ماریہ کی تدفین کر دی گئی چوہدری ہاؤس میں آج موت سا سناٹا چھایا ہوا تھا سب اپنے اپنے کمروں میں بند افسردہ بیٹھے تھے
ماریہ کی اس اچانک موت کا سب کو شدید صدمہ تھا
وقت گزرتے کہاں دیر لگتی ہے پانچ سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے
علی نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور جلد ہی ایک کامیاب سیاستدان کے طور پہ ابھرا
پارٹی کی طرف سے الیکشن جیتا اور بدلے میں وزیر قانون بن گیا
اب تک نجانے کتنے رشتے علی کو آ چکے تھے ایک سے بڑھ کے ایک
ایک تو شاندار شخصیت دوسرا اختیارات کا مالک دولت تو گھر کی لونڈی تھی ایسے میں کون اس گھر میں رشتہ کرنا نہ چاہے گا
یہاں تک کہ وہ خود بھی چڑ جاتا تھا کبھی کبھی کہ لوگ کیوں اس کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے رہتے ہیں
گھر والے بھی کافی زور دیتے مگر وہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا
دل میں ایک خواہش تھی کہ شاید زندگی کے کسی موڑ پہ اسے مونا دوبارہ مل جائے تو وہ نہ صرف اس سے معافی مانگے گا بلکہ اسے اپنی زندگی میں بھی شامل کر لے گا
کیونکہ کبھی احساس جرم اور کبھی احساس محبت اسے جینے نہیں دیتے تھے
کتنے سال تک وہ اس کی تلاش میں بھٹکتا رہا
جب بھی مصروف ترین وقت میں سے تھوڑا بھی ٹائم ملتا وہ مونا کے بارے ضرور سوچتا
لیکن وہ تو ایسی گم ہوئی کہ پھر مڑ کے نہ دیکھا نہ کبھی کوئی کال نہ رابطہ وہ کہاں تھی کیسی تھی
علی کا دل اس کے بارے جاننے کو ہر وقت بے چین رہتا
___________________
سب کو ہی ماریہ کی بے وقت موت کا غم تھا لیکن ایک ہستی ایسی بھی تھی جسے اپنی بیٹی کی موت سے زیادہ اس بات کا غم تھا کہ کروڑوں کی جائداد ہاتھ سے نکل گئی
اور وہ دن رات اسی کوشش میں لگی تھی کہ کس طرح وہ دوبارہ چوہدری ہاؤ س میں اپنے قدم جما سکے
آخر کار اس کی کوشش کامیاب ہونے لگی
کیونکہ وہ ماریہ کی وفات کے بعد اپنی دوسری۔ بیٹی
عالیہ کو کب سے علی کے ساتھ شادی کے لیے رضامند کر رہی تھی اور اب وہ کچھ کچھ مان بھی گئی تھی
مما میں اس شرط پہ لندن سے واپس پاکستان آؤ ں گی کہ آپ مجھے علی کے ساتھ شادی کے لیے مجبور نہیں کریں گی اگر ہم دونوں کی رضامندی ہوئی اور ہمیں محسوس ہوا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر سکتے ہیں تو ہی میں شادی کروں گی
عالیہ نے صاف صاف کہا
ارے میری جان آپ ایک بار واپس تو آؤ تمھیں علی بہت پسند آئے گا اور پھر بھی اگر تمھیں اچھا نہ لگے تو آگے جیسے تمھاری مرضی ماریہ کی ماں
انیسہ بیگم نے اپنی بیٹی کو مناتے ہوئے کہا
اوکے مما ڈن پھر نیکسٹ ویک میں پہنچ جاؤں گی پاکستان
عالیہ نے بتایا اور فون بند کر دیا
________________________
مونا جلدی واپس آؤ تمھارے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے شاہدہ بیگم نے مونا کو فون کر کے کہا
مگر میجر مدثر کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ ہاسپٹل پہنچتے پہنچتے جان کی بازی ہار گئے تھے
مونا کو بابا کی اچانک وفات پہ شدید دھچکا لگا تھا
ابھی تو وہ پہلے صدمے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ اتنی بڑی آفت سر پہ آن گری
