ماہم اُس وقت بھی کھڑکی میں کھڑی تھی۔ مزمل نے اُس کی طرف نہیں دیکھا۔
”السلام علیکم حکیم صاحب! آپ نے بلایا تھا؟” مزمل نے بیٹھک میں داخل ہوتے ہی کہا۔ حکیم صاحب اُس کے استقبال کے لیے پہلے سے کھڑے تھے۔
”وعلیکم السلام! بیٹھو مزمل بیٹا۔ پہلے ناشتا کرلیں بعد میں بات کریں گے۔”
ماہم اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ اُس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔ خیالوں کی نگری سے کئی خیال نکل نکل کر فشارِ خون بڑھا رہے تھے اور قدم رُکنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہ جانے کتنے ہی چکر لگا چکی تھی ۔ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد حکیم صاحب نے ہی بات شروع کی :
”دُنیا میں پہلا قتل عورت کی وجہ سے ہوا تھا۔”حکیم صاحب نے ٹٹولتی نظروں سے مزمل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے علم ہے۔” مزمل نے اعتماد سے جواب دیا۔
”جہاں حاجت ختم ہو، علم وہاں سے شروع ہوتا ہے، علم کا علم ہونا لاعلمی ہے۔ تم دونوں جو کر رہے ہو وہ غلط ہے گناہ ہے ، وہ تمہارے لیے نا محرم ہے تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اُس کی نسبت کسی اور سے طے ہے۔” حکیم صاحب نے تحمل اور حکمت سے مزمل کو سمجھایا۔
”جس منفی چیز کی نسبت اللہ کی طرف ہوجائے وہ مثبت بن جاتی ہے۔میں اُس نا محرم سے نکاح کر کے اُسے محرم بنانا چاہتاہوں۔” اس بار مزمل کی آواز میں الفت کے ساتھ ساتھ درد بھی تھا۔
”یہ نا ممکن ہے۔ وہ شادی سے انکار نہیں کرے گی۔ تم اُس کی اجازت کے بغیر رشتہ بھیجو گے نہیں۔ اُس نے مجھے اپنے تایا سے بات کرنے سے منع کر دیا ہے اور تم نے کہا ہی نہیں۔ مزمل بیٹا! دستک دینے سے دروازہ کھلتا ہے، دعا مانگنے سے مرادیں ملتی ہیں۔”
”حکیم صاحب! دستک دینے کی اجازت نہیں۔ رہا سوال مانگنے کا۔ ساری زندگی اُس کی ناشکری کی ہے۔ ہمیشہ محبتیں لُٹنے کا گلہ کیا ہے۔ اب کس منہ سے محبت مانگوں؟ اب سوچا ہے جو وہ عطا کردے گا اُس پر شکر کروں گا، جو نہیں دے گا اُس پر صبر ۔”مزمل نے لرزتی آواز میں کہا۔
”صبر…صبر بڑی دور کی منزل ہے بیٹا ! جو مل گیا اُس پر راضی ہو جائو جو نہیں ملا اُس پر شکر کرو۔ صبر کا مقام اس سے بہت آگے بہت دور ہے۔ صبر اور شکر سے پہلے کوشش ہے جو تم نے کی ہی نہیں۔” حکیم صاحب نے ہونٹوں پر تبسم سجائے اپنا نقطئہ نظر بیان کیا۔
”کوشش اس ڈر سے نہیں کرتا کہیں محبت کے حضور بے ادبی نہ ہوجائے۔ میں تو پہلے ہی محبت کی درگاہ سے راندہ ہوں۔”
”مزمل بیٹا! پھر دعا ہی واحد راستہ ہے۔ اُسے دعا مانگنے والے بہت پسند ہیں۔ گناہ گارہوں یا نیکو کارشکر کرنے والے ہو ں یا نا شکرے۔بس ہاتھ اُٹھانے کی دیر ہے۔” حکیم صاحب نے شائستگی سے حل بتایا۔
”مجھے اجازت دیں فیکٹری پہنچنا ہے۔” مزمل نے اجازت لی اور بیٹھک سے نکل آیا۔
ماہم کومزمل کی مہک کھڑکی تک کھینچ لائی۔ وہ گردن جھکائے گلی سے گزر گیا۔ ماہم کی نظروں نے مزمل کو گاڑی تک چھوڑا۔ اُس کے جانے کے بعد بھی کچھ دیر تک اُس کی نظریں اُسی مقام کو دیکھتی رہیں جہاں اُس کے من کے میت کی سواری کھڑی تھی، وہ پلٹی تو ماہ نور اُس کے پیچھے موجود تھی۔
”تم یہاں؟” ماہم نے حیرت سے پوچھا۔
ہاںمیں،آنٹی اور مومنہ تمہارے کمرے میں پہلے ہی کم آتی ہیں، اب میرے آنے پر بھی پابندی لگا دو۔” ماہ نور نے گھورتے ہوئے کہا۔
”ایسا سوٹڈ بوٹڈ ایک دم کام ڈائون ٹائپ کا عاشق پہلی بار دیکھا ہے۔مجھے یہ تو بتائو محبت کی کوئی الگ کوالیفکیشن ہے جس میں تم دونوں نے اسپیشلائزیشن کی ہوئی ہے۔ ایسی بڑی بڑی باتیں کرتے ہو تم دونوں جو میرے جیسی بندی کی سمجھ سے تو باہر ہیں۔ ابّا تو عالم فاضل آدمی ہیں وہ مشکل بات کریں تو سمجھ آتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ ایک لڑکا تمہیں محبت کرتا ہے تم بھی اُسے چاہتی ہو۔ تمہارا فیانسی تمہیں پسند نہیں ہے۔ انکار کردو سمپل۔ ماہم تمہیں کیوں سمجھ نہیں آرہی ہے۔ میری مثال تمہارے سامنے ہے۔ ابّا نے میرے لیے معین کو پسند کیا تھا۔ میں مجتبیٰ سے محبت کرتی تھی۔ تمہیں اپنے دل کی بات بتا دی۔ تم نے ابّا کو سمجھایا میں نے بات کی ۔ابّا مان گئے۔ مجتبیٰ کی خواہش پر ابّا نے ہمارا نکاح بھی پڑھا دیا۔ سیدھی سادھی سی لو اسٹوری ۔ تمہاری محبت انگلش کے tenses کی طرح بہت ہی مشکل ہے۔ ” ماہ نور نے ماہم کو لمبا چوڑا بھاشن دیا ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ۔
”ایک بات تم کتنی دفعہ کرو گی جب بھی آتی ہو یہی بات لے کر بیٹھ جاتی ہو۔کل تم نے کہا تھا تمہیں سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں آج پھر سے وہی بات!”ماہم نے سنجیدگی سے کہا، ماہ نور نے سُنی ان سُنی کردی اور کہنے لگی:
”سوالوں کو چھوڑو۔بس تم معراج کے والوں کو جواب دے دو، اس رشتے سے صاف انکار کر دو۔”
” انکار ہی تو نہیں کر سکتی سارے شریکے برادری میں ابو جی کی تھوتھو ہوجائے گی۔ سارا شریکا کہے گا ہیڈ ماسٹر چودھری محمود کی بیٹی نے اپنے مرے ہوئے باپ کی زبان کی لاج بھی نہ رکھی۔”
”تم لاج رکھ لو، بھلے ہی مزمل کی محبت کا جنازہ نکل جائے۔” ماہ نور نے ترش لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں تم نے کہا تھا یا اُس نے، چالاکی سے محبت نہیں جیتی جاتی۔ تم دونوں کی باتیں بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ تم ماجد کا سارا بائیو ڈیٹا کھول کر اپنے تایا جی کے سامنے رکھ دو۔”
”تایا جی ماجد کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔” ماہم نے بے تاثیر چہرے کے ساتھ جواب دیا۔
”سب کچھ جانتے ہوئے بھی؟” ماہ نور نے حیرانی سے پوچھا۔
”اُن کی بھی زبان کا سوال ہے۔ میں اُن کے بیٹے کی منگ ہوں۔ ہمارے خاندان میں لوگ مر جاتے ہیں منگ نہیں چھوڑتے۔”
”اب بھی؟” ماہ نور کو دھچکا لگا تھا۔
”ہاں!” ماہم نے بڑی مشکل سے کہا۔ وہ ضبط کے باوجود اپنے اشک نہ روک سکی۔ ماہ نور نے اُس دن ماہم کی آنکھوں میں اس کے ابّو کے انتقال کے بعد آنسو دیکھے تھے۔
اً چار ہفتوں بعد ایک دن آنکھوں میں اشکوں کی چمک سجائے وہ جنوری کی چمکتی دھوپ میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے لان کی ہری ہری گھاس پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اُسے مومنہ کے آنے کی بھی خبر نہ تھی۔ وہ اُس کے پیچھے کھڑی تھی، چند لمحوں بعد مومنہ بھی اُس کے سامنے اُسی کے اندازمیں بیٹھ گئی۔
