یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں
اکھیاں توں مینہ وسدا
شالا مک جان جگ توں جدائیاں
اکھیاں چوں مینہ وسدا
رات کے تیسرے پہر مونا گلگت کی طرف جانے والے راستوں پہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے رواں دواں تھی ------
ہاتھ گاڑی کے سٹئرنگ پہ لیکن دماغ خان صاحب کے گانے کی دھن میں کھو چکا تھا------
"خان صاحب اس کے فیورٹ سنگر تھے وہ جنون کی حد تک انھیں پسند کرتی تھی"
سنسان سڑک پہ چاند کی مدھم روشنی،
چاروں طرف دور تک پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے پہاڑی سلسلے اور ایسے سحر انگیز منظر میں سفر کرتے ہوئے خان صاحب کے الفاط سیدھے دل پہ وار کر رہے تھے
گاڑی کی رفتار تھوڑی دھیمی کر کے مونا نے ایک لمحے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھا
سبھی لوگ تقریباً سو چکے تھے
اور جو نہیں سوئے تھے وہ نیند میں اونگھ رہے تھے
مونا نے اطمینان سے دوبارہ گاڑی کی رفتار اپنی مرضی سے تیز کی اور اپنی منزل کی طرف چل پڑی
انھیں صبح ہر صورت میں گلگت کے ایک ہوٹل میں پہنچنا تھا جہاں چین سے آئے ہوئے کچھ لوگوں سے تایا ابا کی میٹنگ تھی -------
مونا کے تایا ابو ملک دلاور کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بہت بڑا بزنس تھا
اور وہ مختلف ملکوں کے وزٹ کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحد پہ بھی آتا جاتا رہتا
کیونکہ یہاں پر سمگلنگ شدہ مال بہت ہی مناسب ریٹ پہ مل جایا کرتا تھا بس فرق یہ تھا کہ ان دور دراز کی سرحدوں پہ خود چل کے آنا پڑتا تھا
وہ لوگ فون پہ جلدی رابطہ نہیں کرتے تھے مگر بہت با اصول اور پکے لوگ تھے کبھی دھوکہ یا غلط بیانی نہیں کرتے تھے -----
اس لیے کم از کم مہینے میں دو تین بار یہاں اسی سلسلے میں آنا جانا لگا رہتا -------
جب بھی کوئی اس قسم کی بہت ہی اہم میٹنگ ہوتی
تایا ابا مونا کو ساتھ لانا نہ بولتے ایک تو وہ بہت ذہین تھی دوسرا اسے بہت سی زبانوں پہ عبور حاصل تھا
کیونکہ اس کے فادر آرمی میں میجر تھے جس کی وجہ سے اسے کافی زبانیں سیکھنے کا موقع ملا
تیسرے نمبر پہ وہ بہت ہی ذمے دار لڑکی تھی
جو بھی کام اس کے ذمے لگایا جاتا وہ بہت اور دیانت داری سے سر انجام دیتی---------
اور سب سے اہم بات وہ اس کے مرحوم بھائی کی اکلوتی نشانی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے احسان کی ہونے والی بیوی بھی تھی---------
حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں
آفریں آفریں آفریں آفریں
خان صاحب کا دوسرا گانا شروع ہو چکا تھا
اور مونا ہزار کوشش کے باوجود بھی خود کو اس گانے کے دوران اپنے دماغ کو ماضی کی یادوں میں کھینچ کر لے جانے سے روک نہیں سکی تھی
__________________________
فرسٹ ائیر کا لاسٹ منتھ تھا جب وہ سب کی نظروں سے دور باہر گراؤنڈ میں اپنے بیگ میں چھپائے موبائل یوز کر رہی تھی
فیسبک پہ سکرولنگ کرتے کرتے اس کی نظر اچانک ایک تصویر پہ رک گئی
نیوی بلیو شرٹ کے ساتھ بلیک کوٹ کندھے پہ لٹکائے وہ ایک بے لا پرواہ سے انداز میں کھڑا مونا کے موبائل کی سکرین پہ کھڑا مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو
ہائے اینڈ ہاؤ آر یو؟
مونا نے گھبرا کے پوسٹ اوپر کی
لیکن کچھ دیر بعد وہ پھر سامنے تھا
مونا نے غور کیا تھا کہ خاموش ہونے کے باوجود اس کی آنکھیں کچھ بول رہی تھیں
گہری براؤن کرسٹل سی چمکدار آنکھیں
سٹوپڈ !
