ادبی احباب کی طرف سے بھیجی جانے والی کتابوں میں سے بیشتر کتابوں پر مضامین یا مختصر تبصروں کی صورت میں اظہار خیال کر چکا ہوں۔لیکن ابھی بھی بہت ساری کتابیں ہیں جن پر لکھنا باقی ہے۔اب ایسے وقت میں جب اپنی کتاب ”مضامین اور تبصرے“کو مکمل کر رہا ہوں اور اسے اپنی چھ کتابوں کے مجموعہ”ہمارا ادبی منظر نامہ“کا حصہ بھی بنانے جا رہا ہوں تو مجھے احساس ہوا کہ موصولہ کتب میں سے چند بہت اہم کتابوں کاتھوڑا سہی، ذکر کیا جاناواجب ہے۔سو یہاں ایسی کتب کا ہلکا سا ذکر کر رہا ہوں۔
مظفر حنفی کی شعری کلیات کی دو جلدیں ”کمان“(ص ۴۹۶) اور ”تیزاب میں تیرتے پھول“(ص۴۶۶)کے نام سے دہلی سے شائع ہوئی ہیں۔”کمان “میں ان کے ابتدائی پانچ شعری مجموعے”تیکھی غزلیں“،”عکس ریز“،”صریرِ خامہ“،”پانی کی زبان“،”طلسمِ حرف“شامل ہیں۔ان کے ساتھ ادبِ اطفال سے متعلق نگارشات”کھیل کھیل میں“کے زیر عنوان شامل ہیں۔ جبکہ ”غیر مطبوعہ متفرقات“کے عنوان سے وہ شاعری جمع کر لی گئی ہے جو مذکورہ بالا مجموعوں میں تو شامل نہیں تھی لیکن ادبی رسائل اور بیاضوں سے انہیں تلاش کرکے محفوظ کر لیا گیا ہے۔یوں ”کمان“میں ۱۹۶۰ءسے ۱۹۷۱ءتک کا کلام شامل ہے۔شعری کلیات کی جلد دوم”تیزاب میں تیرتے پھول“میں ۱۹۷۱ء کے بعد کے سات شعری مجموعے”دیپک راگ“،”یم بہ یم“،”کھل جا سم سم“،”پردہ سخن کا“،”یا اخی “ ، ”ہاتھ اوپر کیے“، ”آگ مصروف ہے“شامل ہیں۔جبکہ۲۰۰۴ءکے بعد سے لے کر ۲۱۰۲ءتک کی غزلیں”نئی غزلیں“کے زیر عنوان شامل کر لی گئی ہیں۔دونوں کلیات میں ایک صفحہ پر دو غزلیں دی گئی ہیں،یوں۹۶۲ صفحات میں پیش کی گئی شاعری مروج شعری مجموعوں کے حساب سے ۳۸۴۸ صفحات کا کلام سمیٹے ہوئے ہے۔مظفر حنفی کی کلیات کی جلد اول کا دیباچہ شمس الرحمن فاروقی نے اور جلد دوم کا دیباچہ شمیم حنفی نے تحریر کیا ہے اور دونوں نے مظفر حنفی کی شاعری پر عمدہ اظہارِ خیال کیا ہے۔مظفر حنفی کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ان کے شعری سفر کا ارتقاءسامنے آتا ہے۔اور یہ احسا س بھی ہوتا ہے کہ مظفر حنفی تخلیقی اعتبار سے،ڈکشن کے لحاظ سے،تجربات کی جہات سے ایک بہتر اور شاندار شاعر ہیں۔کلام میں سے صرف تبرکاََ چند شعریہاںپیش ہیں۔
”ہم ہوئے ،تم ہوئے کہ میر ہوئے “ اس کی نظروں میںسب حقیر ہوئے
تھوڑا سا التفات میاں یار بادشاہ دینے لگے ہیں زخم دھواں دار بادشاہ
لازم ہے دل میں تیر کے مانند آئیے اب جسم ہو گیا ہے کماں یار بادشاہ
ہزاروں جنّتیں آباد،لاکھوں دوزخیں پیدا تمھاری خود نُمائی سے،ہماری خود پسندی سے
تیغ میری نوادرات میں ہے اور کشکول میرے ہات میں ہے
گرتی رہتی ہے دل پہ شبنم سی جانے کیا بات اس کی بات میں ہے
