ماہ نور جمعے کی نماز کے بعد ماہم سے ملنے گئی۔ جب وہ اُن کے گھر پہنچی تو مریم بی بی اور مومنہ بازار جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔
”آنٹی! کہاں کی تیاری ہے؟” ماہ نور نے پوچھا۔
”تمہاری ساس نے مجھے اور مومنہ کو زبردستی اپنے ساتھ تیار کر لیا ہے۔بازار تک جا رہے ہیں۔”
”ماہ نور آپی! آپ بھی چلو ہمارے ساتھ۔مجتبیٰ بھائی بھی ساتھ ہی ہیں۔” مومنہ نے ماہ نور سے کہا ہی تھاکہ ہارن کی آواز کانوں میں پڑی سب کا دھیان اُدھر ہوگیا۔
”بڑی لمبی عمر ہے اپنے مجتبیٰ بھائی کی۔” مومنہ نے شرارتی انداز میں کہا۔ مریم بی بی ماہ نور کے ساتھ مومنہ کی بے تکلفی نوٹ کر رہی تھی۔
”مومنہ!” مریم بی بی نے اُسے ڈانٹتے ہوئے ٹوکا۔
”ماہ نور تم سے بڑی ہے۔تمہارا مذاق بنتا نہیں۔ چلو مجتبیٰ انتظار کر رہا ہے۔ ماہ نور تم دروازہ بند کر لو۔”
”آنٹی! ماہم آپ کے ساتھ نہیں جا رہی ۔”ماہ نور نے جانتے ہوئے بھی ایسے ہی پوچھ لیا۔
”پہلے کون سا وہ بازار جاتی ہے۔ فریج میں کھیر رکھی ہے وہ نکال کر اُس کے کمرے میں لے جائو خود بھی کھائو اور اُسے بھی کھلا دینا۔” مریم بی بی صحن میں سے گزرتے ہوئے ماہ نور کو ہدایات دے رہی تھی۔ دروازے پر پہنچ کر ماہ نور رُک گئی مریم بی بی اور مومنہ گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ ماہ نور نے آدھ کھلے گیٹ ہی سے مجتبیٰ کا دیدار کر لیا تھا۔ مجتبیٰ بے خبر تھا ماہ نور کی موجودگی سے۔
”ماہ نور آپی گیٹ بند کر لو۔” مومنہ نے گاڑی میں بیٹھ کر جان بوجھ کر صدا لگا ئی۔ ماہ نور کا نام سنتے ہی مجتبیٰ کے کان کھڑے ہوگئے۔ تب تک وہ گاڑی چلا چکا تھا اور ماہ نور نے گیٹ بھی بند کر لیا تھا۔ مریم بی بی نے ایک بار پھر مومنہ کو گھوری ڈالی جو کہ مجتبیٰ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی اور مریم بی بی اپنی سہیلی میمونہ کے ساتھ پچھلی سیٹ پر تھی۔
٭…٭…٭
”واہ جی واہ۔ کیا مزے دار کھیر بنائی ہے آنٹی جی نے۔ ” ماہ نور کھیر کھاتے ہوئے اُس پر تبصرہ کر رہی تھی۔ ماہم نے دیکھا تو ہلکا سا مسکرائی۔
”ٹیسٹ تو کرو۔ تھوڑی سی ڈال کر دوں۔” ماہ نور نے خلوص سے پوچھا۔
”میرا دِل نہیں چاہ رہا۔” ماہم نے پھیکی مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہوئے کھیر کھانے سے انکار کر دیا۔
”میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں۔ تم بجھی بجھی سی ہو۔اینی پرابلم”
”تمہارا وہم ہے۔ایسا تو کچھ نہیں۔”ماہم نے پھیکا سا جواب دیا۔
”کل میرا نکاح ہے۔تم جانتی ہو، کہاں ہے میری وہ بیسٹ فرینڈ جس نے میری منگنی پر اتنی رونق لگائی تھی۔” ماہ نور نے کھیر کی خالی پیالی میز پر رکھی اور متلاشی نگاہ ماہم کے چہرے پر ڈالی۔
”ماہم! تمہیں ایک بات بتاتی ہوں۔ تم پہلے خوشبو کی طرح تھی، جہاں بھی جاتی خاموشی کے باوجود اپنی خوشبو چھوڑ آتی۔ اب تم اندر ہی اندر سُلگ رہی ہو۔مزمل کی محبت کا اقرار کر لویا پھر ماجد سے نسبت توڑ دو۔” ماہ نور کی بات سُن کر ماہم نے بے چین نظروں سے اُسے دیکھا۔
