برات میں کوئی زیادہ افراد نہیں تھے۔ منظوراں کی ساری رشتے داری معراج کے گائوں میں ہی تھی۔ اِس لیے برات کے چند افراد مزمل کی فیکٹری کے ملازم ہی تھے۔ جنہیں مبشر نے ہی دعوت دی تھی۔ مائرہ کو ویسے ہی اپنے رشتہ داروں سے چڑ تھی جس کے باعث اُس نے اپنی کسی سہیلی کو اپنے بھائی کی شادی میں دعوت ہی نہیں دی تھی۔
مزمل بیگ کو شور شرابا پسند نہیں تھا۔ اِس لیے زیادہ ملازم نہیں رکھے تھے۔ دو سکیورٹی گارڈ اورگھر کے کاموں کے لیے ایک ماسی۔ ممتاز بیگم کے سارے کام منظوراں کے ذمے تھے اور مائرہ مزمل کا خیال رکھتی تھی۔ کام والی ماسی صبح آتی اور گھر کے سارے کام کرکے شام کو واپس چلی جاتی۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
”کم اِن… مینا۔” مزمل نے بزنس فائل پڑھتے ہوئے کہا۔ مائرہ کمرے میں چائے لے کر داخل ہوئی اور چائے کی ٹرالی مزمل کے بیڈ کے ساتھ لگا دی۔
مزمل بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے فائل پڑھ رہا تھا کمبل اُس کی ٹانگوں پر تھا۔
فائل اُس کے ہاتھ میں اور نظریں اُسی پر جمی ہوئی تھیں۔
”شکریہ۔۔۔مینا” اُس نے مائرہ کو دیکھے بغیر ہی کہا۔
”بھائی! بیٹھ جاؤں۔” مائرہ ہولے سے بولی۔
”ہوں، کوئی کام ہے۔” مزمل اُسی تال میں بولا۔
نہیں۔ بس آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا۔” مائرہ نے رُک رُک کر کہا مزمل نے اُس کی طرف دیکھا۔
”شکریہ! کیوں؟”
”آپ میرے کہنے پر برات کے ساتھ چلے گئے۔ مجھے پتا ہے آپ ہلا گلا پسند نہیں کرتے اور زیادہ بولتے بھی نہیں ہیں۔ پر آج تو آپ نے کمال ہی کر دیا۔ آپ نے تو آج محفل ہی لوٹ لی۔” مائرہ کرسی پر بیٹھی نظریں جھکائے بول رہی تھی۔
”محفل… کب؟” مزمل نے دلچسپی سے پوچھا۔
”جب آپ نے، دیکھیں جی کہہ کر لڑکیوں کو مخاطب کیا تھا پھر مدیحہ کو مس کہا۔”
”مینا! بے وقوف تنقید کے بجائے تعریف سے مرتا ہے۔ اب تم جائو آرام کرو اور شادی کے بعد اپنی اسٹڈی پر توجہ دو۔”
٭…٭…٭
”تم میٹرک پاس نہیں کرسکی اور خواب مزمل بیگ کے دیکھ رہی ہو۔” معصومہ اپنی سہیلی مدیحہ کو موبائل پر کھری کھری سُنا رہی تھی۔
”اُس نے مجھے حُسن کی ملکہ کہا تھا۔” مدیحہ کھوئی ہوئی بولی ۔
”کانے کو بھی کانا کہو، تو وہ بُرا مان جاتا ہے۔ اُس نے تمھیں اُلّو بنایا تھا، ملکہ عالیہ!” معصومہ نے بڑی شائستگی سے سچائی بتائی۔
”مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے۔” مدیحہ نے موبائل پر اپنے دل کا حال سنایا۔
”وہ تو تمہیں اکثر ہی ہوجاتی ہے۔ محبت تو اندھی ہوتی ہے۔ تم تو اندھی مت بنو۔کہاں وہ اور کہاں تم؟”
”کیا کمی ہے مجھ میں۔ خوبصورت ہوں، پڑھی لکھی ہوں دو مربعے زمین میرے نام ہے۔” مدیحہ نے لگے ہاتھ اپنی صورت ، قابلیت اور حیثیت بیان کردی۔
موبائل کی دوسری طرف سے ہنسی کی آواز آرہی تھی۔
”دانت کیوں نکال رہی ہو؟ کیا میں نے جھوٹ کہا ہے۔” مدیحہ نے خفگی کا اظہار کیا۔
