اسے جیسے ہی نائلہ نے یہ خبر سنائ تھی کہ عارفہ اور ساجدہ بیگم دونوں ہی اس ویک اینڈ پر انکے پاس کچھ عرصہ کے لئے رہنے آ رہی ہیں وہ تو خوشی سے پاگل ہی ہو گئ تھی۔۔
اوہ سچی آپی اس دفعہ نانو بھی ہمارے پاس رہیں گیں؟
ہاں نائلہ نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا تھا۔۔
اوہ مائ گوڈ ائ ایم سو ایکسائٹڈ۔۔
چلیں ہم پارلر چلتے ہیں؟
کیوں؟
اف اوہ بھئ تیاری نہیں کرنی کیا؟
کس لئے مہرماہ؟
اوہ اوہ ایک تو مجھے بلکل بھی آپکی سمجھ نہیں آتی آپ کیوں ہر وقت گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں؟میڈز ہیں نا تو پھر آپکو سکون کیوں نہیں ملتا اپنے ہاتھ لگائے بغیر۔۔
اچھا بس اب تم میری اماں نا بنو وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔
آہ کاش میں اپکی اماں ہوتی یقین مانیں ایسا fit رکھتی نا اپنے آپکو کہ آپکی سبھی فرینڈز مجھے دیکھ کر jelous ہو جاتیں۔۔
اور ایک آپ ہیں ابھی سے بوڑھی روح بن گئیں ہیں؟
اچھا تو تمہارے خیال سے میں بوڑھی نہیں ہوں؟
نا بلکل بھی نہیں۔۔
46برس کی ہو چکی ہوں۔۔
یو نو وٹ دل جوان ہونا چاہئیے اور ویسے بھی آپ دیکھنے میں تو صرف 26 کی لگتی ہیں۔۔
اچھا بس اب بناو مت۔۔
نہیں سچی آپکو پتا ہے میری جتنی بھی فرینڈز آپ سے ملی ہیں نا ابھی تک ان میں سے کسی ایک کو بھی یقین ہی نہیں آتا کہ آپ میری مدر ہیں۔۔یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا رہی تھی۔۔
جبکہ یہ سنتے ہی نائلہ کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ لہرایا تھا۔۔
یقین ہو بھی کیسے سکتا ہے تم اتنی خوبصورت جو ہو۔۔
تو کیا آپ کم خوبصورت ہیں؟
مہرماہ میں کہاں سے خوبصورت ہوں؟
آپی مجھے کبھی کبھی بلکل بھی آپکی سمجھ نہیں آتی آپ کیوں ہر وقت خود کو کم تر سمجھتی رہتی ہیں؟
آپکی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی؟
کیا آپکو لگتا ہے کہ اللہ کبھی بھی کسی انسان کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہے؟وہ اپنے بندے سے ستر ماوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔۔
اور آپ نے دیکھا ہے کبھی ایسا کہ ایک ماں کی اولاد اگر خوبصورت نا بھی ہو تب بھی اسے اپنا بچہ دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ لگتا ہے وہ کبھی اپنے بچوں میں فرق نہیں کرتی تو آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اللہ کو آپ کتنی خوبصورت لگتی ہوں گی اس کے لئے بھی تو سب انسان برابر ہیں نا۔۔
اور مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کے ہر انسان ہمیشہ نا شکرا ہی کیوں کیا رہتا ہے وہ صرف اپنے سے اوپر ہی دیکھتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ کیا میرے پاس نہیں ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کیا میرے پاس ہے؟
کبھی آپ نے ان اپاہجوں کو دیکھا ہے جو سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں انکے وجود تک نا مکمل ہوتے ہیں انکے پاس رہنے تک کی کوئ جگہ نہیں ہوتی کوئ انکے ساتھ نہیں ہوتا پھر بھی میں نے انہیں اللہ کا شکر ادا کرتے دیکھا ہے۔۔
میں سوچتی تھی کہ آخر یہ کس بات پہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔
میں نے ان میں سے ایک آدمی سے بہت ہمت کر کے یہ پوچھ ہی لیا۔۔
آپ جانتی ہیں اسکا نچلا دھڑ اسکے جسم کے ساتھ نہیں تھا سڑک پر بازووں اور پیٹ کے بل چلنے کی وجہ سے اسکی وہاں کی سکن خراب ہو چکی تھی۔۔
کیا آپ اندازہ کر سکتی ہے کہ اس نے میری بات کا کیا جواب دیا؟
اس نے کہا میں شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے انسان پیدا کیا اور اس آزمائش کے قابل سمجھا۔۔اللہ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر آزماتا ہے۔۔دیا تو کسی کو بھی جا سکتا ہے مگر لیا تو صرف اسی سے جاتا ہے نا جو آپکے لئے بہت خاص ہوتا ہے۔۔
اور اگر وہ مجھے دے کر آزماتا شاید میں اسکی آزمائش پر پورا نا اتر سکتا شاید میں اسے پا ہی نا سکتا مگر اس نے مجھے اس حالت میں رکھا تو مجھے وہ یاد تو آتا ہے مجھے پتا تو چلتا ہے کہ یہ ایک آزمائش ہے جس میں مجھے پورا اترنا ہے۔۔
اس نے کہا یہ دنیا تو ایک سفر گاہ ہے جسکی منزل آخرت ہے اور سفر میں تکلیفیں تو سبھی کو آتی ہیں کامیاب وہ ہوتے ہیں جو ان تمام تکلیفوں کو مات دے دیتے ہیں اور پھر بھی اپنا سفر جاری رکھتے ہیں تا کہ اپنی منزل تک پنہچ سکیں جو ثابت قدم رہتے ہیں وہ اپنی منزل تک پنہچ جاتے ہیں اور جو ان تکالیف و مصائب سے گھبرا کر ڈگمگا جاتے ہیں انکی منزل کھو جاتی ہے پھر وہ اس سفر گاہ میں ہی اپنی لذتیں اور رنگینیاں دھونڈ لیتے ہیں وہ یہی پر اپنا دل لگا لیتے ہیں پھر انہیں منزل نہیں ملتی انہیں اللہ نہیں ملتا انہیں جنت نہیں ملتی۔۔
نائلہ گم صم سی کھڑی اسکی باتیں سن رہی تھیں وہ سوچ رہی تھی کہ کبھی میرے ذہن میں یہ سب کیوں نہیں آیا میں اپنی زندگی کہ 46 برس اس دنیا میں گزارنے کے بعد بھی اسکی حقیقت نا جان سکی اور یہ 22 سالہ لڑکی مجھے سمجھا رہی ہے کہ اس زندگی کی حقیقت کیا ہے۔۔
آپی آپ کو مجھ پر رشک آتا ہے نا کہ میں بہت خوبصورت ہوں اس حد تک کہ ہر انسان مجھے دیکھ کر مبہوت ہو جاتا ہے۔۔
آپ جانتی ہیں مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت انسان کون لگتا ہے؟
نائلہ کے اندر تجسس پیدا ہوا تھا کہ آخر وہ کون ہو گا جو اسے خوبصورت لگتا ہو گا وہ سوچ رہی تھی یقینن وہ کوئ بہت ہی خاص اور شاندار انسان ہو گا۔۔
اب نائلہ بولی تھی کون؟
میکلوڈ روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا ایک اپاہج آدھے دھڑ والا "کلیم اللہ" وہ مجھے اس دنیا کا سب سے خوبصورت انسان لگتا ہے۔۔
مہرماہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔۔
کیا آپ ملنا چاہیں گی اس سے؟
ہاں ضرور۔۔
تو ٹھیک ہے میں کبھی ملواوں گی آپ کو اس سے۔۔
لیکن ابھی ہم پارلر چل رہے ہیں۔۔
اور نائلہ مسکراتے ہوئے اسے کہہ رہی تھی ٹھیک ہے میں تیار ہو کے آتی ہوں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مڈل ایجڈ آدمی ہاتھ میں ٹرے پکڑے ہوئے دروازہ ناک کر رہا تھا اور اجازت ملنے پر اب وہ اندر داخل ہو گیا تھا اس نے ٹرے میں pina colada ڈرنک کا گلاس سجا رکھا تھا اور اسے دیکھتے ہی وہ بولا تھا گڈ آفٹر نون میڈم ۔۔
اس نے بھی جواب میں مسکراتے ہوئے آفٹر نون کہا تھا۔۔
اب وہ آدمی ڈرنک کا گلاس ٹیبل پر رکھ کر جا چکا تھا۔۔
اور اس نے گلاس اٹھا کر ایک سپ لے کر گلاس واپس ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔۔
اب وہ وقار احمد سے مخاطب تھی۔۔
وہ دراصل ہماری یونیورسٹی میں ایک سیمینار منعقد کیا جا رہا ہے۔۔
اور تم چاہتی ہو کہ میں وہاں کا مہمان خصوصی بنوں۔۔
اوہ Thats like my good father..
