آخر بابا ہر وقت تمہاری ماں تمہاری ماں ہی کیوں بولتے رہتے ہیں کیا وہ انکی بیوی نہیں ہیں؟
وہ انجان کیا جانتی تھی کہ جسے وہ اسکی ماں بولتا تھا وہی تو اسکا سب کچھ تھی۔۔
میں اب اس سارے چکر کا پتا لگا کر ہی رہوں گی کچھ تو عجیب سا ہے بابا جان اور آپی کے رشتے میں جو وہ مجھ سے چھپاتے ہیں۔۔
یک دم اسکا اس ماحول سے دل اچاٹ ہونے لگا۔۔
میم کیا میں گھر چلی جاوں؟وہ پاس بیٹھی میم عائشہ سے مخاطب ہوئ تھی۔۔
تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ یوں سیمینار سے اٹھ کر جانا الاو نہیں ہے؟
میم پلیز وہ مجھے کچھ بہت ضروری کام ہے۔۔
پلیز۔۔وہ اب منتوں پر اتر آئ تھی۔۔
امم اوکے چلی جاو۔۔
میرا نام لے لینا گارڈ سے۔۔
اوکے میم تھینک یو۔۔
اب وہ ہال کے مین ڈور کی جانب آ گئ تھی جہاں دو گارڈ کھڑے کئے گئے تھے تاکہ سٹوڈنٹس سیمینار کو ادھورا چھوڑ کر نا جا سکیں۔۔
جی بیٹا کدھر جانا ہے جب تک سیمینار ختم نہیں ہو جاتا یہ دروازہ سٹوڈنٹس کے لئے نہیں کھولا جائے گا۔۔
مجھے میم عائشہ نے بھیجا ہے کچھ کام ہے باہر۔۔
اب وہ وہاں پر کھڑی ایک لڑکی کو بلا رہا تھا یہ کہہ رہی ہے کے اسے میم عائشہ نے بھیجا ہے باہر جانا چاہتی ہے۔۔
اچھا میں ابھی پوچھ کر آتی ہوں۔۔
اور پھر ٹھیک پورے تین منٹ بعد وہ وہاں آ گئ تھی جی ہاں میم عائشہ نے ہی بھیجا ہے جانے دیں۔
اور پھر اسکے لئے دروازہ کھول دیا گیا تھا۔
وہ اب وہاں سے چلتے چلتے یونیورسٹی کے مین گیٹ تک آ گئ تھی اسکے بابا کو یہاں سے گئے ہوئے تقریبن بیس سے پچیس منٹ ہی ہوئے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ آفس پنہچ گئے ہوں گے یا پھر ابھی راستے میں ہی ہوں گے۔۔
انہیں سوچوں میں گم وہ یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا تک پنہچ گئ تھی اور پھر اس نے گاڑی میں بیٹھ کر اپنی گاڑی سٹارٹ کر دی تھی اور اب اسے وقار احمد کے آفس پنہچنے کی جلدی تھی۔۔
اور بالآخر وہ تیس منٹ کے بعد وقار احمد کے آفس پنہچنے میں کامیاب ہو گئ تھی اسے دیکھتے ہی پارکنگ ایریا میں کھڑے گارڈ نے اسے سلام کیا تھا۔۔
اور وہ سلام کا جواب دیتے اپنی گاڑی پارک کرنے کے بعد اس عالیشان شیشے کی سات منزلہ بلڈنگ کے اندر گھسی تھی۔۔
اسکے اندر آتے ہی جس جس نے اسے دیکھا تھا سب نے اسے سلام پیش کیا تھا۔۔
اور وہ سب کے سلام کا جواب دیتے تیزی سے لفٹ کی جانب بڑھ گئ تھی۔۔
اور جب وہ وقار احمد کے کمرے تک پنہچی تو وہ خالی تھا وہاں پر وقار احمد نہیں تھا اس نے فون کریڈل سے اٹھا کر ریسیپشن کو ملایا تھا۔۔
اور اسکے کچھ بھی بولنے سے پہلے وہ جھٹ سے اپنا سوال کر چکی تھی بابا جان کہاں ہیں؟
میم آپ۔۔میں نے پوچھا بابا جان کہاں ہیں؟
وہ تو ایک میٹنگ میں مصروف تھے اور ابھی ایک منٹ ہی ہوا ہو گا شاید انہیں یہاں سے نکلے ہوئے۔۔
مطلب وہ جا چکے ہیں؟
یس میم۔۔
اسکا مطلب انہوں نے میری گاڑی پارکنگ میں دیکھ لی ہو گی پھر بھی وہ واپس نہیں آئے۔۔
مجھے انکو follow کرنا چاہئے۔۔
اور اب وہ بجلی کی سی تیزی سے دوڑی تھی اور تقریبن پورے چار منٹ کے بعد وہ اپنی گاڑی میں موجود تھی۔۔
اور اس نے اب گاڑی مین روڈ پر جانے والے راستے کی جانب دوڑا دی تھی وہ جس سپیڈ سے گاڑی چلا سکتی تھی چلا رہی تھی۔۔
نہیں بابا جان ۔۔نہیں آپ مجھے اور آپی کو ایسے چیٹ نہیں کر سکتے نہیں۔۔اسکی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔۔
اور وہ کچھ دیر بعد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئ تھی اسے وقار احمد کی land cruiser نظر آ ہی گئ تھی اور اب اس نے اپنی گاڑی اسکے تعاقب میں لگا دی تھی۔۔
آئ ایم سوری بابا جان میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے یہ سب کرنا پڑے گا لیکن میں مجبور ہوں میں کیا کروں جو چیز آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں اب وہ مجھے خودی فائنڈ آوٹ کرنا ہو گی۔۔
اور پھر وہ بچیس منٹ تک وقار احمد کو فالو کرتی رہی تھی لیکن یہ دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب وقار احمد اپنے ہاتھ میں گلاب کا ایک پھول لئے قبرستان میں داخل ہوا۔۔
اس نے اپنی گاڑی اب وہی سائیڈ پر کھڑی کر دی تھی اور وہ بھی قبرستان کی جانب بڑھی تھی اسے دیکھتے ہی وقار احمد کا ڈرایئور بولا تھا میڈم آپ۔۔
جسٹ شٹ اپ چپ چاپ یہیں کھڑے رہو۔۔
گرینڈ پا تو گاوں میں دفن ہیں پھر بابا جان یہاں کس کی قبر پر آئے ہیں؟وہ دور سے ہی کھڑی ہو کر وقار احمد کو دیکھ رہی تھی جو بہت سی قبروں کے درمیان سے گزرتا ہوا ایک قبر کے قریب جا کھڑا ہوا تھا اس نے وہ گلاب کا پھول اس قبر پر رکھ کر اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے تھے اور مہرماہ خاموشی سے وہاں جا کر اس سے کچھ فاصلے پر ایک گھنے درخت کی اوٹ میں چھپ کر کھڑی ہو گئ تھی۔۔
اب وقار احمد نے بولنا شروع کیا تھا جسکی آواز مہرماہ تک باآسانی آ رہی تھی۔۔