مونا کے دادا جان ملک سخاوت نے اپنے بیٹے کی لاش پاکستان لانے کے لیے پورے انتظامات کر لیے تھے
اور شاہدہ بیگم اور مونا بھی میت کے ساتھ ہی ملتان پہنچ گئی
سب کی اشکبار آنکھوں میں میجر مدثر کو دفن کیا گیا مونا کی تو جیسے دوسری بار دنیا لٹ گئی تھی
ایک کے بعد ایک صدمہ وہ ہر وقت کمرے میں گم صم پڑی رہتی نہ کسی سے بولتی نہ ہنستی
ایک زندہ لاش بن کے رہ گئی تھی
دادا جان کا اپنی پوتی کا یہ حال دیکھ کے کلیجہ کٹنے لگا
وہ سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنے لگا
پتر تو باہر سے پڑھ لکھ کے آئی ہے تو بیٹا پھر یوں سارا دن کمرے میں کیوں بند رہتی ہو
دادا جان نے ایک دن ناشتے کی میز پہ مونا سے پوچھا
وہ دادا جان بس یونہی گھر میں کونسا کام ہوتا ہے کرنے والا تو فارغ ہی ہوتی ہوں
مونا نے مختصر جواب دیا
پتر گھر میں کام نہیں ہے کوئی تو پھر باہر جا کے کام کر لیا کر یوں سارا دن فارغ بیٹھ کے اپنا دل نہ جلایا کر میری بچی ابھی تو بڑی زندگی پڑی ہے تیرے آگے جینے کے لیے ابھی سے تو ہمت ہار کے بیٹھ گئی
دادا جان نے سوال کیا
باہر کونسا کام ہے کرنے والا دادا جان ؟
مونا نے پوچھا
تیرے باپ کے حصے کی ساری جائداد سارا کاروبار بینک بیلنس میں نے تیرے نام کروا دیا ہے کل سے اپنے تایا ابوملک دلاور کے ساتھ آفس جا کے اپنا کاروبار دیکھ اور یہ بچوں کی طرح کمروں میں چھپ چھپ کے رونا بند کر دے تو اپنی ماں کی بیٹی نہیں بیٹا بھی ہے
میرے پتر فوجی کی اکلوتی نشانی جیسے لوگ میرے پتر کو سلیوٹ مارتے تھے ویسے میری پوتی اتنی کامیابی حاصل کرے کہ لوگ اٹھ اٹھ کے سلیوٹ ماریں تجھے
ملک سخاوت نے مونا کے سر پہ ہاتھ پھیر کر کہا
جی دادا جان جیسے آپ کا حکم
مونا نے سعادت مندی سے جواب دیا
________
دیکھ لیا آپ نے ابا جی کا کارنامہ اتنی بڑی جائداد ایک چھٹانک بھر کی لڑکی کے نام کر دی
جو کہ لندن میں پاگل پن کا علاج کرواتی رہی
خود کو تو وہ سنبھال نہیں سکی کاروبار سنبھالے گی
ہنہہ
دماغ خراب ہو گیا ہے ابا جی کا کاروبار کو چلانے کے لیے اتنی محنت کی میرے شوہر نے
اور پھل کھانے پہنچ گئے لوگ
مونا کی تائی
ثمینہ بیگم کا اپنے سسر ملک سخاوت کے اس فیصلے پہ کمرے میں ملک دلاور کے سامنے خوب دل کی بھڑاس نکال رہی تھی
ثمینہ بیگم کچھ غلط تو نہیں کیا ابا جی نے مونا کا حق تھا اس لیے اسے مل گیا اس میں اتنا غصہ کرنے کی کیا بات ہے
ملک دلاور نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹائے بغیر بیگم سے کہا
ارے حق بس رہنے دو حق کی بات تو بھلا لڑکیوں کا کیسا حق ہوتا ہے جائداد میں سارا حق بیٹوں کا ہوتا ہے بس
ثمینہ بیگم نے جل کر کہا
ہاں تمھارے ان نکمے لفنگے لڑکوں سے تو ہزار درجے بہتر ہے میری بھتیجی
لندن سے بزنس کی اتنی بڑی ڈگری لے کر آئی ہے
ملک دلاور نے فخر سے کہا
ہاں ہاں پتہ ہے آوارہ بدچلن کہیں کی آٹھ دن اپنے یاروں کے ساتھ کسی ہوٹل میں رنگ رلیاں مناتی رہی اور جب حالت خراب ہوئی تو کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک گئے تھے اس کے یار یاد ہے یا بھول گئے آپ
ثمینہ بیگم کا پارہ ساتویں آسمان تک جا پہنچا
ثمینہ بیگم ذرا اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈنڈا پھیر لو
