مرتضیٰ ملک بھی معراج کے گائوں ہی کا رہنے والا تھا۔ وہ کئی سال پہلے ملک سے باہر چلا گیا۔ اُس کی بیوی میمونہ اور مریم ایک ہی گائوں کی تھیں۔ پھر ایک ہی گائوں بیاہی گئیں۔ شادی کے چند سال بعد میمونہ بھی مانچسٹر مرتضیٰ ملک کے پاس چلی گئی۔ مجتبیٰ ملک اُن دونوں کی اکلوتی اولاد ہے۔ چند سال پہلے مرتضیٰ ملک کا انتقال ہوگیا تھا۔
”مانچسٹر میں رہتے ہوئے بھی مرتضیٰ نے معراج کے سے تعلق نہیں توڑا تھا۔” وہ سال میں ایک آدھ چکر پاکستان کا ضرور لگاتا تھا۔
سال پہلے مجتبیٰ اپنی ماں میمونہ کے ساتھ معراج کے آیا ہوا تھا۔ شادی کی ایک تقریب کے دوران مجتبیٰ اورماہ نور نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دل دے بیٹھے۔
میمونہ بھی اپنے بیٹے کے لیے کسی پاکستانی لڑکی کی تلاش میں تھی۔ اُس نے اِس سلسلے میں اپنی سہیلی مریم سے بات کی۔ مریم نے بھی ماہ نور کا ہی نام لیا تھا۔
حکیم صاحب نے ماہ نور کے لیے کسی اور لڑکے کو پسند کر رکھا تھا۔ ماہ نور نے حکیم صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ مجتبیٰ کو پسند کرتی ہے، آپ اُس کے حق میں فیصلہ کر دیں۔ اس طرح مجتبیٰ اور ماہ نور کا رشتہ طے پایا تھا۔
٭…٭…٭
”بڑا اچھا رشتہ کروایا ہے۔ مریم تم نے، میں تو بہت پریشان تھی۔ ملک صاحب کی وفات کے بعد تو مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی میں کرئوں۔” میمونہ اپنی سہیلی مریم سے گپ شپ لگا رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی گوجرانوالہ سے شاپنگ کرکے لوٹے تھے۔ مومنہ آم کاٹ رہی تھی اور مجتبیٰ اپنے موبائل پر مصروف تھا۔
”اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا، تو میں حکیم صاحب سے ماہ نور کا ہاتھ اُس کے لیے مانگ لیتی۔”
”آنٹی پھر میرا کیا ہوتا۔” مجتبیٰ نے موبائل سے توجہ ہٹا کر جلدی سے کہہ دیا۔
”یہ بھی تو تمہارا ہی بیٹا ہے۔” میمونہ نے اپنے بیٹے کی طرف ممتا بھری نگاہ ڈالی تھی۔
”اِسی لیے تو چاند سی لڑکی ڈھونڈ کر دی ہے۔”
”آنٹی جی آپ ہی امّی جی کو کچھ سمجھائیں کبھی میری تعریف بھی کر دیا کریں۔” مومنہ نے کٹے ہوئے آموں کی ٹرے اپنی ماں اور آنٹی کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے گلہ کیا اور خود کچن میں چلی گئی۔
”آجائو مجتبیٰ بیٹا۔” مریم بی بی نے مجتبیٰ کو آموں کی دعوت دی۔ میمونہ یہ سُن کر ہنس دی جبکہ مریم بی بی نے سُنی ان سُنی کر دی۔
”مریم کیوں نہیں کرتی ہماری گڑیا کی تعریف۔” میمونہ نے آم کھانے سے پہلے ہی کہہ دیا۔
آم پارٹی کے بعد مجتبیٰ باہر نکل گیا۔ اب مومنہ کچن میں برتن دھو رہی تھی۔ مریم بی بی اور میمونہ صوفے پر ساتھ بیٹھی ہوئیں تھیں۔
”مریم! ایک بات تو بتائو ماہ نور دیکھنے میں خوبصورت ہے اور شریف بھی ہے ۔ بس تھوڑی مغرور سی لگتی ہے۔ زیادہ بات وات نہیں کرتی چپ چپ سی رہتی ہے۔” میمونہ نے اپنا اندیشہ ظاہر کر دیا۔
”چپ چپ سی اور مغرور… تم بھی نا ارے وہ تو انتہائی چرب زبان ہے۔ تم فکر نہ کرو بڑے اچھے اخلاق کی مالک ہے اپنی ماہ نور!”
