”حکیم صاحب! لائٹ جلا دیں۔” حکیم صاحب کی بیگم مہوش نے حکیم صاحب کو جائے نماز سمیٹتے ہوئے دیکھا، تو کہہ دیا۔ حکیم صاحب نے لائٹ جلا دی۔ حکیم صاحب کی بیگم مہوش پچھلے کئی سال سے بیمار ہے گھٹنوں میں شدید درد رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتی۔ وہیل چیئر کی مدد سے ایک سے دوسری جگہ حرکت کرتی ہے۔
”مہوش بیگم! رات آپ نے پھر دوائی نہیں پی۔” حکیم صاحب نے سرزنش کے انداز میں کہا۔
”تہجد پڑھ لی آپ نے” مہوش نے بات بدلی۔
”ہاں پڑھ لی۔ دوائی دوں؟ حکیم صاحب نے پوچھا۔
”خالی پیٹ۔۔۔دوائی پیوں۔” مہوش نے بے زاری سے کہا۔
”یہ خالی پیٹ ہی پینی تھی۔”حکیم صاحب نے دیسی دوائی کی شیشی پکڑی اور ایک چمچ مہوش کو پلا دیا۔
”آخ…بہت کڑوی ہے۔” مہوش نے بچوں کی طرح منہ بناتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
”مہوش بیگم! سچائی اور دوائی۔ بھلے ہی کڑوی ہوں فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔”
”حکیم صاحب ! آپ کی باتیں بھی حکیموں والی ہیں۔”
”پہلے تو آپ کچھ اور کہتی تھیں۔” حکیم صاحب نے مہوش سے نظریں چار کرتے ہوئے الفت سے کہا۔
”آپ بھی نا! سُنا ہے مزمل بیگ بھی برات کے ساتھ آیا تھا۔ آپ کو جانتا ہے وہ؟”
”اُس کی باتوں سے تو نہیں لگا کہ وہ مجھے جانتا ہے۔” حکیم صاحب نے سوچتے ہوئے بتایا۔
”ملاقات ہوئی تھی۔ کیا؟” مہوش نے تجسس سے پوچھا۔
”برات کے چند افراد میں سے ایک وہ تھا۔ شادی کے گواہوں میں بھی اُس کا نام شامل ہے۔ مسجد میں نماز ادا کرکے گیا ہے۔”
”اُسے پتا لگے گا تو کیا سوچے گا؟” مہوش نے فکر مندی سے کہا۔
”جو ماہ نور سمجھتی ہے۔وہ لڑکی ہو کر خود کو سنبھال سکتی ہے۔ یہ تو پھر لڑکا ہے۔”
”ماہ نور کی بات کچھ اور ہے۔”
”آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ مہوش بیگم! مجھے سے پوچھیں تو ماہ نور کا غم بہت بڑا ہے۔ مزمل بیگ سے کہیں زیادہ۔”
”اور آپ کا غم۔” مہوش نے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔حکیم صاحب نے ایک لمحے کے لیے مہوش سے آنکھیں ملائیں پھر چار پائی سے اُٹھتے ہوئے بولے:
”فجر کی اذان کا وقت ہو گیا ہے۔ میں مسجد جا رہا ہوں۔”
٭…٭…٭
”مومنہ ! اب اُٹھ بھی جائو۔ اذان تو کب کی ہوچکی ایک تم ہو اور ایک ماہم ہے۔ اُسے کبھی اُٹھانا نہیں پڑا اور تم کبھی اُٹھی نہیں۔” مریم بی بی نے قرآن پاک سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا اور پھر قرآن پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
”السلام علیکم امّی جی۔” ماہم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہہ دیا۔ مریم بی بی نے اُس کی طرف دیکھا اور منہ میں جواب دیا۔
”مومنہ ابھی تک سوئی ہوئی ہے۔ اٹھو مومنہ !”ماہم نے پیار سے مومنہ کا کمبل ہٹایا اور اُس کی پیشانی چومی۔
”آپی! میں اِسی لیے نہیں اُٹھتی۔ آپ آئو اور میری پیشانی چومو۔”مومنہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
”چلو جلدی سے نماز ادا کرلو۔”ماہم نے قرآن پاک الماری سے اُٹھایا اور تلاوت کرنے لگی۔