”ایسے مت دیکھو،دیوانوں کی طرح۔” ماہ نور نے روکھے لہجے میں کہا۔ ماہم نے مسخرو ںکی طرح ہنسنا شروع کر دیا، ماہ نور کو اُس کی ہنسی پر شدید غصہ آرہا تھا۔
”گوٹوہیل…” ماہ نور یہ کہتے ہوئے غصے سے اُٹھی اور کمرے سے جانے لگی۔” ماہم نے آگے بڑھ کر اُس کی کلائی تھام لی۔
”سوری ماہ نور!”ماہم نے معصومیت سے کہا۔ ماہ نور کی کلائی ابھی تک ماہم کے ہاتھ میں تھی۔ ماہ نور نے جلدی سے ماہم کی پیشانی پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اُس کا غصہ پریشانی کی شکل اختیار کر گیا۔
”تمہیں تو تیز بخار ہے۔ مجھے بتایا کیوں نہیں تم لیٹ جائو۔میں ابّا سے دوائی لے کر آتی ہوں۔” ماہ نور نے ماہم کو بیڈ پر لٹا دیا تھا اور خود جانے لگی۔
”ماہ نور! دوائی میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی کھائی ہے۔” ماہم بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ ماہ نور نے رائٹنگ ٹیبل والی کرسی گھسیٹ کر ماہم کے بالکل سامنے رکھی اور اُس پر بیٹھ گئی۔
”ماہ نور! میں تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ چند ماہ پہلے بھی کوشش کی تھی، لیکن کہہ نہیں پائی۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے تمہیں میرے کردار پر شک ہے ۔ میں اپنے آپ کو پارسا تو نہیں سمجھتی ایک گناہ گار بندی ہوں۔ جانے ان جانے اور بے خیالی کو چھوڑ کے ایک بات و ثوق سے کہتی ہوں میرے جسم کو آج تک صرف ایک مرد نے چھوا ہے۔ مسرت کی برات والے دن سب کچھ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی ہوا تھا۔ میرا خدا جانتا ہے اُس میں میری کوئی بدنیتی ہرگز شامل نہیں تھی وہ سب کچھ اتفاقاً ہوگیا تھا۔ اُس غلطی کے لیے میں ربِ کعبہ کے سامنے بڑا گڑگڑاتی ہوں۔” ماہم بات کرتے کرتے خاموش ہوگئی۔ ماہ نور مجسمہ بنی اُسے دیکھ رہی تھی۔
”ماہ نور مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو۔” ماہم نے کہا ہی تھا کہ ماہ نور کمرے سے چلی گئی۔ چند منٹ بعد شیشے کے گلاس میں ماہم کو پانی دیا۔اُس نے آدھا گلاس پانی پیا اور باقی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”تم اکثر مجھ سے کہتی ہو،مجھے اُس سے محبت ہوگئی ہے۔محبت کا تو پتا نہیں ، مگریہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ ابو کی طے کی ہوئی نسبت نا تو میں توڑوںگی اور نا ہی امّی جی کو توڑنے دوں گی۔
اب اِس کے بعد میں کیوں اُسے دیکھتی ہوں اِس کی مجھے بھی خبر نہیں ۔فجر کے وقت جو گناہ کرتی ہوں عشا تک اُس کی معافی تلافی میں لگی رہتی ہوں۔ روزانہ ہی اُسے نہ دیکھنے کا عہد کرتی ہوں اور ہر روز ہی توڑ دیتی ہوں۔ عشا کے بعد جب بستر پر لیٹتی ہوں، تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُس نے ماجد کے نام سے بُک خالی پلاٹ پر چپکے ہی چپکے مکان کھڑا کر لیا ہو اور اب وہ اُس مکان میں الفت کا دیپ جلا کے اُسے محبت کا آشیانہ بنانا چاہتا ہے۔