رشید امجد جدید اردوافسانے کا بے حد اہم نام ہیں۔ان کے ۱۳۴افسانوں کا انتخاب”عام آدمی کے خواب“کے نام سے اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔۰۵۷صفھات پر محیط یہ انتخاب رشید امجد کی افسانہ نگاری کے پورے سفر کی روداد بن گیا ہے۔”بے زار آدم کے بیٹے“،”سہ پہر کی خزاں“،”ریت پر گرفت“،”پت جھڑ میں خود کلامی“،”دشتِ خواب تک“،اور بھاگے ہے بیاباں مجھ سے“جیسے افسانوی مجموعوں کے بیشتر افسانے اس کتاب میں شامل ہیں۔سادہ بیانیہ سے جدید افسانے تک رشیدامجد کا سفر ہویا ترقی پسندی سے صوفیانہ تجربوں تک کی روداد ہو،رشید امجد کے سارے سفر کا مجموعی تاثر ان افسانوں سے بخوبی عیاں ہے۔میرے لیے تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ میں جدید افسانے میں جوگندر پال اور رشید امجد سے بے حد متاثر ہوں۔تاہم اس کتاب کے شروع میں رشید امجد نے ایسی بات لکھ دی ہے جو سراسر میری اپنی زندگی کی کہانی لگتی ہے۔رشید امجد لکھتے ہیں کہ:
”یہ کہانیاں ایک عام آدمی کے وہ خواب ہیں جو اُس نے زندگی بھر دیکھے لیکن تمام تر جدوجہداور خواہشوں کے باوجود تعبیر نہ پا سکے،کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھا۔۔۔۔سو اُس نے اپنے خواب اپنے بیٹے کو جو اُسی کی طرح عام آدمی تھا،منتقل کر دئیے،اس امید کے ساتھ کہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری،تیسری اور کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے،یہ ایک امید ہے کہ شاید کسی دن ان خوابوں کو تعبیر مل جائے۔یہ کہانیاں اسی خواہش کی مختلف تصویریں ہیں۔“
رشید امجد کی افسانہ نگاری پر ناصر عباس نیر کی یہ رائے بڑی فیصلہ کن ہے:
”ان کا افسانہ اس سے آگے جا کر اس انسانی سیلف کا اثبات کرتا ہے جو تاریخ ،روایت اور عصری تناظر،تینوں کو عبور کرجاتا ہے۔اپنے سوال کا جواب خود مختارانہ انداز میں خود وضع کرتا ہے اور آگے نتائج تاریخ کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ خصوصیت رشید امجد کو اُن جدید افسانہ نگاروں سے ممتاز ثابت کرتی ہے جو محض عصر یا تاریخ و روایت اور ان کی موزونیت و ہم آہنگی کی دریافت تک محدود رہتے ہیں۔“
قیصر شمیم مغربی بنگال میں اردوکے ممتاز شعراءمیں شمار ہوتے ہیں۔غزل،نظم اور گیت نگاری پر انہیں یکساں قدرت حاصل ہے۔”ان کی غزلوں کا مجموعہ”سانس کی دھار“کے نام سے شائع ہوا تھا اور نظموں اور گیتوں کے مجموعے کا نام ہے”پہاڑ کاٹتے ہوئے“۔اس مجموعے کی ایک خوبصورت نظم”نیا سال“یہاں پیش کر تاہوں۔
”اے وقت کی رقاصہپھر سال گرہ تیریکس شان سے آئی ہیاس سال گرہ پر ہمکرتے ہیں دعا دل سیاس سال ترا جوبنکچھ اور نکھر جائیاس سال ترا گیسوکچھ اور سنور جائیپھر تیری اداؤں سیاس سال کے آخر تکجو کچھ بھی گزرنا ہیوہ ہم پہ گزر جائے! “
ڈاکٹر صادق جدید اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک عرصہ سے سرگرمِ عمل ہیں۔ان کا شعری مجموعہ”نظمیں،غزلیں گرد آلود“کے نام سے دہلی سے شائع ہوا ہے۔اس مجموعہ میں شامل”بے خوابی کی آٹھ نظمیں“کی نظم نمبر ۶اور غزل کا ایک شعریہاں پیش کر رہا ہوں۔اس سے ان کی شاعری کے انداز کا اندازہ کیا جا سکے گا۔
