اقوالِ بُزر جمہر
(آپ مشہور بادشاہ نوشیرواں کے وزیر اعظم تھے اور سیاست و تدبر میں شہرہ آفاق حیثیت رکھتے تھے۔ )
٭ میں نے سورج کے نور اور چاند کی روشنی سے روشنی طلب کی۔ مگر مجھے اپنے دل کے نور سے زیادہ کوئی روشنی نہ ملی۔
٭ میں نے سمندروں میں سفر کیا اور خطروں کو دیکھا مگر ظالم بادشاہ کے دروازے پر کھڑے ہونے سے زیادہ کوئی خطرہ نہ دیکھا۔
٭ میں نے درندوں اور بھیڑیوں کو دیکھا۔ ان کے ساتھ رہا اور وہ میرے ساتھ رہے اور میں ان پر غالب آ گیا، لیکن بد خلق شخص مجھ پر غالب آ گیا۔
٭ میں پتھروں کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے گیا، مگر قرض سے زیادہ بوجھل میں نے کسی چیز کو نہیں پایا۔
٭ میں نے عمدہ کھانے کھائے لیکن فاقہ اور امن سے زیادہ لذیذ چیز کسی کو نہ پایا۔
٭ میں انگاروں پر چلا مگر غصے سے زیادہ گرم چیز نہیں دیکھی۔
٭ میں نے ناداری اور مفلسی کا بھاری بوجھ اٹھایا، لیکن کسی کمینے کے محتاج ہونے کی نسبت اسے بہت ہلکا پایا۔
٭ میں نے غور کیا کہ کونسی بیماری قاتل ہے اور کہاں سے آتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ خدا کی نافرمانی سے آتی ہے۔
٭ میں نہایت دور دراز مقامات اور خطرناک جگہوں میں پڑا رہا، مگر اپنی زبان سے زیادہ ضرر رساں چیز نہیں دیکھی۔
٭ میں وحشیوں کے ساتھ پہاڑوں میں پھرا۔ مگر میں نے بُرے ساتھی سے زیادہ کوئی وحشت ناک نہیں پایا۔
٭ میں شیطان کے ساتھ پہاڑوں پر پھرا، مگر میں نے بُرے انسانوں کے سوا کسی سے خوف نہیں کھایا۔
٭ میں لشکروں میں لڑا، تلواریں چلائیں اور ہمسروں کو پچھاڑا۔ مگر بری عورت سے زیادہ غالب کسی اور کو نہیں پایا۔
٭ میں آزادوں اور غلاموں کا آقا رہا، مگر سوائے میری خواہش کے کوئی میرا مالک اور مجھ پر غالب نہ ہوا۔
٭ مجھے بطور شفقت و نصیحت اور ادب سکھانے کے بہت سے ناصحوں نے نصیحت اور واعظوں نے وعظ کیے ، لیکن میرے بڑھاپے جیسا وعظ کسی نے نہ کیا اور میری عقل جیسی نصیحت کسی نے نہ کی۔
٭ طلب کرنے والوں نے مجھے طلب کیا۔ مگر میری بُرائی جیسا کسی پانے والے نے مجھے نہ پایا۔
٭ جس شخص نے اپنے آپ کو با عزت کیا ہے ، تو اپنے پیسے کو ذلیل کر کے کیا ہے۔
٭ دنیا کی مصیبتوں کا تین چوتھائی حصہ زبان کا پیدا کردہ ہے۔
٭ بعض اوقات انسان کی موت اس بات میں ہوتی ہے۔ جس کی وہ خواہش کرتا ہے۔
٭ تین چیزیں نیکی کی بنیاد ہیں : اول: تواضعِ بے توقع، دوم: سخاوتِ بے منّت اور سوم: خدمتِ بے طلب مکافات۔
٭ دوستی کی زیادتی کا اندازہ تکلّف کی کمی سے لگایا جا سکتا ہے۔
٭ تنگیوں نے میری مزاحمت کی، مگر بد خلقی جیسی کسی نے میری مزاحمت نہیں کی۔
٭ مجھے نیزے مارے گئے اور پتھر پھینکے گئے۔ پس میں نے اس بُرے کلام سے جو حق بات کو طلب کرنے والے کے منہ سے نکلتی ہے۔ کسی کو زیادہ اثر کرنے والا نہیں دیکھا۔