داستانِ محبت ناول خاتون نے اپنے ہینڈ بیگ سے نکالا ہی تھا کہ اُس کے ساتھ بیٹھے نوجوان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ در آئی۔ اُس نے ایک نظر خاتون کے چہرے پر ڈالی پھر اُس ناول کو دیکھا جو اُس کے نازک ہاتھوں میں تھا۔
خاتون کی نظریں ناول کے پَنّوں پر لفظوں کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وہ اُٹھا اور واش روم کی طرف چل دیا۔
وہ پچیس سال کا پرکشش نوجوان تھا جس کی رنگت گوری اور قد کاٹھ متوسط تھا۔ روشن پیشانی کے اوپر ہلکا سا محراب تھا جو اکثر لمبے سیاہ بالوں کے نیچے چھپا رہتا تھا۔ کالی سیاہ آنکھوں میں اکثر و بیشتر لالی رہتی۔اُس نوجوان نے واش روم کی طرف جاتے ہوئے بزنس کلاس کے دوسرے مسافروں پر واجبی سی نگاہ ڈالی جن میں سے اکثر لنچ کے بعد نیند کی آ غوش میں تھے۔ اِس جہاز نے لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے لاہور کے علامہ اقبال ائیر پورٹ کے لیے اُڑان بھری تھی۔
وہ نوجوان واپس اپنی سیٹ پر بیٹھنے لگا، تو پہلے اُس نے ناول پڑھتی اُس خاتون کو بہ غور دیکھا جس کی عمر چالیس کے آس پاس ہوگی۔ گندمی رنگت گہری اور سیاہ آنکھیں جن کے نیچے سُرمئی حلقے تھے۔ اُس خاتون کا چہرہ خوشی اور غمی کے تاثرات سے ماورا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود اُس کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا۔ اپنی دھن میں مست ناول پڑھنے میں گُم تھی۔ نوجوان سونا چاہتا تھا پر اُسے ناول پڑھتی ہوئی خاتون کی لائٹ سے کوفت ہو رہی تھی۔ ائیرہوسٹس نے مسافروں کے آرام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے روٹین میں جلنے والی ساری لائٹس آف کر دی تھیں۔
خاتون نے ناول کا اگلا صفحہ بڑے سلیقے سے پلٹا۔ نوجوان کی نظر ابھی تک اُس کے ہاتھوں پر تھی جس کا اندازہ اُسے ہو چکا تھا۔ اُس نے نوجوان کی بے چینی بھی بھانپ لی تھی۔
”بھائی! آپ کو میری وجہ سے کوئی پریشانی ہے۔” خاتون نے نفیس آواز میں پوچھا۔ اُس کا لب و لہجہ اور طرزِ تکلم نہایت عمدہ تھا۔
”تھوڑی سی روشنی میں بھی میری نیند اُڑ جاتی ہے۔” نوجوان نے سنجیدگی سے اپنی پریشانی بیان خاتون کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اُس نے بائیں ہاتھ میں ناول سنبھالا اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے لائٹ کی آف کر دی۔
”میرے خیال میں تو نیند کا تعلق دل کے سکون سے ہوتا ہے، دل مطمئن ہو تو کہیں بھی نیند آ جاتی ہے۔” خاتون نے لائٹ آف کرنے کے بعد نوجوان کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے دی۔
”کسی کے مزاج کا تعلق سکون یا بے سکونی سے نہیں ہوتا۔ میں بڑا مطمئن اور پر سکون ہوں۔” نوجوان نے بھی خاتون کی طرف بہ غور دیکھ کر جواب دیا۔ نوجوان کی بات سن کر خاتون کے ہونٹوں پر پھر سے ہلکا سا تبسم پھیلا۔
”بھائی! میں نے آپ کی بات نہیں کی تھی خیر آپ آرام کریں۔” خاتون نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی اور کھلی آنکھوں سے اوپر دیکھنے لگی۔ ناول اُس نے اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔ اِس سے پہلے پچھلے چھے گھنٹوں کی مسافت کے دوران اُن دونوں نے ایک دوسرے سے تعارفی مسکراہٹ کے ساتھ صرف ”ہیلو ہائے سلام دعا، تھینکس اور شکریہ ہی کہا تھا۔
