مونا دیکھو باہر موسم کتنا حسین ہو رہا ہے چلو کچھ دیر پارک چلتے ہیں احسان نے آفس سے واپسی پہ پارک کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا
دونوں پارک کے اندر داخل ہوئے سامنے وہی پودوں کی بہاریں وہی رنگ برنگے پھولوں کی قطاریں وہی لوگوں کی چہچہاریں اتنا عرصہ باہر رہنے کے باوجود پاکستان میں لوگ ویسے کے ویسے ہی تھے
مونا نے ارد گرد دیکھتے ہوئے سوچا
بہار پھر سے لوٹ کے آ چکی تھی
پودوں پہ نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں
لیکن اگر کچھ تبدیل نہیں ہوا تھا تو وہ مونا کے دل کا موسم تھا جو ایک جگہ ٹھہر گیا تھا
اداسی کا موسم ٫ مایوسی کا موسم ٫درد کا موسم ٫ آ نسوؤں کا موسم ٫ اور کسی کی یاد کا موسم
جو کہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح رک چکا تھا جس پہ اب کوئی آس٫ امید خوشی کچھ اثر نہیں کرتے تھے
کبھی کبھی تو اسے لگتا کہ وہ انسان نہیں ایک ربورٹ ہے جو کھاتی ہے پیتی ہے کام کرتی ہے مگر مجبوری میں کیونکہ اسے زندہ رہنا تھا
کیا سوچ رہی ہو مونا
احسان نے مونا کو گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر پوچھا
نہیں کچھ نہیں بس یونہی کچھ الٹی سیدھی باتیں
مونا نے مختصر جواب دیا
کیا مجھے نہیں بتاؤ گی اپنے دل کی بات میں غیر تو نہیں احسان نے مونا کا ہاتھ تھام کر کہا
نہیں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں مونا نے نرمی سے اپنا ہاتھ چھوڑاتے ہوئے کہا
اوکے اگر تم بور ہو رہی ہو تو چلو گھر چلتے ہیں
احسان نے اٹھتے ہوئے کہا
___________________
بیٹا بیٹھو یہاں میں نے تمھارے ساتھ ایک بہت اہم بات ڈسکس کرنی ہے
ملک دلاور نے مونا کو اپنے آفس بلاتے ہوئے کہا
جی تایا جی کہیں
مونا نے عاجزی سے جواب دیا
بیٹا وہ جو ہمیں پشاور سے مال سپلائی ہونا تھا وہ اٹک پوسٹ پہ روک لیا گیا ہے
اور پولیس کا کہنا ہے کہ مال غیر قانونی ہے جبکہ ہم نے اپنی طرف سے سب قانونی کاروائی مکمل کی تھی
ملک دلاور نے پریشانی سے کہا
پھر اب کیا کریں
مونا نے پوچھا
بیٹا میرا خیال ہے کہ تم ارسلان کو ساتھ لے کر ابھی لاہور چلی جاؤ
وزیر قانون علی حسن عثمانی وہیں موجود ہے میں نے پتہ کروایا ہے
ان سے جا کے ڈائریکٹ بات کرو وہ بہت اچھے انسان ہے ہمارا نکتہ نظر سمجھیں گے اور ہمارا مال بھی ہمیں مل جائے گا ورنہ میں ہر جگہ مایوس ہو چکا ہوں اگر ہمیں مال نہ ملا تو کروڑوں کا نقصان ہو جائے گا ہماری کمپنی کو
میں نے علی حسن عثمانی سے بات چیت کر لی ہے ٹائم بھی لے لیا ہے بس تم ساری تیاری کر کے شام پانچ بجے سے پہلے
انھیں ہوٹل میں مل لینا
اور دیکھو بیٹا بہت سوچ سمجھ کر دھیان سے بات کرنا یہ فائل اچھی طرح سٹڈی کر لو اس میں ساری تفصیل موجود ہے اور جو بات سمجھ نہ آئے تو احسان ساتھ ہے اس سے ڈسکس کر لینا
