مریم نے انجلینا کو روڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دی تھی انجلینا اپنے کام سے بہت خوش تھی اور اس نے اپنی اسلام پر ریسرچ اب خاصی تیز کر دی تھی وہ چاہتی تھی کے بہت جلد اب وہ کسی مذہب کا انتخاب کر لے مگر یہ سب وہ پورے غورو فکر کے ساتھ کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہ صرف مذہب کا ہی نہیں بلکہ صیحیع اور غلط کا بھی معاملہ تھا۔
وقار آج پھر وہی کھڑا تھا۔۔
وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس ناپسندیدہ جگہ پر آگیا تھا مگر وہ کہیں نا تھی۔۔
اب اس ماحول سے اسے نفرت ہو رہی تھی ویسے بھی وہ اس ماحول کا عادی نا تھا اب وہ وہاں سے باہر آکر روڈ پر یونہی بے مقصد چلنے لگا تھا۔۔
کچھ ہی دیر میں علی ہانپتا ہوا اس کے پیچھے پنہچا تھا اور اس نے اسے آتے ہی کندھے سے دبوچ لیا تھا۔۔
وقار اب پورا علی کی جانب گھوم گیا تھا۔۔
تم یہاں کیسے آئے علی؟
مجھے پتا تھا مجنوں تو یہی ملے گا۔۔
آخر آج میں نے تیرا ٹھکانہ دھونڈ ہی لیا اس دن تو کتنے نخرے کیے تھے تو نے اور ہم کتنی مشکل سے تجھے لائے تھے یہاں۔۔یاد ہے نا؟
اور اب تو نے یہاں اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے؟
بکواس بند کر تو جانتا ہے میں ایسا نہیں ہوں۔۔
ہاں جانتا ہوں تو وہاں جاتا ضرور ہے مگر پھر بھی کسی کو آنکھ اٹھا کے دیکھتا تک نہیں اور جسے دیکھنا چاہتا ہے وہ تیری آنکھوں کے اگے آتی نہیں۔۔ایسا ہی ہے نا وقار؟
وہ اسے کیا جواب دیتا کے وہ چہرہ تو کبھی اسکی آنکھوں کے سامنے سے ہٹتا نہیں تھا ہاں یہ الگ بات تھی کہ وہ اس کے خیالوں تک ہی محدود تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے قدم یہاں آنے سے روک نہیں پاتا تھا اور ویسے بھی جب سے وہ یہاں آیا تھا اس کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔۔
ہیلو مسٹر مجنوں کچھ بولنا پسند فرمائیں گے آپ علی اب ایک بار پھر اس سے مخاطب تھا۔۔
علی یہ سب میرے اختیار میں نہیں ہے میں کیا کروں۔۔وہ شدید بے بس نظر آرہا تھا۔۔
وقار کیا تو نے کبھی سوچا ہے کہ کیا پتا وہ اس ملک کی ہو ہی نا اور شاید وہ بھی ہماری ہی طرح یہاں صرف سیر و تفریح کے لئے آئ ہو اور شاید دوبارہ کبھی یہاں نا آئے یا شاید ہماری ہی طرح دوبارہ آ بھی جائے لیکن ضروری نہیں کہ وہ ابھی یہاں آئ ہو تو پھر کیوں تو ایسے مارا مارا پھرتا ہے اور آخر کب تک یہ سب کرتا رہے گا؟
شاید جب تک یہاں ہم ہیں تب تک۔۔
اففففف اس کا مطلب چھ مہینے اور مجھے تجھے اس مجنوں کے روپ میں برداشت کرنا ہو گا علی نے یہ کہتے ہوئے اتنی بری شکل بنائ تھی کہ وقار اپنی ہنسی روک نہیں پایا تھا اور پھر وہ دونوں بے ساختہ ہنس دئیے تھے۔۔
اب وہ دونوں اپنے اپارٹمنٹ تک جانے کے لئے ٹیکسی میں بیٹھ گئے تھے وہ دونوں یہاں ایک اپارٹمنٹ ہی شئیر کرتے تھے ہاں مگر یہاں کھانا انہیں خودی بنانا پڑتا تھا کپڑے وہ لانڈری سے دھلوا لیتے تھے اور صفائ کے لئے انہوں نے بلڈنگ کی ہی میڈ کو رکھ لیا تھا جو ایک گھنٹے کے لئے آکر صفائ کر جایا کرتی تھی۔۔
********************
وقار اپنی کسی سوچ میں منہمک میں بیٹھا تھا جب علی بیڈ پر آ دھمکا اور وقار کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔۔
یار کیا تو کبھی انسانوں کی طرح سے نہیں رہ سکتا یہ جانوروں جیسی حرکتیں کرنا ضروری ہیں؟
یار کیا تو کبھی نارمل وقار احمد بن کر نہیں رہ سکتا یہ مجنوں جیسی حرکتیں کرنا ضروری ہیں؟
علی بھی اسی کے انداز میں بولا تھا اور اب اپنے دانت نکال کر وقار کو دکھا رہا تھا۔
وقار نے اپنے قریب پڑا تکیا اس کی طرف اچھال دیا تھا۔۔
کیا تو کچھ دیر کے لئے میرا پیچھا نہیں چھوڑ سکتا؟
کیا تو کچھ دیر کے لئے اس کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتا؟علی پھر سے وقار کے انداز میں ہی بولا تھا۔۔
اور اب کی بار وقار ہنس دیا تھا۔۔
اوئے مجنوں تجھے تو میرا شکر گزار ہونا چاہئیے تو نے کبھی سوچا ہے کہ اگر میں تیرے ساتھ نا ہوتا تو۔۔تو کیا کرتا؟
اللہ کا شکر ادا کرتا۔۔لیکن وہ دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ واقعی اگر علی نا ہوتا تو اس کا کیا بنتا۔۔
اوئے مجنوں چل اٹھ آج باہر چلتے ہیں۔۔
مگر۔۔ وقار نے کچھ بولنا چاہا تھا
اگر مگر کچھ نہیں چل شرافت سے اٹھ جا ورنہ میں تجھے یہاں لاک کر جاوں گا اس لئے بہتر ہے کہ تو میرے ساتھ چل اور tension نا لے تجھے تیرے ٹھکانے پر بھی لے چلوں گا اور علی نے یہ کہتے ہی قہقہ بلند کیا تھا اور اسکے ساتھ ہی وقار بھی ہنس دیا تھا۔۔
چل اٹھ جا مجنوں ورنہ میں یہی لیٹ کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر رونے لگ جاوں گا۔۔
تو کبھی نہیں سدھر سکتا بندر۔۔
اور پھر وہ دونوں ہی کچھ دیر بعد باہر جانے کے لئے تیار تھے۔۔
یار ویسے ایک بات ہے کے اگر تجھے وہ مل گئ تو یار تو تو اس کا غلام ہی بن کر رہے گا کیوں مجنوں یہ کہتے ہوئے علی نے وقار کو کندھا مارا تھا۔۔
بکواس۔۔وقار صرف اتنا ہی کہہ سکا تھا کیونکہ آگے کا جملہ علی نے خودی مکمل کر دیا تھا۔۔
بند کر۔۔اور یہ کہتے ہی علی نے وقار کو دانت چڑائے تھے۔۔
ویسے آج ہم جا کہاں رہے ہیں۔۔
ی(Tower Hill Station)علی نے جواب دیا۔۔
کیا تو نے ان ڈیڑھ سالوں میں ابھی تک لندن کی ٹرین کی سیر نہیں کی؟
نہیں تجھے کوئ مسلہ ہے؟
یار ویسے تیرے پلین بھی تیری طرح بونگے ہی ہوتے ہیں۔۔
اوہThanks for your kind information..
اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ واک کرتے ہوئے hill station کی طرف جا رہے تھے کہ علی کے موبائل پر اس کے بابا کی کال آگئ وہ ان سے بات کرنے میں مصروف تھا اور وقار اس کے پیچھے چلتا ہوا یونہی بے مقصد سڑکوں پر چہل قدمی کرتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔۔
اس کی نظریں اچانک سے سامنے pavement پر بیٹھے ہوئے ایک چہرے سے ٹکرائ اور پھر اس کی نظریں واپس پلٹنا بھول گئ تھی وہ یک ٹک بنا پلیکں جھپکائے اسے دیکھنے لگا وہ اس ڈر سے اپنی پلکیں نہیں جھپکا پایا تھا کے کہیں سامنے کا منظر اس کی آنکھوں سے اوجھل نا ہو جائے اور پھر ایسے ہی اس نے روڈ کراس کی تھی اور اب وہ اس کے قریب آ گیا تھا اب اس نے اپنی پلکیں جھپکی تھیں مگر وہ حیران تھا کے سامنے کا منظر اب قریب سے بھی بالکل ویسا ہی تھا۔۔
وہ اپنے کینوس پر رنگ بھرتے ہوئے اپنے اردگرد سے بے خبر تھی۔۔
اب وہ اس کے بالکل قریب آگیا تھا اور اس نے ڈرتے ڈرتے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ لگایا تھا اور اس نے یک دم اپنی لمبی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا اور وہ تو جیسے سانس لینا ہی بھول گیا تھا اسی ٹرانس میں وہ بولا تھا۔۔
Are you Real
وہ بھی اب اسی کے انداز میں مگر جھنجلائ جھنجلائ سی بولی تھی۔۔Are you Mad
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائلہ کالج سے گھر آئ تو عارفہ اور ساجدہ جگمگ کرتے کپڑے پھیلائے بیٹھی تھیں ان کے قریب ہی عالیہ بھی براجمان تھیں۔۔
اسلام و علیکم اس نے اونچی آواز میں سلام کیا تھا۔۔
اور اس کے سلام کرتے ہی وہ تینوں اسکی طرف متوجہ ہوئ تھیں اور اسے سلام کا جواب دیا تھا۔۔
آو بیٹا دیکھو یہ کپڑے کیسے ہیں؟ عارفہ بیگم بولی تھیں۔۔
اچھے ہیں مگر ممانی جان یہ کچھ زیادہ ہی فینسی ہیں کیا کسی کی شادی آ رہی ہے؟
اور اسکی بات سنتے ہی عارفہ بیگم نے ساجدہ کو معنی خیز نظروں سے دیکھا تھا جبکہ عالیہ اس بات پر خوب کھلکھلا کر ہنسی تھی اور اس کے قریب آکر اس نے اپنے بازوں اس کے گرد حائل کر دئیے تھے۔۔
ہاں جی آپی شادی تو آرہی ہے۔۔
امی میں بتاوں آپی کو پلیز اس نے ساجدہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے التجا کی تھی۔۔
ساجدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اپنے سر کو ہاں میں جنبش دی تھی جبکہ نائلہ ان سب کے اشاروں پر کچھ حیرت زدہ سی ہو رہی تھی۔۔
آپی آپ کی شادی ہو رہی ہے عالیہ نے مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔
نائلہ نے عارفہ اور ساجدہ بیگم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا جس کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے سر کو ہاں میں جنبش دی تھی۔۔
یہ عالیہ کے الفاظ تھے یا کوئ bomb جو اس پر گرا تھا۔۔اس نے تو کبھی سوچا بھی نا تھا کہ کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔۔
اب میں کیا کروں گی تو گویا نائلہ طارق یہ ثابت ہوا کے تم واقعی انتہا درجے کی بیوقوف ہو۔۔
وہ گم صم سی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئ تھی عالیہ نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔۔
آپی پوچھیں گی نہیں کے آپ کی شادی کس سے ہو رہی ہے؟
اسے عالیہ کی آواز کہیں بہت دور سے اتی ہوئ محسوس ہوئ تھی۔۔
اب اس بات سے کیا فرق پڑتا تھا کے اس کی شادی کس سے ہو رہی ہے۔۔
وہ بت بنی اپنی جگہ پر کھڑی اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کو سب کی نظروں سے بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار اور مہر پارٹی سے فارغ ہو کر رات کے دو بجے گھر پنہچے تھے۔۔
وقار کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی جبکہ مہر ابھی بھی خاصی فریش تھی۔۔
وقار آپ تھک گئے ہیں؟
نو مائ ڈئیر لیکن تم تھک گئ ہو گی نا سوری مجھے تمہاری حالت کا خیال کرنا چاہئیے تھا مگر وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا تم ٹھیک ہو نا مہر؟
وہ اسکی جانب دیکھ کر مسکرائ تھی وقار میں ٹھیک ہوں بالکل اور میں نہیں تھکی ہوں میں تو پورا دن گھر میں آرام ہی کر رہی ہوتی ہوں لیکن آپ کی آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں آپ تھک گئے ہیں نا؟
ہاں بہت لیکن میری یہ تھکاوٹ دور ہو سکتی ہے؟وقار نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
اچھا جی وہ کیسے؟مہر نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
آپ کو نہیں پتا؟
امم ہمم۔۔
تو پھر میں بتاوں؟
جی نہیں۔۔ کہتے ہوئے مہر نے اسکی بانہوں سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی تھی مگر وقار نے اسے گود میں اٹھا لیا تھا اور پھر وہ کمرے میں جانے کے لئے اسے گود میں لئے سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺳﺐ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺳﮯ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ گم ﺗﮭﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﭼﮩﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺁﭘﯽ ﺭﮐﯿﮟ ﻧﺎ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﭦ ﮐﺎ ﮐﺎﻣﺪﺍﺭ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺍﻭﮦ ﺁﭘﯽ ﺁﭖ ﺩﻟﮩﻦ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﺘﻨﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻟﮕﯿﮟ ﮔﯽ ﻧﺎ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﺁﭘﯽ ﺁﺋﯿﮟ ﻧﺎ ﺍﺩﮬﺮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻟﮯ ﺁﺉ ﺗﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﻭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺟﺪﮦ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﮕﮧ ﺑﻨﺎﺉ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﻮﺉ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻋﺎﻟﯿﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭘﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺧﻮﺏ ﮈﺍﻧﺲ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺰﻥ ﮐﻮ ﺁﭘﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼﺉ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮨﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ۔۔
ﺍﭼﮭﺎ ﭼﻠﻮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻠﺘﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺯﺭﺍ ﺟﺎﮐﺮ ﻧﺴﯿﻤﻦ ﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﺟﺪﮦ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻋﺬﺍﺏ ﮨﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﻭ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﮨﻮ ﮔﺊ ﮨﻮﮞ ﺍﺏ۔۔
ﺳﺎﺟﺪﮦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﻮﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﺘﯽ ﮨﻮﺉ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺍﻑ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﮞ ﻣﺠﺎﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﺎﺟﺪﮦ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﺏ ﺳﺎﺟﺪﮦ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﻭﺝ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺪﺩ ﻃﻠﺐ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺭﻭﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺍﺏ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺳﻔﯿﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔۔ﻭﮦ ﺍﺻﻞ ﻣﺪﻋﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﮩﯿﺪ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﻧﺎﺋﻠﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﻭﺩ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﮩﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺍﺱ ﺷﺪﯾﺪ ﺳﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﭘﮭﻮﻝ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻮﮞ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻭ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﮭﮑﮍ ﻧﮯ ﺍﺏ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﺳﻨﺎﺉ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﺳﻨﺎﺉ ﺩﯾﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻦ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﻣﺮﺍﺩ ﺟﻮ ﺑﺮ ﺁﺉ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺩﻭ ﮨﯽ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺯ ﮔﺸﺖ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻢ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ۔۔
ﺗﻢ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ۔۔
ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ۔۔
ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ۔۔
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺗﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ﭘﺎﺉ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﺳﮯ ﮨﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﺁﺉ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﻮﻟﻮ ﻧﺎ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﻢ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﻧﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺳﮯ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺲ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻤﺎﻟﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺒﺶ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻋﺎﺭﻓﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺟﺪﮦ ﻧﺎﺋﻠﮧ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮨﺎﮞ ﭘﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺻﺪﻗﮯ ﻭﺍﺭﯼ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺍﺏ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﺖ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻃﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔۔
ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻻﮨﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﻟﻨﺪﻥ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺑﺲ ﺑﮩﺖ ﻣﻨﻮﺍ ﻟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﯽ ﻭﮦ ﻣﺎﻧﮯ ﮔﺎ ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔۔
ﻭﮦ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﻧﺎﺋﻠﮧ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﺁﺝ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺍﯾﮏ ﻧﺊ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺩﮬﮍﮎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮐﺘﻨﺎ ﺧﻮﺵ ﮐﻦ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﮯ ﺟﺲ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﭽﭙﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺁﺉ ﮨﮯ ﺍﺝ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺗﻮ ﺩﮦ ﺷﮩﺰﺍﺩﻭﮞ ﺳﯽ ﭼﺎﻝ ﮈﮬﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﭨﮭﮩﺮﺍ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺲ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﻼ ﭼﻼ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺣﻤﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﻋﺎﺻﻤﮧ ﮐﻮ ﮨﯽ ﻓﻮﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﺍﻧﺠﻠﯿﻨﺎ ﮐﺮﺳﭩﻮﻓﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﺳﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮍﺑﮍﺍ ﮐﺮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺁﻑ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔۔
ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻣﺴﭩﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ؟ ﺍﻧﺠﻠﯿﻨﺎ ﮐﺮﺳﭩﻮﻓﺮ ﺧﺎﻟﺼﺘﻦ british accent ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮨﻮ۔۔
ﺗﻢ ۔۔
ﺗﻢ ۔۔۔
ﺗﻢ ۔۔۔۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺟﺎﻥ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮ ﮔﯽ۔۔
ﻭﮦ ﺍﺏ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﺎ۔۔
ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔۔ﮐﯿﺎ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﺳﮑﺘﮯ؟
ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺗﮭﺎ۔۔ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﺑﻮﻝ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﮭﯽ۔۔
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮍﯼ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﮦ ﭼﺎﺩﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﻤﺎ ﺑﮭﯿﮍﺋﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺮﺏ ﻭﺍﺿﺢ ﺩﮐﮭﺎﺉ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺪﺕ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﻨﭽﮯ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺒﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﯽ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﯽ ﺷﺎﺋﺪ۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﺟﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮨﮯ۔۔
ﺍﺏ ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻧﺠﻠﯿﻨﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺭﻭﺯ ﯾﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ؟ﻭﻗﺎﺭ ﻧﮯ ﺍﻧﺠﻠﯿﻨﺎ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﭘﯿﻨﭩﻨﮕﺰ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮﮞ؟
ﮐﺲ ﻭﻗﺖ؟
ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ ﺳﮯ ﺳﺎﺕ ﺑﺠﮯ ﺗﮏ۔۔
ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺱ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﯽ payment ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﺠﻠﯿﻨﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ؟
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﻢ ﻧﺎﻡ ﺁﺭﭨﺴﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﺴﯽ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺋﻦ ﻧﮩﯿﮟ۔۔
ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺋﻦ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﭘﻠﯿﺰ؟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮔﻤﻨﺎﻡ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮔﺎ۔۔
ﻧﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﭘﺮ ﺟﻮ ﻭﻗﺎﺭ ﻧﮯ انجلینا ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺋﻦ ﮐﺮ ﺩﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﺐ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﻃﻮﻝ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﺩﻝ ﮈﻭﺏ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﺧﺼﺖ ﺁﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﭘﺮ ﺳﺎﺋﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺋﻦ ﮐﺮ ﺩﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﯾﮏ ﺩﻡ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﮈ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺉ ﺗﮭﯽ ﺭﻭﮈ ﺁﺭﭨﺴﭩﺲ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﮈ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﻣﺴﭩﺮ۔۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﯿﺪ ﻟﺌﮯ ﺍﮔﻼ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮨﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻧﻤﺒﺮ ﻟﮯ ﻟﯿﮟ ﺁﭖ۔۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻼﺉ ﭘﺮ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮔﮭﮍﯼ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺟﻮ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺑﺠﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﻗﺎﺭ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺭﻭﮈ ﮐﺮﺍﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﭦ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ تب ﺗﮏ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺉ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭘﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﮩﭻ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﭼﺎﺑﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﭘﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔۔ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮐﮯ ﻋﻠﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﺎﭖ ﺳﻦ ﻟﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻋﻠﯽ ﺗﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ؟
ﻭﮦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻋﻠﯽ ﺗﻮ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻼ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ۔۔
ﻋﻠﯽ ﻗﺪﺭﮮ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻋﻠﯽ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ ﮔﺊ۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻧﮯ ﻋﻠﯽ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﺠﺴﺲ ﻧﮯ ﻟﮯ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ؟
ﻭﮦ ﺍﺏ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭘﻠﭩﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﻣﻞ ﮔﺊ ﻭﻗﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﯽ ﭘﯿﮞﻨﭩﻨﮓ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ۔۔ﮐﻮﻥ ﻣﻞ ﮔﺊ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﻮﻝ ﻧﺎ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﺳﺴﭙﻨﺲ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﮯ ﮔﺎ؟
ﺁﻓﺮﯾﻦ۔۔ﻋﻠﯽ ﻭﮨﯽ ﺁﻓﺮﯾﻦ ﻣﻞ ﮔﺊ ﻣﺠﮭﮯ۔۔
ﻭﮦ ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﻭﺍﻟﯽ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻓﺮﯾﻦ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﻠﯽ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﺲ ﮐﯽ ﮨﮯ ﯾﺎﺭ ﭘﮩﯿﻠﯿﺎﮞ ﻣﺖ ﺑﺠﮭﻮﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﺘﺎ ﻧﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺉ؟
ﮐﯿﺎ؟
ﺗﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮯ ﺑﺲ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﮐﯿﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟
ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ؟
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻋﺸﻖ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﺎ ﭘﺎ ﺳﮑﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ؟
ﺗﻮ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺬﮨﺐ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﺮﮎ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ؟
ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ؟
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ؟
ﺗﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ۔۔
ﺗﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺊ۔۔
ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺑﺪﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ؟
ﻣﯿﺮﺍ ﻋﺸﻖ ﺍﺳﮯ ﺑﺪﻝ ﺩﮮ ﮔﺎ؟
ﻋﻠﯽ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﻟﻔﻆ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﺗﮭﺎ " ﻋﺸﻖ " ۔۔؟
ﻋﺸﻖ ﺁﻓﺖ
ﻋﺸﻖ ﺁﺗﺶ
ﻋﺸﻖ ﻣﻄﻠﻮﺏ ﺧﺪﺍ
ﻋﺸﻖ ﻣﺠﻨﻮﮞ
ﻋﺸﻖ ﻟﯿﻼ
ﻋﺸﻖ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻭ ﺻﺪﺍ
ﻋﺸﻖ ﺑﺎﻃﻦ
ﻋﺸﻖ ﻇﺎﮨﺮ
ﻋﺸﻖ ﺗﻤﺜﯿﻞ ﺍﻟﮧ
ﻋﺸﻖ ﺳﺎﮐﻦ
ﻋﺸﻖ ﺟﺎﺭﯼ
ﻋﺸﻖ ﮨﻤﻨﺎﻡ ﺧﺪﺍ
ﻋﺸﻖ ﺑﺎﻗﯽ
ﻋﺸﻖ ﺳﺎﻗﯽ
ﻋﺸﻖ ﻣﻌﻨﯽ ﻋﻄﺎ
ﻋﺸﻖ ﻓﺮﮨﺎﺩ
ﻋﺸﻖ ﺷﯿﺮﯾﮟ
ﻋﺸﻖ ﺑﺎﺭﺍﻥ ﺷﻔﺎ
ﻋﺸﻖ ﻃﺎﻗﺖ
ﻋﺸﻖ ﻃﻠﻌﺖ
ﻋﺸﻖ ﻃﺎﺛﯿﺮ ﺣﯿﺎ
ﻋﺸﻖ ﺟﻠﻨﺎ
ﻋﺸﻖ ﻣﺮﻧﺎ
ﻋﺸﻖ ﺩﺭﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﻭﺍ
ﻋﺸﻖ ﻣﺎﻟﮏ
ﻋﺸﻖ ﺻﺎﺣﺐ
ﻋﺸﻖ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺧﺪﺍ
ﻋﺸﻖ ﺍﻭﻝ
ﻋﺸﻖ ﺁﺧﺮ
ﻋﺸﻖ ﺳﺎﺣﻞ ﺑﺎﺧﺪﺍ۔۔
ﻭﻗﺎﺭ ﭼﭗ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻋﻠﯽ ﺑﮩﺖ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ۔۔
ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻋﺸﻖ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﯽ؟
ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺎﺭ ﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﮩﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﻻﻭﻧﺞ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﺻﺎﺑﺮﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺉ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺟﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮨﺠﮍﮦ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔۔
ﺍﭼﮭﺎ۔۔ﺷﮩﻨﺎﻅ ﺟﺎﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﯿﻨﮉ ﺑﯿﮓ ﻻ ﺩﻭ ( ﺷﮩﻨﺎﻅ ﺍﯾﮏ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﺳﺎﻟﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮯ ﻭﻗﺎﺭ ﻧﮯ ﻣﮩﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻓﻞ ﭨﺎﺋﻢ ﻣﯿﮉ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ )
ﺷﮩﻨﺎﻅ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮨﯿﻨﮉ ﺑﯿﮓ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍﮮ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺉ ﺗﮭﯽ۔۔ﺍﺏ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﯿﻨﮉ ﺑﯿﮓ ﻣﮩﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔ﯾﮧ ﻟﯿﮟ ﻣﯿﮉﻡ۔۔
ﻣﮩﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯﺑﯿﮓ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﯿﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺻﺎﺑﺮﮦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺎﺋﮯ ﯾﮧ ﻟﻮ ﺩﮮ ﺁﻭ۔۔
ﺑﯽ ﺑﯽ ﺟﯽ ۔۔ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﺱ ﮨﺠﮍﮮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺁﻭﮞ؟
ﮨﺎﮞ۔۔
ﺑﯽ ﺑﯽ ﺟﯽ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ؟
ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺻﺎﺑﺮﮦ؟
ﺁﭖ ﺍﺗﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮯ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺻﺎﺑﺮﮦ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻮﭼﻮﮞ؟ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﻖ ﮨﮯ ﺟﺎﻭ ﺩﮮ ﺁﻭ۔۔
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺻﺎﺑﺮﯼ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮨﮯ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﺍﺝ ﮐﻞ ﺑﮭﻼﺉ ﮐﺎ ﮐﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﺋﮯ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺮﺍ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮑﻼﻭ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﭖ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﻖ ﮨﮯ ﺟﺎﻭ ﺩﮮ ﺁﻭ ﺍﺏ ﺑﺘﺎﺋﺌﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟
ﺍﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺁﻭ۔۔
ﺁﺋﮯ ﮨﺎﺋﮯ ﺑﯿﺒﯽ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺉ ﭼﻮﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ؟
ﺻﺎﺑﺮﮦ ﮔﺎﺭﮈ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻭ ﻟﮯ ﺁﻭ۔۔
ﻧﺎ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺟﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﻭﺍﮞ ﮔﯽ ﺁﭖ ﺑﺎﮨﺮ ﻻﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻟﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻣﻮﺋﮯ ﻣﺸﭩﻨﮉﮮ ﮐﻮ۔۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻟﮯ ﺁﻭ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺻﺎﺑﺮﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﻮﺉ ﻻﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﮔﺊ ﭼﺎﺭ ﭼﺌﯿﺮﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺊ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﮩﻨﺎﻅ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔۔
ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺻﺎﺑﺮﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﻮﺱ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﻭﮦ ﺩﮐﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﻣﺮﺩ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺳﮑﺎ ﻗﺪ ﮐﺎﭨﮫ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﺎﺭﻑ ﻟﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮑﺎ ﺭﻧﮓ ﺳﯿﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮑﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﯿﮏ ﺍﭖ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮩﺮ کو ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺳﻼﻡ ﺑﺎﺟﯽ ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺁﺉ ﺟﮯ۔۔
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﺳﻼﻡ ۔۔ﻣﮩﺮ ﻧﮯ ﺑﻐﻮﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺑﺎﺟﯽ ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ۔۔ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﮨﺎﮞ ﺁﻭ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻭ ﺻﺎﺑﺮﮦ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻻﻭ ﻭﮦ ﻧﯿﭽﮯ ﻻﻥ ﮐﯽ ﮔﮭﺎﺱ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﮩﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮩﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺳﯿﻨﮓ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﮞ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار نے یہ تو نوٹ کیا تھا کہ آج انجلینا کچھ الجھی الجھی سی تھی اور وہ کل کی طرح اپنے کام پر دھیان نہیں دے پا رہی تھی۔۔۔
وہ بار بار چونک کر اپنے اردگرد دیکھ رہی تھی ایسے جیسے اسکی نگاہیں کچھ تلاش کر رہی ہوں مگر وقار سمجھ نہیں پارہا تھا کہ آخر وہ کیا ڈھونڈ رہی ہے۔۔
یہ سب تو اس کے تصور میں بھی نا تھا کہ وہ وقار کی نظروں کو ڈھونڈ رہی تھی جنھیں وہ انجلینا پر جمائے ہوئے تھا۔۔۔
جیسے ہی انجلینا نے وقار کی نظروں کی جانب دیکھا تو اسکی تلاش ختم ہو گئ۔۔۔اس نے وقار کو بری طرح گھورا تھا۔۔۔
اور وقار اپنی جگی پر بالکل حیران سا کھڑا ساکت ہی ہو گیا تھا۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کے آخر انجلینا نے اسکی نگاہوں کی تپش سڑک پار بیٹھے کیسے محسوس کر لی۔۔
جو بھی تھا مگر اب وقار کی چوری پکڑی جا چکی تھی اسی لئے وہ اب مزید وہاں کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔۔
اسی لئے وقار نے روڈ کراس کرنے کے لئے اپنے قدم اگے کی جانب بڑھا دئیے۔۔۔
وہ اب روڈ کراس کر رہا تھا اور روڈ کراس کرنے کے بعد وہ انجلینا کے قریب آ گیا تھا اور انجلینا نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی تھی ۔۔مگر وہ کچھ بولی نہیں تھی۔۔۔
وقار نے انجلینا کے قریب پہنچتے ہی اسے hello کہا تھا۔۔
اور جس قدر مختصر وقار کا سوال تھا اتنا ہی مختصر انجلینا نے جواب دیا تھا hi..
وقار جانتا تھا کہ گفتگو کا اغاز اسے خود ہی کرنا ہے اسی لئے وہ پھر بولا تھا۔۔
آج آپ کو یہاں آنے میں خاصی دیر ہوگئ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ پورے چار بجے یہاں آجاتی ہیں۔۔
اور آپ مجھ سے پہلے ہی یہاں پنہچ کر میرے آنے کا انتطار کر رہے تھے؟
وقار نے سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ اس کے سوال کے جواب میں الٹا اسی سے سوال کر بیٹھے گی۔۔
وہ مجھے آپ سے پینٹنگز لینا تھیں میں نے آپ کو کل بتایا تھا۔۔وقار نے ایک بےجان سی دلیل گھڑی تھی۔۔
مسٹر مجھ سے بہت سے لوگ پینٹنگز لیتے ہیں مگر وہ آپ کی طرح دو دو گھنٹے تک میرا انتظار نہیں کرتے اور نہ ہی یوں چھپ چھپ کر مجھے گھورتے ہیں اس دفعہ انجلینا کا لہجہ خاصا تیکھا تھا۔۔
اور وقار سوچ رہا تھا کے وہ انجلینا کی اس بات کا کیا جواب دے۔۔۔
وقار نے پھر سے ایک بے جان سی دلیل دینے کی سعی کی تھی۔۔وہ مجھے پینٹنگز لینا تھی آپ سے۔۔
دیکھیں مسٹر میں یہ تو جانتی ہوں کے آپ کو محض پینٹنگز نہیں چاہئیے اب آپ کو کیا چاہئیے آپ صاف صاف الفاظ میں بتائیے۔۔
تو اس نے اتنی جلدی وقار کی چوری پکڑ لی تھی۔۔
تو اب وقت آ گیا تھا کے وہ انجلینا سے صاف صاف بات کر لے اس کا ہر گز یہ ارادہ نہیں تھا کے وہ انجلینا سے اتنی جلدی اپنے دل کی بات کہہ دے مگر انجلینا نے اب اس کے پاس اور کوئ راستہ بھی تو نا چھوڑا تھا۔۔
اور اب وقار نے بنا کوئ تمہید باندھے سیدھا اصل موضوع کی طرف آیا تھا۔۔
میں آپ کو بہت پہلے سے جانتا ہوں انجلینا۔۔ تقریبن پچھلے تین سال چار مہینے پچیس دن نو گھنٹے دس منٹ اور بارہ سیکنڈ سے۔۔
کیا مطلب وہ وقار کی یہ بات سن کر قدرے حیرانی میں مبتلا ہو گئ تھی۔۔
میرے خیال سے میں نے کچھ ایسا نہیں کہا مس انجلینا جو آپکی سمجھ میں نا آئے۔۔
میں نے یہ کہا ہے کہ میں آپ کو بہت پہلے سے جانتا ہوں۔۔
مگر میں آپ کو نہیں جانتی تو پھر آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟
کیا ہم کسی قریبی کافی شاپ میں جا کر یہ بات کر سکتے ہیں؟
نہیں میںstrangers کے ساتھ یونہی کہیں بھی نہیں چل پڑتی۔۔
انجلینا کی اس بات پر وقار کی انا ہرٹ ہوئ تھی اسے بہت غصہ آیا تھا اور وہ اسی غصے میں بولا تھا۔۔
مگر میں آپ کے لئےstranger ہر گز نہیں ہوں ۔۔اخر آپ اس انسان کو کیسے بھول سکتی ہیں جس نے آپ کو اس رات ان بھیڑئیوں سے بچایا تھا۔۔آپکی کل والی پینٹنگ بہت اچھی تھی مس انجلینا آپ نے ہر چیز بہت اچھے سے پینٹ کی لیکن آپ اس انسان کو پینٹ کرنا کیسے بھول گئ جس نے اس پینٹ کی گئ لڑکی کو ان بھیڑئیوں کی گرفت سے آزاد کرایا تھا اگر آپ کو کچھ یاد رہا بھی تو صرف وہ بھیڑئیے۔۔۔اتنا کہہ کر وقار نے اپنے لب بھینچتے ہوئے یہ بات یہی ادھوری چھوڑ دی تھی۔۔
یہ بات سنتے ہی انجلینا کے ہاتھ میں پکڑا ہوا پینٹ برش چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔۔
اور اس کے چہرے کی رنگت یک دم بدل گئ۔۔
وہ یہ سب کیسے جانتا تھا۔۔
تم۔۔۔۔۔۔۔
تم۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔سب کیسے جانتے ہو؟انجلینا نے اٹکتے اٹکتے اپنے الفاظ ادا کئے تھے۔۔
کیونکہ وہ انسان میں ہوں انجلینا جس نے اس رات تمہیں ان حبشیوں سے بچایا تھا۔۔
اور اگر وہ اسے نا بچاتا تو انجلینا جانتی تھی کہ وہ اس کا کیا حال کرتے۔۔۔
بہت زور سے کچھ انجلینا کے اندر ٹوٹا تھا۔۔
تو یہ وہ انسان ہے جس نے مجھے پامال ہونے سے بچایا تھا۔۔۔
جس انسان سے کچھ دیر پہلے تک میں خطرہ محسوس کر رہی تھی تو وہ دراصل میرا محافظ تھا۔۔
وہ اور مام برسوں سے جس شخص سے ملنے کی خواہاں تھیں۔۔جس گمنام ہستی کے لئے وہ دونوں کبھی دعا کرنا نا بھولی تھیں۔۔وہ آج اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔
کیا اب ہم کہیں جا کر بات کر سکتے ہیں۔۔وقار جانتا تھا کہ یہ سب جاننے کے بعد وہ اب انجلینا کے لئے اجنبی نہیں رہا ہو گا اور اب اسے اس سے کسی بھی قسم کا کوئ خطرہ محسوس نہیں ہو گا۔۔اور اسکا تیر بالکل نشانے پر لگا تھا انجلینا اب واقعی کافی پر سکون دکھائ دے رہی تھی۔۔وہ خاموشی سے اپنا سامان سمیٹنے لگی۔۔
اب وہ اپنا سامان سمیٹ چکی تھی جب وقار اس سے مخاطب ہوا۔۔چلیں؟
جی ہاں ۔۔لیکن ہم۔میرے گھر چل رہے ہیں۔۔i hope آپ کو کوئ اعتراض نہیں ہو گا۔۔اپنی بات کے اختتام پر انجلینا نے سوالیہ نظروں سے وقار کی جانب دیکھا تھا۔۔
اور وہ ایک بار پھر سے وقار کو حیران کرنے میں کامیاب ہو گئ تھی۔۔آخر وہ کیسی لڑکی تھی جسے کچھ دیر پہلے تک وقار سے بات کرنے پر بھی اعتراض تھا اب وہ اسے یوں سر راہ اپنے گھر چلنے کی دعوت دے رہی تھی۔۔
اور وقار تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ انجلینا اس کی نظروں کے سامنے رہے تو پھر اس بات سے کیا فرق پڑتا تھا کہ اسے اپنی نگاہوں میں رکھنے کے لئے اسے انجلینا کے گھر جانا پڑتا یا پھر کسی کافی شاپ پر۔۔
جی اگر آپ خود مجھے انوائٹ کر رہی ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے وقار نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا تھا۔۔
وہ اسے کیا بتاتا کہ انجلینا کی اس بات پر اس کا دل بلیوں کی مانند اچھل رہا تھا۔۔
اب کی بار گفتگو کا آغاز انجلینا کی جانب سے کیا گیا تھا۔۔
میرا گھر یہاں سے walking distance پر ہی ہے۔۔
میری مام آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی آپ ابھی کچھ دیر پہلے پوچھ رہے تھے نا کہ میں آپ کو کیسے بھول گئ تو شاید آپ نہیں جانتے کہ میں اور مام آپ کو کبھی بھی نہیں بھول پائے آپ تبھی سے ہماری دعاوں کا ایک خاص حصہ رہے ہیں مگر میں اس رات آپکا چہرہ نہیں دیکھ پائ تھی میں تب اتنی خوفزدہ تھی کہ جیسے ہی میں ان کی گرفت سے آزاد ہوئ میں وہاں سے بھاگ گئ۔۔
اٹس اوکے میرا مقصد ہر گز آپ کو شرمندہ کرنا نہیں تھا میں بس آپ کوclear کرنا چاہ رہا تھا کہ میں آپ کو کوئ نقصان نہیں پنہچانا چاہتا۔۔یہ کہتے ہوئے وقار نے انجلینا کی مسحور کن آنکھوں کی جانب دیکھا تھا اور وہ اسکی یہ بات سن کر مسکرا دی تھی ۔۔
Oh i feel really sorry for that actually i should be thankful..
نو نو۔۔i really doesn't mean it
But i have too..i am really thankful to you..
اور پھر کچھ دیر کے لئے ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئ تھی انجلینا اگے آگے چل رہی تھی اور وقار اسے follow کر رہا تھا۔۔
ایک نار پھر گفتگو کا آغاز انجلینا کی جانب سے ہی کیا گیا تھا۔۔
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئ آپ مجھے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بھولے نہیں اور آپ کا مجھ سے ملنے کا مقصد مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔
بس میں آپ کو بھول ہی نہیں سکا اور پھر اچانک سے آپ میرے سامنے آگئ تو میں خود کو آپ سے بات کرنے سے نہیں روک سکا۔۔
حیرت ہے کہ آپ نے میرا چہرہ نا صرف دیکھا بلکہ آپ کو یاد بھی رہا۔۔
وہ اب پھر چلتے ہوئے اس سے آگے ہو گئ تھی اور وقار اس کے پیچھے تھا۔۔
وہ اسے کیا بتاتا کہ اسکا چہرہ تو کبھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو ہی نہیں سکا۔۔
پتا نہیں وقار کے دل میں کیا سوجھی کہ وہ اس کے عقب میں بولا۔۔
سنو۔۔۔۔
زبان تو نہیں کہہ سکتی تمہیں احساس تو ہو گا میری آنکھوں کو پڑھ لینا مجھے تم سے محبت ہے۔۔
جو بات وقار اس سے کہہ نہیں سکتا تھا وہ اس نے اردو میں بول دی تھی گو کہ وہ جانتا تھا کے انجلینا اردو نا بول سکتی ہے نا ہی سمجھ سکتی ہے۔۔
مگر پھر بھی انجلینا نے وقار کی اس بات پر مڑ کر اسکی آنکھوں میں یوں جھانکا تھا جیسے وہ اسکی بات لفظ با لفظ سمجھ گئ ہو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے نائلہ کے کانوں تک یہ خبر پنہچی تھی کہ سفیان بھائ کے لئے امی اور ممانی نے اسکی بجپن کی دوست عاصمہ کو پسند کر رکھا ہے تب سے اس نے او عالیہ نے امی اور ممانی کے کان کھا رکھے تھے کہ وہ جلد از جلد عاصمہ کا رشتہ مانگنے اس کے گھر چلیں کہیں ایسا نا ہو کہ اسکا رشتہ کہیں اور ہو جائے اور اسی وجہ سے عارفہ اور ساجدہ آج عاصمہ کے گھر جانے کے لئے تیار ہو رہی تھیں۔۔
لیکن عالیہ نے تو ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا کہ وہ بھی ساتھ ہی جائے گی حالانکہ عارفہ اور ساجدہ نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ بیٹا تم کتنی دفعہ تو عاصمہ سے مل چکی ہو پھر ساتھ جانے کی کوئ تک نہیں بنتی مگر وہ بضد تھی کہ نہیں مجھے بھی ساتھ ہی جانا ہے اسی لئے اس کی ضد کے آگے ہار مانتے ہوئے عارفہ اور ساجدہ نے عالیہ کے ساتھ ساتھ نائلہ کو بھی تیار ہو کر ساتھ چلنے کا حکم نامہ سنایا تھا کیونکہ ان کے خیال سے یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں تھا کہ وہ چھوٹی بہن کو ساتھ لے جاتیں اور بڑی کو گھر چھوڑ جاتی جبکہ طارق صاحب کا کہنا تھا کہ ابھی وہ عورتیں جا کر رشتے کی بات کر آئیں اور جب بات آگے بڑھے گی تو وہ بھی ساتھ چلیں جائیں گے یوں بھی عارفہ بیگم بھی جا رہی تھیں تو پھر کاروباری معاملات انہیں ہی دیکھنا تھے کیونکہ انہیں وہاں آنے جانے میں تقریبن پورا دن ہی لگ جاتا۔۔
چونکہ عاصمہ کالج جاتی تھی اسی لئے انہوں نے اتوار کے دن کا انتخاب کیا تھا تا کہ وہ بھی گھر پر ہو۔۔
جب نائلہ اور عالیہ ساجدہ اور عارفہ بیگم کے ساتھ مٹھائ کے ٹوکرے پکڑے عاصمہ کے گھر پنہچی تو عاصمہ کے سبھی گھر والے انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے ساتھ ہی ان کی چھٹی حس نے انہیں کچھ کچھ عندیہ دے دیا کہ وہ سب اتنے اہتمام سے کیوں ائے ہیں۔۔
عاصمہ ایک نہایت ہی معمولی سے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس کے والد ایک سرکاری کلرک تھے اور اس کے بھائ بھی زیادہ نہ پڑھ سکے تھے باپ کا بوجھ بانٹنے کی خاطر انہوں نے جلد ہی ایک پرائیویٹ کمپنی میں معمولی سی نوکری کر لی تھی مگر اس طرح سے ان کے گھر کا گزر بسر بہت آسانی سے ہونے لگا تھا چونکہ عاصمہ کے بھائ خود تو زیادہ تعلیم حاصل نا کر سکے تھے مگر انہوں نے اپنی بہن کی تعلیم میں کوئ کمی نا ہونے دی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ گریجویشن کر رہی تھی اور مزید تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتی تھی اسکے بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور اسکے ابا اپنی نوکری سے ریٹائر ہو چکے تھے یوں بھی اب وہ بہت بیمار رہنے لگے تھے اسی لیے ان کی دلی خواہش تھی کہ اب عاصمہ جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائے اسی لیے انہوں نے سفیان کا رشتہ بلا تعامل قبول کر لیا تھا مگر انہوں نے ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی تھی کہ وہ ایک مہینے کے اندر اندر عاصمہ کو رخصت کر کے لے جائیں تاکہ عاصمہ کے ابا اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹی کے فرق سے سبکدوش ہو جائیں۔۔
عارفہ اور ساجدہ یہ ہر گز نہیں چاہتی تھیں کہ گھر کی پہلی شادی وقار کے بغیر ہو اور سفیان بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ نائلہ سے پہلے اپنی شادی کروا لے مگر نائلہ نے سفیان کو مناہی لیا تھا اور وقار نے بھی عارفہ بیگم سے کہہ دیا تھا کہ وہ سفیان کی شادی کر دیں کوئ بات نہیں اگر وہ سفیان کی شادی میں شریک نا ہو سکا تو کیا ہوا نائلہ کی شادی میں وہ ضرور شریک ہوگا اور عارفہ بیگم اس کی اس بات پر جی کھول کر ہنس دی تھیں اور انہوں نے دل ہی دل میں یہ سوچا تھا کہ دولہا کے بغیر تو دلہن کی شادی ہو بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
مگر وقار اس بات سے اب تک انجان تھا ہاں اس نے یہ ضرور نوٹ کیا تھا کہ اب نائلہ اس سے پہلے کی طرح بات نہیں کرتی تھی وہ اس سے بات بے بات پہ جھینپ جاتی تھی اور شرما جاتی تھی اسے لگا تھا کہ وہ اب کافی عرصہ سے گھر سے باہر ہے شاید اس لیے نائلہ اب اس سے شرمانے لگی ہے اس نے تو کبھی یہ سوچا ہی نا تھا کہ اسکے پیچھے کوئ اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔۔۔
یوں ٹھیک ایک مہینے بعد بہت دھوم دھام سے عاصمہ اپنے چھوٹے سے گھر سے رخصت ہو کر اس محل نما حویلی میں آگئ تھی۔۔اس نے اپنے دل کا ہر حق اپنے شوہر کے لئے سنبھال رکھا تھا اور اسی لئے سفیان اسکی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا جسے پاکر اسکا انگ انگ سیراب ہو گیا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کی قربت میں بہت خوش تھے اور سب سے زیادہ خوشی عاصمہ کو اس بات کی تھی کہ اب وہ دن رات اپنی سہیلی کے ساتھ رہے گی عاصمہ اور نائلہ ہر وقت گھر میں کھلکھلاتی پھرتی تھیں جس سے گھر کی رونق مزید بڑھ گئ تھی اب وہ دونوں کالج بھی اکٹھی ہی آیا جایا کرتی تھیں۔۔
جب شادی کے ٹھیک دو مہینے بعد سب کو عاصمہ کے امید سے ہونے کی خبر ملی تو سب کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہو گیا اب سب کو انتظار تھا تو صرف وقار کی واپسی کا وہ چاہتے تھے کے جلد از جلد یہ سال گزرے اور وقار واپس پاکستان آجائے۔۔۔اور نائلہ کے لئے تو وقار کے انتظار کا ایک ایک پل صدیوں کے برابر تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انجلینا نے ایک بلڈنگ کے سامنے رک کر وقار سے کہا تھا اسی بلڈنگ میں ہمارا اپارٹمنٹ ہے اور پھر وہ دونوں بلڈنگ کے اندر آگئے تھے اور لفٹ میں آکر انجلنا نے فورتھ فلور کی کال دی تھی اور کچھ ہی دیر میں ان کی لفٹ مطلوبہ فلور پر آکر رکی تھی۔۔
اب وہ دونوں لفٹ سے باہر نکل کر کوریڈور میں چلتے ہوئے سامنے نظر آتے ایک اپارٹمنٹ کے پاس جا کر رک گئے تھے انجلنا اپنے لانگ کوٹ کی پاکٹ میں سے کیز نکال کر دروازہ کھول رہی تھی۔۔
وہ مام اب تھوڑی بیمار رہنے لگی ہیں اسی لئے میں بیل نہیں دیتی میں ہر وقت اپنے پاس کیز رکھتی ہوں۔۔۔
اور وقار سوچ رہا تھا کہ وہ اس بے حس ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنی بوڑھی ماں کا اتنا خیال کرتی ہے۔۔۔۔اس نے اندازہ لگایا تھا کے انجلینا کی ماں بوڑھی ہوگی تبھی وہ بیمار رہنے لگی ہے۔۔
اور پھر انجلینا دروازہ کھول کر خودی اسے خوش آمدید کر رہی تھی۔۔
please wellcome
اب وہ اسے لئے سیڑھیاں عبور کرتی ہوئ اوپر ایک ٹیرس نما ہال میں لے آئ تھی جہاں پر سامنے کی دیوار کی جگہ ایک بہت بڑی شیشے نما کھڑکی جیسی دیوار تھی جس پر سے انجلینا نے پردہ تھوڑا ہٹا دیا تھا اور اب وہاں سے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا اب انجلینا نے اسے قریبی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا آپ یہاں بیٹھیں میں مام کو بلا کے لاتی ہوں وہ نیچے ہی ہوں گی کیونکہ کچن نیچے ہے نا یہ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئ نیچے آگئ تھی اور اب اس نے مریم کو بلانا شروع کر دیا تھا مام۔۔
مام۔۔۔
کہاں ہیں آپ آج وہ مریم سے انگلش میں ہی مخاطب تھی جب سے اس نے مریم سے اردو سیکھی تھی وہ مریم سے اردو میں ہی بات کیا کرتی تھی مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ اوپر بیٹھے وقار کو پتا چلے کہ اسے اردو صرف سمجھنی ہی نہیں بولنی بھی آتی ہے۔۔
وہ مریم کو آوازیں دیتی ہوئ کچن میں آگئ تھی کیونکہ ڈائننگ ہال میں اینٹر ہوتے ہی اسے مریم نظر آگئ تھی اور اس نے کچن میں داخل ہوکر مریم کو پیچھے سے hug کر لیا تھا مام م م مجھے آپ سے کسی کو ملوانا ہے اس نے مریم کے کان میں اب اردو میں سرگوشی کی تھی۔۔
اور مریم نے بھی اسی کے سے انداز میں سرگوشی کرتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔۔
کس سے؟
مام آپ کو پتا ہے بار میں مجھے جس نے ام حبشیوں سے بچایا تھا۔۔
وہ۔۔۔
مگر تم نے تو کہا تھا کہ تم اسے دیکھ ہی نہیں پائ تھی۔۔
ہاں نا میں نہیں دیکھ پائ تھی مگر اس نے تو مجھے دیکھا تھا نا۔۔
یہ سب میں بعد میں آپ کو بتاوں گی ابھی وہ اوپر آپ کا ویٹ کر رہا ہے
چلیں۔۔۔
ہاں چلتے ہیں چلو۔۔۔
مام مام مام اسے یہ مت بتائیے گا کہ مجھے اردو آتی ہے۔۔
اب مریم نے اسے حیران ہو کر دیکھا تھا تو کیا اسے بھی اردو آتی ہے۔۔
ہاں وہ یہاں کا native نہیں ہے مام۔۔
تو پھر پاکستانی ہے کیا ہے؟
یہ تو نہیں پتا پر شکل سے وہ پاکستانی یا انڈین ہی لگتا ہے۔۔
ہمم اگر پاکستانی ہوا تو پھر تو بہت مزہ آئے گا۔۔
اور اگر انڈین نکلا پھر تو آپکا دل ٹوٹ جائے گا دشمن ملک کے دوست سے۔۔
ویسے تم کیا چاہتی ہو کہ وہ کون ہے۔۔۔
مسلمان ۔۔۔
اور انجلینا کے اس جواب پر مریم نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا تھا ایسے جیسے کچھ پڑھنا چاہ رہی ہو اس کے چہرے پر۔۔۔
اور انجلینا نے اب مریم کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے کھینچا تھا مام چلیں۔۔
وہ ویٹ کر رہا ہو گا۔۔۔
اور مریم جیسے ہی وقار کے سامنے آئ تھی وہ مودب سا کھڑا ہو گیا تھاhello madam۔۔۔
hello my son how are you
مریم بھی اس سے انگلش میں ہی مخاطب ہوئ تھی۔۔
وقار نے مریم کو دیکھتے ہی یہ اندازہ تو لگا لیا تھا کہ وہ یہاں کیnative نہیں ہے مگر اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ بات مریم سے کیسے پوچھے۔۔
اوکے مام آپ بیٹھئیے میں کافی لاتی ہوں انجلینا یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئ تھی۔۔
اور مریم نے وقار کی نظروں کو پڑھ لیا تھا اسی لیے وہ خودی بول پڑی تھیں تم یقینن یہی سوچ رہے ہو گے نا کہ میں دکھنے میں تو British نہیں لگتی تو تم بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو میںBritish ہوں بھی نہیں میں Pakistani ہوں۔۔
اور یہ سن کر وقار کو دلی خوشی تھی۔۔
اب وہ اردو میں بولا تھا۔۔
میں بھی پاکسستانی ہوں۔۔
ارے واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے اتنے میں انجلینا کافی کے مگ لئے وہاں آگئ تھی۔۔
اور اب اچانک سے اسے دیکھتے ہی وقار کو یاد آیا تھا کہ وہ انجلینا کو کتنا کچھ اردو میں کہہ چکا ہے اور یہ سوچتے ہی اسے گبھراہٹ ہونے لگی تھی۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ انجلینا کی ماں پاکستانی ہو اور انجلینا کو اردو نا آتی ہو۔۔
لیکن انجلینا ابھی بھی انگلش میں ہی بول رہی تھی اور مریم کو یک دم خیال آیا تھا کہ اسے انجلینا نے منع کیا ہے کہ وہ اس بات کو سیکرٹ ہی رکھے کہ اسے اردو آتی ہے۔۔
اسی لئے اب وہ وقار کی جانب دیکھ کر بولی تھیں انجلینا کو انگلش نہیں آتی بیٹا۔۔
اور وہ قدرے حیران ہوا تھا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی بیٹی کو آپ نے اپنی قومی زبان نا سکھائ ہو اب وہ دونوں انگلش میں بول رہے تھے۔۔۔
اس سے پہلے کہ مریم کچھ جواب دے پاتی۔۔۔
انجلینا خودی بول پڑی تھی۔۔۔وہ اس لئے کہ میں ان کی بیٹی نہیں ہوں۔۔
میری ماں ایک بار ڈانسر ہے میرا باپ لندن کا ایک معروف ڈاکٹر ہے اور اسکا پسندیدہ مشغلہ حسین و خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرنا ہے اور میری ماں کا بھی مشغلہ میرے باپ سے کچھ مخلتف نہیں بس فرق اتنا ہے کہ میرے باپ کی ترجیح خوبصورت لڑکیاں اور میری ماں کی ترجیح مالدار مرد ہوتے ہیں جس رات آپ نے مجھے اس بار میں دیکھا تھا نا اسی رات میرے باپ نے ہمیں اپنی نئ بیوی کو خوش کرنے کی خاطر گھر سے نکال دیا تھا اور میں اور میری بہنیں اس سرد رات میں پناہ لینے کے لئے اس بار میں داخل ہوئ تھیں۔۔
اور اب ضرور آپ کے ذہن میں یہ سوال ائے گا کہ جب وی میرے ساتھ تھی تو انہوں نے مجھے کیوں نہیں بچایا تو وہ اس لئے کیونکہ ان کے لیے یہ سب کچھ معیوب نہیں وہ اسی ماحول کا حصہ ہیں اور وہ بار انکی پسندیدہ جگہ وہ نشے میں اس قدر دھت تھیں کہ ان تک میری چینخوں کی آواز نہیں پنہچی ہو گی اور اگر پنہچ بھی جاتی تو وہ مجھے نا بچاتی کیونکہ وہ خود بھی جسم فروشی کر کر ہی اپنا گزارہ کرنے والی تھی تو انکا خیال تھا کہ ایک دفعہ میرا جسم پامال ہو جائیگا تو میں نارمل ہو جاوں گی پھر یہ سب مجھے برا نہیں لگے گا۔۔۔اب وہ سانس لینے کے لیے رکی تھی اسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی اور پھر وہ وہاں سے چلی گئ تھی کیونکہ اب اپنے آنسووں کو روکنا اسکے لئے مشکل ہو رہا تھا۔۔
اور وقار نے اسکی آگے کی داستان سننے کے لئے مریم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو صابرہ اسے گیراج میں ہی مل گئ اس نے وقار کو دیکھتے ہی سلام کیا۔۔۔
اسلام و علیکم صاحب۔۔
ارے صابرہ بی آپ کو میں نے کتنی دفع منع کیا ہے کہ مجھے صاحب مت کہا کریں اس طرح مناسب نہیں لگتا آپ مجھ سے عمر میں بڑی ہیں۔۔۔
بس بیٹا یہ تو آپ کی اچھائ ہے ورنہ ہم نوکروں کو کون اتنی عزت دیتا ہے۔۔
پلیز صابرہ بی۔۔ایسی باتیں مت کریں آپ جانتی ہیں کہ میں آپ کی دل سے عزت کرتا ہوں۔۔
بس بیٹے اللہ ہر ایک کو آپ اور مہر بی بی جیسا اچھا دل دے۔۔وہ دراصل میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے آپ سے کچھ بات کرنا تھی۔۔
کیا بات ہے صابرہ بی خیریت تو ہے نا؟
جی جی سب خیریت ہے وہ دراصل مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے یہ بات کروں آپ سے۔۔
صابرہ بی اب کچھ پریشان سی دکھائ دے رہی تھی۔۔
اور انکی پریشانی بھانپتے ہوئے وقار نے صابرہ سے کہا آئیں اندر چلتے ہیں اور بیٹھ کر آرام سے بات کرتے ہیں۔۔
نہیں نہیں بیٹا یہ بات میں آپ سے اکیلے میں کرنا چاہتی ہوں۔۔۔
آپ تو مہر بی بی کی فطرت سے واقف ہیں کہ وہ ہر انسان کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں۔۔
اور مہر کا نام سنتے ہی وقار کی لبوں پر مسکراہٹ آگئ تھی وہ اب صابرہ بی کی بات خاصی توجہ سے سن رہا تھا۔۔
جیسا صاف شفاف دل مہر بی بی کا ہے وہ ہر ایک کو ویسا ہی معصوم سمجھتی ہیں مگر یہ دنیا چالاک اور درندہ صفت لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔۔آپ تو جانتے ہیں وقار بیٹا کہ آجکل کیسے حادثات ہو رہے ہیں آج کے دور میں تو اپنے خونی رشتوں پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔۔یہ کہتے ہوئے صابرہ بی نے سوالیہ نظروں سے وقار کی طرف دیکھا تھا ایسے جیسے وہ اپنی بات کی اس سے تصدیق چاہ رہی ہوں۔۔
جی میں جانتا ہوں۔۔لیکن میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا صابرہ بی کہ آخر یہ سب باتیں آپ کیوں کر رہی ہیں؟
ہاں بیٹا میں اب سمجھاتی ہوں آپ کو۔۔
آج ایک ہجڑہ آیا تھا بھیک مانگنے اور اس نے کہا کہ وہ بھوکا ہے کھانا بھی کھانا چاہتا ہے تو بس مہر بی بی کو فورن اس پہ رحم آگیا اور انہوں نے اسے گھر کے اندر بلا لیا کھانا کھلایا باتیں کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے دوبارہ آنے کا دعوت نامہ بھی دے دیا۔۔
