ہیلو دوسری ہی بیل پر کال اُٹھا لی گئ تھی۔۔
ہاں مریم کیسی ہو سب ٹھیک تو ہے نا۔۔
ہاں احمد ۔۔۔ وہ ۔۔وہ تم نے ۔۔ملنے کو کہا تھا۔۔۔( مریم نے بدقت پوچھا۔۔۔۔)
تو میں نے سوچا ہم کہیں پر مل لیں۔۔
اوکے ۔۔تو پھر بتاو تم کہاں آ سکتی ہو آسانی سے؟؟
وہ احمد میں نے گوگل پر سرچ کیا ہے یہ گھر کہ نزدیک ہی ایک کیفے ہے تم وہاں آجانا۔۔۔
تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور عادل کمرے میں داخل ہوا۔۔
اور صوفے پہ بیٹھے مریم کہ فری ہونے کا ویٹ کرنے لگا۔۔ اُسے دیکھتے ہی مریم کی ہتھیلیاں بھیگ گئیں تھیں(اف کیسے دیکھتا ہے جاہل جیسے کچا ہی چبا جائیگا)مریم نے دل میں کہا۔۔
(ساتھ ہی ایک انجانا سا خوف تھا پکڑے جانے کا کہیں عادل کو پتہ نا چل جاۓ کہ میں احمد سے بات کر رہی ہوں) کیونکہ وہ اتنی بولڈ تھی نہیں جتنا بولڈ وہ سٹیپ لے رہی تھی۔۔
اوکے میں تمھیں ایڈریس سینڈ کر دیتی ہوں پلیز ٹائم پہ آجانا اوکے۔۔۔اب میں رکھتی ہوں باۓ۔۔۔ مریم نے کن اکھیوں سے عادل کو دیکھتے ہوۓ کال کاٹ دی اب اُسے یہ ڈر بھی تھا کہ عادل کو کسی قسم کا کوئ شک نہ ہوگیا ہو کہ وہ کس سے بات کررہی ہے۔۔
کس کی کال تھی عادل نے وہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جس سے وہ بچنا چاہتی تھی۔۔
جس کی بھی تھی تم سے مطلب؟؟مریم اسے ٹالتے ہوۓ الماری کی جانب بڑھ گئ۔۔
اُسے جلد سے جلد تیار ہو کر نکلنا تھا۔۔وہ اس وقت کمرے میں آئ تھی تاکہ عادل سے سامنا نہ ہو پر وہ پھر بھی پتا نہیں کہاں سے آٹپکا تھا۔۔
عادل اپنی جگہ سے اُٹھتا ہوا اب مریم کے پیچھےآ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔
تم میری بیوی ہو تمہارا ہر مطلب مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ہی ختم ہوتا ہے سمجھی۔۔اور بار بار یہ بات مت بھول جایا کرو کہ تم میری بیوی ہو۔۔
مریم جو کب سے الماری میں منہ دئیے چُپ چاپ اُسے سُن رہی تھی۔ ایک جھٹکے سے مڑی اور پیچھے کھڑے عادل سے ٹکرا گئ۔۔
اُف اللہ انسان ہو کہ دیوار مریم نے اپنا سر ملتے ہوۓ دہائ دی۔۔
عادل اسے مسکراتے ہوۓ دیکھتا رہا۔۔
ایک تو آگے مجھے دیر ہو رہی ہے اور تمھارے دانت ہیں کہ اندر ہی نہیں جا رہے۔۔مریم نے غصے سے کہا تھا تبھی عادل کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوئ تھی۔
مریم نے ہنستے ہوۓ عادل کو خونخوار نظروں سے گھورا۔۔مجھے بار بار یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں تمھاری بیوی ہوں ۔اب ہٹو بھی آگے سے تم تو جم ہی گۓ ہو مریم عادل کو ہٹاتی بیڈ پر جا بیٹھی تھی۔۔
اچھا اب بتاو بھی کال کس کی تھی اور تم کہاں جا رہی ہو۔عادل نے بیڈ پر مریم کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ دوستانہ انداز میں پوچھا۔