مگر بیٹا پھر وہی بات کہ کام کروا کے ہی واپس آنا ہر صورت اور مجھے یقین ہے کہ تم کروا سکتی ہو
ملک دلاور نے مونا کو بڑی امید سے کہا
اوکے کوشش تو پوری کروں گی آگے اللّٰہ مالک ہے
ایک طویل عرصے کے بعد وہ ڈھنگ سے تیار ہوئی تھی ورنہ لندن میں سمپل پینٹ کے ساتھ ٹی شرٹس اور پاکستان واپس آ کر اس نے شلوار قمیض پہننی شروع کر دی تھی مگر آج اس کے تایا ابو نے اس کی میٹنگ کے لیے خاص طور پہ ڈارک بلیو کلر کی بے حد قیمتی ساڑھی لے کر دی تھی
اور خاص طور پہ تاکید کی تھی کہ پارلر سے تیار ہو کر جاؤ
تاکہ ان پہ ہمارا اچھا امپریشن پڑ سکے
جی میڈیم دیکھ لیں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو بتادیں
میک اپ کے بعد پارلر گرل نے مونا سے پوچھا
مونا نے ایک سرسری سی نظر اپنے سراپے پہ ڈالی
اسے اب اپنی خوبصورتی سے رتی بھر لگاؤ نہیں تھا
سب کچھ ٹھیک ہی تھا
وہ کاؤ نٹر پہ ادائیگی کر کے باہر نکل آئی
ارسلان گاڑی میں بیٹھا کب سے انتظار کر رہا تھا
لاہور پہنچتے پہنچتے چار بج گئے ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا وہ فریش ہونے کے لیے اسی ہوٹل کے ہال میں بیٹھ گئے
تھوڑی دیر آرام کے بعد لمبے سفر کی تھکاوٹ کافی دور ہو گئی تھی
وزیر قانون علی حسن عثمانی سے ملنے کا وقت ہو گیا تھا اس لیے وہ واش روم چلی گئی اور آئنے کے سامنے کھڑے ہو کے میک اپ سیٹ کیا
وہ علی حسن عثمانی شاید پہنچ چکے ہیں اور تھرڈ فلور پر ان کی میٹنگ تھی وہ ختم ہو چکی ہے اور اب ہمارا انتظار کر رہے ہیں
ان کے سیکرٹری کا میسیج ابھی آیا ہے
وہ آہستہ آہستہ احسان کے پیچھے پیچھے چل پڑی
وائٹ کلر کا سوٹ پہنے مونا دور سے ان محترم کی پشت ہی دیکھ سکی تھی
جب احسان نے اس کی طرف اشارہ کیا
ہائے آئی ایم مونا
دی اونر آف ملک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنیز ملتان
کین آئی سٹ ہیر؟
مونا نے قریب جاتے ہی ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا
اور دوسرے ہی لمحے علی کو جیسے کرنٹ کا جھٹکا لگا تھا
ڈارک بلیو کلر کی بے حد خوبصورت ساڑھی پہنے سامنے کھڑی مونا ماضی کی مونا سے بھی زیادہ قیامت ڈھا رہی تھی
شیور شیور وائے ناٹ
علی نے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا
سو سر جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ہم یہاں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں ہمارا کروڑوں کا مال جو کہ افغانستان سے آیا ہے وہ اٹک چیک پوسٹ پہ روک لیا گیا ہے یہ کہہ کہ وہ ان لیگل ہے
یہ رہی اس مال کی مکمل تفصیل
ہم نے پوری قانون کی پاسداری کر کے بکنگ کروائی تھی
مگر کچھ رشوت خور کسٹم کے بندے اب اپنا ناجائز حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں
ہم پہ اس قسم کے جھوٹے الزامات لگا کے
علی نے فائل اس کے ہاتھ سے پکڑ لی
اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا
اتنی دیر میں چائے آ گئی سب چائے پینے لگے
علی اس دوران کن اکھیوں سے مونا کے چہرے کا جائزہ بھی لے رہا تھا کہ شاید اسے اپنے لیے گزشتہ محبت کی پرچھائی نظر آ جائے
کوئی ہلکا سا اشارہ کوئی محبت کی جھلک
مگر مونا کا چہرہ ہر قسم کے جزبات سے بالکل عاری تھا
ہر قسم کے احساسات سے عاری سپاٹ چہرہ لیے
وہ بالکل ایسے انداز میں بیٹھی تھی جیسے سب اجنبی اور عام لوگ اس سے ملنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں
ویل مس مونا
میں نے آپ کا کیس دیکھ لیا ہے اس کی ساری تفصیل جان کے میں آپ کو کل تک بتا دوں گا اور اگر آپ کی بات ٹھیک ہوئی تو آپ کا مال آپ تک پہنچ جائے گا
علی نے فائل بند کر کے مونا کو پکڑا دی
اوکے تھینکس آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمارے لیے تھوڑا سا وقت نکالا
مونا نے کھڑے ہو کے ہاتھ ملا کے خدا حافظ کہتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر اور رک جاتیں اتنی دور واپس جانا ہے ڈنر کر لیتے اکھٹے
علی کے دل میں کی بات زبان پہ آ گئی
نو تھینکس ڈنر ہم نے کر لیا ہے واپس پہنچتے ہوئے کافی رات ہو جائے گی اور ہماری فلائٹ بھی نو بجے کی ہے
اس لیے ہمیں اب اجازت دیں
مونا جانے کے لیے مڑی
علی نے ایک بار پھر امید بھری نظروں سے مونا کی آنکھوں میں جھانکا مگر وہاں تو صدیوں کی اجنبیت چھائی ہوئی تھی
مونا کے جانے کے بعد وہ دیر تک گرل کے پاس کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا
نہ کوئی 'ہنسی نہ شرارت نہ بحث نہ لڑائی سب گم کر آئی تم اور اپنے اوپر یہ سنجیدگی کا مصنوعی خول چڑھا کے سمجھ رہی ہو کہ میں شاید دھوکہ کھا جاؤں گا تمھارے اس روپ سے
کاش وہ وقت لوٹ کے آ سکے اور میں اپنی غلطی کا مداوا کر سکوں
علی نے حسرت سے سوچا اور کسٹم آفیسر سے اٹک بات کرنے کے لیے اپنے سیکرٹری کو ساری ہدایت دے کر گھر روانہ ہو گیا
دوسرے دن ہی انھیں کسٹم سے اپنا مال ریسیو کرنے کی ایک میل موصول ہو گئی
ملک دلاور اپنی بھتیجی کی اس کامیابی پہ بہت خوش تھے
اور گھر جا کے سب کے سامنے اس کا یہ کارنامہ بڑے فخر سے بتا رہے تھے
_______________________
احسان بیٹا کہاں تک بات پہنچی تمھاری اور مونا کی کیا وہ تم سے شادی کے لیے تیار ہو جائے گی؟
ثمینہ بیگم نے اپنے بیٹے کے کمرے میں پہنچ کر پوچھا
مما پتہ نہیں وہ کیا چاہتی ہے وہ مجھے کچھ نہیں بتاتی مما ایسی لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسانا بہت مشکل ہوتا ہے
میری مانیں تو آپ دادا جی سے میری اور مونا کی شادی کی بات کریں دادا جی ضرور مان جائیں گے
اور جہاں تک مجھے یقین ہے مونا بھی راضی ہو ہی جائے گی
احسان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
________
جی دادا جی آپ نے مجھے بلایا تھا
مونا نے دادا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا
جی میرا پتر بیٹھ ادھر