”نہیں، نہیں۔ ایسا کب کہا میں نے خوبصورت تو تم ہو ۔آج دُلہن سے زیادہ بناؤ سنگار کیا تھا تم نے۔ چار دفعہ میٹرک کا امتحان دینا سمجھو تو بی اے کے برابر ہی ہے۔ جہاں تک دو مربعوں کی بات ہے۔ تو وہ بھی سچ کہا تم نے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ باہر کے پڑھے لکھے لوگ سیب اور گاجر کا مربہّ نہیں کھاتے۔”
”فون بند کرو۔ لگتا ہے ابّا اور لالہ ماجد ملک وال سے آگئے ہیں۔” مدیحہ نے جلدی سے کال کاٹ دی۔
مبشر خوشی سے جھومتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کا کمرا گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ مسرت دُلہن بنی اُس کی راہ دیکھ رہی تھی۔ مبشر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرے کی کنڈی لگائی اور آکر مسرت کے پہلو میں بیٹھ گیا دونوں کے دلوں کی دھڑکنیں عروج پر تھی۔
مبشر نے لرزتے ہاتھوں سے مسرت کی ٹھوڑی کو چھوا، تو مسرت نے دل کش مسکراہٹ سے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دونوں کافی دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
مبشر کو کچھ اور سمجھ نہیں آیا تو اُس نے جلدی سے سائید ٹیبل کے نچلے خانے سے ایک جیولری باکس نکالا اور کھول کر مسرت کے سامنے پیش کر دیا، اُس میں ایک لاکٹ پر انگلش میں مسرت لکھا ہوا تھا۔
”مزمل صاحب نے خرید کر دیا ہے۔” مسرت نے دھیمی اور سہمی آواز میں ہاتھ کے اشاروں سے رُک رُک کر پوچھا۔ مبشر کو اُس کی بات سمجھ آئی گئی تھی۔
”خود خریدا ہے۔ تمہارے لیے۔” مبشر نے ہاتھوں کے اشارے سے بڑے فخر سے بتایا۔
”کتنے تولے کا ہے۔” مسرت نے حسرت بھری نگاہوں سے ہار پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”تین تولے۔” مبشر نے ہاتھ کے اشاروں کے بعد اپنی تین انگلیوں کو ہوا میں لہرایا کہیں مسرت مغالطے میں نہ رہ جائے۔
”اتنے پیسے کہاں سے آئے۔” مسرت نے اشاروں دھیمی آواز میں پوچھا۔ مبشر دیکھ کر مسکرایا اور اشارے سے سمجھانے لگا:
”فیکٹری میں کمیٹی ڈالی تھی۔ وہ نکلی ہے۔”
”کمیٹی کتنے کی تھی؟” مسرت اِس بار بغیر اشاروں کے ہی بول پڑی۔ مبشر کو بس اُس کے ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آئے تھے۔ اُس نے کچھ دیر سوچا پھر باکس سے وہ لاکٹ نکالا اور مسرت کے گلے میں پہنا دیا۔
پھر اُس نے بیڈ کے ساتھ پڑے ہوئے میز کی طرف دیکھا جس پر کھانے کی بہت سی اشیا موجود تھیں۔ اُس نے دو گلاسوں میں گرم دودھ ڈالا جو خشک میوہ جات سے لبریز تھا۔
مسرت کا رہا سہا خوف دور ہوگیا۔ مبشر بھی پر اعتماد تھا۔ دودھ ختم کرنے کے بعد اُس نے گلاس میز پر رکھے۔ پھر اشارے پوچھا اور کچھ کھائے گی۔ اُس نے مٹھائی کی طرف اشارہ کیا۔ مبشر نے مٹھائی کی پلیٹ مسرت کے آگے رکھ دی۔ اُس نے ایک گلاب جامن اُٹھا کر مبشر کے منہ میں ڈالا۔ مبشر نے آدھ گلاب جامن کھایا باقی مسرت نے کھا لیا۔