”مِرے آدھے بدن کیپسلیوں میںجو سُرنگیں بن رہی ہیںاُن کے سارے راستیانکھوں میں آکر مل گئے ہیں!۔۔۔اور میںراتوں میں سورج ڈھونڈتا ہوں!“
عمرکے ڈوبتے جزیرے میں چھوڑ کر چل دیا شباب کہاں
ظہیر انورنقاد،سفرنامہ نگار،ترجمہ نگار،ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں بخوبی جانے جاتے ہیں۔تھیٹر کے حوالے سے ان کے لکھے ہوئے ڈرامے ہوں یا فن ڈرامہ کی تنقید،انہیں اس حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔”منظر پس منظر“تھیٹرکی تنقید پر مبنی ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے کولکاتا سے شائع کیا گیا ہے۔اس سے پہلے”ڈراما،فن اور تکنیک“کے نام سے ان کی ایک تنقیدی کتاب ۱۹۹۶ءمیں شائع ہو چکی ہے۔”منظر پس منظر“تھیٹر اور ڈراما کے موضوع پر اور اس کے جملہ پہلوؤں پران کی مضبوط گرفت کی غمازی کرتا ہے۔اس مجموعہ میں ان کے اردو میں بارہ مضامین کے ساتھ ایک انگریزی مضمون بھی شامل ہے۔
برمنگھم،انگلینڈ سے جاوید اخترچودھری کے مضامین کے مجموعہ”شیرازہ“نے مجھے حیران کر دیا۔یہ ان کے تنقیدی افکاروخیالات کاپہلا مجموعہ ہے۔اگر مجھے شروع سے ان کے اس اندازِ تحریر کا علم ہوتا تو انہیں مشورہ دیتا کہ وہ تنقید نگاری کو اپنی دوسری ادبی اصناف پر ترجیح دیں۔”شیرازہ“ میں ملے جلے مضامین شامل ہیں۔ان میں کچھ رسمی نوعیت کے ہیں،کچھ تقریباتی ضرورت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ایسے مضامین میں بھی ان کی تنقیدی سوجھ بوجھ کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا ہے لیکن جن مضامین کو انہوں نے وسیع ادبی تناظر میں لکھا ہے،وہاں ان کے اندر کا شاندار نقاد اپنی علمی شان و شوکت کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔علمی مباحثہ کرتے ہوئے جاوید اختر چودھری دلائل سے پوری طرح لیس ہوتے ہیں اوران دلائل پر عمدہ جملوں کی تیز نوک بھی چڑھاتے ہیں۔ان کی اس نوعیت کی تنقید میں ڈاکٹر خالد سہیل،بخش لائل پوری ،افتخار نسیم اور قیصر حمید کے حوالے سے لکھی گئی تحریریں ان کی واضح شناخت بنتی ہیں۔
ڈاکٹر علی احمد فاطمی معروف ترقی پسند نقاد ہیں۔ان کی دو کتابیں”فیض۔ایک نیا مطالعہ“اور”مجاز شخص و شاعر“شائع ہوئی ہیں۔فیض صاحب پر علی احمد فاطمی کے مضامین میں کوئی قابلِ ذکر نئی بات نہیں ہے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ کتاب فیض صاحب جیسے عوام اور عام فہم شاعر کو مزید آسان بنا دیتی ہے۔اسے فیض صدی کے تناظر میں دیکھا جائے توبے شمار رسمی نوعیت کی کتابوں کی بھرمار میں فیض فہمی کی ایک اچھی کتاب کہا جا سکتا ہے۔”مجاز شخص و شاعر“ میں علی احمد فاطمی کی تحریر زیادہ جاندار لگتی ہے۔شاید اس لیے بھی کہ اس کتاب کے مضامین انہوں نے رسمی طور پر نہیں بلکہ جی جان سے لکھے ہیں۔خراج کا پہلو نمایاں ہونے کے باوجود علی احمد فاطمی نے ترقی پسند انداز نظر کے مطابق مجاز کے بارے میںعمدہ مضامین پیش کیے ہیں۔دونوں کتابیں الہٰ آباد سے شائع ہوئی ہیں۔