پتر تیرے ساتھ ایک بہت ضروری بات کرنی تھی
میرا بچہ اب تیرا باپ بھی نہیں ہے اور میری بھی زندگی کا کیا بھروسہ پتہ نہیں آج ہوں کل نہ رہوں
اس لیے پتر میں تجھے کسی کے سپرد کر کے جانا چاہتا ہوں
دادا جی رکے
مگر دادا جان میں بالکل کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی آپ پلیز مجھے مجبور نہ کریں
نہ میرا پتر ایسا نہیں کہتے
اور پھر تو کونسی غیروں میں جائے گی یہ ساتھ والے کمرے میں اپنے تایا کے گھر ہی تو ہو گا تیرا سسرال
اور بیٹا احسان کو تو بچپن سے جانتی ہے تو
بہت خوش رکھے گا
تیرے تایا تائی نے خود مجھ سے اس رشتے کی بات کی ہے پتر گھر آیا خوشی کا سندیسہ واپس نہیں موڑتے رب سوہنا ناراض ہو جاتا ہے
دادا جان نے مونا کو سمجھاتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے دادا جان جیسے آپ کی خوشی
میں کیا کہہ سکتی ہوں اس کے بارے میں اور
مونا نے ہار مانتے ہوئے کہا
ارے جیتی رہو میری بچی جیتی رہو
اللّٰہ خوشیوں سے دامن بھر دے میری بچی کا
کبھی غم کی پرچھائی بھی نہ پڑے تمھاری زندگی پہ
دادا جان نے ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہا
___________
دل تو پہلے ہی اس کی کم مانتا تھا اب جب سے اس نے علی کی جھلک دیکھ لی تھی وہ اس کے قابو سے باہر ہو چکا تھا
بار بار اس کا نام لیتا بہانے بہانے سے اسے یاد کرتا
اب آدھی رات کو ڈرائورنگ کرتے ہوئے خان صاحب کا گانا سن کر اس کی پلکیں اس بیوفا کو یاد کر کے نم ہو گئی تھیں
گلگت کے اس وزٹ میں دادا جی بھی ان کے ساتھ تھے انھیں یہاں اپنے کسی پرانے دوست سے ملنا تھا
تین بجے کے قریب ملک دلاور بیدار ہوئے اور مونا کو اٹھا کر پیچھے آرام کرنے کے لیے بھیج دیا اور خود گاڑی چلانے لگے
یہ ان کا ہمیشہ سے اصول تھا کہ جب بھی لمبے سفر پہ جاتے تو رات کو کبھی گاڑی ڈرائیور کے حوالے نہ کرتے
شدید تھکاوٹ کے باعث مونا کی جلد ہی آنکھ لگ گئی
تھوڑی دیر بعد ہی فجر کی اذانیں ہونے لگی
ملک سخاوت نے گاڑی رکوا لی اور ہوٹل کی مسجد میں نماز ادا کرنے چل دئیے
سورج آہستہ آہستہ سامنے کالے پہاڑوں کے پیچھے سے طلوع ہو رہا تھا
جس کی سنہری شعاعیں ہر چیز پہ ایک عجب سا وجد طاری کر رہی تھیں
ہر طرف خاموشی سکون جیسے ہر شے خدا کی عبادت میں مگن ہو
ملک سخاوت باہر سڑک پہ کھڑے ہو کے یہ منظر دیکھنے لگا
اچانک اس کی نظر سامنے گاڑی پہ پڑی
اس کا جگری دوست چوہدری راشد حسن عثمانی گاڑی کھول کے کھڑا تھا
اور ساتھ ساتھ ڈرائیور کو صبح صبح صلواتیں بھی سنا رہا تھا شاید گاڑی خراب ہو گئی تھی
اوئے کھوتے کے پتر تو یہاں کہاں ؟
ملک سخاوت نے پیچھے سے جا کر چوہدری راشد کے کندھے پہ تھپڑ مار کے پوچھا
ارے میرا دوست میرا جگر ملک سخاوت کیسا ہے تو ولائتی باندر
چوہدری راشد اس خوشی سے اس کے گلے لپٹ گیا