میں بھی کتنا احمق ہوں نا روز یہاں آ کر باتیں کرتا ہوں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تم کچھ بھی نہیں سنتی نا ہی سن سکتی ہو لیکن بس ایسے ہی مجھے اچھا لگتا ہے تم سے یوں فرضی باتیں کرنا۔۔
آج میں یہاں جلدی آ گیا بس آج تمہاری بہت یاد آ رہی تھی کیا کرتا۔۔
تم تو جانتیہو نا جب تک میں تمہیں دیکھ نا لوں مجھے سکون نہیں آتا وہ ایسا کہتے ہوئے مسکرا رہا تھا مگر اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔
لیکن آج میں تمہارے لئے کچھ لے کر آیا ہوں آج اس پھول کے علاوہ بھی کچھ لایا ہوں۔۔
جانتی ہو کیا لایا ہوں۔۔
میں آج ہماری بیٹی کو یہاں لایا ہوں۔۔
ہماری بیٹی مہرماہ۔۔
اور یہ سنتے ہی مہرماہ کا دماغ سن سا ہونے لگا۔۔
وہ بنا مڑے بول رہا تھا۔۔
آو نا مہرماہ یہاں آو وہاں کیوں کھڑی ہو گڑیا؟
اور وہ تھکے تھکے قدموں سے اسکے برابر آ کھڑی ہوئ تھی۔۔
اب وقار احمد اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔۔
آج میں تمہاری ہر بات کا جواب دوں گا مہرماہ پوچھو کیا پوچھنا چاہتی ہو؟
آپ۔۔آپ ۔۔کو کیسے پتا لگا میں وہاں پیچھے کھڑی تھی؟
یہ بھی کوئ پوچھنے والی بات ہے مہرماہ؟تمہیں کیا لگا تھا کہ تم نے میرا پیچھا کیا؟نہیں تم نے میرا پیچھا نہیں کیا بلکہ میں نے اپنا پیچھا کروایا۔۔
اگر یوں ہی لوگ میری جاسوسیاں کرنے میں کامیاب ہو جائیں نا تو یہ جو اتنی بڑی بزنس امپائیر میں نے کھڑی کی ہے اسے ختم ہونے میں ایک منٹ بھی نا لگے تم کسی عام انسان کا نہیں وقار احمد کا پیچھا کر رہی تھی۔۔
اور ایک کامیاب بزنس مین اتنا انجان کبھی نہیں ہو سکتا۔۔
یہ کس کی قبر ہے؟
تمہاری ماں کی؟
میری ماں؟
ہاں تمہاری حقیقی ماں تمہیں جنم دینے والی ماں میری محبت ، میرا عشق ، میری شریک حیات ، میری بیوی مسز مہرماہ وقار احمد خان۔۔
تو پھر آپی وہ کون ہیں؟
وہ۔۔وہ ۔۔پتا نہیں۔۔
کیا مطلب پتا نہیں وہ آپکی بیوی نہیں؟
آپ ان سے محبت نہیں کرتے؟
نہیں اسے میری زندگی میں زبردستی میں شامل کیا گیا تھا۔۔میں مجبور تھا۔۔
کیا کوئ مرد بھی کبھی مجبور ہوتا ہے بابا جان؟
ہاں ہوتا ہے اگر میں تمہارے سامنے زہر کی شیشی اپنے منہ سے لگا لوں تو کیا تم مجھے وہ پینے دو گی؟
نہیں کبھی نہیں بابا جان۔۔
مجھے روکنے کے لئے کس حد تک جاو گی؟
ہر حد تک بابا جان۔۔
تو پھر میں کیا کرتا مہرماہ میں نے بھی تو یہی کیا ۔۔
مطلب۔۔گرینی۔۔
ہاں تمہاری گرینی نے مجھے ایسے ہی مجبور کیا تھا۔۔
اپنی آنکھوں کے سامنے میں نے اپنی محبت کو مرتے دیکھا تھا مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنی ماں کو اپنے ہاتھوں مار دیتا۔۔
بتاو کیا کرتا میں؟لیکن یقین مانو میں نے کبھی بھی تمہاری مما کے ساتھ بے وفائ نہیں کی میرا جسم ، میری روح ، میرا دل آج بھی اسکی امانت ہے۔۔
بابا یہ ۔۔یہ میری ماں ہے مجھے جنم دینے والی ماں؟
ہاں۔۔
وہ اب اس قبر پر بیٹھ کر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔
مما۔۔مما وہ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرتے آنسو برسنے لگے۔۔
وقار احمد بھی وہی اسکے قریب بیٹھ گیا تھا۔۔
بابا جان یہ سب کیسے ہوا اور آپ نے مجھ سے کیوں یہ سب چھپایا۔۔
اب وہ حرف بہ حرف اپنی محبت کی داستان اپنی بیٹی کو سنا رہا تھا ۔۔
بابا جان میں بہت قدر کرتی ہوں آپکی اور مما کی محبت کی لیکن اس سب میں آپی کا کیا قصور تھا انہیں کس بات کی سزا دی آپ نے؟کیا واقعی آپکو اب بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سب انکی بددعا کی وجہ سے ہوا؟نہیں بابا یہ سب آپی کی بددعا کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ جو کچھ بھی ہوا یہ سب ایسا ہی ہونا تھا یہ یونہی لکھا گیا تھا۔۔
کوئ بھی انسان کسی کی زندگی و موت کا فیصلہ نہیں کر سکتا یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر یوں کسی کے چاہنے سے لوگ مرنے لگیں تو پوری دنیا کا ہی خاتمہ ہو جائے۔۔
جانتا ہوں لیکن کیا کئا جائے انسان کے منہ سے نکلے گئے الفاظ اکثر پچھتاوا بن جاتے ہیں بس ایسے ہی میں نہیں بھلا پایا وہ سب۔۔
اور آپ نے اس بات کی انہیں اتنی بڑی سزا دی؟
میں نے اپنی مرضی سے اس سے شادی نہیں کی۔۔
جو بھی ہو بابا جان اب وہ آپکی بیوی ہیں اور وہ اس سلوک کی ہر گز بھی مستحق نہیں پلیز انہیں اپنا لیجئے بابا جان پلیز۔۔
چلو گھر چلتے ہیں آو۔۔۔
اور اب وہ انکے ساتھ انکی گاڑی میں آ بیٹھی تھی وقار احمد نے ڈرائیور سے کہہ دیا تھا کہ وہ مہرماہ کی گاڑی لے کر گھر پنہچے اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ انہوں نے خود سنبھال لی تھی۔۔
بابا۔۔
جی مادام ۔ وہ پھر سے اپنے مخصوص انداز میں آ چکے تھے۔۔
آپ نے میرا نام مما کے نام پر رکھا نا؟
ہاں اور ویسے بھی تم ہو ہی اتنی خوبصورت تم ہوبہو اپنی مما جیسی ہو۔۔وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہے تھے میں تمہیں اب مہرماہ کی ہر وہ چیز دکھاوں گا جو میں تمہیں دکھانا چاہتا تھا۔۔