ایم نصراللہ نصر کولکاتا کے قریب ہوڑہ میں آباد ہیں،وہاں انہوں نے ”ہوڑہ رائٹرز ایسوسی ایشن“قائم کر رکھی ہے،جس کی ادبی سرگرمیوں کا میں خود بھی گواہ ہوں۔ان کا شعری مجموعہ”امکان سے آگے“ان کے شعری امکانات کو اجاگر کرتا ہے۔قیصر شمیم کی ادبی تربیت کے نتیجہ میں ان کی شاعری میں ایک نکھار آیا ہے۔چند اشعار پیش ہیں۔
اس کو شک کی بڑی بیماری ہے اور شک کا علاج ہے ہی نہیں
کر گئی نم آنکھ کو گیلی ہوا یاد تھی اس کی کہ برفیلی ہوا
نصر!اکثر سوچتا رہتا ہوں میں کہہ گئی کیا مجھ سے شرمیلی ہوا
خود نمائی تمہیں مبارک ہو نصر جس حال میں ہے بہتر ہے
میں تہہ دل سے دعا کرتا ہوں کہ ایم نصر اللہ نصر کے مزید شعری امکانات بھی کھل کر سامنے آ سکیں!
یعقوب نظامی بریڈفورڈ انگلینڈکی ایک فعال ادبی اور صحافتی شخصیت ہیں۔ان کی”پاکستان سے انگلستان تک“، ”پیغمبروں کی سر زمین“،”انگلستان میرا انگلستان“جیسی عمدہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔اب ان کا نیا سفر نامہ ”یورپ یورپ ہے“شائع ہوا ہے۔یہ اٹلی،فرانس،بلجیم،جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے سفر کی یادوں پر مشتمل ہے۔ان کا انداز تحریر ہمیشہ کی طرح رواں دواں اور دلچسپ ہے۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل برمنگھم کی نہایت متحرک علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ان کی علمی و ادبی کار کردگی کی کئی جہات ہیں۔”خوشبو،گلاب،کانٹے“ان کی شعری کلیات ہے۔۲۷۶صفحات پر مشتمل یہ کتاب ان پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔۱۔گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو،۲۔سب آنکھیں میری آنکھیں ہیں،۳۔میں عورت ہوں،۴۔پیپل کی چھاؤں میں،۵۔ہوا کے سنگ سنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے غزلیں،نظمیں،نثری نظمیں،ماہیے اور دوہے تمام اصناف کو آزمایا ہے اور ہر صنف میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں۔”خوشبو،گلاب،کانٹے“میں اپنا سارا شعری اثاثہ یک جا کرکے رضیہ اسماعیل نے اپنے قارئین کے لیے سہولت مہیا کر دی ہے۔شاعری سے انتخاب:
گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو مجھے کانٹوں پہ چلنا آگیا ہے
زندگی ریت ہوتی جاتی ہے کوئی صحرا بنا گیا مجھ کو
نثری نظم”اُترن“: عورتیںاترن پہننے سے گھبراتی ہیںمگر۔۔دوسری عورتوں کے شوہر چرا کراوڑھ لیتی ہیں!
دوہا: میں سلفے کی لاٹ ہوں سجناں،تو گھبرو پنجابی سیدھے راہ پہ آجا ورنہ ہوگی بڑی خرابی
ولایتی ماہیے: کلچر کا رونا ہے آکے ولایت میں اب کچھ تو کھونا ہے
کروے ہیں سکھ ماہیا کس کو سنائیں اب انگلینڈ کے دکھ ماہیا
نظم”یاد کے جگنو“: تمہاری یاد کے جگنو چمکتے ہیںمِرے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں یوںمحبت کے شبستانوں میں جیسے اَدھ کھلی کلیاںمعطر سے گلوں کے بازوؤں میں باہیں ڈالیناز سے اٹھلاتی پھرتی ہوں!