”اچھا میں نے تو اُسے زیادہ بات کرتے نہیں دیکھا اِس لیے دل میں خیال آیا۔”
”تم نے اُسے ہمیشہ حکیم صاحب کے سامنے دیکھا ہے وہ اُ ن سے بہت ڈرتی ہے۔”
”بھلا حکیم صاحب کو یہاں آئے ہوئے کتنے سال ہوگئے ہیں۔” میمونہ نے پوچھا۔
”کوئی چوبیس پچیس سال ہو چکے ہیں۔ اِن سالوں میں اِس علاقے میں جو عزت حکیم صاحب نے کمائی ہے۔ وہ علاقے کے بڑے بڑے چودھریوں کو بھی نصیب نہیں ۔ حکیم صاحب کی لوگ بڑی حیا کرتے ہیں، اِس سارے علاقے میں بڑے بڑے فیصلوں میں لوگ حکیم صاحب کو بلاتے ہیں۔” سچ کہوں تو ماسٹر صاحب کے گزر جانے کے بعد اللہ کے بعد حکیم صاحب ہی کا آسرا تھا۔
”چودھری مقصود اور ماجد… وہ نہیں پوچھتے؟”
”اُن کی بھلی پوچھی… ماجد کی یاری ہی نہیں مان اور لالہ جی کی کبوتر بازی… وہ دونوں باپ بیٹا زمین کی کمائی بیٹھ کر کھارہے ہیں۔”
”تمہاری زمین بھی؟”
نہیں اب نہیں۔ ماجد نے سڑک سے 5ایکٹر زمین بیچ دی تھی۔ لالہ جی بڑے گرجے۔ ماہم کہنے لگی تایا ابو آپ سب کی زمین تقسیم کر دیں ۔ لالہ جی کو پتا نہیں کیا سوجھی اگلے ہی دن سب کے نام پر الگ الگ رجسٹری اور انتقال کروادیا۔ اب پانچ مربعے ماہم کے نام اور پانچ ہی مومنہ کے نام ہیں۔
”تمہارے نام پر کچھ نہیں؟” میمونہ حیرت سے بولی۔
”میرے نام سے میری دو بیٹیا ںجو ہیں۔” مریم بی بی نے ممتابھری نگاہ مومنہ پر ڈالی جو پائوں سمیٹے صوفے پر بیٹھی اپنی ماں اور آنٹی کی باتیں سُن رہی تھی۔
” اللہ کا شکر ہے تم نے اپنی بیٹیوں کا آنے والا کل تو محفوظ کر لیا۔” مومنہ اپنی آنٹی کے انداز پر ہنستے ہوئے بولی:
”آنٹی مستقبل چھوڑیں … کل کی سوچیں کل نکاح ہے۔”
٭…٭…٭
اگلے دن حسبِ معمول مزمل نے فجر کی نماز ادا کی اور مسجد کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اِک نظر والا دیدار کیا آج اِس جلوے کا انداز الگ تھا۔ ماہم کے چہرے پر اُسے بے چینی اور کچھ اضطراب سا محسوس ہوا۔
وہ فیکٹری جانے کے بجائے گاڑی میں بیٹھ گیا اور کچھ دیر سوچتا رہا پھر گاڑی اسٹارٹ لاہور کی طرف سفر کرنے لگا۔ گندم کی کٹائی کے بعد کھیت ویران تھے۔ دور دور تک کھیتوں میں ہر یالی کا نام و نشان نہ تھا۔ اُس نے پچھلے چھے ماہ میں ماہم کے چہرے پر ایسی پریشانی نہیں دیکھتی تھی۔
مزمل نے بیک ویو مِرر میں دیکھا، تو وہی ماہم کا اضطرابی چہرہ نظر آیا۔
آج اُسے ماہم کا چہرہ خشک ڈرائی فروٹ کی طرح لگا تھا۔ مزمل بیگ خود بھی ڈرائی فروٹ ہی کی طرح تھا۔ توانائی سے بھرپور مگر خشک۔ توانائی اُس کے جذبوں اور سوچ میں تھی اور خشکی اُس کے مزاج کا حصہ وہ بداخلاق نہیں تھا اور ایسا خوش اخلاق بھی نہیں تھا۔
وہ سوچوں میں غلطاں سفر کرتا ماڈل ٹائون اپنے گھر پہنچا اور سیدھا دادی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔
دروازے پر دستک دی۔ اجازت ملنے پر اندر گیا اور جاتے ہی دادی سے کہنے لگا:
”آپ یہ سوچ رہی ہوں گی میں آج فیکٹری کیوں نہیں گیا۔”
”نہیں بالکل بھی نہیں۔” دادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کو پوچھنا چاہیے نا!” اُس نے کچھ الجھتے ہوئے کہا۔ اُس کی بے چینی دیکھ کردادی کو تشویش ہوئی۔
”اِدھر آئو میرے پاس یہاں بیٹھو۔” دادی نے مزمل کو پاس بٹھایا اور اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، تو وہ بخار سے تپ رہا تھا۔
”آپ ابھی تک معراج کے گھر نہیں گئیں۔” اس نے ضدی بچے کی طرح کہا۔ دادی نے مائرہ کو بلایا اور کہا ڈاکٹر کو فون کرے۔ مائرہ مزمل کو اس کے کمرے میں لے گئی ڈاکٹر نے چک اپ کے بعد نسخہ تجویز کیا اور تسلی دے کر چلا گیا۔
