اردو زبان و ادب کی چالیس سال تک تدریس کے بعدجب میں ملازمت کو خیرباد کہہ کرگھر پہنچا تومیرے ہاتھ کے لکھے ہوئے تدریسی اشارے میرے کاغذات میں موجودتھے۔ لسانیات اور تاریخ زبان وادب سے متعلق یہ تدریسی اشارے میرے جواں سال بیٹے سجاد حسین نے خود کمپوز کیے اور انھیں اپنے جدید ترین ذاتی کمپیوٹر اور یو ایس بی میں محفوظ کر دیا۔ اِن تحریروں کی اشاعت اس کی دیرینہ تمناتھی مگر تقدیر نے ہم الم نصیب جگرفگاروں کو عجب امتحان میں ڈال دیا۔چھے جولائی دو ہزار سترہ کو سجاد حسین دائمی مفارقت دے گیا ۔ ہمارے گھر کے آنگن سے اجل کا لشکر گزرا تو پورا گھر غرقاب غم تھااور کسی کو کچھ ہوش ہی نہ تھا۔اس عرصے میں بروٹس قماش کے کئی آستین کے سانپ ہمیں کاٹنے کے لیے نکل آئے اور گھر سے قیمتی سامان غائب ہو گیا ۔ بہو کا بھیس بنا کر آنے والی ایک سارق نام نہادمحقق نے ہاتھ کی صفائی دکھائی اور متاعِ علم پر ہاتھ صاف کیا۔سجاد حسین کے عمدہ کمپیوٹر ( لیپ ٹاپ )،یو ایس بی کا کہیںسراغ نہ ملا ۔ دائمی مفارقت ینے والے میرے لخت ِ جگر نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے یہ تحریریں گوگل ڈارائیو میں محفوظ کر لی تھیں ۔پاس ورڈ اتفاق سے مل گیاہے یہ تحریریں میرے لخت جگرخورشید جمال سجاد حسین کی ایسی آخری نشانیاں ہیں جو تا ابد اُس کی سعادت مندی کی گواہی دیں گی ۔میری آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے ،روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو چکاہے ۔اب ایک لفظ لکھنا بھی میرے بس سے باہر ہے ۔اللہ نگہبان
فقیر
غلام شبیر