”اوہیلو، کیا ہوا تمہیں؟”مومنہ نے دائیں ہاتھ سے مائرہ کے بائیں کندھے کو ہلاتے ہوئے کہا۔ مائرہ نے مومنہ کی طرف اشکوں سے بھری آنکھوں سے دیکھا ہی تھا کہ وہ چھلک پڑے۔ وہ شاید مومنہ ہی کا انتظار کر رہے تھے۔
”رو کیوں رہی ہو کچھ بتائوں تو سہی؟” اس بار مومنہ نے قدر ے فکر مندی سے پوچھا۔ مائرہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیا اور کہنے لگی:
”رو نہیں رہی۔بس دل بھر آیا تھا پتا ہی نہیں چلا کب آنسو نکل آئے۔”مائرہ نے شولڈ ربیگ سے ٹشو پیپر نکال کر اپنے آنسو صاف کیے۔ مومنہ نے مائرہ کی گھاس پر رکھی ہوئی کتابوں کے اوپر پڑے چشمے کو اُٹھایا اور مائرہ کو لگاتے ہوئے بولی:
”لوگ چشمے کے ساتھ جن لگتے ہیں اور تم چشمے کے بغیر چڑیل لگتی ہو۔” مائرہ مسکرادی مومنہ کی بات سن کر اُس کی مسکراہٹ دیکھ کر مومنہ پھر سے بول پڑی:
”چلو کینٹین چلتے ہیںجو مرضی کھائوبل میں دوں گی۔”مومنہ نے شاہانہ انداز سے کہا۔ وہ دونوں کینٹین کی طرف چل پڑیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور گنگا رام ہاسپٹل کے درمیان زیرِ زمین جو انڈر پاس ہے۔ وہ چلتے چلتے وہاں پہنچ گئیں اُس جگہ ٹریفک کا شور قدرے کم ہوتا ہے۔ مومنہ نے اُس بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مائرہ کو اُسی جگہ روک کر پوچھا:
”دل کیوں بھر آیا تھاتمہارا؟” مومنہ کی سوالیہ نظریں مائرہ کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ مائرہ نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا:
”مزمل بھائی کی وجہ سے اُن کو ایک دم چپ سی لگ گئی ہے۔ بات تو وہ پہلے بھی کم ہی کرتے تھے، مگراب تو…” اب تو کے بعد مائرہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کہہ پائی۔
”ماہم آپی کا بھی یہی حال ہے۔”مومنہ نے ماہم کا دکھڑا سنا دیا۔ اُس نے مائرہ کا ہاتھ تھاما اور چلتے ہوئے کہنے لگی:
”کینٹین میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔”
”تم نے داستانِ محبت ناول پڑھا ہے؟”مائرہ نے بیٹھنے کے بعد پہلی بات یہی کہی تھی۔ مومنہ نے عجیب نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور ترش آوز میں بولی:
”اِس وقت یہ ناول کہاں سے یاد آگیاتمہیں۔میں حقیقت جاننا چاہتی ہوں اور تم ناول کے متعلق پوچھ رہی ہو۔”
”تم بتائو تو سہی۔ پھر میں بھی بتاتی ہوں۔”مائرہ نے سنجیدگی سے زور دے کر کہا۔ مومنہ نے اپنے سامنے ٹیبل پر پڑی موٹی موٹی میڈیکل کی کتابوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہنے لگی:
”مجھ سے تو یہ کورس کی کتابیں نہیں پڑی جاتیں یہ ناول شاول کہاں سے پڑوں گی!”
”مزمل بھائی نے ایک رات میں ہی پونے پانچ سو صفحات کا ناول پڑھ ڈالا۔”
”مائرہ! رکو،رکو تم آج کھسکی ہوئی لگ رہی ہو۔ میں تمہیں یہاں مزمل بھائی اور ماہم آپی کے بارے میں بات کرنے کے لیے لائی ہوں اور تم مجھے ناول کے صفحات گنوا رہی ہو۔” مومنہ نے کچھ خفگی سے کہا۔ مائرہ نے پہلی بار اُس کی پریشانی کو نوٹ کیا تھا۔
”خفا کیوں ہوتی ہو میری بات سنو۔” مائرہ نے قدرے نرمی سے کہا۔
”جی میڈم،کیا لیں گی آپ۔” چودہ پندرہ سال کے ایک لڑکے نے پوچھا تھا۔ مومنہ نے اُس لڑکے کو گھوری ڈالتے ہوئے جواب دیا:
”میڈیم کے بچے اُس دن بھی پانی ملا جوس تم نے پلایا تھا دو مالٹے کے جوس برف اور نمک کے بغیر پانی کا ایک بھی قطرہ نہ ہو اپنے اُستاد کو بول دینا۔”
مومنہ نے اپنے اندر کا کافی غصہ ویٹر پر نکال دیا۔ وہ آرڈر لے کر خاموشی سے چلا گیا۔
”اب تم سنائو۔”مومنہ اُسی لہجے اور انداز سے دوبارہ گویا ہوئی۔
”مزمل بھائی داستانِ محبت ناول اور مناہل آپی کے بہت خلاف تھے۔” مائرہ نے یہ کہا ہی تھا۔ مومنہ نے بے زاری سے پوچھا:
”اب یہ مناہل آپی کون ہے؟”
”مجھے بولنے تو دو سب بتاتی ہوں۔” مائرہ معصومیت سے کہنے لگی جیسے درخواست کر رہی ہو۔ مومنہ نے پلکوں کو جنبش دے کر بولنے کا اشارہ کیا۔
”مناہل آپی جنہوں نے ”محبت زندگی ہے” ڈراما لکھا تھا پچھلے سال چلا تھا۔” مائرہ نے یاد دہانی کروانے کی کوشش کی۔
”ہاں ، ہاں…یاد آیا۔ اُس رائٹر کا نام تو آئی تھنک مناہل حیدر ہے۔”
”ہاں،وہی۔”
”تو سیدھی طرح مناہل حیدر کہو یہ مناہل آپی۔مناہل آپی کیا لگا رکھا ہے۔” مومنہ نے چڑتے ہوئے جواب دیا۔
”مائرہ! اب تم میرا بلڈ پریشر ہائی کر رہی ہو۔”
”تم بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھو۔ بس تم مجھے ٹوکنا مت ساری بات سمجھاتی ہوں۔ میں شروع ہی سے مناہل آپی کی بہت بڑی فین ہوں۔ اُن کے سارے ناول میرے پاس ہیں۔ میں نے مناہل آپی کے سارے ناولز کے مرکزی خیال مزمل بھائی کو سنائے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ اُن کو ناولز وغیرہ بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔ وہ لفط محبت سے بھی شدید نفرت کرتے تھے۔ مناہل آپی اپنے ناولز میں بات ہی محبت کی کرتی ہیں۔ اِس وجہ سے مزمل بھائی کو مناہل آپی بھی بُری لگنے لگی۔ میٹرک تک تو ٹھیک تھا فرسٹ ایئر میں میری پرسنٹیج بہت بُری آئی تھی۔ تب مزمل بھائی کو لگا میں ناولز پڑھتی ہوں اِس لیے ایسا ہوا ہے ۔ انہوں نے مجھے سختی سے ناولز پڑھنے سے منع کر دیا۔ میں نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا کہ میں جب تک ڈاکٹر نہیں بن جاتی کسی بھی ناول اور ڈائجسٹ کو ہاتھ تک نہیں لگائوں گی۔ وعدہ تو میں نے کر لیا تھا پر میں اُسے نبھا نہ سکی اور کالج فرینڈز سے ناول اور ڈائجسٹ لیتی اور پڑھ کر اُنہیں واپس کر دیتی۔ مبشر بھائی کی برات سے ایک دن پہلے باتوں باتوں میں میرے منہ سے نکل گیا کہ میں ناول پڑتی ہوں۔ مزمل بھائی کو غصہ تو آیا پر کہا کچھ نہیں۔”
”ایک نمبر کی ڈفر ہو تم…بس کرو۔”مومنہ نے مائرہ کو پھر روک دیا۔
”میڈم! جوس۔” ویٹر نے جوس اُن کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ مومنہ مائرہ کے حصے کا باقی غصہ اُس پر نکال دیتی اگر وہ بول نہ اُٹھتا۔
”میڈم!پانی کا ایک قطرہ ثابت کر دیں، تو ہزار کا نوٹ انعام دو ں گا۔” ویٹر نے شوخی ماری۔