”بیگم صاحبہ! ڈاکٹر نے کہا ہے تھکاوٹ کی وجہ سے بخار ہے۔ دوائی میں نیند کی گولی ڈال دی ہے۔ آرام کریں گے تو ٹھیک ہوجائیں گے۔”
”پریشانی کی تو کوئی بات نہیں۔ تم کب تک ڈاکٹر بنو گی۔” ممتاز بیگم نے دو الگ الگ باتیں ایک ساتھ پوچھ لیں۔ مائرہ ہنس پڑی اور اُنہیں تسلی دیتے ہوئے بولی:
”بیگم صاحبہ گھبرائیں مت! مزمل بھائی بالکل ٹھیک ہیں اور میں بھی جلد ڈاکٹر بن جائوں گی۔” مائرہ نے بڑی سمجھ داری سے تشفی دی اور کمرے سے نکل آئی۔
مزمل سارا دن سوتا رہا۔ عصر کے بعد وہ اُٹھا، تو گھر والے تیار ہو رہے تھے۔ ممتاز بیگم نے اپنے ساتھ جانے کے لیے سب کو تیار کر لیا تھا۔ مزمل اپنے کمرے سے نیچے لائونج میں آیا، تو ممتاز بیگم تیار بیٹھیں تھیں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مائرہ کا انتظار تھا۔
ممتاز بیگم نے مزمل کو دیکھا، تو اُن کی پریشانی دور ہوگئی۔
”ادھر میرے پاس آئو۔” مزمل ممتاز بیگم کے پاس گیا، تو انہوں نے اُس کی پیشانی پر اپنی ہتھیلی رکھی، تو مزمل مسکرا دیا۔
”دادو! میں ٹھیک ہوں۔ آپ لوگ جا کیوں نہیں رہے۔ ” مزمل مسکراتے ہوئے بولا۔
”آپ کی لاڈلی کا انتظار ہو رہا ہے۔” منظوراں نے بڑے انداز سے کہا ۔
مزمل غور سے منظوراں کا چہرہ دیکھنے لگا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔ وہ آگے بڑھا، تو اُس کے کانوں میں دادی کے الفاظ گونجے۔
”میں چھوٹے صاحب کو اپنا دودھ پلا دئوں۔” وہ منظوراں کے گلے لگ گیا۔ مسرت اور مبشر دم بہ خود حیرت میں مبتلا تھے۔
مزمل مائرہ کے علاوہ منظوراں مبشر یا مسرت سے کوئی بھی فالتو بات نہیں کرتا تھا۔ کبھی اُن کے پاس نہیں بیٹھا۔ آج وہ منظوراں بی بی کے گلے لگ گیا تھا۔ منظوراں اور ممتاز بیگم کی آنکھوں میں آنسو آمڈ آئے تھے۔ مسرت اور مبشر اب بھی ششدر تھے۔ یہ جذباتی سین اور لمبا چلتا اگر مائرہ آکر کٹ نہ کردیتی۔
”مزمل بھائی! آپ ادھر ہو میں آپ کے کمرے میں کھانا لے کر گئی۔”مائرہ نے بے خیالی میں کہہ دیا جب اُس نے مزمل کو اپنی ماں کے گلے سے الگ ہوتے دیکھا تو زبان پر ہونٹوں سے بریک لگائی۔
مزمل بغیر کچھ کہیاپنے کمرے میں چلا گیا۔
منظوراں نے سوالیہ نظروں سے ممتاز بیگم کو دیکھا انہوں نے اثبات میں سرہلایا۔ منظوراں ساری بات سمجھ گئی اُس نے اپنے خاموش آنسو صاف کیے اور اپنی بہو اور بیٹے کی طرف دیکھنے لگی۔ مائرہ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کھانے والی ٹرے ابھی تک اُس کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ کھانے کی ٹرے اُٹھائے پھر سے مزمل کے روم کی طرف چل دی۔
مزمل کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑا تھا۔ مائرہ نے کھانے کی ٹرے سینٹرل ٹیبل پر رکھی اور خود مزمل کے پیچھے کھڑی ہو کر بولی:
”بھائی! کھانا کھا لو آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ مینگو ملک شیک اور فروٹ چاٹ بنا کر فریج میں رکھ دی ہے۔ کچھ اور چاہیے تو بتا دیں۔” مائرہ کسی ٹی وی رپورٹر کی طرح تیز تیز بول رہی تھی۔ مزمل پلٹا اور غور سے مائرہ کو دیکھا۔ پھر شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”اور کچھ نہیں چاہیے مینا! تم جائو۔”
مائرہ چل پڑی ابھی اُس نے دو چار قدموں کی مسافت طے کی ہوگی ۔ مزمل کی آواز نے اُس کے قدم روک لیے
”رکو… مینا!” مزمل چلتا ہوا ایک بار پھر سے مائرہ کے سامنے آکھڑا ہوا اُس نے انتہائی اپنایت سے مائرہ کی پیشانی چومی پھر ہاتھ کے اشارے سے جانے کو کہہ دیا۔
