اقوالِ بنجمن فرینکلن
(امریکہ کے شہرہ آفاق فلاسفر اور سیاست دان تھے۔ 1706ء میں پیدا ہوئے اور 1790ء میں وفات پائی۔ )
٭ زندگی اور صحت تھوڑی سی آمدنی پر بھی قائم رکھی جا سکتی ہے۔
٭ اگر کوئی شخص کامیاب ہونا چاہے تو اسے ایک خاص کام اختیار کرنا چاہیے اور اسی میں دل و جان سے لگا رہنا چاہیے۔
٭ غریب آدمی کو دولت مند بننے کے لیے راستی اور دیانت داری سے بڑھ کر کوئی عمدہ ذریعہ نہیں۔
٭ اگر ہم محنتی ہیں تو کبھی فاقہ کشی میں مبتلا نہ ہوں گے۔
٭ دانائی سے مخالف کاموں کی اصلاح کرنا بہ نسبت غصّہ کرنے اور اس میں مبتلا رہنے سے بہت بہتر ہے۔
٭ حد اعتدال سے تجاوز نہ کرو۔ لوگوں کی آزادی وہاں تک برداشت کرو۔ جہاں تک اس کو واجبی جانتے ہو۔
٭ اگر انسان کے چال چلن میں ذرا سا بھی عیب نہ ہو تو وہ سارے زمانے کا محسود بن جائے اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں۔
٭ برے کام اس لیے مضر نہیں کہ وہ ممنوع ہیں بلکہ ممنوع اس لیے ہیں کہ وہ مضر ہیں۔
٭ غرور کے برابر کوئی نفسانیت نہیں جس کی اصلاح دشوار ہو۔
٭ جو چابی استعمال میں رہتی ہے وہ صاف اور چمکدار رہتی ہے یعنی انسان کو بیکار نہ رہنا چاہیے بلکہ کام کرتے رہنا چاہیے۔
٭ بے ہودہ کو بیکار نہ رہنا چاہیے بلکہ کام کرتے رہنا چاہیے۔
٭ بے ہودہ باتیں مت کرو مگر جو تم کو یادوسروں کو فائدہ پہنچائیں اور فضول گفتگو سے بچو۔
٭ تمہارے تمام کاموں کے لیے معین جگہ ہونی چاہیے اور تمہارے ہر کام کے واسطے وقت مقرر ہونا چاہیے۔
٭ بے احتیاطی سے منہ سے کوئی بات نکل جائے یا وعظ کرتے وقت غلط رائے قائم کر دی جائے۔ تو بعد میں تشریح کرنے پر اس کی درستی ہو سکتی ہے یا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے لیکن جب کوئی بات تحریر میں آ جائے تو پھر اس سے انکار نہیں ہو سکتا۔
٭ غیب کا علم تو اس ذات پاک کو ہے جس کے اختیار میں ہماری جان ہے۔
٭ مفلس اور محتاج کا دیانت دار رہنا نہایت مشکل ہے۔