”نہیں… نہیں۔ بیٹا! میرے علاوہ کسی کو خبر نہیں۔ چھوٹے قصبوں، دیہات میں نائی، دائی اور حکیم سے کم ہی باتیں چھپتی ہیں۔ دیہات میں لوگ اب بھی اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ یہاں سب کو سب کی خبر ہوتی ہے۔میری دکان پر سارا دن عورتیں ایک دوسرے کی چغلیاں کرتی ہیں، خبر یں سناتی ہیں۔
مزمل بیٹا! اچھی باتیں خوش بو کی طرح پھیلتی ہیں اور بُری باتیں بدبو کی طرح پھیلتی ہیں۔ پھیلتی دونوں ہیں بیٹا! بڑی بات کہنا آسان ہے عمل کرنا مشکل بلکہ بہت ہی مشکل۔ کیا کہا تھا تم نے؟ اُمید پانی کی طرح ہوتی ہے جو کبھی بھی رحمت کے بادلوں سے برس سکتی ہے۔ تمہارے منہ سے بڑی بات سُن کر اچھا لگا۔ اب میری بھی ایک بات یاد رکھو! آم اور عشق جل کر ہی پکتا ہے۔” حکیم صاحب نے تفصیل سے سمجھایا تھا جو کہ مزمل کے مزاج کے برعکس تھا اُس نے کچھ خفگی سے کہا:
”حکیم صاحب! نہ تو میں آپ کا مرید ہوں اور نہ ہی مریض۔ میں تو بزنس مین ہو۔ یہ عشق و عشق پر میرا تو یقین نہیں ہے۔ میرے والدین بھی ایک دوسرے سے عشق کرتے تھے۔ میں اُن دونوں کے عشق کی راکھ ہو۔”
”اُمید کی بات کرتے ہو اور خود کو راکھ بھی کہتے ہو۔ بیٹا! اگر کہنا ہی ہے تو راکھ کی بجائے خاک کہہ لو راکھ میں مایوسی ہے اور خاک میں عاجزی۔ عشق عاجزی کے راستے کا ہی مسافر ہے۔” اس بار حکیم صاحب نے قدرے شگفتگی سے سمجھایا۔حکیم صاحب کی نرمی اور اچھے اخلاق نے مزمل پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔
”حکیم صاحب! پتا نہیں کیوں دادوکے بعد میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپ سے سب کچھ کہہ دوں جو میرے دل میں ہے۔” حکیم صاحب کے روپ میں مزمل کو کچھ اپنایت کا احساس ہوا تھا۔ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی۔
”تم کہہ سکتے ہو، میں تمہارا اپنا ہوں کوئی غیر نہیں اس لیے میں نے تمہیں بیگ صاحب بجائے بیٹا کہا تھا۔ تم سب کچھ کہہ دو میں سُن رہا ہو۔”
”مجھے نفرت ہے، شدید نفرت۔ اپنے والدین سے۔ وہ دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں اگر میری دادی نہ ہوتی تو…” مزمل کی آنکھیں سرخ تھیں اور رگیں تن گئیں۔
”اُن کے ہونے نا ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا نو پرافٹ… نو لوس…”
یہ صورتِ حاصل دیکھتے ہوئے حکیم صاحب نے مزمل کو پانی کا گلاس دیا:
” یہ پی لو مزمل بیٹا!”
