عارش جب اپنی ڈیوٹی پہ پہنچا تو شام کے سائے ہر سو پھیل گئے تھے__ اس نے اپنے کواٹر میں آتے ہی سارا سامان وارڈروب میں رکھا____ موبائل فون چارج پہ لگا ہی رہا تھا که گیٹ ناک ہوا___ وه گیٹ کھولنے آیا___ پھر اسے سرونٹ سے اطلاع ملی کہ سر نے ایک گھنٹے میں میٹنگ کال کی ہے___ آپ پہنچ جایۓ گا___ وه بات سن کر فریش ہونے کی غرض سے واشروم چلا گیا___ نہا دھو کر وه آدھے گھنٹے میں فارغ ہوا__ فارغ ہوتے ہی اس نے گھر کال اپنی خیریت کا بتانے کے لیۓ کی___ ابھی دوسری رنگ گئی ہی تھی کہ سیمل نے وائر لیس پہ آتی کال ریسوو کی___
*السلام علیکم*___ کیسی ہیں آپ__؟"
"وعلیکم السلام__بلکل ٹھیک__آپ خیریت سے پہنچ گئے__؟"
"الحمد الله آپکی دعائیں ساتھ تھیں__ امی ابو کو بتا دیجیے گا میں خیریت سے ہوں یہاں__"عارش نے تفصیل پیش کی____
"اوکے میں بتا دیتی ہوں___اور مجھے آپکو تھینک یو بولنا تھا اتنی خوبصورت اور قیمتی رنگ کے لیۓ___"سیمل نے اپنے ہاتھ کی تیسری انگلی میں موجود دلکش اور نازک سی رنگ کو دیکھتے ہوئے کہا جو عارش نے اسے پچھلی رات کو باتیں کرتے ہوئے پہنائی تھی ___
"مائن پلیژر وائفی___اور آپ ٹھیک ہیں___؟؟" عارش نے اسکی غیر ہوتی حالت کا خیال کیۓ بغیر دوسرا سوال داغا___
"جی الحمدالله ٹھیک ھوں__"
پھر تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے عارش کی رانا آنٹی اور سلمان انکل سے بات کروائی___
"جی سر آپ نے بلایا___" عارش اپنے سر کے روم میں داخل ہوتے گوش گزار ہوا___
"ہاں___تم سے ضروری بات کرنی تھی__ کیپٹن عارش کل آغا باران ان لڑکیوں کو( یو کے) بائی شپ ٹرانسفر کررہا ہے___ آپکو اور کیپٹن ارصم کو جلدی ہی ایکشن لینا ہوگا___"
"جی سر سارے پلین ریڈی ہے__ بس آپکی اجازت درکار تھی___ سر ہمیں بہت احتیاط سے کام کرنا ہوگا اس لیۓ میں سارے کمانڈرز کے ساتھ ابھی کچھ دیر میں میٹنگ کرنا چاہتا ہوں __کیا آپ آکے ہمیں مزید رہنمائی دیں گیں___؟؟" عارش اپنے کام میں کافی جوشیلا تھا اسی لیۓ وه اپنے مطالبات آرام سے سر سے کہ دیتا تھا___
"جی ضرور میں بالکل آونگا میٹنگ میں___"سر جانتے تھے عارش جو کام کرتا ہے ، سب جانتے بوجھتے، سمجھتے، سب کچھ دیکھ کے کرتا ہے___ اسی لیۓ سر فوراً مان گیۓ____ کافی دیر میٹنگ چلی اس میں کیپٹن عارش اور کیپٹن ارصم نے اپنے ایکسپیرینس کا ہر طریقے سے برملا اظہار کیا جس سے سارے کمانڈرز کو بھرپور حوصلہ افضائی ملی__
علی الصبح کا سورج طلوع ہوتے ہی سارے کیپٹن اور کمانڈر جو عارش کے انڈر ورک کررہے تھے محاز پہ جانے کیلۓ تیار ہوگئے___
عارش کو ساری رات سکون سے نیند نہیں آسکی تھی__البتہ ارصم دنیا و مافیا سے بے خبر مدہوش سویا تھا۔___
