"ہیلو_السلام علیکم__" سیمل کی معصوم سی آواز زینب کے کانوں میں پڑی__
"وعلیکم السلام!__سیمی کہاں غائب ہو __تمہیں پتا ہے کل کالج میں فارم سبمٹ کرانے کی لاسٹ ڈیٹ ہے__دو دن سے تم پتا نہیں کہاں غائب ہو__؟ کل شرافت سے کالج آجانا فارم فل کرکے ہاتھ کے ہاتھ ہی جمع کروا دینا__سن رہی ہو یا نہیں__؟ زینب نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی___
"ہاں سن رہی ہوں__تمھارا لاؤڈ اسپیکر بند ہوگا تو کچھ بولوں گی نا__ یار بابا جانی کی طبیعت ایک مہینے سے بہت خراب ہے__بی پی اور شوگر بہت ہائی ہو رہی ہے__ بہت پریشان ہیں ہم لوگ پتا نہیں کس بات کی ٹینشن ہے بابا کو__" سیمل کے لہجے سے ہی اسکی پریشانی کا اندازه ہورہا تھا___
"الله انہیں شفاء دے__اچھا کل آؤگی__؟؟" زینب نے دعا دینے کے بعد ایک اور سوال داغا__
"ہاں__کوشش کرکے آتی ہوں__"سیمل نے مختصر بات کی__
عارش جس وقت گھر پہنچا__اس وقت سب سو رہے تھے__آخر کو دو افراد ہی تو تھے جن میں ماں باپ شامل تھے__ سارے سرونٹ اپنے سرونٹ کواٹر میں تھے تو کسی کو اسکے گھر آنے کا نہیں پتا تھا__ گیٹ کیپر کو وه منع کرچکا تھا کہ اسکی واپسی کا وه خود صبح بتائے گا___
صبح امی ابو ڈائینگ ہال میں تھے__وه چپکے سے داخل ہوا__ابو اسے دیکھ چکے تھے البته امی کی اس طرف پیٹھ تھی تو وه اسے دیکھنے سے قاصر تھیں __ اسنے آتے ہی ابو کو اشارے میں چپ رہنے کا کہا اور ساتھ ہی امی کی انکھوں کو اپنے دلکش ہاتھوں سے چھپا لیا___آخر کو وه ماں تھیں__ فوراً اپنے بیٹے کے لمس کو پہچان گئیں__ وه دونوں شوکڈ تھے کہ وه کیسے اس وقت آیا___پھر اس نے ان دونوں کی غلط فہمی دور کی کہ وه رات کو ہی آگیا تھا__ ناشتہ بھی خوشگوار ماحول میں کھایا گیا__ ناشتے کے بعد عارش کے والد نے آفس جانے کا بولا اور أٹھ گئے__ ایسا کرو تم بھی میرے ساتھ چلو آفس___
"جی بہتر ابو میں فارغ ہی ہوں ابھی تو چلے چلتا ہوں __البتہ شام میں مجھے ارصم کے گھر جانا ہے__"عارش نے مؤدبانہ انداز میں جواب دیا__
"چلیں بیگم پھر چلتے ہیں ہم__" امی نے پیار سے دونوں پہ سورتیں دل ہی دل میں پڑھ کر پھونکیں__
آفس میں وه دونوں جاکے کام میں لگ گئے__آج تو اکرام صاحب بھی آئے تھے _تو آفس میں الگ ہی رونق لگی ہوئی تھی___کہ اچانک اسکا دل زور سے دھڑکنا شروع ہوگیا__سامنے دیکھا تو وه اور اسکی دوست ہنستے ہوئے دروازه کھول رہیں تھیں___
سیمل نے فجر پڑھنے کے بعد ہی کالج جانے کی تیاری شروع کردی تھی___ صبح سے وه کچھ مضطرب سی تھی اس لیۓ ناشتہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور ثریا ( ماسی) کو بتا کر کالج کے لیۓ نکل آئی___ کالج پہنچ کر وه زینب کو ڈھونڈنے لگی ___تھوڑی ہی جدوجہد کے بعد وه میم جوہی کے پاس کھڑی کسی ٹاپک پہ بات کرتی ہوئی نظر آگئی__ میم جوہی ان دونوں کی فیورٹ میم تھیں__میم جوہی تو انکو سب پیار سے بولتے تھے __اصل نام تو انکا فائزه تھا__ سیمل نے انکے پاس جاکے سلام کیا جسکا انہوں نے خوش اخلاقی سے جواب دیا__میم جوہی سے تھوڑی بات کرکے وه لوگ فارم خریدنے چل دیے__زینب اپنا فارم فل کرواچکی تھی البتہ سیمل کا ره گیا تھا اور سونے پہ سہاگہ آج فارم سبمٹ کرانے کی آخری تاریخ تھی___سیمل کا دل صبح سے ہی کسی عجیب سی مشکل اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت کا احساس دلا رہا تھا___وه مسلسل اپنے دل میں اپنے الرحمن سے مخاطب تھی کہ اے میرے خدا سبکو اپنے حفظ و آمان میں رکھیے گا___میرے بابا جانی کی طبیعت بھی ٹھیک کردے میرے مولا___