تم میرے پیچھے کیوں پڑ گۓ ہو جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے میری۔۔۔ اس بار مریم کی آواز اونچی ہوئ تھی۔۔
اوہو۔۔
مجھے بلکل بھی چیختی چلاتی ہوئ بیویاں نہیں پسند عادل نے مریم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔۔
تم میری بیوی ہو چاہے جن بھی حالات میں بنا دی گئ ہو پر میں تمھیں دل سے اپنی بیوی مانتا ہوں اور یہی امید تم سے بھی کرتا ہوں کہ تم سب بھلا کر آگے بڑھو۔۔
میرے لئیے یہ ممکن نہیں ہے مریم نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا پر دوسری طرف گرفت مضبوط کر لی گئ۔۔
کیوں ممکن نہیں ہے اپنا مسئلہ تو بتاو شاید میں کچھ کر سکوں تمھارے لئیے۔۔عادل نے اپنے غصے کو دباتے ہوۓ ممکن کوشش کی کہ اسکا لہجہ نرم ہی رہے۔۔
میں تمھارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور میرا نہیں خیال کے اس سے زیادہ صاف الفاظ میں میں تمھیں بتا سکتی ہوں ۔نہ ہی مجھے تم سے محبت ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے اور ایک اور بات مجھے جس سے محبت ہے وہ تم نہیں ہو احمد ہے۔۔
عادل نے اب وہی ہاتھ جو بہت دیر سے پیار سے پکڑا ہوا تھا اس پر زور ڈالا تبھی مریم کی چیخ نکل گئ۔۔
میرا ہاتھ چھوڑو بدتمیز۔۔
ویسے تو بہت بہادر ہو تم پتہ نہیں بہادر کہنا بھی چاہیے کہ نہیں پر داد دینی پڑیگی تمھاری ہمت کی اپنے ہی شوہر کے ساتھ بیٹھی کسی غیر کہ لئیے آہیں بھر رہی ہو واہ کیا بات ہے نہ۔۔
اکسکیوز می مسٹر غیر نہیں منگیتر ہے وہ میرا ہاہاہاہا تبھی عادل کا زوردار قہقہہ گونجا اف مریم کیا لڑکی ہو یار تم منگنی کی اتنی اہمیت ہے پر اس نکاح کو ماننے کو تیار ہی نہیں جس کی بدولت میرے کمرے میں موجود ہو واہ بھئ واہ کیا کہنے ہیں آپ کے۔۔
مریم کو اس بات پر بہت غصہ آیا تھا اور وہ ابھی کوئ کرارا جواب سوچ ہی رہی تھی کہ عادل کا فون بج اُٹھا۔۔اور وہ اپنا فون لئیے گیلری میں چلا گیا ۔
تبھی مریم نے موقع کا فائدہ اُٹھایا اور اپنے کپڑے اٹھاتی گیسٹ روم کی طرف دوڑ لگا دی۔۔
*************
اب بول بھی چُکو فہد کہ کیا مسئلہ ہے کیوں مجھے دیر کروانے پر تلے ہوۓ ہو۔۔
میری نیکسٹ ویک کی فلائیٹ ہے میں جا رہا ہوں۔۔۔
اوہ اچھا بہت بہت مبارک ہو۔۔۔
بس یہی بتانا تھا سدرہ نے اٹھتے ہوۓ پوچھا۔
ایک منٹ رُکو تو کیوں ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو یار۔۔
ہاں تو بولو بھی اتنا pause کیوں لے رہے ہو سدرہ نے اکتاۓ ہوۓ کہا۔
میں چاہتا ہوں کے میرے جانے کہ بعد تم میرا انتظار کرو
ہیںںں کیاااااااا میں۔۔۔ مریم نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔اور تمھارا انتظار کیوں بھئ کس خوشی میں؟؟