مزمل غٹا غٹ سارا پانی پی گیا۔
”کتنے خود غرض تھے وہ دونوں۔”
”مزمل بیٹا! تم واقعی اچھے بزنس مین ہو۔ رشتے فائدے اور نقصان سے ماورا ہوتے ہیں۔ تم رشتوں کو بھی فائدے اور نقصان کی طرح دیکھ رہے ہو۔ ماہم کی سوچ تم سے مختلف ہے۔ کل دوپہر مریم بہن آئی تھی میرے پاس۔ ماہم کے پیٹ میں درد تھا۔ میں گھر چلا گیا۔ میں نے مریم بہن سے کہا آپ نیم گرم پانی لے کر آئیں۔ میں نے ماہم سے پوچھا:
”بیٹی! کہو تو میں تمہارے تایا سے بات کروں کہ وہ ماجد کی شادی دوسری جگہ کر دیں اور تمہاری اُس لڑکے سے۔”
یہ سُن کر ماہم کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور وہ گردن جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔
”میری بچی! میں تمہاری شرافت اور پاک دامنی کی گواہی دیتا ہوں تمہارے ہی سامنے۔ ماہم بیٹی جو بھی تمہارے دل میں ہے صاف صاف کہہ دو۔ میں تمہارا ساتھ دو ں گا۔”
”حکیم چچا! محبت کی چھری سے عشق کا گلا نہیں کاٹا جا سکتا۔ پتا نہیں یہ کیا ہے۔ مجھے اُسے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے اس کا انتظار بھی رہتا ہے۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے میں تب بھی اُسے دیکھ رہی ہوتی ہوں، مگر اُس نے کبھی نظر نہیں اُٹھائی۔ میں کھڑکی میں کھڑے رہ کر نماز ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔ جب وہ باہر آتا ہے صرف اِک نظر وہ مجھے دیکھتا ہے اُس کے بعد نظریں جھکا کر چلا جاتا ہے ۔ میں نے خود ہی اپنی اس بے وقوفی کو محبت کا نام دے دیا ہے۔”
”بھائی صاحب! یہ لیں نیم گرم پانی۔” وہ اپنی ماں کی آواز پر خاموش ہوگئی۔
”میں آپ کے لیے چائے لے کر آتی ہوں۔” مریم بہن نے جاتے ہوئے کہا۔ ماہم گردن جھکائے بیٹھی رہی۔
”ماہم بیٹی! تم مجھے اپنا باپ سمجھ کر بات کر سکتی ہو”
”حکیم چچا! میں آپ کو ابو کی جگہ سمجھتی ہوں اسی لیے وہ بات کہہ رہی ہوں جو میں نے امّی سے بھی نہیں کہی۔ مجھے مزمل سے محبت ہے، مگر اپنے ماں باپ سے عشق ہے۔ سب سے بڑے عاشق تو ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔۔۔جو اپنی اولاد کی خاطر ہنستے مسکراتے ساری تکالیف سہ جاتے ہیں۔ والدین سے بڑا عاشق تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔”
”ماہم بیٹی۔۔۔! یہ عشق ہے کیا؟”
میں ماہم کو سمجھنا چاہتا تھا۔”حکیم چچا! عشق کے بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ میری رائے ہے عشق تو صرف ماں باپ کرتے ہیں اپنے بچوں سے ۔ اللہ میاں جب اولاد کی نعمت دیتا ہے، تو ساتھ ہی والدین کے سینوں پر عشق کا نزول بھی ہو جاتا ہے۔ عشق عطائی ہے اور محبت حکمی۔ اللہ میاں والدین کو اولاد سے محبت کا حکم نہیں دیتا کیوں کہ وہ تو عطا کر چکا ہوتا ہے۔ ہاں اولاد کو محبت کا حکم ضرور دیتا ہے۔ میں حکم ماننے والوں میں سے ہوں۔”
”ماہم بیٹی! ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں سے عشق نہیں کرتے۔”
”حکیم چاچا! میں نے تو آج تک ایسے والدین نہیں دیکھے۔”
