ہیلو۔۔
احمد۔۔۔
پہلے تو احمد کو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ مریم کی کال ہے آج شام جیسے اُسے دیکھا تو یہ ہی لگا کہ شاید وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئ ہے۔۔
پر مریم کی ہی آواز ہے یہ تو
ایک بار پھر سے مریم نے کہا۔۔
ہیلو۔۔۔احمد تم سُن رہے ہو روتی ہوئی آواز مریم ہی کی تھی۔
مریم یہ۔۔۔ یہ تم ہو نہ احمد کو تو یقین ہی نہیں آیا تھا۔۔
احمد تم نے۔۔۔۔
تم نے۔۔۔(روتے ہوۓ فریاد کی گئی تھی۔)
مجھے اتنی آسانی سے کیوں چھوڑ دیا؟؟ احمد کیا تمھاری۔۔۔۔ (روتے ہوۓ باقاعدہ ہچکی لی گئی)تمھاری محبت اتنی بودی تھی۔۔۔کیا یہ واقعی میں محبت ہی تھی جو تم نے مجھ سے کی یا محض کوئی دل لگی تھی۔۔
بولو جواب دو خاموش کیوں ہو۔۔
میں تم سے ملنا چاہتا ہوں مریم اور مل کر ہی تمھاری بد گمانی دور کر سکتا ہوں۔۔
کیا تم کہیں باہر مجھ سے مل سکتی ہو پلیز۔۔
اب کی بار مریم شش و پنج کا شکار تھی ۔۔
میں۔۔۔ میں تمھیں بعد میں بتاتی ہوں کہ میں تم سے کہاں مل سکتی ہوں ابھی فون رکھ رہی ہوں باۓ۔۔۔
فرید صاحب کو اپنی جانب آتا دیکھ مریم نے کال کاٹ دی تھی۔۔۔
وہ ان سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی تبھی اندر کی جانب قدم بڑھا دئیے ۔۔
پر تب ہی فرید صاحب کی آواز نے اُس کہ پیر جکڑ لئیے۔۔۔
کیا اب تک ناراض ہو؟؟؟
کیا بیٹیوں کو ناراضگی کا حق بھی نہیں ہوتا؟؟؟
ہوتا ہے بالکل ہوتا ہے۔۔ اور میرا خُدا جانتا ہے کے میں نے اپنے رب کی دی ہوئ دونوں رحمتوں کہ لئیے ہمیشہ اپنے دل میں مجبت رکھی ہے۔۔۔(تبھی مریم کہ اندر کا لاوا پھٹنے کو بے تاب ہوا تھا)
**************
عادل باتھ روم سے باہر آیا تو کمرہ بلکل خالی تھا۔۔ تبھی وہ بالکنی میں مریم کو ڈھونڈتا ہوا آیا پر وہ وہاں تو نہیں تھی پر نیچے فرید صاحب کہ ساتھ کھڑی نظر آئی۔۔
وہ سگریٹ سلگاتا ہوا اندر آیا اور کاؤچ پر بیٹھ کر پینے لگا۔۔
اور اپنے حالات پر نظرثانی کرنے لگا۔۔ ساتھ ہی خودکلامی بھی جاری تھی۔۔
مریم سے مجھے کبھی اگر نفرت نہیں رہی تھی تو کبھی پسندیدگی بھی نہیں رہی تھی۔۔
ہاں بچپن سے آج تک ایک خاص چِڑ ضرور رہی تھی۔۔۔جب جب پھوپھو اُسے اگنور کئیے میرے آگے پیچھے پھرتی تھیں تب تب مریم کہ تاثُرات مجھے بہت مزہ دیتے تھے مجھے اپنی ماں کی گئ انسلٹ کا بدلہ لینا ہوتا تھا جو میں اُسے تکلیف پہنچا کہ پورا کر لیتا تھا ۔۔پھر آہستہ آہستہ اُس نے ہماری طرف آنا ہی چھوڑ دیا پر جب بھی کسی بھی موقع پر وہ نظر آتی تو ہمیشہ مجھ سے چھُپتی پھرتی تھی۔۔