اچھا سنو؟
جی بابا جان۔۔
تمہیں ہارون کیسا لگتا ہے؟
وہ اس اچانک سوال کے لئے بلکل بھی تیار نا تھی اسی لئے وہ گڑبڑا سی گئ۔۔
ہارون؟اس نے سوالیہ نظروں سے وقار احمد کی جانب دیکھا تھا۔۔
ہاں ہارون جہانزیب تمہارے سفیان ماموں کا بیٹا۔۔
اچھا ہے۔۔
ام ہمم تم سمجھی نہیں میں کیا پوچھنا چاہ رہا ہوں میرا مطلب ہے کہ کیا تم اس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟
اب وہ اس بات کا انہیں کیا جواب دیتی۔۔
کیوں بابا جان کیا کوئ بات ہوئ ہے؟
مہرماہ تم اتنی بڑی کب ہو گئ کہ مجھ سے اپنے بابا سے اپنے فرینڈ سے بھی اپنے دل کی باتیں چھپانے لگی؟تم جانتی ہو نا میں روایتی باپ نہیں ہوں مجھے صرف اور صرف تمہاری خوشی عزیز ہے تو پھر تمہیں مجھے تو بتانا چاہیئے تھا کہ تم اسے پسند کرتی ہو۔۔
خیر یہ بتاو کیا وہ بھی تمہیں اس نظر سے دیکھتا ہے؟
پتا نہیں بابا جان اور میں اسے پسند ضرور کرتی ہوں لیکن میں نے کبھی بھی اس سے نا تو اس بات کا اظہار کیا اور نا ہی اسے ایسا کوئ اشارہ دیا میرے لئے میری اور آپکی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں بابا جان۔۔
اور وقار احمد کو اس پل اپنی اس بیٹی پر بے انتہا فخر محسوس ہوا تھا انہیں لگا تھا وہ دنیا کے سب سے خوش قسمت باپ ہیں آج انکی بیٹی نے انکا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔۔
جیتی رہو میری پیاری گڑیا تم واقعی بلکل اپنی مما پہ گئ ہو جانتی ہو اس نے تو شادی سے پہلے مجھے ایک رنگ تک اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو پہنانے کی اجازت نا دی تھی۔۔
وہ اللہ سے بہت دعائیں کرتی تھی کہ ہماری اولاد نیک ہو اور وہ اس کامل یقین کے ساتھ دعا کرتی تھی کہ کبھی بھی اسکی کوئ دعا رد ہی نہیں ہوئ اور اسی لئے دیکھو آج میں زندہ ہوں کیونکہ اس نے دعا کی تھی کہ میں زندہ رہوں۔۔
بابا جان پلیز ایسی باتیں مت کریں میں آپکے بغیر نہیں رہ سکتی مجھے آپ سے بہت محبت ہے بابا جان۔۔
ہاں بیٹے میں بھی تو تمہاری محبت میں ہی جی رہا ہوں۔۔ یہ محبت ہی تو انسان کی سب سے بڑی آزمائش ہے میں تمہیں تمہاری مما کی ڈائری دوں گا تم وہ پڑھنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار احمد نے اپنی بیٹی کی خوشی دیکھتے ہوئے رات کا انتظار کئے بغیر اماں جان کو جا کر کہہ دیا تھا کہ وہ جلد از جلد ہارون اور مہرماہ کے رشتے کی بات بڑھائے ۔۔
اور عارفہ بیگم تو کب سے اسی خبر کی منتظر تھیں اور وقار احمد سے مثبت جواب ملنے کے بعد انہوں نے فورن ساجدہ بیگم کو فون کر کے یہ اطلاع دی کہ وقار احمد کو اس رشتے پر کوئ اعتراض نہیں وہ سفیان اور عاصمہ سے اس رشتے کی بات کر لیں۔۔
اور پھر ساجدہ بیگم رات کو جب سب اپنے کمروں میں جا چکے تو سفیان اور عاصمہ کے پاس چلی آئیں۔۔
اور ساجدہ بیگم کے منہ سے اس رشتے کی بات سنتے ہی عاصمہ کی تو برسوں پرانی مراد بر آئ اسے شروع سے ہی وہ کسی مومی مجسمے سی خوبصورت مہرماہ اتنی پسند تھی کہ اسکے آگے اسے اپنے ہارون کے لئے کوئ اور لڑکی بھاتی ہی نا تھی نجانے کب سے وہ یہ آس اپنے دل میں لئے بیٹھی تھیں اور پھر اس رشتے کے بعد وہ بھرا پورا خاندان ماضی کی تمام تلخیاں بھلا کر پھر سے ایک ہو جاتا وہ رونقیں جن کے لئے عارفہ اور ساجدہ بیگم ترس گئ تھیں پھر سے لوٹ آئیں گی۔۔
ہاں سفیان مجھے مہرماہ بہت پسند ہے پلیز ہاں کہہ دیں۔۔
مگر۔۔سفیان نے کچھ بولنا چاہا تھا ۔۔
اگر مگر کچھ نہیں سفیان آخر کب تک آپ اس ایک بات کے پیچھے پڑے رہیں گے جو غصے میں وقار بھائ کے منہ سے نکل گئ اور پھر انہوں نے کتنے دکھ دیکھے ہیں کیا آپکو اب اتنا سب ہو جانے کے بعد بھی ان سے صرف ایک اس بات کا شکوہ ہے؟بھلا دیں یہ رنجشیں سفیان اللہ بھی عفو و درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے کیا پتا اللہ کو آپکی یہی نیکی پسند آ جائے اور وہ اسی کی بناء پر آپکو بخش دے۔۔
ٹھیک ہے لیکن اس سب میں ہارون کی مرضی سب سے اہم ہے آخر اس سے پوچھنے کے بعد ہی تو ہم کوئ اگلا قدم اٹھائیں گے نا؟
بس سفیان رہنے دیں کوئ اندھا ہی ہوگا جو اتنی خوبصورت اور سعادت مند لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہے گا وہ تو ایسی ہے کہ ہر کوئ اسے دیکھتے ہی اسے چاہنے لگے۔۔
امممہممم بیگم آپ بھول رہی ہیں کہ یہاں اس کے مدمقابل کوئ اور نہیں بلکہ آپکا بیٹا ہارون جہانزیب ہے جو ہر لحاظ سے اسکے برابر ہے تو پھر ضروری نہیں کہ وہ مہرماہ کو ہی پسند کرے۔۔
کرے نہیں بلکہ کرتا ہے میرا بیٹا ہے مجھے کیا پتا نہیں اسکی پسند نا پسند کا یاد ہے آپکو جب بچپن میں ایک دفعہ مہرماہ ہمارے گھر آئ تھی تو کیا کہہ رہا تھا اسے؟
ہاں ہمیں کہہ رہا تھا کہ مما ڈیڈی مجھے یہ چھوٹی سی پرنسز باربی ڈول بہت پسند ہے اسے اپنے گھر لے چلیں نا پلیز مجھے یہ بہت پیاری لگتی ہے۔۔لیکن پھر بھی عاصمہ وہ اسکا بچپن تھا اب وہ بچیس سال کا ایک میچور لڑکا ہے اور پھر جس مقام پر وہ ہے روز ہزاروں لڑکیاں اسے پرپوز کرتی ہیں اسکے آگے پیچھے منڈلاتی پھرتی ہے اور پھر وہ علیشا کی بھی تو اس سے کچھ زیادہ ہی بنتی ہے تم ایک بار اس سے پوچھ لو۔۔