برمنگھم میں ایک اور شاعر ہیں پرویز مظفر۔آپ معروف و ممتازشاعر وادیب مظفر حنفی کے صاحب زادے ہیں۔ نظم و غزل دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔”تھوڑی سی روشنی“ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ان کی نظموں میں سادگی نثر کی حد تک چلی جاتی ہے،جبکہ غزل میں ان کے جوہر زیادہ کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک نظم اور چند اشعار سے میری بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
”ہم تمھارے لییپیچھے پلٹیتمھیں سہارا دینے کے لییاپنے ساتھ لینے کے لییمگر تم نے توہمیں مجسمہ بنا دیابرسوں سے وہیں کھڑے ہیں ہم“ (نظم: ص۴۰۲)
کرنی ہے دل بات غزل کی زبان میں تم نے ہمیں بھی ڈال دیا امتحان میں
غلط بات پر وہ ستم گر اَڑا ہے بپھرتی ندی کے کنارے کھڑا ہے
اُٹھا دیتا کوئی ہمیں بزم سے اگر ہم اجازت نہیں چاہتے
اشفاق حسین کینیڈا کے متحرک و فعال شاعروں اور ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔فیض احمد فیض سے ان کی محبت اور عقیدت کو ایک دنیا جانتی ہے۔۴۷۹۱ءمیں اشفاق حسین کے ایم اے اردو کے مقالہ کا موضوع تھا”فیض ایک جائزہ“۔تب سے علمی و ادبی محبت کا جو سلسلہ چلا تھا وہ آج تک قائم ہے۔اس دوران انہوں نے فیض کے حوالے سے مزید کام بھی کیا۔اور فیض صدی تک آتے آتے انہیں موقعہ مل گیا کہ ایک طرف اپنے سارے پرانے لکھے ہوئے کو یک جا کریں،دوسری طرف پرانی یادوںاور باتوں کے ذریعے فیض صاحب پر کچھ نیا بھی لکھا جائے۔چنانچہ انہوں نے اپنی نئی پرانی پانچ کتابوں کو ایک جلد میں جمع کرکے اس کا نام رکھا”شیشوں کا مسیحا فیض“ اور یوںفیض صاحب کی صدی منا لی۔1207 صفحات پر مشتمل یہ علمی و ادبی محبت نامہ ان پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔
فیض شخصیت اور فن،فیض حبیب عنبر دست،فیض کے مغربی حوالے،فیض ایک جائزہ،فیض تنقید کی میزان پر۔
کتاب”فیض کے مغربی حوالے“پہلی بار جنگ والوں نے شائع کی تھی اور یہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔یہاں اس کی تلخیص کرکے اس کو صرف 360 صفحات میں سمیٹا گیا ہے۔اس کے باوجود کتاب مجموعی طور پر1207 صفحات پر محیط ہو گئی ہے۔اس کتاب کے دو اثرات تو مجھے بالکل سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔اشفاق حسین اور فیض صاحب کے تعلق کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے فیض صاحب کے ساتھ اپنے رابطہ کی کوئی ایک آدھ کڑی لے کر اس پراپنے تعلقات کی پوری عمارت کھڑی کر دی۔جس مقامِ ملاقات پر فیض صاحب جس کاز کو تقویت پہنچانے گئے تھے،وہ کیا تھا اور اس حوالے سے ان کی کارکردگی کیا تھی؟اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔بس مصنف موصوف سے فیض صاحب کی تعلق داری ہی کتاب کا حاصل نکلتا ہے۔دوسرے ”شیشوں کا مسیحا فیض“کی ضخامت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے فیض فہمی کے لیے کتاب کی فربہی کو ہی اہم سمجھ لیا،چنانچہ انہوں نے پھر سارا زور اس پر لگا دیا کہ جیسے تیسے ہو کتاب کی ضخامت ہیبت ناک ہونی چاہیے۔اس نوعیت کی آنے والی بعض فربہ کتابوں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں فیض صاحب کے حوالے سے صرف پہلے سے کہی گئی باتوں کو ہی دہرایا گیا ہے۔
