وقار نے گھر سے نکلتے ہی فاطمہ کو کال کر کے کہہ دیا تھا کہ آج مہر کے پاس گھر چلی جاو کیونکہ آج میرا دل بہت گھبرا رہا ہے مگر مجھے ایک ضروری meeting کے سلسلے میں آنا پڑا ہے۔۔
فاطمہ کبھی بھی وقار کی کہی گئ بات ٹالتی نا تھی کیونکہ وہ کم و بیش ہی اسے کوی کام کہتا تھا۔۔
اسی لیے آج فاطمہ نے ہاسپٹل سے آف کر لیا تھا۔۔اور ابھی فاطمہ راستے میں ہی تھی جب اسے وقار کی کال آ گئ۔۔
فاطمہ تم کہاں ہو؟
کیوں کیا ہوا؟ میں راستے میں ہوں وقار بلکہ تمہاری بیگم کے پاس پنہچنے ہی والی ہوں بس مزید دو تین منٹ ہی لگیں گے۔۔
وہ فاطمہ مہر میری کال رسیو نہیں کر رہی میں کافی دیر سے ٹرائ کر رہا ہوں تم گھر پنہچتے ہی اس سے میری بات کرواو اور سنو۔۔
ہاں ؟
کال مت کاٹنا پلیز۔۔
اوکے اوکے نہیں کاٹتی تم ہولڈ کرو میں گیٹ پر پنہچ گئ ہوں۔۔
اسے دیکھتے ہی گارڈ نے گیٹ کھول دیا تھا اور پھر وہ اپنی گاڑی لئے گیراج میں آ گئ تھی۔۔
اور پھر گاڑی پارک کرنے کے بعد اب وہ لان سے ہوتی ہوئی گھر کے مین ہال کے دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔
اب وہ ساتھ ساتھ وقار سے بھی بات کر رہی تھی۔۔
یہ لو وقار میں بس پنہچ گئ ہوں اور اب مین ہال میں اینٹر ہو رہی ہوں۔۔
وہ مین ہال کی اینٹرنس پر ہی مہر کو آوازیں دینے لگی تھی۔۔
مہر۔۔
مہر۔۔
اور جب وہ تھوڑا آگے بڑھی تو سامنے کا منظر دیکھتے ہی فاطمہ کے حلق سے ایک دلخراش چینخ نکلی تھی۔۔
وہ اسکا نام لے کر چلائ تھی۔۔
مہرررررر۔۔
اور وقار نے فون پر اسکی چینخ سن لی تھی۔۔
ہیلو۔۔
ہیلو۔۔
فاطمہ کیا ہوا؟
کیا ہوا فاطمہ مجھے بتاو پلیز۔۔پلیز مجھے بتاو مہر ٹھیک ہے نا؟
لیکن تب تک فاطمہ کے ہاتھ سے موبائل گر چکا تھا اور اب اسے یہ ہوش کہاں تھی کے وقار کو کچھ بتاتی۔۔
اسکی چینخ سنتے ہی صابرہ اور شکیلہ بھی گھر کے پچھواڑے سے بھاگی آئی تھیں۔۔
تم کہاں تھی؟
کہاں تھی تم ۔۔تمہیں نظر نہیں آیا؟
فاطمہ اب شدید غم و غصے کی کیفیت میں ان پر چلا رہی تھی۔۔
اس نے اپنا فون اٹھا کر جلدی سے وقار کو کہا تھا کہ تم میرے ہاسپٹل پنہچو میں مہر کو لے کر ہاسپٹل جا رہی ہوں مزید کچھ کہنے سننے کا وقت نا تھا۔۔یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا تھا۔۔
اس کے پاس اتنا وقت نا تھا کہ وہ اب ایمبولینس کو بلا کر اسکا انتظار کرتی اسی لئے اس نے جلدی سے صابرہ اور شکیلہ کی مدد سے مہر کو اپنی گاڑی میں منتقل کیا تھا اور پھر اس نے اپنی گاڑی ہاسپٹل کی جانب دوڑا دی تھی اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے اور وہ دل ہی دل میں مہر کے لئے دعا کر رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار بجلی کی سی تیزی سے اپنی گاڑی دوڑاتا ہوا ہاسپٹل پنہچا تھا۔۔
اس نے بہت مشکل سے اپنے آنسووں کو ضبط کر رکھا تھا وہ اپنی گاڑی ہاسپٹل کی پارکنگ میں پارک کر کے دیوانہ وار ہاسپٹل کی جانب بھاگا تھا اسے تو یہ بھی نا پتا تھا کہ آخر فاطمہ مہر کو کدھر لے گئ ہے وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ایمرجنسی میں ہے یا گائنی وارڈ میں وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ مہر کے ساتھ کیا ہوا بس وہ یہ جانتا تھا کہ اسکا دل بہت بری طرح گھبرا رہا تھا۔۔
وہ ریسیپشن کی جانب بڑھا تھا اور اس نے ریسیپشنسٹ سے معلومات حاصل کی تھی اس نے بتایا تھا کہ مہرماہ وقار احمد نام کی ایک patient ایمرجنسی میں گئ ہے۔۔
وہ اپنے اندر یہ پوچھنے کی ہمت پیدا نا کر سکا کہ اسے کیا ہوا ہے؟
اس کے پاوں منوں بھاری ہو رہے تھے وہ بہت مشکل سے ایمرجینسی تک پنہچا تھا اور ایمرجینسی کے باہر ہی اسے فاطمہ اور زبیدہ خاتون چئیرز پر بیٹھی نظر آ گئ تھیں اسے آتا دیکھ کر فاطمہ نے اپنے انسو صاف کر لئے تھے۔۔
اسکی آنکھیں رونے کے باعث ہلکی گلابی ہو رہی تھیں وہ بہت آہستہ سے خاموشی کے ساتھ زبیدہ خاتون کے ساتھ والی chair پر بیٹھ گیا تھا اس میں اب بھی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی کہ مہر کو کیا ہوا ہے۔۔
زبیدہ خاتون نے آگے بڑھ کر وقار کو گلے لگا لیا تھا سب ٹھیک ہو جائے گا میرے بچے سب ٹھیک ہو گا تم بھی اللہ سے دعا کرو۔۔
انہیں یہاں بیٹھے تقریبن دو گھنٹے گزر گئے تھے مگر ابھی تک کوئ ڈاکٹر باہر نہیں آئ تھی اور پھر مزید ایک گھنٹہ اور گزر گیا تھا۔۔
اور تبھی اسکی اماں جان ساجدہ بیگم اور طارق صاحب اور نائلہ وہاں پنہچے تھے اپنی اماں جان کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اسکے آنسو اسکی پلکوں سے ٹوٹ کر اسکے رخساروں تک آ گئے تھے۔۔
عارفہ بیگم سے اپنے بیٹے کی یہ حالت نا دیکھی گئ اور انہوں نے آگے بڑھ کر وقار کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔
انہیں وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب وقار دوبارہ حویلی آیا تھا وہ کتنا خوش تھا اور وہ انہیں بتا رہا تھا اماں جان آپ دادی بننے والی ہیں اور میں باپ بننے والا ہوں اماں جان پلیز اب تو اپنی ناراضگی ختم کر دیں نا آپ ایک دفعہ مہر سے مل تو لیں آپ کو بھی اس سے پیار ہو جائیگا وہ بہت اچھی ہے اماں جان۔۔
وہ کتنی آس لے کر انکے پاس آیا تھا اور عارفہ بیگم کے ایک بار پھر سے دھتکارے جانے کے باوجود بھی اس نے ہار نہیں مانی تھی بلکہ وہ انہیں یہ کہہ کر آیا تھا نہیں اماں جان آپ مجھے یہاں آنے سے نہیں روک سکتی میں پھر آوں گا اپنے baby کو لے کر۔۔
ان کا کتنا دل چاہا تھا کہ وہ وقار کو روک لیں اسے اپنے سینے سے لگا لیں مگر جب بھی انکی آنکھوں کے سامنے نائلہ کے آنسو آتے تو وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی اپنے اندر اسے معاف کرنے کی ہمت پیدا نا کر پاتیں۔۔
مگر انہوں نے یہ تو کبھی نا چاہا تھا یہ سب کیا ہو گیا تھا۔۔
وہ اماں جان کے گلے لگ کر اپنے تمام ضبط کے بندھ توڑ کر رو پڑا تھا۔۔
اماں جان اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے میں نہیں جی سکتا اسکے بغیر نہیں جی سکتا میں۔۔
زبیدہ خاتون کو جب فاطمہ نے مہر کی حالت کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اسی وقت عارفہ کو فون کر کے سب کچھ بتا دیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ آجائیں۔۔
وہ جانتی تھیں کہ ایسے حالات میں وقار کو اپنی ماں کی موجودگی سے ڈھارس ملے گی۔۔
وہ ابھی تک اپنی اماں جان کے گلے لگا ہوا تھا جب اسے ڈاکڑ کی آواز آئ۔۔
وہ فورن پلٹا تھا اور ڈاکٹر ایک ننھا سا وجود اپنے ہاتھوں میں لئے کھڑی تھی جسے فاطمہ نے پکڑ لیا تھا۔۔
اس نے آگے بڑھ کر بے چینی سے ڈاکٹر سے پوچھا تھا۔۔
ڈاکٹر میری wife کیسی ہے اس نے ڈاکٹر کو یہ بھی بتانے کا موقعہ نہیں دیا تھا کہ جو بچہ اس نے فاطمہ کو تھمایا ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی۔۔
اسکی جان تو صرف مہر میں اٹکی ہوئ تھی۔۔
اب ڈاکٹر بول رہی تھی دیکھئے مسٹر وقار احمد انکے سر پر بہت بری چوٹ آئ ہے اللہ کا شکر ہے کہ آپکی بیٹی بچ گئ لیکن آپ کی مسز کا already بہت خون ضائع ہو چکا ہے۔۔
She is totally out of her sences i mean..
وہ کومہ میں ہیں اور ابھی ہم انکے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے آپ سب دعا کریں۔۔
ڈاکٹر یہ سب بتا کر دوبارہ اندر جا چکی تھی اور وہ وہی اپنے گھٹنوں کے بل زمین پر ڈھے گیا تھا اس نے اپنا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔۔
بلاشبہ وہ ایک مضبوط مرد تھا مگر اس وقت وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔
وہ کرتا بھی تو کیا کرتا اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی زندگی اسکے ہاتھوں سے سرک رہی تھی۔۔
اسکی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آ رہا تھا جب مہر کو اس نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔۔
پھر جب مہر کو اس نے دوسری دفعہ دیکھا تھا۔۔
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
Are you real?
اور وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔۔
Are you mad?
پھر اگلے منظر میں وہ دونوں بالکونی میں کھڑے تھے وہاں آتشبازی ہو رہی تھی جسے دیکھ کر مہر بے تحاشا ہنس رہی تھی اور وہ اسے پوچھ رہی تھی ۔۔
تو کیا یہ سب آپ نے اپنی ہی ہاں کے لئے کروایا؟
اور پھر اگلے منظر میں وہ اسے کہہ رہا تھا ایک منٹ رکو نا بس میں تمہیں جی بھر کے دیکھ تو لوں اور وہ اسے پوچھ رہی تھی۔۔کیا آپ کا دل کبھی بھر سکتا ہے؟ اور وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا نہیں۔۔پھر اگلے منظر میں وہ اسکا بازو پکڑے کھڑی تھی وہ اسے کہہ رہی تھی۔۔
سنو وقار میں جنت تک تمہارے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔۔
اب عارفہ بیگم اور طارق صاحب نے آکر اسے تھام لیا تھا وہ اسے زمین سے اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
وہ کچھ بول رہے تھے شاید اسے کوئ دلاسہ دے رہے تھے مگر اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اب وہ دونوں اسے بازووں سے تھامے وہاں سے اٹھا رہے تھے اور وہ اسے وہاں پر پڑی chairs پر لے آئے تھے اب وہ اسے وہاں بٹھا رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائلہ نے کب یہ سوچا تھا کہ اسے کبھی وقار کو اس حالت میں بھی دیکھنا پڑے گا وہ کب اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ سکتی تھی نائلہ تو وہ تھی جو اسکے آنسووں کو روکنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھی کچھ بھی تو پھر یہ سب۔۔
اسے اپنے کہے گئے الفاظ یاد آئے تھے اللہ کرے وقار وہ تمہیں بھی چھوڑ کے چلی جائے اور پھر وہ کبھی تمہیں نا ملے تب تمہیں احساس ہو گا کے محبت کا دکھ کیا ہوتا ہے۔۔
یہ یہ کیا کر دیا تھا اس نے۔۔
اسے یاد آیا تھا اس نے اللہ سے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے نا مگر اب وہ اسکا امتحان لے گی اس نے کہا تھا تجھے وقار کو مجھے دینا ہی ہوگا ورنہ میں سمجھوں گی کہ تو بھی خوبصورت لوگوں سے ہی پیار کرتا ہے تجھے وقار کو واپس میرے پاس بھیجنا ہی ہو گا ورنہ میں یہ سمجھ لوں گی کہ تو بھی اپنے بندوں میں فرق کرتا ہے تیرے لئے بھی سب انسان برابر نہیں۔۔
اب اب وہ کیا کرے گی۔۔
نہیں نہیں میں وقار کو ایسے نہیں دیکھ سکتی میں۔۔میں اللہ سے اسکا پیار اسکی محبت واپس مانگ لوں گی میں وقار کو کبھی وہ دکھ وہ تکلیف نہیں پنہچنے دوں گی جو مجھے پنہچی میں وقار کے آنسو نہیں دیکھ سکتی مجھے کچھ نہیں چاہئے اے اللہ میں بہت گنہگار ہوں مجھے معاف کر دے میرے رب مجھے کچھ نہیں چاہئے بس مجھے وقار کی وہ مسکراہٹ واپس کر دے۔۔
یہ میں نے کیا کر دیا میں کب محبت میں اتنی خود غرض بن گئ یہ کیا کر دیا میں نے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے اسکے دل میں کیا خیال آیا تھا وہ اب یکدم ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا سب حیران پریشان اسے دیکھ رہے تھے کہ آخر وہ کیا کرنے والا ہے وہ ایمرجنسی کے ڈور کی جانب بڑھا تھا وہ اندر جانے ہی والا تھا کہ فاطمہ اسکے پیچھے لپکی تھی اس نے وقار کو بازووں سے پکڑ لیا تھا کیا کر رہے ہو وقار کہاں جا رہے ہو اندر جانا allow نہیں ہے۔۔
فاطمہ پلیز مجھے اندر لے چلو مہرماہ کے پاس پلیز ورنہ میں مر جاوں گا مجھے اسے دیکھنے دو ایک دفعہ پلیز مجھے لے چلو اس کے پاس میں اسے سانس لیتے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔
تم تو ڈاکٹر ہو نا تم تو لے جا سکتی ہو مجھے اندر پلیز فاطمہ میں مر رہا ہوں۔۔وہ اسکی منت کر رہا تھا۔۔
اچھا ٹھیک ہے وقار آو ہم چلتے ہیں وہ اسے اب اندر لے آئ تھی اسے I.C.U میں شفٹ کر دیا گیا تھا اب وہ اس کمرے میں داخل ہو گیا تھا جہاں اسے رکھا گیا تھا ڈاکٹرز کچھ بول رہے تھے مگر وہ کچھ نہیں سن رہا تھا اب فاطمہ آگے بڑھ کر ڈاکٹرز کو کچھ سمجھا رہی تھی۔۔
وہ بیڈ پر بلکل سیدھی لیٹی تھی اسکے ماتھے پر ایک سفید پٹی باندھی گئ تھی اسکی ناک پر ایک نالی لگی ہوئ تھی اسکی انگلیوں پر مختلف مشینوں کی وائرز اٹیچ کی گئ تھی اسے ایک آکسیجن ماسک بھی پہنایا گیا تھا اسکا رنگ بلکل زرد ہو چکا تھا اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے اسکے جسم سے پورا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔۔
اس نے مہر کے قریب آ کر اسے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تھی مگر ایک ڈاکٹر نے اسے روک دیا تھا پلیز آپ انہیں ٹچ نہیں کر سکتے کیا آپ نہیں جانتے I.C.U میں ایسے اندر آنے کی اجازت نہیں اب آپکو اگر ہم نے ڈاکٹر فاطمہ کی وجہ سے یہاں آنے دیا ہے تو آپ صرف یہاں کھڑے رہیں کسی بھی چیز کو ہاتھ مت لگائیں۔۔
وہ وقار کو ایسے سمجھا رہی تھی جیسے وہ کوئ تین سال کا بچہ ہو۔۔
ایک ڈاکٹر اسکی جانب بڑھی تھی۔۔میم میم پلیز come here اب patient آکسیجن کے ساتھ بھی سانس نہیں لے پا رہی اور وہ ڈاکٹر فورن مہر کی جانب بڑھی تھی وہ سب مشینیں چیک کر رہی تھی۔۔
اور وقار وہاں کھڑا زندگی اور موت کا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔
کچھ دیر بعد اس نے ڈاکٹرز کو سب مشینیں اور نالیاں اسکے جسم سے اتارتے دیکھا تھا۔۔
اسکا جسم اب ہر چیز سے آزاد کر دیا گیا تھا۔۔
وہ اب بھی خاموشی سے وہاں کھڑا تھا۔۔
فاطمہ کے رونے میں اب شدت آ گئ تھی مگر وہ اب بھی بلکل بے تاثر کھڑا تھا۔۔
مگر جیسے ہی ایک سسٹر نے مہر کے چہرے کو سفید کپڑے سے دھانپنے کی کوشش کی تھی وہ چلا کر بجلی کی سی تیزی سے اسکی جانب بڑھا تھا ہاتھ مت لگانا۔۔
اس نے آگے بڑھ کر sister کو بہت بری طرح دھکا دیا تھا۔۔
مہر اٹھو آنکھیں کھولو چلو شاباش دیکھو میں بلا رہا ہوں۔۔
تم تو میری کوئ بات نہیں ٹالتی نا میری ہر بات مانتی ہو تو اب بھی مانو نا۔۔
تم تو میری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی نا تو پھر ایسے کیسے تم مجھے کیوں تنگ کر رہی ہو اٹھو چلو اٹھ جاو۔۔
اب وہ چلا رہا تھا اٹھ جاو نا مہر اٹھ جاو تم جانتی ہو نا جب تک میں تمہیں دیکھ نا لوں مجھے سکون نہیں آتا۔۔
اب وہاں باقی سب لوگ بھی آچکے تھے شاید ڈاکٹر نے باہر جا کر بھی سب کو یہ خبر سنا دی تھی وہاں پر موجود ہر آنکھ اشکبار تھی مگر کسی میں بھی اتنی ہمت نا تھی کہ وہ آگے بڑھ کر اسے بتاتا کہ وقار تمہاری مہر مر چکی ہے۔۔
وہ اب بھی مسلسل چلا رہا تھا کسی نا کسی کو تو ہمت کرنا ہی تھی۔۔
فاطمہ اب اسکے قریب آ گئ تھی بس کر دو وقار بس کرو مہر مر چکی ہے وہ اس دنیا میں نہیں رہی وقار she is no more..
نہیں وہ اٹھے گی مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی تم دیکھنا ابھی اٹھے گی یہ جانتی ہے وقار مہر کے بغیر ادھورا ہے وقار مہر کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔
اب فاطمہ نے آگے بڑھ کر اسے جھنجوڑا تھا وقار یہ کوئ فلم یا ڈرامہ نہیں ہے کہ تم اسے یوں جھنجوڑو گے اور یہ اٹھ جائے گی وقار اب یہ کبھی واپس نہیں آ سکتی وقار مہر چلی گئ ہے مہر جا چکی ہے مان لو یہ بات مان لو۔۔
وہ اب وہاں سے اٹھ کر پیچھے کی جانب مڑا تھا وہاں سب کھڑے آنسو بہا رہے تھے عارفہ بیگم، ساجدہ، طارق، اور نائلہ اس نے ایک قہر آلود نظر ان سب پر ڈالی تھی کہ اب کیوں رہ رہے ہیں آپ سب بھی تو یہی چاہتے تھے نا تو پھر اب یہ آنسو کس لئے وہ اب وہاں سے باہر آ گیا تھا۔۔
اسے کچھ پتا نا تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے اسے کیا کرنا ہے کہاں جانا ہے۔۔
وہ تو اپنی کل متاع کھو چکا تھا۔۔
اب کیا بچا ہے وقار احمد۔۔
اب تو صرف سانسیں باقی بچی ہیں زندگی تو ختم ہو گئ۔۔
میری بیٹی۔۔
ہاں میری بیٹی ہوئ ہے۔۔
مہر چاہتی تھی کہ اللہ ہمیں بیٹی دے۔۔
وہ چاہتی تھی کہ ہم دونوں اسے ایک مکمل فیملی دیں۔۔
مہر۔۔
مہر۔۔
میں مر چکا مہر وقار احمد مر چکا بس اب صرف دفنانا باقی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگ بہت سالوں پہلے ہی مر جاتے ہیں بس انکی تدفین بعد میں کی جاتی ہے اور وقار احمد بھی انہی انسانوں میں سے ایک تھا اس کی زندگی کا مقصد صرف اسکی بیٹی مہرماہ تھی۔۔
وہ اپنے آفس میں بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا۔۔
اس نے ڈارک نیوی بلیو کلر کا ڈریس پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا وہ 48 برس کا ہو چکا تھا مگر اسکی خوبصورتی میں اب بھی کوئ خاطر خواہ کمی نا آئ تھی۔۔
بس اب وہ پہلے کی طرح مسکراتا نہیں تھا۔۔
اسکی آنکھوں میں اب پہلے جیسی چمک نا رہی تھی بلکہ وہاں خالی پن نے ڈیرے ڈال دئیے تھے وہ اب بھی handsom تھا مگر پہلے کی طرح نہیں اب وہ پہلے سے تھوڑا موٹا ہو گیا تھا۔۔
اسکے بال اب بھی پہلے کی طرح گھنے تھے مگر ان میں ہلکی ہلکی چاندی اتر آئ تھی وہ 48 برس کا ہو چکا تھا مگر دکھنے میں وہ 40 سے بھی کم کا لگتا تھا اس عمر میں بھی اس پر اٹھارہ برس کی لڑکیاں مر مٹتی تھیں۔۔
اور آخر ایسا کیوں نا ہوتا۔۔
وہ کوئ عام انسان تو نہیں تھا وہ آغا وقار احمد علی خان تھا۔۔
اپنے گاوں کے آغا اورنگزیب احمد علی خان کا واحد سپوت اور لاہور شہر کا بزنس ٹائکون۔۔
وہ ابھی بھی اپنی revolving چئیر پر بیٹھا مسلسل سگریٹ پھونک رہا تھا جب اسکے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئ۔۔
اس نے آج آف وائٹ اور پیچ کلر کے حسین امتزاج کا ایمبرائیڈڈ سوٹ پہن رکھا تھا جس کی پیچ کلر کی قمیز اسکے گھٹنوں تک آتی تھی اور اس پر آف وائٹ کلر کی بہت خوبصورت ایمبرائیڈری کی گئ تھی۔۔
اسکے نیچے اس نے آف وائٹ کلر پاجامہ پہن رکھا تھا۔۔
آف وائٹ کلر کا شیفون کا دوپٹہ جس پر کہیں کہیں پیچ کلر سے ایمبرائیڈری کی گئ تھی بڑے سلیقے سے اس نے اپنے سر پر سجا رکھا تھا اور اس نے خود کو ایک سیاہ چادر میں لپیٹ رکھا تھا اس نے اپنی ایک کلائ پر سلور کلر کی چین والی گھڑی باندھ رکھی تھی جبکہ دوسری کلائ میں ایک وائٹ گولڈ کا انتہائ باریک چین پر مشتمل تین چھوٹے چھوٹے ہیروں والا بریسلٹ پہن رکھا تھا۔۔
اسکی آنکھیں سبز تھیں اسکا ہر زاویہ اسکا ہر نقش کسی انسان کو بھی اپنے صحر میں گرفتار کر لینے کے لئے کافی تھا۔۔
اب وہ ایک دلکش مسکراہٹ اچھالتی ہوئ وقار احمد کی جانب بڑھی تھی۔۔
Hello Handsom Man..
اب وقار نے جلدی جلدی اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا تھا اور اسے دیکھتے ہی وہ اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا تھا اب وہ اپنے سینے پر اپنا دائیاں ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھکا تھا۔۔
Wellcome Madam Wellcome please have a seat..
اب وہ اسے اپنی سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا اور خود وہ شیشے کی میز کے پار رکھی گئ دوسری چئیر پر آبیٹھا تھا۔۔
اور وہ سبز آنکھوں والی پری چہرہ بھی اب اسکی سیٹ پر بڑے ناز سے براجمان ہو چکی تھی۔۔
اب وقار اس سے مخاطب تھا۔۔
Ok Madam so What would you like to take?I mean Coffee, Tea or some cold drink?
Ummm..Pina Colada ..وہ اپنی فرمائش بتا چکی تھی۔۔
Oh please give me just two minutes..
یہ کہتے ہوئے اس نے ٹیبل پر پڑا فون کریڈل سے اٹھا کر اپنے کان سے لگایا تھا اور اب وہ Pina Colada ڈرنک کے لئے آرڈر دے رہا تھا۔۔
اب وہ اسکی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔۔
جی جناب تو کیا آج بھی آپ کوئ فرمائش لئے یہاں آئ ہیں؟
یا پھر یہ شرف آپ نے ہمیں یونہی بخشا ہے۔۔
ایسی تو کوئ بات نہیں یہ شرف تو ہم اکثر ہی آپکو بخشتے ہیں جناب۔۔وہ بڑے انداز سے بولی تھی اور پھر وہ دونوں قہقہ لگا کر ہنس دئیے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان جب لاہور آیا تھا تب وہ ایک معروف کمپنی میں ایک جنرل مینیجر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور اس نے اپنے بزنس کا آغاز محض ایک گتے کی فیکٹری سے کیا تھا مگر اس نے اپنا بزنس سیٹ کرنے کے لئے دن رات ایک کر دئیے تھے۔۔
اور پھر اس پر پیسہ جیسے پانی کی طرح برسا تھا۔۔
اسکا بزنس آہستہ آہستہ ترقی کرتے پورے ملک میں پھیل چکا تھا five star ہوٹلز کی چین اپنی بس سروسز کی کمپنی بہت سے پلازے، ریسٹورنٹس ،فوڈ فیکٹریز گویا ہر فیلڈ میں وہ ایک کامیاب بزنس مین کی حیثیت سے ابھرا تھا۔۔
اور باقی رہی سہی کسر اسکے بیٹے ہارون جہانزیب خان نے پوری کر دی تھی سفیان کا نام دنیا بھر میں جانا جاتا تھا مگر ہارون کے نام کے ساتھ اسکے باپ کا نام نہیں لگتا تھا بلکہ اسکا پورا نام سفیان نے خود آغا ہارون جہانزیب خان رکھا تھا۔۔
اور واقعی اسے اپنی پہچان کے لئے اپنے باپ کی نام کی ہرگز کوئ ضرورت نا تھی اسکا تو اپنا نام ہی اسکے لئے کافی تھا آخر ایسا کونسا کام تھا جو ہارون جہانزیب نا کر پائے۔۔
وہ تو اگر بنجر مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ بھی سونا اگلنے لگتی اس نے بریڈفورڈ یونیورسٹی سے اپنی بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی تھی اور پھر بزنس کی دنیا میں قدم رکھتے ہی اس نے تہلکہ مچا دیا تھا اسے اپنے باپ کا بزنس سنمبھالے ابھی ایک سال ہی ہوا ہوگا کہ ان کا نام دنیا کے ٹاپ ٹین بزنس مینز میں شامل ہو گیا تھا۔۔
مگر پھر بھی اس فہرست میں انکا نام وقار احمد سے ایک درجے نیچے ہی رہا تھا۔۔
اور اب سفیان نے ہارون جہانزیب کو وقار احمد سے ایک درجہ اور بڑھانے کا ٹارگٹ دے دیا تھا۔۔
مگر وہ جانتا تھا کہ وہ یہ کبھی نہیں کر پائیگا ایسا نہیں تھا کہ اسکے لئے یہ کرنا مشکل تھا بلکہ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا ورنہ اسے کتنے ہی مواقع ملے تھے جب وہ صرف ایک منٹ کے اندر اندر وقار احمد کو بہت آسانی سےاسکی پوزیشن سے نیچے لا سکتا تھا مگر نہیں اسکا دل اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا وہ کیسے کر سکتا تھا یہ سب جبکہ وہ جانتا تھا کہ اس انسان کی جان وقار احمد میں بستی ہے جسے وہ ہمیشہ مسکراتے دیکھنا چاہتا ہے جسے وہ کوئ دکھ نہیں دے سکتا۔۔
اس نے اپنے ڈیڈی سے اس بات کی ہامی تو بھر لی تھی مگر وہ جانتا تھا کہ وہ ایسا کبھی بھی نہیں کر پائیگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تیار ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکل رہا تھا جب علیشا اس سے بری طرح اس سے ٹکرا گئ۔۔
اوہو لڑکی تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
وہ قدرے جھنجلا کر بولا تھا۔۔
کیوں میں یہاں نہیں آ سکتی کیا میری پھپھو کا گھر ہے یہ۔۔
آ سکتی ہو مگر تم یہاں کیا کر رہی تھی یار میرے کمرے کے باہر؟
میں آپکو بلانے آ رہی تھی مجھے کوئ خاص شوق نہیں آپ سے بات کرنے کا مجھے پھپھو نے بھیجا تھا یہاں مجھے کیا پتا تھا کہ آپ اسی وقت خودی باہر آ کر مجھے بیل کی طرح ٹکر مار دیں گے۔۔
اچھا تو میں تمہیں بیل نظر آتا ہوں؟
وہ ابھی اسکے ساتھ نوک جھونک میں ہی مصروف تھا جب ثناء بھی وہاں آ گئ ۔
ارے یہاں کیا ہو رہا ہے علیشا تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
وہ مجھے پھپھو نے بھیجا تھا ہارون کو بلانے کے لئے۔۔
ثناء ہارون کی چھوٹی بہن تھی اور اسے اسکا یوں اپنے بھائ کے اردگرد منڈلانا بلکل بھی پسند نا تھا کیونکہ وہ کافی بولڈ اور زبان دراز لڑکی تھی ثناء کی اسکے ساتھ بلکل بھی نا بنتی تھی۔۔
علیشا اب وہاں سے جا چکی تھی اور ثناء ہارون کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔۔
ارے واہ بھای آج تو کچھ زیادہ ہی ہینڈسم لگ رہے ہیں خیر ہے کہاں جا رہے ہیں آئ مین کسی ڈیٹ وغیرہ پہ تو۔۔
اور وہ اسے پکڑنے کے لئے اسکی جانب لپکا تھا ثناء کی بچی تمہیں شرم نہیں آتی اپنے بڑے بھائ سے اس قسم کی بکواس کرتے ہوئے۔۔
نہیں بلکل بھی نہیں اور اب وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پر آ چکے تھے جہاں سفیان ، داصمہ اور علیشا بیٹھی اسی کے انتظار میں تھی ۔۔
ہارون نے ٹیبل پر آ کر سب کو سلام کیا تھا اور جب وہ بیٹھ چکا تو سفیان اسے ٹیڑھی نظروں سے گھورنے لگا۔۔
اور ہارون نے دیکھتے ہی ان سے پوچھا تھا کیا ہوا ڈیڈی آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟
بس ایسے ہی کہاں جا رہے ہو آج؟
کیا مطلب ڈیڈی؟
مطلب اج کچھ زیادہ ہی تیاری نظر آ رہی ہے۔۔
اب ثناء بھی بول پڑی تھی۔۔
ڈیڈی مجھے تو لگتا ہے بھائ اج کسی ڈیٹ شیٹ پر جا رہے ہیں۔۔
ہممم۔۔
اور ہارون نے مدد طلب نظروں سے اب ماں کی جانب دیکھا تھا۔۔
ارے کیوں تنگ کر رہے ہیں آپ میرے بیٹے کو میرا بیٹا ہے ہی اتنا پیارا کہ وہ کچھ بھی پہنے خاص ہی لگتا ہے۔۔
اور اب سفیان اور ثناء ، عاصمہ کی طرف دیکھ کر ایک آواز میں بولے تھے۔۔
اچھا جی؟
جی ہاں۔۔کیوں اس میں کوئ شک ہے؟
ایویں تو میرے بیٹے کے پیچھے اتنے بڑے بڑے برینڈز اسے اپنی تشہیری مہم کا ایمبیسڈر بنانے کے لئے نہیں پھرتے۔۔
نہیں وہ دراصل بھائ جان رات کے وقت اتنے تیار شیار ہو کر نکلیں گے تو شک تو ہو گا نا۔۔
ان سب کی عادت تھی کہ وہ یونہی ہنسی مزاح کرتے ہوئے روز رات کا کھانا اکھٹے کھاتے تھے۔۔
اور سفیان اپنی بیٹی ثناء جبکہ عاصمہ اپنے بیٹے ہارون کا ساتھ دیتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائلہ اپنے کمرے میں بیٹھی قرآن پاک پڑھ رہی تھی جب شکیلہ اس کے پاس آئ۔۔
کیا بات ہے باجی آج صبح سے ہی آپ قرآن پاک پڑھ رہی ہیں؟
ہاں شکیلہ آج ابو کی برسی ہے اسی لئے انکو ایصال ثواپ پنہچانے کی خاطر پڑھ رہی ہوں آج انہیں پورے ایک قرآن کو تحفہ دونگی۔۔
سنو تم بھی میری مدد کر دو۔۔
میں بی بی جی؟
ہاں تم۔۔
مگر میں کیسے؟
کیا تمہیں قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا؟
آتا ہے جی الحمداللہ۔۔
تو پھر کچھ پارے تم بھی پڑھ دو میرے ابو کی بخشش کے لئے۔۔۔
باجی ایک بات کہوں؟
ہاں کہو۔۔
آپکو کیا لگتا ہے کہ یہ قرآن پڑھ کر آپ انکو بخشیں گی اور انکو اسکا ثواپ پنہچ جائے گا؟
ہاں ظاہر ہے سبھی اپنے پیاروں کے لئے یہ سب کرتے ہیں۔۔
اور اگر میں پڑھوں گی یا کوئ اور تب بھی انکو اسکا ثواپ پنہچے گا؟
ہاں ظاہر ہے انکے لیے پڑھو گی تو انہیں ہی ثواپ پنہچے گا نا۔۔
پہلے میں بھی ایسا ہی سمجھتی تھی مگر اب نہیں۔۔
کیا مطلب؟
میں آپکو سمجھاتی ہوں۔۔
آپ کہتی ہیں نا کے ثواب ایصال کیا جا سکتا ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر نیک عمل کر کے اپنی پسندیدہ ہستیوں کو انکا ثواب منتقل کیا جا سکتا ہے تو کیا برے کاموں کا گناہ اور وبال بھی اپنے دشمنوں کو بھیجا جا سکتا ہے؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ کھانا ایک آدمی کھائے اور پیٹ دوسرے کا بھر جائے؟
بہت سارے لوگوں کی بھوک مٹانے کے لئے کوئ شخص خوراک سے حاصل ہونے والی قوت و توانائ دوسروں کو ایصال کر دے اور وہ سب سیر ہو جائیں۔۔
ظاہر ہے ان سب سوالوں کا جواب نہیں ہے ورنہ عدل و انصاف کا خون ہو جائے۔۔
کیا آپکو یہ بات مضحکہ خیز معلوم نہیں ہوتی کہ ایک شخص نے ساری زندگی قرآن کھول کر بھی نا دیکھا بڑا گناہ کیا۔۔
اور اب اس کے مرنے کے بعد اس کے سوئم ، چالیسویں ، برسی وغیرہ کے موقعہ پر سینکڑوں قرآن پڑھ کر بخشے جائیں تو کیا وہ اس گناہ سے چھوٹ جائے گا؟
ایک شخص نے پوری زندگی ایک پھوٹی کوڑی بھی کسی محتاج کو نہیں دی تو کیا اس کے مرنے پر ہزاروں روپے کے صدقات خیرات دے کر اسکے گناہ کو ختم کیا جا سکتا ہے؟
ایک آدمی نے کبھی بھول کر بھی مسجد کا رخ نہ کیا ، نہ گھر میں ہی کبھی نماز ادا کی ، رمضان کے رمضان آئے اور گزر گئے اسے کبھی بھی روزے رکھنے کا خیال تک نا آیا ، اسکے پاس مال و دولت کی کسرت تھی ، بیت اللہ جانے آنے کے اخراجات برداشت کر سکتا تھا ، لیکن اسکے دل میں حج کی کبھی خواہش پیدا نا ہوئ ، تو کیا اس کے ورثاء اسکی طرف سے نمازیں پڑھ پڑھ کر ، روزے رکھ کر ، حج کر کے اسکے گناہ عظیم کو ختم یا کم کر سکتے ہیں؟
ہر گز نہیں انسان کے صرف وہی کچھ کام آئے گا جو اس نے خود کیا ہے ، دوسروں کا کیا ہوا انہی کے لئے ہے کوئ کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔۔
اگر ایصال ثواب ہونے لگتا تو پھر تو شریعت کے ساتھ بڑا مذاق ہوتا۔۔
ساری زندگی معصیت میں گزاری جاتی اور مرنے کے بعد با آسانی اپنے ورثاء کی طرف سے ایصال کئے جانے والا ثواب وصول کر لیا جاتا۔۔
جس انسان کے جتنے زیادہ رشتے دار ہوتے اسے اتنا زیادہ ثواپ ملتا اور جس بے چارے کا آگے پیچھے کوئ نا ہوتا اسے کچھ بھی نا ملتا۔۔
ایسا کیسے وہ سکتا ہے بی بی جی؟-
اب جو کچھ میں نے کہا اسکی دلیل میں آپکو قرآن کی کچھ آیات کی صورت میں دیتی ہوں۔۔آپ سمجھنے کی کوشش کریں بی بی جی۔۔
"اور ہر شخص کو پورا بدلہ ملے گا جو اس نے کیا۔"[الزمر:70 ]
"جو نیک کام کرے گا تو اپنے لئے اور جو برے کام کرے گا تو ان کا ضرر اسی کو ہو گا اور تمہارا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔"[حم السجدہ:46 ]
"یہ کہ کوئ شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جسکی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اسکی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی پھر اسکو اسکا پورا بدلہ دیا جائے گا۔"[النجم:38-41 ]
"پس آج کسی جان پر کوئ ظلم نا ہو گا اور تمہیں کسی عمل کی جزا نہیں ملے گی سوائے اسکے جو تم نے کئے۔"[یس:54 ]
"تم کو انہی اعمال کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔،[النمل:90 ]
وہ اسکے سامنے قرآن کی آیات کھول کھول کر بیان کر رہی تھی۔۔
کیا اب بھی اسے مزید کسی دلیل کی ضرورت تھی؟
نہیں اب تو کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔۔
بس شکیلہ مجھے سمجھ آ گیا ہے۔۔
ویسے بھی بی بی جی قرآن کوئ بخشنے کی چیز تھوڑا ہی نا ہے یہ تو کتاب ہدایت ہے نجات ہے۔۔
اور وہ اپنی جگہ بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ یہ ایک جاہل ملازمہ اسے ایم۔فل عورت کو یہ سب سمجھا رہی ہے۔۔
آخر اسے یہ سب کیسے پتا چلا؟
شکیلہ تمہیں یہ سب کیسے پتا چلا تم نے اس پر کیسے تحقیق کی؟
بی بی جی میں غریب کم عقل اس قابل کہاں تھی یہ سب تو مہرماہ بی بی کی نوازش ہے۔۔
انہوں نے مجھے صیحیع دین سکھایا۔۔
آپ جانتی ہیں نا وہ غیر مذہب سے ہمارے اسلام میں آئیں تھیں مگر وہ اتنی نیک تھیں کہ میں آپکو بتا نہیں سکتی شاید اسی لئے اللہ نے انہیں اتنی جلدی اپنے پاس بلا لیا کیونکہ انکا ایمان کامل تھا۔۔
اور نائلہ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ آخر اب اور کون کونسا پہلو مہر کی زندگی کا اسکے سامنے کھلنا باقی تھا۔۔
آخر وہ کتنی اچھی تھی کیا کوئی اتنا بھی نیک ہو سکتا ہے۔۔
وہ تو واقعی بہت خاص تھی۔۔