ٹھیک ہے میں پوچھ لوں گی اور علیشا کی تو عادت ہے یوں ہی ہر ایک کے ساتھ فرینک ہو جانے کی مجھے نہیں لگتا کہ ان دونوں کے بیچ کچھا ایسا ویسا ہے۔۔
اللہ خیر کرے بیٹا ۔۔اب ساجدہ بیگم بولی تھیں ۔۔
جی امی انشااللہ سب ٹھیک ہو گا آپ بے فکر رہئیے۔۔
میں صبح ہارون سے بات کر کے آپکو بتاوں گی۔۔
ٹھیک ہے بیٹا پھر صبح ملاقات ہو گی۔۔
شب بخیر۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہو چکی تھی اور سورج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نکل آیا تھا تقریبن پورے سات بجے وہ پھولتے سانس کے ساتھ جاگنگ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں پنہچا تھا۔۔
اس نے وائٹ ٹی شرٹ اور بلیک اینڈ وائٹ ٹراوزر پہن رکھا تھا اسکے ماتھے پر پسینے کے موتی چمک رہے تھے جو اسکے چہرے کو بلاشبہ بہت دلکش بنا رہے تھے۔۔
اور عاصمہ کو اسے دیکھتے ہی سفیان کی رات والی بات یاد آگئ تھی بیگم یہ مت بھولو کہ یہاں اسکے مدمقابل کوئ اور لڑکا نہیں بلکہ ہارون جہانزیب ہے جو ہر لحاظ سے اسکے برابر کا ہے۔۔
ہاں واقعی اگر مہرماہ کسی مومی مجسمے کی مانند تھی تو وہ بھی کوئ عام سا لڑکا تو نا تھا وہ بھی اسی قدر خوبصورت تھا کہ اسے دیکھنے والی صرف لڑکیاں ہی نہیں بلکہ اسکے ہم جنس مرد بھی اسکی خوبصورتی پر رشک کرتے تھے وہ واقعی ہر لحاظ سے اسکے برابر کا تھا اگر ان دونوں کو ساتھ کھڑا کر کے کسی سے یہ سوال کیا جاتا تو شاید ہی کوئ بتا پاتا کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ خوبصورت ہے۔۔
وہ واقعی مہرماہ سے شادی کرنے سے انکار بھی کر سکتا تھا کیونکہ وہ کوئ عام انسان تو نا تھا وہ تو ہارون جہانزیب تھا وہ ہارون جہانزیب جسکی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا کے مانے جانے برینڈز اسے اپنی تشہیری مہم کا حصہ بنانے کے لئے دن رات اسکے آگے پیچھے پھرتے تھے اور اگر وہ کسی برینڈ کی تشہیری مہم کا حصہ بن جاتا تو اسکا مطلب ہوتا کہ اب اس برینڈ کی سیل کا ریکارڈ کوئ توڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔
اور صرف واحد خوبصورتی ہی تو اسکی پہچان نا تھی وہ اتنی سی عمر میں ہی ایک کامیاب بزنس مین بن گیا تھا اور قسمت کی دیوی اس پر کسی محبوبہ کی طرح مہربان تھی گو کہ وہ بنجر زمین میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا اگلنے لگتی۔۔
اب عاصمہ بیگم کو اس سے یہ بات کرتے ایک پل کو خوف سا محسوس ہوا تھا کہ اگر ہارون نے انکار کر دیا تو کیا ہو گا مگر اسے کسی نا کسی طرح ہمت کر کے یہ سب تو اس سے پوچھنا ہی تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا مما سب ٹھیک ہے نا آپ یہاں میرے کمرے میں؟اس نے عاصمہ کو دیکھتے ہی سوال کیا تھا۔۔
ہاں وہ بیٹا مجھے اکیلے میں تم سے کچھ بات کرنا تھی اسی لئے تمہارے کمرے میں آ گئ۔۔
وہ اب عاصمہ کے قریب آ کر اسکی گود میں سر رکھ کر زمین پر بیٹھ گیا تھا۔۔
ارے بیٹا ادھر اوپر آجاو میرے پاس۔۔
نہیں مما میں ایسے ہی ٹھیک ہوں وہ اپنا صبیح چہرہ اٹھا کر مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔
جی مما آپ کچھ کہہ رہی تھیں کیا بات تھی سب خیریت ہے نا؟
ہاں سب خیریت ہے وہ میں تمہاری شادی کے بارے میں تم سے بات کرنے آئ تھی۔۔
کیا میری شادی کے بارے میں؟وہ یہ بات سنتے ہی تقریبن اچھلا تھا۔۔
ہاں اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے تمہیں شادی نہیں کرنی کیا؟یا پھر تم نے پہلے سے ہی کسی کو پسند کر رکھا ہے؟
نہیں ایسی تو کوئ بات نہیں مما بس وہ یہ سب اتنا اچانک مطلب آج سے پہلے تو آپ نے کبھی کوئ ایسی بات نہیں کی۔
ہاں لیکن اب تو کر رہی ہوں نا؟
جی۔۔
تو پھر؟
تو پھر کیا مما؟
مطلب تمہاری شادی بھئ۔۔
ٹھیک ہے جیسے آپ کو بہتر لگے۔
تو پھر اگر تمہاری کوئ پسند ہے تو بتاو؟
اور اس بات پر اسے وہی خوبصورت سبز آنکھوں والی گڑیا سی مہرماہ یاد آئ تھی۔
اسے ابھی تک یاد تھا جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا تو وہ اتنی چھوٹی اور خوبصورت تھی کی اسے وہ بلکل ایک باربی ڈول لگی تھی اور اس نے اسے دیکھتے ہی مما اور ڈیڈی سے فرمائش کی تھی یہ کتنی پیاری پرنسز باربی ڈول ہے ہم اسے گھر لے چلیں مجھے یہ بہت پیاری لگتی ہے میں اسکے ساتھ بہت کھیلوں گا میں اسکا بہت خیال رکھوں گا اور اسکی بات کا جواب وقار احمد نے دیا تھا۔۔
سنو! صاحبزادے یہ کوئ تمہارے کھیلنے کی گڑیا نہیں یہ میری بیٹی ہے سمجھے۔۔
اور اسے اسی دن اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے اس سے بہت دور رہنا ہے وہ واقعی اسکے کھیلنے کی کوئ چیز نہیں تھی۔۔
