ہاں اسے صبر کی آزمائش میں ڈالا گیا تھا بے شک ایمان والے صبر ہی تو کرتے ہیں۔۔
"اور جب انسان کو تکلیف پنہچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے ، اپنے پہلو پر یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے ، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ گزر جاتا ہے جیسے اس نے خود کو تکلیف پنہچنے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا ، اسی طرح حد سے گزر جانے والوں کے لئیے ان کے عمل پر کشش بنا دئیے گئے"(یونس 12:10 )
"اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھائیں ، پھر وہ اس سے چھین لیں ، تو بے شک البتہ وہ بڑا نا امید ، بہت ناشکرا ہو جاتا ہے اور اگر ہم اسے تکلیف پنہچنے کے بعد نعمتیں چکھائیں تو وہ ضرور کہے گا: مجھ سے سختیاں دور ہو گئیں ، بے شک وہ (اس وقت ) اترانے والا اور فخر جتانے والا ہو جاتا ہے۔"( ھود 9،10 )
مگر نہیں اسے ایسا نہیں ہونا تھا اسے اس مشکل کی گھڑی میں اپنے رب کی ازمائش پر پورا اتر کر اسے بتانا تھا کہ بے شک اس کے لئے اپنے رب کی محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔
اسے قرآن کی ایک آیت یاد آئ تھی۔۔
"وہ جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے"(الملک: 2 )
اور اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا تھا کہ وہ کتنی اچھی ہے۔۔
وقار اب مریم کی موت کے بعد مہر کے اپارٹمنٹ میں ہی رہنے لگا تھا۔۔
آج وقار کا آخری پیپر تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسکے بعد اسے کیا کرنا ہے کیونکہ اسکا ایم۔بی۔اے complete ہو چکا تھا۔۔تو اب یہاں رکنے کا کوئ جواز ہی نہیں بنتا تھا اور اماں جان بھی بار بار اسے فون کر کے جلد پاکستان آنے کا کہہ رہی تھیں۔۔
اس نے تہہ کیا تھا کہ وہ مہرماہ کو بھی اپنے ساتھ ہی پاکستان لے جائے گا وہ اسے یہاں اکیلا چھوڑ کر جانے کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔
وہ انہی خیالوں میں تھا جب مہرماہ اسکے پاس آ کر بیٹھ گئ۔۔
وقار۔۔
ہاں۔۔
آپ نے کیا سوچا پھر؟
کس بارے میں؟
میرے بارے میں؟
کیا مطلب کیا سوچا تم میری بیوی ہو اور کیا سوچوں میں تمہارے بارے میں؟
وہ کچھ جھنجھلائے ہوئے سے لہجے میں بولا تھا۔۔
اور مہر خاموشی سے بیٹھ گئ تھی۔۔
اسے یوں خاموش بیٹھے دیکھ کر وقار کے دل کو کچھ ہوا تھا ابھی مریم کی موت کو چند دن ہی گزرے تھے اور وہ اس سے یوں بات کر رہا تھا۔۔
وقار نے مہر کے قریب ہو کر اسے پکارا تھا۔۔
مہر۔۔
ہمم۔۔
I am sorry..
کوئی بات نہیں۔۔
تمہیں پتا ہے تم مجھے کتنی اچھی لگتی ہو جب میں تمہیں sorry بولتا ہوں اور تم کہتی ہو کوئ بات نہیں کتنی جلدی تم میری بات مان جاتی ہو نا۔۔
مہرماہ دیکھو تمہیں ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا ہوگا ہو سکتا ہے کہ اماں جان تمہیں میری بیوی کے روپ میں قبول نا کریں میں پوری کوشش کروں گا انہیں منانے کی لیکن اگر وہ نا مانی تو۔۔
تو۔۔تو کیا وقار؟
تو کیا ظاہر ہے پھر ہمیں اکیلے ہی رہنا پڑے گا۔۔
وقار پلیز ایسا مت بولیں کیا میں ایک بار پھر ماں سے محروم رہ جاوں گی؟
اور وقار نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا تھا مہر سب ٹھیک ہو گا۔۔
اور پھر وہ پورے بیس دن بعد مہرماہ کے ساتھ پاکستان آ گیا تھا مگر وہ مہرماہ کو حویلی لے جانے کی بجائے فاطمہ کے گھر لے آیا تھا اس نے فون پر ہی فاطمہ اور زبیدہ خاتون کو مہرماہ کے بارے میں سب بتا دیا تھا۔۔
جب فاطمہ اور زبیدہ خاتون نے مہرماہ کو دیکھا تو وہ بھی اسے دیکھتی ہی رہ گئیں۔۔
وہ تھی ہی اتنی خوبصورت ۔۔
وقار یہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی اماں جان کی مرضی کے بغیر مہر سے شادی کرے مگر حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ اسے مہرماہ سے اتنی جلدی نکاح کرنا پڑا اسکی بات فاطمہ اور زبیدہ خاتون سمجھ چکی تھیں۔۔
وقار نے سوچا تھا کہ وہ پہلے حویلی جا کر اماں جان کو مہرماہ کے لئے منائے گا اور پھر مہرماہ کو حویلی لے جائے گا۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ مہرماہ کو اماں جان کی نفرت کا سامنا کرنا پڑے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج واپس آ رہا تھا اور نائلہ کے تو پاوں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔۔آج عاصمہ خودی اسکے کمرے میں ننھے سے ہارون کو گود میں اٹھائے لے آئی تھی۔۔
بہت ہی بے مروت ہو نائلہ تم ابھی تو وقار آیا بھی نہیں اور تم ہمیں بھول گئ جب شادی ہو جائے گی تب تو تم ہمیں پہچاننے سے بھی انکاری ہو جاو گی۔۔
اور اس نے عاصمہ کی گود سے ہارون کو لیتے ہوئے اسے ڈھیر سارا پیار کیا تھا اور وہ اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اپنا سر گھما کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔۔
عاصمہ تم بھی نا فضول میں میرے بھتیجے کو میرے خلاف کر رہی ہو ایسی کوئ بات نہیں۔۔
آج وہ بے وجہ ہر بات بے بات پر ہنس رہی تھی۔۔
وہ دونوں ابھی باتوں میں ہی مصروف تھیں جب عالیہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئ۔۔
آپی
اپی۔۔
ارے آرام سے بابا کیا آفت آگئ ہے عاصمہ نے اسے گھورا تھا۔۔
بھابھی وہ وقار بھائ آ گئے ہیں اور نائلہ کا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔
تو وہ دشمن جان آج آ ہی گیا تھا۔۔
یہ سنتے ہی عاصمہ اور عالیہ دونوں نائلہ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ کر خوب کھلکھلا کر ہنسی تھیں۔۔
عاصمہ نے ہارون کو نائلہ سے لے لیا تھا اور اب وہ عالیہ کی طرف دیکھ کر بولی تھی چلو ہم تو چلتے ہیں بھئ۔۔
پردہ تو دلہن کے لئے ہوتا ہے نا ایسا کہتے ہوئے وہ پھر ہنسی تھیں اور ان دونوں کو مارنے کے لئے نائلہ نے بیڈ سے تکیہ اٹھایا تھا مگر وہ دونوں تب تک وہاں سے جا چکہ تھیں۔۔
وقار کو دیکھ کر تو عارفہ بیگم کی جان میں جان آ گئ تھی اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ وہ اکیلا ہی آیا ہے کسی گوری کو اپنے ساتھ نہیں لے آیا ورنہ فون پر تو وہ اس کی باتوں سے صیحیع معنوں میں ڈر گئ تھی۔۔
اب وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھیں کہ وقار کو اب شادی ہونے تک کہیں بھی جانے نہیں دیں گی۔۔
وقار بھی سب سے ہنسی خوشی ملا تھا۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنے عرصے بعد اپنی ماں کو ملتے ساتھ ہی مہرماہ کے متعلق بتا دے کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ عارفہ بیگم یہ سب سننے کے بعد کوئی سخت فیصلہ بھی لے سکتی ہیں اس لئے وہ پہلے اپنی ماں سے اچھی طرح مل لینا چاہتا تھا اس نے سوچا تھا کہ وہ رات میں اکیلے میں اماں جان سے بات کریگا۔۔
اس نے نوٹ کیا تھا کہ سبھی اس سے ملنے مین ہال میں آئے تھے سوائے نائلہ کے تو وہ پوچھے بنا نا رہ سکا۔۔
اماں جان نائلہ کہاں ہے؟
اور وقار کی اس بات پر سب ہنس دئیے تھے وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔۔
کیا ہوا آپ سب ہنس کیوں رہے ہیں؟
نہیں نہیں وقار بھائ بس ایسے ہی وہ تو عالیہ اس سے آگے مزید کچھ بولنے ہی والی تھی کہ اس پر ساجدہ بیگم نے ایک سخت نگاہ ڈالتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کی ہدایت کی تھی۔۔
اور وہ بس اتنا ہی بول سکی ایسے ہی۔۔
کہیں ہمیشہ کی طرح اوپر بیٹھی رو تو نہیں رہی میں اسے دیکھ کر آتا ہوں یہ کہتا ہوا وہ نائلہ کے کمرے کی جانب جاتے ہوئے راستے پر بڑھا تھا۔۔
اور پھر اسکے دروازے کے باہر وقار نے دستک دی تھی۔۔
نائلہ کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔۔
وہ پہچان گئ تھی کہ یہ کس کی دستک ہے۔۔
اور اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔
اور وہ وہاں آج پھر اپنی وہی مخصوص مسکراہٹ لئے کھڑا تھا جس مسکراہٹ کی نائلہ دیوانی تھی تو اسکی وہ مسکراہٹ پھر سے واپس آ گی تھی۔۔
نائلہ اسکے چہرے پر نظریں ڈالتے ہی اپنی آنکھوں کو جھپکنا بھول گئ تھی۔۔
گرے کلر کے ڈریس پینٹ کوٹ میں وہ اج غضب ڈھا رہا تھا اسکی آنکھوں میں اتنی چمک تھی کہ نائلہ اسکے ساتھ نظریں نہیں ملا پا رہی تھی اسکی سیتواں ناک اسے کسی قدیم یونای دیوتا کا سا تاثر دے رہی تھی۔۔
ہیلو مس۔۔وقار نے اسکے چہرے کے آگے چٹکی بجائ تھی۔۔
اور نائلہ اسکے سامنے خجل سی ہو گئ تھی۔۔-
کیسی ہو؟
ٹھیک آپ کیسے ہیں؟
میں بھی ٹھیک اور مجھ سے ملنے کیوں نہیں میرے جانے پر تو ایسے آنسو بہا رہی تھی جیسے سب سے زیادہ دکھ تمہیں ہی ہے میرے جانے کا۔۔
نائلہ نے کچھ بولنے کے لئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ وقار پھر سے بول پڑا۔۔
اب پلیز یہ مت کہنا کے مجھے آپکے آنے کی اتنی خوشی ہوئ کہ میں خوشی میں آپ سے تو ملنا ہی بھول گئ۔۔یہ کہتے ہوئے وقار نے ایک قہقہ بلند کیا تھا۔۔
تو گویا وقار احمد کو نائلہ کا ہر انداز و لہجہ یاد تھا۔۔
آو ہال میں چلتے ہیں اور وہ اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔۔
رات گہری ہوتے ہی جب سب اپنے کمروں میں جا چکے تو وہ عارفہ بیگم کے کمرے میں چلا آیا تھا۔۔
اسے دیکھتے ہی عارفہ بیگم مسکرا دی تھی۔۔
آجاو بیٹا آجاو آج میرے پاس ہی سو جاو۔۔
وہ چلتا ہوا ان کے پاس آکر بیڈ پہ بیٹھ گیا تھا۔۔
وہ اماں جان مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔۔
ہاں بیٹا کہو پھر مجھے بھی تمہیں کچھ بتاناہے۔۔
وہ اماں جان میں نے فون پر آپکو مہرماہ کے بارے میں۔۔
بس وقار خاموش ہو جاو آئندہ میں اس حرافہ کا نام تمہاری زبان سے نا سنو سمجھے۔۔
میں نے تمہاری شادی تہہ کر دی ہے نائلہ کے ساتھ۔۔
کیا۔ کیا کہا آپ نے نائلہ کے ساتھ؟
ہاں اور یہ رشتہ تمہارے بابا جان نے بچپن میں ہی تہہ کر دیا تھا۔۔
آپ ایسے کیسے کر سکتی ہیں؟
بس وقار احمد میں تمہاری کوئ بکواس نہیں سننا چاہتی بہتر ہو گا کہ تم اسے بھول جاو۔۔
اور جاو یہاں سے۔۔
اماں جان آپکو سننا ہو گا میں مہرماہ سے پیار کرتا ہوں اور ویسے بھی اب کچھ نہیں ہو سکتا وہ میری بیوی بن چکی ہے اپ کو اسے اپنانا ہی ہو گا۔۔
اور عارفہ بیگم نے ایک زور دار تھپڑ اسکی گال پر جڑ دیا تھا اب وہ اس پر دھاڑ رہی تھیں انکی آواز سنتے ہی رفتہ رفتہ اس حویلی کے سب مکین اب وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔۔
اماں جان آپ کچھ بھی کر لیں میں اسے نہیں چھوڑ سکتا آپکو اسے اپنانا ہی ہو گا میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔
میں نے کہا اپنی زبان بند کر لو وقار احمد وہ پھر سے دھاڑی تھیں اور وہاں پر کھڑے سبھی نفوس نا سمجھی کے عالم میں یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔
وہ ان دونوں ماں بیٹے کے مکالمے سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ عارفہ بیگم اپنے لخت جگر پر یوں دھاڑ رہی تھی۔۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا اماں جان وہ میری بیوی ہے۔۔
اور یہ سنتے ہی سبکی سمجھ میں آ گیا تھا کہ کیا بات ہے۔۔
اور نائلہ یہ سنتے ہی نیچے ڈھے گئ تھی ساجدہ بیگم اور عالیہ نے اسے کھڑا رہنے کے لئے سہارا دیا تھا۔۔
اور اسکا کیا ہو گا جو بچپن سے تمہارے نام سے منسوب ہے۔۔
میرا نہیں خیال وہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔۔
کیا تمہیں اسکی حالت دیکھ کر اب بھی یہ لگتا ہے کہ وہ تم سے پیار نہیں کرتی؟
اور عارفہ بیگم کی اس بات پر وقار احمد پورا گھوم کر پلٹا تھا۔۔
جہاں نائلہ اپنی فق رنگت کے ساتھ سر جھکائے کسی بت کی مانند ساجدہ بیگم اور عالیہ کے ساتھ کھڑی تھی۔۔
وہ اب نائلہ کی جانب بڑھا تھا۔۔
بولو نائلہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟
بتاو ان سب کو ایسا کچھ نہیں ہے بولو نا وہ وقار احمد آج نائلہ کے چہرے پر کچھ نا دیکھ پایا تھا۔۔
نائلہ نے اپنی نم آنکھیں اوپر اٹھائ تھی اور اسکا چہرہ دیکھتے ہی وقار احمد کو شدید جھٹکا لگا تھا وہ یک دم نائلہ سے دور ہٹا تھا۔۔
تم۔۔
تو تم۔۔
مزید اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پایا تھا۔۔
ہاں وقار احمد ہاں میں نائلہ طارق بچپن سے تم سے محبت کرتی آئ ہوں۔۔
میں پچھلے دو سال سے تمہارے نام سے منسوب ہوں۔۔
میں نے کبھ تمہارے علاوہ کسی کا تصور بھی نہیں کیا اور آج تم مجھ سے یہ پوچھ رہے ہو کہ کیا میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔
وہ نائلہ جو کبھی اس سے اپنی محبت کا اظہار نا کر سکی تھی پتا نہیں آج اس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئ تھی۔۔
تم سب کے سب ملے ہوئے ہو تو اب سمجھا میں تم سب یہاں ایک خاص مقصد سے آئے تھے اور نائلہ تم تم بھی انہی کا مہرہ ہو اماں جان یہ سب صرف ہماری دولت ہتھیانا چاہتے ہیں ۔۔
بس کرو وقار بس بس۔۔جاو تمہیں جس سے محبت ہے جو تمہاری بیوی ہے جاو چلے جاو اسکے پاس مگر میری بھی بددعا ہے کہ اللہ کرے وہ بھی تمہیں چھوڑ کر چلی جائے تمہارا دل بھی میری طرح ٹوٹے تمہیں بھی پتا چلے کہ محبت کی تکلیف کیا کہتی ہوتی ہے یہ کہتے ہی وہ روتی ہوئ اپنے کمرے تک آگئ تھی۔۔
اب وہ اپنے رب سے لڑنے آگئ تھی وہ اپنی ضد اسکے دربار میں لئے پھر سے کھڑی تھی۔۔
تو تو بھی صرف خوبصورت لوگوں کے ہی ساتھ ہے نا وہ بہت خوبصورت ہو گی نا تبھی وہ مجھے یوں ٹھکرا رہا ہے۔۔
کیوں کیوں کیا چلا جاتا تیرا اگر تو بھی مجھے وقار کی طرح خوبصورت بنا دیتا۔۔
تو رب ہے نا پوری دنیا کا مالک ہر چیز تیرے قبضے میں ہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے نا تو اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے لیکن اے میرے رب اب میں تیرا امتحان لوں گی مجھے وقار چاہئیے مجھے وہ ہر حال میں چاہئیے اور اگر وہ مجھے نا ملا نا تو میں سمجھوں گی کہ تو بھی صرف خوبصورت لوگوں سے ہی پیار کرتا ہے تو بھی اپنے بندوں میں فرق کرتا ہے۔۔
تو اسے وقار احمد ہی چاہئیے تھا تو وہ ان لوگوں میں سے ہی نکلی تھی جو اپنے رب کو آزماتے ہیں ۔۔
کاش کاش کہ وہ جان جاتی کہ اس لاحاصل خواہش کا انجام کیا ہو گا کاش وہ جان جاتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یوں وقار احمد سے سب رشتے ناتے توڑ کر اسے گھر سے نکال دیا گیا تھا۔۔
وقار نے اماں جان کو منانے کی بہت کوشش کی تھی مگر اسکی ہر کوشش ناکام رہی اور وہ کسی صورت بھی مہرماہ کو اپنانے کے لئے راضی نہیں ہوئیں تھی۔۔
زبیدہ خاتون نے بھی اس بارے میں ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ غلط کر رہی ہیں کیونکہ مہرماہ بہت اچھی بچی ہے جیسا وہ اسکے بارے میں سوچ رہی ہیں ویسی وہ بالکل بھی نہیں۔۔
مگر انہوں نے زبیدہ خاتون کو بھی منع کر دیا تھا کہ آئندہ وہ اس بارے میں بات کرنے کے لئے انہیں کبھی فون نا کریں۔۔
عارفہ بیگم بہت شرمندہ تھی کہ جن لوگوں نے اتنے مشکل وقت میں انکا ساتھ دیا انہی کے ساتھ اسکے بیٹے نا کیا کر دیا۔۔
وہ جان چکی تھی کہ نائلہ کا دل کتنا دکھی ہے اور اب اسکے لبوں سے وقار کی محبت کا اظہار سننے کے بعد تو اس بات کی کوئ گنجائش ہی نہیں بچتی تھی کہ وہ وقار کو معاف کر دیتیں۔۔
وقار نے تو اپنے مرحوم باپ کی زبان کی بھی لاج نا رکھی تھی۔۔
وہ کہیں نا کہیں خود کو بھی اس سب کا قصور وار سمجھتی تھیں کیونکہ وہ سوچتی تھیں کہ انہوں نے یہ بات وقار سے چھپا کر بہت غلط کیا انہیں بہت پہلے ہی وقار کو یہ بتا دینا چاہئیے تھا کہ اس کی شادی نائلہ سے ہی ہو گی اور یہ سب بہت پہلے سے تہہ ہو چکا تھا مگر انہوں نے تو یہ سوچ کر ان دونوں سے یہ بات چھپائ تھی کہ کہیں انکی پڑھائ پر یہ سب اثر انداز نا ہو مگر وہ کیا جانتی تھیں کہ جس بات کو وہ ان دونوں کی بھلائ کے لئے چھپاتی رہی وہی چھپانا ایک دن نائلہ کی بربادی صورت بن جائے گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان وقار کی وہ سب باتیں سن کر اب اس حویلی میں نہیں رہ پا رہا تھا اور اس نے دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ یہاں نہیں رکے گا۔۔
اسی لئے اس نے سب سے یہ جھوٹ بول دیا تھا کہ اسے جاب کے سلسلے میں اب لاہور ہی شفٹ ہونا پڑے گا اس بات کے لئے کوئ بھی نہیں مان رہا تھا اور عارفہ بیگم نے تو جائیداد کا جو حصہ ساجدہ کی وراثت میں آتا تھا اب باقاعدہ طور پر اسکے نام کر دیا تھا اس بات پر ساجدہ اور طارق نے شدید احتجاج کیا تھا مگر عارفہ کا کہنا تھا کے یہ سب کچھ اورنگزیب اور ساجدہ کے باپ کی جائیداد میں سے ہے اسی نسبت سے اس جائیداد میں ساجدہ کا بھی حصہ بنتا ہے اور پھر یوں بھی زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں اس لئے وہ اپنی زندگی میں ہی یہ کام کر لینا چاہتی ہیں۔۔
مگر سفیان پھر بھی نا رکا تھا اور وہ عاصمہ اور ہارون کو لے کر لاہور میں شفٹ ہو گیا تھا۔۔
اسکے جانے سے ساری حویلی میں سوگ کا سا سماں ہو گیا تھا کچھ تو وہ سب پہلے ہی وقار کی وجہ سے شدید دکھی تھے کچھ سفیان بھی چلا گیا تھا سب کو زیادہ کمی ہارون کی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ وہ اس خاندان کا پہلا چھوٹا بچا تھا اسی لئے سب اس سے بے تحاشا پیار کرتے تھے اور کچھ وہ تھا بھی اتنا پیارا کے اسے دیکھتے ہی سب کو اس پر پیار آجاتا تھا۔۔
سفیان لاہور کی ایک معروف کمپنی میں جنرل منیجر کی جاب کر رہا تھا اور اب اس نے اتنے پیسے جمع کر لیے تھے کہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکتا تھا..
اسی لیے اس نے لاہور آتے ہیں اپنی ایک گتے کی فیکٹری کھول لی تھی مگر اس نے اپنی job نہیں چھوڑی تھی..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجدہ بیگم اب نائلہ کے رشتے کے لئے بہت پریشان رہنے لگی تھی مگر نائلہ اپنی شادی کے لئے کسی صورت بھی ماننے کو تیار ہی نہ تھی..
اس نے اپنا ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد آگے ایم فیل میں ایڈمیشن لے لیا تھا بولتی تو پہلے بھی وہ بہت کم تھی مگر وقار کے جانے کے بعد سے وہ بالکل خاموش ہو گئی تھی...
وہ ہر وقت اپنی سوچ میں گم رہتی کہ آخر وہ کون خوش نصیب ہوگی جس کی خاطر وقار احمد سب کو یوں چھوڑ کر چلا گیا تھا..
وہ اپنے کمرے میں رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی ڈائری لکھ رہی تھی جب عالیہ چپکے سے اس کے پیچھے آکھڑی ہوئی..
وہ ثمر تھا میری دعاؤں کا اُسے کس نے اپنا بنا لیا
مری آنکھ کس نے اُجاڑ دی مرا خواب کس نے چرا لیا..
عالیہ نے اس کی ڈائری میں لکھے جانے والے الفاظ پڑھے تھے جسے سن کر نائلہ نے فورن اپنی ڈائری بند کر دی تھی .. اور عالیہ اب اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گی تھی..
نائلہ نے اسے دیکھتے ہی اپنی نظریں جھکا لی تھیں۔۔
آپی آپ خود کو کیوں ایسے تکلیف دے رہی ہیں؟
اور آخر کب تک ایسا چلے گا وقار بھائ جا چکے ہیں اور وہ اپنی دنیا میں بہت خوش ہیں پھر آپ کیوں ابھی تک انہیں بھول نہیں پائ؟
تم نہیں سمجھو گی عالیہ۔۔
میں ایسا نہیں کر سکتی میں چاہ کر بھی اسے نہیں بھول سکتی۔۔
کیوں؟
کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔۔
مجھے تو لگتا ہے آپنے خود ہی انہیں حواسوں پر سوار کر رکھا ہے۔۔
ہاں تم ایسا کہہ سکتی ہو کیونکہ ابھی تم جانتی نہیں کہ محبت کیا ہوتی ہے۔۔
آپی کیا محبت اتنی تکلیف دہ ہوتی ہے؟
نہیں یہ تو بڑی لاڈلی ہوتی ہے بس یہ ایک الگ بات ہے کہ صرف لاڈ اٹھوانا جانتی ہے۔۔
کیا اس محبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئ راستہ نہیں؟
نہیں جو ایک بار اسکی انگلی پکڑ لیتا ہے نا
یہ زبردستی اسکا ہاتھ پکڑ لیتی ہے اور اگر کوی اسکا ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے کی کوشش کرے تو یہ اسکو جکڑ کر باندھ دیتی ہے یہ صرف انسان کے دل پر ہی نہیں بلکہ اسکی پوری روح پر بھی اپنے پنچے گاڑھ لیتی ہے۔۔
یہ انسان کی میں کو نکال باہر پھینکتی ہے اور پھر بس ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے تو صرف تو۔۔
اب نائلہ نے ایک آہ بھری تھی۔۔
آہ عالیہ تم کیا جانو یہ محبت کیا ہوتی ہے؟
تم کیا جانو محبت کے 'م' کا مطلب؟
مل جائے تو معجزہ،
نا ملے تو موت۔۔
تم کیا جانو محبت کے 'ح' کا مطلب؟
مل جائے تو حکومت،
نا ملے تو حسرت۔۔
تم کیا جانو محبت کے 'ب' کا مطلب؟
مل جائے تو بادشاہی،
نا ملے تو بربادی۔۔
تم کیا جانو محبت کے 'ت' کا مطلب؟
مل جائے تو تخت و تاج،
نا ملے تو تنہائ۔۔
یہ سب کہتے ہوئے نائلہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئ تھی اور عالیہ نے آگے بڑھ کر اسے اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔۔
اے اللہ میری بہن کی تکلیف دور کر دے اسے سکون عطا کر نائلہ کو گلے لگاتے ہوئے عالیہ نے دل ہی دل میں اسکے لئے دعا کی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار جب اپنی اماں جان کے پاس سے ناکام لوٹا اور اس نے یہ خبر مہرماہ کو سنائ تو وہ بھی بجھ سی گئ۔۔
اور پھر فاطمہ اور زبیدہ خاتون نے ان دونوں کو خوش کرنے کے لئے یہ plan بنایا کے نکاح تو انکا ہو چکا ہے مگر اب وہ ان دونوں کی شادی دھوم دھام سے کریں گیں۔۔وہ چانتی تھیں کہ جو دکھ انہیں اماں جان کی ناراضگی کا تھا اسکا مداوا تو وہ کبھی نا کر سکتی تھیں مگر ایسا کرنے سے وہ دونوں خوش ہو جائیں گے۔۔
فاطمہ اور زبیدہ خاتون نے مہرماہ کو اپنے پاس رکھ لیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اب وہ مہرماہ کو دلہن بنا کر ہی وقار کے ساتھ رخصت کریں گی۔۔
فاطمہ کی چھوٹی بہنیں بھی بہت خوش تھیں کہ انکے گھر میں شادی ہو رہی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیدہ خاتون کے گھر کے چھوٹے سے صحن میں مہندی کے فنکشن کے لئے زبردست arrange کیا گیا تھا ہر سو گیندے لے پھولوں کی بہار تھی اور جابجا دئیے سجائے گئے تھے صحن کے عین وسط میں لڑکیاں بیٹھی ڈھولک بجا رہی تھیں اور ان لڑکیوں سے تھوڑا فاصلے پر گیندے کے پھولوں کی لڑیوں سے سجا لکڑی کا جھولا لگایا گیا تھا جس پر مہرماہ کو بٹھایا گیا تھا۔۔
اور اسکے جھولے کے قریب ہی ایک عدد صوفہ رکھا گیا تھا جس پر زبیدہ خاتون براجمان تھیں اور فاطمہ مہرماہ کے ساتھ ہی جھولے پر بیٹھی تھی۔۔
فاطمہ کی بہنیں باقی لڑکیوں کے ساتھ ڈھولک بجانے میں مصروف تھیں۔۔
مہرماہ نے yellow کلر کی شارٹ شرٹ کے ساتھ سبز رنگ کا غرارہ پہن رکھا تھا اور اسکے ساتھ اسنے yellow کلر کا خوبصورت دوپٹہ اپنے سر پر سجا رکھا تھا جس میں وہ آسمان سے اتری پری معلوم ہو رہی تھی۔۔
اس تقریب میں مہرماہ نے کسی بھی مرد کو بلانے سے منع کر دیا تھا اسی لئے ہہاں کوئ بھی مرد نا تھا۔۔
سوائے اس کے محرم وقار احمد کے۔۔
وہ مہندی کا فنکشن شروع ہونے کے کچھ دیر بعد یہاں آیا تھا اس نے ڈارک گرے کلر کے کرتے کے نیچے کے وائٹ شلوار پہن رکھی تھی اور جب وہ یہاں داخل ہوا تو اسے دیکھنے کے لئے ہر نظر اٹھی تھی کہ آخر اس پری کے لئے کونسا شہزادہ آیا ہے اور پھر اسے دیکھتے ہی سب کی نظریں جم سی گئ تھیں شاید وہ یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر ان دونوں میں سے کون زیادہ خوبصورت ہے۔۔
اور وہ مسکراتا ہوا شہزادوں جیسا وقار احمد مہرماہ کی جانب بڑھا تھا اور اسے دیکھتے ہی گویا وہ سانس لینا ہی بھول گیا تھا اسے یونہی دیکھتے بنا پلکے جھپکے اب وہ اسکے قریب آ گیا تھا اور اسے یوں مبہوت سا دیکھ کر فاطمہ نے مصنوعی کھانسی کی تھی اب بس بھی کریں وقار بھائ ہماری دلہن کو نظر لگائیں گے کیا؟
یہ کہتے ہوئے وہ مہرماہ کے پاس سے اٹھ گئ تھی اور اس نے وقار کو بیٹھنے کے لئے جگہ دے دی تھی۔۔
لڑکیاں اب ڈھولک بجانے کے ساتھ ساتھ گانے بھی گا رہی تھی اور وقار مہرماہ کے قریب ہو کر اسکے کندھے سے کندھا مارتے ہوئے ان گانوں پر جھومنے لگا تھا۔۔
زبیدہ خاتون نے آگے بڑھ کر ان دونوں کی نظر اتارتے ہوئے ان دونوں کے ماتھے پر بوسا دیا تھا۔۔
اب وہ مہرماہ کے کان میں سرگوشیاں کرنے میں مصروف تھا۔۔
مہر میں تو تمہیں دیکھنے کے لئے ترس گیا ہوں پلیز مجھ سے مل لو نا اکیلے میں۔۔
کیا ہو گیا ہے وقار ابھی کیسے اب کل رخصتی کے بعد مل لیجئے گا بس۔۔
بہت شکریہ بتانے کے لئے مجھے ابھی ملنا ہے پلیز do something نا اب تو میں تمہارا محرم ہوں نا ورنہ میں رو دونگا۔۔
اچھا کچھ کرتی ہوں ۔۔
اور پھر کچھ دیر بعد اس نے فاطمہ کو آواز دی تھی اور جب وہ اسکے قریب آئ تو اس نے اس سے کہا تھا فاطمہ میرے سر میں درد ہو رہی ہے میں کچھ دیر اندر جا کے آرام کرنا چاہتی ہوں پھر تھوڑی دیر بعد واپس آجاونگی۔۔
ہاں ٹھیک ہے آجاو مہر اور پھر فاطمہ اسے اپنی ہمراہی میں گھر کے اندر لے گئ تھی۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد جب سب اپنے ہلے گلے میں مصروف ہو گئے تو وقار زبیدہ خاتون کے صوفے پر آگیا۔۔
آنٹی مجھے لگتا ہے آپ کافی تھک گئ ہیں آئیں میں آپکو اندر لے چلتا ہوں تھوڑا آرام کر لیں آپ بھی پھر آجائیے گا اور زبیدہ خاتون کو لئے پھر وہ گھر کے اندر آ گیا تھا اور زبیدہ خاتون کو انکے کمرے میں بٹھا کر وہ سیدھا فاطمہ کے کمرے میں آ گیا تھا وہ جانتا تھا کہ مہر وہی ہو گی۔۔
اور پھر اس نے اندر آتے ہی کمرے کا دروازہ بند کر لیا تھا۔۔
اور اسے دیکھتے ہی مہر اسکی جانب بڑھی تھی اب وہ دونوں دروازہ بند کر کے اسکے آگے ہی کھڑے ہو گئے تھے وقار نے مہر کو تھام کر اپنے سامنے کھڑا کر لیا تھا۔۔
اوہ اب سکون آیا جانتی ہو میری تو آنکھیں ترس گئ تھی تمہیں دیکھنے کو؟
اچھا جی؟
ہاں میں نے بہت miss کیا تمہیں۔
میں نے بھی آپکو بہت miss کیا۔۔
جانتی ہو میرا دل چاہ رہا ہے تمہیں ابھی یہاں سے اپنے ساتھ بھگا کر لے جاوں۔۔
اچھا تو ایسا ممکن ہے کیا؟
ہاں اگر تم مجھے دوبارہ مل سکتی ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔۔
اچھا بس اب چلیں باہر جائیں کوئ آجائے گا۔۔
اچھا ایک منٹ تمہیں دل بھر کے دیکھ تو لوں۔۔
کیا آپکا دل بھر سکتا ہے کبھی؟
نہیں۔۔
تو پھر؟
جائیں اب اس نے دروازہ کھولتے ہوئے وقار کو دھکا دیا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔
اور پھر اگلے دن وہ دلہن بن کر جب اسکے سامنے آئ تو اسے دیکھتے ہی وقار کا تو دل دھڑکنا ہی بھول گیا تھا اور یوں وہ پری اپنے من پسند شہزادے کے ساتھ دلہن سے سجے اسکے محل میں داخل ہوئ تھی۔۔
یوں وہ وقار کی مہر بن گئ تھی۔۔
وقار نے اپنے کمرے کو انتہا درجے کی خوبصورتی سے پھولوں اور candels کی مدد سے سجا رکھا تھا۔۔
اور وہ ان پھولوں پر سہج سہج قدم رکھتی اسکا ہاتھ تھامے اسکی مسہری پر آ بیٹھی تھی۔۔
مہر تم جانتی ہو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں ایک حسین خواب دیکھ رہا ہوں ابھی میری آنکھ کھلے گی اور یہاں پر تم نہیں ہو گی۔۔
وقار کیا ہو گیا ہے ایسا کبھی نہیں ہو گا میں یہی ہوں اور دیکھئے گا میں یہی رہوں گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں کیوں آج آفس جاتے ہوئے وقار کا دل بہت گھبرا رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کے وہ آج آفس جائے مگر آج اسکی ایک international کمپنی کے ساتھ ایک اہم meeting تھی اور جب یہ بات مہر کو پتا چلی تو اس نے تو وقار کو زبزدستی آفس جانے کے لئے تیار کر دیا۔۔
جان میرا دل بلکل نہیں مان رہا۔۔
وقار میں ٹھیک ہوں اور شہناز ہوتی ہے نا ہر وقت میرے ساتھ اب کیا آپ چاہتے ہیں کے دو چار لڑکیاں اور رکھ لیں میرا خیال رکھنے کے لئے؟
ہمم سوچ تو ایسا ہی رہا ہوں۔۔
وقار پلیز نا۔۔
اچھا جان جی اچھا میں جا رہا ہوں پھر مگر تم اپنا خیال رکھنا اور پلیز مجھ سے کانٹیکٹ میں رہنا۔۔
اوکے جی۔۔
اور پھر وہ اسکے چہرے کو والہانہ انداز میں چومنے کے بعد چلا گیا تھا اور وہ ٹی وہ لاونج میں آکر شہناز کے ساتھ بیٹھ گئ تھی۔۔
ابھی انہیں بیٹھے ایک گھنٹہ ہی گزرا ہو گا جب شہناز کا موبائل بجا اور وہ فون سنتے ہی رونے لگی۔۔
باجی باجی میری ماں کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے وہ وہ ہاسپٹل میں ہے باجی پلیز مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔۔
اوہ پلیز ائسے رو مت کوئ بات نہیں جاو تم چلی جاو اور اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئ تو مجھے کال۔کر لینا۔۔
اچھا باجی میں چلتی ہوں آپ اپنا خیال رکھئے گا۔۔
شہناز کو گئے ابھی گھنٹہ ہی گزرا ہو گا کہ اسے اپنا موبائل بجنے کی آواز آئ۔۔
اوہ شٹ میرا موبائل تو اوپر کے کمرے میں ہی رہ گیا وقار رات اوپر کمرے میں لے گئے تھے کسی کو کال کرنے کے لئے۔۔
اب کیا کروں وقار کی کال نا آ رہی ہو اگر ریسیو نا کی تو ایسا نا ہو meeting چھوڑ کے ہی گھر آجائیں۔۔
صابرہ
صابرہ
شکیلہ
شکیلہ۔۔
اس نے ان دونوں ملازماوں کو آوازیں دی تھیں مگر کسی نے بھی اسکی آواز نا سنی تھی اب اس کا موبائل مسلسل تیسری دفعہ بج رہا تھا۔۔
کیا کروں اگر فون نا اٹھایا تو وقار پریشان ہو جائیں گے۔۔
ایک کام کرتی ہوں آرام آرام سے خودی اوپر چلی جاتی ہوں ۔۔
اور پھر اٹھتے ہی وہ سیڑھیوں کے زینے پر چلی گئ تھی وہ بہت محتاط انداز میں سیڑھیاں چڑھ رہی تھی وہ ہر step پر بہت احتیاط سے قدم رکھ رہی تھی۔۔
اور اب اوپر کے صرف دو step ہی بچے تھے اس نے اپنا قدم اٹھا کر آگے بڑھنا چاہا مگر اچانک اسکا پاوں بے ترتیب ہو کر پھسلا تھا اور وہ لاکھ کوششوں کے باوجود سنبھل نہیں پائ اور اوپر سے وہ سیڑھیوں سے گرتی ہوئ بہت بری طرح زمین پر آکر گری تھی اسکے سر سے بہت خون بہہ رہا تھا اسے سب کچھ دھندلا ہوتا نظر آیا اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔۔
اسکا فون اب بھی بج رہا تھا اور آنکھیں بند ہونے سے پہلے اسکی نظروں میں وقار کا چہرہ آیا تھا۔۔
درد کی شدت کے باعث اسکے لبوں سے بہت ہلکی سی آواز نکلی تھی
وقار۔۔
اے اللہ ۔۔
وقار۔۔
صبر۔۔
آزمائش۔۔