اپنی اولاد کے کرتوت پتہ ہے یا میں بتاؤں وہ بھی
دونوں صاحبزادوں کو جاپان پڑھنے بھیجا تھا ذیشان صاحب نے وہاں اتنی گرل فرینڈ بنا رکھی ہے کہ اسے گنتی یاد نہیں
ایک کے ساتھ تو بغیر شادی کے حرام کی اولاد بھی پیدا کر کے بڑے فخر سے مائی سن بتاتا ہے
دوسرا ایک ہندو لڑکی سے شادی سے پہلے ایک ناجائز بیٹی پیدا کر لی پھر نکاح کروا کے بیٹھا ہے اس انتظار میں کہ کب میں اسے اجازت دوں اور وہ اس منکر کی اولاد کو یہاں بلا سکے
ملک دلاور نے بھی اپنے دل کی پوری بھڑاس نکالی
شش آہستہ بولیں کوئی سن لے گا کیا عزت رہ جائے گی ہماری خاندان میں
ثمینہ بیگم نے ملک دلاور کو چپ کرواتے ہوئے کہا
خیر جو بھی ہے اس لڑکی کی طرح ان کے گلوں میں بدنامی کا تمغہ تو نہیں سجا نہ
یہ تو پورے خاندان میں بد چلن مشہور ہو چکی ہے
ثمینہ بیگم نے لقمہ دیا
فکر نہ کرو جس دن تمھارے بیٹوں کے کرتوت کھل گئے
ہم بھی اپنے گلے میں یہ تمغہ پہن لیں گے ایسی باتیں زیادہ دیر چھپی نہیں رہتی
ملک دلاور نے غصے سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا
______________
تمھیں اب اچھی طرح سمجھ۔ آ گیا ہے نہ کہ وہاں جا کے کیا کیا کرنا ہے انیسہ بیگم نے عالیہ سے پوچھا
جی ممی سب یاد ہے
علی کے گھر والوں کو متاثر کرنے کے لیے یہ مشرقی کپڑے پہننے ہیں اچھے اچھے کھانے بنانے ہیں
علی کے دل میں جگہ بنانے کے لیے روز رات کو یہ مغربی ڈریس پہن کر خود کو خوب سنوارنا ہے
علی سے ماریہ کے بارے میں باتیں کر کر کے اپنے لیے ہمدردی پیدا کرنی ہے
اس کا دکھ بانٹنا ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ مجھ سے بڑھ کے اس دنیا میں کسی کو اس کی پرواہ نہیں
روز علی کے ماں باپ کی خدمت کا جھوٹا ڈرامہ کرنا ہے
علی کی بھابھی سوہا کو اپنے جال میں پھنسا کے دوستی کرنی ہے
وغیرہ وغیرہ سب یاد ہے اور کچھ
عالیہ نے طنز کرتے ہوئے کہا
توبہ ہے لڑکی کیسے قینچی کی طرح تمھاری زبان چلتی ہے
میں تو یہ سب تمھارے فائدے کے لیے کر رہی ہوں ورنہ مجھے کیا ضرورت ہے اتنے پاپڑ بیلنے کی
سڑتی رہتی وہیں لندن میں ہوٹلوں پہ برتن دھوتی رہتی ساری زندگی تو ہی تیرے لیے اچھا تھا خواہ مخواہ میں بلا لیا میں نے تجھے یہاں
ارے کمبخت ماری ایک بار شادی ہو گئی نہ تو ساری عمر عیش کرے گی۔ تو وہاں یاد رکھنا پھر جھولی اٹھا کے انیسہ بیگم کو دعائیں دوں گی دیکھ لینا تم
انیسہ بیگم نے خفگی سے کہا
ارے ممی سوری آپ ناراض ہو گئی
میں تو مزاق کر رہی تھی چلیں سرگودھا لیٹ ہو رہے ہیں ہم میں ڈرائیور سے کہتی ہوں وہ گاڑی نکالے
عالیہ ڈرائیور کو آوازیں دیتی باہر چلی گئی
_____________________
تایا جان اسلام علیکم
مونا نے پہلے دن آفس میں داخل ہوتے ہی ادب سے تایا جی کو سلام کیا
ارے وعلیکم السلام جیتی رہو جیتی رہو
ویلکم بیٹا بہت خوشی ہو رہی ہے آپ کو یہاں دیکھ کے
چلیں کچھ دیر سانس لو پھر میں تمھیں آفس کے سٹاف سے بھی ملواتا ہوں
اور احسان سے کہتا ہوں کہ تمھیں کام کی ٹریننگ دینی بھی شروع کر دے
ملک دلاور احسان کو فون کرنے لگے
مونا آرام سے ان کے سامنے چئیر پہ بیٹھ گئی
سارا دن بہت مصروف گزرا تھا شام کو وہ احسان کے ساتھ گھر روانہ ہوئی