اپنی اپنی جگہ پہ پہنچ کر وه سب بس آغا باران کی شپ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے__
بہت سی شپس کی آمد ہوئی تھی مگر کیپٹن عارش اور کیپٹن ارصم نے بھیس بدل کر ایک ملاح بن کر ہر طریقے سے جو کشتی انہیں مشکوک لگتی اسے انہوں نےجانچ لیا تھا__
آخر اندر کے ذرائع سے خبر ملی کہ وه تمام لڑکیوں کو شپ میں ٹرانسفر کر چکا ہے بس وه اب محوِ سفر ہونے ہی والی ھے___
عارش اور ارصم نے اپنے طریقے کو آزماتے ہوئے نہایت ہی کوئی خراب لباس زیب تن کیۓ شپ کی جانچ پڑتال کے لیۓ گئے__ انکی آمد کو دیکھ کے آغا باران اور دیگر اسکے آدمیوں کے پسینے نکلنے لگ گئے__
"سر آپکی شپ بیلنس نہیں ہورہی پانی میں آگے جاکے مشکل ہوسکتی ہے__ ہم چیک کرلیتے ہیں کوئی بھاری سامان ھوتو وه آپ یہی رکھ جائیں___" عارش نے اپنے مخصوص انداز میں گویا سب سننے والوں کے چھکے چھڑائے___
"کوئی مسئلہ نہیں ہے جاؤ تم جاہل لوگ اپنے کام سے کام رکھو___"
آغا باران کا آدمی بولا نہیں غرایا تھا___
کیوں ہمیں تو طےخانہ دیکھنا ہے___اور ذرا نیچے جاکے دیکھو آغا باران اور باقی سب ہمارے قبضے میں ہیں____
کافی مہارت سے سارے کمانڈرز نے آغا باران کے سارے آدمیوں کو قابو کرلیا تھا___ اور اب آغا باران کو کیپٹن عارش اور کیپٹن ارصم اپنا یرغمال بنا رہے تھے___ پولیس نے عین وقت پہ چھاپا مارا اور آغا باران اور اسکے ساتھیوں کو اپنے انڈر میں لینے کا حکم دیا___البتہ عارش چاہتا تھا کہ وه نیوی فورس کے انڈر میں جائیں___ تاکہ وه لوگ صحیح سے سب کچھ أگلواسکیں__ کہ کتنے اور لوگ شامل ہیں وغیره وغیره___
لیکن پولیس نے اعتماد میں لے کر انہیں یہ احساس دلایا کہ وه انہیں کسی حال نہیں بخشیں گے___
عارش کی چھٹی حس کسی ناگہانی آفات کا پتہ دے رہی تھی___ لیکن ارصم اور باقی سب نے فوراً مان کر بلآخر غلطی کر ہی دی___
تمام لڑکیاں صحیح سلامت برآمد ھوئیں تھیں اور یہ سارا لائحہ عمل عارش کے زیرِصدارت ہوا تھا___اسی لیۓ نیوی کی طرف سے اسے ایک عالی شان بنگلہ ایشو کردیا گیا تھا___عارش کے دماغ میں فورا ہی سیمل کی رخصتی کا خیال آیا___ امی ابو تو کسی طور اُس گھر سے اِس گھر میں شفٹ نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ سلمان صاحب بزنس کو بھی سنبھال رہے جو کہ اب پوری طریقے سے انکی ذمے داری تھی___ سیمل کو بزنس سے ھمیشہ ہی چڑ رہی تھی تبھی وه میڈیکل سائڈ پہ تھی___ سلمان صاحب سیمل کو بھی پھر بزنس میں انولو نہیں کرسکتے تھے___ لیکن سیمل کی رخصتی کا جواز بالکل ویلڈ تھا___
لاؤنج میں وائر لیس کافی دیر سے بج رہا تھا ___ سیمل اپنے کمرے میں رو رہی تھی آج اسے امی کی یاد بہت ستا رہی تھی___
کافی دیر فون بجتے رہنے کہ بعد بند ہوگیا__
"شاید امی نماز پڑھ رہی ہونگی میں ہی دیکھ لیتی ہوں___" دوسری بار جب رنگ ہونا شروع ہوئی تو وه اپنے آپ سے مخاطب ہوئی__
