میں میڈیکل سٹور کی تلاش میں ہوں، دماغ کی رگیں ٹس ٹس کر رہی ہیں، جانے کیا کیا ہو رہا ھے، حیرانی و پریشانی چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتی، کیسے کیسے حادثے ہو رھے ہیں-
محبت میں ناکامی پر ایک منچلے کو موت کے منہ اترتے دیکھا، اسکی بیچاری ماں کو جوان سالہ بیٹے کی لاش پر روتے، تڑپتے ، سسکتے دیکھا، کہرام مچا دیکھا، رقت آمیز مناظر دیکھے، ہواؤں کو چیختے دیکھا، فضاؤں کو سر پٹختے دیکھا، برف کے گالے جلتے دیکھے، پانی کو ڈوبتے دیکھا، کیا سے کیا دیکھا اور دیکھتا رہ گیا ۔ ۔ ۔ کیا اتنا سب کم تھا کیا؟ کیا کچھ اور دیکھنے کیلئے آنکھوں میں سکت ھے، ابھی کہاں، وہ روتا بچہ بھی تو تھا، وہ جسکی ہر خواہش پر غربت کا سیاہ پہرہ تھا، وہ جسکی حسرتوں ، تمناؤں کو غربت قتل کرنے پر تلی ہوئی ھے، فیس وقت پر نہ دینے پر اساتذہ کے طعنے سننے والا بچہ، غربت کو لعنت اور غریب کو معاشرے کا لعنتی سمجھنے والا بچہ۔ ۔ ۔
آہ ۔ ۔ ۔ جانے کب تک غریب مجبوریوں کے پنجرے میں قید رھے گا، مجھے امیر زادوں سے نفرت ہو رہی ھے، شاید میں جل رہا ہوں، میرے کانوں میں معصوم سسکیاں گونج رہی ہیں، زخم تازہ ہوگئے ہیں-
اچانک مجھے فضول خیالی آئی یعنی میری محبت ، لیکن پھر وہ جوان کی لاش ، وہ ماں کی آہ و زاریاں، وہ روتا معصوم بچہ مجھے سب کچھ بھلا رھے ہیں، دماغ میں ایک ٹسکار ھے، ٹس ٹس ہورہی ھے، لگتا ھے رگیں پھٹ جائینگی۔ ۔ ۔
اچانک نظریں بس سٹاپ کے پیچھے اک آدمی پر لگتی ہیں جو کچھ کاغذ جلا رہا ھے، میں میڈیکل سٹور جانے کا ارادہ ملتوی کرکے اس ماجرے کو جاننے جارہا ہوں، جانے کون، کیا اور کیوں کچھ جلا رہا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
میں پاس پہنچتا ہوں تو وہ جلائے ہوئے کاغذوں کی راکھ میں انگلیاں مارے آنکھوں سے آنسوں بہائے رخساروں کو چمکائے میرے پوچھنے سے پہلے ہی لگ گیا،
"کیا فائدہ ایسی پڑھائی کا ، بچپن سے اپنی در غریبی میں پڑھا، والدین نے بے تحاشہ جتن کرکے مجھے پڑھایا، اخراجات برداشت کیئے، حسب توفیق میری ہر ضرورت و خواہش پوری کی۔ ۔ ۔
خواہش تھی کہ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر اچھا آدمی بنے، اچھی ملازمت ملے تانکہ گھر والوں کی بخوبی کفالت کرسکے، مگر کیا معلوم تھا کہ ڈھیروں ڈگریاں لے کر بھی نوکری کیلئے در در رلنا ہوگا، ایسی ڈگریوں کو ہی راکھ کیا جائے جو بندے کو بڑے مقام پر پہنچنے کی خواہش دلا کر اندر سے ٹٹولتی رہتی ہیں، یہاں اکتساب علم رائیگاں ھے، علم کی شمع کشتہ ھے، سفارش کام بناتی ھے، چاپلوسی دام بناتی ھے،