تھکاوٹ کی وجہ سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا اس لیے اس نے گاڑی سے باہر دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اپنے خیالوں میں گم رہی
آئے مس مونا نیچے اتریں
اچانک احسان نے گاڑی روک کے کیا کہا
مونا نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا مگر یہاں کیوں ابھی تو گھر نہیں آیا
وہ شدید حیرت سے بولی
ہاں مگر یہاں آپ کے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز ہے لٹ اس گو اندر چل کے پتہ چلے گا
احسان نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھنچتے ہوئے کہا
سارا ہال نیم تاریک تھا
وہ احسان کا ہاتھ تھام کے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی
وہ ایک تاریک سے کمرے میں داخل ہوئے اچانک لائٹس جل اٹھیں
مونا کی آنکھیں چندھیا گئیں
اس نے ان پہ ہاتھ رکھ لیا
آسمان سے ان پہ پھولوں کی برسات ہونے لگی وہ حیرت سے گلاب کی پتیوں کی برسات دیکھنے لگی
احسان پھولوں کا ایک بے حد خوبصورت بکے لے کے اس کے سامنے دو زانوں ہو گیا
ہیپی برتھ ڈے ہیپی برتھ ڈے ڈئیر مونا
ہیپی برتھ ڈے سویٹ گرل
مے گاڈ بلیس یو ایوری جوائے آف یور لائف
احسان نے پھول اور کارڈ مونا کو تھماتے ہوئے کہا
اوہ مائی گاڈ آج میرا برتھ ڈے تھا اور مجھے یاد ہی نہیں
اور تم نے یاد بھی رکھا اور اتنا بڑا سر پرائز بھی دے ڈالا
تھینکس آ لاٹ آئی ایم سو ہیپی
مونا نے احسان کا شکریہ ادا کیا
چلو پہلے کیک کاٹتے ہیں
پھر ڈنر کریں گے
اور اس کے بعد آپ کو آپ کی پسندیدہ میوزک بھی بنوائیں گے
احسان نے مونا کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
اگین تھینکس یار اس سرپرائز کے لیے
مونا اتنے دنوں بعد کسی اپنے کی محبت دیکھ کے بہت خوش ہوئی تھی
ہوٹل میں کافی دیر ہو گئی
احسان کے گھر پہنچتے ہی ثمینہ بیگم اس کے کمرے میں آ گئی
تو کیسا رہا میرا پلان لڑکی خوش ہو گئی ہے نہ مانتے ہو نہ پھر اپنی ماں کی ذہانت کو
ثمینہ بیگم نے عیاری سے کہا
ہاں ماں آپ کے حکم کے ث
چڑیا کو دانہ ڈال دیا ہے اب جال میں پھنسنے کا انتظار کرنا پڑے گا آپ کو_______
احسان نے خوش ہوتے ہوئے کہا
کوئی بات نہیں دس سال بھی انتظار کر لیں گے آخر اتنی بڑی جائداد کی اکلوتی وارث ہے
اتنا تو حق بنتا ہے نہ اس کا
اور دونوں ماں بیٹے مونا جیسی سونے کی چڑیا کو اپنے جال میں پھنستا دیکھ کر دبی ہنسی ہنسنے لگے
______________________
عالیہ نے چوہدری ہاؤ س پہنچتے ہی اپنا کام شروع کر دیا تھا ویسے بھی یہ سب سیدھے سادے لوگ تھے جنھیں شیشے میں اتارنا مشکل نہیں تھا
اور پھر ماریہ نے جان دے کر پہلے ہی سے سب کے دلوں میں اس کی چھوٹی بہن عالیہ کے لیے کافی ہمدردیاں پیدا کر دی تھیں
اس لیے اس کی ہر کوشش کامیاب ہو رہی تھی
______________
رات بستر پہ لیٹے مونا اپنی گزشتہ زندگی کو یاد کر کے آنکھیں نم ہو گئیں
کیسے وہ سوہا کے ساتھ مل کے اتنی بدتمیزیاں کر کے خوب ہلے گلے کیساتھ کالج میں برتھ ڈے منایا کرتی تھی
سب کے چہروں پہ کیک ڈانس پارٹی شرارتیں سب کچھ کھو گیا تھا
بس ان کی یادیں باقی تھیں
مونا نے نیٹ آن کیا اور فیسبک کی اپنی پرانی پوسٹس دیکھنے لگی