مبشر اُٹھا اور کمرے کی بتی بجھا دی۔ ابھی بتی بجنے لگا ہی تھی مسرت کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے تکیے کے پاس سے موبائل اُٹھایا۔
اُس پر مدیحہ کا نام روشن ہوا۔ مسرت نے غصے سے اپنا موبائل آف کر دیا۔
مسرت نے غصے سے اپنا موبائل آف کر دیا۔
موبائل کی بیل مسلسل گونج رہی تھی۔ ماہم نے جائے نماز تہ کی اور بیڈ پر پڑا موبائل اُٹھایا ماہ نور کی کال تھی ۔
”تم ابھی تک سوئی نہیں؟” ماہم نے کال ریسیو کرتے ہی کہہ دیا۔
”No”
”کیوں؟”
”مجتبیٰ کی کال تھی، مانچسٹر سے۔” ماہ نور نے رومینٹک انداز میں اپنی لٹ کو بل دیتے ہوئے جاگنے کی وجہ بتائی۔
کب سے فون کر رہی ہوں ویر آر یو؟”
”میں نماز ادا کر رہی تھی۔ ماہ نور! تم بھی حد ہی کر دیتی ہو ایک دفعہ کال ریسیو نہیں کی تو سمجھو کچھ مصروفیت ہوگی۔”
”سوری مجھے آئیڈیا نہیں تھا کہ تم نماز پڑھنے میں مصروف تھیں۔”
”ٹھیک ہے آیندہ خیال رکھنا۔”
”تمہارا زخم کیسا ہے؟” ماہ نور نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
”کون سا زخم؟”
”جو چوڑیاں ٹوٹنے سے تمہاری کلائی پر ہوا تھا۔”
”معمولی سی خراشیں ہیں۔ زخم تو نہیں ہے۔” ماہم نے کلائی کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراکر بتایا۔
”ماہم چودھری! ایسی خراشیں بعد میں گھائو بن جاتی ہیں۔”
”ارے جائو… جائو… گھائو بن جاتی ہیں۔” ماہم نے بے پروائی سے کہا۔
”تصویریں دیکھیں ہیں جو میں نے وٹس اپ کی تھیں۔” ماہ نور نے اشتیاق سے پوچھا۔
”نہیں تو۔”
”دیکھو جلدی دیکھو۔” ماہ نورنے زور دے کر کہا۔ چند منٹ موبائل کے دونوں اطراف خاموشی رہی۔ ماہم موبائل پر اپنی اور مزمل کی تصویریں دیکھ رہی تھی اور ماہ نور خیال کی آنکھوں سے ماہم کو دیکھ رہی تھی۔
”کیسی ہیں؟” ماہ نور کی آواز سے ماہم تصویروں سے حقیقت کی دنیا میں واپس آئی۔
”ماہ نور! ابھی یہ ساری تصویریں اپنے موبائل سے ڈیلیٹکرو۔” ماہم نے سختی سے ماہ نور کو حکم دیا۔
”تمھیں بھیجنے کے بعدپہلا کام یہی کیا تھا۔ مجتبیٰ کی قسم!” ماہ نور نے سنجیدگی سے خود ہی مجتبیٰ کی قسم بھی اُٹھائی ماہم کو پتا تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے۔
”ماہم تمھیں ایک بات بتائوں۔”
”بتائو۔”
”تمہیں مزمل بیگ سے محبت ہوگئی ہے۔”
”چل جھوٹی۔” ماہم نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر لمحہ بھر سوچا اور کہنے لگی:
”تم کیسے کہہ سکتی ہو؟”
”آفٹرآل تم سے سینئر ہوں۔ ایک عدد فیانسی کی مالک ہو۔”
”منگنی تو میری بھی ہو چکی ہے پھر تم سینئر کیسے ہوئی؟”
ماہ نور کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ماہم کی بات سُن کر وہ مسکراتے ہوئے بولی:
”بہت فرق ہے مائی ڈئیر ماہم! میں نے محبت کا کھیل ،کھیل کر مجتبیٰ کو جیتا ہے جب کہ تمہارے گلے میں چودھری ماجد کا ”گولڈ میڈل” بغیر تمہاری مرضی کے ہی ڈال دیا گیا ہے… اوکے بائے۔” ماہ نور نے کال ڈس کنیکٹ کردی۔
”چودھری ماجد…!”