فارم خرید کر وه دونوں گراؤنڈ میں موجود سیٹوں پہ بیٹھ گئیں___3 دن بعد زینب کی منگنی کی تقریب تھی__جس پہ صرف اسکا اکیلے جانے کا اراده تھا__ ہلکی پھلکی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وه فارم فل کررہی تھی کہ اسے ایک جگہ پہنچ کر جھٹکا لگا__
نیچے موجود لائن کے اوپر گارڈئین/پیرنٹ سائن کرنا تھا___ جسکے لیۓ گھر جانا ہوگا___زینب کے لاکھ کہنے کے باوجود اس نے خود اپنے بابا جانی کے سائن نہیں کیے تھے___
سیمل نے گھر جانے کا اراده کیا لیکن زینب نے اسے بولا کے ایک دفعہ گھر فون کر کے پوچھ لو کہ ابو اٹھ گئے تو پھر چلتے ہیں ساتھ میں اکیلی یہاں کیا کروں گی___
"ٹھیک بول رہی ہو پوچھ لیتی ہوں ایک دفعہ___"سیمل نے بولتے ساتھ ہی موبائل فون نکال کر گھر کا نمبر ڈائل کیا___
تھوڑی دیر بعد فون امی نے اٹھایا__ "السلام علیکم امی__جی امی وه صبخ جلدی پہنچنا تھا اسی لیۓ ڈسٹرب نہیں کیا__جی جی کھا لیا ہے یہاں لے کر____امی ابو اٹھ گئے کیا ؟؟؟____انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی آپ نے کیوں جانے دیا____چلیں اب آفس چلی جاتی ہوں انکے__ جی وه فارم پہ سائن کروانا ہے___جی آج ہی لاسٹ ڈیٹ ہے___ جی زینب کو ساتھ لے کر ہی جاؤنگی اکیلے نہیں جارہی ___جی آپ بھی رکھیے گا اپنا خیال___ الله حافظ___" زینب نے ساری گفتگو بہت دھیان سے سنی تھی___
"چلو___بابا کے آفس جانا پڑے گا___گاڑی بھی ڈرائیوار لے کر گیا ہے ابو کو لے کر آفس__تو ہمیں بس یا رکشے سے جانا پڑے گا___" سیمل نے تفصیل سے بتایا___
"ہاں ___ٹھیک ہے__ کوئی مسئلہ نہیں ہے__تمہیں آفس کا راستہ تو پتا ہے نہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے__" زینب نے آرام سے صورت حال کو بہتر بنایا___
بیگ پیک کر کے وه دونوں آفس کے لیۓ نکل گئیں__ تقریباً 30 منٹ بعد وه دونوں آفس کے اندر ہنستے ہوئے داخل ہورہی تھیں__
سیمل اور زینب داخل ہورہی تھیں__جب سامنے کھڑے اُس دشمنِ جان پہ نظر پڑی__ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کافی حیران ہورہے تھے__ پھر آگے آکے سیمل نے سلام کیا اور اسی کو دیکھا دیکھی زینب نے بھی عارش کو سلام کیا__
"آپکا پاؤں کیسا ہے اب سیمل__؟؟؟" عارش کی طرف سے پہلا سوال داغا گیا__
جسکا سیمل نے اچھے طریقے سے جواب دیا
"پہلے سے بہتر ہے اب___" کیونکہ اب وه سیمل کا محسن تھا اس نے ہر طرح سے سیمل کی مدد کی تھی___اور کون جانے ابھی تھوڑی دیر میں کیا واقعہ درپیش ہونے والا تھا___ تھوڑی بہت بات کرنے کے بعد وه اور زینب ایسکیوز کرکے اکرام صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ گئے__
جب وه بابا کے کمرے کی جانب بڑھی تب انکی سیکریٹری نے بتایا که اکرام صاحب اور سلمان صاحب دونوں میٹنگ میں ہیں___وه اُنہی کے کمرے میں بیٹھ کر بابا کے آنے کا انتظار کررہی تھی___