چودھری مقصود احمد اور ہیڈ ماسٹر محمود احمد دو ہی بھائی تھے۔ وہ دونوں اور اُن کا ڈرائیور چند سال پہلے منڈی بہاؤالدین ایک کام سے گئے تھے۔ واپسی پر کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ ڈرائیور اور ماسٹر صاحب موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ چودھری مقصود پچھلی سیٹ پر تھا اُس حادثے میں اُس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں۔
ہیڈ ماسٹر محمود احمد کی دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی ماہم چودھری اور چھوٹی مومنہ چودھری۔ ماہم نے ایم اے ایم ایڈ کرنے کے بعد لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ماسٹر صاحب نے خوشی خوشی اپنی بیٹی کی بات مان لی۔ چودھری مقصود اور ہیڈ ماسٹر محمود کی مشترکہ زمین 20مربعے تھی جن کی دیکھ بھال چودھری مقصود کے ذمے تھی۔ ماسٹر صاحب نے کبھی اپنے بڑے بھائی کے معاملات میں دخل نہیں دیا تھا۔ وہ جو کچھ زمینوں کی آمدن سے دیتا ماسٹر صاحب خاموشی سے رکھ لیتے ۔
دونوں بھائیوں کی حویلیاں معراج کے گائوں ہی میں تھیں۔ ماہم کی خواہش تھی کہ گائوں سے چار کلو میٹر دور ہی مین جی ٹی روڈ ہے۔ وہاں اپنا اسکول بنایا جائے اور اُس کے ہی پیچھے اپنا نیا گھر بھی ہو۔
جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ کافی سارا رقبہ ماسٹر محمود کا ہی تھا۔ اِس لیے اِس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔ اسکول اور گھر ماہم کی منشا اور مرضی کے عین مطابق تعمیر ہوگئے۔ ماہم کے اسکول کو شروع ہوئے دو سال ہی گزرے تھے کہ ماسٹر محمود کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئے۔
ماسٹر محمود کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ کی طرح پڑھنے میں لائق تھیں اس کے برعکس چودھری مقصود کے دونوں بچے پڑھنے میں انتہائی نالائق ثابت ہوئے چودھری ماجد نے ساتویں کلاس ہی میں اسکول چھوڑ دیا تھا۔ مدیحہ چار بار میٹرک کا امتحان دینے کے باوجود ناکام ہی رہی اُس کے مقابلے میں اُس کی سہیلی معصومہ بی اے کرنے کے بعد ماہم کے اسکول میں ٹیچر کی ملازمت کر رہی ہے۔
چودھری ماجد کا رشتہ ماہم کے دادا چودھری مشتاق نے طے کیا تھا۔
ماہم اور ماجد چھوٹے ہی تھے تب یہ بات چودھری مقصود نے اپنے باپ چودھری مشتاق کے کان میں ڈالی۔ چودھری مشتاق نے فوراً فیصلہ کر دیا۔ ماسٹر محمود اپنے باپ کے فیصلے کے سامنے خاموش رہا اور اِس رشتے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ وقت گزرتاگیا جب چودھری ماجد جوان ہوا، تو ماسٹر محمود نے اُس کی حرکتیں دیکھیں تو وہ اِس رشتے کو ختم کرنے کے متعلق سوچنے لگا پر زندگی نے اُسے مہلت ہی نہ دی۔
اگر ماسٹر محمود زندہ ہوتا، تو کب کا ماہم اور ماجد کا رشتہ ختم ہو چکا ہوتا۔
٭…٭…٭
”بیگم صاحبہ! اب آپ بھی مزمل صاحب کا کہیں رشتہ کر دیں۔”
منظوراں نے دودھ کا گلاس ممتاز بیگم کو پیش کرتے ہوئے تجویز دی۔
”اُس کے سامنے مت کہہ دینا۔ تیرا بھی لحاظ نہیں کرے گا۔” ممتاز بیگم نے دودھ کا گھونٹ لیتے ہوئے منظوراں کو خبر دار کر دیا۔”جی بیگم صاحبہ! ایک بات کی سمجھ نہیں آتی مزمل صاحب کو شادی سے اتنی نفرت کیوں ہے؟”