اُس کی گود میں پڑے ناول نے ایک دفعہ پھر نوجوان کی توجہ حاصل کر لی تھی۔
”آپ بھی اِس طرح کے ناولز پڑھتی ہیں؟” نوجوان نے سونے کی بجائے سوال پوچھ لیا۔ خاتون اُس کی آواز پر چونکی اور اُس کی طرف دیکھ کر پوچھا:
”کس طرح کے مطلب؟میں سمجھی نہیں؟” اب کی بار اُس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”ڈائجسٹوں میں قسط وار چھپنے والے ناولز جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتاصرف اور صرف وقت کا ضیاع۔” نوجوان نے دوٹوک الفاظ میں خود ہی تبصرہ کر دیا۔
”آپ نہیں پڑھتے ایسے بے مقصد ناولز؟” خاتون نے سوالیہ نظروں سے پوچھا، تو نوجوان ہلکا سا قہقہہ۔ وہ اور زور سے ہنستا اگر اُسے دوسرے مسافروں کی نیند کا خیال نا ہوتا۔ ایک بات مشترک تھی کہ وہ دونوں دھیمے سروں میں بات کر رہے تھے۔
”میں نے تو مائرہ کو بھی سختی سے منع کر دیا ہے کہ خبر دار جو ایسے ناولز پڑھے۔”
”میں نے ابھی شادی نہیں کی۔” نوجوان نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”بہن ہے۔” اُس نے اندازہ لگایا۔ نوجوان نے نفی میں گردن ہلائی اور کہنے لگا:
”بہن تو نہیں ہے،ہاں بہن جیسی ضرور ہے۔” خاتون نے سُنا تو ہلکا سا مسکرادی ۔ نوجوان نے اُس کی دبی دبی مسکراہٹ دیکھ لی تھی۔
”آپ میری بات پر مسکرائی کیوں؟” نوجوان نے کچھ خفگی سے پوچھا۔
”میں کچھ کہوں گی، تو آپ سمجھو گے کہ جیسے آپ کو کہہ رہی ہوں۔” خاتون نے اُسی انداز میں کہہ دیا۔
”میں آپ کا نقطۂ نظر جاننا چاہتا ہوں۔” نوجوان جلدی سے بولا۔
”دیکھو بھائی! رشتے جیسا، جیسی کی بیساکھیوں کے سہارے نہیں چل سکتے۔ بہن صرف بہن ہوتی ہے، بہن جیسی نہیں ہوتی۔ ہم اکثر کہتے ہیں یہ میری بہن جیسی ہے، وہ عورت میری ماں جیسی ہے، آپ میرے باپ جیسے ہو، تم میرے بیٹے جیسے ہو۔ کبھی کوئی مرد یہ نہیں کہتا۔ میں اُس عورت کو اپنی بیوی جیسا ہی سمجھتا ہوں۔آپ نے کبھی بھی کسی عورت کے منہ سے یہ نہیں سُنا ہوگا کہ میں اُس مرد کو اپنے شوہر جیسا ہی سمجھتی ہوں۔ اب آپ نے طے کرنا ہے مائرہ آپ کی بہن ہے یا نہیں جیسی کو بیچ میں سے نکال دیں۔”
”ویسے تو میں جلدی ہار نہیں مانتا بہت ضدی ہوں پر آپ کی بات دل کو لگی ہے۔ میں اقرار کرتا ہوں مائرہ میری بہن ہے۔” دونوں مسکرا دیے۔ وہ نوجوان اِس ساری گفتگو کے دوران پہلی بار مسکرایا تھا۔
”آپ تو فوراً رشتہ بنا لیتی ہیں۔ آپ بہت دیر سے مجھے بھائی کہہ رہی ہیں۔”
”بھائی! مجھے کہاں آتے ہیں۔ رشتے بنانا۔” خاتون نے اپنی گود میں پڑے ناول پر ایسے ہاتھ پھیرا جیسے وہ کوئی مقدس چیز ہو۔ کچھ دیر بعد عورت نے اپنے پہلو میں پڑے ہینڈ بیگ میں اُسے رکھ دیا۔
نوجوان نے اِس سارے عمل کو غور سے دیکھا تو دل کی بات زبان پر لے آیا۔
”لگتا ہے آپ کو اِس ناول سے خاص لگائو ہے۔”
”ہوں۔” خاتون نے بغیر تامل کے کہا۔
”کوئی خاص وجہ؟”
”یہ میری ہی کہانی ہے۔” خاتون نے نظریں جھکائے ہی کہہ دیا۔
”ناول پڑھنے کے بعد مائرہ کی بھی آپ جیسی ہی رائے تھی۔ کہنے لگی ”بھائی یہ ناول پڑھ کر مجھے ایسا لگا جیسے یہ میری ہی کہانی ہو۔” مناہل حیدر اُس کی پسندیدہ رائٹر ہے۔ مائرہ کے پاس اِس رائٹر کے تمام ناول موجود ہیں۔” نوجوان بڑے ذوق شوق سے مائرہ کی باتیں اُسے سُنا رہا تھا۔ حالاں کہ وہ چرب زبان بالکل بھی نہیں تھا۔