”ٹھیک ہے بچو! وہ ابھی پتا چل جائے گا۔ اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہوٍجائو یہاں سے۔” مومنہ نے اُس کی شوخی پر غصے سے ہتھوڑی ماری تھی۔ مومنہ نے سٹرا کو منہ لگاتے ہی آدھا گلاس خالی کردیا۔ اِس کے برعکس مائرہ سٹرا کو جوس میں ہلائے جا رہی تھی۔
”مائرہ !بتائوں تمہارے ساتھ پرابلم کیا ہے۔ سب تمہاری تعریفیں کرتے ہیں۔ اس لیے تم نے خود کو عقل مند سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھے تو مجھے لگا تمہیں تو مجھ سے بھی زیادہ غم ہے مزمل بھائی اور ماہم آپی کا پر ایسا نہیں ہے۔ تم تو اپنی رام کتھا ہی سنائے جا رہی ہو”
”اُس ناول میں لڑکا اور لڑکی دونوں مر جاتے ہیں۔” اِس بار مائرہ نے مومنہ کی بات کاٹ دی۔
اُس ناول میں لڑکا اور لڑکی دونوں مر جاتے ہیں؟” مومنہ نے مائرہ کا جملہ ہی دُہرایا تھا، مگر کھلے منہ اور کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ مومنہ نے کھلے منہ اور کھلی آنکھوں سے مائرہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اُداسی تھی۔ اُداسی کے باوجود مائرہ نے بولنا شروع کیا:
”میں مزمل بھائی کو کافی دینے گئی تھی۔ اُسی وقت مزمل بھائی کے کسی کلائنٹ کی کال آئی وہ ٹیرس پر چلے گئے۔ سائید ٹیبل پر کافی کا مگ رکھتے ہوئے مجھے لگا تکیے کے نیچے کوئی چیز ہے۔ میں نے تکیہ اُٹھایا، تو اُس کے نیچے داستانِ محبت ناول تھا۔ پیج نمبر چالیس پر بُک مارک تھا۔ میں نے دیکھ کر اُسی طرح ناول پھر وہاں رکھ دیا۔ آج صبح میں مزمل بھائی کی بیڈ روم والی فریج میں فروٹ چاٹ رکھنے گئی، تو وہ واش روم میں تھے۔ میں نے جلدی سے تکیہ اُٹھا کر دیکھا تو بک مارک 472نمبر پیج پر تھا۔ صرف ناول کا 1پیج با قی تھا۔”
”1پیج کیوں چھوڑا؟” مومنہ نے پوچھا ۔
”1صفحہ پہلے ہی رفعت اور رمیض کی کہانی ختم ہو جاتی ہے۔”
”مطلب؟” مومنہ نے ایسے کہا جیسے اُسے کوئی ڈر ہو۔
”مطلب یہ کہ وہ دونوں مر جاتے ہیں!”مائرہ نے سنجیدگی سے بتایا۔
”کیسے؟” مومنہ نے غم زدہ آواز میں پوچھا۔
”اب تم ناول کے متعلق پوچھ رہی ہو اور میں حقیقت کے متعلق سوچ رہی ہوں کہ آگے کیا ہوگا؟”
مائرہ بات کرتے کرتے خاموش ہوگئی۔ مالٹے کے جوس سے اُس نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھاجب کہ کے مومنہ گلاس خالی کرچکی تھی۔ وہ دونوں کافی دیر خاموش بیٹھی رہیں۔
”مومنہ! مجھے ڈر ہے کہیں مزمل بھائی اور ماہم آپی ایسا کچھ نہ کر گزریں۔”مائرہ نے درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔
”ایک ہفتہ رہ گیاہے شادی میں۔”اِس بار مومنہ اُسی تال میں بولی تھی ۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہفتہ بھی گزر گیا۔ برات سے ایک دن پہلے مزمل نماز کے بعد نکلا۔ وہ کھڑکی میں کھڑی تھی مرجھائے ہوئے سرخ گلاب کی طرح۔ اُس دن اُس کی بلوری آنکھوں میں اُداسی اور خاموشی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں کوئی عبارت نہیں تھی جسے مزمل پڑھتا۔ صرف ہجر کے سندیسے تھے۔ مزمل نے ایک نظر دیکھا اور چل دیا۔
وہ ماسٹر محمود کے دروازے کے آگے سے گزر رہا تھا کہ ایک آواز نے اُس کے قدم روک لیے۔
”بیٹا اندر آجائو!” مریم بی بی نے ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے مختصر بات کی اور دروازے سے اندر ہوگئی۔ گلی میں کوئی نہیں تھا۔ مزمل شش و پنج میں مبتلا تھا۔ لمحہ بھر اُس نے سوچا پھر وہ اندر چلا گیا۔
”بیٹھو بیٹا! ماہم کی ماں مریم نے ڈرائنگ روم میں مزمل کو بٹھایا۔ مزمل جھجکتے جھجکتے بیٹھ گیا۔
”کل رات ماہم کی برات ہے۔ آج سہ پہر تک مہمان آنا شروع ہو جائیں گے۔ کچھ مہمان رات کے آچکے ہیں۔ اُنہیں میں نے گائوں والی حویلی میں ٹھہرایا ہے۔ کل سے تم یہاں نہیں آئو گے۔” مریم بی بی نے تفصیل بتانے کے بعد فرمان جاری کیا۔
”کیوں؟” مزمل نے اعتماد سے نظریں ملا کر پوچھا۔
”اس لیے کہ کل سے وہ کھڑکی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔” مریم بی بی نے سخت لہجے میں جواب دیا۔
”حاضری میں دیدار کی شرط نہیں ہوتی۔”مزمل نے مودّب ہو کر کہا ۔
”ادب والے حکم عدولی نہیں کرتے۔” مریم بی بی نے کرخت لہجے میں بتایا۔
”بے وفائی کے علاوہ سب حکم مانوں گا۔” مزمل نے عاجزی سے اپنی بات کی۔
”وفا کا دم بھرنے والے محبوب کو بدنام نہیں کرتے۔”مریم بی بی نے دانت پیستے ہوئے اپنی سنائی۔
”اُس کی بدنامّی نہ ہوئی ہے،نہ ہوگی۔یہ میرا وعدہ ہے۔” مزمل نے یقین دلانے کی کوشش کی۔
”کب تک یہاں آتے رہو گے؟” مریم بی بی نے روکھے انداز سے پوچھا۔
”اب تو میں یہاں سے جانا ہی نہیں چاہتا۔ سوچ رہاہوں یہیں شفٹ ہوجائوں۔”مزمل نے لرزتی آواز میں اپنے دل کا حال سنایا۔
”کس لیے؟”مریم بی بی نے برہمی سے کہا۔
”تاکہ اُس کھڑکی کو دیکھتا رہوں۔” مزمل نے دھیمی آواز میں عرض کی۔
”بند کھڑکی کو دیکھنے کا فائدہ؟”مریم بی بی نے طنز کیا۔
”محبت میں فائدہ نقصان نہیں دیکھا جاتا۔” مزمل نے دھیمی اور دُکھی آواز میں کہا۔
”اب تو ہر چیز میں فائدہ نقصان دیکھا جاتا ہے۔” مریم بی بی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”میں تاجر ہوں صرف تجارت میں فائدہ نقصان دیکھتا ہوں محبت میں نہیں۔” مزمل نے اپنی صفائی دی۔
”کرتے تجارت ہو اور باتیں محبت کی۔”مریم بی بی نے ایسے کہا جیسے ساس اپنی بہو کو طعنہ دیتی ہے۔
”محبت کے ساتھ تجارت کرتا ہوں،تجارت سے محبت نہیں کرتا۔”مزمل نے آنکھیں ملاتے ہوئے کہا۔
”باتیں اچھی کر لیتے ہو۔” مریم بی بی نے طنزیہ تعریف کی۔
”محبت نے سکھا دی ہیں۔” مزمل نے دل پر پتھر رکھ کے مسکراتے ہوئے کہا ۔مریم بی بی کو مزمل کی مسکراہٹ پر تھوڑا سا غصہ آگیا۔ وہ اسی میں بولی:
”دیکھو مزمل صاحب !ہم نے محبت محبت کافی کھیل لی، اب حقیقت کی دنیا میں واپس آجائو۔ میں نے کہانا کل سے تم یہاں نہیں آئو گے بس!”مریم بی بی نے گرجتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”آپ ماں بن کر حکم دیں گی، تو میں مان لوں گا۔ اگر چودھرائن بن کر کہیں گی تو ۔”مزمل نے شائستگی سے کہہ دیا۔
”تو کیا؟” مریم بی بی نے تیور دکھاتے ہوئے پوچھا۔
”تو کچھ نہیں۔” مزمل پھر اُسی طرح مسکرا دیا۔
”تم مجھے سمجھتے کیا ہو؟” مریم بی بی نے گھوری ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”اُس کی ماں اور اپنی ماں جیسی نہیں نہیں۔آپ کو اپنی ماں مانتا ہوں۔”مزمل کو مناہل حیدر کی بات یاد آگئی تھی۔ اُس نے مریم بی بی کا اقبال بلند کرتے ہوئے اَدب سے کہا تھا۔