ہلکی گرمی کے موسم میں وه دونوں سفر کرکے آفس پہنچیں تھیں تو اےسی کی ہوا انہیں جنت کی ہوا معلوم ہورہی تھی___فضا میں تھوڑی خنکی تھی__جسکی وجہ سے اُن دونوں کو ہلکی سردی کا احساس ہورہا تھا___ اسکا دل عجیب ہی اندیشے کا احساس دلا رہا تھا___ وه ڈر بھی رہی تھی اور مسلسل دعا بھی مانگ رہی تھی کہ سب بہتر ہی رہے__وه اپنے فارم کے بارے میں پریشانی کو اور بڑھا رہی تھی__وه سمجھ رہی تھی کہ شاید آج اسکا فارم جمع نہیں ہوپاۓ گا___تبھی اسکا دل عجیب خدشے میں گھرا ہے___پر وه یہ نہیں جانتی تھی___اسکے اوپر قیامت آنے والی تھی___شاید الله اپنے پسندیده بندوں کو ہی اپنی آزمائش کے لیۓ چنتا ہے___بلاشبہ وه ہمیں ہر مشکل سے نکالنے والا بھی ہے___
تھوڑی دیر میں دھماکے سے دروازه کُھلا اور عارش عجلت میں اندر آیا__
"سیمل جلدی چلیے انکل کی طبیعت کافی خراب ہورہی ہے__انہیں ہاسپٹل لے جانا ہے آپ بھی چلیے___"عارش خود بھی گھبرایا ہوا معلوم ہورہا تھا___
سیمل کا تو مانو جسم کاٹو اور خون کا ایک قطره بھی نه نکلنے والا حساب تھا___یہاں تک تو اسکی سوچ بھی نہیں گئ تھی جو کچھ اب ہونے والا تھا____
وه مزید ایک جملہ سنے بغیر فوراً باہر آئی جہاں اکرام صاحب صوفے پہ بے حال پڑے تھے___ساتھ ہی سلمان صاحب بھی کھڑے درود شریف پڑھ کو پھونک رہے تھے__اور اسکے بابا جانی صرف اپنا الٹا ہاتھ اور سینہ مسل رہے تھے___انکی سیکریٹری ایمبولنس کو کال کر رہی تھی___سیمل کے سارے اعصاب اپنا ہوش کھو رہے تھے___وه تقریباً بھاگتے ہوئے اکرام صاحب کے پاس آئی اور انکی نبض چیک کرنے لگی__ جسے چیک کرتے ہوئے اسکے دماغ میں خطرے کا الارم بج رہا تھا___زینب اور عارش بھی ساتھ ہی آگے کھڑے تھے___آنسو کے قطرے اسکے گلابی گالوں کو بھیگونا شروع ہوگئے تھے___
"پلیز کال ایمبولنس کویکلی____ "اس نے بے چینی میں روتے ہوئے بس اتنا ہی بولا گیا____
"چلیں سر ایمبولنس آگئی ہے__" انکی سیکریٹی نے آکے اطلاع دی ___سیمل جلدی میں اپنا بیگ اندر اکرام صاحب کے کمرے میں ہی چھوڑ آئی تھی___جو کے اب عارش کے ہاتھ میں تھا__وه اتنی زیاده پریشان اور رونے والی ہوگئی تھی کہ موبائل بیگ اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا___
اکرام صاحب کو اسٹریچر کی مدد سے ایمبولنس میں لایا گیا___وه درد کو نہ برداشت کرتے ہوئے بے ہوش ہوگئے تھے___کم از کم سیمل تو یہی سمجھی تھی___ انکو ایمبولنس میں لیٹاتے ہی آکسیجن ماسک لگا دیا تھا پھر بھی وه وقفے وقفے سے جھٹکے کھا رہے تھے___ سیمل کی تو حالت اور بگڑرہی تھی__سلمان صاحب مسلسل اسے چپ کرارہے تھے مگر وه کہاں چپ ہونے والی تھی___ہاسپٹل پہنچنے سے تقریباً 5 منٹ پہلے انہوں نے جھٹکے لینا بند کردیے تھے___جس سے اسکے رونے میں مزید تیزی آگئ تھی__
عارش اور زینب ایک ساتھ گاڑی میں سیمل کی امی کو لیے پہنچ رہے تھے__
سیمل کا تو بیگ وغیره بھی اسکے حوالے سے آفس میں ره گیا تھا مگر وه عارش کے پاس تھا___اصل مسئلہ یہ تھا کہ ابھی بیگ اسکے ساتھ ہوتا تو وه انکی ہارٹ بیٹ ، بی پی اور شوگر چیک کرسکتی تھی مگر وه ایسا چاه کر بھی نہیں کرسکتی تھی___
ہاسپٹل پہنچ کر وه سیدھا انہیں ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے جہاں انہوں نے سیمل اور سلمان صاحب کو باہر ہی رکنے دیا__رو رو کر اسکی آنکھیں سوج اور ناک سرخ ہوگئی تھی__
تھوڑی ہی دیر میں امی ، زینب اور عارش آگئے تھے___
وه اپنی امی کی بانہوں میں ٹوٹ کر روئی تھی___ دوسری طرف اسکی امی کی بھی یہی حالت تھی___