میری ہزار ہا کوشش کے باوجود میرے دل میں اُس کی یادوں کی محفل لگی رہتی ہے۔ ماہ نور میری سمجھ سے باہر ہے سارا معاملہ اگر یہی محبت ہے ، تو میں اِس کا اقرار بھی نہیں کر سکتی۔ اقرار کے بعد اگر فرار کا رستہ اختیار کر وں گی تو جہنم میں جائوں گی۔”
”گڈ ویری گڈ،تومت جائوجہنم میں۔ایک مہربانی کر دو۔اُسے انتظار کروانے کے بجائے سیدھا اور صاف انکار کردو۔ وہ بھی اپنے گھر سکون سے بیٹھے اور تم بھی اِس کھڑکی کو بند کر سکو۔ اِس طرح کم از کم سکون کی نیند تو سو سکو گئی!”ماہ نور نے دو ٹوک لہجے میں اپنی طرف سے کھری بات کہہ دی۔
”ماہ نور! حکیم چچا کہتے ہیں محبت میں انتظار زندگی تھم جانے کا نام ہے اور محبت میں محبت کو انکار موت کے مترادف ہے۔” ماہم نے بے تابی سے کہا۔
”ویل سیڈ،چلو تم نے مانا تو سہی کہ یہ محبت ہی ہے۔” ماہ نور نے فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔ ماہم نے اُس کی طرف دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر رکھے شیشے کے گلاس پر نظر ڈالی اور کہنے لگی:
”میں نے حکیم چچا کی کہی ہوئی ایک بات تمہیں بتائی ہے۔محبت کا اقرار نہیں کیا!” ماہم نے اپنی بات کی وضاحت پیش کی۔
”دیٹ از انٹرسٹنگ!محبت کا اقرار نہیں کیا۔” ماہ نور نے ماہم کے انداز ہی میں کہا تھا اُس کا انداز دیکھ کر ماہم کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی ۔
”ماہ نور! اِس پانی کے گلاس کی طرف دیکھو آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے اور آدھا خالی۔ تم آدھے بھرے ہوئے گلاس میں محبت کا پانی دیکھ رہی ہو اور میں آدھے خالی گلاس میں نسبت کی ہوا کو محسوس کر رہی ہو۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر اٹل حقیقتیں ہیں۔”
ماہ نور نے خالی گلاس کو غور سے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
”خالی گلاس میں صرف ہوا نہیں بلکہ انکل کی طے کی ہوئی نسبت کی ہوا ہے۔ مزمل بیگ اچھے بھلے پڑھے لکھے ہو۔محبت بھی کی تو کس عجوبے سے۔”
دونوں کے چہروں پر خوشی لوٹ آئی تھی۔
”شکر ہے تمہارے چہرے پر رونق تو آئی بڑے بڑے ڈائیلاگ مار رہی تھی۔ ماہم چودھری! مجھے تمہارے کردار اور حیا پر کوئی شک نہیں ہے۔ مائنڈ اٹ!وہ تمہیں دیکھتا ہے تم اُسے دیکھتی ہو دل میں سوال تو اُٹھیں گے۔”
”جب وہ مجھے دیکھتا ہے تو اُس کی نظروں پر حیا کا غلاف ہوتا ہے اُس کی نظروں سے میرے چہرے کو چبھن محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایک لمس کا احساس ہوتا ہے۔”
”واہ جی واہ قربان جائو ں تمہاری منطق پر کوئی اور سنے گا تو لطیفہ سمجھ کر ہنس دے گا۔”
”تم اپنی سنائو دوسروں کو چھوڑو۔”
”خیر مجھے تو تمہاری فکر ہے تمہیں ہونا ہو۔کل میرا نکاح ہے۔”ماہ نور نے زور دے کر کہا۔
”پتا ہے،آج کی معذرت۔کل کی رات تمہارے ساتھ ہی گزاروں گی۔” ماہم نے جواب دیا۔
”کل اچھی طرح تیار ہونا۔مزمل بیگ کی دادی بھی آرہی ہیں۔” ماہ نور نے اطلاع دی۔
ماہ نور کی بات سُن کر ماہم سوچ میں پڑ گئی چند لمحوں بعد منہ میں بولی:
”مزمل بیگ کی دادی…”
٭…٭…٭
”مزمل بیٹا! میں کل معراج کے جانا چاہتی ہوں۔ ”یہ سنتے ہی مزمل کے چہرے پر کئی سوال اُبھرے تھے۔