” یہ اُس!اُس کیا لگا رکھی ہے۔اُس کا ایک نام بھی ہے۔وہ کیوں نہیں لیتے؟”مریم بی بی نے ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اُس کا نام صرف دعا میں لیتا ہوں۔”مزمل نے نہایت اُلفت سے بتایا۔
”دعا میں کیوں لیتے ہو اُس کا نام۔” مریم بی بی نے حق جتاتے ہوئے کہا۔
”اِس لیے کہ دعا کرنے کے لیے آپ کی اجازت نہیںد رکار۔”مزمل نے بے ساختہ کہہ دیا۔
”کیا دعا کرتے ہو اُس کے لیے؟” مریم بی بی نے کچھ نرمی سے پوچھا۔
”یا اللہ !ماہم کو وہ صحت عطا فرما جس کے بعد بیماری نہ ہو۔”مزمل نے عقیدت سے بتایا۔
”ماہ نور ٹھیک کہتی ہے۔ تم دونوں واقعی پاگل ہو۔” مریم بی بی نے فوراً اپنا لہجہ اور رویہ بدل لیا۔
”دیکھو مزمل بیٹا! میں کچھ نہیں کر سکتی۔ میری بیٹی کے لیے تم سے اچھالڑکا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔میری خواہش کے باوجود اُس کی شادی تم سے نہیں ہو سکتی۔ شادی کے بعد پتا نہیں کیا ہوگا۔” مریم بی بی نے فکر مندی سے کہا۔
”اور کسی بات کا تو مجھے بھی پتا نہیں، لیکن ایک بات کنفرم ہے۔ میں اپنی نظر پر پردہ ضرور ڈال دو ں گا۔”یہ کہہ کر مزمل چپ چاپ گردن جھکائے وہاں سے چلا گیا۔
٭…٭…٭
”تم ماجد سے شادی کرنے کے بعد بھی یہ ونڈو اوپن رکھو گی؟” ماہ نور نے ماہم کو جھنجھوڑ کر پوچھا ۔ ماہم اب بھی گم صم تھی۔ ماہ نور نے دوبارہ اُسے ہلایا۔
”ٹیل می۔”
”نہیں…کبھی نہیں۔میں مزمل کی طرف کھلنے والی ساری کھڑکیاں بند کردوں گی۔ چاہے وہ دل کی ہوں یا لکڑی کی۔” یہ کہتے ہوئے ماہم نے بائیں ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسوصاف کیے۔
ماہم چودھری! چلو مان لیا تم مزمل کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند کر بھی لو،توکیا اُسے ماجد کے لیے کھول سکو گی؟” ماہ نورنے کھنکتی آواز میں پوچھا۔
”کوشش کروں گی!” ماہم نے زخمی آواز میں جواب دیا۔
”مجتبیٰ کہتا ہے ماہ نور یاد رکھنا! دل کے دوار ہردستک پر نہیں کھلتے۔”
”شوہر کے لیے کھل جاتے ہیں۔” ماہم نے حتمی انداز میں کہا۔
”میری ماں کے تو نہیں کھلے تھے۔” ماہ نور نے کرب سے کہا۔
”بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر سے محبت کرے، کوئی فرض ادا کر لیتا ہے اور کوئی قضا۔”
”ابّا کہتے ہیں، ہر عورت کا حق ہے کہ اُس کی شادی میں اُس کی مرضی شامل ہو۔” ماہ نور نے حکیم صاحب کی بات دہرائی۔
”میں نے اپنا یہی حق ماجد کے لیے ا ستعمال کیا ہے۔”
”ماہم! فار گاڈ سیک حق تلفی کو حق کا نام مت دو۔”ماہ نور نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ماہم گردن جھکائے خاموش تھی۔ ضبط کے باوجود اُس کی آنکھوں سے اشک چھلک پڑے۔ ماہ نور اُسے بہ غوردیکھ رہی تھی۔وہ تیزی سے اُٹھی اور اُسے گلے لگا لیا۔ ماہ نور نے ماہم کے آنسو صاف کیے اور اُس کا ہاتھ تھام کر کہنے لگی:
”تمہیں یاد تو ہوگا ، برسات کی رات بڑی طوفانی بارش ہوئی تھی۔ میری برتھ ڈے کے ایک دن بعد میں نے سوچا صبح وہ نہیں آئے گا ۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور بجلی گئی ہوئی تھی۔ تین چار گھنٹے بعد UPSبھی جواب دے گیا۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ ابّا ٹارچ لیے مجھے دیکھنے میرے روم میں آئے اور کہنے لگے اب تک جاگ رہی ہو۔ میں نے کہا نیند نہیں آرہی تھی
۔” ابّا بولے:”ایمرجنسی لائٹ جلا لو۔” وہ میرے قریب ہی پڑی تھی۔میں لائٹ جلانے لگی، تو میری نظر موم بتیوں اور ماچس پر پڑی جو پچھلی رات کیک کاٹنے سے پہلے بُجھا دی گئی تھیں۔ میں نے وہ سب موم بتیاں اُٹھاکر اُن میں سے ایک موم بتی جلائی اور اپنے سامنے شیلف پر لگا دی۔
ایک کے بعد ایک موم بتی جل کر اپنے ہی آپ میں غرق ہونے لگی۔ میں فجر کی اذان تک موم بتیاںروشنی کرتی رہی۔ بارش تھم چکی تھی۔ ابّا مسجد کے لیے نکلے تو میں آخری جلتی ہوئی موم بتی چھوڑ کر چھت پر چلی گئی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ دور نزدیک سے مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آوازیں آرہی تھیں۔
ابّا نے مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر اذان دینا شروع کی۔” ماہم بُت بنی ماہ نور کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے وہ کسی اور کی داستانِ محبت سنا رہی ہو۔
”تم اپنی ونڈو میں ماسٹر صاحب کی لالٹین لیے کھڑی تھی۔ میں نے سوچا ہے نا بیوقوف اِس کے پاس بھی تو ایمرجنسی لائٹ ہے وہ کیوں نہیںآن کی اِس نے، پھر میری نگاہوں نے تمہاری نظروں کا تعاقب کیا۔ فیکٹری کے موڑ سے روشنی کی کرن نمودار ہوئی وہ مزمل بیگ تھا۔ گلی میں پنڈلی پنڈلی پانی تھا۔ اُس کے بائیں ہاتھ میں سلیپر اور دائیں ہاتھ میں موبائل کی لائٹ جل رہی تھی۔ وہ پانی سے گزرتا ہوا۔ تمہاری ونڈو کے نیچے اور مسجد کی سیڑھیوں کے پاس پہنچا، میرا خیال تھا وہ تمہیں گردن اُٹھا کر دیکھے گا۔
مزمل نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔ تمہاری لالٹین پھڑک رہی تھی، جس کی تمہیں کوئی ہوش نہیں تھی۔ تم مزمل کو فوکس کیے ہوئے تھی۔
مزمل نے مسجد کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ اُس کا پیر پھسل گیا۔ تمہارے ہاتھ میں پھڑکتی ہوئی لالٹین بجھ گئی۔ تم نے تڑپتے ہوئے بائیں ہاتھ سے ونڈو کے راڈ کو پکڑا۔ اُس وقت تم ایسے تڑپ اُٹھی تھی جیسے مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے۔
تھینک گاڈ مزمل گرنے سے بچ گیا تھا۔ وہ مسجد میں داخل ہوگیا اور تم بجھی ہوئی لالٹین ہاتھ میں لیے وہیں کھڑی رہی چند منٹ بعد تم اُلٹے پائوں پیچھے ہٹ گئی۔ مزمل کے بعد تین چار اور نمازی مسجد میں داخل ہوئے۔ تم پھر سے ونڈو کے پاس چلی گئی ۔ جماعت کے بعد جب نمازیوں کے باہر نکلنے کا وقت ہوا، تم دوبارہ اُلٹے پائوں دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ تب بھی بجھی ہوئی لالٹین تمہارے ہاتھ میں ہی تھی۔ مزمل جب مسجد سے نکلا اُس نے مسکراتے ہوئے تمہیں اِک نظر دیکھا اور گردن جھکائے گلی میں کھڑے پانی میں سے چلتا ہوا فیکٹری کے موڑ تک چلا گیا۔ جیسے ہی اُس نے موڑ مڑا تم ونڈو کے ساتھ پڑی ہوئی اُس ایزی چیئر پر بیٹھ گئی۔ میں تمہیں چھت سے مسلسل دیکھ رہی تھی۔” ماہ نور نے کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی ایزی چیئر کی طرف اشارہ کرتے پھر سے کہا:
”اُس چیئر پر بیٹھنے کے بعد تمہیں پتا چلا تمہارے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین تو بجھ چکی ہے۔ تم نے لالٹین کو ہلا کے دیکھا اُس میں مٹی کا تیل ختم ہو چکا تھا۔ پھر بھی اُس کی بتی جلنے سے بچ گئی تھی۔
میں جب اپنے روم میں آئی توساری موم بتیوں کا ڈھیر ایک جگہ ہی تھا۔ وہ رات بھر جلتی رہیں اورصبح جلے ہوئے موم کے قبرستان میں دفن ہوگئیں۔
ایک بات بتائوں۔ ماہم چودھری!بیوی لالٹین کی طرح ہوتی ہے جس میں تعریف کا تیل ڈالو تو وہ پھر سے جل اُٹھتی ہے جب کہ محبوبہ موم بتی کی طرح جو اپنے ہی موم میں جل جل کر ڈھیر بن جاتی ہے۔
تم بھی مزمل بیگ کی محبت میں اپنے ہی موم میں جل رہی ہو۔ تمہیں میں نے تمہاری ہی لو اسٹوری سے ایک سین …پوچھو کیوں سنایا؟” ماہ نور نے ماہم کا ہاتھ تھامے ہی سوالیہ نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا۔
”کیوں؟” ماہم نے ایسے کہا جیسے اُس کی آواز کسی گہری کھائی سے آرہی ہو۔
”اس لیے کہ میں تمہیں بتا سکوں جو کچھ میں نے اُس دن دیکھا وہ دیوانگی کی حد تھی۔ ماہم چودھری! ماجد جیسا ایک ڈھونڈ نے جائو تو لاکھوں ملیں گے اور تم جیسی لاکھوں میں سے ایک بھی ملنا مشکل ہے۔
تم شادی کے بعد ماجد کے بچے ضرور پیدا کرو گی۔ اُس کی طرف محبت کی کھڑکی کبھی نہیں کھول سکو گی۔ یہ میری پریڈیکشن ہے۔ کل تمہاری تیل مہندی ہے، میں سوچ رہی ہوں پیلے سوٹ کی جگہ ماتمی لباس پہنوں ۔مزمل کے ساتھ کوئی تو ہو جو تمہاری شادی کا سوگ منائے۔” ماہ نور نے ماہم کا ہاتھ چھوڑا اور غصے سے کمرے سے چلی گئی۔ ماہم رنجیدگی سے گردن جھکائے وہیں بیٹھی رہی۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنے نازک اور سفید ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے خود کلامی کی:
”کل میری تیل مہندی ہے۔”
تیل منہدی کی رسم ماہم کے اسکول کے گرائونڈ میں انجام پائی۔ برات کا انتظام ملن میرج ہال میں کیا جانا تھا۔مہندی کی تقریب کے دوران ماہم کی طرح ماہ نور بھی بجھی بجھی سی رہی۔ برات والے دن صبح مزمل مسجد کے زینے اُتر رہا تھا۔ ہزار کوشش کے باوجود وہ اپنی نظر نہیں روک سکا، نظر اُٹھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح کھڑکی میں کھڑی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں نور کی بجائے ظلمت تھی اور اُداسی کے ساتھ ساتھ ویرانی بھی تھی۔ ماہم ہاتھوں میں مہندی رچائے، کلائیوں میں گجرے پہنے، گلے میں مالا ڈالے ، پیلے جوڑے میں ملبوس تھی۔ وہ من موہنی سی لڑکی ماہ پارہ لگ رہی تھی۔ یہ تو اُس کا ظاہر تھا۔
اصل میں مہندی کی ٹھنڈک کے بجائے اُسے تپش محسوس ہو رہی تھی۔ کلائیوں کے گجرے ہتھ کڑیاں لگ رہیں تھیں۔گلے کی مالا پھانسی والی رسی جیسی تھی۔ پیلا لباس اُس کے نزدیک اُسے ماتمی لباس کی کیفیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ چندر مکھی کی طرح نظر آنے والی ماہم اُس وقت اندر سے پارو نہیں بلکہ پارہ پارہ ہو چکی تھی۔
مزمل اور ماہم کے مابین کوئی میثاق، کوئی معاہدہ طے نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں اپنے اپنے محاذ پر مجرم بنے کھڑے تھے۔ کس نے کس کو مجروح کیا یہ معمّا تھا۔ پھر بھی وہ دونوں مضطرب تھے۔ ملاقات کے بغیر صرف محبت کی معرفت سے اُن دونوں کے جسم معطر ہو چکے تھے۔ اُس مسافت کے دوران اُنہیں محبت کی مہک تومیسر آئی پر محبت کی منزل نہیں ملی۔ اُن کے ملن کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔
مہندی کی تقریب کے بعد سے ماہم کھڑکی میں مجسمہ بنی کھڑی رات بھر صبح کا انتظار کرتی رہی۔
جس کے انتظار میں وہ کھڑی تھی۔ وہ اس کے سامنے تھا۔ وہ اپنے نکاح سے پہلے شاید آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی۔ مزمل نے بھی اُس لمحوں کے اندر اندر صدیوں جیسا دیکھ لیا۔ اُس کے دل میں پتا نہیں کیا بات آئی وہ واپس مسجد کے اندر چلا گیا۔ چند منٹوں بعد واپس آیا، تو ماہم وہیں کھڑی تھی۔ مزمل نے اُسے ہمیشہ کی طرح ایک نظر دیکھا اور نظریں جھکائے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر لاہور چلا گیا۔
٭…٭…٭
اب جاگنے کی باری مزمل بیگ کی تھی۔ وہ رات بھر اپنے ٹیرس پر صبح کا انتظار کرتا رہا۔ کھلی کھڑکی کو دیکھنے والی مشتاق آنکھیں اس بار مزمل بیگ کی تھیں۔ اُس کے ذہن میںکچھ نہیں تھا سوائے اُس کھڑکی کے کہ وہ جلد از جلد اُس کھڑکی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ نماز سے پہلے دیکھنے کی اجازت اُس کو نہیں تھی۔
مزمل گردن جھکائے گلی سے گزر گیا۔ اُس کے دل میں کھڑکی کا کوئی خیال نہیں آیا۔ اُس نے خشوع خضوع سے نماز ادا کی۔ سب نمازیوں کے جانے کے بعد آج پہلی بار حکیم صاحب بھی چلے گئے۔ حکیم صاحب کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ حسب معمول اُٹھا اور مسجد کے بیرونی دروازے کی طرف قدم بڑھائے ۔ اُسے کبھی بھی مسجد کی حدود میں کھڑکی یا کھڑکی والی کا خیال نہیں گزرا۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ مزمل نے سیڑھیاں اُترنی شروع کیں۔ نظر اُٹھائی کھڑکی کھلی تھی۔ ماہم دُلہن بنی کھڑکی میں کھڑی تھی۔ مزمل نے ہمیشہ کی طرح ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنی نظریں جُھکا لیں۔ مزمل کی آنکھوں میں بجھے دیپ جل اُٹھے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ دل سے دھک دھک کی آواز آنے لگی۔ دل کی دھک دھک دماغ سے برداشت نہیں ہوئی۔ دماغ کہنے لگا:
” بیگ صاحب ! کھلی کھڑکی کے پیچھے دُلہن کھڑی ہے۔خوش ہونے کی بجائے پتا تو کر لو وہ کس کی دُلہن ہے؟”
”دل نے حکم دیا:
”مزمل صاحب!نظریں اُٹھائو اور دوبارہ دیکھ لو میرا دھڑکنا بے وجہ نہیں ہوتا۔ میری دھڑکن زندگی کی علامت ہے۔”
”نظریں اُٹھائو گے تو بے ادبی ہو جائے گی۔” دماغ نے جلدی سے میسج دیا۔ اُسی لمحے دل نے بھی صدا لگا دی۔
”مسٹر برین! آپ عقل والوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور میں عشق والوں کا ساتھی ہوں۔ مزمل صاحب !تم نظریں اٹھائو۔”