غریب جتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا، اسکی باتیں سن کے مجھ پر سکتہ طاری ہورہا ھے، بے حد پریشانی کا عالم ھے، پہلی بار دنیا کی تلخ حقیقتوں کا دیدار کر رہا ہوں، مجھے بھول رہا ھے کہ میں نے کبھی محبت کی تھی،درد سہے، ٹھوکریں کھائی، زمانے کے اتنے سارے غم میری تھوڑی سی پریشانیوں کو بھلانے کیلئے کافی ہیں، میرا دماغ بے بسوں اور بے کسوں کی حالت زار دیکھ کر پھٹ رہا ھے، بے حسوں کی معاشرتی بے حسی پر شدید غصہ آرہا ھے ۔ ۔ ۔
میں آج عہد کرتا ہوں کہ کہ اب سے حسب مدارج سب کی مدد کرونگا، اپنے حصے کی شمع جلاؤنگا، پریشاں حالوں کے دل بہلاؤنگا، زندگی سے روٹھے لوگوں کو مناؤنگا۔ ۔ ۔ ۔
کسی ایک شخص کی خاطر بھلا کیوں اوروں کے معاملات نظرانداز کیئے جائیں، لاچاروں کو بھلایا جائے، بے سہاروں کو ادھورا چھوڑا جائے، نہیں اب ایسا نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ ۔
وقت گزرتا گیا میں سنورتا گیا، میں سنورتا گیا وقت گزرتا گیا ۔ ۔ ۔
میں سوچنے لگا، پرکھنے لگا، غور کرنے لگا، زمانے کے بے تحاشہ کرب و ستم دیدار کرواتے رھے۔۔
ایوان سے میدان تک، انسان سے حیوان تک، دالان سے گلستان تک، حتی کہ زمین سے آسمان تک، ہر طرف غموں کا بسیرا ھے،
مجھے ہر مشکل سوال کی سمجھ آئی مگر سوال "زندگی" کے معاملے میں ہمیشہ لاجواب رہا۔۔ زندگی کیا ھے، بس غم سہنے کا اور سہہ سہہ کر مرنے کا عمل______
کہیں دھماکوں میں بکھرے جسم، کہیں بھوک سے مرتے بچے، کہیں غربت کچھ کرنے سے روکتی ھے، کہیں بے بسی آگے بڑھنے سے روکتی ھے، کہیں ظلم کی چکی میں غریب پستا ھے، کہیں جھگڑے و فساد پیش ہیں، کہیں بے نقط سنائی جاتی ہیں، کہیں فتوے کسے جاتے ہیں، کہیں ڈگریاں جلائی جاتی ہیں تو کہیں دل--
جہاں تکمیل نہیں حسرتیں ہیں، پیار نہیں نفرتیں ہیں، جہاں محض ادھورا پن ھے، ستم پر ستم ھے، سراسیمگی ہر روح کا طواف کرتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وقت کے ساتھ ساتھ میں ان بڑے لوگوں کو پڑھتا گیا جنہوں نے بے شمار تلخیوں کا سامنا کیا، میں مطمئن ہوا __
زمانے کے بہت سے دکھ آنکھوں سے ہوکر گزرے، مجھے اپنا ماضی بھلانے کیلئے اوروں کے دکھوں پر نظر دوڑانا پڑی اور کافی حد تک کامیاب ہوا، بس دل سے مجبور تھا کہ محبت سرزد ہوئی، انسان بھی کتنا کمزور ھے، سینے میں پڑے گوشت کے لوتھڑے کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ھے، بے بس ہو جاتا ھے، لیکن ایک وقت آتا ھے جب نظر لوگوں کے دکھوں پر جالگتی ھے اور شکوہ شکر میں بدل جاتا ھے---
بس پھر یوں ہوا میں نے شاعری کا سہارا لیا، اس شاعری کا جو معشوق و وصال سے ہٹ کر زمانے کی اور تلخیوں پر مشتمل ھے، فیض اور جالب جیسے شعراء کو پڑھنے لگا، بوجھ اتارنے لگا، بالآخر فیض کے اس شعر پر اکتفا ہوا اور زندگی گزرتی گئی،،،
(اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا،
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا)