میری پریشان خیالی کا دور ابھی ختم نہیں ہوا، میں جس قدر پریشانیوں سے بھاگتا ہوں پریشانیاں اس قدر میرے تعاقب میں لگی رہتی ہیں، اب جب کبھی پریشان نہیں ہوتا تو پریشانی بھی پریشان ہو جاتی ھے کہ بندہ خوشیوں کی کن وادیوں میں کھو گیا ھے---
کیوں جدائی ہوئی؟
میں اب اس میں الجھنا نہیں چاہتا، ہاں شاید چھٹکارے کی دعائیں مانگی اس نے، اب خدا صرف میرا ہی تو نہیں نا، شاید وہ مجھ سے زیادہ رب کے قریب ہو، قریب والوں کا حق زیادہ ہوتا ھے اور میں ہر طرف سے بھٹکا ہوا___
دل بوجھل بوجھل ھے، گھٹن گھٹن سی ھے،
لمحہ بہ لمحہ بے چینی کھا رہی ھے، اداسی چھا رہی ھے ۔ ۔ ۔ ۔
گردش لیل و نہار مجھے رسوایوں کے چوراھے پر لے آئے ہیں، ایک راستہ مایوسیوں سے ہوتا ہوا زندگی کے خاتمے کی طرف جاتا ھے، دوسرا راستہ اضطراب کے کانٹے بچھائے پاگل پن کو جارہا ھے، باقی کے دو رستے میں پرکھ نہیں سکتا، یقینا یہ رستے بھی بربادیوں کی منزل پر اختتام پزیر ہونگے_____
میں کسی ایک رستے پر جانے کی بھی ہمت نہیں رکھتا، ہاں اگر ہمت ہوتی اور آخرت کی فکر سے بری ہوتا تو بلا جھجک پہلے رستے کا انتخاب کرتا۔۔۔۔۔
یہ ہیں وقت کی کروٹیں، گردش لیل و نہار کے قصے۔ ۔ ۔ ۔
قصور صرف گردش لیل و نہار کا نہیں، اس گردش کو بھی اس کی پشت پناہی حاصل ھے، خیر اب میں کسی کو بھی اپنی رسوائی اور اجڑی زندگی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا، جو جو جب جب ہوتا ھے بہتر ہوتا ھے، میں اب مثبت سوچنے لگا ہوں اور مثبت سوچنے کا صحیح حل قناعت پسندی اختیار کرنا ھے۔ ۔ ۔ ۔
ٹھیک ہی کہا تھا کسی بزرگ نے"ہجر ہی عاشق کی عید ہوتی ھے" اور میرے نزدیک ناکام محبت ہی سب سے بڑی کامیاب محبت ھے، کوئی اگر مجھ سے پوچھے کہ محبت کا حادثہ رونما ہونا چاہیئے یا نہیں تو میں ہاں کی حامی بھروں گا، ضرور ہونی چاہیئے کیونکہ ٹھوکریں انسان کو پائیدار اور مستحکم کرتی ہیں، جو کوئی اگر اپنی محبت قربان کرسکتا ھے وہ دنیا کی کوئی بھی چیز قربان کرنے اور قربانی دینے سے دریغ نہیں کرسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن پھر بھی میں کچھ حد تک اندرونی طور پر خود کو بیمار محسوس کررہا ہوں، ایک حد تک اب میں عادی ہوچکا ہوں یعنی رضاکارانہ طور پر میں نے مصیبتوں کو قبول کرلیا ھے، مگر میں نے ان سے فرار ہونے کا طریقہ بھی سوچ لیا ھے ، وہ یہ کہ ہر وقت سہانے تصورات اور خوابوں میں گم رہنا، میں اس معاملے میں بہت تیز اور ہوشیار ہوں یعنی خواب دیکھنے میں____
میں اس سے روز ملتا ہوں مگر خوابوں اور خیالوں میں۔۔۔ مگر کب تک، کب تک خوابوں میں رہوں، حقیقت آخر حقیقت ہی ہوتی ھے، ایک تلخ حقیقت----
ہزاروں سوالات ذہن میں رقص کررھے ہیں۔۔۔
جسطرح میں نے اسے چاہا مجھے بھی کسی نے چاہا ہوگا، میں بھی کسی کو نہ مل سکا، مجھے بھی کوئی نہ ملا،
زندگی بھی کتنی عجیب ھے، آدمی کسی کو چاہ کر بھی نہیں چاہ پاتا اور کسی کو نا چاہتے ہوئے بھی چاہنے لگتا ھے، بھلے آدمی قدم روکے رکھے مگر دل کا قدموں کا ساتھ ذہن کو شکست دینے کا سبب بنتا ھے اور قدم نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی جانب ڈگمگانے لگتے ہیں______
دنوں سے مل کر ہفتے بنے، ہفتے مہینوں میں بدلے مہینے کروٹیں بدل بدل کر سال کے قریب پہنچ آئے، دوسرا مئی آنے کو ھے، آخر کب تک میں تلخ یادوں کی زد میں رہونگا۔ ۔ ۔ ۔
میں بینچ سے یادوں کی تھکاوٹ لیئے گھر جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ سامنے ایک لاش کے گرد کچھ لوگ جمع دکھائی دیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں جوں جوں اس لاش کے قریب پہنچ رہا ہوں مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہو رہی ھے، ذہن میں ہزاروں وسوسے کود رھے ہیں، جانے کون ہوگا، کیا ہوا ہوگا، ڈھیروں سوچیں لئے جب پاس پہنچتا ہوں تو پسینوں میں ڈوب جاتا ہوں، رنگ آ جا رھے ہیں، دھڑکن کی رفتار حد پار کر رہی ھے- ایک نوجوان کے گرد خون جمع دیکھ کر آنسوں ٹپ ٹپ کرنے لگتے ہیں، کچھ پل دیکھنے کے بعد ہمت نے جواب دے دیا، مزید کھڑا نہ ہوسکا، دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھے ، کھلی آنکھوں اور ڈگمگاتے قدموں کو لئے نکلتا بنا، آگے آتے اک شخص کو روک کر اپنا سکوت توڑا، گلے میں پھنسی خاموشی کو ختم کرنے کی کوشش کی، کپکپاتی آواز میں پوچھا،
یہ لڑ، لڑک، لڑکے کو کیا ہوا، کیا ماجرا ھے؟؟
اس نے محبت کی تھی، فریب کی زد میں آکر خود کے ساتھ ظلم کر بیٹھا__
یہ سنتے ہی وجود لرز اٹھا، کپکپاہٹ بڑھتی گئی، اچانک ایک عورت پر نظر پڑی جو لاش کے پاس تڑپ رہی تھی، سسک رہی تھی،بس آہ و زاریوں کا سماں ھے، شاید اسکی ماں ھے، ہاں ماں ھے،
میں اپنے ساتھ حالت غم میں باتیں کرنے لگا---
ماں کو لاش سے لپٹے روتے دیکھ کر مجھے محبت سے نفرت ہوگئی، اس محبت سے نہیں جو اک ماں اولاد سے کرتی ھے، اس محبت سے جسکا استعمال اولاد بے جا کرتی ھے، جہاں رسوایاں ہیں، سراسیمگں ھے، اضطراب ھے، زندگی کا خاتمہ ھے یعنی محض بربادی ھے۔۔۔۔جس ماں نے جتن کر کر کے پالا پوسا اس ماں کا کیا قصور____ جانے کتنی اور مائیں ماتم کرینگی ، یہ کہتے ہی واپس ہوتا ہوں تو آگے کچھ دور نظر ایک روتے بچے پر جا لگتی ھے، یہ مئی بھی عجیب گزر رہا ھے، نئے نئے حادثے رونما ہورھے ہیں، اب یہ بچہ کیوں رو رہا ھے، کیوں نا اس سے پوچھ لیا جائے۔۔۔
بیٹا کیوں رو رھے ہو؟؟
کیا ہوا ؟ ؟
بچپن سے یہی عادت تھی خود سے ایک دن چھوٹے کو بھی بیٹا کہا کرتا تھا،
میرے ایک بار پوچھنے پر اسکا کوئی جواب نہ آیا، سسکیاں رک نہ پائیں،
میں نے دوبارہ پوچھا، کیوں رو رھے ہو ؟ ؟
بچے نے اپنی آستین سے آنسوں پونچھے پھر اسی آستیں سے ناک صاف کی اور سسکتے سسکتے بولا،
میں پڑھنا چاہتا ہوں، بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں مگر____
مگر کیا ؟ ؟
مگر میرے بابا مجھے پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے، گھر میں فاقہ ترشی ھے، اوپر سے سکول کی فیس، اب میں بڑا ہوگیا تو فیس بھی عمر سے مقابلہ کرنے لگ گئی، سکول پرنسپل بھی آئے روز طعنے دیتا ھے، باقی بچوں کے سامنے خوب ذلیل کرتا ھے، مجھے کافی شرمندگی ہوتی ھے، ہم غریب ضرور ہیں مگر بے غیرت تو نہیں،
میں کس طرح کتابوں پر دھیان دوں، میرے دماغ کا مفلسی طواف کررہی ھے، میں غربت کا سوچوں یا علم کو پاؤں۔
بھائی ___ اس نے انتہائی معصومیت سے کہا۔ ۔ ۔
جی بھائی کی جان، میں نے پیار سے جواب دیا۔ ۔ ۔
بھائی میں پچھلی جماعتوں سے یہی پڑھتا آیا کہ لالچ بری بلا ھے، مگر آج جا کر مجھ پر یہ راز کھلا کہ لالچ سے کئی ذیادہ غربت بری بلا ھے، غربت لعنت ھے اور غریب اس معاشرے کا سب سے بڑا لعنتی،
بس بس چپ ، میں نے بچے کو سینے سے لگایا، اسکے کندھے کے پیچھے چہرہ چھپائے آنسوں بہاتا رہا، میرے پاس اس بچے کے کسی سوال کا جواب نہ تھا، فقط ہمدردیاں تھیں جو نچھاور کرسکتا تھا، خود بھی معاشرے کا دھتکارا ہوا بندہ ہوں، وگرنہ ضرور اسکے لئے کچھ کرتا۔ ۔ ۔
جانے کتنے بچے فیس کیلئے روتے ہونگے، جانے کتنے پھول احساس کی تپش سے مرجھاتے ہونگے، جانے کتنی کلیاں مسلی جاتی ہونگی، جانے کتنے بچے کھلونوں کی حسرت لئے زندگی کا کھلونا بنتے ہونگے،جانے کتنے گھروں کی شمع کشتہ ہوتی ہوگی، جانے کتنے گھروں میں غربت کے شعلے بھڑک رھے ہونگے اور جانے کتنے بچے ان شعلوں کی وحشت سے آنکھیں چراتے ہونگے۔۔۔
میرے آنسوں چھم چھم برس رھے ہیں،پاش پاش ہورہا ہوں، دل موم کی مانند پگھل رہا ھے۔۔۔
کئی پل سینے سے لگے رہنے کے بعد بچہ اچانک مجھ سے ہٹ کر آگے کی جانب دوڑا، میری نظریں بچے پر تھیں ، بچہ کچھ اٹھا کر سامنے دکان پر گیا، میں نے تھوڑا آگے جا کر دیکھا تو وہ کباڑ کی دکان تھی۔۔۔