”وہ صرف اتنا ہی پوچھ سکاکیوں…؟”
”ماہ نور کا نکاح ہے۔تمہاری فیکٹری بھی دیکھنا چاہتی ہوں اور ایک ضروری کام بھی ہے”
”آپ کو ڈاکٹر نے سفر سے منع کیا ہے۔” مزمل نے سنجیدگی سے کہا۔
”ضروری کام نہیں پوچھو گے!”ممتاز بیگم نے تجربے کی آنکھ سے مزمل کو دیکھا۔
”بتائیں۔”مزمل نے نظریں چُراتے ہوئے پوچھا۔
”کسی سے معافی مانگنی ہے۔”ممتاز بیگم نے حتمی انداز میں بتایا۔
”کس سے؟”مزمل بغیر توقف کے بولا۔
”حکیم مسلم انصاری سے۔”ممتاز بیگم نے اطمینان سے جواب دیا۔
”آپ کیسے جانتی ہیں حکیم صاحب کو؟”مزمل اپنی دادی کی بات سُن کر ششدر رہ گیا۔
”میں ہی تو جانتی ہوں اصل حقیقت۔”ممتاز بیگم نے کھوئی کھوئی آواز میں کہا۔
”کیسی حقیقت؟”اُس نے ایسے کہا جیسے اُس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
”ہم دو بہنیں تھیں جنوبی پنجاب میں ابّا اور تایا کی ہزاروں ایکڑ زمین تھی ۔بڑی آپا کا نام مہرو النساء تھا۔ وہ تایا کے بیٹے مراد کی منگیتر بھی تھی۔ میں آپا سے دس سال چھوٹی تھی ۔ ملتان میں آپا کو اپنے کلاس فیلو محسن انصاری سے محبت ہوگئی۔ آپا نے ابّا اور تایا کی مرضی کے خلاف محسن سے شادی کر لی۔ ابّا نے آپا کو جائیداد سے عاق کر دیا اور قسم کھائی کہ وہ پوری زندگی آپا کی شکل خود یکھیں گے اور نہ اپنے خاندان میں سے کسی کو دیکھنے دیں گے۔
میرا رشتہ تایا نے مراد آپا کے منگیتر کے لیے مانگا میرے ابّا نے انکار کردیا۔
ابّا نے میری شادی ایک بیور کریٹ سے کردی۔ مصطفی بیگ مطلب تمہارا دادا پڑھا لکھا آدمی تھا اور میں مڈل پاس۔ آپا کی شادی کے بعد ابّا نے مجھے پڑھنے نہیں دیا۔ میری تمہارے دادا مصطفی بیگ سے بنی نہیں اُنہوں نے مجھے طلاق دے دی۔ تب تمہارا باپ مدثر بیگ صرف چھے ماہ کا تھا۔ ابّا نے مجھے یہ والا گھر خرید دیا اور کہا کہ تم لاہور ہی میں رہو۔
ایک بیٹی نے مرضی سے شادی کر لی دوسری کو طلاق ہوگئی۔ ابّا کو اِن صدموں کا گہرا اثر ہوا وہ چل بسے۔ ابّا کے مرنے کی دیر تھی میرے تایا کے بیٹے مراد نے ہماری آدھی زمین پر قبضہ کر لیا۔ عدالت میں کیس چل پڑا۔ میں نے مدثر کے لیے شادی نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عدالت میں کیس چلتا رہا، فیصلہ نہیں ہوا۔ مدثر جوان ہوگیا میں نے اُسے بڑے لاڈوں سے پالا تھا۔
ایک دن کہنے لگا میں نے ایک لڑکی پسند کی ہے اُسی سے شادی کروں گا۔ میں نے فوراً رضا مندی ظاہر کردی۔ مدثر کا سب سے قریبی دوست معید لغاری اِس کی شادی میں پیش پیش تھا۔ معید کا تعلق ملتان سے تھا۔ مدثر اور ماریہ کی شاد ی کے ایک ہفتہ بعد معید کی بھی شادی تھی۔مدثر نے کہا میں معید کی شادی میں ملتان جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا جائو بیٹا ۔تمہارے والدین ملتان چلے گئے۔ معید کی شادی کے پندرہ دن بعد مدثرنے معید اور اُس کی بیوی کی دعوت کی۔معید کی بیوی کا نام ماہ جبین تھا۔تمھاری ماں ماریہ جتنی ماڈرن تھی، ماہ جبین اُتنی ہی سادہ ۔