ماہم نے اُداسی کے عالم میں خود کلامّی کی۔
”چودھری ماجد! آج میں نے تمہاری منگ کو دیکھا۔” ملنگی نے نشے سے جھومتے ہوئے بتایا۔ مٹھو نے سُنا، تو وہ ہنس دیا اور ہنستے ہنستے کہنے لگا:
”منگ اور بھرجائی میں فرق ہوتا ہے پاگلا! میں نے آج چودھری کی منگ کو نہیں اپنی بھرجائی کو دیکھا ہے۔”
”اوئے ! تم دونوں کیا بک رہے ہو۔ میرے تو کچھ پلے نہیں پڑا۔” ماجد نے شراب گلاس میں ڈالتے ہوئے کہا۔ چودھری ماجد اور اُس کے دوست ملنگی اور مٹھو چودھری ماجد کے ڈیرے پر دسمبر کی سرد رات میں آگ کاالائو بھڑکائے شراب اور کباب سے مزے لوٹ رہے تھے۔
”میںسمجھاتا ہوں۔۔۔ چودھری! آج تیرے گائوں کی کسی لڑکی کی برات اڈے والے شادی ہال میں آئی تھی۔ وہیں پر سڑک پار کرتے ہوئے تیری منگ کو دیکھا تھا۔ ”ملنگی نے شراب کا پیگ پیتے ہوئے تفصیل سنائی۔
”تو کیا سمجھائے گا، ملنگی بادشاہ! میں بتاتا ہوں بھرجائی کے بارے میں۔ دیکھ چودھری! تو اپنا جگری یار ہے۔ تیری منگ تیرے ساتھ جچتی نہیں ہے۔ وہ ملوک سی اور تو گھبرو جوان۔۔۔ یہ جوڑی کچھ جمتی نہیں ہے۔” مٹھو نے کڑوی بات مٹھاس سے کہہ دی۔ ماجد سختی سے بولا:
”مٹھّ! بک مت اوئے۔ وہ میری منگ ہے، وہ بھی بچپن سے۔”
”غصہ نہ کر چودھری! تیرے ساتھ کوئی اتھری رن سوہنی لگے گی۔ یہ چھوئی موئی سی اُستانی نہیں۔” مٹھو ایک بار پھر بولا تھا، بغیر کسی جھجک کے ملنگی نے کباب کھاتے ہوئے پوچھا:
”نا تو یہ بتا، وہ اتھری رن آئے گی کہاں سے؟”
”کل کی آچکی ہے۔ میاں چنوں سے۔” مٹھو کمینی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ مٹھو کی بات سُن کر۔ ماجد اور ملنگی کے کان کھڑے ہوگئے۔
”مٹھو! سیدھی بات کر۔” ماجد نے سرخ آنکھوں سے اُس کی طرف سے اُس کہا۔
”یہ ہوئی نا بات۔ تیری آنکھ کی لالی، تیرا غصہ میرے بادشاہ! بتاتا ہوں۔ حوصلہ رکھ۔ ساتھ والے گائوں کا مہر مجید ہے نا !اُس کی بہن ہے منزہ۔ نانکے رہتی تھی کل ہی آئی ہے۔ بڑا نخرہ اور بڑی اتھری ہے بھئی۔” مٹھو کی باتیں سُن کر ملنگی اور ماجد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”سچی بات ہے۔ چودھری ماجد! میں نے تو کل ہی اُسے بھرجائی مان لیا تھا۔” مٹھو نے جلدی سے کہہ دیا۔
”مٹھو! تیرے ویسے ہی بارہ بج گئے ہیں”ملنگی نے کہا۔
٭…٭…٭
”کیا ہے مدیحہ! آدھی رات ہوگئی ہے اب تو سونے دو۔” معصومہ نے بیزاری سے جواب دیا۔
”بارہ ہی تو بجے ہیں۔” مدیحہ بولی۔
”ٹائم مت بتائو، کام بتائو۔” معصومہ نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
”میں نے اُسے ڈھونڈ لیا ہے۔” مدیحہ نے اپنی کام یابی کی نوید سنائی۔