”ماہم بیٹی! تمہارے نہ دیکھنے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ ایسے والدین بھی ہیں اُن میں سے چند ایک کو میں بھی جانتا ہوں۔”
”بھائی صاحب! آپ کی چائے۔ ” مریم بہن نے چائے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”بھائی صاحب! آپ کی پھکی نے تو کمال کر دیا ہے۔ ماہم تو بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔”
”مریم بہن! یہ پیٹ کا درد نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے اپینڈس کا ہے۔ آپ اسے ہسپتال لے جائیں۔”
”میں مومنہ کو ابھی کہتی ہوں کہ اپنے تایا جی کو فون کر دے کہ ماجد کو بھیج دیں۔” مریم بہن یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھی۔
”حکیم چچا واقعی سچ میں ایسے ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد سے عشق نہیں کرتے؟”
”ماہم بیٹی! عشق کہہ لو یا پھر محبت۔ والدین کے دلوں میں اولاد کی محبت اللہ سبحانہ’ و تعالیٰ ہی ڈالتا ہے۔ یہ صحیح کہا تھا تم نے اس میں انسان کا کیا کمال ہے یہ تو میرے مولا کی دین ہے۔ ہاں! اگر اولاد اپنے ماں باپ سے تمہارے جیسی محبت کرے یہ بڑی بات ہے۔ اُف کے بغیر، محبت اور ادب۔”
”پھر بھی ایسے والدین ہوتے ہیں۔” ماہم حیرت سے بولی۔
”ہاں کچھ بد بخت اس جذبے سے زیادہ اپنی خواہشات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اولاد کو چھوڑ کر اپنی خواہشوں ، حسرتوں اور حرصوں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔”
”حکیم چچا! آپ جانتے ہیں ۔ ایسے والدین کو جنہوں نے اپنی اولاد کو چھوڑ کر اپنی حسرتیں اور خواہشیں پوری کی ہوں۔” ماہم نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں جانتا ہوں۔ ماہم بیٹی! تمہارا باپ بہت اچھا انسان تھا۔ ساری دنیا اُس جیسی نہیں ہے۔”
میں نے ماہم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور وہاں سے اُٹھ کے آگیا۔
حکیم صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجی انہوں نے کال ریسیو کی۔
”مزمل بیٹا! ایک مریض کی طبیعت خراب ہے۔ میں معراج کے گائوں تک جا رہا ہوں۔ میں مہوش اور ماہ نور کو بھیجتا ہوں تم اُن سے گپ شپ لگائو۔ ہاں یاد آیا خالہ کے لیے دیسی گھی خریدا ہے ماہ نور سے کہتا ہوں وہ تمہیں دے دیتی ہے، وہ یاد سے لے جانا۔”
حکیم صاحب نے یہ کہا اور بیٹھک سے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ماہ نور مہوش کی وہیل چیئر کو دھکا لگاتی بیٹھک میں داخل ہوئی۔ گھی کا ڈبا مہوش کی گود میں تھا۔
مزمل تھوڑی دیر مہوش سے باتیں کرتا رہا۔ ماہ نور سے اُس نے صرف اتنا پوچھا:
”تم مانچسٹر کب جا رہی ہو۔”
پھر اُس نے اجازت لی اور بیٹھک سے نکل آیا۔ باہر سردی تھی اور دھند بھی۔ مزمل نے مسجد کی سیڑھیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کھڑکی کی طرف دیکھا جو بند تھی۔ دیسی گھی کا ڈبا اُس کے بائیں ہاتھ میں تھا۔
ماہم کی کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے آج مزمل کی آنکھیں بے نور تھیں۔ وہ فیکٹری جانے کے بجائے لاہور واپس چلا گیا۔