وہ اسے کتنی خوبصورت لگتی تھی یہ وہی جانتا تھا جب بھی وہ اسے دیکھتا تھا ہر بار اسکی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی تھیں مگر وہ کبھی بھی اپنے اندر اتنی ہمت پیدا نہیں کر پایا کہ وہ اپنے جذبات اس تک پنہچا پاتا۔۔
وہ جانتا تھا کہ محبت کو پا لینا اتنا آسان نہیں وہ جانتا تھا یہ محبت بہت تکلیف دیتی ہے تو پھر وہ کیسے اسے اس تکلیف میں مبتلا کر دیتا جب کہ اسے یہ یقین ہی نا تھا کہ وہ اسے پا سکے گا یا نہیں بس اسی دن سے اس نے اپنے دل کو سمجھا لیا تھا کہ اسے خاموش رہنا ہے بس خاموش۔۔
وہ جب جب اسکی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھتی وہ کتنا بے تاب ہو جاتا تھا اسکا کتنا دل چاہتا تھا کہ وہ بھی اسکی آنکھوں میں جھانکے مگر نہیں وہ اسے کسی بھی غلط فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا ہاں مگر اس کی کوئ نماز ایسی نا تھی جس میں اس نے اسے نا مانگا ہو۔۔اے میرے رب میں بہت گنہگار ہوں جب بھی تجھ سے مانگنے کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو شرمسار ہو جاتا ہوں خود کو بہت کم تر محسوس کرتا ہوں سوچتا ہوں کوئ تجھ سے معافی مانگتا ہے کوئ تیری رضا مانگتا ہے اور میں۔۔میں تجھ سے ایک مٹی سے بنے انسان کی چاہ کرتا ہوں جانتا ہوں یہ بہت احمقانہ دعا ہے مگر کیا کروں پتا نہیں کیوں ایک دعا میں اٹک کے رہ گیا ہے میرا دل کیوں مجھ سے کچھ اسکے سوا مانگا نہیں جاتا۔۔
اے میرے رب اگر تجھے کبھی بھی میری کوئ نیکی پسند آئ ہے یا تجھے میرے اس جذبے میں ذرا سی بھی سچائ نظر آئ ہے تو میرا نکاح اس سے نصیب فرما دے۔۔
ہارون بتاو نا تمہاری کوئ پسند ہے؟عاصمہ اس سے پوچھ رہی تھی۔۔
نہیں میں اسکا نام لے کر اسے رسوا نہیں کروں گا میں جانتا ہوں انکل وقار اور ڈیڈی کبھی نہیں مانیں گے لیکن اگر وہ یہ جان گئ کہ میں نے اس سے شادی کرنے کی خواہش کی ہے تو پھر میری خاموش محبت کو پہچاننے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگے گی اور پھر شاید وہ مجھے کبھی نا بھلا پائے ایسا نہیں ہے کہ میں اسے پانے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا بس میں اسے دکھ نہیں دینا چاہتا اور پھر محبت کسی کو حاصل کر لینا تو نہیں بلکہ محبت تو کسی کی خوشی کے لئے خود کو قربان کر دینا ہے۔۔
نہیں مما میری کوئ بھی پسند نہیں۔
مہرماہ بھی نہیں؟
مہرماہ؟
ہاں مہرماہ۔۔
مما آپ جانتی تو ہیں ڈیڈی اور انکل وقار کے درمیان کی خلش کو پھر بھی؟
تم صرف یہ بتاو کہ کیا تمہیں وہ پسند ہے؟
پہلے آپ میرے سر پہ ہاتھ رکھ کے قسم لیں کہ آپ کو میں جو کچھ بھی کہوں گا وہ صرف میرے اور آپ کے درمیان ہی رہے گا؟
ہارون تم بھی نا کبھی کبھی حد کرتے ہو کیا ماں سے بڑا بھی کوئ رازدار ہو سکتا ہے اولاد کا؟تمہاری قسم میں کسی کو کچھ نہیں کہوں گی اب بتاو۔
مجھے وہ بہت اچھی لگتی ہے لیکن میں جانتا ہوں اسے پا نہیں سکتا۔
اچھا اور اگر میں کہوں کہ وقار بھائ کو اس رشتے پر کوئ اعتراض نہیں تو؟
تو میں سمجھوں گا کہ قسمت کی دیوی واقعی میری محبوبہ ہے۔۔
تو پھر سن لو ہارون جہانزیب قسمت کی دیوی واقعی کسی محبوبہ کی طرح تم پر مہربان ہے کیونکہ وقار بھائ اور سفیان کو اس رشتے پر کوئ اعتراض نہیں اور اب یہ بات آگے بڑھانے کے لئے ہم صرف تمہاری اک ہاں کے منتظر ہے۔۔
کیا آپ واقعی سچ کہہ رہی ہیں؟
ہاں میرے شہزادے بلکل سچ کہہ رہی ہوں۔
اور مہرماہ کیا اسے بھی کوئ اعتراض نہیں؟
تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہونا چاہئے؟
نہیں مگر پھر بھی میں یقین دہانی کر لینا چاہتا ہوں اس بات کی۔
تو پھر پوچھ لو اس سے کیونکہ ہمیں رات کو باقاعدہ تم دونوں کی بات پکی کرنے کے لئے وقار ولا جانا ہے۔۔
یہ کہتے ہوئے عاصمہ اسکے سر پر پیار سے تھپکی دیتے ہوئے وہاں سے چلی گئ تھی اور وہ ایک خیال کے آتے ہی ان کے پیچھے لپکا تھا۔۔
مما۔۔
اسکی پکار پر عاصمہ واپس اس کی جانب مڑی تھی۔۔
وہ میرے پاس مہرماہ کا نمبر نہیں ہے۔۔
اف توبہ ہے ہارون تم بھی نا رکو میں ابھی اپنا موبائل بھجواتی ہوں اس میں سیو ہے۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس کے روم کا ڈور ناک ہوا تھا۔۔
یس کم ان۔۔
اور ایک میڈ اپنے ہاتھ میں موبائل لئے وہاں آئ تھی جو ہارون نے اس سے لے لیا تھا اور پھر وہ وہاں سے چلی گئ تھی۔
اس کے جاتے ہی ہارون نے عاصمہ کے موبائل سے مہرماہ کا نمبر اپنے موبائل میں save کر لیا تھا۔
اور پھر نا جانے اس کے دل میں کیا سوجھی کے وہ ڈائریکٹ کال کرنے کی بجائے مہرماہ کے نمبر پر ایک میسیج ٹائپ کرنے لگا۔۔
You've got a hold of me
Don't even know your power
I stand a hundred feet
But I fall when I'm around you
Show me an apen door
Then you go and slam it on me
I can't take anymore
I'm saying baby
Please have mercy on me
Take it easy on my heart
Even though you don't mean to hurt me
You keep tearing me apart
Would you please have mercy?