”منظوراں! تو بھی کملی ہے۔ تجھے ساری بات کا تو پتا ہے پھر بھی یہ سوال پوچھ رہی ہے۔” ممتاز بیگم نے دکھی ہو کر کہا ۔
”بیگم صاحبہ! مزمل صاحب وہ سب بھول کیوں نہیں جاتے۔”
”کیسے بھول جائے۔ منظوراں بی بی، کیسے بھول جائے۔” ممتاز بیگم نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ کی ٹیک سے سر لگا کر ٹھنڈی سانس لی۔
”جیسے اپنی ماہ نور بھول گئی ہے۔ اُس کی حکیم صاحب نے منگنی بھی کر دی ہے۔ لڑکا ولایت میں ہوتا ہے۔ سنا ہے پانچ چھے مہینے بعد نکاح ہے۔ اُس کے بعد وہ ماہ نور کے کاغذ ساتھ لے جائے گا، جیسے ہی ویزے کا بندو بست ہوگا ساتھ ہی رخصتی سیدھا ولایت جائے گی۔ اپنی ماہ نور’۔’ منظوراں نے ساری تفصیل بتا دی۔
”مزمل اُن سے ملا تھا۔”ممتاز بیگم نے پوچھا۔
”مائرہ کو جی صحیح پتا ہے۔ میں تو عورتوں ہی کی طرف رہی تھی۔ ہاں یاد آیا نکاح تو اپنے حکیم صاحب ہی نے پڑھوایا تھا۔ حکیم صاحب سے تو ملا ہے ۔”
”مسلم اورماہ نور کے بارے میں جانتا ہے؟”
”پتا نہیں جی۔” منظوراں نے لا علمی ظاہر کی۔
”برات کے ساتھ بھیجا، تو اِسی لیے تھا کہ اُن کے متعلق جان جائے۔”
”آپ خود کیوں نہیں بتادیتیں؟”
”میں اِس بارے میں بات کروں تو اُٹھ کر چلا جاتا ہے۔ پھر کئی کئی دن میرے ساتھ بھی موڈ بنا کر رکھتا ہے۔” ممتاز بیگم نے افسردگی سے کہا ۔کمرے کا دروازہ کھلا اور مزمل دروازے سے باہر ممتاز بیگم کے سامنے کھڑا تھا۔ ممتاز بیگم نے دیکھا تو مزید بات نہیں کی مزمل اندر آتے ہوئے بولا:
”کون موڈ بنا کر رکھتا ہے۔”
”کوئی نہیں اپنی منظوراں مبشر کی بات کر رہی تھی۔” ممتاز بیگم نے بات گول کر دی۔ مزمل نے منظوراں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”ماسی آپ جائو گھر میں بہو آئی ہے۔ اُسے ناشتا وغیرہ کروائو۔”
”مائرہ نے جی اُنہیں ناشتا کروادیاہے ۔ بیگم صاحبہ کا خیال رکھنے کے لیے کسی کو تو ہونا چاہیے تھا۔ میں جاتی ہوں اورمائرہ کو بھیجتی ہوں کہ وہ آپ کا ناشتا بھی تیار کر دے۔”
منظوراں جلدی سے چلی گئی ۔
منظوراں جلدی سے چلی گئی ۔
”میں رات کو دو دفعہ آیا تھا۔ آپ سو رہی تھیں۔” مزمل نے دادی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے بتایا۔
”آ ج جلدی اُٹھ گئے۔” دادی نے پوچھا۔
”ہاں، میں نے اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے۔”
”مبشر کے ولیمے میں شرکت نہیں کروگے۔” دادی نے سوال کیا۔
”دادو! آپ کے کہنے پر برات کے ساتھ چلا گیا۔ یہ کافی نہیں۔”
”میرا خیال ہے۔ زندگی میں پہلی بار تم نے کسی شاد ی میں شرکت کی ہے۔”
”آخری بار بھی ، میں چلتا ہوں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔”مزمل جلدی سے دادی کے بیڈ روم سے نکل آیا اُسے اندازہ تھا اب دادی بات سے بات نکال کر گھوم پھر کر اُس کی شادی کی بات کریں گی۔
”آپی! کل شادی میں مزہ آیا نا۔” مومنہ نے پراٹھے کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے ماہم سے پوچھا ۔