٭…٭…٭
لاہور پہنچ کر اُس نے سیدھا گھر کا رُخ کیا۔ ممتاز بیگم کو اُس کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ وہ صبح سے پچھلے پہر تک کمرے میں ہی تھا۔ ممتاز بیگم خود اوپر جا نہیں سکتی تھیں۔ مائرہ کے علاوہ وہ کسی دوسرے کو بھیجنا نہیں چاہتی تھیں۔ مائرہ کالج سے واپس گئی۔ مزمل کا موبائل OFFتھا۔
مائرہ کے آنے کے بعد ممتاز بیگم نے اُسے ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ مائرہ کھانا لے کر اُس کے کمرے میں پہنچتی، تو مزمل صوفے پر لیٹا تھا۔ مائرہ دستک دیے بغیر ہی روم میں داخل ہوگئی تھی۔
مائرہ نے صوفے کی سائید ٹیبل پر نگاہ ڈالی۔ جہاں ڈرائی فروٹ کی ٹرے جوں کی توں پڑی تھی۔ اُس کے اوپر سے شیشے کا ڈھکنا تک نہیں ہلا تھا۔ مائرہ کو اچھی طرح یاد تھا۔ اُس نے ٹرے میں ڈرائی فروٹ ڈال کر کل رات جس حالت میں رکھی تھی ویسے ہی پڑی تھی۔ مائرہ نے کچھ بولے بغیر کھانا مزمل کے سامنے شیشے کی میز پر رکھا۔ پھر فریج کھولا، تو فروٹ چاٹ بھی ویسی کی ویسی پڑی تھی۔ وہ مزمل کے سامنے گردن جھکا کر کھڑی ہوگئی۔ مزمل خیالوں کی وادی سے واپس لوٹا، تو اس نے مائرہ کو اپنے سامنے پریشان کھڑا پایا۔
وہ صوفے سے جلدی سے اُٹھا اور مائرہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
”مینا کیا ہوا؟” اُس نے فکر مندی سے پوچھا۔ مائرہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہی۔
”مینا کیا بات ہے۔ بتائو تو سہی۔” وہ پریشانی سے چلایا۔
”مجھے بہت بھوک لگی ہے۔” مائرہ معصومیت سے بولی۔ مزمل کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ یہ سُن کر کھانا تو وہ کھا چکی تھی پھر بھی اُس نے مزمل کو کھلانے کی خاطر اُس کا پورا ساتھ دیا۔
مزمل نے تھوڑا سا سلاد کھانے کے بعد کہا: ”فروٹ چاٹ نہیں لے کر آئی۔”
”امّی بنا رہی تھیں۔ ابھی لے کر آتی ہوں۔”
مائرہ جلدی سے اُٹھی فریج سے صبح والی چاٹ نکالی۔ وہ نیچے لے گئی اور تازہ چاٹ لے کر فوراً آگئی۔ مائرہ ہر روزکالج جانے سے پہلے مزمل کے لیے فروٹ چاٹ تیار کرکے فریج میں رکھ جاتی تھی۔
”بھائی! آج مسرت بھابی اور مبشر بھائی کی فرسٹ ویڈنگ اینی ورسری ہے۔ دونوں کی بڑی خواہش ہے آپ اُن کے ساتھ کیک کاٹیں۔” مزمل خاموش سے مائرہ کی باتیں سُن رہا تھا۔
”سارا انتظام نیچے لائونج ہی میں ہوگا۔”
”اور کچھ…” مزمل نے سنجیدگی سے پوچھا مائرہ تھوڑی سہم سی گئی۔
”یہ تو اُن دونوں کی خواہش تھی۔” مزمل نے تھوڑا سا اور موڈ بنایا، تو مائرہ ڈر گئی اور نظریں جھکا لیں۔مزمل فوراً مسکرا دیا۔
”ڈاکٹر صاحبہ! ڈر گئیں۔” مائرہ نے مزمل کی آواز پر اُس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پر مسکراہٹ تھی۔
”آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔” مائرہ نے اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے جلدی سے کہا۔
”تم مجھے بہانے سے کھانا کھلا سکتی ہو تو میں بھی ڈرا سکتا ہوں۔ کیک کب کاٹنا ہے۔”
”جب آپ کہیں۔” مائرہ نے قدرے اعتماد سے جواب دیا۔