یار بچے بڑے دنوں سے ضد کر رہے تھے کہ گلگت سیر کے لیے جانا ہے اس لیے آج نکل ہی آئے ابھی وہاں پہنچے بھی نہیں اور راستے میں یہ مصیبت گلے پڑ گئی اور گاڑی خراب ہو گئی
چوہدری راشد نے پریشانی سے جواب دیا
لو یہ تو بہت اچھا ہوا
چل اسے ڈرائیور کے حوالے کر وہ ٹھیک کروا کے لے آئے گا تو
میرے ساتھ چل ہم بھی وہاں جا رہے ہیں بلکہ تو ہمارے ساتھ ہی ہمارے گھر چل ہم دونوں خوب بیٹھ کے باتیں کبریں گے اور بچے سیر کر لیں گے
ملک سخاوت نے چوہدری فیملی کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی اور سب ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گئے
گاڑی ماشاءاللہ بہت آرام دہ اور شاندار تھی
سب بڑے آرام سے سفر کا مزہ لینے لگے
مما یہ گلگت کتنی دور ہے ابھی
ننھی مونا نے بے چین ہو کے سوال کیا
بس بیٹا تھوڑی دور ہے ہم جلد ہی پہنچ جائیں گے سوہا نے اسے تسلی دی
میں تو خوب گھوموں گی پھروں گی پکس بنا بنا کے سٹیٹس لگا کے اپنی فرینڈز کو خوب جلاؤں گی
آفٹر آل گلگت آنے کا سارا پلان میرا تھا
عالیہ نے چہکتے ہوئے کہا
کیوں اماں جی آپ بھی تو کچھ کہیں نہ میرے حق میں
عالیہ نے علی کی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
افف یہ ہو گئی شروع اب ساری خواتین اور ان کی ز بانیں نہیں بند ہوں گی
علی کو اب نیند آ رہی تھی
وہ ان کے پاس سے اٹھا اور اگلی سیٹ پہ بیٹھی مونا کے پہلو میں جا کر بیٹھ گیا
اچانک ایک ہلکا سا جھٹکا لگا اور سوئی ہوئی مونا کا سر علی کے کندھے سے جا لگا
افف اب یہ کیا مصیبت ہے یہ محترمہ اپنے سہارے پہ نہیں ٹک سکتیں
علی نے جھنجھلا کر مونا کا سر پکڑ کر سیدھا کرنا چاہا
جونہی نظر مونا کے چہرے پہ پڑی
علی کو اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی
اوہ تو یہ محترمہ ملک سخاوت کی رشتے دار ہے غالباً ان کی پوتی ہو گی
علی نے تھوڑا سا اپنی یاداشت پہ زور دے کے اندازہ لگایا کیونکہ ایک بار وہ بچپن میں بابا سائیں کے ساتھ ان کے گھر جا چکا تھا اس وقت وہ ملا تو سب سے تھا لیکن نام یاد نہیں تھے
مونا کے بدن سے آنے والے مانوس سی خوشبو علی پہ سحر طاری کر رہی تھی
کتنے سالوں کے بعد اس کے اندر کسی کی قربت کا احساس جاگا تھا
دل پھر کسے کے لیے زور سے دھڑکا تھا
مگر جس کے لیے اس کے اندر یہ سب ہلچل مچی تھی وہ دنیا جہاں سے بے خبر اس کے پہلو میں بیٹھی سو رہی تھی
مونا کے دادا اور علی کے بابا اپنی اپنی باتوں میں مگن تھے سوہا ننھی مونا اور عالیہ نے الگ شور مچایا ہوا تھا
لیکن علی اس شور شرابے سے بہت دور کسی اور ہی جہاں پہنچ چکا تھا کہیں دور پربت میں چھپی کسی بے حد خوبصورت پیار کی وادی میں جہاں وہ اور مونا ہاتھ میں ہاتھ لیے محبت بھرے گیت گا رہے تھے
علی کے لبوں پہ ہلکی سی مسکان ابھری
اس نے دھیرے سے مونا کے سر کو دوبارہ وہیں اپنے کندھے رکھا اور خود بھی سیٹ سے ٹیک لگا کے سو گیا
تاکہ یہ حسین خواب کہیں ٹوٹ نہ جائے