”کس کو؟” معصومہ آنکھیں ملتے ہوئے بیٹھ گئی اور اپنی چھوٹی بہنوں کی طرف دیکھا جو سُو رہی تھیں۔
”مزمل بیگ کو اور کسے۔” مدیحہ دھیمی آواز میں بول رہی تھی، اُس کا بس چلتا، تو وہ چیخ چیخ کر بتاتی۔
”مزمل بیگ کو ڈھونڈ لیا ہے۔” معصومہ نے خود کلامّی کی ۔
”ہاں اور اُسے فرینڈ ریکوسٹ بھی بھیج دی ہے۔”
”اچھا، فیس بک پر بیٹھی ہو فیس بک کی یاری… سراسر بیماری…”
”مجھے اُس سے واقعی محبت ہوگئی ہے۔” مدیحہ نے لگے ہاتھوں اپنے دل کا حال بھی سنا دیا۔
”یہ کس نے بتایا؟” معصومہ نے سرد لہجے میں پوچھا۔
”مجھے نیند جو نہیں آرہی۔محبت میں سب سے پہلے نیند ہی تو اُڑتی ہے۔” مدیحہ نے دانش مندی کا ثبوت دینے کی کوشش کی۔
”تمہاری نیند کا علاج ہے میرے پاس۔”
”وہ کیا؟” مدیحہ نے جلدی سے پوچھا۔
”تم اپنی میٹرک کی کتابیں نکالو اُن میں سے کوئی ایک کھولو تمہیں فوراً نیند آجائے گی۔”
”معصومہ نے غصے سے موبائل بند کر دیا۔ پھر اِرد گرد دیکھا سب سو رہے تھے۔ اُس نے لیٹتے ہوئے خود کلامّی کی:
”امّی صحیح کہتی ہیں۔ معصومہ بیوقوف سہیلی سے دشمن سہیلی بہتر ہے۔”
٭…٭…٭
”ماہم چودھری! ہوش کے ناخن لو، بے وقوفوں کی طرح مت سوچو، یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔”
” مگر ماجد مجھے پسند نہیں ہے۔”
”تو پھر اِس رشتے سے انکار کر دو۔”
”انکار تو کردوں… پر… ابّوکی زبان کا پاس ہے ۔ لوگ کیا کہیں گے اپنے مرحوم باپ کی زبان کا پاس بھی نہیں رکھا۔ کچھ بھی ہو جائے میں ابّو کی زبان کا پاس ضرور رکھوں گی۔”
”ماہم بستر پر لیٹی! اپنے ضمیر کی آواز سے خاموشی سے ہم کلام تھی۔ کبھی ضمیر کی آواز کی دلیل مضبوط ہوتی اور کبھی ماہم کی آواز بہترین دلائل پیش کرتی۔ آوازوں کی اس جنگ میں ماہم کو اپنی محبت کے لُٹ جانے کا ڈر تھا۔
”تمہارا دل کیا کہتا ہے۔” ضمیر سے آواز آئی۔
”دل کہاں سیدھی راہ چلنے دیتا ہے۔ یہ تو دلدل کی طر ف لے جا رہا ہے۔” ماہم کی آواز نکلی، اُس نے لیٹے لیٹے ہی اپنے آنسو صاف کیے۔
”دل میں کسی کے لیے محبت کی نمی ہو، تو ہی آنکھوں میں چمک آتی ہے، چمک جب جذبات کی گرج سہہ نہیں پاتی تو آنکھوں سے برسنے لگتی ہے۔” ضمیر نے اپنی حتمی رائے دے دی۔ ماہم نے ضمیر کی بات سن کر غصے سے لحاف ہٹایا اور کمرے کی کھڑکی کھول کر مسجد کے زینے دیکھنے لگی جہاں مزمل کھڑا اُسے نظر آیا جس نے ایک نظر ماہم پر ڈالی اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔
مزمل کو کبھی وہ کھڑکی کے پیچھے نظر آتی اور کبھی اپنی بانہوں میں جھولتی ہوئی۔ مزمل نے سامنے پڑے ٹیبل پر رومال کے اوپر رکھی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑوں سے ایک ٹکڑا اٹھایا اور اُسے دیکھنے لگا ایک دفعہ پھر وہ سارا منظر اُسے دل کی آنکھوں سے نظر آرہا تھا۔