مائرہ روم سے باہر نکل آئی۔ وہ کوریڈور سے چلتی ہوئی نیچے لائونج میں جاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔ وہ تمام تحریفات اور تاویلوں کے ساتھ بھی یہ گتھی سلجھا نہیں پائی۔ پہلے مزمل اُس کی ماں کے گلے لگا پھر اُس پر محبت اور شفقت کی بارش کردی۔ مزمل اُس کو چھوٹی بہنوں ہی کی طرح سے شروع سے پیار کرتا آیا ہے۔ آج اُس کی محبت کچھ مختلف سی تھی۔
”مائرہ آ بھی جائو۔” مسرت کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی اُس نے دیکھا وہ لائونج میں اکیلی ہی کھڑی تھی باقی سب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔
ماڈل ٹائون سے معراج کے کا سفر مبشر اور مسرت نے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرتے کاٹا۔ پچھلی سیٹ پر ممتاز بیگم سوچ رہی تھیں مسلم انصار ی کاکیسے سامنا کروں گی۔ منظوراں کو لگا آج اُس کی محبت کا ثمر مل گیا۔
مائرہ یہ سوچ رہی تھی کہ مزمل بھائی آج اتنے جذباتی کیسے ہوگئے۔ وہ مزمل کو جذبات سے ماورا سمجھتی تھی۔
اُس کا سوچنا ایک حد تک ٹھیک بھی تھا جو بھی تھا جیسے بھی تھا مائرہ آج بہت خوش تھی۔
ماہ نور کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جب اُس نے ممتاز بیگم کو دیکھا۔ حکیم صاحب کو ایسے لگا اُن کی ماں ماسی کی شکل میں اُن کے گھر آگئی ہے۔ وہ بڑی محبت سے اپنی خالہ کو ملے انہوں نے ماضی کی کوئی بات نہیں دہرائی۔ وہ اپنے حال میں خوش حال جی رہے تھے۔
حکیم صاحب نے نکاح کی اس تقریب میں صرف ماسٹر محمود کے گھر والوں کو دعوت دی تھی۔ مریم اور مومنہ تو موجود تھیں مگر ماہم غائب تھی۔ مومنہ اور مائرہ ماہ نور کو خود ہی تیار کر رہی تھیں۔
”ماہم کیوں نہیں آئی؟” ماہ نور نے میک اپ کے دوران پوچھا۔
”اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پھر بھی وہ نکاح سے پہلے آجائیں گی۔” مومنہ نے ماہ نور کی آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوئے کہا۔
”کل لیٹ نائٹ میری موبائل پر بات ہوئی تھی کہنے لگی اب ٹھیک ہوں۔” ماہ نور نے کہا۔
”صبح سے پھر ہلکا ہلکا بخار ہے۔” مومنہ نے ماہ نور کو لپ اسٹک لگاتے ہوئے بتایا۔
”بخار تو آج مزمل بھائی کو بھی تھا۔” مائرہ نے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے انکشاف کیا۔
”نائس ویری نائس میں تو رومیو جولیٹ سمجھتی تھی یہ لیلیٰ مجنوں نکلے۔ کوڑے مجنوں کو لگتے اور نشان لیلیٰ کے جسم پر پڑتے تھے۔
”کیا مطلب آپی!” میں سمجھی نہیں۔
مومنہ اور مائرہ نے اپنی اپنی تشویش ایک ساتھ ظاہر کر دی۔ ماہ نور کے کان کھڑے ہوگئے۔ اُس نے خود کو شٹ اپ کہا:
”کنٹرول کنٹرول ماہ نور! کیا اول فول بک رہی ہو۔ ” ماہ نور نے دل ہی دل میں خود کو ملامت کی۔
”کچھ نہیں مجھے مجتبیٰ نے ایک لطیفہ سنایا تھا وہ یاد آگیا تھا۔” ماہ نور نے بات گول کرنے کی پوری کوشش کی۔ مومنہ اور مائرہ باقی میک اپ کے دوران خاموش ہی رہیں۔ وہ خود ہی سے سوال کرتی اور خود ہی جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی۔
مومنہ کو بھی اِس بات کی خبر تھی کہ مزمل تقریباً چھے ماہ سے ہر روز صبح معراج کے آتا ہے اور مائرہ یہ جانتی تھی کہ مزمل مسلسل چھے ماہ سے فجر سے پہلے گھر سے نکل جاتا ہے۔
اُن دونوں نے ماہ نور کو دُلہن کی طرح تیار کر دیا تھا۔
٭…٭…٭
”دُلہن کہاں ہے؟” میمونہ نے آواز لگائی جو ٹھنڈا مشروب پی کر فارغ ہو چکی تھی۔
”حکیم صاحب ! ماہ نور بیٹی کو یہاں ہی بُلا لیں۔” باہر کا کوئی نہیں سب اپنے ہی ہیں۔” مریم بی بی بولی۔
”ماہم بیٹی! ماہ نور کو یہاں ہی لے آئو۔” حکیم صاحب نے بیٹھک سے ساتھ والے کمرے میں آواز دی۔