اچانک اس کی نظر علی کی پوسٹ پہ رک گئی
آج اس کا برتھ ڈے ہے جو صرف میری زندگی میں چند دنوں کے لیے آئی
اور پھر ہمیشہ کے لیے اس دل میں بس گئی
میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کہاں ہو کیسی ہو کس حال میں ہو لیکن
میں ہمیشہ تمھارے لیے دعا گو رہوں گا کہ خدا تمھیں لمبی زندگی اور ڈھیروں خوشیوں سے نوازے
آمین
پڑھ کے دل جو پہلے اداس تھا مزید اداس ہو گیا
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی انگلیاں تیزی سے ٹائپنگ کرنے لگیں
اسے لگتا ہے میں اسے بھول جاؤں گی ؟
لگتا ہے اس نے کبھی محبت نہیں کی
سٹیٹس لگاتے ہی مونا نے نیٹ آف کیا اور بری طرح بلک بلک کر رونے لگی
علی پوری رات اس پوسٹ کے ایک ایک لفظ کو غور غور سے دیکھتا رہا لیکن اس پوسٹ پہ جا کے اس میں کمنٹ کرنے کی ہمت پیدا نہ ہو سکی
دل بار بار اسے مجبور کر رہا تھا کہ انبکس جا کے اپنے دل کی ساری حالت مونا سے کہہ دو
دماغ کہہ رہا تھا کس حق سے؟ پہلی بات یہ کہ تو اپنا اعتبار اور مقام کھو چکا ہے
اور دوسری بات کیا مونا تم پہ اعتبار کرے گی؟
ایک ایسے بزدل شخص کی بات کا وہ کیوں یقین کرے گی جو اس کا ہاتھ پکڑ کر بھنور سے نکالنے کی بجائے اسے گرداب میں پھنسا دیکھ کے اپنی جان بچا کے بھاگ گیا
لعنت ہو علی تم پہ
تم محبت کے تو کیا مونا کی نفرت کے قابل بھی نہیں ہو
ہمیشہ کی طرح اس کے ضمیر نے اسے بری طرح کچوکے لگائے اور وہ اندر تک زخمی ہو کر چپ بیٹھا اسے دیکھ کر بس سوچتا ہی رہ گیا
نہیں اب میں اس کی زندگی میں پھر دخل اندازی نہیں کروں گا وہ پتہ نہیں کس حال میں ہے میں اسے میسیج کر کے مزید اس کے لیے دکھ کا باعث نہیں بن سکتا
اس سے بہتر ہے کہ میں خاموش ہی رہوں
علی نے سوچا
وہ علی مجھے جو آپ نے آج نیو موبائل لا کے دیا ہے اس کے فنکشن ٹھیک ورک نہیں کر رہے ذرا چیک کریں تو کیا مسئلہ ہے اسے
عالیہ نے وائٹ پینٹ کے ساتھ سلیو لیس ییلو شرٹ اتنی تنگ پہنی ہوئی تھی کہ اس کے بدن کی ایک ایک شے کی بناوٹ ان میں جھلک رہی تھی
اسی حلیے میں وہ بلا جھجک علی کے کمرے میں آ گئی
یہ لیں یہ تو ہو گیا سیٹ
علی نے سیٹنگ چیک کرتے ہوئے کہا
یہ بھی دیکھیں ذرا عالیہ نے ڈیپ گلے والے شرٹ کو کھینچ کر تھوڑا اور نیچے کرتے ہوئے کہا اس کے اور نزدیک ہوتے ہوئے کہا
علی کی اچانک اس پہ نظر چلی گئی
عالیہ آپ کمرے میں جاؤ میں سیٹ کر کے تمھیں بھیج دیتا ہوں
سچ تو یہ تھا کہ اس کی یہ حالت دیکھ کر علی کو شرم محسوس ہوئی لیکن وہ بڑے آرام سے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی
استغفر اللہ یہ آج کل کی لڑکیوں کے لباس کو پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے
شرم نام کی کوئی شے باقی ہی نہیں بچی ان میں
علی نے غصے میں سوچا
عالیہ کا موبائل سائیڈ پہ رکھ کے علی کے دماغ میں بہت دیر سے ایک ہی بات گردش کر رہی تھی
وہ ایک بار مونا کو کال کر کے دیکھے شاید وہ بات کر لے
کتنی بار نمبر ڈائل کر کے ڈیلیٹ کیا پھر ہمت کر کے کال کر ہی لی
بل ہوتی رہی مگر دوسری طرف سے کسی کو اس سے اتنی نفرت تھی شاید کہ اس نے علی کی کال کاٹنی بھی گوارا نہ کی
کئی بار کی کوششوں کے بعد علی نے موبائل بند کر کے واپس رکھ دیا