آپ نے Guess کر لیا۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔
مہرماہ تم جانتی ہو نا کہ میرے پاس ہمیشہ وقت کی قلت رہتی ہے پھر بھی تم کیوں الٹی سیدھی حرکتوں سے باز نہیں آتی؟
بابا جانی آپکو میرے لئے وقت نکالنا ہی ہو گا آخر میں آپکی اکلوتی اولاد ہوں۔۔
اور اگر میں ایسا نا کروں تو؟
اوہ رئیلی بابا جانی آپ میری کوی بات ٹال سکتے ہیں؟
وہ مسکراتے ہوئے اپنی بڑی بڑی سبز آنکھوں کو مزید کھول کر بڑا کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی؟
تو مہرماہ وقار احمد آپکو میں نے کچھ زیادہ ہی بگاڑ دیا ہے؟
اوہ رئیلی۔۔مگر اب کیا ہو سکتا ہے اب تو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔وہ اب اس بات پر افسوس کر رہی تھی۔۔
لیکن یہ بات گھر پر بھی تو ہو سکتی تھی؟
نہیں نا بابا جان میں آپکو بہت مس کر رہی تھی۔۔
اچھا جی آپ مجھے صرف سات گھنٹے میں ہی اتنا مس کرنے لگی؟
ہاں جی آپکو پتا ہے نا بابا جان جب تک میں آپکو دیکھ نا لوں مجھے سکون نہیں آتا۔۔
اوہ سوری میری جان میں کیا کرتا صبح تم سو رہی تھی اور مجھے جلدی نکلنا تھا۔۔
ہمم کوئ بات نہیں لیکن آپکو اسکی penalty دینا پڑے گی۔۔
اوہ تو اسکا مطلب کہ آج میری خیر نہیں؟
یس آف کورس۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر کی موت کے بعد وقار کی زندگی کا مقصد صرف اسکی بیٹی ہی تھی اور اس نےاسی کے نام پر اپنی بیٹی کا نام بھی مہرماہ رکھا تھا۔۔
اس نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ اسے مہرکے علاوہ کسی اور کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا پڑے گا مگر اماں جان نے اسے اتنا مجبور کر دیا کہ اسے نائلہ سے شادی کرنا پڑی۔۔
انکا کہنا تھا کہ اگر وقار نے نائلہ سے شادی نا کی تو وہ زہر پی لیں گیں اور پھر دن بدن مہرماہ کی اٹیچمنٹ نائلہ سے بڑھتی جا رہی تھی وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی مہرماہ کو نائلہ سے دور کرنے میں ناکام رہا تھا۔۔
دن تو وہ کسی نا کسی طرح گزار ہی لیتی مگر رات ہوتے ہی وہ رونا شروع کر دیتی اور اسکا رونا تب تک بند نا ہوتا جب تک نائلہ اسے گود میں نا لے لیتی اسکی وجہ شاید یہ تھی کے مہرماہ نے نائلہ کی گود میں اپنی ماں کا پیار ڈھونڈ لیا تھا وہی اسے سنبھالتی وہی اسکا ہر کام کرتی اس لئے وہ اسے ہی اپنی ماں سمجھنے لگی تھی۔۔
وقار میں اب اتنی سکت نا تھی کہ وہ مہر کی موت کے بعد کوئ اور غم دیکھ پاتا جب عارفہ بیگم نے زہر کی شیشی اپنے منہ کو لگانے کو کوشش کی تو وہ جان گیا کہ یہ محض دھمکی نا تھی اور پھر سادگی سے نائلہ کا نکاح وقار کے ساتھ ہو گیا۔۔
مگر اس نکاح کے بعد بھی نا تو وہ حویلی میں آیا اور نا ہی اس نے نائلہ کو اپنی زندگی میں بیوی کا مقام دیا اور صرف اتنا ہی نہیں جب مہرماہ نے بولنا شروع کیا تو اس نے مہرماہ کو نائلہ کو کبھی بھی ماں نہیں بلانے دیا بلکہ اسے ماں کی بجائے آپی کہنا سکھا دیا جس پر سب نے اعتراض کیا مگر تب تک مہرماہ اس لفظ کی عادی ہو چکی تھی۔۔
وقار لاکھ کوششوں کے بعد بھی مہرماہ کو نائلہ سے دور نا کر سکا وہ اسے ماں ہی سمجھتی تھی اور ماں جیسا مقام اور پیار دیتی تھی۔۔
وہ بہت چھوٹی تھی جب ایک دفعہ وقار نے ایک دفعہ اسکے سامنے نائلہ سے تلخ لہجے میں بات کی تھی مگر وہ وقار سے ناراض ہو گئ تھی وہ نائلہ کو دکھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔
اور پھر اپنی بیٹی کی خاطر وقار کو نائلہ کو برداشت کرنا پڑا تھا۔۔
وہ مہرماہ سے اتنا پیار کرتا کہ وہ جو بھی بات اپنے منہ سے نکالتی وہ اسی وقت پوری کرتا۔۔
اس نے اسے یوں سنبھال کر رکھا تھا جیسے وہ کوئ کانچ کی گڑیا ہو اور زرا سی ہوا لگنے سے کہیں گر کر ٹوٹ نا جائے۔۔
اور پھر اب اسکے جینے کا اک وہی سہارا تو تھا اسکی مہر کی نشانی ان دونوں کے پیار کی نشانی۔۔
اس نے سوچا تھا کہ وہ مہرماہ کو اسکی ماں مہر کے متعلق سب کچھ بتا دے گا مگر اسے یوں خوش دیکھ کر کبھی یہ سب بتانے کی ہمت نا پڑی کیونکہ ظاہر ہے یہ سب جاننے کے بعد وہ وقار اور نائلہ کے رشتے کی بھی حقیقت جان جاتی۔۔
نائلہ صرف دنیا کی نظر میں وقار کی بیوی تھی وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی نائلہ کو اپنی بیوی کا مقام نہیں دے پایا تھا۔۔
مگر پھر بھی نائلہ نے اسے کبھی بھی شکایت کا کوی موقعہ نا دیا تھا۔۔
شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اسے اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا تھا کہ وہ نائلہ کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔۔
مگر وہ کیا کرتا وہ ان مردوں میں سے نہیں تھا جو اپنے قول و فعل میں تضاد رکھتے تھے جو امانت میں خیانت کرتے تھے۔۔
اسکی روح اسکا جسم اسکا دل وہ سب مہر کی امانت تھا اور وہ اس امانت میں خیانت کیسے کرتا۔۔
ایک دفعہ اس نے بہت ہمت کر کے نائلہ سے بات کی تھی۔۔
نائلہ مجھے معاف کر دو میں کبھی بھی تمہیں کچھ نہیں دے سکا نا ہی میں کبھی تمہیں کچھ دے پاوں گا مگر خدا کے واسطے مجھے پھر سے کوئ بددعا مت دینا کیونکہ میرے پاس اب میری بیٹی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔
نہیں وقار وہ سب میری بھول تھی مجھے معاف کر دیں محبت کرنے والے بھلا کب بدعائیں دہتے ہیں محبت کرنے والے تو مرہم لگاتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی وقار اسکے ساتھ بہت اچھا behave کرتا اور کبھی کبھی وہ بہت ظالم بن جاتا شاید تب اسے مہر کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔۔
کبھی کبھی وہ نائلہ پر چینخ رہا ہوتا کہ اسکی وجہ سے وہ اپنی محبت سے محروم ہو گیا۔۔
اور پھر اگلے ہی دن وہ اس سے اپنی اس بات پر معافی مانگ رہا ہوتا۔۔
لیکن کچھ مہینوں سے اب اس نے نائلہ پر چلانا چھوڑ دیا تھا وہ اسکے ساتھ بلکل خاموش سا ہو گیا تھا۔۔
اور نائلہ کو اسکی یہ خاموشی دیکھ کر وحشت ہوتی۔۔
وہ اب اپنا زیادہ وقت مہر کے کمرے میں ہی گزارتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید وہ کبھی بھی خود کو نا سنبھال پاتا اگر مہر کی ڈائری اسکے ہاتھ نا لگتی۔۔
اس نے اپنی ڈائری میں نا تو وقار کی محبت لکھ رکھی تھی ، نا اپنے دکھ ، نا اپنی خوشیاں ، اور نا ہی اپنے روزمرہ زندگی کے معاملات ۔۔
اس نے اپنی ڈائری کا عنوان رکھا تھا۔۔
☆☆☆☆☆☆☆میں اور میرا الہ☆☆☆☆☆☆☆
میں چاہتی ہوں وقار کے یہ ڈائری کبھی تمہارے ہاتھ خودبخود لگ جائے اور تم بھی اسے پڑھو اور جان جاو کہ انسان کیا ہے اسکی زندگی کیا ہے یہ دنیا کیا ہے۔۔میں چاہتی ہوں کہ تم بھی اس دنیا کی حقیقت کو پا لو۔۔
اس نے اپنی ڈائری میں اسلام پر کی جانے والی
اپنی تحقیق لکھ رکھی تھی۔۔
شروع کے عنوانات میں اس نے توحید۔۔
شرک۔۔
شرک کی اقسام۔۔
ثواب و گناہ۔۔
اسلام یا مسلک پرستی
نور القرآن
میں اور میرا اسلام
اور اسی طرح کے عنوانات پر تفصیلن اپنی تحقیق بیان کی تھی۔۔
مگر جس عنوان نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کروائ وہ تھا۔۔
محبت۔۔
اس نے سب سے پہلے وہی سے پڑھنا شروع کیا تھا۔۔
محبت ایک خوبصورت جذبہ کا نام ہے جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی ہاں مگر جو انسان بھی یہ جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے اسکے لئے اسے سمجھنے کے لئے صرف اسکا نام ہی کافی ہے۔۔اللہ نے انسان کو اس محبت کی بنا پر ہی تخلیق کیا۔۔
اسی لئے جو بھی انسان یہ کہتا ہے کہ اسے کبھی محبت نہیں ہوئ وہ جھوٹ بولتا ہے۔۔
یہ محبت تو انسان میں مٹی اور خون کی طرح شامل ہے۔۔
مجھے پہلی محبت میرے ماں باپ اور میری بہنوں سے ہوئ مگر شاید وہ مجھ سے محبت نا کرتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔۔
پھر مجھے دوسری محبت مس مریم سے ہوئیں وہ بھی نا پائیدار نکلی۔۔
وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔۔
اور پھر مجھے تیسری محبت وقار احمد میرے شوہر سے ہوئ جو اوپر بیان کئ گئ تمام محبتوں سے شدید ہے اتنی شدید کہ اس نے مجھے بزدل بنا دیا۔۔
تب میں نے سوچا کہ یہ محبت ایسی کیوں ہے آخر اس محبت میں انسان کو تکلیف ہی کیوں ملتی ہے یہ اتنی نا پائیدار کیوں ہے؟
اور پھر اگر یہ محبت اللہ نے ہم سے چھیننی ہی ہوتی ہے تو وہ ہمیں عطاء کیوں کرتا ہے یہ رشتے یہ دنیا یہ محبت اللہ نے کیوں بنائ ۔۔
اور پھر ہر انسان محبت میں کہیں نا کہیں ضرور ٹوٹتا ہے روتا ہے۔۔
آخر کیوں ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔
پھر مجھے یاد آیا جب بھی کوئ بھی انسان محبت میں ٹوٹتا ہے اسے دکھ ملتا ہے یا اسکی رسائ محبت تک نہیں ہو پاتی۔۔
تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے اسکے سامنے جا کھڑا ہوتا ہے وہ اللہ کہنا سیکھ لیتا ہے۔۔
اور اللہ کبھی اسے اسکی مانگی جانے والی محبت دے دیتا ہے کبھی نہیں دیتا اور کبھی دے کر واپس لے لیتا ہے۔۔
یہاں سے محبت کی آزمائش شروع ہوتی ہے۔۔
اور جو اس آزمائش میں پورا اتر جائے وہ پا لیتا ہے وہ حقیقت پا لیتا ہے اس محبت کی پہیلی کی حقیقت اور پھر وہ سیر ہو جاتا ہے پھر بس اسے کچھ پانے کی خواہش نہیں رہتی ۔۔
☆☆☆☆☆☆محبت اور آزمائش☆☆☆☆☆☆☆
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور میں نے غور و فکر کرنا شروع کیا تو مجھے پتا چلا کہ یہ محبت ایک عطاء ہی نہیں بلکہ ایک آزمائش بھی ہے اللہ کی طرف سے لی جانے والی آزمائش۔۔
وہ انسان کو اس دنیا میں اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرے۔۔
اور پھر۔۔
وہ اسکے دل میں اس دنیا کی محبت ڈال دیتا ہے مختلف رشتوں کی صورت میں اور پھر وہ ان سے بھی محبت کرنے کا حکم دیتا ہے۔۔
اور جب انسان ان انسانی رشتوں کی محبت میں بہت بری طرح گرفتار ہو جاتا ہے جب اسکی محبت میں شدت آ جاتی ہے جب اسکی محبت عروج پر ہوتی ہے تو اللہ پھر اس سے یہ محبت چھین لیتا ہے۔۔
اسے اپنے لئے ایسی محبت بھی قبول نہیں کہ جس میں انسان اپنے سب رشتوں کو بھول کر کسی بیابان میں جا کر سائیں بن کر بیٹھ جائے۔۔
کیونکہ اگر وہ خودی اپنے رشتوں کی محبت سے دستبردار ہو جائے گا تو پھر آزمائش کیسے لی جائے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پارلر سے نائلہ کی کٹنگ اور فیشل کروانے کے بعد اسے سیدھا عاصمہ ممانی کی طرف ہی لے آئ تھی۔۔
مہرماہ نے گیٹ کے قریب آ کر گاڑی کا ہارن دیا تو اسے دیکھتے ہی گارڈ نے گیٹ کھول دیا اور وہ گاڑی ڈرائیور وے پر چڑھاتی ہوئ گیراج تک لے آئ۔۔
اب وہ گاڑی سے نکل کر نائلہ کے لئے دروازہ کھول رہی تھی میڈم پلیز کم ۔۔آپکی بیسٹ فرینڈ کا گھر آ گیا ہے۔۔
اور نائلہ نے باہر نکلتے ہی مہرماہ کو گلے لگا لیا تھا۔۔
مہرماہ تم کتنی پیاری ہو میرا کتنا خیال رکھتی ہو مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو۔۔تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گی نا میرے ساتھ۔۔
اوہ آپی آپ کبھی کبھی کیسی باتیں کرتی ہیں؟
آپ میری مدر ہیں آپکا خیال رکھنا آپ سے پیار کرنا میرا فرض ہے اور کیا کبھی کوئ بیٹی بھی اپنی ماں کو چھوڑ سکتی ہے؟
اور نائلہ اسی بات سے تو ڈرتی تھی کہ جس دن اسے یہ حقیقت معلوم ہو گئ کہ میں اسکی حقیقی ماں نہیں تب کیا ہو گا کیا تب بھی مہرماہ میرے ساتھ ایسے ہی رہے گی۔۔
مہرماہ ایک بات پوچھوں؟
نہیں دو پوچھیں۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی وہ دونوں باتیں کرتی کرتی اب گھر کے مین ڈور کی طرف آ رہی تھیں۔۔
اگر میں تمہاری ماں نا ہوتی تو کیا تب بھی تم مجھے ایسے ہی پیار کرتی ؟
پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ میری ماں نا ہوتی تو پھر میرے ساتھ بھی نا ہوتی اور ظاہر ہے تب حالات مختلف ہوتے مگر میں نے کبھی اس بارے میں سوچا نہیں۔۔
I mean
جیسا ہے ہی نہیں میں ویسا کیوں سوچوں؟
اب وہ دونوں مین ڈور کھول کر اندر داخل ہو چکی تھیں اور عاصمہ انہیں وہی بیٹھی نظر آ گئ تھی وہ نائلہ کو دیکھتے ہی اٹھ کر خوشی سے اسکی جانب بڑھی تھی اور پھر قریب آتے ہی اس نے نائلہ کو گلے لگا لیا تھا۔۔
شکر ہے تم آ گئ میں کتنے دنوں سے تمہیں یاد کر رہی تھی۔۔
اور اب وہ مہرماہ کو گلے لگا کر پیار کر رہی تھی تم کیسی ہو میڈم وہ بھی اسی کے انداز میں بولی تھیں۔۔
مجھے تو لگا تھا کہ آج آپ اپنی بیسٹ فرینڈ کو دیکھ کر مجھے بھول ہی گئیں ایسا کہتے ہوئے مہرماہ نے معصوم سا منہ بنایا تھا۔۔
کیا تم بھی کوئ بھولنے کی چیز ہو؟
عاصمہ نے اسکے گال پر تھپکی دیتے ہوئے کہا تھا۔۔
اچھا آپ یہ بتائیں کہ میری آپی کسی لگ رہی ہیں وہ نائلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی جو اب تک اپنی چادر اتار کر گلے میں دوپٹہ لے کر صوفے پہ بیٹھ چکی تھی؟
عاصمہ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا یہ تم نے کیا کیا نائلہ؟
اور وہ ساتھ ہی بولی تھی دیکھا نہیں اچھی لگ رہی نا یہ سب مہرماہ نے کروایا ہے میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی یہ باز نہیں آئ اب پتا نہیں امی اور مامی کیا سوچیں گیں مجھے اس حلیے میں دیکھ کر۔۔
ارے بیوقوف تم تو بہت اچھی لگ رہی ہو اور مہرماہ نے کیا غلط کیا اتنی اچھی تو لگ رہی ہو یقین مانو تم تو 30 کی بھی نہیں لگ رہی۔۔
اور مہرماہ نے نائلہ کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارہ کیا تھا کہ دیکھا میرا کمال؟
بس میں نے کہا تھا نا آپی اب وہ اسکے ساتھ ہی صوفے پر آ بیٹھی تھی۔۔مہرماہ کبھی کچھ غلط کر سکتی ہے کیا؟
اور وہ دونوں ہی اسکی اس بات پر کھل کر مسکرا دی تھیں۔۔
تبھی وہ بھی وہاں نمودار ہوا تھا اور اسکے قدموں کی آہٹ سنتے ہی مہرماہ نے اسے دیکھنے کے لئے اپنی لانبی پلیکں اٹھائیں تھیں۔۔
وہ شاید آفس جانے کے لئے تیار ہوا تھا تبھی اس نے بلیک ڈریس پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا اسکی سیاہ آنکھیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھیں اسکی کشادہ پیشانی کو کہیں کہیں اسکے سیاہ گھنے بال چوم رہے تھے۔۔
اسکا سیتواں ناک اپنے مغرورانہ انداز میں بلکل سیدھا کھڑا تھا اسکا چہرہ بھرا ہوا تھا۔۔
اس کی ہلکی ہکلی بڑھی ہوئ داڑھی اسکے چہرے کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔۔
اسکا رنگ بلکل صاف تھا مگر اتنا گورا نا تھا جو لڑکوں پر جچتا نہیں۔۔
وہ 6 فٹ دراز قد کا مالک تھا اسکا سینہ بہت کشادہ تھا اسکا جسم بھرا ہوا تھا۔۔
اور اس نے مہرماہ کو دیکھتے ہی اپنا ہلکا گلابی نچلا لب اپنے دانتوں تلے دبایا تھا۔۔
اور پھر اپنی نظروں کا مرکز اس حسن کی مورتی کو بنانے کی کوشش کی تھی مگر وہ اسکی نظروں کی تاب نا لاتے ہوئے اپنی آنکھوں کو نائلہ اور عاصمہ کی طرف متوجہ کر چکا تھا۔۔
بہت مشکل تھا اسکے لئے اس دنیا میں مہرماہ کو یوں نظر انداز کرنا پھر بھی وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا۔۔
نجانے کب سے وہ دونوں یونہی اپنے دل کہ ایک خفیا خانے میں ایک دوسرے کے لئے محبت کہ جذبات لئے بیٹھے تھے مگر ہر بار وہ دونوں ہی اپنی انا کے ہاتھوں ہار جاتے تھے۔۔
مگر کسی نا کسی کو تو اپنی انا ختم کرنا ہی تھی ورنہ یہ انا انکی محبت کو کھا جائیگی۔۔
یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا کہ آخر ان دونوں میں سے کس کے لئے انا اہم تھی اور کس کے لئے محبت۔۔
اب وہ انکی جانب بڑھا تھا۔۔
اسلام و علیکم پھپھو کیسی ہیں آپ اس دفعہ بہت دنوں بعد ہماری یاد آئ۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ بھی ساتھ والے صوفے پر اپنے شاہانہ انداز میں براجمان ہو چکا تھا۔۔
اور اسکی بات کا جواب نائلہ کی بجائے مہرماہ کی طرف سے دیا گیا تھا۔۔
ہمیں تو پھر بھی آپکی یاد آ ہی گئ مگر اپکو تو نہیں آئی نا؟
اب وہ براہ راست ہارون سے مخاطب تھی۔۔
وہ دراصل ایسی بات نہیں۔۔شاید وہ اسے کوئ وضاحت دینا چاہ رہا تھا مگر اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑی تھی۔۔
ہمیں بھی بہت سی مصروفیات ہوتی ہیں مگر ظاہر ہے اپنوں کے لئے ان مصروفیات کے باوجود وقت نکالنا ہی پڑتا ہے۔۔
وہ بھی اپنے نام کی مہرماہ وقار احمد تھی وہ کب کسی کو کوئ وضاحت دینے کا موقعہ دیتی تھی۔۔
ہاں بکل ٹھیک کہا تم نے اس لئے تو میں نے آج آپ دونوں کو دیکھتے ہی اپنا آفس جانا کینسل کر دیا۔۔
وہ بھی اپنے نام کا پورا تھا اس نے بھی ہار ماننا نہیں سیکھی تھی۔۔
اوکے تو آپ سب ریڈی ہو جائیں پھر آج ہم سب باہر ہی لنچ کریں گے۔۔
نہیں پہلے ثناء تو آ جائے۔۔مہرماہ ثناء کو کبھی بھی نا بھولتی تھی ان دونوں کی آپس میں بہت اچھی دوستی تھی۔۔
اوہ ہاں بس وہ آنے ہی والی ہو گی ویسے اگر تم اسے آنے سے پہلے کال کر لیتی تو وہ آج یونیورسٹی جاتی ہی نا۔۔
میں اسے سرپرائز دینا چاہتی تھی اسی لیے پلیز آپ بھی اسے یہ مت بتائیے گا کہ میں اس وقت یہاں ہوں۔۔
اوکے ایز یو وش وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔
اچھا بچوں تم دونوں یہاں بیٹھ کر باتیں کرو ہم کمرے میں جا رہے ہیں۔۔عاصمہ نے ہارون اور مہرماہ سے کہا تھا۔۔
نہیں مہرماہ بھی ہمارے ساتھ ہی چلے گی چلو آو مہرماہ۔۔
کیا ہو گیا ہے نائلہ رہنے دو اسے یہاں ہمارے ساتھ بور ہو جائے گی وہ اور ثناء تو گھر پر ہے نہیں ہارون کے ساتھ ہی بیٹھی رہنے دو۔۔
اس سے پہلے کہ نائلہ کچھ بولتی ۔۔ہارون خود ہی بول پڑا تھا نہیں مما آپ مہرماہ کو ساتھ ہی لے خائیے وہ ایکچوئلی مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے۔۔ایکس کیوز می پلیز۔۔یہ کہتے ہی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے باہر سوئمنگ پول کی جانب چلا گیا تھا اور مہرماہ اسے دور تک جاتا دیکھ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرماہ کبھی بھی نائلہ کا یہ رویہ نہیں سمجھ پائ تھی اس نے کبھی بھی مہرماہ پر غصہ نہیں کیا تھا لیکن پتا نہیں کیوں وہ جب بھی ہارون کے بارے میں کوئ بات کرتی یا اس کے ساتھ ہوتی تو نائلہ کا رویہ بہت عجیب سا ہو جاتا تھا وہ کبھی بھی اسے زیادہ دیر تک ہارون کے ساتھ نہیں رہنے دیتی تھی۔۔
ایک دن اس نے نائلہ سے پوچھ ہی لیا۔۔
اپی آپ ہارون سے اتنا چڑتی کیوں ہیں؟
کیا مطلب میں کیوں چڑوں گی اس سے بلکہ میں تو بہت پیار کرتی ہوں اس سے میرا بھتیجا ہے وہ اور ہمارے خاندان کا پہلا بچہ۔۔
تو پھر میں جب بھی اسکے ساتھ ہوتی ہوں تو آپ اتنا عجیب react کیوں کرتی ہیں؟
ایسی کوئ بات نہیں۔۔
آپ مجھے ڈبل کراس نہیں کر سکتیں آپ کبھی بھی اسے میرے ساتھ نہیں رہنے دیتی کیوں؟
تم اسکے ساتھ کیوں رہنا چاہتی ہو وہ لگتا کیا ہے تمہارا؟
میرا کزن ہے بس اور کیا۔۔
اور بھی کچھ ہے مہرماہ اور بھی کچھ ہے اور وہ یہ کہ وہ ایک نا محرم ہے یہ بات کبھی مت بھولنا کہ نا محرم مرد پر کیا جانے والا بھروسا عورت کو رسوائ کے سوا کچھ نہیں دیتا۔۔
اوہ وہ نائلہ کی یہ بات سن کر تو سناٹے میں ہی چلی گئ تھی۔۔
آپی آپ آپ مجھے ایسا سمجھتی ہیں؟میں آپکی بیٹی ہوں اور آپ مجھے اتنا کم جانتی ہیں؟
آپ نے یہ سب کیسے سوچ لیا کہ میں کبھی بھی اپنی limits کراس کر سکتی ہوں؟
میری تربیت و تعلیم اتنی کمزور تو نہیں۔۔یہ کہتے ہوئے مہرماہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئ تھی۔۔
اور نائلہ سے اسکی آنکھوں کی یہ نمی دیکھی نا گئ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ نائلہ کی کسی بات کی وجہ سے ہرٹ ہوئ تھی۔۔
نائلہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا نہیں مہرماہ میری جان میرا یہ مطلب نہیں تھا میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ تمہیں کبھی بھی زندگی میں کوئ پچھتاوا نا ہو تمہیں کبھی بھی کوئ دکھ نا پنہچے۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے آپی کہ ایک انسان کو کبھی کوئ دکھ نا پہنچے ایسا نا ممکن ہے ہم چاہے کتنا بھی بچ لیں کتنی بھی کوشش کر لیں مگر جو دکھ ہماری قسمت میں لکھ دئیے گئے ہوں ان سے ہم بھاگ نہیں سکتے بس ہر انسان اپنی تقدیر کے اگے بے بس ہے۔۔
بس پچھتاوا ان لوگوں کو ہوتا ہے جو اپنی قسمت سے لڑائ شروع کر دیتے ہیں اور لاحاصل کے پیچھے دوڑ لگا دیتے ہیں وہ اپنی پوری زندگی اس لاحاصل کے پیچھے دوڑتے دوڑتے گزار دیتے ہیں وہ کبھی اس قید سے رہا ہونا ہی نہیں چاہتے۔۔
تو پھر غلطی تو انسان کی اپنی ہی ہوئ نا۔۔
میرا ماننا ہے کہ انسان کو خواب بھی دیکھنے چاہئیے اسے خواہشات بھی رکھنی چاہئے مگر اسے کبھی بھی میانہ روی اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے ۔۔
آپ جانتی ہیں انسان غلطی کہاں کرتا ہے؟
وہ غلطی وہاں کرتا ہے جہاں وہ ان مصیبتوں کا سامنا کرنے کی بجائے انہیں سرے سے ہی ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔۔
میرا ماننا ہے کہ انسان کو اپنی تقدیر پر ایمان رکھنا چاہئے۔۔
آپ جانتی ہیں کہ تقدیر پر ایمان رکھنا کسے کہتے ہیں؟
اس بات پر ایمان کہ خیر و شر اللہ کی طرف سے ہے تقدیر پر ایمان کہلاتا ہے۔
اس کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب اللہ کے حکم سے ہے اور قیامت کو بھی اور قیامت کے بعد بھی اسی وحدہ لاشریک کا حکم چلے گا۔
اسے سب علم ہے اور سب اسی کے حکم سے ہے یہاں تک کہ کوئ پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں ہلتا۔۔
اسی لئے مومن پر جب کوئ مصیبت یا آزمائش آتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یقینن اس میں بھی کوئ بہتری اور اللہ کی کوئ حکمت پوشیدہ ہے۔۔
اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے واقعی مہرماہ کو سمجھنے میں کتنی بڑی غلطی کر دی وہ تو اسے نائلہ سمجھنے لگی تھی وہ اسے نائلہ بننے سے بچانا چاہتی تھی مگر وہ یہ کیسے بھول گئ کہ وہ تو مہر اور وقار احمد کی بیٹی ہے مہرماہ وقار احمد تو پھر وہ کیسے نائلہ بن سکتی ہے۔۔
وہ تو نائلہ طارق تھی جو اللہ کی آزمائش پر پورا اترنے کی بجائے اللہ کا ہی امتحان لینے چل پڑی تھی ۔
تو پھر پچھتاوا کیسے اسکا مقدر نا بنتا اسے خیر کیسے ملتا اس نے تو کبھی خیر مانگا ہی نہیں تھا اس نے تو ہمیشہ وقار احمد مانگا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار مہر کے کمرے میں آکر روز اسکی ڈائری پڑھتا تھا۔۔
اور اسے پڑھتے ہی اسکے دل میں ایسے سکون اترتا تھا جیسے کوئ اسکے زخموں پر بہت پیار سے مرہم لگا رہا ہو۔۔
وہ آج پھر اسکی ڈائری کھولے بیٹھا تھا اور اس نے وہی سے پڑھنا شروع کیا تھا جہاں سے اس نے چھوڑا تھا۔۔
☆☆☆☆☆☆ تو میں اس نتیجے پر پنہچی کہ یہ محبت ایک کڑی آزمائش ہے اللہ کی طرف سے لی جانے والی آزمائش اور وہ اس محبت کی آزمائش محبت سے ہی لیتا ہے۔۔
وہ دیکھتا ہے کہ انسان کس کی محبت میں زوز آور ہے میری یا پھر انسان کی وہ دیکھتا ہے کہ اسکے لئے کیا اہم ہے میں یا پھر مٹی سے بنا انسان۔۔
وہ انسان سے اس کی محبت اس لئے چھینتا ہے تا کہ وہ اسکی طرف برھے اسے پہچانے وہ جان جائے کہ انسان کی محبت نا پائیدار ہے۔۔
ختم ہو جانے والی فنا ہو جانے والی ہے وہ اسے بلاتا ہے اسے دکھاتا ہے کہ دیکھ یہ ہے تیری محبت؟
آ میری طرف آ اور امر ہو جا۔۔
لیکن اسکی بات سمجھنا سننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں وہ تو صرف وہی سمجھتا ہے جسے وہ ہدایت دیتا ہے۔۔
وہ تو اپنی آزمائش کے لئے بہت خاص لوگوں کو چنتا ہے اسی لئے اس محبت کو کبھی انکار نہیں کرنا چاپئے اس پر تو لبیک کہنا چاہئے۔۔