تم کہاں کہ cagatay ullusoy ہو کہ میں تمھارا انتظار کروں ہاں۔۔
یہ کاٹے گاٹے کون ہے بھلا عادل نے منہ بناتے ہوۓ حیرت سے پوچھا۔۔۔
خبردار جو میرے فیورٹ ہیرو کا نام بگاڑا تو۔۔
ایک تو میں اتنی مشکل سے پوری رات لگا کہ اپنی تقریر یاد کرتا رہا ہوں جو مجھے تمھارے سامنے کرنی تھی۔
اور تم ہو کہ اپنے ہیرو سے ہی باہر نہیں آ رہی حد ہے میں بھی کہاں سر مار رہا ہوں ۔۔عادل کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ پاس پڑا گلدان اُٹھا کہ اسکے سر میں مار دے۔۔
تم اتنا بھڑک کیوں رہے ہو جو بھی کہنا ہے صاف صاف کہو۔۔
مجھے کچھ نہیں کہنا تم سے جاو تم کالج اپنے میرا ہی دماغ خراب ہے۔۔
اچھا رُکو تو فہد او ہیلو کہاں جا رہے ہو سدرہ آوازیں دیتی رہ گئ اور فہد بکتا جھکتا وہاں سے چلا گیا۔۔
*************
مریم چینج کرنے کہ بعد جلدی سے باہر نکل آئ کہ کہیں کوئ روک نہ لے آن لائن منگائ گئ ٹیکسی بھی آچکی تھی۔۔
وہ جیسے ہی ٹیکسی میں بیٹھی تبھی اس نے نظریں اُٹھاۓ اوپر دیکھا بالکنی میں عادل کھڑا تھا۔۔ عادل کی نظر بھی اس پر پڑچُکی تھی عادل کو دیکھتے ہی مریم نے اُسے ہاتھ ہلایا تھا ۔۔
عادل کو اُسکا یوں جانا کچھ عجیب تو لگا پر وہ سر جھٹک کے فون ہر مصروف ہوگیا ۔۔اچھا یار میں آرہا ہوں بس آدھے گھنٹے تک پھر مل کر ڈسکس کرتے ہیں الوداعی کلمات کہتے فون بند کر کے اب وہ باہر جانے کی تیاری کرنے لگا تھا۔۔
مریم جیسے ہی کیفے پہنچی سامنے ہی احمد کو بیٹھے دیکھا ۔۔
کیسی ہو مریم ؟؟
میں بھلا کیسی ہو سکتی ہوں ؟؟
تم ٹھیک ہو نا۔۔
ہاں میں بالکل ویسی ہی ٹھیک ہوں جیسے پنجرے میں قید کوئ کبوتر۔۔
کیا ہوگیا ہے پلیز اتنی ڈپریسنگ باتیں تو نہ کرو نا۔۔
تو کیا تمھارے سامنے بیٹھ کر تمھیں مناظرے اور غزلیں سناوں۔۔
تم کبھی نہیں جان سکتے ایک ایسی جگہ اور ایک ایسے انسان کہ ساتھ رہنا کیسا ہوتا ہے جس سے آپ شدید نفرت کرتے ہوں۔۔
میرا دم گھُٹتا ہے اُس گھر میں۔۔
مجھے وحشت ہوتی ہے اُس شخص کو اپنے آس پاس دیکھ کر پر تم کیا سمجھو گے تم ہی کی تو کرم نوازی ہے یہ سب نہ تم بزدلوں کی طرح بھاگتے اور نہ ہی میں اس مصیبت میں پڑتی۔۔
کب سے خاموش بیٹھے احمد کو یہ طعنہ کسی ہنٹر کی طرح اپنے دل پر پڑتا محسوس ہوا تھا۔۔
میں بھاگا نہیں تھا مریم ماموں اور ممانی نے میری کوئ بات ہی نہیں سُنی تھی۔۔ اُنہوں نے کہا میں صرف ایک منگیتر ہوں جسکا کوئ شرعی حق نہیں بنتا(ساتھ ہی احمد نے وہ سب کہہ سنایا جو کچھ بھی اُس دن ہوا تھا)
ایک بار پھر سے مریم کے دل میں اپنی ماں کہ لئیے نفرت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔وہ بالکل ایک جگہ سُن سی بیٹھی تھی۔۔ )
کیا ہوا مریم تم ٹھیک ہو؟؟میں یہ سب تمھیں نہیں بتانا چاہتا تھا پر کیا کرتا تمھارے دل میں اپنے لئیے بھرتی نفرت نے مجھے بے قرار کر دیا اب کہ عادل شرمندہ ہوا۔۔
