدم قدم پہ ٹھوکر ہی ماری۔۔۔
چاہت بن گئ ہے اب سزا میری۔۔۔
تجھ سے کروں کیا شکوہ تو بھی تو جل رہا۔۔
تبھی دو افراد جو بائیک پر موجود تھے اُنہوں نے رکشے کہ سامنے اپنی بائیک لگا کہ رکشے کو روکا ۔۔
ایک جھٹکے سے رکشہ رُکا۔۔
مریم جو اپنے خیالوں میں بیٹھی ہوئ تھی۔اچانک سے رکشہ رُکنے پر اپنی جگہ سے اُچھلتی ہوئ آگے کو گرنے والی ہوئی۔۔
کیا ہوا بھائ رکشہ کیوں روک دیا تبھی بائیک سے ایک لڑکا اُترتا ہوا مریم کی طرف آیا۔۔
چلو شاباش جو بھی تمھارے پاس ہے چُپ چاپ سب باہر نکال دو۔۔
مریم تو یہ سب دیکھتے ہی حواس کھونے لگی تھی۔۔
مریم نے کپکپاتے ہوۓ ہاتھوں سے اپنا پورا ہینڈ بیگ اُس کو پکڑا دیا۔۔۔
تبھی ان میں سےایک لڑکے نے خباثت سے مریم کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔
یار کاش اپنے پاس گاڑی ہوتی تو یہ پوری کی پوری لڑکی ہی لے جاتے ۔۔۔یہ کہتے ہی دونوں نہ مکروہ قہقہہ لگایا۔۔
اُنکی یہ بات سُنتے ہی مریم کہ ہوش اُڑے تھے جو کب سے اپنے ہی خیالوں میں گُم سُم بیٹھی تھی اب مکمل طور پہ اپنے ہوشوں میں واپس آ چکی تھی۔۔
تبھی مریم نے اپنے پاس سے گاڑی گُزرتے دیکھ کہ شکر کا سانس لیا اور رکشہ سے اپنا سر باہر نکالتے ہوۓ مدد کہ لئیے چیخنا شروع کیا۔۔
ہیلپ ہیلپ کوئی ہے بچاو۔۔۔ بچاو۔۔
تبھی وہ پاس سے گُزرتی گاڑی کچھ دور جا کر رُکی اور ریورس ہو کر پیچھے آنے لگی۔۔۔
مریم نے اُن دو لڑکوں کہ ہوش اُڑتے دیکھ خود کو کچھ ریلیکس محسوس کیا۔۔
اوۓ چل نکل وہ گاڑی واپس آ رہی ہے جلدی کر یہ بیگ پکڑ اور بھاگ۔۔۔
ابے یہ سالی دوسرے لڑکے نہ مریم کو غصہ سے دیکھتے ہوۓ اُسےگھورا۔۔
اور اُسکی طرف بڑھتے ہوۓ پسٹل کی نال مریم کی طرف کی اور ایک فائر کیا ۔۔
اور اپنی بائیک اُٹھاتے یہ جا وہ جا ہوگۓ۔۔۔
پیچھے مریم چیختی ہوئی اپنا پیٹ پکڑے ہوش وحواس سے بیگانہ ہوتی ایک سائیڈ پہ گرتی چلی گئ۔۔۔۔
***************