ماہ نور دُلہن بنی آکر مجتبیٰ کے برابر بیٹھ گئی۔مجتبیٰ بھی پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔
حکیم صاحب نے دونوں کا نکاح پڑھایا۔ اُس کے بعد کھانے کا اہتمام تھا ۔
سب مہمان کھانے کے بعد معراج کے روانہ ہو چکے تھے۔ ممتاز بیگم نے منظوراں،مبشر اورمسرت کو بھی معراج کے روانہ کر دیا تھا صرف مائرہ ممتاز بیگم کے لیے رُک گئی تھی۔ وہ ویسے بھی اپنے رشتے داروں سے کم ہی میل ملاپ رکھتی تھی۔رات کافی ہو چکی تھی۔
حکیم صاحب، مریم بی بی اور مومنہ کو چھوڑنے گئے تھے۔ ماہم اپنے وعدے کے مطابق رُک گئی تھی۔
ممتاز بیگم اور مائرہ کو حکیم صاحب نے اپنے گھر کا سب سے اچھا کمرا پیش کیا تھا۔
ممتاز بیگم کو دوائی کھلانے کے بعد مائرہ اُن کو دبا رہی تھی جب ماہ نور ماہم کو لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
”سہیلی ! کیسا لگا آپ کو مجتبیٰ؟” ماہ نور نے فخریہ انداز سے پوچھا۔
”دادی کی نظر سے بھی دیکھوں تو بھی مزمل سے خوبصورت ۔ ماہ نور کی نظر میں تو وہ ہے ہی سب سے حسین…” ماہ نور نے دادی کی بات سُنی تو کھِل اُٹھی اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
”یہ ہے ماہم چودھری” ماہ نور نے ماہم کے کندھے پر ایسے ہاتھ رکھا جیسے کوئی انتہائی قیمتی چیز ہو جو زیادہ وزن ڈالنے سے ٹوٹ جائے گی۔
”ماشا اللہ… ماشااللہ ماہ نور بیٹی! رب سچا جھوٹ نا بلوائے کسی بھی آنکھ سے دیکھ لو ماہم بہت خوبصورت ہے۔ ممتاز بیگم نے چشم الفت سے ماہم کو دیکھا۔ ماہ نور نے ممتاز بیگم کی آنکھوں میں محبت کے جھرنے دیکھے تو کہنے لگی۔
”دادی! آپ کہہ دیں ماہ نور تم اِس کے آگے پانی بھرتی ہو۔ خدا کی قسم مجھے بہت اچھا لگے گا۔”
”اِدھر آئو ماہم بیٹی!” مائرہ پیچھے ہٹ گئی اور ماہم ممتاز بیگم کے پاس بیٹھ گئی ۔
”ماہم بیٹی! میری دعا ہے اللہ تمھیں ہمت دے کہ تم اپنے باپ کی زبان کا پاس رکھ سکو۔ ساتھ ساتھ میں یہ دعا بھی کروں گی ۔ اللہ تمہارے دل کی جائز مرادیں بھی پوری کرے۔” ممتاز بیگم کی باتیں سُن کر مائرہ سوچ میں پڑھ گئی۔
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ممتاز بیگم اپنے کمرے میں سونے چلی گئیں۔
”چلو چھت پر چلتے ہیں۔” ماہ نور نے تجویز دی۔ مائرہ نے اپنا چشمہ اُتارتے ہوئے کہا:
”اِس وقت؟”
”موڈ نہیں ہے تو آرام کرو۔ اِس کا آج نکاح ہوا ہے اِسے نیند کہاں آئے گی۔” ماہم نے مائرہ کی حیرت اپنے دلائل سے دور کرنے کی کوشش کی۔ یہ سُن کر مائرہ کی حیرت مسکان میں بدل گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ تینوں چھت پر تھیں۔ وہاں ایک ممٹی بھی تھی جس کے ساتھ ایک بانس کی سیڑھی کھڑی تھی۔
”چلو اوپر چلتے ہیں۔” ماہ نور نے چھت سے ممٹی پر جانے کا کہہ دیا۔ مائرہ نے ماہم کی طرف دیکھا۔ ماہم نے ماہ نور کی طرف اشارہ کیا جو بانس والی سیڑھی سے اوپر جا رہی تھی۔
”تم نے وہ گانا سُنا ہے۔ آج پھر جینے کی تمنا ہے، آج پھرمرنے کا ارادہ ہے۔ اِس کے ساتھ بھی آج وہی معاملہ ہے۔”
ماہ نور کے پیچھے پیچھے ماہم بھی سیڑھی سے ممٹی پر پہنچ گئی ۔مائرہ نے ڈرتے ڈرتے سیڑھی پرپیر رکھے اور خدا خدا کرکے اوپر ماہ نور اور ماہم کے پاس چلی گئی۔
ہوا چل رہی تھی۔ دور سے گیہوں کے تھر یشر کی آواز آ رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں جی ٹی روڈ سے کوئی بس یا ٹرک گزر جاتا۔ دور دور تک گندم کی کٹائی کے بعد کھیت خالی تھے۔
وہ تینوں آلتی پالتی مارے ممٹی کی چھت پر بیٹھ گئیں جس میں اب بھی جون کی دھوپ کے اثرات تھے۔ تھوڑی دیر بعد ماہ نور کو یاد آیا۔
”میں نے تو آم ٹھنڈے کرنے کے لیے رکھے تھے۔” ماہ نور نے یہ کہا اور جلدی سے نیچے اُتر گئی۔