"ہیلو__ السلام علیکم__" کافی بھاری آواز میں زیر کلام ہوئی__
"وعلیکم السلام___ آپ ٹھیک تو ہیں نہ وائفی___آپ کی آواز ___اوه مائی گاڈ آپ رو رہی تھیں تبھی اتنی بھاری آواز ہورہی ہے___
عارش کافی فکر مند ہوگیا تھا تبھی اس نے سوالوں کے ڈھیر لگا دیے___
"جی میں ٹھیک ہوں__بس امی کی یاد آرہی تھی__ اسی لیے______" آگے کی بات اسکی ہچکیوں کے باعث پوری نہ ہوسکی___
"لسن بےبی گرل پلیز ڈونٹ کرائے اٹس ہرٹس____ آپ سب کو ایک خوشی کی خبر دینی ہے بس شرط ہے آپ فٹافٹ رونا بند کریں___"عارش نے اسکا موڈ بحال کرنا چاہا___
عین اسی وقت امی اپنے کمرے سے برآمد ہوئیں__کس کا فون ہے سیمل بیٹی____
"امی *اِن* کا فون ہے آپ سے بات کرنے کا کہ رہے تھے___" سیمل کو کوئی بات نہ سجھائی دی تو اس نے یہی بات بنا لی__
بیٹی تم رو کیوں رہی ہو___ آؤ میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو اور پھر وه سیمل کو وه اپنے کمرے میں لے آئیں___وه بیڈ پہ بیٹھ گئیں__اور سیمل انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی___اسے بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ وه اپنی ماں کی گود میں آگئی___وہی ممتا اسے صحرا کے اندھیروں سے کھنیچ لائی___ عارش اس قلیل مدت میں لائن پہ تھا اور من و عن سن رہا تھا___
دوسری طرف عارش اپنے لیۓ *اِن* کا لقب سن کر پھولے نہیں سماں رہا تھا___
ساری بات سننے کے بعد انھوں نے عارش سے واپس گھر آمد کا پوچھا___ جس پہ عارش نے تین دن بعد کی اطلاع دی___وه چاہتا تھا کہ جب وه واپس اون دا ڈیوٹی جائے تو سیمل اسکے ساتھ اسکے عالیشان بنگلے میں شفٹ ہوجاۓ__
امی نے سرسری سی ہامی بھری تھی کیونکہ سیمل انکی گود میں نیند کی وادی میں جانے والی تھی وه کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاھتی تھیں کہ اس بیچاری بچی کی نیند خراب ہو___پہلے ہی وه بہت مشکلوں سے بچ کہ نکلی تھی__اب بس خوشیاں اسکے انتظار میں تھیں___کم از کم عارش کی ماں تو یہی سوچتی تھیں لیکن کون جانے ابھی ایک کٹھن امتحان سے اسے مزید گزرنا تھا____
مزید تھوڑی دیر بات کر کے عارش نے کال ڈسکنیٹ کردی کیونکہ اسکی قیمتی متاع اپنی ساس کی گود میں پرسکون ہوکر سوگئی تھی__
اگلے تین دن سیمل مسلسل بخار میں رہی___ اور چوتھے دن عارش کی آمد تھی اس لیۓ وه خوشی کےمارے تھوڑی بہتر ہوگئی تھی__ عارش نے تین دنوں میں اپنے بنگلے کو ایک نئے انٹئریر سے مزید خوبصورت کردیا تھا بس وہاں ایک ملکہ کی کمی تھی جو عارش کی دل کی سلطنت اور اسکے محل پہ راج کرتی___