مونا کے منہ سے بے اختیار نکل گیا
کسے گالیاں دے رہی ہو
پاس بیٹھی سوہا نے فیسبک سے نظریں ہٹا کے مونا کی طرف دیکھ کر پوچھا
یہ کون ہے تمھاری فرینڈ لسٹ میں مونا نے
سوہا کی توجہ اسے ٹیگ کی گئی تصویر کی طرف دلائی
اوہ یہ ہیں محترم علی صاحب!
وہ جو ہمارے بنگلے کے سامنے والے گھر کے بائیں طرف گھوم کے دائیں طرف جو شاپ ہے اس کی پہلی نکڑ سے سیدھے ہاتھ جا کے الٹی طرف ایک اور گھر ہے
اس گھر سے دس قدم کے فاصلے پہ یہ رہائش پذیر ہیں -----
اس کی کلاس فیلو اور بیسٹ فرینڈ سوہا نے سابقہ ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے بونگی ماری ------
مگر یہ محترم تمھاری فرینڈ لسٹ میں کیوں تشریف آوری کا ٹوکرا رکھ کے بیٹھے ہوئے ہیں ---
مونا نے سوہا کی بات پہ کاٹتے ہوئے کہا
وہ یوں کہ ایک دن وہ جو آرمی آفیسرز کے بنگلوں کی طرف پارک ہے ان سے وہیں اچانک ملاقات ہوئی
کیوں ہوئی ؟کیسے ہوئی ؟
وہ تو چھوڑو ------
مگر عجیب لیچیڑ ہیں مجھ جیسی حسین و جمیل لڑکی کو دیکھ کر پیچھے ہی پڑ گئے
مجھے اپنا نام فون نمبر بلکہ گھر کا اڈریس تک دے دیا
اب میرا بھی تو اخلاقی فرض بنتا تھا کہ میں بھی ان کو کچھ دیتی
اس لیے جواب میں اس حاتم طائی کی اولاد کو اپنا فون نمبر دے دیا وہ بھی اصل والا ------
اور اس جاسوس کے بچے نے اس نمبر سے میری آئی ڈی سرچ کر کے مجھے فرینڈ ریکوئسٹ سینڈ کی
جسے میں نے اپنے آباؤ اجداد کی اخلاقیات کی اعلیٰ ڈگری کو مدنظر رکھتے ہوئے قبول کر لیا
سوہا نے اپنا لمبا لیکچر ختم کیا -----
تو مونا نے دونوں کانوں پر رکھے ہاتھ ہٹائے
شکر ہے مولا اس ریڈیو پاکستان سوہا کے ساتھ مجھے عمر نہیں گزارنی ورنہ اس نے تو بول بول کر میرا دماغ سن کر دینا تھا--------
مونا نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا
یا خدا مجھے تو اٹھا کیوں نہیں لیتا ایسے خود غرض دوستوں سے بہتر ہے کہ بندے کو موت آ جائے
جو اپنے اتنے اچھے دوست کی چھوٹی سی بات بھی سننا گوارا نہیں کرتے اور پہلے ہی کانوں پہ ہاتھ رکھ کے انھیں بند کر لیتے ہیں
سوہا نے بھر پور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا
سوہا سچ بتاو!