”آپ کیا کرتی ہیں۔” مائرہ نے روایتی سا سوال پوچھ لیا وقت گزاری کے لیے۔ ماہم نے سامنے اسکول کی گرائونڈ میں لگے پاکستانی پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا:
”وہ جھنڈا دیکھ رہی ہو۔ وہ میرا اسکول ہے۔”
”مزمل بھائی کی طرح بزنس کرتی ہیں۔” مائرہ نے جلدی سے کہہ دیا۔ مزمل کا نام سنتے ہی ماہم کے دل کو کھیچ سی پڑی۔ماہم نے اپنی دِلی کیفیت چھپاتے ہوئے کہا:
”نو پرافٹ نو لاس… ایسا ہے میرا بزنس۔”
”مطلب؟” مائرہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ جو لڑکیاں فیس دیتی ہیں۔ اُس سے اسٹاف کی سیلری اور دوسرے خرچے نکل جاتے ہیں۔”
یہ سُن کر مائرہ کو خوشی ہوئی۔ اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا:
”سب لڑکیوں سے فیس نہیں لیتیں، ماہم آپی !بہت بڑی بات ہے۔”
”مائرہ! پاکستان میں لڑکیوں کو اس وجہ سے بھی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کہ اُن کی تعلیم پر خرچہ ہوگا۔ تعلیم تو شعور کے لیے حاصل کرنی چاہیے نوکری حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ میں چاہتی ہوں لڑکیوں کوزندگی گزارنے کا شعور آجائے وہ اونچ نیچ کو سمجھ سکیں کم از کم اِس قابل ہوجائیں کہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں۔ اچھی مائیں اچھی نسل کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ابّا کی زمینوں سے اتنا آجاتا ہے کہ ہماری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں مجھے بزنس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”آپ بزنس وومن نہیں ہیں، میں غلط سمجھی تھی۔ آپ تو سوشل ورکر ہیں۔ بالکل مزمل بھائی کی طرح۔ مزمل بھائی نے بھی اپنی فیکٹری کے کئی ملازموں کی بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھائے ہوئے ہیں بہ شمول میرے۔”
”اچھا۔” مزمل کا نام سُن کر ماہم کو پھر کچھ کچھ ہوا تھا۔ماہم یہ سُن کر باغ باغ ہوگئی تھی، مگر اُس نے مائرہ پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔
”مزمل بھائی! کہتے ہیں مائرہ ڈاکٹر ضرور بنو مگر پیسے کمانے کی غرض سے نہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کی خدمت کروگی، تو وہ تمہارے تھوڑے میں بھی برکت ڈال دے گا۔”
ٹھنڈے ٹھنڈے آم لیے ماہ نور آگئی۔” اُس نے اپنے آنے کا خود ہی اعلان کر دیا ماہ نور نے سلور کی دیگچی اُٹھارکھی تھی جس میں پانی اور برف میں ڈوبے ہوئے ٹھنڈے یخ آم تھے۔
”اُن تینوں نے خوب سیر ہوکر آم کھائے۔ باتوں باتوں میں رات کٹ گئی جس کی خبر تب ہوئی جب حکیم صاحب نے اسپیکر میں اذان شروع کی۔ اذان کی آواز سنتے ہی ماہم نے جاتے ہوئے صرف اتنا کہا:
”مائرہ اللہ حافظ۔” وہ جلدی سے بانس کی سیڑھی اُتر گئی۔ مائرہ یہ سوچ کر پریشان تھی اِسے کیا ہوا۔ ماہم کے پیچھے ہی تھوڑی دیر بعد ماہ نور بھی نیچے اُتر گئی۔ مائرہ ڈرتے ہوئے سیڑھی کی طرف بڑھی اُسے گلی میں ماہم نظر آئی جس نے جلدی سے اپنے دروازے کا تالا کھولا اور ساتھ ہی رُک گئی۔ مین روڈ سے اِس چھوٹی سڑک پر ایک سایا نمودار ہوا۔ ماہم نے ایک نظر اُس سائے کی طرف دیکھا پھر جلدی سے اندر چلی گئی۔
وہ سایا چھوٹا ہوتا ہوا ایک لڑکے کی شکل میں آیا یہ قد کاٹھ یہ چال ڈھال سب کچھ مائرہ کے دیکھے بھالے تھے۔ اُس نے حیرت سے صرف اتنا کہا:
”مزمل بھائی… یہاں… اِس وقت” مائرہ کا سارا دھیان مزمل کی طرف ہوگیا تھا۔ وہ بغیر خوف کے بانس کی سیڑھی اُتر آئی ۔ مائرہ نے پھر حیرت سے اپنے منہ میں کہا:
”مزمل بھائی!”