معید لغاری کی ملازمت بھی لاہور میں تھی۔ چاروں روزانہ ملتے گھنٹوں باتیں کرتے، سیر پر جاتے، باہر کھانا کھاتے۔ میں نے مدثر اور ماریہ کو کبھی منع نہیں کیا تھا۔ معید کے گھر والے ملتان میں تھے اُسے روکنے والا یہاں کوئی نہیں تھا۔ایک دن ماہ جبین نے باتوں باتوں میں اپنی ماں کا ذکر کیا، تو تب مجھے پتا چلا وہ آپا مہرالنساء کی بیٹی ہے۔ میں نے یہ بات مدثر سے کی اور کہا میں اپنی بہن سے ملنا چاہتی ہوں۔
اِن دونوں شادیوں کو چار پانچ ماہ گزر چکے تھے۔ تمہاری ماں بھی اُمید سے تھی۔ اُدھر ماہ جبین بھی ماں بننے والی تھی۔ کوئی چھے ماہ بعد تمہاری ماں ناراض ہو کر سمن آباد اپنے میکے چلی گئی۔
میں نے مدثر سے پوچھا کیا بات ہے اُس نے بتایا وہ مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہے۔ میں منانے کے لیے سمن آباد گئی پر ماریہ واپس نہیں آئی۔ وہ اپنی طلاق کی ضد پہ ڈٹی رہی۔ چند دن گزر گئے معید کا بھی آنا جانا بند ہوگیا۔ میں نے مدثر سے پوچھا معید اور ماہ جبین نہیں آئے کہنے لگا معید اور ماہ جبین ملائیشیا چلے گئے ہیں۔
میں نے اِس سے کئی بار کہا مجھے آپا سے ملنا ہے۔ ماہ جبین سے اُس کے گھر کا پتا لو۔ مدثر ٹال مٹول کرتا رہا۔ کئی مہینے گزر گئے۔ ایک دن خبر آئی ماریہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اگلے دن وہ تجھے یہاں چھوڑ گئی۔ میں پریشان تھی ایک دن کا بچہ اور ماں یہاں چھوڑ گئی۔ مدثر نے مجھے بتایا کہ اُس نے ماریہ کو کب کی طلاق دے دی ہے۔ ایک دن تم بہت رو رہے تھے۔ تم فیڈر سے دودھ نہیں پی رہے تھے۔
تب مبشر کوئی دو ماہ کا ہوگا۔ منظوراں بی بی نے تمہیں دیکھا، تو مجھ سے کہنے لگی۔ بیگم صاحبہ میں چھوٹے صاحب کو اپنا دودھ پلا دوں۔ میں نے کچھ دیر سوچا پھر کہا اپنے کوارٹر میں لے جا کر پلا دیا کرو۔
تم ایک ماہ کے تھے کہ ایک روز مسلم انصاری ہمارے گھر آیا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا وہ کون ہے۔ کہنے لگا مدثر کدھر ہے میں نے پوچھا کیا بات ہے۔ کہنے لگا وہ میری بہن کو بھگا کر لے آیا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے تمہاری بہن اُس نے مجھے بتایا ماہ جبین میری بہن ہے، مدثر اُسے لے کر بھاگ گیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ کی ماہ نور کو چھوڑ کر ماہ جبین مدثر کے ساتھ بھاگ گئی۔ چند دن بعد ایک اور خبر سننے کو ملی معید نے سمن آباد ماریہ کے گھر پر اُس سے نکاح کر لیا ہے۔
آپا کو محلے کی کسی عورت نے طعنہ دیا، تو بھی تو بھاگ کر آئی تھی۔ اس لیے تیری بیٹی بھی بھاگ گئی ہے۔ آپا یہ برداشت نہ کر پائی اور چل بسی۔
حکیم مسلم انصاری تب ماسٹر مسلم انصاری تھا جو کہ ماسٹر محمود کا جگری دوست تھا۔ ماسٹر محمود نے مشورہ دیا تم میرے گائوں آجائو۔ مسلم اور مہوش بھی ملتان میں لوگوں کی طنزیہ باتوں سے تنگ آگئے تھے۔
مسلم نے ملتان سے اپنا سب کچھ بیچ دیا اور ماسٹر محمود کے پاس آگیا۔
معراج کے میں سب یہی جانتے ہیں کہ ماہ نور مسلم اور مہوش کی بیٹی ہے۔ اُن کی خود کی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے ماہ نور کو بیٹی سے بڑھ کر پیار دیا۔