”مناہل حیدر آپ کی بہن مائرہ کی تو پسندیدہ رائٹر ہے اور آپ کی؟” خاتون نے اشتیاق سے پوچھا۔
”بزنس مین ہوں شعروشاعری اور ادب سے بالکل لگائو نہیں ہے۔ کتابیں پڑھتا ضرور ہوں، مگر فضول قسم کی نہیں۔”
”اُردو ادب اور شعر و شاعری کو آپ فضول سمجھتے ہیں؟
”اُردو ادب اور شعر و شاعری کو آپ فضول سمجھتے ہیں؟”
”یس ہمارا سارا ادب صرف دو لفظوں کے گرد گھومتا ہے۔”محبت اور عشق” جہاں تک شاعری کی بات ہے وہ ہجر اور درد کے سہارے چل رہی ہے۔ دوسرے رائٹرز کی ابھی بات نہیں کرتے آپ مناہل حیدر ہی کو لے لیں بارہ کے بارہ ناول محبت پر ہی لکھ ڈالے۔”
خاتون غور سے نوجوان کی باتیں سُن رہی تھی۔
”آپ مناہل حیدر کے خلاف ہیں یا محبت کے؟” اُس نے شائستگی سے پوچھا۔
”دونوں کے۔ محبت ایک ایسا لفظ ہے جس کا سہارا لے کر دنیا میں سب سے زیادہ دھوکا دیا جاتا ہے۔” نوجوان نے تلخی سے جواب دیا۔
وہ نوجوان کے جذباتی پن سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
”محبت کی مخالفت تو سمجھ آگئی۔ آپ کے بہ قول محبت دھوکے کا سبب بنتی ہے۔ مناہل حیدر کے کیوں خلاف ہو؟” اُس نے بڑے مزے سے پوچھا۔
”وہ خیالی کردار تخلیق کرکے محبت کی وکالت کرتی ہے۔” نوجوان نے کسی ضدی بچے کی طرح جواب دیا۔
”مناہل حیدر نے صرف وہ کردار تخلیق کیے ہیں جو ہمارے اِرد گرد معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ کرداروں کو سوچتی ہی نہیں ہے بلکہ دیکھتی بھی ہے، جو اُسے دکھائی دیتا ہے وہ ویسے ہی لکھتی ہے۔” خاتون نے یقینِ کامل سے کہا۔
”آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے آپ مناہل حیدر کو جانتی ہیں، داستانِ محبت وہی ناول ہے نا جس میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی خاطر جان دے دیتے ہیں۔”
”جی ہاں!”
”امپوسیبل… اُردو میں کیا کہتے ہیں۔ ہاں یاد آیا عقلِ سلیم اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بات میری سمجھ سے تو باہر ہے۔” نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا۔
”جو سمجھ میں آجائے وہ بات کہلاتی ہے جو نہ آئے اُسے محبت کہتے ہیں۔” خاتون نے کسی دانشور کی طرح جواب دیا۔ وہ کچھ توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوئی:
”ماں کی ممتا کو آپ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟” نوجوان نے عجیب نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اورکچھ دیر تکتا رہا پھر ائیر ہوسٹس کو بلانے کے لیے بیل دبائی۔ وہ آئی نوجوان نے پانی مانگا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پانی لائی تو نوجوان نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس ختم کردیا۔
”آپ نے جواب نہیں دیا۔” خاتون نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔ وہ گردن جھکائے ہوئے تھا، مگر اُس کی نظریں مڑگشت کر رہی تھیں۔
”ماں کی ممتا کو چھوڑیں۔ آپ یہ بتائیں مناہل حیدر کو کیسے جانتی ہیں؟” نوجوان نے شعوری طور پر بات گول کر دی تھی۔ خاتون نے جانچتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ میں پڑ گئی پھر چند لمحوں بعد کہنے گی:
”رائٹر کی تحریریں اُس کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ میں مناہل حیدر کو اُس کی تحریروں کے توسط سے جانتی ہوں۔”
”معاف کیجیے گا۔ آپ کی مناہل حیدر خود بھی ایک کریکٹر ہی ہیں۔” نوجوان نے پھر سے اپنی رائے دی۔
”وہ کیسے؟” خاتون نے عجلت سے پوچھا۔
”دیکھیں نا سوشل میڈیا کے دور میںاتنی بیک ورڈہے۔ ٹی وی پر نہیں آتی، کوئی تصویر نہیں ہے اُس کی۔ مائرہ بے چاری گوگل پر سرچ کرتی رہتی ہے۔”
”وہ اُس کی نجی زندگی ہے جیسے چاہے گزارے۔” خاتون نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
نوجوان طنز سے مسکرا دیا۔
”محبت پر لکھنے والی محبت کو نہیں سمجھتی اُسے چاہیے لوگوں سے ملے۔ وہ اُسے ٹی وی پر دیکھنا چاہتے ہیں، اُس کی باتیں سننا چاہتے ہیں، اُس کے ساتھ تصویریں بنوانا چاہتے ہیں۔لوگ محبت کرتے ہیں اُس سے۔”
”محبت میں دیکھنے کی شرط نہیں ہوتی۔ وہ اپنے چاہنے والوں سے جو کہنا چاہتی ہے اپنے ناولوں میں لکھ دیتی ہے۔ یہ محبت کی ایک الگ صورت اور مختلف تصویر ہے۔”
”محبت… محبت… مجھے نفرت ہے محبت سے۔” نوجوان دانت پیستے ہوئے بولا۔ اُس نے اپنے دل کا غبار نکال لیا تھا۔ خاتون نے شگفتگی سے نوجوان کے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگی:
”دیکھو بھائی! محبت سے اتنی نفرت مت کرو۔ اگر یہ ظالم ہوگئی تو؟”
”تو؟”
”تو یہ جو اِس کے جتنا خلاف ہوتا ہے، اُس سے اُتنے ہی طواف کرواتی ہے اپنے حضور۔”
اُس نے نصیحت اپنا نقطہ نظر پیش کیا ۔ نوجوان نے اُس کی بات سُن کر اپنی آنکھیں موند لیں، کچھ پل دونوں اطراف خاموشی رہی۔
”ہم بغیر تعارف کے گھنٹا بھر سے باتیں کیے جا رہے ہیں۔ میں مزمل بیگ ایکسپوٹر ہوں۔ لیدر گڈز اور ٹریک سوٹ فرانس، جرمنی اور یوکے ایکسپورٹ کرتا ہوں۔ لاہور میں دو فیکٹریاں ہیں۔”
”میں مناہل حیدر!رائٹر ہوں۔ بارہ ناولز لکھ چکی ہوں جن میں سے آٹھ ڈراماٹائز ہوچکے ہیں خاتون نے نوجوان کے انداز ہی میں خود کا تعارف کروایا۔ مزمل بیگ دم بہ خود حیرت میں مبتلا تھا۔ وہ گھنٹا بھر سے جس کی مخالفت کر رہا تھا وہ اُس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔
”میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مطلب…” مزمل بیگ نے رُک رُک کر کہا۔
”دیکھو بھائی! آپ کی کوئی بات مجھے بُری نہیں لگی۔ اب میری سنو! آپ نے کہا تھا:
”کسی کے مزاج کا تعلق سکون یا بے سکونی سے نہیں ہوتا میں بڑا مطمئن اور پرسکون ہوں۔” اگر طبیعت میں محبت ہو تو سکون چہرے ہی سے نظر آجاتا ہے، اُسے بتانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ مناہل حیدر کریکٹر ہے۔ میرا ماننا ہے ہر رائٹر پہلے خود ایک کریکٹر ہوتا ہے تبھی تو وہ معاشرے میں بکھرے کرداروں کو جلد پہچان لیتا ہے کیوں کہ وہ اُس کے قبیلے ہی سے ہوتے ہیں۔ میں نے آپ کو بھی پہچان لیا ہے۔ آپ بھی کریکٹر ہیں۔ آپ کی کہانی یقینا بہت الگ اور مختلف ہوگی پر ابھی ادھوری ہے۔ آپ محبت اور نفرت کی وادیوں کے درمیان خود کو کھوج رہے ہیں۔ جب آپ محبت کی منزل پا لوگے، تو مجھے فون کرنا۔ تب میں آپ پر بھی ناول لکھوں گی۔میرے ناول داستانِ محبت کے کرداروں پر بھی آپ کو اعتراض تھا۔ آپ کے خیال میں وہ کردار خیالی ہیں، حقیقت میں ایسا تھوڑی ہوتا ہے۔ رفعت اور رمیض کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھا تھا۔صرف اُن کے نام تبدیل کیے تھے باقی سب کچھ حقیقت ہی تھا۔” مناہل حیدر نے بڑے سلیقے سے بات کی۔ مزمل بیگ نے اُس کی بات پوری توجہ سے سنی۔