”ہوں۔” ماہم نے اپنی کلائی کی خراشیں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ سفید پٹی اُس نے فجر کی نماز کا وضو کرتے وقت اُتار دی تھی۔
”یہ تمہاری کلائی پر کیا ہوا ہے۔” مریم بی بی کی جیسے ہی نظر پڑی اُس نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور فکر مندی سے ماہم کی کلائی دیکھنے لگی۔
”کچھ نہیں امّی جی گر گئی تھی۔ چوڑیاں ٹوٹ کر لگی ہیں۔” ماہم نے اطمینان سے بتایا۔
”اور تو کوئی چوٹ نہیں آئی۔” مریم بی بی نے فکرمندی سے پوچھا۔
”امّی جی! آپ ناشتا کرو میں بالکل ٹھیک ہوں۔” ماہم نے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کو تسلی دی۔
”امّی جی! آپی کی شادی ماجد سے مت کریں۔ وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔” مومنہ نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پھر سے کہہ دیا مریم بی بی اور ماہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ مریم بی بی تو خاموش رہی مگر ماہم بول پڑی:
”مومنہ! دیکھو تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے۔ ابّو جی نے یہ نسبت طے کی تھی اور مجھے کسی قیمت پر بھی اُن کی زبان کا پاس رکھنا ہے
دوسری بات ماجد تم سے بڑا ہے ۔ اُسے بھائی کہا کرو۔” ماہم نے شگفتگی سے مومنہ کو سمجھایا
”بھائی! ناشتا تیار ہے۔ نیچے آجائیں جلدی سے۔”
مائرہ آئی اطلاع دی اور چلی بھی گئی۔ مزمل آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا۔ اُس نے اپنا بریف کیس اور سیمپل باکس اُٹھایا اور ڈائنگ ہال کی طرف چل دیا۔
ممتاز بیگم ناشتے کی میز پر اُس کا انتظار کر رہی تھیں۔
”دادو!” مزمل نے جھکتے ہوئے دادی کے ماتھے کا بوسہ لیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”دادو! شروع کریں نا۔” مزمل نے ناشتا شروع کرنے سے پہلے اپنی دادی کو دعوت دی۔ پھر ناشتے میں مصروف ہوگیا دادی غور سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔
”سفر پر جا رہے ہو، غصہ بھی نہیں کروگے اور اپنا موڈ بھی ٹھیک رکھو گے۔” مزمل نے ناشتے سے توجہ اپنی دادی کی طرف مبذول کی۔
”شادی کرلو۔”دادی نے رُندھی ہوئی آواز کے ساتھ کہا اور کافی دیر مزمل کو چشم الفت سے دیکھتی رہیں۔
مزمل کا چہرہ سپاٹ تھا۔ اُس نے اپنا ناشتا مکمل کیا دادی کا بوسہ لیا اور پورچ کی طرف چلا گیا۔
وہاں اُس نے اپنی گاڑی پر نظر ڈالی سفید مرسڈیز اب بھی بناؤ سنگار کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔ گاڑی کی چابی اُس کے ہاتھ میں تھی جب کہ بلیک ٹویوٹا ویگو سادگی سے ۔وہ کچن کی طرف چل دیا۔
”مینا! کیا مبارک گاڑی کی چابی دے گیا ہے؟” مزمل نے کچن میں برتن دھوتی مائرہ سے پوچھا۔
”جی بھائی! میں ابھی لے کر آئی۔” مائرہ جلدی سے گاڑی کی چابی لے کر آگئی۔
”یہ لیں۔ بھائی۔” مائرہ نے چابی دیتے ہوئے کہا۔
”مینا! مبارک آئے تو اُس سے گاڑی صاف کروا لینا۔” مزمل نے مرسڈیز کی چابی مائرہ کو دیتے ہوئے کہا۔
”مبارک آپ کے ساتھ نہیںجا رہا ۔”مائرہ فکر مندی سے بولی۔
”نہیں!” مزمل نے مختصر سا جواب دیا اور پورچ کی طرف چل پڑا۔ مائرہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے آئی اور چلتے چلتے بولی:
”بھائی! اتنا لمبا سفر آپ خود ڈرائیو کریں گے۔”
”کل بھی تو کی تھی۔”
”کل تو ہم گوجرانوالہ سے تھوڑا سا آگے ہی گئے تھے۔ آ ج تو آپ اسلام آباد جا رہے ہیں۔”
”مبارک علی تو تم لوگوں کے ساتھ ہوگا۔”
”وہ تو ٹھیک ہے ا پ فیکٹری سے کوئی دوسر ا ڈرائیور اپنے ساتھ لے جائیں۔”
”مینا! فکر مت کرو مجھے گاڑی چلانا آتی ہے۔” مزمل نے چہرے پر تبسم سجائے کہا اور اسلام آباد کے لیے نکل گیا۔
٭…٭…٭
”امّی جی! کل جو دُلہن کی کار ڈرا ئیو کر رہا تھا، ماہ نور آپی بتا رہی تھی ہمارا ریلٹو ہے۔ لندن سے MBAکیا ہے اُس نے۔”
”یہ بھی ماہ نور نے ہی بتایا ہوگا۔” ماہم نے تُرش لہجے سے پوچھا جو کپڑے پریس کر رہی تھی۔
”ڈیشنگ، اسمارٹ، ڈیسنٹ، شادی تو ایسے بندے سے کرنی چاہیے۔”
”یہ کس نے کہا تھا؟” مریم بی بی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ و ہ کپڑے کو الماری میں ہینگ کر رہی تھی، ماہم نے اپنی ماں کی طرف ناراضی سے دیکھا۔
”مومنہ! تم جائو اور امّی جی کے کپڑے لے کر آئو پریس کردوں بعد میں لائٹ چلی جائے گی۔” ماہم نے کچھ خفگی سے کہا۔ مومنہ کپڑے لینے چلی گئی۔ مریم بی بی نے ماہم کی طرف ٹٹولتی نظروں سے دیکھا۔
”امّی جی! آپ بھی نا…وہ ابھی چھوٹی ہے۔ اُس کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کریں۔” ماہم کی توجہ استری پر تھی پر وہ بولے جا رہی تھی۔ مریم بی بی نے کپڑے رکھے اور کرسی پر بیٹھ گئی۔”کالج جاتی ہے چھوٹی کہاں ہے؟ سچی بات تو یہ ہے وہ لڑکا مجھے بھی بہت اچھا لگا تھا۔میں تو چاہتی تھی تیری بھی کسی ایسے ہی لڑکے سے شادی ہوتی۔” ماہم نے فوراً اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ مریم بی بی پہلے ہی سے ماہم کو دیکھ رہی تھی۔ اُس نے ماہم کے چہرے کی تحریریں پڑھنے کی کوشش کی۔ ماہم نے نظریںجھکا لیں۔
”اگر کہو تو میں لالہ جی کو انکار کردوں۔” مریم بی بی نے ایک بار پھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے ماہم سے پوچھا۔
”امّی جی! آپ کو پتا توہے میرا جواب …پھر کیوں پوچھتی ہیں؟”
ماہم نے بغیر دیکھے خشک لہجے میں جواب دیا۔ استری بند کی اور کمرے سے نکل گئی۔ صحن میں اُس کا مومنہ سے سامنا ہوا۔
”آپی! امّی کے کپڑے۔” مومنہ نے کپڑے دکھاتے ہوئے کہا۔
”پریس کر دینا۔”
ماہم نے دوسری منزل کی طرف جاتی سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر جواب دیا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”آپی کو کیا ہوا؟ امّی جی!” مومنہ اپنی ماں کے سامنے کھڑی تھی۔
”کچھ نہیں تم تیار ہوجائو۔”
٭…٭…٭
”تیار ہو گئی ہو۔” مدیحہ نے مستی سے موبائل پر معصومہ سے پوچھا
”ہو رہی ہوں۔” معصومہ شیشے کے سامنے بیٹھی ہوئی بولی۔
”میں تو ابھی ابھی پارلر سے آئی ہوں۔”مدیحہ نے شوخی مارتے ہوئے بتایا۔
”ہم دُلہن کو لینے جا رہے ہیں۔تم خود ہی دُلہن بن رہی ہو اور زیادہ شوخیاں مت مارا کرو میرے بھی دو بھائی مسقط میں ہیں۔”معصومہ نے روکھا سا جواب دیا۔
”ناراض کیوں ہو۔”
”رات میری نیند خراب کر دی اور پوچھ رہی ہو ناراض کیوں ہو۔”