Mercy on my heart.
اور ٹائپ کرنے کے بعد یہ میسیج اس نے مہرماہ کے نمبر پر سینڈ کر دیا تھا۔
اور پھر پانچ منٹ گزر جانے کے بعد بھی اسے کوئ reply نہیں آیا تھا۔
اب مزید انتظار کرنا اسکے لئے محال ہو رہا تھا اور پھر اس نے مہرماہ کے نمبر پر کال ملا دی تھی اور اپنا موبائل کان سے لگا کر وہ اپنے کمرے کی کشادہ ونڈو کی جانب آ گیا تھا جہاں سے باہر لان کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔۔
اب دوسری طرف بیل جا رہی تھی اور پھر تیسری بیل پر اسکا فون اٹھا لیا گیا تھا اور سپیکر میں اسکی مترنم آواز ابھری تھی۔۔
ہیلو ۔
وہ کچھ بول نہیں پایا تھا۔۔
اور وہ دوبارہ بول رہی تھی ہیلو ہو از؟
اسے خیال آیا کے اسکے چپ رہنے کے باعث کہیں وہ فون ہی نا بند کر دے اسی ڈر سے وہ فورن بول پڑا تھا۔۔
ہیلو اٹز ہارون جہانزیب سپیکنگ۔
اور اسکی حیران پریشان سی آواز ابھری تھی۔۔
"آپ"؟اسلام و علیکم۔
وعلیکم اسلام۔۔اب تک وہ خود کو نارمل کر چکا تھا۔۔
کیسی ہو مہرماہ؟
جی میں ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسے ہیں؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔
کوئ کام تھا آپکو مجھ سے؟
کام؟
جی آپ نے مجھے کال کی نا اس لئے۔۔
ہاں وہ مجھے کچھ پوچھنا تھا تم سے۔۔
مجھ سے؟
ہاں تم سے۔۔
لیکن کیا؟
میں تمہیں کیسا لگتا ہوں؟
یہ کیسا سوال ہے آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟
ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔
تو پھر یہ عجیب قسم کے سوالات کا مقصد؟شاید آپ نے کسی اور مہرماہ کو کال کرنا ہو گی غلطی سے میرے نمبر پر آ گئ بٹ اڑز اوکے۔۔میں آپکو بتا دیتی ہوں کہ میں مہرماہ وقار احمد بات کر رہی ہوں۔۔آغا وقار احمد علی خان کی بیٹی مہرماہ وقار احمد۔۔
میں نے تمھیں ہی کال کی ہے مہرماہ وقار احمد اور شاید تم نے میرے سوال کا کوئ غلط مطلب نکالا ہے میں سیدھی بات کرتا ہوں کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟
کیا؟
میں نے پوچھا کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟
یہ سوال آپ میرے بابا جان سے کریں تو بہتر ہو گا۔۔
اسی لئے تو میں تم سے پہلے پوچھ رہا ہوں کہ تمہیں میں کیسا لگتا ہوں؟
اس سے کیا ہو گا؟
آف کورس میرے لئے یہ جانبا بہت ضروری ہے یار کیونکہ آخر تمہیں میرے ساتھ پوری زندگی گزارنی ہے۔۔
اور اگر مجھے آپ پسند نا ہوں تو؟
تو میں یہ رشتہ نہیں جوڑوں گا۔
اوہ رئیلی؟
یس۔
سوچ لیں۔۔
میں ہر بات بہت سوچ سمجھ کے بولتا ہوں۔۔
اوکے تو پھر بات کچھ ہوں ہے مسٹر ہارون جہانزیب کہ آپ ایک انتہائ کھڑوس انسان ہیں۔۔
اسے مہرماہ سے اس قدر بھونڈے جواب کی بلکل بھی توقع نہیں تھی۔۔
مطلب میں تمہیں اچھا نہیں لگتا؟
ابھی میری بات پوری نہیں ہوئ۔۔
تو اب اور کیا کہنا باقی ہے؟
مجھے کھڑوس لوگ بہت اچھے لگتے ہیں۔۔اور ایک بات اور i have mercy on u , mercy on your heart..