٭…٭…٭
مزمل حسبِ معمول فجر کے وقت معراج کے آیاتھا۔ نماز سے فراغت کے بعد مسجد کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے اِک نظر ماہم کو دیکھا۔ آج اُس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ بالکل سرخ گلاب کی طرح مزمل کے دل کو راحت ہوئی۔ وہ فیکٹری رکنے کے بجائے لاہور واپس چلا گیا۔
ممتاز بیگم دن چڑھے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد مزمل کی فیکٹری دیکھنے گئیں۔ اُس کے بعد اپنی پوری ٹیم کے ساتھ لاہور کو روانہ ہوگئیں۔
دونوں گھرانوں کے درمیان سالوں سے پڑی برف پگھل گئی۔ اب حکیم صاحب نے بھی ماڈل ٹائون آنا جانا شروع کر دیا تھا۔ مجتبیٰ ماہ نور کے ضروری کاغذات تیار کروا کر۔ مانچسٹر واپس جا چکا تھا۔
مائرہ اور مومنہ دونوں کو فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔اُن دونوں میں گہری دوستی بھی ہوگئی۔
مدیحہ کی ملک وال میں شادی کے بعد وہ مقبو ل حسین کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی ۔
معصومہ کی ماں بھی اپنی بیٹی کے لیے کسی اچھے رشتے کی تلاش میں تھی۔
چودھری ماجد اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر منزہ کو رام کرنے کے جتنوں میں لگا تھا۔
مسرت اور مبشر کے ہاں ایک خوبصورت بیٹا پیدا ہواتھا۔
برسات آئی طوفانی بارشیں ہوئیں مزمل کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔
دسمبر سے دسمبر آن پہنچا ۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال گزر گیا تھا۔ مزمل نماز کے بعد نکلتا وہ دیکھتی اور مزمل گردن جھکا کر چلا جاتا۔ ایک بھی ناغہ نہ تھا۔ دونوں اطراف سے ۔ ایک دن حسبِ معمول جب سب نمازی جاچکے تھے۔ مزمل اُٹھا، تو حکیم صاحب نے اُسے روک لیا۔
”بیگ صاحب! بیٹھ جائیں۔” انہوں نے شفقت سے کہا۔
”آج آپ کو کھڑکی بند ملے گی۔” مزمل نے نظریں اُٹھا کر حکیم صاحب کی طرف دیکھا۔ اُس کی نگاہوں میں کئی سوال تھے، مگر وہ خاموش رہا۔ اُس نے دل میں سوچا: ”حکیم صاحب کو کس نے بتایا؟”
”بیگ صاحب! عشق اور مشک نہیں چھپتے۔” حکیم صاحب نے مزمل کے چہرے پر بکھری حیرت کو ختم کیا پھر تشفی کے انداز میں بولے:
”ماہم بیٹی کا کل رات اپینڈس کا آپریشن ہوا تھا اور وہ اس وقت ہسپتال میں ہے۔”
مزمل کے چہرے پر حیرت کی جگہ پریشانی آ گئی۔
” وہ اب بالکل ٹھیک ہے مزمل بیٹا! تم فکر مت کرو۔”حکیم صاحب نے اُس کے چہرے پر آئی پریشانی بھگانے کی کوشش کی۔
”اُس کا آپریشن ہوا ہے؟” مزمل نے ہولے سے پھر پوچھا۔
”مزمل بیٹا! تم میرے ساتھ آئو یہاں مسجد میں بات کرنا مناسب نہیں ہے۔”
حکیم صاحب مزمل کو اپنی بیٹھک میں لے گئے۔ انہوں نے ماہ نور کو بلا کر ناشتے کے لیے کہا ہی تھا کہ مزمل فوراً بول پڑا:
”میں چائے پی لوں گا ناشتا نہیں کروں گا۔” مزمل نے دو ٹوک کہہ دیا۔ حکیم صاحب نے ماہ نور کو جانے کا اشارہ کیا وہ تھوڑی دیر بعد ناشتا لے کر آئی۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد حکیم صاحب نے خود ہی بات شروع کی:
”بیگ صاحب سے مزمل بیٹا اور آپ سے تم تک میں خود ہی آگیا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ تمہیں میری بات سمجھ آجائے۔ ماہم اپنے تایا کے بیٹے ماجد کی منگیتر ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بے جوڑ رشتہ ہے۔ ماسٹر محمود خود اس رشتے کے حق میں نہیں تھا۔ اگر ماہم کا دادا یہ فیصلہ نہ سناتا، تو یہ رشتہ کسی صورت نہیں ہو سکتا تھا۔ ماسٹر محمود اپنے باپ کا ادب کرتا تھا۔ اس لیے اُس نے آمین کہہ دیا۔