وه آج اسی کو لینے گھر جارہا تھا___ تاکہ وه اسکا کھانے پینے ،سونے اٹھنے کا بھرپور خیال رکھے___اسے اپنی قربت بخشے___عارش اسے اس رشتے کے تحت یہاں لانا چاہتا تھا___اور سیمل نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا___
رات کھانے کے بعد اسکو پھر بخار چڑھنے لگا___ لیکن اس نے دھیان نہیں دھرا__ وه بس بے صبری سے لاؤنج میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی جب رانا آنٹی کافی کے دو مگ لیۓ چلی آئیں___دونوں نے مل کر کافی پی پھر وه اپنے تھکنے کا کہہ کر سونے چلیں گئیں___البتہ سیمل ابھی نماز پڑھنے چلی گئی___نماز سے فارغ ہو کر وه دوباره لاؤنج کی طرف بے اختیار چل پڑی__ وہاں جاکے اسے سردی کا شدید احساس ہوا__ وه اس وقت صرف ایک نرم سرخ شال کندھوں پہ ڈالی ہوئی تھی__ لیمن یلو کلر کے نیٹ کے سوٹ میں وه خود بھی ایک لیمن لگ رہی تھی__ یہ دونوں چیزیں اسکی خوبصورتی کو مزید دس چاند لگا رہے تھے___وه رات کے ایک بجے سونے کی موڈ میں نہیں تھے__ دوپہر کو وه بھرپور نیند لے کر اپنا رات کا کوٹا مکمل کر چکی تھی__ سلمان انکل اور رانا آنٹی پہلے ہی سو چکے تھے__وه لان کی جانب آگئی جہاں سے مین گیٹ صاف دکھتا ہے__وه وہیں موجود چار کرسیوں کے سیٹ میں سے ایک کرسی پر پاؤں اوپر رکھ کے سمٹ کے بیٹھ گئی___
سردی بہت بڑھ گئی تھی اوپر سے اسے بخار دوباره چڑھ گیا تھا تو اور احساس ہورہا تھا___لیکن وه تھی تو نا سمجھ ہی نہ اوس میں بھی لان میں بیٹھی رہی___ اسکا دماغ مختلف تانے بنتے بنتے کب نیند میں کھو گیا اسے احساس ہی نہ ہوسکا____ وه سونا بلکل نہیں چاہتی تھی وه تو عارش کو یے احساس دلانا چاہتی تھی کہ اسکے دل میں عارش کی محبت جگہ بنا رہی ہے__مگر وه پھر بھی سو گئی تھی شاید بخار اور سردی کی وجہ سے اسے dizziness فیل ہورہی تھی تبھی وه وہیں بیٹھے بیٹھے سوگئ تھی____
"آج اُوس کچھ زیاده نہیں گر رہی___ " عارش اپنے آپ سے ہم کلام تھا___اسوقت رات کے ایک بج رہے تھے وه جلد از جلد اس بڑھتی سردی میں گھر پہنچنا چاہتا تھا___ اس شدید دھند میں وه پورے احتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا___ جس وقت وه اپنے علاقے کی حدود میں پہنچا تو اس وقت ڈھائی بج رہے تھے___اسے آج رات کو سفر کرنے کا بہت غلط خیال آیا تھا___اس نے سوچا تھا کہ وه ٹریفک نہ ہونے کے باعث جلد از جلد گھر پہنچ جائے گا مگر اسکا یے خیال دھند نے ملیامیٹ کردیا تھا___
مین گیٹ کے سامنے پہنچتے ہی اس نے ہارن دیا تو گیٹ کیپر فوراً نیند میں ڈوبا ہوا دوڑا ہوا آیا___
گیٹ کھلتے ہی اس نے یکایک گاڑی گھرکی روش پر زن سے آگے بڑھادی___گاڑی پارک کے کے وه جب اندر کی طرف بڑھنے لگا تو اسکی ایک بے اختیار نظر لان میں موجود کرسی پہ سمٹی بیٹھی اپنی کل متاع پہ پڑی___
وه اس طریقے سے بیٹھی تھی کہ دور سے دیکھنے پر لگ رہا تھا وه جھک کے نیچے دیکھ رہی ہے مگر در حقیقت وه سو رہی تھی___
