وقار اپنے کلاس فیلو علی کے ساتھ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھا تھا ان کا فورتھ سمیسٹر ختم ہو رہا تھا آج انکا آخری پیپر تھا شہروز علی کو بتا رہا تھا کہ اس سمسٹر کی چھٹیوں میں وہ گھر نہیں جائیں گے بلکہ کسی بیرون ملک سیر کے لیے جائیں گے۔
اور اسے وقار کو بیرون ملک جانے کے لیے راضی کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا کیونکہ سبھی جانتے تھے کہ وقار کی علی کے ساتھ خاصی اچھی دوستی ہے اسی لیے سب کا خیال تھا کہ علی وقار کو رضامند کر لے گا۔۔
اب وہ دونوں اسی معاملے میں بحث کر رہے تھے کہ اچانک دو لڑکیاں ان کی ٹیبل پر آ گئی ۔۔
سنیں آپ وقار احمد ہیں نا بی۔بی۔اے فورتھ سمسٹر کے سٹوڈنٹ جو ہر سمسٹر میں ٹاپ کرتے ہیں؟
وہ وقار سے مخاطب تھیں۔۔
جی آپ کو مجھ سے کوئ کام تھا؟
نہیں ایکچوئلی ہم ابھی نیو کمرز ہی ہیں اور ہم نے آپ کے بارے میں بہت سنا تھا اسی لیے آپ سے ملنے کا بہت شوق تھا۔۔
اوہ اوکے نائس ٹو میٹ یو ویل گرلز پلیز انجوائے یور سیلف۔۔یہ کہہ کر وہ علی کو جانے کا اشارہ کر کے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔
اور وہ دو لڑکیاں اپنے چہرے پر سخت مایوسی لیے واپس اپنی ٹیبل پر آ گی تھیں۔۔
اب وہ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔۔
یار کیا کمال کا بندہ ہے واقعی ہم نے ٹھیک ہی سنا تھا کہ پوری یونیورسٹی میں اور کوئ اس جیسا نہیں یار مجھے تو اسے دیکھتے ہی اس پر کرش ہو گیا۔۔
اب دوسری لڑکی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تھا ہاں یار خوبصورت تو واقعی بہت ہے مگر مغرور بھی کتنا ہے ڈھنگ سے بات تک نہیں کی۔۔
پاگل یہ غرور اور ناز و انداز بھی تو ایسے لوگوں پر ہی سجتا ہے اف وہ تو اپنے ہر انداز میں ایسا ہی شاندار لگتا ہو گا۔۔
علی وقار کے ساتھ چلتے ہوئے کوریڈور میں آرہا تھا۔۔
اوہ سچ یار میں تو بھول ہی گیا تھا کہ وقار احمد اس یونیورسٹی کا سب سے شاندار بندہ ہے اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں وقار احمد ہو وہاں لڑکیوں کا ہجوم نا لگے۔
۔جسٹ شٹ اپ علی ۔۔
کیا یار مجھے تو دونوں ہی اتنی اچھی لگی تھی چل اگر تجھے پسند نہیں آئ تھیں تو میری ہی بات چلوا دیتا نا۔۔
علی کین یو پلیز شٹ یور مائوتھ کہتے ہوئے وقار نے علی کو گھورا تھا ۔
اور اس نے ڈرنے کے سے انداز میں اپنے منہ پہ انگلی رکھ لی تھی۔۔
اچھا نا یار چل نا تو بھی ہمارے ساتھ اتنا مزہ آئے گا سچی اور تجھے پتا ہے وہاں کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت ہوتی ہیں یہ کہتے ہوئے اس نے وقار کو آنکھ ماری تھی۔
۔یار تجھے پتا ہے نا اماں جان نہیں مانیں گی۔
اور اگر میں نے انہیں منا لیا تو بول چلے گا نا؟
ہاں لیکن اگر وہاں کی لڑکیاں بھی ایسی ہوئ نا تو میں تیرا گلا دبا دوں گا اب اس نے بھی علی کو آنکھ ماری تھی اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا اشارہ ان لڑکیوں کی طرف تھا جو انہیں ابھی کچھ دیر پہلے کیفے ٹیریا میں ملی تھی۔۔
اگلے ہی دن وہ دونوں گائوں کے لیے روانہ ہو گئے تھے علی بھی اس کے ساتھ آیا تھا تاکہ اسے ساتھ لے جانے کے لیے اسکی اماں جان کہ آگے وکالت کر سکے اور بالآخر طویل منت سماجت کے بعد عارفہ بیگم نے وقار کو لندن جانے کی اجازت دے دی تھی ۔
پھر بھی ان کا ایک سوال ابھی بھی قائم تھا کہ آخر اس سیر کے لیے یہ سات سمندر پار جانا ضروری ہے کسی قریبی جگہ بھی تو جایا جا سکتا تھا۔
اور جب یہ خبر نائلہ تک پنہچی اسکا تو دل ہی بجھ گیا تھا یعنی اس بات کا یہ مطلب تھا کہ اب وہ اپنی چھٹیاں بھی گھر میں نہیں گزارے گا۔
گھر کے باقی سب افراد خوش تھے کہ وہ لندن سیر کرنے جارہا ہے سب نے اپنی اپنی فرمائشیں اسے نوٹ کروا دی تھی کہ وہ ان کے لیے کیا لائے لائے ۔
اور پھر وہ نائلہ کے پاس آیا تھا تمہارے لیے کیا لائوں؟
وہ آج پھر اپنی مسحور کن مسکراہٹ لیے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا ۔
اور نائلہ اسے دیکھتی ہی رہ گئ اسے وقار کی مسکراہٹ دیکھ کر ایک شعر یاد آیا تھا جو اس نے دل ہی دل میں وقار کے لیے پڑھا تھا
یہ جو تم مسکراتے ہو
قسم سے غضب ڈھاتے ہو
وہ اب پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گیا تھا۔۔ایسے کیا دیکھ رہی ہو بتائو نا تمہیں کیا چاہئیے۔۔وہ اسے کیا بتاتی کہ اسے کچھ نہیں چاہیئے اسے تو صرف وقار احمد چاہئیے۔۔آپ مجھے سکائپ پہ کال کریں گے نا؟ ہاں یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات یے۔۔اب میرے سوال کا جواب۔۔آپ کو جو بھی اچھا لگے وہ لے آئیے گا مجھے بہت خوشی ہو گی اگر آپ میری فرمائش کے بغیر اپنی مرضی سے کچھ لائیں گے۔۔ہممم مجھے پتا تھا کہ تم ایسا ہی کچھ کہو گی اچھا یہ بتاو کے تمہاری سٹڈیز کیسی چل رہی ہیں اب وہ نائلہ سے اس کے روزمرہ کے معمولات کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔۔اور پھر اگلے دن ہی وہ لاہور روانہ ہو گیا تھا جہاں پر اسے باہر جانے کے لیے جو فارمیلیٹیز تھیں انہیں پورا کرنا تھا۔۔اور پھر وہ دن آگیا جس دن وقار کو لندن جانا تھا اس کے سبھی گھر والے اسے ملنے لاہور آئے تھے اور جب وہ جانے لگا تھا تو ہزار ہا ضبط کے بندھن باندھنے کے باوجود بھی نائلہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک ہی پڑے تھے اور وہ اسکے آنسو دیکھ کر اس کے پاس آیا تھا ۔۔اور اپنے وہی مخصوص انداز میں مسکرا کر بولا تھا نائلہ اب میں جائو وہ اس سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اس کے منع کرنے پر رک جائیگا اور نائلہ اس کے جواب میں اتنا ہی کہہ سکی
اس نے مسکرا کر پوچھا اجازت ہے
میں نے رو رو کر کہا خدا حافظ
لڑکی کیا بات ہے تم تو شاعرہ ہو گئ ہو کہیں کوئ شاعرہ دوست تو نہیں بنا لی اس نے اس کے شعر کو مزاح کا رخ دیا تھا اور پھر وہ سب سے مل کر چلا گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار مہر کو ساتھ لیے لان میں واک کر رہا تھا جب سے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ واک مہر کے لیے اس حالت میں بہت ضروری ہے وہ روز رات کو اس کے ساتھ واک کرتا تھا وقار مہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے اس کے ساتھ دھیرے دھیرے چل رہا تھا لان میں جگنو جگمگا رہے تھے۔۔
وقار وہ دیکھیں جگنو وہ ایک دم چہکی تھی۔۔
تمہیں جگنو پسند ہے ۔۔
جی بہت ۔
آو پھر انہیں پکڑتے ہیں۔۔
نہیں نہیں مجھے ڈر لگتا ہے۔۔
اوہ مہر تمہیں جگنو سے ڈر لگتا ہے؟
جی مجھے سبھی کیڑوں سے ڈر لگتا ہے بس۔۔
لیکن میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈرنے کی کوئ ضرورت نہیں مہر تم جانتی ہو میں کبھی تم پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گا۔۔
ہاں اور تبھی آپ نے ایک ملازمہ دن رات کے لیے مجھ پر مسلط کر رکھی ہے وقار پلیز اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔
مہر پلیز تو تم کیا چاہتی ہو ایسی حالت میں تمہیں اکیلی کو گھر چھوڑ دوں ۔۔
کیا ہوا ہے میری حالت کو وقار میں بالکل ٹھیک ہوں ابھی صرف تیسرا مہینہ ہی تو ہے اور گھر میں دو ملازمائیں پہلے سے موجود ہے تو پھر اسکی کیا ضرورت تھی مجھے نہیں پسند وہ دن رات میرے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی ہے۔۔
مہر میں بحث نہیں چاہتا بس جب تک ڈیلیوری نہیں ہو جاتی وہ یہی رہے گی اور ویسے بھی باقی سب ملازمائیں گھر کے کاموں کے لئے ہیں وہ ہر وقت تمہارے پاس موجود نہیں ہوتیں۔۔رات کافی ہو گئ ہے چلو آو اندر چلتے ہیں اب تمہیں آرام کرنا چاہئیے وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے اندر لے آیا تھا اور سیڑھیاں آتے ہی اس نے مہر کو اس کے احتجاج کے باوجود بھی گود میں اٹھا لیا تھا اب یہ اس کے معمول میں شامل ہو گیا تھا وہ روز ایسے ہی اسے گود میں لے کر سیرھیاں چڑھتا تھا۔۔اب وہ دونوں اپنے کمرے میں پنہچ گئے تھے۔۔
مہر تم یہی بیٹھو میں بس ابھی آتا ہوں ۔
لیکن آپ کہاں جا رہے ہیں وقار؟
جان آتا ہوں نا ابھی پلیز۔۔
ٹھیک ہے لیکن جلدی۔۔
وہ بڑے انداز سے مسکراتے ہوئے سر جھکا کر بولا تھا جو حکم مسز وقار احمد۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک شیشے کا ٹرانسپیرنٹ جار تھا جس میں جگنو جگمگا رہے تھے وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے بالکونی میں لے آیا تھا تاکہ وہ یہاں رات کے اندھیرے میں جگنو کو چمکتا دیکھ سکے۔۔
وقار یہ آپ۔۔یہ تو مر جائیں گے ایسے اور اس نے جلدی سے جار کا ڈھکن کھول دیا تھا تمام جگنو ایک ایک کر کے باہر نکنے لگے تھے۔۔
مہر تم کتنی اچھی ہو تم ہر چیز کا کتنا احساس کرتی ہو آئ لو یو اس نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا تھا۔۔
آئ لو یو ٹو وقار۔۔میں بہت دنوں سے فاطمہ کے بارے میں سوچ رہی تھی آپ کو نہیں لگتا کہ اب ہمیں اسکی شادی کے بارے میں سوچنا چاہئے؟
ہاں تم کہتی تو ٹھیک ہو لیکن اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ خود کیا چاہتی ہے آئ مین وہ کسی کو پسند کرتی ہے تو۔۔تم اس سے پوچھنا نا پھر ہم آگے کے بارے میں سوچیں گے ٹھیک ہے وہ صبح آ رہی ہے نا تو میں کل ہی اس سے اس بارے میں بات کروں گی۔۔
ہمم کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہارا پاکستانی شادی دیکھنے کو دل چاہ رہا ہے اس نے شرارتی نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
وقار آپ جانتے ہیں کہ میں سیریس ہوں پلیز۔۔
اوہ مائ کیوٹ وائف آئ نو اٹ۔۔اچھا مہر میں تم سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اب تم کچھ پینٹ کیوں نہیں کرتی۔۔؟
پتا نہیں وقار بس میرا دل نہیں چاہتا اب جو سکون مجھے قرآن پڑھ کر ملتا ہے نا تو میرا اس کے علاوہ کوئ اور کام کرنے کا دل نہیں چاہتا بس مجھے اللہ کی باتیں سننا اور اللہ سے باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔۔
اچھا اللہ سے کیسے باتیں کرتی ہو؟
جب میں قرآن پڑھتی ہوں تو اللہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور جب میں نماز پڑھتی ہوں تو میں اللہ سے باتیں کرتی ہوں بس میرا دل چاہتا ہے میں اپنے اللہ کا ہر حکم مانوں جو مزہ جو سکون اللہ سے عشق میں ہے نا وہ دنیا کے کسی بھی کام میں نہیں وقار۔۔
مہر تمہیں پتا یے کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں کوئ خوبصورت خواب دیکھ رہا ہوں میری آنکھ کھلے گی تو کچھ بھی نہیں ہو گا مہر تم اتنی اچھی ہو اتنی نیک ہو پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو قرآن پڑھتی ہو اور اب تو تم پردہ بھی کرتی ہو تمہارا دل کتنا اچھا اور صاف ہے اس میں کسی کے لئے بغض نہیں ہے اور جب بھی میں یہ سوچتا ہوں کہ میں تمہاری دنیا میں آنے والا پہلا مرد ہوں میں تمہاری پہلی محبت ہوں میں تمہیں چھونے والا پہلا مرد ہوں تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ ایک مرد کے لئے یہ کتنی بڑی خوشی اور فخر کی بات ہوتی ہے مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے مہر جب میں یہ سوچتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو آئ لو یو سو مچ مہر اگر کبھی بھی مجھے کچھ ہو جائے تو وعدہ کرو تم کبھی دوسری شادی نہیں کرو گی۔۔
یہ بات سنتے ہی مہر کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وقار اللہ نا کرے کے آپ کو کبھی بھی کچھ ہو میرا کوئ بھی نہیں اپ کے علاوہ اور اپ شادی کی بات کرتے ہیں میں تو مر کر بھی آپ کے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ تک نہیں سکتی میرا دل میری روح میرا جسم آپ کی امانت ہے وقار۔۔میں دن رات آپ کے لئے دعائیں کرتی ہوں اور مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کہ اللہ میری دعا کبھی بھی رد نہیں کرے گا۔۔
وقار نے شدت جذبات سے مہر کو اپنی بانہوں میں چھپا لیا تھا۔۔
وقار اب میں آپ سے کچھ کہوں؟
جی میری جان حکم۔۔
پہلے پرامس کریں کہ آپ میری پوری بات سنیں گے۔۔
لو جی ہماری مجال آپ کے آگے بولنے کی مار کھانی ہے کیا اپ سے وہ پھر سے اپنے مخصوص موڈ میں آچکا تھا۔۔
وقار آج آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ اگر کبھی بھی مجھے کچھ ہو گیا تو آپ دوسری شادی کر لیں گے۔۔
مہر کیا فضول باتیں شروع کر دی ہیں ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور کوئ بھی کہیں نہیں جارہا بس اب چپ۔۔
نہیں وقار آپ کو میری قسم ہے وعدہ کریں مجھ سے۔۔
اور وقار نے بات ختم کرنے کے لیے بس یونہی بول دیا تھا وعدہ۔۔مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس بے دھیانی میں کیے گئے وعدے کی اسے کتنی بڑی قیمت ادا کرنا ہو گی۔۔اور بد دعاوں سے ڈرنے والی مہر یہ نہیں جانتی تھی کہ ان کے رشتے کو ایک بد دعا لگ چکی ہے وہ دونوں ہی اس بات سے لا علم تھے کے آنےوالے وقت بہت بے رحم ہے۔۔
ہے آرزو ایک رات تم آو میرے خواب میں
بس دعا ہے اس رات کی کبھی صبح نا ہو
نائلہ سونے کے لئے بیڈ پر لیٹی تھی میرے آنکھیں بند کرتے ہی پھر سے وقار کا وہی مسکراتا ہوا خوبصورت چہرہ اس کے سامنے آگیا تھا۔۔
کیا وقار بھی میرے بارے میں کبھی ایسا سوچتا ہو گا محسوس کرتا ہو گا وہ اج پھر خود سے ہمکلام تھی۔۔
اور اگر وقار میرے بارے میں ایسا محسوس نا کرتا ہوا تو ۔۔تو کیا ہو گا۔۔
نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے ایسا کیسے ہو سکتا ہے وقار کیسے مجھ سے دور ہو سکتا ہے میں جب سات سال کی تھی میں تب سے اس کے ساتھ ہوں میں تب سے اس سے محبت کرتی ہوں اور میں بارہ سال سے وقار کے خواب دیکھتے آئی ہوں اور اگر کبھی یہ خواب بکھر گئے تو پھر ۔۔پھر باقی کیا بچے گا۔۔
کچھ نہیں ۔۔
کچھ بھی نہیں بچے گا۔۔ایسا وہ کونسا لمحہ ہے میری زندگی گا کہ جس میں وقار شامل نا ہو وہ تو میرے ہر پل ،ہر لمحے ، میری ہر سوچ میں زندگی کی طرح شامل ہے اور اگر وہ مجھ میں نا رہا تو زندگی ختم ہو جائے گی۔۔
اے اللہ تو تو کچھ بھی کر سکتا ہے نا تو پھر تیرے لئے کیا مشکل ہے تو وقار احمد کو میرے نام کر دے اس پوری دنیا میں سے صرف ایک ہی چیز مانگی ہے تجھ سے مجھے وقار احمد دے دے۔۔
میرے دل میں اس کے لئے محبت بھی تو تو نے ہی پیدا کی ہے نا تو پھر تیرے لئے کیا مشکل ہے تو تو کچھ بھی کر سکتا ہے تو پھر ایک معجزہ میرے لیے بھی کر دے مجھے وقار احمد دے دے۔۔
اگر تو نے اسے میری زندگی سے نکال لیا تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔۔
اے رب تو سب کی سنتا ہے میں تجھ سے کچھ ناجائز تو نہیں مانگ رہی صرف ایک وقار ہی تو مانگا ہے۔۔
میں نے کبھی بھی ان بارہ سالوں میں وقار کے علاوہ تجھ سے کچھ نہیں مانگا تو میری دعا کی لاج رکھ لینا اور میرے وقار کو بس میرا ہی رہنے دینا۔۔
آنسو اس کی آنکھوں سے مسلسل بہہ رہے تھے۔۔
وقار کو لندن گئے ہوئے پندرہ دن گزر گئے تھے وہ روز رات کو اسے سکائپ پر کال کرتا تھا وہ روز اس سے ٹھیک بات کرتا تھا مگر آج وہ ویسا نہیں تھا جیسا پہلے ہوا کرتا تھا اسکا لہجہ کچھ بدلا بدلا کچھ پریشان سا تھا اس کی آنکھوں میں ایک اضطراب تھا۔۔
مگر نائلہ کے پوچھنے پر بھی اس نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا پتا نہیں کیوں پھر بھی نائلہ کی چھٹی حس اسے کچھ غیر معمولی ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔۔
پورے بیس دن بعد وقار احمد پاکستان واپس آگیا تھا سب اسے ائیر پورٹ پر لینے گئے تھے سب بہت خوش تھے مگر نائلہ گھر پر ہی رہی تھی اور پھر جب سب وقار احمد کے ساتھ گھر آئے تو اس نے اسے تب دیکھا تھا مگر یہ کیا۔۔
وہ اسے دیکھ کر ٹھٹکی تھی۔۔
یہ۔۔یہ تو وہ وقار احمد نہیں ہے یہ میرا وقار تو نہیں ہے۔۔
اور پھر جب رات کو وہ اس کے کمرے میں اسے لائے گئے تحفے دینے آیا تھا تو اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ وقار احمد بدل چکا ہے۔۔
اس کے چہرے پر وہ مخصوص مسکراہٹ نہیں تھی جو اسکی پہچان ہوا کرتی تھی وہ بہت سنجیدہ ہو گیا تھا اور اگر وہ مسکرانے کی کوشش بھی کرتا تو اسکی آنکھیں اسکا ساتھ نہیں دیتی تھیں بلکہ اس کی آنکھوں میں وہی اضطراب ہوتا جو اس نے پانچ دن پہلے ہی اسکی آواز میں محسوس کر لیا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے جذبات چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔۔
وہ بھلا کب جانتا تھا کہ جس سے وہ اپنا آپ چھپانا چاہ رہا تھا وہ تو اگر بارش میں بھی اس کے آنسو دیکھ لے تو پہچان لے کہ اس کے چہرے پر کتنے قطرے بارش کے ہیں اور کتنے آنسوؤں کے۔۔
وہ تو اسے ہزار چہروں میں بھی پہچان لیتی تھی وہ تو اسکے قدموں کی چاپ تک سے واقف تھی بس اک وہی نا آشنا تھا اس بات سے۔۔کتنی عجیب بات تھی نا کہ ہر کوئ اسکے اس جذبات سے واقف تھا بس اک اسے ہی خبر نا تھی جس کے لئے وہ یہ جذبات رکھتی تھی۔۔
اب وہ اس سے مخاطب تھی۔۔
وقار کیا ہوا ہے؟کچھ ہوا ہے لندن میں؟ میرا مطلب کیسا رہا آپ کا ٹور وہاں پہ کوئ نئے دوست بنے آپ کے؟
نائلہ کیسی باتیں کر رہی ہو وہاں پہ میں دوست بنانے نہیں گیا تھا دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا تھا۔۔
وہ اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہی تھی کچھ تھا جو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اسکی آنکھوں میں کچھ ادھورا پن تھا وہ مسکرایا تھا مگر اس کی آنکھوں نے اسکا ساتھ نہیں دیا تھا اور اب کی بار اس نے مسکرانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔۔کاش کہ اس کے بس میں ہوتا تو وہ اسکا ہر ادھورا پن دور کر دیتی۔۔
یہ سب چوڑو آو میں تمہارے لئے جو لایا ہوں وہ دیکھتے ہیں اور آج تم اپنے سب گفٹس میرے سامنے ہی دیکھنا یہ لو اس نے تین شاپنگ بیگز اس کی طرف بڑھائے تھے۔۔
اب وہ شاپنگ بیگز ہاتھ میں پکڑے ان میں سے چیزیں نکال رہی تھی پہلے شاپنگ بیگ میں ایک ہینڈ بیگ تھا دوسرے شاپنگ بیگ میں پرفیومز تھے اور تیسرے شاپنگ بیگ میں چاکلیٹس اور چار بریسلٹس تھے جو ٹرانسپیرنٹ کرسٹل باکسز میں سے واضح نظر آ رہے تھے اور انہیں دیکھتے ہی نائلہ کے لبوں کو ایک خوشگوار مسکان نے چھوا تھا۔۔تو گویا وہ آج بھی اس کی پسندیدہ چیز لانا نہیں بھولا تھا۔۔نائلہ نے وقار کی جانب دیکھا تھا۔۔
آپ سے ایک بات پوچھو۔۔
ہاں اس کا جواب ہنوز سنجیدگی لئے ہوا تھا۔۔
آپ کو آخر کیسے پتا چلا تھا کہ مجھے جیولری میں بریسلٹس پسند ہیں۔۔
سوری ڈئیر یہ میں نہیں بتاوں گا اور اب تم آرام کرو میں چلتا ہوں۔۔یہ کہہ کر وہ وہاں مزید رکا نہیں تھا۔۔اور وہ اس سوچ میں ڈوب گئ تھی کہ کیا اب وہ کبھی وہ پہلے والے وقار کو نہیں دیکھ سکے گی کیا وہ اب کبھی اسکی وہ مسکراہٹ نہیں دیکھ سکے گی جسے دیکھتے ہی وہ اپنے ہوش کھو بیٹھتی تھی۔۔