اور یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا تھا۔۔
اسکا جواب سننے کے بعد ہارون کے لبوں پر مسکراہٹ خودبخود آ گئ تھی۔۔تو مسٹر ہارون جہانزیب خان قسمت کی دیوی واقعی تمہاری محبوبہ ٹھہری۔۔
اور پھر وہ موبائل بیڈ پر اچھال کر واش روم میں چلا گیا تھا اور اب تیار ہونے کے بعد وہ انتہائ خوشگوار موڈ میں گنگناتا ہوا ڈائننگ روم میں پنہچا تھا جہاں سب اس کے منتظر تھے۔۔
"مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ہو۔۔۔"
اور اسکا یہ گانا سنتے ہی ثناء نے ایک معنی خیز مصنوعی کھانسی کی تھی۔۔
اب وہ اپنی طرف اہک چئیر کھینچ کر دائننگ ٹیبل کے گرد براجمان ہو گیا تھا۔۔
کیا بات ہے برخودار آج بہت خوش خوش لگ رہے ہو؟
نہیں ڈیڈی ایسی تو کوئ بات نہیں بس وہ ویسے ہی۔۔
اسکی اس بات پر سفیان اور ساجدہ بیگم نے معنی خیز نظروں سے عاصمہ کی جانب دیکھا تھا اور انکی نظروں کو پڑھتے ہوئے عاصمہ نے اپنی پلکوں کو ہاں میں جنبش دی تھیں۔۔
ارے یہ کیا آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں ہو رہی ہیں کوئ مجھے بھی بتائے گا۔۔ثناء انکو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔
بتا دیں گے تمہیں بھی بڑی اماں ابھی ناشتا کرو۔۔
نہیں مجھے نہیں پتا یہ غلط بات ہے ہارون بھائ آپ ہی بتا دیں نا پلیز۔۔
میں کیا بتاوں ثناء؟
یہی نا کہ اس گھر میں یہ کیا ہو رہا ہے؟
ابھی تو کچھ بھی نہیں ہو رہا ہاں جب کچھ ہو گا تب تہمیں بھی پتا چل جائے گا۔۔
اوکے نا بتائیں مجھے بھی ناشتا نہیں کرنا میں جا رہی ہوں یورنیورسٹی۔۔
یا خدا عاصمہ اس لڑکی کو بھی کچھ سکھا دو بلکل ہی لاابالی ہے یہ تو۔۔
دادو آپ کیوں مجھے ایسے بولتی رہتی ہیں دیکھیں نا ڈیڈی۔۔
اوہو بھئ آپ سب کیوں ہماری پیاری بیٹی کو تنگ کر رہے ہیں چلو میری پیاری گڑیا اپنا موڈ ٹھیک کر کے ناشتا شروع کرو اور کھاتے ہوئے بات نہیں کرتے میں خود اپنی گڑیا کو ناشتے کے بعد سب بتاتا ہوں۔۔
سچ؟
مچ اب خوش؟
بہت خوش۔۔
اور پھر ناشتے کرنے کے بعد وہ پھر سے شروع ہو گئ تھی اب بتا دیں نا ڈیڈی ورنہ اتنے سسپنس میں تو میرا کھانا بھی ہضم نہیں ہو گا۔۔
اچھا تو بات یہ ہے بیٹا کہ ہم تمہاری بھابھی لا رہے ہیں۔۔
کیاااااااا بھابھی؟؟؟
اور یہ سنتے ہی ہارون جھینپ سا گیا تھا۔۔۔
اچھا ڈیڈی میں پھر چلتا ہوں۔۔
کیوں آپ کیوں لڑکیوں کی طرح شرما رہے ہیں ہارون بھائ بیٹھیں نا آپ بھی تو سن کے جائیں۔۔
مجھے شرمانے کی کوئ ضرورت نہیں مس چڑیل اوت ویسے تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں آل ریڈی سب کچھ جانتا ہوں۔
ہیںںںںںںںںں۔۔۔اس کا مطلب کہ صرف ایک میں ہی انجان ہوں ناٹ فئیر اس نے ایسا کہتے ہوئے برا سا منہ بنایا تھا اور ہارون اسکے سر پر شرارت سے ایک دھپ رسید کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔۔
مما تو کیا آپ نے بھائ کے لئے لڑکی بھی چورے چھپے خودی پسند کر لی؟
خودی سے کیا مطلب بھئ؟
مطلب مجھ سے پوچھے بغیر۔۔
لو بھلا یہ کوئ بات ہوئ کرنے کی ارے جس کو بیاہنا ہے اس سے پوچھنا ضروری ہے یا پھر تم سے؟
دادو آپ یعنی آپ سب۔۔۔سب کچھ تہہ کر چکے ہیں اور مجھے کسی نے پوچھنا تو دور بتایا تک نہیں کتنے ارمان تھے میرے اپنے بھائ کی شادی کو لے کر ٹھیک ہے اگر یہ سب آپ نے خودی تہہ کر لیا ہے تو پھر آگے کے مراحل بھی خودی تہہ کر لیجئے میں اس شادی کا مکمل بائیکاٹ کرتی ہوں۔۔
لو جی ابھی گاوں بسا نہیں اور منگتے پہلے سے آ گئے۔۔
دادو پلیز اب آپ اپنے یہ محاورے سنا کر مجھے مزید ہائپر مت کریں۔۔
توبہ ہے اس لڑکی میں تو اداب نام کی کوئ چیز نہیں۔۔
اوہو امی جان آپ لوگ اپنی بحث تو بند کریں نا۔۔
اپ کیا نیک کام سے پہلے ہی لڑائ ڈال کر بیٹھ گئے ہیں۔۔
چلو ثناء امی جان سے جلدی معافی مانگو۔۔
مجھے معاف کر دیں دادو پلیز سچ میں میرا مقصد آپکا دل دکھانا نہیں تھا پلیز نا۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں بھی تمہاری بھلائی کےلئے ہی تمہیں سمجھاتی ہوں۔۔
ہاں جی تو بات یوں ہے کہ ابھی تک ہم نے کچھ بھی نہیں تہہ کیا بھئ ابھی تو صرف تمہارے بھائ کی مرضی معلوم کی ہے اور رہی بات لڑکی دیکھنے کی تو وہ لڑکی کوئ اور نہیں بلکہ تمہاری کزن اور بیسٹ فرینڈ مہرماہ ہے بھئ۔۔
اوہ سچچچچچ اوہ واو ڈیڈی آپ سوچ بھی نہیں سکتے یقین مانیں میں تو شروع دن سے ہی مہرماہ کو اپنی بھابھی بنانا چاہتی تھی اوہ گاڈ آئ ایم سو ایکسائٹد ہم کب جائیں گے وقار انکل کے گھر شادی کی بات کرنے۔۔
آج شام کو۔۔
اوہ یسسس میں آج یونیورسٹی نہیں جاوں گی بس یس یس یس یس اففف آپ سوچ بھی نہیں سکتے میں کتنی خوش ہوں۔۔
اوہ پتا نہیں یہ شام کب ہو گی۔۔
اور پھر بالآخر وہ شام آ ہی پنہچی تھی جب سفیان ، عاصمہ ، ساجدہ بیگم اور ثناء مٹھائ کے ٹوکرے لئے وقار ولا میں پنہچے تھے۔۔