اشفاق حسین نے”شیشوں کا مسیحا فیض“میں فیض سے ایک بھرپور ملاقات کرا دی ہے۔تاہم اس ملاقات میں بعض باتیں کھٹکتی بھی ہیں۔”فیض کے مغربی حوالے“کے نام سے احساس ہوتا ہے کہ مغربی دنیا نے فیض صاحب کا بھرپور اعتراف کیا ہوگا۔لیکن یہاں ایک برطانوی(جو متحدہ ہندوستان کے زمانے سے شناسا تھا)اور ایک امریکی لیڈی کے علاوہ باقی سارے لکھنے والے سابق سوویت یونین سے تعلق رکھتے ہیں۔”فیض تنقید کی میزان پر“میں وزیر آغا،شمس الرحمن فاروقی اور اسی طرح بعض دیگر ناقدین کے بنیادی اختلافی نکات کو ابھارے بغیر فیض کا دفاع کیا گیا ہے،لیکن اگر ان نقادوں کے اختلافی نکات کو پورے پس منظر کے ساتھ دیکھا جائے تو ان کا موقف بے حد مضبوط اور جاندار ہے۔پنڈی سازش کیس کے حوالے سے میں تمام ترقی پسند دوستوں سے گزارش کر رہا ہوں کہ وہ مطالبہ کریں کہ سرکاری سطح پر اس کیس کی تمام خفیہ اور غیر خفیہ فائلیں اب قوم کے لیے کھول دی جائیں ۔ہو سکتا ہے اس سے ”پنڈی سازش کیس“میں ملوث ہمارے سارے ترقی پسند احباب مکمل بے قصور ثابت ہو جائیں۔پاکستانی سرکار کی دستاویزات میں جو بھی حقائق ہیں وہ اب سامنے لائے جانا چاہئیں۔
مجموعی طور پر” شیشوں کا مسیحا فیض“اشفاق حسین کی فیض کے لیے محبت کی ادبی روداد ہے۔ایسی محبت جو کسی وقتی ضرورت کا نتیجہ نہیں بلکہ جو چالیس برسوںکے ادبی تعلق پر محیط ہے۔اشفاق حسین سے کتنا ہی اختلاف کرلیا جائے لیکن فیض کے تئیںان کی ادبی محبت کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اشفاق حسین کے تین شعری مجموعوں کا مجموعہ”میں گیا وقت نہیں ہوں“کے نام سے شائع ہوا ہے۔591 صفحات پر محیط اس کتاب میں”اعتبار“،”ہم اجنبی ہیں “اور ”آشیاں گم کردہ“تین شعری مجموعے شامل ہیں۔اب تک کی ساری شاعری کو یک جا کر دینے کا فائدہ یہ ہے کہ ایک تو تینوں کتابیں ایک جلد میں محفوظ ہو گئیں،دوسرے اشفاق حسین کے شعری سفر کا ارتقائی منظر بھی پوری طرح سامنے آگیا۔کسی انتخاب کے بغیر اس کتاب میں سے ایک نظم اورغزلوں سے چار اشعارپیش ہیں۔ نظم ”ڈرتے رہو“:وہ جو اُتری نہیںذہن کے سادہ صفحوں پہاُس نامکمل عبارت سیڈرتے رہواپنی مرضی سے پیدا نہ ہونے کیاتنی سزاکچھ زیادہ نہیںایک نادیدہ طاقت سے ڈرتے رہواپنے ہونے کیکربِ ندامت سے ڈرتے رہو
تعلقات کی یہ برف اور کچھ گھلے ذرا ہماری خامیوں پہ بھی وہ تبصرہ کرے ذرا
اس زندگی میں کچھ تو تب و تاب چاہیے آنکھوں کو روز ایک نیا خواب چاہیے
میں نے جو بات بھروسے پہ کہی تھی اُس سے وہ اسے سُرخیٔ اخبار تلک لے آیا
ہم اجنبی ہیں یہاں پر مگر وطن سے کم دھواں دھواں سا ہے منظر مگر وطن سے کم