”ایک ہی رات لگائی ہے فیس بک پر آ ج ولیمے میں میرے آگے پیچھے گھومے گا۔” مدیحہ نے فخریہ انداز سے بتایا۔
”کیا…کیا کہا تم نے؟”
”اُسے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی تھی اُس نے ایکسپٹ کر لی۔ پھر صبح تک اُس سے میسج پر گپ شپ ہوتی رہی ہے۔”مدیحہ نے اپنی محبت میں فتح کی روداد سنائی۔
٭…٭…٭
”محبت کے مقابلے میں نفرت کرنا آسان ہے۔تم جائو ماہ نور بیٹی اور خالہ ممتاز سے اچھی طرح ملنا اُن کو اپنا تعارف بھی کروانا۔”
”وہ تو یہ سُن کر مجھ سے نفرت کریں گی۔” ماہ نور معصومیت سے بولی۔
”کیا تم مزمل سے نفرت کرتی ہو؟” ماہ نور نے بھولے پن سے نفی میں گردن ہلائی۔
”میں بھی نہیں کرتا۔ اِس سب میں ہم لوگوں کا تو کوئی قصور نہیں نہ تو ہمیں ایک دوسرے سے بغض رکھنا چاہیے اور نہ ہی شرمندہ ہونا چاہیے۔”
حکیم صاحب ولیمے پرجانے کے لیے ماہ نور کو راضی کر رہے تھے۔ حکیم صاحب اور مہوش خود جو نہیں جا رہے تھے، اس لیے ماہ نور نے بھی جانے سے انکار کر دیا تھا۔
”ابّامیں آپ کو چھوڑ کر اکیلے کیسے جا سکتی ہوں۔” ماہ نور نے اُلجھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ حکیم صاحب اور مہوش نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ حکیم صاحب نے مہوش کو بولنے کا اشارہ کیا۔
”دیکھو ماہ نور بیٹی! ہم تمہیں خود بھیج رہے ہیں۔” مہوش نے شائستگی سے سمجھایا۔
”لیکن امّاں! میں آپ کو چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں۔” ماہ نور اپنے فیصلے سے ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
”جیسے شادی کے بعد ہمیں چھوڑ کر چلی جائوگی۔” مہوش نے اُداسی سے کہا۔
”امّاں! آپ دو الگ الگ باتوں کو کیوں جوڑ رہی ہیں۔ یہ بات ہے تو میں آج ہی مجتبیٰ سے کہے دیتی ہوں کہ میں شادی کے بعد معراج کے ہی رہوں گی مانچسٹر نہیں جائوں گی۔” ماہ نور نے خفگی سے کہا۔
”جھگڑا تو مت کرو” اِدھر آئو میرے پاس۔” مہوش مسکراتے ہوئے بولی۔ ماہ نور اُٹھ کر مہوش کے پاس گئی مہوش نے اُس کی پیشانی چومی اور اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حکیم صاحب نے دیکھا تو بولے:
ٍ ”ماہ نور بیٹی! جہاں بات مان لی جائے وہاں جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔” ماہ نور نے غور سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ وہ سنجیدگی سے دوبارہ بولے:
”ضد چھوڑواور تیار ہو جائو۔”
٭…٭…٭
ماہ نور نے حکیم صاحب کی بات مان لی وہ تیار ہو کر ماہم کے گھر پہنچی ، مومنہ اور مریم بی بی بھی تیار ہو چکی تھیں۔ماہ نور نے اُنہیں مُسکراتے ہوئے دیکھا۔
”آپی! کیسی لگ رہی ہوں۔”مومنہ نے جھومتے ہوئے ماہ نور سے پوچھا۔ ماہ نور کے مکھڑے پر جلدی سے مسکان نے قدم رکھے اور وہ مُسکراتے ہوئے بولی:
”سو سویٹ۔”
”تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو۔” مریم بی بی نے ماہ نور سے کہا۔
”آنٹی ! ماہم کہاں ہے؟”
”اپنے کمرے میں۔”
”میں اُسے لے کر آتی ہوں۔” ماہ نور نے اپنا لہنگا اُٹھایا اور کمال مہارت سے ہیل والی سینڈل پہنے ہوئے۔ سیڑھیاں چڑھ گئی۔ وہ بغیر دستک کے ماہم کے کمرے میں داخل ہوگئی۔