وه جب قریب آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اسکی قیمتی حیات سو رہی تھی___ وه نیند میں اتنی غرق تھی کہ اسکا سر کرسی کی نوک سے لگنےوالا تھا وه تو عارش قریب کھڑا تھا اس نے بروقت سیمل کہ سر کے نیچے ہاتھ کیا ورنہ تو بہت زور کی لگتی___جھٹکے سے سیمل کی آنکھ بھی کھل گئی___
"سیمل آپکو ٹمپریچر ہورہا ہے___؟" عارش کو اندازه نہیں تھا کہ وه اتنی احمق بھی ہے جو اتنی سردی میں اوس میں فقط ایک شال لیۓ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی ہوگی___
"جی ابھی ہوا تھا__"
"پھر بھی آپ یہاں بیٹھیں ہیں__ اتنی ٹھنڈ میں__ "
"وه میں آپکا انتظار_____" آگے کا جملہ وه اپنی شرم و حیا کے مارے پورا نہیں کر پائی___
"اندر چلیے پلیز__" یہ کہتے ساتھ ہی اس نے سیمل کا نرم گداز ہاتھ تھامتے ہوئے اسے اندر لے آیا___
دوا دے کے اسے اپنے کمرے میں ہی اپنے پاس سلایا اور خود بیڈ کے سامنے پڑے کاؤچ پہ سو گیا___
فجر کی نماز پڑھ کر وه جب فارغ ہوئی تو عارش ابھی تک نہیں آیا تھا__ سیمل نے مزید سونے کا اراده ترک کر کے کچن کا رخ کیا___آج اسکا کوکنگ کا موڈ ہورہا تھا اس لیۓ اس نے کُک کے ساتھ مل کر گرما گرم حلوه پوری بنائی___ سب بناکر وه نکل ہی رہی تھی جب عارش اپنے ٹریک سوٹ میں کچن میں جوس لینے کی غرض سے داخل ہوا__ ابھی اس نے جوس کا بولا بھی نہیں تھا اور سیمل نے اسکا اراده جانچتے ہوئے اورنج جوس کا گلاس اسکی طرف بڑھایا__ عارش نے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے جسے تھام لیا___ وی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جہاں وه سردی میں اپنا خیال نہ رکھتے ہوئے سو سکتی ہے اور اپنے احمق ہونے کا عندیہ دے سکتی ہے تو پھر بغیر بولے اپنے شوہر کی بات بھی سمجھ سکتی ہے___
جوس لے کے نکلتے وقت اس نے کُک (cook) سے بچتے ہوئے اسکے کان میں صرف اتنی سی سر گوشی کی اور چلا گیا___
"آپ میں بیوی والی گٹس آگئے ہیں___ بٹ تھینک فور دِس___"
""مجھے اس نیچ انسان کے سارے ریکارڈ چاہیۓ___پولیس سے تو میں رشوت دے کر چھوٹ گیا__مگر اب اس کمینے کو نہیں چھوڑو گا___ اس اب اس بات کا عملی ثبوت دونگا کہ زخمی شیر ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے___"" آغا باران جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو رشوت دے کہ اس ملک کے ساتھ برا کر رہے ہوتے ہیں___اور اس ملک کے محافظ کو بھی غداری کی طرف کھینچ لیتے ہیں___ آغا باران نے بھی یہی کیا تھا___ عارش اور ارصم کی سب سے بڑی غلطی یہی ہوئی تھی کہ انھوں نے آغا باران اور اس کے آدمیوں کو پولیس کے حوالے کیا تھا جو بآسانی چند لاکھ کی رشوت دے کر پولیس کا منہ بند کرچکے تھے___