تم آٹھ سال کے ہوگئے۔ ہماری عدالت میں تاریخ تھی اُس دن زمین کا فیصلہ بھی میرے حق میں ہوگیا۔
مراد نے کیس ہارنے کے بعد عدالت کے احاطے سے باہر مجھ پر فائرنگ کروادی۔ میرا گارڈ زخمی ہوا۔ اگر مبشر کا باپ مرید حسین میرے حصے کی گولی اپنے
سینے پر نا کھاتا، تو آج قبر میں اُس کی جگہ میں سو رہی ہوتی۔
”مرید حسین اور منظوراں کے بڑے احسان ہیں مجھ پر۔” ممتاز بیگم کے آنسو گالوں پر گر رہے تھے۔ مزمل نے دیکھا تو دادی کے گلے لگ گیا اور انہیں دلاسا دیا۔
”دادئو! آپ معراج کے ضرور جائیں۔ پر آپ حکیم صاحب سے معافی نہ مانگیں۔ مدثر بیگ کے گناہوں کی آپ کیوں معافی مانگتی ہیں۔” مزمل نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔
”مجھے مدثر پر سب سے زیادہ گلہ اس بات کا ہے کہ اُسے ماہ جبین کو بھگا کر نہیں لے جانا چاہیے تھا۔ مجھ سے کہتا میں آپا سے ہاتھ جوڑ کر رشتہ مانگ لیتی۔
٭…٭…٭
”ایک بوجھ ہے دل پر سوچتا ہوں ماہ نور کو بتا دوں۔” حکیم صاحب احساسِ ندامت سے مہوش سے مخاطب تھے۔
”کیسا بوجھ؟” مہوش نے فکر مندی سے پوچھا۔
”جن دنوں معید نے ماہ جبین کو گھر سے نکال کر ملتان بھیج دیا تھا۔ ایک دن ماہ جبین نے جھجکتے جھجکتے مجھ سے کہا بھائی آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میں نے کہا بولو کہنے لگی آپ کو پتا ہے معید نے مجھے گھر سے کیوں نکالا؟ میں نے کہا بتائو۔ ماہ جبین کہنے لگی وہ اپنے دوست مدثر بیگ کی بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ مدثر بیگ نے ماریہ کو طلاق دے دی ہے اور معید نے مجھے بھی طلاق کے ساتھ ہی یہاں بھیجا ہے۔”
”تمہیں طلاق ہوگئی ہے۔ ”یہ سن کرمیرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔ ماہ جبین کہنے لگی :
”بھائی آپ گھبرائیں نہیں میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی صرف بچے کی پیدائش تک میں یہاں ہوں اُس کے بعد میں مدثر سے نکاح کر لوں گی۔”
”مدثر کیوں کرے گا تم سے نکاح؟”
”وہ مجھے پسند کرتا ہے اور میں بھی ۔ ”ماہ جبین کی یہ بات سن کر مجھے بہت غصہ آیا اتنا اُس کی طلاق کی خبر سن کر بھی نہیں آیا تھا۔
پھر ماہ جبین نے مجھے بتایا مدثر کوئی غیر نہیں ہماری خالہ ممتاز کا بیٹا ہے۔ یہ بات سن کر میں آپے سے باہر ہوگیا۔ ابّا اور امّاں نے اپنے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ ابّا کے شریکے نے اُن کا حقہ پانی بند کر دیا۔ نانا اور خالہ نے بھی کبھی ہماری خبر نہیں لی تھی۔ ابّا بیمار ہوگئے۔ امّاں نے لوگوں کے بچوں کوٹیوشن پڑھا پڑھا کر ابّا کا علاج کروایا اور ہمارے بھوکے پیٹوں کو کھانا فراہم کیا۔ چند دنوں بعد ابّا چل بسے ۔
تب میں میٹرک میں پڑھتا تھا۔میں نے یہ خبر نانا اور خالہ کو بھجوائی مگر اُس طرف سے بھی کوئی نہ آیا ۔ابّا کے خاندان والوں نے بھی اُن کے جنازے میں شرکت نہ کی مجھے جتنی نفرت ابّا ا کے خاندان سے تھی اُسے سے کہیں زیادہ امّاں کے گھر والوں سے تھی۔”
