نصائح حکیم افلاطون
(آپ مشہور و معروف یونانی حکیم ہوئے ہیں۔ آپ سقراط کے شاگردِ رشید اور ارسطو کے استاد تھے۔ )
٭ جس جگہ عقل کامل ہو گی، حرص و شر ناقص ہو گا۔
٭ بدنفس وہ ہے۔ جو لوگوں کی بدی ظاہر کرنے اور نیکی چھپانے کی کوشش کرے۔
٭ بات کو پہلے دیر تک سوچو۔ پھر منہ سے نکالو اور پھر اس پر عمل کرو۔
٭ عمر تھوری ہے کام زیادہ۔ لہٰذا عاقل وہ ہے جو اس عمر کو صرف ضروری کام میں صرف کرے۔
٭ جو شخص لوگوں کو عمل صالح کی ہدایت کرے اور خود اس پر عمل نہ کرے۔ اس کی مثال اس اندھے شخص کی مانند ہے۔ جس کے ہاتھ میں چراغ ہو۔ اس سے وہ دوسروں کو تو روشنی دے اور خود نہ دیکھ سکے۔
٭ طلب علم سے شرم مناسب نہیں۔ کیونکہ جہالت شرم سے بدتر ہے۔
٭ حاکم وقت ایک بہت بڑے دریا کی مانند ہے۔ جس کا پانی چھوٹی ندیوں میں جاتا ہے۔ اگر بڑے دریا کا پانی شیریں ہے۔ تو ندیوں کا پانی بھی شیریں ہو گا اور اگر دریا کا پانی تلخ ہو گا تو لازماً ندیوں کا پانی بھی تلخ ہو گا۔
٭ زندگی جب تک نیک کاموں کا ذریعہ نہ ہو۔ شائستہ نہیں کہی جا سکتی۔
٭ خدائے کریم کے تمام عطیوں میں سے حکمت سب سے بڑھ کر ہے۔
٭ حکیم وہ شخص ہے جس کے قول و فعل دونوں یکساں ہوں۔
٭ اچھی بات حاصل کرنے کے لیے بری بات کو وسیلہ نہیں بنانا چاہیے۔
٭ جو لوگ امداد کے مستحق ہیں ان کی امداد کرنے میں ان کے سوال کا منتظر نہ رہنا چاہیے۔
٭ خدا سے ایسی چیزیں مت چا ہو۔ جن کا نفع دیر پا نہ ہو۔ بلکہ باقیات الصالحات کے خواہاں ہو۔
٭ وہ شخص عقل مند نہیں جو دنیاوی لذتوں سے خوش اور مصیبتوں سے مضطرب ہو۔
٭ ہر روز اپنا منہ آئینے میں دیکھا کرو۔ اگر بُری صورت ہے تو بُرا کام نہ کرو اور اگر اچھی صورت ہے تو بُرا کام کر کے اسے خراب نہ کرو۔
٭ خدا کا بندے سے انتقام لینے کا یہ مطلب ہے کہ خدا اس کو ادب سکھاتا ہے نہ کہ اپنا غصّہ نکالتا ہے۔
٭ اہل علم کا امتحان اس کی کثرت علم پر نہیں ہوتا۔ بلکہ دیکھنا چاہیے کہ وہ فتنہ انگیز باتوں سے کیسے بچتا ہے۔
٭ بدترین حاجت وہ ہے جو ایک کریم شخص سلیم الطبع کے آگے پیش کرے اور پوری نہ ہو۔
٭ انسان کا فخر اس میں ہے کہ فخر نہ کرے اور باوجود بڑا ہونے کے اپنے آپ کو کمتر خیال کرے۔
٭ بہت سے نقصانات انسان کو اس وجہ سے پہنچتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مشورہ نہیں لیتا۔
٭ جو شخص لوگوں سے کنارہ کش ہو تو اس سے مل اور جو شخص لوگوں سے ملنے کا عادی ہو۔ تو اس سے کنارہ کش ہو جا۔
٭ ضعیف ترین شخص وہ ہے جو اپنے راز کو چھپانے سے عاجز ہو۔
٭ قوی ترین شخص وہ ہے جو اپنے غصّے کو سکون میں بدلنے پر قادر ہو۔
٭ صابر ترین شخص وہ ہے جو درویشی میں صبر کر سکے۔
٭ قانع ترین شخص وہ ہے جو اپنی روزی پر راضی اور شاکر رہے۔
٭ ایسے شخص کی فریاد رسی کر کہ جو گرفتار بلا ہو۔ بشرطیکہ وہ اپنے کسی فعل بد کے نتیجے میں گرفتار بلا نہ ہوا ہو۔
٭ کسی شخص کی رائے جو علم و معرفت میں تیرے مساوی ہو۔ تیرے حق میں تجھ سے اچھی ہو گی کیونکہ وہ تیری طرح ہوائے نفس سے خالی ہے۔
٭ عدل کی ایک ہی صورت ہے جبکہ ستم کی بہت سی صورتیں ہیں۔
٭ افراطِ نصیحت بھی موجبِ تہمت ہے۔
٭ دنیا کو چوروں کی کمین گاہ تصور کر کے ہوشیاری اور آگاہی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہیے۔
٭ کسی سے جہالت نہ کرو۔ ہر ایک کی تواضع کرنے والے کو ذلیل و خوار نہ جانو۔
٭ ہمیشہ انصاف کا لحاظ اور نیکی کا التزام رکھو۔
٭ بچوں کو تھوڑا تھوڑا پڑھانا چاہیے۔ جتنا کہ وہ یاد رکھ سکیں اور اس طرح سے وہ ایک دن بڑے عالم بن جائیں گے۔
٭ بے کاری سے خوش نہ ہو۔ اقبال و بخت پر بھروسہ نہ کرو۔