مناہل حیدر نے اپنے ہینڈ بیگ سے وائلٹ نکالا اُس میں سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر مزمل بیگ کو تھما دیا جو اُس نے چپ چاپ رکھ لیا۔ مناہل حیدر سلیقے سے پھر بولی:
”میں آپ کو ڈائجسٹوں میں چھپنے والے درجنوں ناولز کے نام بتا سکتی ہوں جنہیں پڑھ کر ہزاروں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئی ہے جس تحریر کو پڑھ کر بھٹکے ہوئے رستے پر آجائیں اُسے وقت کا ضیاع کہنا نا انصافی ہوگی۔
آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ مناہل حیدر محبت کی وکالت کرتی رہتی ہے۔ مزمل بھائی! میں کون ہوتی ہوں محبت کی وکالت کرنے والی۔ محبت تو خود ہی وکیل ہے اور جس کی وکیل خود محبت ہو، وہ خود ی میں خود کفیل ہو جاتا ہے۔”
مناہل حیدر نے فصاحت سے ساری بات کی۔ مزمل کے رُخِ روشن پر بہت ساری اُلجھنوں کا بسیرا تھا۔ وہ اُس وقت ذہنی طور پر محبت اور نفرت کی درمیانی خلیج پر کھڑا تھا۔ مناہل حیدر نے اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھے تو مسکرائی اور دھیمی آواز میں کہنے لگی:
”مزمل بھائی!آخری بات ماں کا ذکر ہوتے ہی آپ کے چہرے کے خدوخال تبدیل ہوگئے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ میں یہ تو نہیں پوچھوں گی آپ کا نجی معاملہ ہے۔چند دن پہلے ایک نئے رائٹر کا ناول پڑھنے کا موقع ملا اُس نے ایک لائن بڑی اچھی لکھی تھی”ماں جیسی بھی ہو جنت میں موسیٰ کا پڑوسی بنا دیتی ہے۔” حسنِ اتفاق دیکھو ہم دونوں کا نام ”م” سے شروع ہو تا ہے م سے مناہل اور م سے ہی مزمل، ماں اور محبت بھی م سے ہی ہے۔ مجھے سے ایک دفعہ ایک فین نے e-mailکے ذریعے پوچھا، مناہل آپی محبت کا مطلب تو بتائیں؟
میں چند دن سوچتی رہی پھر مجھے جواب مل گیا۔
محبت کا مطلب ہے ماں اور ماں کا مطلب ہے محبت
”ان شاء اللہ تھوڑی دیر میں ہم لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اُترنے والے ہیں۔ حفاظتی بیلٹ باندھ لیجیے اور کرسی کی پشت سیدھی کر لیں۔”
ائیر ہوسٹس نے مناہل حیدر کی حکمت سے بھری باتوں کا سلسلہ توڑا۔
جہاز کی لینڈنگ کے بعد مزمل نے مناہل حیدر کا ہینڈ کیری کیبن سے نکال کر اُس کے حوالے کیا۔ مناہل حیدر نے مشکور نگاہوں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
”مزمل بھائی! کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت خوا ہوں۔”
٭…٭…٭
”مزمل بیٹا! کیا بات ہے؟ جب سے آئے ہو کچھ اُلجھے اُلجھے سے ہو۔” ممتاز بیگم نے حلیمی سے پوچھا۔
”دادو! ساڑھے سات گھنٹے کی فلائٹ تھی، بس تھکاوٹ ہے اور کچھ نہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔” مزمل نے بات ٹالتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے۔ تم جا کر آرام کرو۔کل برات کے ساتھ بھی تم نے جانا ہے۔” ممتاز بیگم نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر کہہ دیا۔ مزمل نے سُنا تو اُس نے شکایتی نظروں سے دادی کو دیکھا۔ دادی کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی۔