مزمل نے نظریں اُٹھا کر دیکھا۔ ماہم کے چہرے پر عجیب طرح کی مسرت تھی۔ وہ تھوڑی دیر اُسے دیکھتا رہا۔ آنکھوں کی گفتگو سے دلوں کوسکون مل گیا۔ مزمل کو گلی میں کھڑے ہو کر مزید اس طرح دیکھنا غیر مناسب لگا۔ وہ نظریں جھکا کر اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔
”بیٹا اندر آجائو!” مریم بی بی نے بڑے اعتماد سے کہا جو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔
مزمل اندر چلاگیا۔ ڈرائنگ روم میں ایک آدمی وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے حکیم مسلم انصاری، مہتاب خان اورمدیحہ کا شوہر مقبول بیٹھے ہوئے تھے ۔ دوسرے صوفے پر چند عورتیں تھیں جن میں ، مومنہ ، ماہ نور،مدیحہ، منیرہ بی بی اور ایک طرف مہوش وہیل چیئر پر بیٹھی تھی۔
”جوان! میری بیٹی سے شادی کرو گے؟” چودھری مقصود نے گرجتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
اس سے پہلے کہ مزمل کچھ کہتا ڈرائنگ روم میں ماہم دُلہن کے لباس میں ملبوس داخل ہوئی۔ مزمل نے حیرانی سے چودھری مقصود کی طرف دیکھا۔
”جوان! میری بیٹی ماہم سے شادی کرو گے؟” چودھری مقصود اُسی انداز میں دوبارہ بولا۔
”جی!” مزمل نے ماہم کی طرف دیکھ کر کہا۔
”حق مہر میں کیا لکھوائو گے۔” چودھری مقصود نے بے دھڑک کہہ دیا۔
”یہ والی فیکٹری لکھ لیں۔” مزمل بیگ نے حتمی انداز میں جواب دیا۔
ماہم نے مزمل کی طرف د یکھا۔ ڈرائنگ روم میں موجود سب لوگوں نے باری باری ایک دوسرے کی طرف نگاہ ڈالی ۔ اُن کے چہروں پر ملی جلی کیفیات تھیں۔ خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی نمایاں تھی۔
”حکیم صاحب! بسم اللہ کریں۔” چودھری مقصود نے نکاح پڑھانے کا فرمان جاری کردیا۔
”حکیم صاحب! بسم اللہ کریں” پچھلی رات بھی چودھری مقصود نے ایسے ہی کہا تھا۔
”چودھری مقصود۔ یہ نکاح نہیں ہو سکتا۔” ایک آدمی گھن گرج کے ساتھ بولا۔
”کیوں نہیں ہو سکتا یہ نکاح؟” چودھری مقصود نے للکار کر پوچھا۔
”اس لیے کہ تیرے بیٹے نے میری بہن منزہ سے شادی کر رکھی ہے۔ اب وہ دوسری شادی نہیں کر نا چاہتا۔” مہر مجید نے وضاحت پیش کی۔
”کیوں اوئے ماجد؟” چودھری مقصود نے قہرو غضب سے پوچھا۔
”جی ابّا جی!” ماجد نے گردن جھکائے فوراً اقرار کرلیا۔
”اوئے کھوتے دے پتر! پھر یہ تماشا لگانے کی کیا ضرورت تھی۔” چودھری مقصود وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے ہی آپے سے باہر ہوگیا تھا۔
”تو مجھے پہلے بتا دیتا،بے غیرتا،بے شرما۔اب میں سارے شریکے کو کیا جواب دوں گا۔کون کرے گا میرے مرحوم بھائی کی بیٹی سے شادی؟” چودھری مقصود نے وا ویلا مچایا ہوا تھا۔
”کھانا کھول دو۔” حکیم صاحب نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے میرج ہال کی انتظامیہ کو کہہ دیا۔ خود چودھری مقصود کی وہیل چیئر کو دھکا لگاتے ہوئے دُلہن کے کمرے میں لے گئے۔ چند منٹوں بعد ہی سارا ہجوم تتر بتر ہوگیا۔ شادی ہو یا نہ ہو لوگوں کو کھانا ملنا چاہیے۔ لوگوں نے کھانا کھایا، اپنے اپنے ہاتھ صاف کیے اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔
”کون کرے گا،میرے بھائی کی بیٹی سے شادی؟” چودھری مقصود نے مگر مچھ والے آنسو گراتے ہوئے پھر سے پوچھا۔
”ایک لڑکا ہے ۔میرے رشتے میں بھی لگتا ہے۔ وہی جس نے سیٹھ مجیب کی فیکٹری خریدی ہے۔” حکیم صاحب نے تسلی دی۔
”وہ اتنا بڑا آدمی ہے، وہ کیوں کرے گا شادی؟” چودھری مقصود کے آنسو فوراً غائب ہوگئے تھے۔ ساتھ ہی اُس نے تفتیش بھی شروع کردی۔
”اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ سے رشتہ مانگوں۔ جب میں نے بتایا کہ ماہم کی منگنی ہو چکی ہے ، تو وہ کہنے لگا:
حکیم صاحب! آپ ہی میرے بڑے ہیں۔ آپ جہاں کہیں گے میں شادی کر لوں گا۔”
”مگر پھربھی حکیم صاحب۔مجھے نہیں لگتاوہ لڑکامانے گا۔” چودھری مقصود نے رُک رُک کر اپنے خدشے ظاہر کیے۔
”انکل جی! آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ اُس کی کیا مجال وہ ابّا کی بات ٹالے۔ ہماری ماہم راج کرے گی۔ اُس کے پاس ایسی دو فیکٹریاں اور بھی ہیں۔ دو بنگلے تین گاڑیاں اور کروڑوں کا بینک بیلنس الگ ہے۔” ماہ نور نے ماہم کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا جو اس کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی۔
چودھری مقصود کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اُس وقت برائیڈل روم میں صرف پانچ افراد تھے۔ پانچویں مریم بی بی تھی جو کچھ دیر بعد آئی تھی۔
”کچھ بھی ہو۔ میں ماہم کی رضا مندی کے بغیر ہاں نہیں کرسکتا۔” چودھری مقصود نے اپنا لالچ چھپاتے ہوئے بڑی چالاکی سے کہا۔
”لالہ جی! ماہم اور مجھے آپ کے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض پہلے تھا اور نہ ہی اب ہوگا۔ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہوگا۔ ” مریم بی بی نے تابع داری کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کی ڈیوٹی پوری کر دی۔
”تو پھر حکیم صاحب! ابھی اُس لڑکے کو بلائیں۔ ابھی کلمے پڑھا دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیرصَلَّا۔” چودھری مقصود نے اپنی عزت بچانے کے لیے فوراً رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔
”چودھری صاحب! اس وقت غیر مناسب ہے۔ میں اُس سے فون پر بات کر لیتا ہوں۔ ان شاء اللہ کل صبح فجر کے بعد میں نکاح پڑھوا دوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ آپ آج رات یہیں رُک جائیں۔ گائوں مت جائیں۔ کل نکاح کے بعد ہی گائوں جائیے گا۔ اس طرح آپ کی عزت بھی رہ جائے گی اور شریکے برادری کوباتیں بنانے کا موقع بھی نہیںملے گا۔” حکیم صاحب کی بات چودھری مقصود کے دل پر لگی تھی۔ وہ فوراً مان گیا۔
ماہم اپنے کمرے میں آئی۔ اُس نے جنوری کی سخت سردی کے باوجود اپنی کھڑکی بند نہیں کی۔ وہ دُلہن بنی مسجد کی سیڑھیوں کو دیکھنے لگی۔ جہاں آج صبح مزمل کھڑا تھا۔ اُس نے ماہم کو دیکھا نظریں جھکائیں اور واپس مسجد میں چلا گیا۔
”وہ واپس مسجد میں کیا لینے گیا ہے؟” اُس وقت ماہم کھڑکی میں کھڑی یہ سوچ رہی تھی۔
”ہر شے من جانب اللہ ہے۔ یا للہ! اے مرے مالک! میں نے تجھ سے مانگنا چھوڑ دیا تھا۔ آج پھر مانگتا ہوں اپنی محبت کو۔ مالک!تو مسبب الاسباب ہے، میں نہیں جانتا تو کیسے کرے گا بس تو ہی کر سکتا ہے۔ مجھے ماہم عطا کر دے پورے مرتبے اور مقام کے ساتھ۔” مزمل مسجد میں آنے کے بعد سجدے میں گڑ گڑا رہا تھا۔ اُس کے اشکوں سے مصلیّٰ بھیگ گیا تھا۔ اُس نے دعا کے بعد رومال سے اپنی بھیگی پلکیں صاف کیں۔ سیڑھیاں اُترتے ہوئے ایک نظر اپنے محبوب پر ڈالی اور لاہور چلا گیا۔