"سر ہم نے اس کے بارے میں پتہ کروایا ہے وه نیوی میں ایک کیپٹن کی پوسٹ پہ کام کرتا ہے__اور ایک سیکرٹ ایجنٹ کے فرائض بھی انجام دے رہا ہے___ "آغا باران کے آدمیوں میں سے ایک آدمی نے اپنی طرف سے معلوم کرده انفورمیشن پیش کی___
"اس نے ہماری دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ہے ہم بھی اس کی کمزوری پہ ہاتھ ڈالیں گیں___ ہمیں اسکی ہر پل کی خبر چاہیۓ___" آغا باران نے جیسے کوئی حکم داغا__
"جی سر میں اسکے سارے ریکارڈ نکلواتا ہوں___ موبائل ،ای میلز سب کا ریکارڈ سر___" اسکے ایک آدمی نے اپنا خیال پیش کیا___
اگلے دو دن عارش ره کر سیمل کو اپنے ساتھ لے کر اپنے نئے بنگلے میں شفٹ ہوگیا تھا___ سیمل نا زیاده اگنور کرتی تھی نہ ہی زیاده مخاطب کرتی تھی___تھوڑی عرصے میں وه لوگ ایک ساتھ کمفرٹیبل ہوگئے تھے لیکن سیمل پھر بھی تھوڑا جھجھکتی تھی مگر عارش کا خیال وه اپنی فل کنسنٹریشن سے رکھتی تھی چاہے اسکی اپنی ذات کی ضروریات کہیں پیچھے ره جاتیں تھیں___
آج سیمل کا صبح سے کہیں باہر جانے کا موڈ تھا اور عارش نے آکے جو کہا تھا وه سن کر وه کچھ جھجھک سی گئی تھی___ عارش بس اسے خوش کرنا چاہتا اسی غرض سے وه اسے آج پی سی ہوٹل لے کر جانا چاہتا تھا___
تقریبا رات نو بجے قریب وه دونوں اپنی وٹز میں پی سی کے لیۓ روانہ ہوئے___
عارش اب سیمل کو اپنے ہمراه لیے پی سی ہوٹل کے اندر قدم رکھ رہا تھا___سیمل کا ایک ہاتھ عارش کے ہاتھ میں تھا__اور ایک خوبصورت احساس سیمل کے گرد حصار لیۓ کھینچے تھا__بہت اہم رشتوں کو کھو کر ایک اہم رشتہ اس نے پا لیا تھا پر قیمت بہت مہنگی ادا کرنی پڑی تھی__
وہاں آکر عارش نے اسے بہت اچھا ڈنر کرایا__واپسی پے وه سی سائڈ گئے پر وه کسی طرح سے باہر نکلنے کو راضی نہیں تھی___
"نہیں پلیز میں نے یہاں سے آگے نہیں جانا اب پلیز مجھے بہت ڈر لگتا ہے رات میں سمندر سے___" سیمل نے اپنا ڈر پیش کیا___
"پلیز آپ چلیں تو سہی میں ہوں نہ آپکے ساتھ__ بلیو می میں آپکا ھاتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا__"عارش نے اپنے طور سے منانا چاہا___
اسکے آنچ دیتے لہجے سے مزید بچتے ہوۓ اس نے صرف تھوڑا آگے جانے کی اجازت دے دی____
ساحل کے کنارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آج وه دونوں سب سے بے نیاز آرام سے گفتگو کرتے ہوۓ چل رہے تھے__ جب عارش اچانک سے اسکے سامنے اپنے گھٹنوں پہ بیٹھ گیا__ اور اپنی محبت کا اعتراف کرنے لگا___ سیمل کو تو مانو سانپ سونگھ گیا تھا___بس آنسو اسکی آنکھوں سے رواں تھے__اسکے سامنے سارے منظر دھندلا گئے تھے___ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ عارش کیا کیا بول رہا ہے___