بس فرینڈ لسٹ میں ہی ہے یا کوئی اور چکر و کر ہے
مونا نے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا
نہیں میری ماں میرا کسی سے چکر وکر نہیں ہے میرے گھر والوں نے مجھے چکر چلانے کے قابل چھوڑا ہی نہیں
پیدا ہوتے ہی اس منحوس مارے ماموں زاد عاصم کے ساتھ باندھ دیا ------
مجال ہے جو ساری عمر کسی نے کبھی لائن ماری ہو
یا کبھی ایک خوبصورت لڑکی ہونے کے ناطے ہی چھیڑنے کی کوشش کی ہو _______
سب یہ سوچ کر آگے گزر جاتے ہیں کہ یہ تو مس پہلے سے ہی بک ہو چکی ہیں اس لیے اس پہ کوئی بھی حربہ آزمانہ بے کار ہے ______
یار یہ منگنی شدہ بندے کی بھی نہ عجیب بے رنگ اور پھیکی زندگی ہوتی ہے ______
بس ہر وقت منگیتر کے بارے میں سوچے جاؤ
صبحِ منگیتر شام منگیتر رات منگیتر دوسرے دن پھر بریک فاسٹ لنچ ڈنر ہر کھانے میں منگیتر بیٹھا آنکھیں دکھا رہا ہوتا ہے -------
یہ کرو وہ نہ کرو یہاں جانا ہے وہاں نہیں جانا
شادی سے پہلے ہی شوہر سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں یہ منگیتر نام کے بندے ---'''
سوہا کی بات سن کے مونا کے پیٹ میں ہنس ہنس کے بل پڑ گئے -----
ہائے تو پھر اس ہنڈسم پہ میں لائن مار کے دیکھتی ہوں
مونا نے سوہا کو آنکھ مارتے ہوئے کہا
زیادہ فلرٹی تو نہیں یہ نہ ہو ہاتھ دھو کے پیچھے ہی پڑ جائے ------
میں جان چھڑاؤ ں اور یہ جونک کی طرح چمٹ ہی جائے
ارے نہیں یار بلکہ ایک نمبر کا کھڑوس لگتا ہے مجھے کبھی بھول کر بھی میسیج کا رپلائی نہیں کرتا بیس دفعہ میں نے کوشش کی اسے پھنسانے کی سوہا نے بدمزگی سے کہا -----
اچھا چل پھر میں تجھے پھنسا کے دیکھا تی ہوں
مونا نے مسکراتے ہوئے کہا
لگی شرط
سوہا نے ہاتھ بلند کیا
ڈن
مونا نے اس پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا
کتنے کی ؟
مونا بولی
دو دو ہزار کی
اوکے ڈن
تو اب مکر نہ جانا اور پیسے تیار رکھنا
کیونکہ مونا جس پہ ایک نظر ڈال لے وہ پھر کسی اور کا نہیں ہو سکتا ---------
مونا نے بیگ سے مرر نکال کے اپنے حسین چہرے پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا
دیکھیں گے آپ کے حسن کا جادو اسے شکار کرتا ہے یا آپ اس کا شکار ہوتی ہیں-''--
سوہا نے فقرہ کسا ------
اور دونوں مسکراتے ہوئے پریڈ لینے چل پڑیں
رات کو مونا نے اپنی بے بی ڈول والی آئی ڈی سے اسے فرینڈ ریکوئسٹ سینڈ کی
جو اس نے تھوڑی دیر بعد ایکسیپٹ کر لی
اس کے کچھ دیر بعد مونا نے اسے ہائے کا میسیج کیا
جسے سین تو کیا مگر کوئی رپلائی نہ آیا
مونا نے تھوڑی دیر بعد پھر سے میسیج کر دیا
کیا میں آپ سے تھوڑی دیر بات کر سکتی ہوں
مگر پھر اس نے سین کر کے اگنور کر دیا
عجیب بندہ ہے سوہا شاید ٹھیک کہتی تھی
سڑو نہ ہو تو لڑکی کے میسیج اگنور کر رہا ہے
مگر اس نے بھی ہمت نہ ہاری
اگر رپلائی نہیں کرنا ہوتا تو میسیج سین کیوں کرتے ہیں ؟
پاگل آدمی!