وہ ٹیرس پر کھڑا رات بھر کھڑکی کے متعلق سوچتا رہا اور ماہم رات بھر کھڑکی سے باہر سیڑھیوں کو دیکھتی رہی۔
فجر کے بعد نکاح پڑھا کر حکیم صاحب نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ ماہم پورے مان سمان کے ساتھ اپنے گھر سے رخصت ہوئی تھی۔ اُس کے باپ کی زبان بھی جیت گئی اور ماہم نے اپنا محبوب بھی پا لیا تھا۔
وہ اُس کے ساتھ دُلہن بنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مزمل کی سفید مرسڈیز اِس بار دُلہن کی طرح سجی نہیں تھی۔
سجاوٹ کا کام فجر کے بعد ہی سے ماڈل ٹائون میں شروع ہو چکا تھا۔
پچھلی رات کے واقعے کے بعد حکیم مسلم انصاری نے اپنی خالہ ممتاز بیگم کو ساری صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔
ممتاز بیگم نے خود ہی خوشی خوشی حکیم صاحب کو ماہم اور مزمل کے نکاح کی اجازت دی تھی۔
ماڈل ٹائون میں سب کو معلوم تھا سوائے مزمل کے۔
تقریباً 400دنوں تک چلنے والی محبت کی یہ کہانی اب 72کلو میٹر کی مسافت طے کر رہی تھی۔
مزمل چپ چاپ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور ماہم ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ خاموش محبت کے کردار اب بھی خاموش ہی تھے۔ دونوں کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے لیکن بات کرنے کی ہمت نہیں تھی یا اُن دونوں نے کوشش ہی نہیں کی یا پھر وہ دونوں ہی لکھنو کے بانکوں جیسے تھے۔ اس کی خبر مجھے بھی نہیں ہے۔
مزمل کے ہارن دینے سے پہلے ہی گھر کا مین گیٹ کھل گیا۔ وائٹ مرسڈیز وقار سے چلتی ہوئی داخلی دوازے پر جا کے رکی ایک طرف منظوراں اور مائرہ کھڑی تھیں دوسری طرف مبشر اور مسرت۔ چاروں کے ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں سے بھری ہوئی پلیٹیں تھی۔ مزمل نے گاڑی سے اُترکے جلدی سے ماہم کے لیے دروازہ کھولا اور اپنا دائیاں ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا۔ ماہم نے پہلے مزمل کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا پھر ایک نگاہ اپنے محبوب پر ڈالی۔
وہ نکاح کے بعد اپنے مجازی خدا کو پہلی بار چھونے والی تھی۔ اُس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اپنا ہاتھ مزمل کے ہاتھ میں دے دیا۔
گاڑی سے اُترنے کے بعد اُنہیں چار سیڑھیاں چڑھنی تھیں۔ ماہم کو یاد آیا مسجد کی بھی چار ہی سیڑھیاں تھیں جو گلی کی طرف اُترتی تھیں۔
آخری سیڑھی پر پہنچ کر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا سامنے راہ داری میں گلاب کے پھول پتیوں کی شکل میں بکھرے بانہیں پھیلائے لیٹے تھے۔
مزمل نے اپنے جوگر اُتار دیے اور ماہم نے اپنی ہیل والی سینڈل اُتار دی۔
ماہم کے پیروں میں مہندی رچی ہوئی تھی۔
جرابیں اُتارنے کے بعد مزمل کے سفید پائوں اور بھی سفید نظر آ رہے تھے۔
وہ دونوں ننگے پائوں چلتے ہوئے اپنی دادی کی طرف بڑھے اُن کے اوپر بھی پھولوں کی برسات ہو رہی تھی اور قدموں میں گلاب کی پتیاںتھیں۔دادی کے پاس پہنچ کر مزمل بولا:
”دادو! یہ ہے آپ کی بہو۔” ممتاز بیگم دو بازوئوں والی کرسی سے اُٹھیں اور ماہم کا پیشانی سے بوسہ لے لیا۔
”دادو! میں چلتا ہوں۔”مزمل نے اِک نظر ماہم کو دیکھا۔ وہی اِک نظر جو وہ چار سودنوں سے دیکھتا آرہا تھا۔ وہ لائونج سے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچا جس کی سجاوٹ کا کام ہو رہا تھا۔
وہ بغیر کچھ بتائے تیار ہوا اور فیکٹری کے لیے نکل گیا۔ مائرہ ماہم کو ایک کمرے میں لے گئی۔ اُس کے پیچھے پیچھے ممتاز بیگم بھی پہنچ گئیں۔
”ماہم بیٹی! وہ میانوالی گیا ہے۔ رات مجھے بتا رہا تھا۔ اُسے سرامک کا بزنس بڑا راس آیا ہے۔ میانوالی کی ایک پارٹی ہے۔ وہ اپنی فیکٹری بیچ رہی ہے اُس کی ڈیل کرنے گیا ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں مبارک علی اور وکیل صاحب اُس کے ساتھ ہیں۔ شام تک واپس آجائے گا۔ ممتاز بیگم متواتر بول رہی تھیں اور ماہم خاموشی سے سُن رہی تھی۔
”ماہم بیٹی! تم کپڑے چینج کر لو اور فریش ہو جائو۔ پھر ناشتا کرتے ہیں۔” ماہم نے اپنے عروسی لباس کی طرف دیکھاپھر ایک نظر کمرے سے جاتی ہوئی ممتاز بیگم پر ڈالی۔
بھابی! آپ یہ پہن لیں!” مائرہ نے ایک سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ماہم کو صرف بھابی یاد رہا باقی وہ کچھ یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی۔
”مائرہ! یہ اُتار دوں؟” ماہم نے اپنے عروسی لباس کی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”جی ہاں۔ شام کو بیوٹیشن آجائے گی۔ آپ پھر سے تیار ہوں گی اور بیگم صاحبہ کا خریدا ہوا لہنگا پہنیں گی۔ بیگم صاحبہ کل رات کو کہہ رہی تھیں مائرہ میں اپنی ماہم کو مزمل کے لیے خود تیار کروائوں گی۔”
”بھابی! آپ کا لہنگا بھی بہت خوبصورت ہے، لیکن پہننا تو آپ نے کسی اور کے لیے ہی تھا۔”
آخری بات ماہم کے دل پر جا کے لگی۔ وہ اُٹھی اور جلدی سے ماجد کے لیے پہنا ہوا عروسی لباس اُتار کر سادہ کپڑے پہن لیے ناشتا کیا اور ممتاز بیگم کے کہنے پر سوگئی۔
مزمل پچھلی سیٹ پر سکون کی نیند سو رہا تھا۔ جب کہ مبارک علی گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ مبارک علی کے برابر میں مزمل کا وکیل بیٹھا تھا۔ لاہور سے میانوالی تک سارے رستے مزمل سوتا رہا۔ ڈیل فائنل کرنے کے بعد واپسی پر وہ ماہم کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا اُسی وقت دل سے آواز آئی جو کہ دل ہی کی تھی:
”مزمل صاحب! میں نے صحیح کہا تھا نا! صرف وہ چیز نا ممکن ہے جسے انسان نا ممکن سمجھتا ہے۔ دل کی دھرتی کا درد دوائی سے دور نہیں ہوتا اُس کے لیے اُمید اور دعائیں درکار ہوتی ہیں۔ اُمید آپ نے چھوڑی نہیں دُعا کا مشورہ تو میرا تھا” دل نے سینے کے اندر ننھے بچے کی طرح اُچھلتے ہوئے کہا۔ دماغ نے آج دل کو منہ لگانا مناسب نہیں سمجھا۔
مزمل تخیل کی وادی میں کھویا ہوا تھا۔ گاڑی لاہور کی طرف رواں دواں تھی۔ مزمل نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اُس نے بند آنکھوں کے ساتھ منہ میں کہا:”میری ماہم!!”