ہوش جب آیا جب عارش نے اسے اپنی مضبوط آہنی بازؤوں میں گھیر لیا___
اسکےکندھے پہ سر رکھ کر وه بہت روئی بہت زیاده___ شاید وه اپنی قسمت پہ نازاں تھی یا پھر افسرده___نازاں اتنے خوبصورت رشتے کے ملنے پہ تھی__اور افسرده ماں باپ کے ساتھ نہ ہونے پہ ___برحال وه اپنی کیفیت سمجھ نہیں پارہی تھی___
زندگی ایک نئے ڈگر پہ آگئ تھی___وه دونوں اپنے مابین موجود رشتے کو اپنے دل سے قبول کر چکے تھے__ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے ____ عارش کو اب ایک نیا خیال آیا تھا کہ سیمل دن بھر فری ہوتی ہے تو اس کا مائیگریشن کروالیا جائے تاکہ وه اپنی کچھ عرصے کی پڑھائی کو مکمل کر کے ایک کامیاب ڈرپوک ڈاکٹر بن جائے___کم از کم عارش سیمل کو ڈرپوک ہی سمجھتا تھا___اس نے یہ بات سیمل سے بھی کی تھی مگر وه کسی طور ایک انجان شہر میں پڑھنے کے لیۓ راضی نہیں ہورہی تھی___ اور اوپر سے اب تو زینب جیسی دوست بھی ساتھ نہیں ہوگی___ اور عارش اب اسے اس احماقت کرنے سے روکنا چاہتا تھا اس لیۓ اس نے زبردستی اسکا ٹرانسفر اسلام آباد کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں کروادیا تھا___ پر سیمل کسی طرح جانے کے لیۓ تیار نہیں تھی___
اگلی صبح سیمل عارش کی ضد کو سمجھتے ہوئے ناچار یونی جانے کے لیۓ تیار ہوگئ___ایک غلطی عارش نے کی تھی اسے زبردستی یونی میں ایڈمیشن دلوا کے اپنے سے دور کرنےکی کی اور ایک غلطی سیمل کر رہی تھی کہ وه دو دن سے اس سے ناراض تھی__ دو دن ہوگئے تھے یونی جاتے ہوئے__سیمل کو یونی لے کے جانا اور گھر واپس لانے کی ذمے داری عارش نے خود ہی اٹھائی تھی___عارش روز اسے صبح یونی پہنچنے کے بعد کال کرتا اور حال احوال دریافت کرتا___سیمل نے سوچا کیوں نہ آج فون لے کے ہی نا جاؤں___تھوڑا تنگ میں بھی کروں بس یہیں سیمل سے غلطی ہوئی تھی___ ان دونوں کو نہیں پتہ تھا ان دونوں کی ضد اور احمقانہ غلطی کی سزا اتنی خوفناک اور اذیت ناک ہوگی___
"سر باران میں نے اسکے ساری چیزوں کے ریکارڈ نکلوائیں ہیں__وه سب سے زیاده کالز ایک نمبر پہ کرتا ہے جو اسکی بیوی ہے اور یہیں اسی شہر میں ره رہی ہے اسی کے ساتھ___ میڈیکل یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ ہے سر___ " آغا باران کے آدمیوں میں سے ایک نے ساری اپنی طور سے معلوم کرده ضروری باتیں آغا باران کو بتائیں___
"ٹھیک ہے ہم بھی اسکی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھیں گیں__ اسکی بیوی کو مہره بنا کر مزید ساری معلومات حاصل کریں گیں___" آغا باران نے گویا سچ کا سہاره لے کر سب کی پریشانی دور کی___
"جتنی جلدی ہو سکے اسے اپنی قید میں لو___"آغا باران نے نیا حکم داغا____
"جی بہتر سر___" انکے ایک بندے نے انکے حکم کی تعمیل کرنے کی ٹھانی_