نسیم انجم کراچی کی معروف صحافی اور ادیبہ ہیں۔ان کی تحریر کی خوبی ہے کہ کالم لکھتے وقت اس میں ادبی رنگ بھر دیتی ہیں اور ادب لکھتے وقت اپنے ارد گرد موجود خبروں سے ادبی تحریر کی بنیاد اُٹھاتی ہیں۔ یوں ان کے حالاتِ حاضرہ کے کالموں میں ادبیت اور ان کی ادبی تحریروں میں خبریت کو با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ ”گلاب فن اور دوسرے افسانے“ان کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ہے۔ان افسانوں کے موضوعات انہوں نے اپنے معاشرے سے ہی لیے ہیں۔ایسے موضوعات جو انسانی اور سماجی المیوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور اس حوالے سے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں۔نسیم انجم نے تحقیق و تنقید کے شعبہ میں بھی کام کیا ہے۔اس ضمن میں ان کی تازہ تصنیف”خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زن“اہمیت کی حامل کتاب ہے۔
فضا اعظمی کی طویل نظم”خاک میں صورتیں“کو انہوں نے اپنا موضوع بنایا ہے اوراردو شاعری میں تصورِ زن کے تناظر میں فضا اعظمی کی نظم کا تجزیہ تصویر کا ایک اور رُخ سامنے لایا ہے۔فضا اعظمی کی نظم میں مسدس حالی جیسے انداز کے ساتھ عورت کی مظلومیت کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور پرانے زمانے سے آج کے عہد تک کی روداد ایک خاص فکری پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔نسیم انجم نے اسی فکری پس منظر کو مزید نمایاں کرتے ہوئے ادب میں تانیثیت کا ایک نیا زاویہ ابھارنے کی سعی کی ہے۔ابھی تک ادب میں تانیثیت کے حوالے سے مغربی مفکرین کے فرمودات کو بنیادی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔نسیم انجم نے اپنی اس کتاب میں اسلامی فکر کے حوالے سے عورتوں کی مظلومیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ ان کے حقوق کی بات کی ہے۔بیان کردہ بیشتر واقعات بلا شبہ ایک تاریخی حقیقت ہیں اور نسیم انجم نے تانیثی حوالے سے اردو میں لکھنے والی خواتین کے برعکس مغرب کی بجائے اپنی روایات اور اپنی تاریخ کی بنیاد پراپنا کیس تیار کرکے ایک بامقصد شاعر کی نظم اور دوسرے کلام سے اپنی با مقصد کتاب مکمل کی ہے ۔بے شک وہ اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔
کینیڈا میں مقیم مصور،موسیقار،شاعرہ اور ادیبہ پروین شیرادب اور فن سے پر خلوص وابستگی رکھتی ہیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ”کرچیاں“کچھ عرصہ قبل شائع ہوا تھا اور اپنے پیش کش کے انداز کے باعث لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بنا تھا۔اس کے بعد ان کی مزید دو کتابیں”نہال دل پر سحاب جیسے“اور ”چند سیپیاں سمندروں سے“ شائع ہوئی ہیں۔”نہال دل پر سحاب جیسے“ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔”کرچیاں“کی شاعری کی طرح اس مجموعے میں اردو شاعری کے ساتھ ان کا انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا ہے اورساتھ ہی پروین شیر کی مصوری کے عمدہ نمونے بھی دئیے گئے ہیں۔کتاب حسبِ سابق”کافی ٹیبل سائز“کی ہے۔پیش کش کا انداز نہایت خوبصورت ہے۔اس مجموعے کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اس میں شامل تمام پچاس نظمیں ماں کے حوالے سے کہی گئی ہیں۔