اور پھر انہوں نے روایتی طریقے سے وقار احمد سے مہرماہ کا ہاتھ اپنے بیٹے ہارون کے لئے مانگا تھا اور وقار احمد نے اس رشتے کے لئے ہاں کر کے اپنی بیٹی کی جھولی میں دنیا کی سب سے بڑی خوشی ڈال دی تھی۔۔
ارے مہرماہ ہے کہاں ثناء یہاں بھی بولے بنا نا رہ سکی تھی۔۔
وہ اپنے کمرے میں ہیں بیٹا نائلہ نے ثناء کو بتایا تھا۔۔
میں ابھی اسے لے کر آتی ہوں۔۔
ہاں ہاں بیٹا جاو اسے لے آو۔۔وقار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔
سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور سبھی اس نئے رشتے کی شروعات پر بہت خوش تھے۔۔
ثناء بنا دستک دئیے اسکے کمرے میں آ دھمکی تھی اور اسے دیکھتے ہی بڑے مودب سے انداز میں بولی تھی اسلام و علیکم بھابھی۔۔
ثناء ۔۔مہرماہ نے اس کا نام لیتے ہوئے اسے آنکھیں نکالیں تھی۔۔
جی بھابھی ۔۔
بس کر دو یہ ڈرامے بازیاں اور وہ مسکراتے ہوئے اسکے گلے لگ گئ تھی اف مہرماہ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ میں کتنی خوش ہوں۔۔
تم خوش ہو نا؟
کیا تمہیں بھی یہ پوچھنے کی ضرورت ہے ثناء؟
نہیں بلکل بھی نہیں۔۔
آو باہر چلیں میں تمہیں لینے آئ ہوں۔۔
اور پھر وہ اسے اپنےساتھ گھر کے مین ہال میں لے آئ تھی جہاں سب جمع تھے۔۔
اس نے وہاں آتے ہی سب کو سلام کیا تھا اور پھر نائلہ اور وقار اٹھ کر اسکی جانب بڑھے تھے اور اسے اپنے ساتھ لا کر اپنے درمیان اسکی جگہ بناتے ہوئے اسے وہاں بٹھا دیا تھا۔۔
سب نے باری باری اٹھ کر اسے پیار اور دعائیں دیتے ہوئے مٹھائ کھلائ تھی۔۔
اور ثناء نے ہارون کو دکھانے کے لئے اپنے موبائل میں اسکی ڈھیر و ڈھیر تصویریں بنا لی تھیں۔۔
آف وائٹ اور مہرون کلر کے حسین امتزاج میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی کیونکہ آج یہاں کوئ بھی نا محرم موجود نہیں تھا اسی لئے اس نے اپنے سوٹ کے مہرون کلر کے دوپٹے کو ہی اپنے سر پر سیٹ کر لیا تھا اور اسی سے اپما سینہ بھی مکمل طور پر ڈھانپا ہوا تھا۔۔
یوں یہ حسین شام اپنے اختتام کو پنہچی تھی اور تہہ یہ پایا تھا کہ ٹھیک دس دن بعد ان دونوب کی ایگیمجننٹ کا فنکشن گاوں کی حویلی میں کیا جائے گا۔۔
مہرماہ کے کہنے پر ساجدہ بیگم وقار ولا میں ہی رک گئ تھیں جبکہ باقی سب واپس آ گئے تھے۔۔
جیسے ہی وہ گھر پنہچے تو ان کی نظر لان میں بے چینی سے ٹہلتے ہوئے ہارون جہانزیب پر پڑی اور اب اسے ثناء کہاں بخشنے والی تھی۔۔
ہارون بھائ کیا بات ہے آخر اتنے بے چین کیوں ہوئے پھر رہے ہیں؟
ثناء لان میں ہارون کے پاس ہی رک گئے تھے جبکہ عاصمہ اور سفیان اسے منگنی کی خوشخبری سنا کر وہاں سے چلے گئے تھے۔۔
مجھے کیوں بے چینی ہونے لگی؟
اوہ واقعی آپکو کوئ بھی نے چینی نہیں ہو رہی؟
نہیں۔۔
تو پھر ٹھیک ہے آپکو مہرماہ کی تصویریں دیکھنے کی کیا ضرورت؟ ویسے آج وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔
ٹھیک ہے نا دکھاو تمہاری مرضی ویسے میں تمہارے لئے ابھی پزا آرڈر کرنے والا تھا لیکن تم تو وہاں سے کھانا کھا کر آئ ہو گی نا تو تمہیں کیا ضرورت جاو اپنے کمرے میں جا کے سو جاو۔۔وہ جانتا تھا کہ ثناء کی کمزوری کیا ہے۔۔
ارے نہیں بھائ ایسی تو کوئ بات نہیں میں آپکا ساتھ تو دوں گی نا ورنہ آپ اکیلے کیسے کھائیں گے؟
آئ مین آپ میرے بغیر بور ہو جائیں گے نا؟یہ لیں میرا موبائل آپ اسی سے کال کر لیں نا پزا ہوم ڈلیوری کروانے کے لئے تب تک میں چینج کر کے آتی ہوں۔۔وہ جانتی تھی کہ ہارون نا تو اس سے مہرماہ کی تصویریں مانگے گا اور نا ہی اسکے سامنے دیکھے گا۔۔
اور پھر ثناء کے جاتے ہی ہارون نے جلدی سے مہرماہ کی تمام تصاویر اپنے موبائل میم ٹرانسفر کر لی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر دو دن بعد جب عاصمہ اپنے بھائیوں کے گھر ہارون کا رشتہ تہہ پانے کی خوشی میں مٹھائی لے کر جانے لگیں تو ثناء بھی انکے ہمراہ ہو لی وہاں پنہچتے ہی جب اسے علیشا اسے کہیں نظر نا آئی تو اسکا دل مرجھا سا گیا۔۔
ممانی علیشا کہاں ہے؟
ارے بیٹا وہ تو اپنے کمرے میں ہے میں بلا کر لاتی ہوں اسے۔۔
نہیں ممانی آپ رہنے دیں میں خودی اسکے کمرے میں چلی جاتی ہوں اور پھر وہ مٹھائی کی پلیٹ اٹھائے اسکے کمرے تک آ گئی تھی۔۔
ہیلو علیشا کیسی ہو؟
میں ٹھیک تم کیسی ہو اور آج تم کیسے یہاں آ گئی؟
بس بات ہی ایسی ہے کہ میں خود کو یہاں آنے سے روک ہی نہیں پائ لو مٹھائ کھاو۔۔
یہ کس خوشی میں ہے بھئ۔۔
تمہارے پیپرز تو ہو نہیں رہے تھے تو کوئی بزنس ڈیل ہی سائن کی ہو گی سفیان انکل نے اسی خوشی میں ہو گی؟
نہیں یہ تو ہارون بھائی کی منگنی کی خوشی میں ہے ٹھیک آٹھ دن بعد سنڈے کو انکی منگنی ہو رہی ہے مہرماہ کے ساتھ تم بھی ضرور آنا۔۔
یہ سنتے ہی علیشا کا مٹھائی والا ہاتھ منہ تک جاتا جاتا وہی رک گیا۔۔
جبکہ ثناء یہ دھماکہ کر کے جا چکی تھی۔۔اور آخر وہ اسی مقصد کے لئے تو آئی تھی۔۔