وقار احمد اسے کیا بتاتا کہ اسے کیسے پتا چلا کہ نائلہ کو بریسلٹس پسند ہیں جب وہ پہلی دفعہ نائلہ کے لئے بریسلٹ لایا تھا اور اس نے تو بس ایسے ہی اسے یہ کہہ دیا تھا کہ اس دفعہ میں تمہارے لئے تمہاری فیورٹ چیز لایا ہوں تب اگلے دن ہی اس نا سمجھ سی لڑکی نے اسے خود ہی یہ کہتے ہوئے کہ "وقار آپ کو کیسے پتا چلا مجھے بریسلٹ پسند ہے" اس پر یہ انکشاف کر دیا تھا اسی دن اسے یہ پتا چلا تھا۔۔
زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر آگئی تھی وقار دوبارہ لاہور آکر اپنی سٹڈیز میں بزی ہو گیا تھا اور نائلہ نے بھی اپنے انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ آنے کے بعد گریجویشن کے لئے اپنے کالج کا ہی انتخاب کر لیا تھا عاصمہ بھی نائلہ کے ساتھ اسی کالج سے گریجویشن کر رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم اپنی آرٹ اکیڑمی میں بیٹھی تھی کہ اچانک ان کی نظریں ہالڈین کے ہاتھ میں پکڑی ہوئ پینٹنگ پر ٹک گئ جس میں ہر سو خزاں کا موسم تھا اور جابجا زرد پتے بکھرے پڑے تھے درخت بھی اجڑے ہوئے نظر آرہے تھے مگر اسی تصویر کہ ایک حصے میں ایک ایسا درخت بھی تھا جس پر ایک نئ کونپل پھوٹ رہی تھی اور اس پینٹنگ کہ نیچے اسکا عنوان لکھا گیا تھا Hope" there is always a hope"
ہالڈین وہ پینٹنگ لئے مریم کی جانب ہی بڑھ رہی تھی جیسے ہی وہ مریم کے قریب آئ تو وہ پوچھے بنا نا رہ سکی۔۔
ہالڈین یہ پینٹنگ تم نے کہاں سے لی؟
مجھے پتا تھا میم آپ کو یہ ضرور پسند آئے گی اور اسی لئے تو میں یہ دکھانے کے لئے آپ کو ساتھ ہی لے آئ ان فیکٹ میں نے یہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی یہاں آتے وے لی ہے اور آپ یہ جان کر تو اور بھی حیران ہو گیں کہ یہ کام کسی نامور آرٹسٹ کا نہیں بلکہ ایک روڈ آرٹسٹ کا ہے جو یہ سب انتہائ مناسب قیمت میں عام سے لوگوں کے لئے بناتی ہے۔۔
ہالڈین میں ملنا چاہتی ہوں اس آرٹسٹ سے۔۔
یس میم آپ کو جب بھی جانا ہوا میں لے چلوں گی آپ کو۔۔
تو پھر کیا ہم ابھی چل سکتے ہیں؟
جی بالکل کیوں نہیں۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد مریم ہالڈین کے ساتھ وہاں موجود تھی مگر روڈ پر بیٹھی اس لڑکی کو دیکھ کر انہیں شدید جھٹکا لگا تھا۔۔وہ اپنی پینٹنگ بنانے میں منہمک تھی۔۔
مریم بمشکل بول پائ تھی انجلینا تم۔۔
اور اس نے یکدم اپنی پلکیں اوپر اتھائ تھی مگر مریم وہاں رکی نہیں تھی وہ جا چکی تھی۔۔
اوہ مام کاش آپ کو میں یہ خود بتا پاتی اس نے زیر لب بڑبڑایا تھا اور ہالڈین حیران سی کھڑی وہاں یہ منظر دیکھ رہی تھی۔۔
کیا تم انہیں جانتی ہو انجلینا۔۔
ہاں پر سوری ڈئیر میں ابھی تمیارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتی میں جلدی میں ہوں مجھے معاف کرنا پلیز۔۔اور وہ جلدی سے اپنا پینٹنگ کا سامان سمیٹ کر وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اب اس نے بھی اپنے قدم گھر جانے والے راستے کی جانب بڑھا دئیے تھے۔۔
وہ گھر پنہچ کر خاموشی سے مجرموں کی طرح اپنا سر جھکا کر مریم کے سامنے آ کھڑی ہوئ تھی۔۔
انجلینا جانتی تھی کہ وہ اس سے شدید خفا ہے پھر بھی اس نے بولنے کے لئے اپنے لب وا کئے تھے۔۔
مام۔۔
تو یہ کام کر رہی ہو تم پچھلے ایک سال سے جس کی مجھے خبر ہی نہیں؟
مام میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں جو بھی کر رہی ہوں وہ کوئی ناجائز کام نہیں۔۔اس نے اپنی صفائی پیش کی تھی۔۔
اچھا تو یوں سڑک پر بیٹھ کر اپنا ٹیلنٹ ضائع کرنا تو کوئی بہت ہی اچھا کام ہے نا انجلینا تم کیوں خود کو اپنے ٹیلنٹ کو یوں روڈز پر ضائع کر رہی ہو کیا تم اس فیلڈ میں اپنا نام نہیں بنانا چاہتی کیا تم اسے ایز اے پروفیشن نہیں ایڈاپٹ کرنا چاہتی؟؟
مام اگر آپ یہ سوچ رہی ہیں کہ میرے پاس آپ کے ان سوالوں کا کوئ جواب نہیں ہو گا تو آپ یہ بہت غلط سوچ رہی ہیں میرے پاس آپ کے تمام سوالوں کے جواب ہیں۔۔
آپ جاننا چاہتی ہیں نا کہ میں کیوں روڈ پی بیٹھتی ہوں تو سنئیے پھر میں ان لوگوں کے لئے بیٹھتی ہوں جو آرٹ سے محبت کرتے ہیں مگر ان کے پاس آپ جیسی نامور آرٹسٹ کی پینٹنگ خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ان لوگوں کے بارے میں کیا ان کا کوی حق نہیں آرٹ پر آرٹ تو لوگوں کی aesthetic pleasure کے لئے ہوتا ہے نا تو کیا اس پر بھی غریبوں کا کوئ حق نہیں کیوں مام کیوں میں انہیں یہ خوشی دینا چاہتی ہو آپ کو پتا ہے مجھے کتنا دکھ ہوتا ہے جب ان زندگی سے تھکے لوگوں کی ایک ایسے آرٹ تک بھی رسائ نہیں ہو پاتی جسے دیکھ کر انہیں وقتی ہی سہی مگر خوشی ملتی ہے اور کچھ کو اس میں امید ملتی ہے میں ان لوگوں کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں مام میں اس فیلڈ کو پیسہ کمانے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں میں خوشی اور امید بانٹنے کے لیے اپنانا چاہتی ہوں آپ کو پتا ہے مجھے کتنا دکھ ہوتا ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ ان بڑی بڑی آرٹ ایگزیبیشنز تک کسی عام ادمی کی رسائ نہیں ہو پاتی اور بالفرض اگر وہ وہاں پنہچ بھی جاتا ہے تو وہ ایک آرٹ کے نمونے کو ایسے دیکھتا ہے جیسے کوئ بچہ چاند کو جسے وہ دیکھ تو سکتا ہے مگر اسے چھو نہیں سکتا میں ان لوگوں کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں مام پلیز مجھے اجازت دے دیں مجھے بہت سکون ملتا ہے جب میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھتی ہوں پلیز مام مجھ سے ناراض مت ہوں۔۔
مریم اج تک جو بات سوچ بھی نا سکی تھی وہ کام انجلینا کر رہی تھی وہ ہر بار ہی اس لڑکی کی باتوں پر حیران ہو جاتی تھیں کتنی خوبصورت تھی وہ اور اسکا دل بھی بالکل اسی کی طرح شفاف اور خوبصورت تھا کون کہہ سکتا تھا کہ وہ آج کہ ایسے دور کی لڑکی تھی جہاں سب پیسے کے پیچھے بھاگتے تھے اور ہر کوئ صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا بس وہ چاہتی تھیں کہ اب وہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کو بھی پا لے اور انہیں پورا یقین تھا کہ وہ بہت جلد یہ سب کھوج لے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر مہر جلدی آو وہ گھر آتے ہی اسے پکارنے لگا تھا مہر جو ٹی وی لاونج میں بیٹھی تھی اٹھ کر لان میں آگئ کیا ہو گیا ہے وقار کیوں پورے گھر میں آپ نے شور مچا رکھا ہے؟
اوہ اب سکون آیا پتا ہے میں نے تمہیں کتنا مس کیا آج اور اس نے قریب آتے ہی اسے بانہوں میں لے لیا تھا۔۔
وقار آپ کو تو بس رومینس کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔۔
تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے کہ اتنا رومینٹک ہزبنڈ ملا ہے تمہیں پتا ہے لڑکیاں تو مرتی ہے میری قربت کے لئے۔۔
جائیں جھوٹے۔۔
نہیں جان بلکل سچ۔۔اچھا یہ پکڑو وقار نے شاپنگ بیگ اسکی طرف بڑھایا تھا۔۔اور جلدی سے تیار ہو جاو۔۔جلدی جلدی
وقار پھر سے سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے اسے گود میں اٹھائے کمرے تک لے آیا تھا۔۔
کمرے میں آکر وقار نے مہر کو گود سے اتار دیا تھا۔۔
اور اب مہر شاپنگ بیگ دیکھنے میں مصروف ہو گی تھی جیسے ہی اس نے شاپنگ بیگ میں سے سوٹ نکالا اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی وہ بہت خوبصورت وائٹ کلر کا شفون کا سوٹ تھا جس کی قمیز کے گلے اور دامن پر وائٹ اور بلیک ایمبرائڈری ہوئ تھی دوپٹہ اور پاجامہ بھئ وائٹ کلر میں ہی مگر سمپل تھا۔۔
جبکہ دوسرے شاپنگ بیگ میں جیولری اور کچھ پرفیومز تھے۔۔
اب وہ مسکرا کر وقار کی طرف بڑھی تھی جو اس وقت اپنی آنکھیں موندے صوفے پر نیم دراز تھا۔۔
بلیک کلر کے ڈریس پینٹ کوٹ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا اس کے سیاہ بال اسکی پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے اس کے چہرے پر بہت سکون تھا اس کا کسی یونانی دیوتا سا ناک اس کے چہرے کو مغرورانہ تاثر دے رہا تھا مہر نے وقار کے قریب آکر اس کی پیشانی پر بکھرے بال اپنے نرم و ملائم ہاتھ سے ہٹائے تھے اور مہر کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی وقار نے اپنی آنکھیں کھول دی تھی اب وہ مہر کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا اسکی آنکھیں مہر کے لئے والہانہ پیار لئے ہوئے تھیں اس نے مہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا تھا۔۔
کیا ہوا مسز وقار احمد اس نے مسکراتے ہوئے مہر کو کھینچ کر اپنے اوپر گرا لیا تھا۔۔
وقار یہ کیا حرکت ہے؟
کیا ہے بھئ میری بیوی ہو تم۔۔اس کا لہجہ شرارت سے بھرپور تھا۔۔
وقار آپ ہی تو کہہ رہے تھے کہ جلدی تیار ہو جاو اور اب مجھے چھوڑ نہیں رہے۔۔
اچھا مسز وقار احمد تو آپ تیار ہو رہی تھیں؟
جی تو اور کیا؟
جھوٹی۔۔ مجھے دیکھ رہی تھی اور ابھی یہاں میرے پاس مجھے پیار کرنے نہیں آئی تھی ہمم؟اس نے اپنا نچلا لب دباتے ہوئے کہا تھا۔۔
اب مہر بھی ہنس رہی تھی۔۔
اچھا چلو اب اپنے ہزبنڈ کو پیاری سی کس دو اود جلدی سے تیار ہو جاو۔۔
مہر اس کے ماتھے پر بوسا دے کر بھاگ گئ تھی۔۔
یہ کیا تھا مہر ویری بیڈ۔۔
اور وہ واش روم میں جا چکی تھی۔۔
کوئ بات نہیں اس بات کا میں پورا بدلہ لوں گا وہ واش روم کے ڈور کے قریب جا کر بولا تھا مگر مہر نے کوئ جواب نہیں دیا تھا۔۔
اب وہ واپس آکر پھر سے صوفے پر گر گیا تھا۔۔
کچھ دیر بعد مہر نے اسے ہلایا تھا۔۔
وقار۔۔