یہی حال ماہم بیٹی کا بھی ہے۔ وہ اپنے باپ بے حد ادب کرتی ہے۔ ماجد ایک آوارہ اور بد چلن لڑکا ہے۔ ماسٹر محمود اور چودھری مقصود چند سال پہلے منڈی بہائوالدین سے اپنی گاڑی پر واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ماسٹر محمود اور ڈرائیور موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ چودھری مقصود پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا، اُس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں۔ماجد اپنے گھر کا بڑا ہے ادھر ماہم سب سے بڑی ہے۔ وہ پڑھے لکھے باپ کی بیٹی ہے۔ ماہم خود بھی ایم اے، ایم ایڈ ہے جب کہ ماجد میٹرک بھی نہ کر سکا۔
مسجد کے سامنے جو اسکول ہے یہ ماہم نے اپنے باپ سے کہہ کر بنوایا اُسے گائوں کا ماحول پسند نہیں تھا۔ اس لیے اپنا گھر بھی اسکول کے ساتھ ہی تعمیر کروالیا۔ ایسے گھر عموماً پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں، مگر ماہم بیٹی کو ایسا گھر ہی پسند تھا۔ مہتاب خان پہلے سیٹھ مجیب کے پاس سکیورٹی گارڈ تھا۔ ماہم کے اسکول میں اُس کی بیٹیاں پڑھتی ہیں۔ فیکٹری بند ہونے کے بعد ماہم نے مہتاب خان کو اپنے پاس سکیورٹی گارڈ کی نوکری دے دی۔
دیکھو مزمل بیٹا! میری بات کافی لمبی ہوگئی۔ تمہاری شادی کسی صورت ماہم سے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے تم کسی اور لڑکی سے شادی کر لو اور اُس کا خیال دل سے نکال دو۔ ”حکیم صاحب نے ساری تفصیل بتانے کے بعد لگے ہاتھوں مزمل کو مشورہ بھی دے ڈالا۔
”اُمید کو آگ لگانے سے اندھیرے ملتے ہیں۔ حکیم صاحب! اُمید پانی کی طرح ہوتی ہے جو کبھی بھی رحمت کے بادلوں سے برس سکتی ہے۔ میں آپ کی محبت، آپ کے خلوص کی قدر کرتا ہوں۔ میں یہ ساری باتیں مبشر کی شادی کے دوسرے دن سے جانتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا جس دن میں نے یہاں پہلی بار فجر کی نماز ادا کی تھی اُس دن سے…” مزمل کی باتیں سُننے کے بعد اس بار حکیم صاحب ششدر تھے۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہے پھر کہنے لگے:
”بیٹا…! اگر میں تنگ نظر ہوتا، تو شاید تمہاری عبادت کو ہی منافقت قرار دے دیتا۔ تم لاہور سے یہاں نماز پڑھنے آتے ہو یا اُسے دیکھنے؟” حکیم صاحب نے مزمل بیگ کے ماتھے پر پڑے محراب کو دیکھ کر سوال کیا۔
”نماز تو میں فرض ہونے کے بعد سے پڑھ رہا ہوں۔ مجھ میں بے شمار برائیاں ہیں، مگر میں نے نماز کبھی نہیں چھوڑی۔ ” مزمل بات کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔ حکیم صاحب کو ابھی تک اپنے سوال کا جواب نہیں ملا تھا۔ وہ مزمل کے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر دونوں اطراف سے خاموشی رہی۔ مزمل جواب دینا چاہ رہا تھا پھر اُس نے ہمت کرکے کہہ دیا۔
”حکیم صاحب! آپ نے کافی مشکل سوا ل پوچھ لیا ہے۔ جب میں لاہور سے نکلتا ہوں، تو میں نے نماز کے خیال سے ہی مسجد کی طرف جاتا ہوں۔ اللہ دلوں کے حال جانتا ہے۔ جب میں مسجد کی سیڑھیاں چڑھتا ہوں تو مجھے کبھی اُس کا خیال نہیں آیا۔ ہاں، اُترتے وقت میری نظر اٹھ جاتی ہے جس پر میرا اختیار نہیں ہوتا۔ میں روز خود سے عہد کرتا ہوں اور روز ہی توڑ دیتا ہوں۔ میری نظر صرف چند سیکنڈ کے لیے اُٹھتی ہے آپ کو کیسے خبر ہو گئی اور لوگوں کو بھی۔ مزمل مسلسل حیران تھا اور حکیم صاحب اُس کے ماضی اور حال سے باخبر تھی ۔