جو ہوا جیسے ہوا اب اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا شاید یہ سب ایسے ہی لکھا تھا۔۔
ہاں بالکل صحیح کہہ رہی ہو۔
پل بھر کو مریم رُکی تھی اور پھر سے گویا ہوئ۔۔
یہ بات تو طے ہے میں عادل کے ساتھ کسی صورت نہیں رہونگی میں اس سے خلع لے لونگی۔۔
کیا کہہ رہی ہو یار تم۔۔تم ایسا نہیں کر سکتی۔
مریم نے حیرت سے احمد کی طرف دیکھا۔۔پر احمد میں تم سے۔۔
پلیز مریم آگے کچھ مت کہنا۔۔میں آج تم سے صرف تمھاری بد گمانی دور کرنے کہ لئیے ملا تھا اس لئیے نہیں کہ تمھیں خلع کہ لئیے اکساوں۔۔۔پر احمد میں تم سے پیار کرتی ہوں۔۔
میں بھی تم سے ہی پیار کرتا ہوں پر۔
تبھی عادل نے احمد کو کالر سے پکڑے ایک گھونسا اسکے منہ پر مارا تھا۔۔۔
مریم تو حیران ہی رہ گئ پل بھر کو تو یقین ہی نہ آیا کہ عادل کیسے یہاں پہنچ گیا۔۔
تبھی عادل نے زمین پہ گرے احمد کو اُٹھایا جس کہ منہ سے خون نکل رہا تھا۔۔عادل کیا کر رہے ہو چھوڑو اسے تبھی مریم نے عادل کی شرٹ پکڑے اس پیچھے کرنا چاہا پر اس کے لئیے عادل کو ہٹانا اتنا آسان نہیں تھا اسکا مقابلہ تو احمد نہ کر پاتا مریم کیا تھی اس کے سامنے بھلا۔۔
تبھی دوسرے مکے کے لئیے اٹھایا ہاتھ عادل نے وہیں روک لیا اور انگلی اٹھاۓ تنبیہہ لہجے میں صرف اتنا ہی کہا۔۔۔
دور رہو میری بیوی سے اور یہ کہتے ہی احمد کو پیچھے دھکیلتا مریم کا ہاتھ پکڑے اسے کھینچتا ہوا باہر لے گیا۔۔جبکے مریم سن سی اس کے ساتھ گھسٹتی ہوئ گاڑی میں آ بیٹھی۔
سارے راستے مریم کی ہمت نہیں ہوئ کہ وہ عادل کی طرف دیکھ بھی پاتی گاڑی میں صرف خاموشی گونج رہی تھی تبھی جھٹکے سے گاڑی رُکی اور تبھی بے دھیانی سے بیٹھی مریم کا سر ڈیش بورڈ سے جا ٹکرایا تھا۔
وہ گاڑی سے نکلتا مریم کو گھسیٹتا ہو گھر کے اندر لے آیا تبھی راستے میں ریحانہ ٹکرائیں۔
عادل یہ کیا کر رہے ہو ایسے کہاں لے جا رہے ہو بچی کو مریم نے تو آواز بھی نہیں نکالی تھی ۔۔
عادل انہیں اگنور کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا کمرے میں پُہنچ کر اس نے مریم کا ہاتھ چھوڑتے ہی اُسے زمین ہر پٹخ دیا۔۔
مریم نے اسے جیسے ہی اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو آنکھیں ہی بند کر لیں۔۔
وہ جانتی تھی اس نے جو کیا وہ بہت غلط کیا پر وہ پیار میں اندھی ہوگئ تھی ۔
(شاید پیار میں یا پھر اپنی ماں کی نفرت میں نا جانے کس بات کا پلڑا زیادہ بھاری تھا۔۔)
عادل زمین پر گری آنکھیں میچی ہوئ مریم کی طرف غصے سے دیکھتا باتھ روم میں بند ہوگیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ غصہ میں کچھ غلط کر دے جسکا بعد میں اُسے پچھتاوا ہو۔۔
**************