بیٹے میں صرف اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ وہ کوئ چور یا ٹھگ نا ہو آپ کے گھر کو خدانخواستہ کوئ نقصان نا پنہچا دے آپ مہر بی بی کو سمجھائیے کہ یوں انجان لوگوں کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے وہ ساری عمر پردیس میں رہی ہیں انہیں کیا پتا یہاں پاکستان میں کیسی کیسی وارداتیں ہوتی ہیں۔۔۔
صابرہ بی آپ نے اس ہجڑے سے پوچھا نہیں کہ وہ کہاں سے آیا تھا؟
ہاں ہاں بیٹا میں نے پوچھا تھا کہہ تو رہا تھا کہ اس علاقے کے قریب جو کچی آبادی پڑتی ہے وہاں سے آیا ہوں اب حقیقت تو اللہ ہی جانے۔۔
ٹھیک ہے میں پتا کروا لوں گا آپ بے فکر رہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اب گیراج سے آنے والے سیدھے راستے پر چل کر گھر کے مین ڈور تک آگیا تھا۔۔
اب وہ مخن ڈور اوپن کر کے اندر داخل ہو گیا تھا۔۔۔
اسے مین ہال میں اینٹر ہوتے ہی مہر سامے صوفے پر شہناظ کے ساتھ بیٹھی نظر آ گئ تھی۔۔
وقار کو دیکھتے ہی شہناز اٹھ کھڑی ہوئ تھی اور مین ہال سے نکل کر باہر جاتی راہداری تک آگئ تھی۔۔
وہ وقار کے گھر اتے ہی واپس اپنے گھر چلی جایا کرتی تھی۔۔
مہر نے ڈرائیور کو خاص ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ شہناز کو خود اس کے گھر چھوڑنے جایا کرے وہ نہیں چاہتی تھی کہ جوان لڑکی رات کے اندھیرے میں یوں اکیلی اپنے گھر جائے۔۔
وقار اب مہر کے ساتھ صوفے پر آکر بیٹھ گیا تھا اور بیٹھتے ہی اس نے مہر کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔
اب وہ اسکا ہاتھ چوم رہا تھا اور اس نے اپنا دوسرا بازو مہر کے گرد حائل کر کے اسے اپنے قریب کر لیا تھا۔۔ اتنا قریب کہ اب وہ مہر کی گرم گرم سانسیں محسوس کر سکتا تھا۔۔
کیسی ہو مہر میری جان وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ لبوں پر سجائے مہر سے مخاطب ہوا تھا۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں وقار آپ کیوں میرے لئے اتنے sensitive ہوتے جا رہے ہیں؟
پتا نہیں کیوں مہر جیسے جیسے ڈلیوری کے دن قریب آرہے ہیں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔
اور مہر وقار کی یہ بات سن کر ہنس دی تھی۔۔
وقار آپ بھی نا۔۔
کم آن سب ٹھیک ہو گا اور آپ کتنی دفعہ تو ڈاکٹر سے پوچھ چکے ہیں اور وہ کتنی دفعہ بتا چکی ہے کہ میرا کیس میں کسی قسم کی کوئ بھی complications نہیں ہیں سب کچھ نارمل ہے تو پھر آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟
بس مہر ایک دفعہ یہ سب کچھ خیریت سے ہو جائے پھر میں کبھی بھی تمہیں اس تکلیف میں دوبارہ مبتلا نہیں کروں گا۔۔
وقار کیسی باتیں کر رہے ہیں اس تکلیف سے تو ہر عورت کو گزرنا پڑتا ہے اور میں دنیا کی کوی پہلی عورت نہیں ہوں وقار۔۔
بس جو بھی ہے میں نے decide کر لیا ہے کہ یہ ہمارا first and last baby ہو گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مریم وقار کو انجلینا کی زندگی کے بارے میں وہ سب بتا رہی تھی جو سب بتاتے بتاتے انجلینا ادھورا چھوڑ کر چلی گئ تھی۔۔۔
اور وقار جیسے جیسے انجلینا کی زندگی کی حقیقتیں جانتا جا رہا تھا اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں اور اس نے دل ہی دل میں یہ عزم کیا کہ وہ انجلینا کو وہ سب خوشیاں دے گا جن سے وہ محروم رہی۔۔۔
اور یہ سب کچھ بتانے کے بعد مریم اس سے دوبارہ مخاطب ہوئ تھی۔۔
اور تمہیں ایک خوشی کی بات بتاوں؟
وقار کے دل میں تجسس پیدا ہوا تھا کہ کیا انجلینا کی زندگی میں کوئ خوشی بھی تھی۔۔
جی بتائیے نا پلیز۔۔
انجلینا نے اسلام قبول کر لیا ہے مریم نے مسکراتے ہوئے وقار کو بتایا تھا۔۔
اور وقار کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا تھا اس نے اپنی بات کی تصدیق کے لیے پھر سے مریم سے پوچھا تھا۔۔
کیا انجلینا نے اسلام قبول کر لیا ہے؟
ہاں مریم اب غور سے اسکا چہرہ پڑھ رہی تھی اسکے چہرے پر خوشی کے رنگ دیکھ کر وہ جان گئ تھی کہ وقار احمد اور انجلینا کے درمیان کیا چل رہا ہے۔۔
وقار کے چہرے پر وہی تاثرات تھے جو اس نے ابھی کچھ دیر پہلے نیچے انجلینا کے چہرے پر دیکھے تھے۔۔
جب انہوں نے انجلینا سے پوچھا تھا کہ انجلینا تم کیا چاہتی ہو وہ کون ہو۔۔
مسلمان ۔۔اور یہ لفظ ادا کرتے ہی اس کے چہرے پر ایک عجب سا رنگ بکھرا تھا۔۔
اب یہ سچ جاننے کے بعد کے انجلینا مسلمان ہو چکی ہے۔۔۔
وقار کے چہرے پر بھی وہی رنگ بکھرے نظر ارہے تھے۔۔۔
مگر وہ ابھی ان دونوں سے کچھ پوچھنا نہیں چاہتی تھیں۔۔
وہ چاہتی تھیں کہ انجلینا خود یہ سب بتائے۔۔
وہ انجلینا نے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام نہیں change کیا؟ وقار نے مریم سے پوچھا تھا۔۔
نہیں وہ ایکچوئلی ابھی کچھ official and legal formalities رہتی ہیں اس لئے۔۔
کیوں نا ہم اس سب کے لئے کل ہی اسلامک سینٹر چلیں۔۔ایکسائٹمنٹ میں وقار کہ منہ سے لفظ پھسلے تھے۔۔اور پھر اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ بولا تھاi mean اگر میں بھی آپ کے ساتھ چلوں تو آپ کو برا تو نہیں لگے گا نا؟
نہیں بالکل بھی نہیں وہ ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ انجلینا سپیگٹیز اور پیزا لئے وہاں نمودار ہوئ۔۔
اور وقار اسے دیکھ کر ایک بار پھر سے حیران ہوا تھا۔۔
وہ دھوپ چھاوں سی کیسی لڑکی تھی ابھی کچھ دیر پہلے وہ اسے اپنی زندگی کی تلخ حقیقتیں بتاتی ہوئ آنکھوں میں نمی لئے گئے تھی۔۔
اور اب وہ خودی پھر سے وہاں مسکراتے ہوئے ان کے لئے کھانا لئے کھڑی تھی۔۔
اب مریم پھر سے انجلینا سے انگلش میں مخاطب ہوئ تھی۔۔
آجاو انجلینا ابھی ہم تمہارے متعلق ہی بات کر رہے تھے یہ کہتے ہوئے مریم نے اٹھ کر انجلینا کے ہاتھ سے برتن لینے کی کوشش کی تھی مگر ایسا کرتے ہوئے مریم کے لبوں سے اک آہ نکلی تھی اور اس نے درد کی شدت محسوس کرتے ہوئے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
مام پلیز آپ بیٹھ جائیں نا۔۔۔
وقار نے آگے بڑھ کر انجلینا کے ہاتھ سے برتن پکڑ کر ٹیبل پر رکھ دئیے تھے اور انجلینا اب مریم کو سہارا دے کر بٹھا رہی تھی۔۔۔
مام یہ کیسی میڈیسن لے رہی ہیں آپ درد ٹھیک ہونے کی بجائے اور ہی بڑھتا جا رہا ہے کل ہم دوسرے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔۔
نہیں انجلینا میں ٹھیک ہوں اب تو کبھی کبھی ہی درد ہوتا تھا۔۔
وقار مریم کو بغور دیکھ رہا تھا وہ دکھنے میں چالیس سال سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی پھر اسے اتنی شدت سے کس چیز کا درد ہو رہا تھا مریم نے درد کی شدت سے کمر کے جس حصے پر ہاتھ رکھا تھا وہ ہڈی کی جگہ نہیں تھی بلکہ وہ تو گردے کی جگہ تھی۔۔۔۔
اب وہ تینوں پھر سے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے۔۔
مریم وقار کو بتا رہی تھی کہ اسےback bone کا پین ہو جاتا ہے ایسے اکثر اٹھتے بیٹھتے۔۔۔
مگر وقار جان چکا تھا کہ وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔۔۔
اب وقار انجلینا کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔
اب وہ اس سے مخاطب تھا۔۔
تو کیا انجلینا اب ہم میں دوستی ہو سکتی ہے i hope اب تو میں آپ کے لئےstranger نہیں ہوں ۔۔یہ کہتے ہوئے وہ قدرے مسکرایا تھا۔۔
اور اب وہ مریم سے مخاطب تھا۔۔
کیا آپ میری وکالت نہیں کریں گیں؟
اور مریم وقار کی یہ بات سن کر ہنستے ہوئے بولی تھی میرا نہیں خیال کہ اب میری وکالت کی ضرورت پڑے گی۔۔
مریم نے یہ کہتے ہوئے انجلینا کی جانب دیکھا تھا۔۔
اور انجلینا اس بات پر مسکرا دی تھی۔۔
اور انجلینا کی اس مسکراہٹ پر تو وقار کا انگ انگ سرشار ہو گیا تھا۔۔۔
بھلا اس نے کب سوچا تھا کہ جو کل تک اد کے لئے اک خواب تھی ایک دن یوں حقیقت کا روپ دھارے اسکے سامنے آجائے گی۔۔
اور اس تک جانے والا ہر راستہ اتنا آسان ہو جائیگا وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ وہ گھر پنہچتے ہی اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اسکا شکر ادا کریگا۔۔۔
اور پھر یوں یہ حسین شام ڈھلی تھی اور پھر سے وقت رخصت آپنہچا تھا۔۔
اور جاتے جاتے وقار نے انہیں یاد دہانی کروائ تھی کہ کل وہ دونوں دس بجے اسلامک سنٹر جانے کے لیے تیار رہیں۔۔
اس بات پر انجلینا نے قدرے حیرانی سے مریم کی طرف دیکھا تھا اور مریم نے مسکراتے ہوئے انجلینا کے ہاتھ تھام لئے تھے۔۔۔