انسان کی محبت انسان کو کمزور بنا دیتی ہے وہ ڈرتا ہے اسے کھونے سے جسے اپنی محبت پر اندھا اعتماد ہو اسے صرف اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ جس انسان سے میں محبت کرتا ہوں وہ کہیں مر نا جائے اور جسے اپنی محبت پر اعتبار نہیں ہوتا اسے اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ وہ انسان مجھے چھوڑ کر کسی اور کا انتخاب نا کر لے۔۔
مگر اللہ اسکی محبت تو انسان کو بہادر بنا دیتی ہے کیونکہ وہ تو کبھی انسان کو نہیں چھوڑتا اسکی محبت کبھی مرتی نہیں اسکی محبت کبھی کم نہیں ہوتی۔۔
اور پھر جب وہ اس مقام پر پنہچ جاتا ہے جب اسکی محبت اسکا ایمان کامل ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس محبت میں ہر قسم کی قربانی کے لئے اور ہر قسم کی آزمائش کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔۔
پھر اسے ڈر نہیں لگتا پھر وہ ثابت قدم ہو جاتا ہے پھر اسے سرور آنے لگتا ہے ہر دکھ میں ہر آزمائش میں وہ اپنے رب کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش پر لبیک کہتا ہے اور اسے بطور تحفہ قبول کرتا ہے اور پھر اس آزمائش میں پودا اتر کر اپنے رب کو تحفہ پیش کرتا ہے۔۔
پھر یہ اسکا بہترین مشغلہ بن جاتا ہے اور اسے سرور ملنے لگتا ہے۔۔
مگر یہ سب اتنا آسان نہیں محبت تو سب کرتے ہیں مگر محبت نبھانا آسان نہیں محبت میں امر ہونا آسان نہیں تو جو بھی یہ پل صراط عبور کر لے اپنے نفس سے جہاد کر لے وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے۔۔
اور میں ہاں میں اب میں بھی تیار ہوں اپنے رب کی محبت پر لبیک کہتی ہوں میں امر ہونے کے لئے تیار ہوں۔۔
میں بہت محبت کرتی ہوں وقار سے بے انتہا محبت اس دنیا میں اسکے سوا میرا کوئ نہیں میں نے کبھی اسکے بغیر جینے کا تصور نہیں کیا میں دن رات اپنے رب سے بس یہی دعا مانگتی ہوں کہ وہ مجھے زندگی میں کبھی میرے محبوب کا دکھ نا دکھائے وہ مجھے بس تب تک زندہ رکھے جب تک میں وقار کو زندہ دیکھ سکوں ۔۔
مگر پھر بھی میں اپنے رب کی ہر آزمائش کے لئے تیار ہوں اب دیکھنا یہ ہے کہ میرا ایمان کامل ہو گیا ہے یا ابھی مجھے مزید آزمائش کی ضرورت ہے اور بے شک یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔۔
لوگ اس دنیا میں انسانوں کی محبت میں امر ہونا چاہتے ہیں میں تو حقیقت میں امر ہونا چاہتی ہوں اپنے رب کی محبت میں۔۔
پھر مجھے جنت بھی مل جائے گی اور جنت تک وقار کا ساتھ بھی۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆
وقار کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے اب اس میں مزید پڑھنے کی سکت نا تھی۔۔
وہ تو اپنی آزمائش پوری کر چکی تھی اس نے تو اپنی ہر رضا اپنے رب کی رضا میں شامل کر لی تھی اسی لئے تو وہی ہوا تھا جو اسکی رضا تھی اسے اتنی ہی زندگی ملی تھی جس میں اسکا وقار زندہ تھا ہر غم سے آزاد اسکے ساتھ تھا اسے اللہ نے وقار کا کوئ دکھ نا دکھایا تھا۔۔
ہاں وہ جنت تک وقار کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔۔
شاید اسی لئے اللہ نے اب کی دفعہ وقار احمد کو آزمائش کے لئے چنا تھا۔۔
وقار احمد کیسے اس سے پہلے مر جاتا اسکا تو ایمان اسکی تو محبت ابھی کامل ہی نا تھی پھر وہ مہر کے ساتھ جنت تک کیسے جاتا اسکی یہ خواہش کیسے پوری ہوتی۔۔
اب اسے اپنی آزمائش میں پورا اترنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔
نائلہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس دفعہ مامی اور امی سے مہرماہ کے رشتے کی بات کرے گی۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ مہرماہ کو کوئ بھی دکھ پہنچے اور وہ یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ مہرماہ ہارون کے لئے اپنے دل میں محبت کے لطیف جذبات رکھتی ہے۔۔
عارفہ اور ساجدہ بیگم ابھی بھی گاوں کی حویلی میں ہی رہتی تھی سب نے بہت کوشش کی کہ وہ بھی انکے ساتھ ہی رہیں مگر عارفہ بیگم نے صاف انکار کر دیا انکا کہنا تھا کہ یہاں انکے مرحوم شوہر کی یادیں ہیں جنہیں چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جائیں گیں وہ اپنے آخری دم تک اس حویلی کو نہیں چھوڑیں گی طارق صاحب کا بھی اسی حویلی میں انتقال ہوا اور پھر ساجدہ بیگم کا بھی یوں عارفہ کو اکیلا چھوڑ کر جانے کو دل نا چاہا۔۔
ہاں مگر وہ دونوں اکثر ہی اپنے بچوں سے ملنے کے لئے شہر آجایا کرتی تھیں۔۔
ساجدہ بیگم ہمیشہ اپنے بیٹے سفیان کے گھر اور عارفہ وقار احمد کے پاس رکتی تھیں۔۔
مگر اس دفعہ مہرماہ ساجدہ بیگم سے سخت ناراض تھی کہ وہ اسکی بھی نانو ہیں تو کبھی انکی طرف کیوں نہیں رہتی۔۔
مہرماہ نائلہ کی سگی اولاد نا تھی مگر پھر بھی وہ اتنی پیاری بچی تھی کہ کوئ بھی اسے دیکھ کر پیار کئے بنا رہ ہی نا پاتا اس نے اپنی محبت اور اخلاق سے سب کے دلوں میں اپنا ایک الگ ہی مقام بنا رکھا تھا۔۔
ہر کوئ اسے بہت چاہتا تھا وہ تھی ہی چاہے جانے کے قابل۔۔
اسی لئے اسکی خوشی کی خاطر ساجدہ بیگم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس دفعہ وہ نائلہ اور وقار کے پاس ہی رہیں گی۔۔
وہ دونوں آج وقار احمد کے گھر آ رہی تھیں اور مہرماہ تو اتنی خوش تھی کہ اس نے اپنی یورنیورسٹی سے بھی آف کر لیا تھا۔۔
اور اب وہ نائلہ کے ساتھ کچن میں کھڑی اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔
پتا ہے آپی اس دنیا میں شاید ہی کوئ آپ جیسا اچھا کھانا بناتا ہو اس نے ایک کباب کھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
اب ایسی بھی بات نہیں۔۔
ہو سکتا ہے لیکن مجھے تو جو ٹیسٹ اپکے ہاتھ سے بنے ہوئے کھانے کا آتا ہے نا وہ دنیا کے کسی بھی بہترین شیف کے ہاتھ میں نہیں ہو سکتا آپ میری ماں ہیں نا اس لئے۔۔