٭…٭…٭
ماہم کے اُٹھنے سے پہلے بیوٹیشن اپنی تین رکنی ٹیم کے ساتھ آچکی تھی۔
انہوں نے ماہم کو پھر سے تیار کیا ۔مزمل کے لیے ۔مزمل بھی گھر واپس آچکا تھا۔
عشا کی نماز کے بعد مزمل تیار ہو کر نیچے آیا وہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ گلے میں پھولوں کی مالا۔
مزمل سادگی کے باوجود پر وقار نظر آرہا تھا۔
ماہم دُلہن بنی لائونج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ممتاز بیگم نے مزمل کو اُس کے پہلو میں بیٹھنے کا حکم دیا۔
دونوں فوٹو گرافر اِسی انتظار میں تیار کھڑے تھے۔ ایک مختصر سا فوٹو سیشن ہوا۔
گھر کے تمام افراد نے اس جوڑے کو تحائف پیش کیے۔
اُس کے بعد ممتاز بیگم نے مزمل کو حکم دیا کہ تم دُلہن کو اپنے کمرے میں لے جائو۔
مزمل نے ہاتھ بڑھایا ماہم نے جلدی سے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ مزمل اُسے اپنے بیڈ روم میں لے گیا۔
مزمل کا بیڈ روم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہر چیز امپورٹڈ اوپر سے بے شمار پھولوں کی سجاوٹ۔
مزمل نے اُسے اپنے بیڈ کے پاس لے جا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ماہم کمرے کو دیکھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ دوسری طرف سے مزمل اُس کے پہلو میں آن بیٹھا۔
ماہم کے پہلو میں مزمل کے بیٹھنے کی دیر تھی ، ماہم کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ مزمل نے ماہم کے جھکے ہوئے مکھڑے کو اُٹھایا اور کہنے لگا:
”میرا نام مزمل بیگ ہے۔” ماہم نے سنا تو اُس کے رخسار پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
”میں کل تک ماہم چودھری تھی۔ آج الحمد للہ ماہم مزمل ہوں۔” ماہم نے اپنے ماضی اور حال کا تعارف کرایا۔خاموش محبت کا یہ پہلا زبانی تعارف تھا۔
مزمل نے اپنی دُلہن کو ایک خوبصورت ڈائمنڈ کا نیکلس پیش کیا۔
اُن دونوں نے ساری رات باتوں اور شرارتوں میں گزاردی۔
خاموش محبت کو نکاح کی برکت سے قوتِ گویائی میسر آگئی تھی۔ رات بھر وہ اپنی داستانِ محبت کے واقعات کو یاد کرکر کے مہکتے رہے۔رات کے پچھلے پہر غسل کرنے کے بعد فجر کی اذان سے پہلے مزمل اپنی محبت کا ہاتھ تھامے اُسے ٹیرس پر لے گیا۔
اُس سرد رات میں نیلے آکاش پرچاند دولہے جیسا لگ رہا تھا اور تارے براتیوں کی طرح ۔ مزمل نے فلک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”اِس وقت میں معراج کے لیے نکل جایا کرتا تھا۔”
”بہت کر لیا اکیلے سفر اب میں آپ کی ہم سفر ہوں۔” ماہم نے اپنی بلوری آنکھوں سے مزمل کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ مزمل نے دیکھا، تو اُسے ماہم پر پیار آگیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں مسحور تھے۔
”آپ بہت خوبصورت ہو۔” مزمل نے ماہم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ماہم نظریں جھکاتے ہوئے شانِ دلربائی سے مسکرائی۔ا ُس وقت ماہم کے رخسار ایسے تھے جیسے آفتاب زعفران کے کھیت میں سے طلوع ہو رہا ہو۔
” ایک بات کہوں۔” ماہم نے جھکی نظروں سے کہا۔
” کہو۔” مزمل نے الفت سے جواب دیا۔
”تھوڑی پرسنل ہے۔” ماہم نے میٹھی آواز میں کہا۔
”میاں بیوی کا تعلق بھی تو پرسنل ہی ہوتا ہے۔”
”آپ اپنے والدین کو معاف کردیں۔” مزمل نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ ماہم نے سنجیدگی کی آگ پر اپنی مسکراہٹ کا ٹھنڈا پانی ڈالااور مزمل کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا:
”پلیز میری خاطر۔میرا ماننا ہے سب سے بڑے عاشق تو والدین ہی ہوتے ہیں۔ وہ عاشق ہی کیا جو غلطی نہ کرے اُن سے بھی غلطی ہوگئی تھی۔”
”یہ سب کچھ آپ کو کِس نے بتایا؟” مزمل نے ماہم کے چہرے کو پڑھتے ہوئے بے تاثر لہجے میں پوچھا ۔
”حکیم چچا نے۔” ماہم نے دھیمی آواز میں کہا وہ بھی مزمل کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”پلیز۔میری پہلی اور آخری خواہش سمجھ لیں۔میں زندگی بھر آپ سے کچھ نہیں مانگوں گی۔”
”ایک شرط پر۔” مزمل نے روکھے لہجے میں کہا۔
”مجھے منظور ہے۔” ماہم شرط سنے بغیر ہی خوشی سے جھوم اُٹھی۔
”آیندہ آپ اُن کا ذکر کبھی نہیں کریں گی۔” مزمل نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”یہ بھی منظور ہے۔” وہ کھل گئی مزمل کی بات سُن کر ساتھ ہی وہ مسکراتے ہوئے شکایتی انداز میں بولی:
”اتنا غصہ ایک لمحے کے لیے تو میری جان ہی نکل گئی تھی آپ اتنا غصہ کرتے ہیں۔ ہائے اللہ۔” ماہم نے ہائے اللہ اتنے خوبصورت انداز میں کہا تھاکہ مزمل مسکرا دیا۔
وہ محبت اور نفرت کی درمیانی خلیج سے چلتے ہوئے مکمل طور پر محبت کی وادی میں داخل ہو چکا تھا۔
”مناہل حیدر سے ملنا چاہو گی؟”مزمل نے ماہم سے پوچھا۔
”وہ مشہور رائٹر۔” ماہم نے کہا۔
”ہاں وہی!”
”ملنا چاہوں گی پر اِس وقت مناہل حیدر؟” ماہم نے حیرانی سے پوچھا۔ مزمل مسکرا دیا۔
”مناہل حیدر نے کہا تھا۔ جب آپ محبت کی منزل پالو گے تو مجھے فون کرنا تب میں آپ پر بھی ناول لکھوں گی۔”
”کیا آپ نے پالی ،اپنی محبت کی منزل۔” ماہم نے ادائے بے نیازی سے پوچھا۔
”میری محبت اور میری منزل دونوں اِس وقت میرے سامنے ہی ہیں۔” مزمل نے رومینٹک انداز میں کہا۔ ماہم نے یہ سن کر نظریں جھکا لی تھیں۔
ملن شادی ہال سے شروع ہونے والی کہانی ملن پر ہی ختم ہوئی۔
مزمل کی ”م” اور ماہم کی ”م” محبت کے ملن کے بعد بن گئی پھر سے ”میم”یعنی/ ”م سے محبت”
ختم شد