”چند سیپیاں سمندروں سے“پروین شیر کا سفرنامہ ہے۔ساؤتھ افریقہ اور ساؤتھ امریکہ کا سفر نامہ۔اس میں سفر کی رودادکوبھی اردو کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کر دیا گیا ہے۔مختلف ابواب کی مناسبت سے پروین شیر نے اپنی پینٹنگز بھی سجائی ہیں اور دورانِ سفر کھینچی گئی تصویریں بھی کتاب میں شامل کی ہیں۔اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ کافی ٹیبل سائزکے مقابلہ میں ہاف سائز کر دی گئی ہے۔ کتابوں کی منفرداور پُر کشش پیش کش کے باعث پروین شیرقارئین کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہیں۔ دونوں کتابیں پڑھنے کے بعد قارئین اپنی رائے خود قائم کر سکیں گے۔
لاہور میں مقیم ٹیلی ویژن کے معروف و ممتاز پروڈیوسراور اس سے بھی زیادہ شاندار شاعرایوب خاورکا چوتھا شعری مجموعہ”محبت کی کتاب“حال ہی میں شائع ہوا ہے۔پہلے تین شعری مجموعوں میں صورت حال یوں تھی کہ شاعراور ڈرامہ کا ہدایت کار ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔شاعر ہدایت کار سے استفادہ کر لیتااور ہدایت کار شاعر سے تھوڑی بہت رہنمائی لے لیتا۔لیکن ”محبت کی کتاب“میں شاعر اور ہدایت کار دونوں یک جان و یک قالب ہو گئے ہیں۔آغا حشر کاشمیری کے زمانے کے تھیٹر میں مکالمات میں شاعری کا رواج رہا ہے۔پھر ہندوستانی فلم ’ہیر رانجھا‘
میںکیفی اعظمی نے بھی مکالمات کو اشعار کے روپ میں پیش کیا ہے۔لیکن یہ سب روایتی شاعری کے انداز میں پیش کیا گیا۔اب ایوب خاور نے اسی روایت کو تازہ کرتے ہوئے اس میں توسیع کی ہے۔”محبت کی کتاب“ایک منظوم ڈرامہ ہے لیکن اس میں روایتی انداز کی بجائے جدید نظم کے پیرائے کو اختیار کیا گیا ہے۔ایک ویلنٹائن ڈے سے شروع ہونے والی یہ کہانی اگلے ویلنٹائن ڈے پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ایوب خاورکے اندر کے شاعر اور ہدایت کار نے مل کر اس فن پارے کو خوبصورتی کے ساتھ مکمل کیا ہے۔
ابھی متعدد اور اہم کتابیں مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔خاص طور پر یہ کتابیں۔
شعری مجموعے:”ہوا کی یورش“از علیم الدین علیم(کولکاتا)،”یادیں بھی اب خواب ہوئیں“ از فاطمہ حسن (کراچی) ،”اخلاصِ سخن“از حلیم صابر(کولکاتا)،”سفر مقدر ہے“از احمد کمال حشمی(کانکی نارہ) ،”تم کیا گئے“از اسحاق ظفر(واہ)۔افسانوں کے مجموعے:”چوتھا فنکار “از شبیر احمد(کولکاتا)،”ٹھوکا“از جاوید اختر چودھری (برمنگھم)”مِرارختِ سفر“از ترنم ریاض(دہلی) ، ”یمبرزل“از ترنم ریاض(دہلی)، متفرق:”کتابِ دوستاں“ مضامین از فاطمہ حسن(کراچی) ، ”برسبیلِ غالب“از ڈاکٹر سید معین الرحمن(لاہور)،”برف آشنا پرندے“،ناول از ترنم ریاض (دہلی)،”ترجمہ آئینۂ فردا میں“از ایم علی(کولکاتا)، ”کشفِ ذات کی آرزو کا شاعر“ تنقید از طارق حبیب (سرگودھا)،”تھوڑی سی فضا اور سہی“مضامین از اشفاق حسین (انٹاریو)، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ان سب پر لکھنا ،لکھنے کی توفق ملنے کی صورت میںکسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں کہ میری اس کتاب کا کام اب مکمل ہو چکا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=1359