”میرا خیال میں مغرب کے بعد ٹھیک رہے گا۔”
” بھائیThanks…..” مائرہ نے کہا اور برتن اُٹھا کر کمرے سے چلی ہوگئی۔
مزمل مغرب کی نماز کے بعد لوٹا تو سب اُس کا انتظار کر رہے تھے۔
اُس نے مبشر اور مسرت کے ساتھ کیک کاٹا اور تھوڑا سا کھایا بھی ۔ ممتاز بیگم کو تسلی ہوگئی۔ اُنہیں مطمئن دیکھ کر مزمل اوپر جانے لگا، تو مائرہ نے آواز لگائی:
”بھائی!” مزمل رُک گیا۔ وہ مزمل کے پاس آئی، تو اُس کی گود میں مبشر کا بیٹا تھا۔ اُسے مزمل کے سامنے کرتے ہوئے بولی:
”یہ مبشر جونیئر ہے۔ ماشا اللہ ڈیڑھ ماہ کا ہوگیا ہے۔ پتا ہے اسے گھٹی میں نے دی ہے۔” سب کی نظریں مزمل اور مائرہ پر مرکوز تھیں۔
”میں نے اس کا نام کسی کو نہیں رکھنے دیا اور سب سے کہہ دیا ہے کہ اس کا نام میرے بھائی رکھیں گے۔” مائرہ کی نظریں مبشر جونیئر پر تھیں اور مزمل کی مائرہ کے چہرے پر ۔ اُس نے اپنی دادی کی طرف دیکھا۔
”رکھ دو… تمہارا بھتیجا ہے۔” ممتاز بیگم نے بھتیجے پر زور دے کر کہا۔
”محمد بن مبشر۔ آج سے اِس کا نام محمد بن مبشر ہے۔” مزمل نے یہ کہا اور سیڑھیوں کی طرف چل دیا۔
”مزمل بیٹا!” ممتاز بیگم نے میٹھی آواز میں کہا ۔
”بھتیجے کو منہ دکھائی تو دو۔”
”منہ دکھائی؟” مزمل نے حیرت سے دادی کی طرف دیکھا۔
”ہاں بیٹا! جب گھر میں کوئی ننھا مہمان آتا ہے، تو اُسے منہ دکھائی دیتے ہیں۔”
مزمل نے بٹوے سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا اور محمد بن مبشر کے ننھے ہاتھ کے پاس کمبل پر رکھ خود جلدی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔ میرا بچہ بالکل ٹھیک ہے۔”
ممتاز بیگم نے مزمل کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر کہا۔
٭…٭…٭
”اللہ کا شکر ہے۔ اب ماہم آپی بالکل ٹھیک ہیں۔” مومنہ نے جواب دیا۔ مائرہ نے مومنہ کو کال کی تھی۔
”سو رہی ہیں کیا؟” مائرہ نے نرم شگفتہ لہجے میں پوچھا۔
”نیند کہاں ہے اُن کی آنکھوں میں گھر جانے کی ضد کر رہی ہیں۔” مومنہ نے اُنسیت سے جواب دیا۔
”ڈاکٹروں کو ڈسچارج کر دینا چاہیے۔ا پریشن کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔”
”میں نے بھی اُن سے یہی کہا تھا کہ آٹھ بجے تک رُک جائیں۔ آٹھ بجے ڈاکٹروں کا رائونڈ ہے وہ آپ کو ڈسچارج کر دیں گے۔”
”پھر کیا بولیں، ماہم آپی؟”
”مجھے تو ڈانٹ دیا۔ میں خاموش ہوگئی۔ پھر حکیم چچا اور ماہ نور آپی گھر سے کھانا لے کر آگئے۔ میں تو حکیم چچا کے ساتھ کمرے سے باہر آگئی۔ ماہ نور آپی نے سمجھایا تو ریلیکس ہوئی ہیں۔ ماہ نور آپی کھری کھری سنا جو دیتی ہیں۔ اُن کی بات ماہم آپی کو فوراً سمجھ آجاتی ہے۔”
”ماہم آپی نے کچھ کھایا؟” مائرہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
”کہاں یار۔ کل سے تھوڑا سا جوس پیا ہے۔ ایک ہی دن میں آپی کا منہ نکل آیا ہے۔ آنکھوں کے نیچے حلقے محسوس ہو رہے ہیں۔ اب ماہ نور آپی کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ امّی کا بھیجا ہوا سوپ ہی پلا دیں۔”
”تم بتائو مزمل بھائی کی۔”