اس نے اپنی آنکھیں کھول دی تھی۔۔
اوہ سوری شاید میری آنکھ لگ گئی تھی ایک تو تم لڑکیاں بھی نا تیار ہونے میں کتنا ٹائم لگاتی ہو دیکھو تمہارا ویٹ کرتے کرتے میری انکھ ہی لگ گئ۔۔
آپ تیار نہیں ہوں گے؟
نہیں میری جان میں تیار ہی ہوں اور ذرا ادھر آو میں تمہیں دیکھ تو لوں۔۔وقار نے اسے اپنے سامنے کر لیا تھا۔۔
تم جانتی ہو مہر تم جو کلر بھی پہنتی ہو نا میں ہر اس کلر کو دیکھ کر یہ سوچتا ہوں کہ یہ کلر تمہارے لئے ہی بنا ہے۔۔
اور آج وائٹ کلر میں تو تم آسمان سے اتری ہوئ حور لگ رہی ہو۔۔
وقاررر۔۔اب بس بھی کریں اتنی بھی پیاری نہیں ہوں۔۔
اوہ مہر کاش تم کبھی خود کو میری نظروں سے دیکھ پاو تو تمہیں پتا چلے کے تم کتنی خوبصورت ہو۔۔
اس نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر مہر کی تصویر بنائ تھی۔۔
اور پھر وہ اسے گود میں اٹھائے سیڑھیاں اتر آیا تھا۔۔
اور سیڑھیاں اترتے ہی اس نے مہر کو بہت احتیاط سے نیچے اتارا تھا۔۔
وقار ہم کہاں جا رہے ہیں؟
یہ تو میں نہیں بتاوں گا چلو آو دیکھتے ہیں آج تم میرے ساتھ کہاں تک جاتی ہو؟وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔
وقار سنو! وہ اسکی جانب مڑا تھا۔۔
میں تمہارے ساتھ جنت تک جانا چاہتی ہوں۔۔
اس کے الفاظ اتنے اچانک تھے کے وقار اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔
مہر کیا ہوا ڈئیر اب وہ اس کے قریب آگیا تھا۔۔
وقار میں اس دنیا میں تو آپ کے ساتھ ہوں لیکن میں جنت میں بھی آپ کا ہی ساتھ چاہتی ہوں۔۔
میری جان میں ہی ہوں گا آپ کے ساتھ کیوں سوچتی ہو یہ سب اور ایک بات بتاوں؟
جی بتائیں۔۔
میں اپنے ہر سجدے میں اللہ سے یہی دعا مانگتا ہوں کہ اے میرے رب جیسے ہم دونوں اس دنیا میں ایک ساتھ ہیں ہمیں جنت میں بھی ایسے ہی ایک ساتھ رکھنا ہم دونوں کو ہی ایک دوسرے کا حقیقی میاں بیوی بنانا۔۔
اور جیسے تمہیں یقین ہے نا کہ اللہ تمہیں کبھی میرا کوئی دکھ نہیں دکھائے گا ایسے ہی مجھے بھی یقین ہے کہ اللہ ہمیں جنت میں بھی ساتھ رکھے گا۔۔
وہ بولتے بولتے اسے گاڑی تک لے آیا تھا اور اب اس کے لئے فرنٹ ڈور کھول رہا تھا۔۔
تقریبن ایک گھنٹے بعد گاڑی ایک سجے ہوئے فارم ہاوس کے باہر رکی تھی اور وقار مہر کی آنکھوں پر پٹی باندھے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا اور جب وقار نے مہر کی آنکھوں سے پٹی ہٹائ تو اس کی آنکھیں جگمگ کرتی روشنیوں سے چندھیا گئ اور اسے فاطمہ نے گلے مل کر ان دونوں کی شادی کی اینیورسری کی مبارک دی تھی وہاں پر فاطمہ کی چھوٹی دو بہنیں اور زبیدہ خاتون بھی تھی اور کچھ چار پانچ انجان چہرے بھی تھے اب وقار اسے ان لڑکیوں سے متعارف کروا رہا تھا مہر یہ میری ایمپلائز ہیں انہیں خاصا تجسس تھا تم سے ملنے کا اسی لیے میں نے انہیں یہاں انوائٹ کر لیا اور تمہارے پردے کا خیال کرتے ہوئے میں نے کسی بھی میل کو اس تقریب میں دعوت نہیں دی۔۔
پھر کچھ ہی دیر میں مہر اور وقار نے سب کی تالیوں کی گونج میں کیک کاٹا تھا اور بہت سے کیمروں کی روشنیاں ان کے چہروں پر پڑی تھی جنہوں نے یہ حسین منطر ہمیشہ کے لیے قید کر لیے تھے۔۔
کچھ فاصلے پر کھڑی وقار کی ایمپلائز گوسپس میں مشغول تھی اور ان کی گوسپ کا عنوان حسب معمول وقار احمد تھا مگر آج وہ سخت مایوس تھیں۔۔
ان میں سے ایک کہہ رہی تھی یار مجھے تو لگتا تھا کبھی نا کبھی تو کوئی چانس مل ہی جائے گا مگر مسز وقار احمد کو دیکھنے کے بعد تو میری سب امیدوں پر پانی پھر گیا۔۔
اب دوسری لڑکی بھی گفتگو کا حصہ بنی تھی۔۔ہاں یار تبھی تو وقار احمد کسی لڑکی کی طرف آنکھ تک اٹھا کر نہیں دیکھتا۔۔
آہ ہاں یار ہماری قسمت میں تو بس اہیں بھرنا ہی لکھا ہے۔۔یہ تیسری لڑکی بولی تھی۔۔
اور پھر ان سب کے قہقہے بلند ہوئے تھے۔۔
وقار اور مہر کو زبیدہ خاتون دعائیں دیتی اور ان کی بلائیں لیتی نا تھک رہی تھیں۔۔
اور یوں یہ خوبصورت رات اپنے اختتام کو پنہچی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار نے لمز یونیورسٹی سے بی۔بی۔اے کمپلیٹ کر لیا تھا اور اب وہ ایم۔بی۔اے کی ڈگری لندن سے حاصل کرنا چاہتا تھا علی نے بھی یہ کہہ کر حامی بھر لی تھی کہ اگر وہ جائیگا تو علی بھی اس کے ساتھ ہی جائیگا مگر اگر تم نہیں جا سکے تو پھر میں بھی نہیں جاوں گا۔۔
یار وقار میرا اکیلے دل نہیں لگے گا۔۔
او پاگل انسان جب ہماری یونیورسٹی ٹاپرز کو اتنی اچھی opportunity دے رہی ہے تو تو ضائع کیوں کر رہا ہے۔۔
اچھا تو تیرے تو مجھ سے پورے دس نمبر زیادہ آئے ہیں وقار احمد تو نے تو پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے جب تیرا وہاں جائے بغیر گزارا ہو سکتا ہے تو میرا کیوں نہیں۔۔