میں جانتا ہوں اس سب میں کبھی بھی اسکا کوئی قصور نہیں رہا تھا۔۔ پر پھر بھی میں ایز لائف پارٹنر اُسے نہیں چاہتا تھا پر اب وہ میری زندگی میں شامل کر دی گئی ہے اب جو بھی ہو جیسا بھی ہو پر وہ مجھ سے کبھی دور نہیں جا سکتی۔۔میرے نام کی مُہر لگ چُکی ہے اُس پر (ہاتھ میں پکڑا ہوا سگریٹ جل جل کر اب اسکا ہاتھ جلا گیا تھا تبھی وہ ہوش میں آیا۔۔ اُف یار ۔۔۔عادل سگریٹ پھینکتے ہوۓ کھڑا ہوا اور جا کر بیڈ پر دوبارہ سے گود میں لیپ ٹاپ رکھے اپنا کام کرنے لگا۔۔۔ساتھ ہی ساتھ مریم کا انتظار بھی۔۔۔
************
رضوانہ کی پیاس کی وجہ سے آنکھ کھلی تھی تبھی اپنے برابر فرید صاحب کو نہ پاکر آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھیں ہاۓ یہ کہاں چلے گۓ۔۔
اتنا نہ ہوا کہ پانی کی بوتل ہی سرہانے رکھ لیں۔۔کسی کام کا نہیں ہے یہ آدمی کبھی جو میرا خیال کر لے ہاں بھئ کیوں کرے اپنی بہن اور بھانجوں سے نظر ہٹے تو میں دکھوں نہ ہمممم وہ سر جھٹکتے کمرے سے باہر نکل کر کچن کی جانب بڑھنے لگی تھیں کہ لان میں فرید اور مریم کو کھڑا دیکھ کر تجسُس کہ مارے وہیں رُک گئیں۔۔
*************
مریم میرے بچے اگر تم ٹھنڈے دماغ سے غور کرو تو عادل تمھارے لئیے بہترین ہمسفر ثابت ہوگا۔۔۔
پر میں نے کبھی بہترین کی چاہ نہیں کی تھی بابا۔۔اور اگر عادل اتنا ہی بہترین تھا تو احمد کہ لئیے امی سے بات کیوں کی اُنہیں کیوں منایا خود کیوں مان گۓ تھے تب آپ پہلے ہی منع کر دیتے بابا(مریم بنا رُکے آنسو بہاتے اپنے دل کا غبار ہلکا کرنے میں لگی ہوئ تھی) یوں میرے ہاتھ میں میری خوشی پکڑا کر تو نہ چھینتے۔۔میں بیٹی ہوں آپکی ایک اچھی بیٹی کی طرح سر جھکا دیتی آپکے ہر فیصلے پر۔۔۔
پر بابا یوں میرا تماشا تو نہ لگاتے۔۔۔
میں تمھاری ماں کہ سامنے مجبور ہو گیا تھا۔۔(مریم نے اب کہ رُک کر اُنکی جانب دیکھا)
میں کیا کرتا میں نے تمھارے لئیے سٹینڈ لیا تھا میرے بچے۔۔( وہ پل بھر کو رُکے اور پھر سب بتا دینے کا فیصلہ کرتے ہوۓ شروع ہوۓ)
پر اُس نے دھمکی دی کہ وہ مجھ سے طلاق لے لےگی اور وہ گھر جس میں ہم رہتے ہیں اور تمھاری پھوپھو والا فلیٹ وہ بھی خالی کرنا ہوگا تم تو سب جانتی ہو میرے پاس خود کا تو کچھ بھی نہیں ہے گھر اور کاروبار سب اُسکا ہے۔