وہ تنگ آکر اپنے بیڈ روم سے نکل کر ٹیرس پر چلا گیا۔ سامنے ہی گھر کا باغیچہ تھا جس میں بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ سنبل اور سُندری کے اونچے اونچے درخت تھے جن کے پتوں پر بھی اُسے ماہم ہی کی تصویر نظر آرہی تھی۔مزمل نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا جس نے ماہم کو تھاما تھا۔
ماہم نے اپنی کلائی پر نظر ڈالی جہاں خراشیں لگی ہوئی تھیں۔
”ماہم چودھری! ایسی خراشیں گھائو بن جاتی ہیں۔” ماہ نور کی آواز گونجی۔ وہ کمرے میں آئی فرسٹ ایڈ باکس نکالا اور کلائی پر پٹی لپیٹ لی۔
مزمل بھی اپنے بیڈ روم میں آیا فریج کھولی اُس میں سے پائن ایپل کا جوس نکال کر پینے لگا۔ وہ ایک ہی سانس میں سارا جوس ختم کر گیا اُس کے بعد وہ اپنے بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا ۔
”یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔”اُس کے دماغ سے آواز آئی ۔
”میں بتاتا ہوں۔ تمہیں اُس سے محبت ہو گئی۔”دل نے جلدی سے اطلاع دی۔
”بکواس مت کرو۔ یہ جھوٹ ہے۔” دماغ نے دل کی بات پر شدید رد عمل دکھایا پھر سمجھاتے ہوئے بولا:
”بی پریکٹیکل… بیگ صاحب! تم دل کی کسی بات کو سیریس مت لو۔ یہ تو پاگل… دیوانہ ہے۔”
”مجھے محبت ہو گئی ہے۔” دل نے سادگی سے اقبال جرم کر لیا۔
”شٹ اپ… محبت ہوگئی ہے۔ محبت ایک ایسا لفظ ہے۔ جس کا سہارا لے کر دنیا میں سب سے زیادہ دھوکا دیا جاتا ہے۔ کیوں بیگ صاحب! میں نے ٹھیک کہا نا۔ یہ تمہارے ہی الفاظ تھے ۔کیا تمہارا اب بھی محبت پر یقین ہے۔” دماغ نے مضبوط دلائل بیگ صاحب کو پیش کیے۔
”مزمل صاحب! میں بتاتا ہو۔ آپ کا محبت پر اب بھی یقین ہے۔ صرف انسانوں سے اُٹھ گیا ہے۔
دیکھو برین! تم مزمل صاحب کو ڈسٹرب مت کرو۔” دل نے دماغ کی گھن گرج والی تقریر سُننے کے بعد بڑی تحمل مزاجی سے جواب دیا۔ مزمل بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے دل اور دماغ کی جرح سُن رہا تھا۔
مزمل کو یہ ساری تاویلیں دلیلیں سننے کے بعد بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
وہ پتنگ والی ڈور کے گنجلک کی طرح مزید اُلجھتا جا رہا تھا۔ اضطراب در اضطراب سی کیفیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
دماغ اور دل کی یہ جرح کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی تھی۔ مزمل نے کمرے کی لائٹ بند کی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔
٭…٭…٭