”وہ آپی سے بھی آگے ہیں۔ عصر کے بعد تھوڑا سا سلاد اور فروٹ چاٹ کھلائی ہے۔حکیم چچا تمہارے پاس ہیں؟”
”وہ کسی کام سے گئے ہیں کہہ رہے تھے تھوڑی دیر میں آجائوں گا۔”
”ماہم آپی کے پاس کون ہے اس وقت۔”
”تم بھی کمال کرتی ہو مائرہ۔ کتاب کا سوال بھولتی نہیں اور باتیں بھول جاتی ہو۔ بتایا تو تھا ماہ نور آپی ہیں۔”
”اچھا اچھا غصہ کیوں کر رہی ہو۔” مائرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”مجھے تم پر پہلے ہی بڑا غصہ ہے! ماہم آپی کہتی ہیں مائرہ کو دیکھو کتنا پڑھتی ہے۔ مسرت باجی کی سنو تو مائرہ نے سارا گھر سنبھالا ہے۔ ماہ نور آپی دیکھا اُس دن مائرہ نے کیسا زبردست جُوڑا بنایا تھا اور تو اور میری امّی بھی کہتی ہیں مائرہ بڑی اچھی بچی ہے۔” مومنہ اپنی بہن کو بھول کر خود ہی مائرہ پر گرج رہی تھی۔ موبائل کی دوسری طرف مائرہ اُس کی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔ مائرہ نے مسکراتے مسکراتے اپنا چشمہ اُتار کر صاف کیا۔
”تھینک گاڈ تمہارے منہ پر سمائل تو آئی۔” ماہ نور نے ماہم کو سوپ پلانے کے بعد ایک لطیفہ سنایا۔
”رائونڈ ہونے والا ہے۔ آپ یہ برتن وغیرہ سمیٹ لیں۔” نرس نے آکر اطلاع دی۔
”ماہ نور نے فوراً سارا سا مان اُٹھا لیا۔
ڈاکٹروں نے ماہم کو حسب توقع ڈسچارج کر دیا تھا۔ایک جونیئر ڈاکٹر نے فائل پر ساری تفصیل لکھنے کے بعد ماہم سے کہا:
”مس میں نے ساری ڈیٹیل اس میں لکھ دی ہے آپ پڑھ لیجیے گا۔” ڈاکٹر نے فائل بائیں ہاتھ میں لہرائی اور اُس کے بعد بیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
ڈاکٹر جانے لگا تو ۔
”ایکس کیوزمی ڈاکٹرصاحب!کوئی پرہیز وغیرہ!” ماہ نور نے پوچھا۔
”پرہیز، تو کوئی نہیں۔ بس چند دن سیڑھیاں نہیں چڑھنی۔” سیڑھیوں کا سن کر ماہ نور نے مسکراتے ہوئے ماہم کی طرف دیکھا ۔
”ایکس کیوز می ڈاکٹر صاحب! کھانے میں کیا؟” ڈاکٹر نے عجیب نظروں سے ماہ نور کو دیکھا۔ اُس کے بعد اس نے بیڈ ٹیبل پر پڑی فائل اُٹھائی اور کہنے لگا:
اس میں ساری تفصیل لکھ دی ہے۔ ایک ضروری سوال تو آپ بھول ہی گئیں ٹانکے کب تک کُھل جائیں گے۔” ڈاکٹر نے ماہ نور کے ہی انداز میں اُسے کہا۔
”مس ماہم! دو دن بعد آپ نے چیک اپ کے لیے آنا ہے۔ اسٹیچز بھی ساتھ ہی نکال دیں گے۔” ڈاکٹر نے ماہ نور کی نسبت ماہم سے انتہائی شائستگی سے بات کی تھی۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد ماہم مُسکرا دی جب کہ ماہ نور غصے سے ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی۔
”ماہ نور! غصہ تھوک دو اور میری بات کان کھول کر سنو۔ مجھے ہر حال میں اپنے روم میں جانا ہے۔ مجھے نہیں پتا کیسے۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ صرف تمھیں پتا ہے ڈاکٹر نے مجھے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کیا ہے۔”
”واہ جی واہ یہ جو باہر تمہاری سسٹر ہے۔ یہ پاگل نہیں بن رہی بلکہ ڈاکٹر بن رہی ہے۔ تمہاری امّی بھی اتنی سیدھی نہیں کہ جو اسٹوری میں سنائوں گی وہ اُسی پر یقین کرلیں۔ ایمپوسیبل ماہم چودھری، ایمپوسیبل۔”