مونا نے پھر میسیج کیا مگر مسلسل خاموشی سے اسے کوفت ہونے لگی وہ فیسبک بند کر کے یو ٹیوب پر فلم دیکھنے لگی ----''
کافی مزے کی فلم تھی وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا
فلم ختم ہونے کے بعد مونا موبائل آف کرنے لگی تو پھر علی کی طرف دھیان چلا گیا ----''
اور وہ بے دھیانی میں مسنجر کھول کے چیک کرنے لگی
جی بتائیے کیا بات کرنی ہے آپ کو ------
مونا کی نظر علی کے رپلائی پہ گئی
وہ خوشی سے اچھل کر سیدھی ہو کے بیٹھ گئی
وہ میرا نام آمنہ ہے میں آپ کے نزدیک ہی رہتی ہوں آپ کو دو دن پہلےپارک میں جاگنگ کرتے ہوئے دیکھا تو پہلی نظر میں ہی آپ مجھے بہت اچھے لگے -----
اور پھر خوش قسمتی سے ابھی کچھ دیر پہلے آپ کی فیسبک پہ لگی تصویر پہ نظر پڑی تو میں خود پہ کنٹرول نہیں کر سکی اور آپ کو فرینڈ ریکوئسٹ سینڈ کر دی میں آپ سے دوستی کرنا چاہتی ہوں کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گے ؟
مونا نے میسیج ٹائپ کر کے سینڈ کا بٹن دبایا
لیکن خوشی میں مونا یہ دیکھنا بھول گئی کہ وہ آف لائن جا چکا تھا ---'''
اففف اتنی محنت بیکار گئی
چل مونا ڈارلنگ تو بھی آرام سے لمبی تان کے سو جا
مچھلی کو جال میں پھنسنے کے لیے ابھی ٹائم لگے گا
رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے صبح اس کی آنکھ نہیں کھل رہی تھی -----
مونا اٹھ جاؤ ورنہ اب میں نے تم پہ پوری بالٹی پانی کی لا کے انڈیل دینی ہے
صبح سے چوتھی بار تمھیں جگا رہی ہوں اور تم ہو کہ گدھے گھوڑے بیچ کے سو رہی ہے
مونا کو اپنی مما شاہدہ مدثر کی غصے میں بھری آواز پاس ہی سے سنائی دی
وہ زبردستی آنکھیں ملتی ہوئی کمبل نیچے پھینک کے بیڈ سے اتر کر چپل گھسیٹتی واش روم میں گھس گئی
اور شاہدہ بیگم نیچے ناشتہ ٹیبل پہ لگانے کے لیے چلی گئی
میجر ملک مدثر کی یہ چھوٹی سی فیملی جس میں ایک بیٹی مونا اور ایک بیوی شامل تھی لاہور کینٹ میں رہائش پذیر تھی
میجر مدثر جلد ہی آرمی سے ریٹائرمنٹ لینے والے تھے مگر مونا کے ایف ایس سی مکمل کرنے کا انتظار کر رہے تھے
تاکہ واپس اپنے آبائی علاقے ملتان جا کے مونا کو اچھے کالج میں ایڈمیشن مل سکے ویسے بھی وہ ابھی اور پانچ سال تک وہاں رہ سکتے تھے مگر اب وہ اپنے گھر جلد سے جلد لوٹ کر جانا چاہتے تھے جس کی ایک وجہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ان کی بیٹی مونا بھی تھی
اور میجر ملک مدثر کا خیال تھا کہ وہ واپس جا کر خاندان میں مونا کے لیے کوئی اچھا رشتہ بھی تلاش کر لیں گے
ناشتے کی ٹیبل پہ حسب معمول مونا پھر دیر سے پہنچی تھی
اور اس کے پاپا جی کا لیکچر وقت کی پابندی پہ شروع ہو چکا تھا جسے اب اسے کالج کے گیٹ تک سننا تھا
اس لیے وہ ہوں ہاں کرتے ہوئے تیزی سے ناشتہ کرنے لگی
گاڑی میں بھی وہ ادھر ادھر توجہ بانٹ کر پاپا کی مسلسل تقریر سے خود کو بچانے کی کوشش کرتی رہتی
اور گیٹ پہ پہنچتے ہی مونا نے سکھ کا سانس لیا اور بھاگ کر اندر داخل ہوئی
اوہ گاڈ یہ آرمی آفیسرز کی اولاد ہونا بھی کتنا مشکل کام ہے ہر جگہ ڈسپلن مینرز یہ وہ _____
کبھی تو ہمیں اپنی مرضی سے بھی لائف انجوائے کرنے دیں ہمارے ماں باپ
مونا نے بریک میں سوہا کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا
سوہا نے کوئی جواب نہ دیا شاید موبائل میں گم تھی
مونا نے بھی ادھر ادھر دیکھ کر چوری سے بیگ کے اندر سیل آن کیا اور واٹس ایپ پہ فرینڈز کو رپلائی دینے لگی
اچانک اسے علی کے بارے میں سوچا اور
مسنجر اوپن کر کے چیک کرنے لگی
علی کا رپلائی آ چکا تھا
جی جی بالکل مجھے آپ کے خیالات جان کے بے حد خوشی ہوئی میں بھی آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھے آپ آپ مت کہیں میرا نام لکھا کریں
اور میرا نام علی ہے اور لوگ مجھے پیار سے بھی علی ہی کہتے ہیں
مونا نے فاتحانہ انداز سے سوہا کو یہ میسیج پڑھ کے سنایا
دیکھی پھر میرے حسن کی طاقت
اور خوشی سے جھومنے لگی
_____________