اب اس نے اپنی بانہیں نائلہ کے گلے میں ڈالتے ہوئے اسے hug کر لیا تھا۔۔
I love you soo much آپی
آپ دنیا کی سب سے اچھی ماں اور بابا جانی دنیا کے سب سے اچھے father ہیں میں آپ دونوں کے بغیر کبھی جینے کا تصود بھی نہیں کر سکتی نا میں آپکے بغیر رہ سکتی ہوں او نا ہی بابا جان کے بغیر۔۔
اسکی باتیں کچن میں داخل ہوتے وقار احمد نے سن لی تھیں آج اسے آفس لیٹ جانا تھا اسی لئے وہ ابھی تک گھر ہی تھا اور اسے جب رات مہرماہ دودھ کا گلاس دینے آئ تو وہ اسے بتا چکی تھی کہ صبح وہ یونیورسٹی سے آف کرے گی اسی لئے وہ مہرماہ کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک آ گیا تھا۔۔
وہ سوچ رہا تھا کتنی عجیب بات ہے نا کہ اس نے نائلہ کو کبھی کچھ نہیں دیا کبھی اس سے کچھ نہیں چاہا پھر بھی اس نے اسے وہ سب کچھ دیا تھا جو اسکا فرض بھی نہیں تھا۔۔
کبھی کبھی اسے نائلہ سے بے پناہ ہمدردی محسوس ہوتی تھی۔۔
اب وہ اپنے مخصوص انداز میں انکی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کی خاطر بولا تھا۔۔
ہیلو بیوٹی کوئین۔۔
اور اب مہرماہ نائلہ کو چھوڑ کر وقار کی جانب بڑھی تھی ۔۔
بابا جانی پلز آپ آج افس نہیں جائیں نا پلیز۔۔
اور آپ نے بیوٹی کوئین کہا جبکہ ہم تو دو ہیں یہاں آپ مجھے بھول گئے نا جائیں میں آپ سے بات نہیں کرتی اس نے روٹھے روٹھے انداز میں کہا اور نائلہ سوچ رہی تھی کہ مہرماہ کتنی انجان ہے وہ جانتی تھی کہ وقار نے مہرماہ کو نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح اسکے وجود کو نظر انداز کیا ہے۔۔
اور پھر اس نے اپنا رخ واپس موڑ لیا تھا۔۔
اوہ سوری ڈئیر خیر ہم ابھی اپنی بات کی تصیح کئے دیتے ہیں۔۔
جی تو ہیلو بیوٹی کوئینز۔۔
اور اس بات پر نائلہ پلٹ کر اسے دیکھے بنا رہ نا سکی تھی کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا ورنہ وہ تو کبھی بھی یوں نائلہ سے مخاطب نا ہوا تھا وہ تو مہرماہ کے کہنے پر بھی بات کو یوں گول کر جاتا تھا کہ وہ معصوم سمجھ ہی نا پاتی تھی مگر نائلہ وہ تو سب جانتی تھی نا۔۔
اور نائلہ کو یوں حیران ہوتا دیکھ کر وقار نے ایک مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی تھی اور اسے اپنی آنکھوں پر یقین نا آیا تھا۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے اگر مہرماہ یہاں موجود نا ہوتی تو وہ وقار احمد کو چھو کر اس بات کی یقین دہانی ضرور کرتی کہ یہ حقیقت تھی یا پھر اسکا وہم۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار احمد جان چکا تھا کہ اب اسے صبر کرنا ہے اور اپنے اللہ کی آزمائش پر پورا اترنا ہے مگر کیا وہ نائلہ کا دل دکھا کر کبھی جنت میں داخل ہو پایئگا رب تو اسکے گناہ معاف کر دے گا لیکن اگر نائلہ نے اسے معاف نا کیا تو پھر کیا ہو گا وہ کیسے اپنی مہر کے ساتھ جنت میں داخل ہو سکے گا۔۔
اس نے ایک جیتی جاگتی انسان کا دل دکھایا تھا اور اب اسے مداوا کرنا تھا اسے اپنے امتحان میں پورا اترنا تھا۔۔
وہ اس قابل تو نہیں تھی جو اس نے اسکے ساتھ کیا تھا وہ اسکی زندگی میں یہجانتے ہوئے داخل ہوئ تھی کہ وقار احمد اسے کچھ بھی نہیں دے پائے گا۔۔
وقار نے نکاح سے پہلے ہی اسے یہ بتا دیا تھا کہ وہ نائلہ کو اپنی زندگی میں کچھ بھی نہیں دے پائے گا اسی لئے اگر وہ چاہے تو اس نکاح سے انکار کر سکتی ہے۔۔
مگر پھر بھی اس نے انکار نہیں کیا وہ خاموشی سے اسکی زندگی میں شامل ہو گئ تھی اس نے کبھی وقار سے کوئ گلہ نا کیا تھا کبھی اس سے کچھ پوچھا نا تھا کبھی اسے یہ بتانے کی کوشش نا کی تھی کہ وہ اسکی بیوی ہے کبھی بھی اس سے اپنا حق نا مانگا تھا پھر بھی وہ وقار کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی۔۔
اور مہرماہ کو اس نے اتنا پیار دیا تھا کہ آج تک وہ اس بات سے انجان تھی کہ اس نے نائلہ کی کوکھ سے جنم نہیں لیا۔۔
وقار نے تو اپنی زندگی کی ہر خوشی مہر کے ساتھ جی لی تھی اس نے اپنے خواب اپنا پیار اپنی محبت مہر کے ساتھ پوری کر لی تھی مگر نائلہ کو کیا ملا تھا کچھ بھی نہیں حالانکہ وہ اسکے نکاح میں تھی اسکی بیوی تھی پھر بھی وہ اسے کبھی بیوی نہیں سمجھا تھا۔۔
کیا اسکا گناہ اتنا بڑا تھا نہیں وقار احمد نہیں اس نے کوئ گناہ نہیں کیا تھا اس نے تو بس محبت کی تھی ایک معصوم سی محبت۔۔
وہ اسے کبھی بھی محبت نہیں دے سکتا تھا کیونکہ اس نے تو اپنی ساری محبتیں مہر کو سونپ دی تھی جو انہیں اپنے سنگ لئے قبر کی مٹی میں جا سوئی تھی۔۔
مگر وہ سمجھوتا تو کر ہی سکتا تھا نا وہ صبر تو کر ہی سکتا تھا نا وہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کئے بغیر اپنے نفس سے جہاد کئے بغیر کیسے مومن بن سکتا تھا۔۔
اگر اس نے اپنے رب کی ہر رضا میں اپنی رضا شامل کر لی تھی تو پھر اسے نائلہ کو بھی قبول کرنا تھا۔۔
اس سے محبت نا ہونے کے باوجود صبر کے ساتھ اس سے سمجھوتا کرنا تھا۔۔
آخر وہ اسکی بیوی تھی اور اس میں ایسا کوئی بھی عیب نا تھا جس کی اسے سزا دی جاتی۔۔
وہ نا تو بدزبان تھی ، نا ہی نا فرمان ، اور نا ہی بدکردار۔۔
پھر کیوں وہ اسے کس بات کی سزا دے رہا تھا اخر وہ کون تھا غلط و درست کا فیصلہ کرنے والا وہ کون تھا یہ خیر و شر جاننے والا وہ تو ایک مٹی کا انسان تھا۔۔
اسے مہر کی ڈائری میں لکھی گئ قرآن پاک کی کچھ آیات یاد آئ تھیں۔۔
"البتہ تمہیں تمہارے مالوں اور تمہاری جانوں کے بارے میں ضرور آزمایا جائے گا اور تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ، ضرور تکلیف دینے والی باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختار کرو تو بے شک یہ بڑی ہمت والا کام ہے"(العمران:186 )
"چنانچہ تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد کرونگا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نا کرو ۔ اے ایمان والو! تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"(البقرہ:152-153 )
"ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اور ہم تمہیں پرکھنے کے لئے برائ اور بھلائ سے آزماتے ہیں اور آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے"(الانبیاء:35 )
"نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر ، (آسمانی) کتابوں اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال سے محبت کے باوجود اسے رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سوال کرنے والوں اور گردنیں چھڑانے کے لئے خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکات دے اور (نیکی ان کی بھی ہے ) جب عہد کر لیں تو اپنا عہد پورا کریں اور تنگدستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کریں ، وہی لوگ سچے اور وہی پرہیزگار ہیں۔"[البقرہ:177 ]
اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی اور اس نے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔۔
بے شک ایمان والے اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر شام ہی عارفہ اور ساجدہ بیگم وقار ولا پنہچ گئ تھیں مہرماہ ، نائلہ اور وقار احمد انہیں بہت گرمجوشی سے ملے تھے اور ان تینوں نے انکا پر تپاک استقبال کیا تھا۔۔
انہوں نے سفیان طارق کو بھی اسکی پوری فیملی کے ساتھ ڈنر پر مدعو کیا تھا۔۔
اور مہرماہ چھ بجے سے ہی ساری تیاریوں میں لگ گئ تھی پہلے اس نے نائلہ کا لائٹ سا میک اپ کر کے اسے تیار کر دیا تھا اور پھر وہ اسے وقار احمد کے پاس سٹڈی میں لے آئ تھی۔۔
بابا جان دیکھیں آپی کیسی لگ رہی ہیں؟
اور وقار نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تھا نائلہ اچھی لگ رہی ہو۔۔
اور یہ نائلہ کے لئے آج دوسرا حیرت کا جھٹکا تھا۔۔
آج ایسا کیا تھا اس میں کہ وہ وقار احمد کو اچھی لگی تھی اس سے پہلے تو مہرماہ جب بھی وقار کو اسکی تعریف کرنے کے لئے کہتی اسکا یہی جواب ہوتا تھا مہرماہ تمہاری مما سے زیادہ خوبصورت تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا وہ مما لفظ پر بہت زور دیتا تھا تا کہ نائلہ جان جائے کہ وہ اسکی ماں مہر کے بارے میں بات کر رہا ہے۔۔
مگر آج۔۔
آج تو وہ نائلہ کا نام لے کر بولا تھا۔۔
دیکھا آپی میں نے کہا تھا نا کہ آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔۔
خیر بابا جان اب ہم چلتے ہیں آپ ارام سے اپنا مطالعہ کا شوق پورا کریں۔۔
اور پھر وہ نائلہ کو واپس اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے آئ تھی۔۔
اور ان دونوں کےجاتے ہی وقار احمد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے وہ اپنی کتاب میں رکھی گی مہر کی تصویر دیکھ رہا تھا۔۔
وہ کبھی بھی ایک لمحہ کو بھی اسے نہیں بھول پایا تھا کتنا مشکل تھا اس کے لئے یہ سب کتنا کٹھن تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔
اس نے مہر کو اپنے ہاتھوں سے کس ہمت سے لحد میں اتارا تھا یہ وہی جانتا تھا اسکا جی چاہ رہا تھا کہ وہ مہر کو لے کر کہیں بھاگ جائے مگر پھر بھی اپنے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے اپنی ہی جان کو مٹی کے نیچے دفن کر دیا تھا۔۔
اسکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وقار مہر کو بھول جائے وہ دنیا کے لئے مر گئ تھی۔۔
لیکن وہ اس میں زندہ تھی اسکی کوئ سانس ایسی نا تھی جس میں مہر نا ہوتی۔۔
وہ چلتا تھا تو وہ اسکے ساتھ ساتھ قدم رکھتی تھی۔۔
وہ آنکھیں بند کرتا تھا تو وہ اسکے سامنے آ کھڑی ہوتی تھی۔۔
وقار میں جنت تک تمہارے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔۔
میں تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی وقار میں دن رات اللہ سے تمہاری زندگی اور تندرستی کی دعا کرتی ہوں اور میرا اپنے اللہ پر کامل یقین ہے کہ وہ میری دعا ضرور سنے گا۔۔
ہاں اسکا یقین پورا ہو گیا تھا وہ زندہ تھا۔۔
وہ زندہ تھا۔۔
وہ جب بھی اسکے اور اپنے کمرے میں آتا تو وہ اسکے بیڈ پر دلہن بنی بیٹھی اسے کہہ رہی ہوتی میں یہی ہوں وقار اور ہمیشہ یہاں رہوں گی میں کہیں نہیں جاوں گی۔۔
اور واقعی وہ وہی تھی وہ کہیں بھی نہیں گئ تھی ۔۔
اے میرے اللہ مجھ سے ناراض مت ہونا میں تجھ سے کوئ شکوہ نہیں کرتا کوئ شکایت نہیں کرتا اے میرے رب اے دو جہانوں کے مالک میں اک معمولی سا انسان ہوں میں صبر کرتا ہوں مگر میں کیا کروں میرے آنسو میرے اختیار میں نہیں تو مجھ سے ناراض مت ہونا میرے رب میں تیری عبادت کرتا ہوں اور تجھی سے مدد مانگتا ہوں مجھے صبر جمیل عطاء کر۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرماہ نے بلیک کلر کی لانگ امبریلا فراک پہنی تھی جس پر وائٹ اور بلیک ایمبرائڈری کی گئی تھی ۔۔
اس نے اپنی سبز آنکھوں میں بلیک لائنر لگایا تھا اور اپنے ہونٹوں پر ہلکا سا ریڈ کلر کا لپ گلاس لگایا تھا۔۔
اب وہ اپنے lower back تک آتے بالوں کا جوڑا بنا رہی تھی اور پھر اسنے اپنے سر پر بلیک سکارف لپیٹ لیا تھا اور اب ایک سکن کلر کی چادر سے اس نے اپنے جسم کے زاویے کو نمایاں ہونے سے چھپا لیا تھا۔۔
اب وہ اپنے دودھیا پاوں میں بلیک ہیلز پہن رہی تھی ۔۔
نائلہ کی تو اس کے چہرے سے نظر ہی نا ہٹ رہی تھی وہ بلکل اپنی ماں پر گئ تھی۔۔
نائلہ نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چومتے ہوئے اسکے سر پر سے پیسے وار کے شکیلہ کو آواز دی تھی۔۔
اور پھر نائلہ کمرے سے باہر چلی گئ تھی۔۔
اسے گاڑیوں کے ہارن کی آواز آئی تھی مگر وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں گئ تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا وہ اسکی کمی محسوس کرتا ہے کیا اسکی آنکھیں اسے ڈھونڈتی ہے۔۔