میں تم لوگوں کو کہاں مارا مارا لئیے پھرتا میرے بچے تمھارا باپ ہمیشہ سے ہی مجبور رہا ہے مریم اپنے باپ کو دیکھنے لگی اُسے اپنے باپ کی بےبسی کی وجہ آج سمجھ آئ تھی۔۔۔جہاں مریم کی آنکھیں اُنکی بےبسی پہ جھلملائ تھیں وہیں رضوانہ کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئ تھی آج اُنہیں یقین ہوگیا تھا کہ یہ شخص کبھی ان کہ سامنے سر نہیں اُٹھا سکتا۔۔۔
***********
مریم سدرہ کہ پاس اُس کے کمرے میں آگئ تھی سدرہ چادر سر تک اوڑھے سو رہی تھی۔۔مریم کا ذہن الگ ہی تانے بانے بن رہا تھا۔۔
اُسے یہ بالکل بھول گیا تھا کہ رضوانہ اُسکی ماں ہیں یاد تھا تو بس یہ کہ اُنکو نیچا کیسے دکھانا ہے تبھی وہ لیٹے آگے کا لائحہ عمل سوچنے لگی۔۔۔
صُبح سب ناشتے کے لئیے ٹیبل پر جمع تھے اور ریحانہ بھاگم بھاگ سب کا فرمائشی ناشتہ بنوانے میں لگی ہوئ تھیں۔۔مریم سر جھکاۓ عادل کہ ساتھ والی کُرسی پر موجود تھی۔۔تبھی عادل نے گلا کھنکھارتے بات کا آغاز کیا۔۔
پھوپھو ویسے مجھے آپ سے یہ اُمید نہیں تھی۔۔
ہیں کیوں بیٹا جی ایسا کیا ہوگیا۔۔۔
(سب انکی طرف ناشتہ چھوڑے متوجہ ہو چُکے تھے اور ریحانہ تو سانس روکے عادل کو دیکھنے لگیں کیونکہ جو بھی وہ کہتا بھگتنا اُنہوں نے ہی تھا)
آپ کو رُخصتی کی جلدی تو بہت تھی پر اپنی بیٹی کو شادی کہ تقاضے تو بتانا بھول ہی گئ ہیں آپ۔۔۔۔
(ہیں یہ سب کے سامنے کیا کہنے لگا ہے مریم کا دل پل بھر کو دھڑکا)
صحیح سے بتاو میں سمجھی نہیں۔۔
میں پوری رات محترمہ کا انتظار کرتا رہا پر یہ کمرے میں آئ ہی نہیں اب بھلا اچھی بیویاں شوہروں کو تڑپاتی اچھی تو نہیں لگتی نا کیوں پھوپھو عادل نے معصومیت سے کہا۔۔تبھی مریم نے گھور کر عادل کو دیکھا اُسے نہیں پتہ تھا کہ یہ اتنا بدتمیز ہوگا کہ ماموں اور بابا کا لحاظ کئیے بغیر ہی شروع ہو جائیگا۔۔۔
مریم یہ کیا کہہ رہا ہے عادل۔۔ کل کیا کہا تھا میں نے کہ اب سے تم عادل کہ کمرے میں ہی رہوگی پھر یہ سب کیا ہے ہاں کیوں اپنی ماں کہ سر میں خاک ڈلوانا چاہتی ہو (وہ بنا سوچے سمجھے ہمیشہ کی طرح سب کے سامنے بولنا شروع ہو چُکی تھیں عادل مسکراتا ہوا اپنی پلیٹ پر مزید جھک گیا تھا۔۔ اُسکے چہرے کی ہنسی مریم کو مزید تپا گئ تھی۔۔۔کیا یہ تربیت کی ہے میں نے تمھاری؟؟؟کچھ تو رکھ رکھاو ماں سے سیکھا ہوتا پوری کی پوری ددھیال پہ چلی گئ ہے۔۔
آپکی بیٹی ہوں امی سسرال میں ویسے ہی رہونگی جیسے آج تک آپکو دیکھا ہے ویسے بھی بچے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں مریم نے چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓ اپنی اندر کی کھولن اُنڈیل دی تھی۔۔۔اور وہاں بیٹھے ہر شخص کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے لڑکی۔۔