”اُوہ نو…تم ابھی تک ریڈی نہیں ہوئی۔” ماہ نور نے ماہم کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں۔”
”طبیعت کا تو بہانہ ہے۔تم اپنی لائف کے ٹرننگ پوائنٹ سے پہلے ہی یوٹرن لے رہی ہو۔ میری خواہش تھی تم بھی ہمارے ساتھ چلتی۔” ماہ نور نے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”خواہش کا تعلق آپ کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے اِس لیے میں جانا نہیں چاہتی۔” ماہم نے جواب دیا۔
”فائن…ڈئیر ماہم چودھری! محبت کا تعلق آپ کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا، محبت اوربھوت آپ سے پوچھ کر نہیں چمٹتے یہ دونوں زبردستی انسان کے اندر گھس جاتے ہیں۔” ماہ نور نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
”بھوت بنجر مکانوں میں گھر بناتے ہیں اور محبت خالی دلوں میں بسیرا کرتی ہے۔ میرے دل پر ماجد کے نام کی رجسٹری ہو چکی ہے۔”
”ناجائز قبضے کو رجسٹری کا نام مت دو۔ دل اور خالی پلاٹ میں فرق ہوتا ہے ماہم چودھری! من کے محلے میں سارے پلاٹ من کی مرضی سے ہی ٹرانسفر ہوتے ہیں۔” ماہ نور مسلسل ماہم کو دیکھے جا رہی تھی۔ ماہم نے اُسے دیکھا تو اپنی نگاہوں کو جھکا لیا۔ ماہ نور پھر سے مسکراتے ہوئے بولی:
”میں نفرت کے ڈر کی وجہ سے نہیں جا رہی تھی۔ تم محبت کی وجہ سے انکاری ہو۔ تم مانو یا نامانو محبت کا بھوت تمھارے اندر گھس چکا ہے۔”
ماہم کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی جسے ماہ نور نے محسوس کر لیا تھا۔ ماہ نور نے ماہم کی سنجیدگی کو ختم کرنے کے لیے بات بدلی۔
”بھوت کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟”
”Ghost۔” ماہم نے مختصر سا جواب دیا۔
”یہ انگلش بھی عجیب زبان ہے۔ پیار، عشق، محبت کا ایک ہی مطلب بتاتی ہے’Love’یہ بھی کوئی بات ہے تین لفظوں کا مطلب صرف ایک۔”
”محبت لفظوں کی قید سے آزاد ہے، سمجھنا چاہو تو نا ممکن ۔ یہ ہمارے اندر ہی ہوتی ہے بھوت کی طرح اندر گھستی نہیں ۔ ہم اِسے باہر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ تم جیسے جنس مخالف کے درمیان کسک اور ہوس کو ہی محبت سمجھتے ہو۔ ماہ نور تم مجھے ایک بات کا جواب دو! حکیم چچا اور مہوش چچی سے زیادہ تمہیں کون محبت کرتا ہے۔ مجتبیٰ بھائی بھی تم سے محبت کرتے ہیں اُن کی محبت تمہارے والدین سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتی۔ حیرت ہوتی ہے مجھے اُن لڑکیوں پر جو اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر کسی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں” ماہم نے سنجیدگی ہی سے جواب دیا۔
”نائس ویری نائس…محبت پر تقریر کرو تو فرسٹ پرائز تمہیں ہی ملے گا۔ تم صرف اتنا بتائو تم ہمارے ساتھ چل رہی ہو کہ نہیں!”ماہ نور نے پوچھا۔
”نہیں۔” ماہم نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”اوکے بائے۔” ماہ نور زور سے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے غصے سے چلی گئی۔