ابھی وه رو ہی رہی تھی جب ڈاکٹر نے باہر آکر عارش سیمل اور سلمان صاحب کا نام لیا اور بولا پیشنٹ بار بار انہیں بلا رہے ہیں __ انہیں چونکہ آئی سی یو میں شفٹ کردیا گیا تھا تبھی پیشنٹ کے بولنے پہ انہیں اندر آنے دیا تھا___
وه مختلف مشینوں سے جکڑے ھوئے تھے___ڈاکٹر یہ باہر ہی بتاچکے تھے که سیویر قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا ہے ___پلیز انہیں کوئی ٹینشن مت دیجیے گا___اور انہیں زیاده مت بولنے دیجیئے گا___ڈاکٹر نے تو اپنا فرض ادا کیا تھا مگر مشکل میں وه سبکو ڈال گیا تھا__
جب وه تینوں اندر داخل ہوئے تو اکرام صاحب نے اشاره سے تینوں کو اندر اپنے پاس بلایا__آکسیجن ماسک اتار کر وه سلمان صاحب سے بولے ___" میں آج ابھی اسی وقت سیمل اور عارش کا نکاح کروانا چاہتا ہوں__" سیمل کو تو لگا اسکے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا گیا ہے___
اگلا جھٹکا جب لگا جب سلمان صاحب نے انہیں یہ جواب دیا___"ٹھیک ہے تم جیسا چاہتے ہو ویسا ہی ہوگا___تم سیمل بیٹی کی رائے معلوم کرلو ___ہمیں تو سیمل بیٹی پہلے ہی پسند ہے__"
پھر انھوں نے سیمل کی طرف دیکھا جو انکے بائیں ہاتھ کی طرف کھڑی تھی___
سیمل نے بس انکے آگے اپنا سر خم کردیا جسکا مطلب تھا کہ وه جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا___
تھوڑی ہی دیر میں عارش اور سلمان صاحب نے قاضی کا بندوبست کردیا___
سیمل البتہ غائب تھی__عارش کے معلوم کرنے پہ پتا چلا کے وه پرئیر ہال کی جانب گئ تھی___زینب سیمل کی امی کو سنبھال رہی تھی___
جب قاضی صاحب آئے تو سیمل کو بلانے زینب کو بھیجا گیا___اتنی دیر میں وه خود سیمل ک سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا__اور ان سے انکی مرضی کے بارے میں جاننے لگا___وه روتے ہوئے عارش کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیر رہیں تھیں گویا بولنا چاه رہی ہوں کہ ہمیشہ خوش رہنا__
دوسری طرف سیمل رو رو کر اپنے بابا جانی کی لمبی زندگی مانگ رہی تھی__ اپنے لیے اس نے کچھ نہیں مانگا تھا____مشرقی لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں، ماں باپ کے فیصلے پہ تہہ دل سے سر جھکانے والی ____اس کی تو پھر ماما بابا میں جان بسی تھی___ زینب جیسے ہی ہال میں اندر داخل ہوئی ، زینب آگے بڑھ کر اسکے گلے لگا کر اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی مگر بے سدھ___
اسکو لے کر وه آئی سی یو کی طرف آئی جہاں یاسمین عرف بیگم اکرام انکے ھمراہ عارش ساتھ کھڑے دونوں کا انتظار کررہے تھے___
جیسے ہی سیمل اور زینب آئے وه سب آئی سی یو کی جانب چل دیے جہاں سلمان صاحب قاضی کے ہمراه موجود تھے___
نکاح پڑھا دیا گیا تھا__اکرام صاحب نے ہاتھ جوڑ لیےتھے سلمان صاحب کے سامنے ___جسے انھوں نے غصے سے ڈانٹ کے صحیح کروایا___
"اب یہ میری بیٹی ہے___"سلمان صاحب بس اتنا ہی بولے تھے ___البتہ
سیمل اور عارش کی طرف گہری خاموشی تھی___ زینب خوشی سے اسے گلے لگا رہی تھیں____سیمل کو تو بس کسی کے کندھے کی ضرورت تھی___جیسے ہی وه ملا بارش شروع ہوگئی ____جسکو دیکھ کر سب محظوظ ہورہے تھے___سیمل کی امی کا بھی بی پی ہائی ہو رہا تھا تو وه ٹیبلٹ کھانے چلی گئیں___ سب آئی سی یو سے باہر آگئے تھے___