اس میں بدتمیزی والی کیا بات ہے۔ مریم نے آئ برو اُچکا کر پوچھا؟؟
ویسسےےےےے۔۔۔۔
آپ کو بھی اب گھر جانا چاہیے اب یہ آپکی بیٹی کا سسرال ہے اور عزت دار ماں باپ تو بیٹی کے گھر سے پانی بھی نہیں پیتے کیوں صحیح کہا نہ میں نے امی؟؟؟
رضوانہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے بالوں سے کھینچ کر اس کرسی سے کھڑا کر دیں جس پر کروفر سے وہ بیٹھی ہوئ تھی۔
آپ۔ ۔۔۔آپ۔۔۔۔ یہ اسے۔۔
اسے دیکھ رہے ہیں سب۔۔۔
آج تک کبھی اس نے میرے آگے چوں نہیں کی اور اب مجھے کیسے اتنی باتیں سُنا گئ ہے۔۔۔مریم اب سکون سے ناشتہ کر رہی تھی۔۔
یہ یقیناً ریحانہ کی لگائ ہوئ آگ ہے پہلے یہ چاہتی نہیں تھی کہ ان دونوں کی شادی ہو پر اب جب ہوگئ ہے تو یہ میری ہی بیٹی کو میرے خلاف کھڑا کرنا چاہتی ہے۔۔۔
نہیں۔۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا آپ بیشک پوچھ لیں آپا۔۔ریحانہ منمنائیں۔۔
چپ کرو تمھارا تو کام ہی آگ لگا کر معصوم بننے کا ہے۔۔۔
ہاۓ ابھی تو میری ماں کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور کیسی کیسی سازشیں ہونے لگ گئ ہے میرے خلاف ہاۓ میری ماں۔۔۔اب وہ سینے پہ زور زور سے ہاتھ مارتیں بین کرنے لگی تھیں۔۔۔
اُٹھو فرید میں ایک منٹ بھی اس گھر میں نہیں رُکونگی اب۔۔ وہ چیختی چلاتی اپنا سامان باندھنے چل دی تھیں۔۔۔
ساجد اور ریحانہ ان کے پیچھے ہانپتے کانپتے اندر چلے گۓ تھے۔۔
عادل حیرت سے مریم کو دیکھنے لگا جو اتنے سکون سے ناشتہ کررہی تھی جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو۔۔۔۔
سدرہ جلدی جلدی ناشتہ کرتی ہوئ کالج کہ لئیے نکلی تھی۔آج وہ کافی دنوں کہ بعد کالج جا رہی تھی۔۔
وہ جیسے ہی نیچے کمپاونڈ میں آئ۔۔۔وہاں بائیک سے ٹیک لگاۓ کھڑے عادل کو دیکھا۔۔وہ اُسے اگنور کئیے آگے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ تبھی فہد نے اُسے آواز دیتے ہوۓ روکا۔۔
سدرہ آو میں تمھیں چھوڑ دوں۔۔
نہیں میں چلی جاونگی۔۔
آو نا پلیز بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔ اب کی دفعہ بہت لجاجت سے کہا گیا۔۔
اوکے میں یہاں بیٹھ کر تمھاری بات سن لیتی ہوں(سدرہ نے بلڈنگ کہ سامنے بنے گارڈن کی طرف اشارہ کیا)پر کالج میں خود ہی جاونگی سمجھے ۔۔اوکے اوکے مس کئیر فل (فہد جانتا تھا وہ کبھی اس کہ ساتھ کالج نہیں جائیگی) چلو آو وہاں بیٹھتے ہیں۔۔
***********