علی فضول بکواس بند کر یار میں پوری کوشش کروں گا۔۔بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ میں اماں جان کو منا ہی لوں گا تو جانتا ہے نا وہ میری کوئ بات نہیں ٹالتیں وقار یہ کہتے ہوئے مسکرایا تھا۔۔
اچھا چل آجا گھر چلتے ہیں۔۔
وقار نے اماں جان کے کہنے پر اپنا لاہور میں گھر لے لیا تھا جہاں اماں جان نے گاوں سے اپنے قابل اعتبار ملازم بھیج دئیے تھے جن کی وجہ سے اسے یہاں بھی گھر جیسا ماحول میسر آ گیا تھا۔۔
وہ دونوں اب گاڑی میں بیٹھ گئے تھے وقار اب تو بتا دے وہ کون ہے؟
وقار نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔
کون؟ کس کی بات کر رہا یے؟
وہی جس کی خاطر تو نے اس انجان ملک میں جھگڑا مول لیا تھا۔۔یاد ہے یا؟
علی پلیز۔۔میں تجھے کتنی دفعہ بتا چکا ہوں کہ میں نہیں جانتا وہ کون تھی کون نہیں میں نے تو صرف اس کی ایک جھلک دیکھی تھی۔۔
کیا پتا شاید تجھے قسمت اسی سے دوبارہ ملوانے کے لئے وہاں لے جا رہی ہو۔۔
ویری فنی۔۔یہ کوئ فلم یا ڈرامہ نہیں میری جان یہ حقیقی زندگی ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں زندگی میں اب دوبارہ اسے کبھی نہیں دیکھ پاوں گا۔۔یک دم اس کے اندر اداسی اترنے لگی تھی۔۔
اگر جانتا ہے کہ اسے کبھی پا نہیں سکتا تو اسکی خاطر کیوں اپنی حسین مسکراہٹ کو بھول گیا ہے۔۔کیوں اک صحرا کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔۔
وقار کی آنکھوں میں اب گہری اداسی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔۔یار یہ سب میرے اختیار میں نہیں ہے میں کیا کروں میں کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کر رہا۔۔
ایک بات پوچھو وقار؟
ہاں پوچھ۔۔
میں پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ سوچتا ہوں کہ آخر وہ کون لڑکی تھی جس نے وقار احمد جیسے انسان کو بے بس کر دیا پر کبھی میں نے تجھ سے پوچھا نہیں مگر میں جاننا چاہتا ہوں وقار کیا وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی۔۔وہ کیسی تھی وقار مجھے بہت تجسس ہوتا ہے؟
کیا تو واقعی جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیسی تھی؟
ہاں ۔۔
تو پھر سن۔۔اور وقار نے گاڑی کا میوزک پلئیر آن کیا تھا جس میں نصرت فتح علی خان کی آواز گونجنے لگی تھی۔۔
آفرین آفرین
آفرین آفرین
حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں
اور اسے سنتے ہی وقار اپنے خیالوں کی دنیا میں پنہچ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی کوششوں کے بعد آخر کار وقار نے اپنی اماں جان کو لندن جا کر اپنی پڑھائ مکمل کرنے کے لئے منا ہی لیا تھا۔۔یہ سچ تھا کہ وہ واقعی اپنی تعلیم کے لئے لندن جانا چاہتا تھا لیکن کہیں نا کہیں اس کے دل میں یہ خیال بھی کروٹیں لے رہا تھا کے شاید وہ اسے پھر سے کہیں دکھ جائے جس نے اس کی زندگی کو یوں پلٹ دیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر شناس تجھے کون یہ خبر دے گا؟
دیا جلائے ہوئے کوئی تیری راہ میں ہے،،
عاصمہ نے نائلہ کو بارہا یہ کہا کے وہ وقار احمد کے جانے سے پہلے اسے اپنے دل کی بات بتا دے مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی وہ اپنے اندر اتنی ہمت نا پیدا کر سکی۔۔
وہ کالج کے گراونڈ میں گم صم سی بیٹھی تھی جب عاصمہ اس کے پاس آ دھمکی۔۔
او میڈم اب یہ مسٹر وقار احمد کے لندن جانے کا غم کب تک منائیں گی آپ؟
عاصمہ پلیز۔۔
میں جانتی ہوں جانتی ہوں اب تم کہو گی کہ میں یہ سب نہیں سمجھوں گی وغیرہ وغیرہ۔۔
مگر نائلہ کیا تمہیں نہیں لگتا کے تم نے وقار کو کچھ زیادہ ہی اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے ؟
مطلب تمہاری دنیا صرف وقار سے شروع ہو کر اسی پر کیوں ختم ہو جاتی ہے آخر؟
تم اپنے اردگرد کیوں نہیں دیکھتی؟
کیا دیکھوں میں اپنے اردگرد عاصمہ تمہیں کیا لگتا ہے کے اگر مجھے اپنے اردگرد کوئی وقار جیسا مل جائیگا تو میرا دل بہل جائے گا یا میں پھر اسکی طرف متوجہ ہو جاوں گی؟ نہیں عاصمہ مجھے صرف وقار سے محبت ہے صرف وقار سے مجھے وقار چاہئیے صرف وقار اگر وہ نہیں تو کوئ اس جیسا بھی نہیں سمجھی ۔۔
تم کیا سمجھو گی مجھے؟
جانتی ہو کب سے محبت کرتی ہوں اس سے میں تیرہ سال سے۔۔
تیرہ سال سے میں اس سے محبت کرتی آئی ہوں اور اب تم کہتی ہو کے میں اپنے اردگرد دیکھوں۔۔
کچھ نہیں ہے میرے لئے اس دنیا میں سوائے وقار کے۔۔
تو پھر ٹھیک ہے اسے کہہ دو نا بتاتی کیوں نہیں ہو آخر؟
ٹھیک ہے اسے پاکستان آجانے دو جیسے ہی وہ آئے گا میں اسے بتا دوں گی۔۔
وعدہ؟
ہاں وعدہ۔۔اور عاصمہ نے اسے خوشی سے گلے لگا لیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