حکیم صاحب بات کرتے کرتے رُک گئے۔ کمرے سے صحن میں گئے وہاں گھڑے سے پانی پیا پھر آکر کمرے میں مہوش کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ ما ہ نور بھی اُن کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی۔
”میں نے ماہ جبین سے کہا میں تمہاری کسی سے بھی شادی کردو ں گا، مگر مدثر سے کسی قیمت پر نہیں ہونے دوںگا۔” حکیم صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر خاموش ہوگئے۔ مہوش ٹک ٹکی لگائے حکیم صاحب کو دیکھ رہی تھی۔ ماہ نور بھی خاموشی سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔
”ہم جتنے مرضی مذہبی بن جائیں عورت کو اُس کا حق نہیں دیتے۔ اپنی پسند سے شادی کر نا ہر عورت کا شرعی حق ہے۔ حق دینا تو دور کی بات ہم تو پوچھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ امّاں کا صرف اتنا قصور تھا کہ انہوں نے اپنی پسند سے شادی کی۔ امّاں جیسی نیک سیرت عورت میں نے اپنی پوری حیاتی میں نہیں دیکھی۔”
”ماہ جبین نے کچھ غلطیاں ضرور کی تھیں ۔آخر میں وہ بھی شادی ہی کرنا چاہتی تھی ۔ میں اُس وقت مان جاتا، تو ماہ نور اور مزمل کو ماں باپ کا پیار مل جاتا۔ مہوش بیگم تم نے مجھ سے کئی بار پوچھا ماہ نور کے کہنے پر آپ نے مجتبیٰ کے حق میں فیصلہ کیوں دے دیا۔ پسند سے شادی کرنا ماہ نور کا حق تھا میں نے تو صرف اُس کا حق دیا ہے اُسے۔”
حکیم صاحب اِس بات سے انجان تھے کہ ماہ نور اُن کے پیچھے ہی کھڑی ہے۔
”پتا ہے آج مجھ سے کہنے لگی ابّا میں اپنی ایک سہیلی کو نکاح پر بلانا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا بھابی مریم کو میں نے کہہ دیا ہے۔ بولی میں ماہم کی بات نہیں کر رہی دادی ممتاز وہ ہیں میری سہیلی آپ نے مجھے ماڈل ٹائون بھیجا تھا۔ آپ ہی کے کہنے پر میں نے اُن سے بات کی پھر وہ میری سہیلی بن گئیں۔ اب سوچ رہا ہوں خالہ ممتاز کا کیسے سامنا کروں گا۔ میں اُن سے معافی مانگ لوں گا۔”
ماہ نور آگے بڑھی اور کرسی کے پیچھے ہی سے حکیم صاحب سے لپٹ گئی اور کہنے لگی :
”ابّا ! میں نے بھی اپنی پوری زندگی میں آپ سے اچھا شخص نہیں دیکھا۔ آپ دونوں میرے لیے میرے والدین سے بڑھ کر ہیں۔ ایک ریکویسٹ ہے آپ سے آپ دادی ممتاز سے ماضی کی کوئی بات ڈسکس نا کریں بس اُن سے ملنا شروع کردیں۔”
حکیم صاحب نے اُسے کلائی سے پکڑا اور اپنے سامنے مہوش کے پلنگ پر اُس کے قدموں میں بٹھا لیا۔
”مجتبیٰ کی کوئی خیر خبر؟”
”وہ سب شاپنگ سے آچکے ہیں اور اِس وقت معراج کے اپنے گھر پر ہیں۔” ماہ نور نے خوشی خوشی تفصیل دی۔
”وہ سب کون؟” مہوش نے تجسس سے پوچھا۔
”آنٹی میمونہ اُن کا بیٹا۔ مومنہ اور آنٹی مریم۔” انگلیوں کی پوروں پر گنتے ہوئے ماہ نور بولی۔
”ساس کا نام لے لیتی ہو منگیتر کا نہیں۔” مہوش نے ماہ نور کو چھیڑا۔
”امّاں!” ماہ نور امّاں کہتے ہوئے شرمائی۔
”ماہ نور بیٹی! تم کو کچھ اور خریدنا ہے تو پیسے لے لو۔”حکیم صاحب نے شفقت سے پوچھا۔
”نہیں ابّا !” ماہ نورنے مشکور نگاہوں سے حکیم صاحب کو دیکھا اور اُٹھ کر چلی گئی۔
٭…٭…٭