مسعود حسین خاں تنقید نگار کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے تو وہ بنیاد گزار ہیں۔ ادبی تنقید کے ضمن میں اقبال پر ان کے مطالعات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے مصحفی، جوش اور اصغر گونڈوی کی شاعری پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ اپنے علمی سفر کے آغاز میں انھوں نے روایتی تنقید کا انداز اختیار کیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ وہ اس اندازِ نقد سے دور ہوتے گئے، اور امریکہ پہنچنے پر ان کے تنقیدی نظریے میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ اب ادب کے معروضی، تجزیاتی اور توضیحی مطالعے کی جانب مائل ہوئے اور لسانیات کے اطلاق کو ادب کے معروضی مطالعے کے لیے ضروری سمجھنے لگے۔ یہی اندازِ نقد ’اسلوبیات‘ یا ’اسلوبیاتی تنقید‘ کہلایا جو ادب کے داخلی، تاثراتی اور تشریحی اندازِ نقد کے بالکل برعکس ہے۔
ادبی تنقید
مسعود حسین خاں نے اگرچہ اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا، لیکن اس کے ساتھ وہ علمی میدان میں بھی سرگرم رہے اور مختلف ادبی و لسانی موضوعات پر مضامین و مقالات لکھتے رہے۔ ان کے ابتدائی دور کے مضامین کا مجموعہ ’اردو زبان اور ادب‘ کے نام سے پہلی بار 1954میں شائع ہوا۔ اس کا موجودہ ترمیم شدہ ایڈیشن 1983میں ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوا جس میں ان کے دس ادبی مضامین اور پانچ لسانی موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ ادبی مضامین میں سے چھے مضامین پانچ شاعروں (اقبال، جوش، مصحفی، اصغر گونڈوی، عظمت اللہ خاں ) پر ہیں اور چار مضامین مختلف ادبی و شعری موضوعات پر۔ علاوہ ازیں انھوں نے اقبال انسٹی ٹیوٹ، سری نگر (کشمیر) میں اپنے قیام کے دوران میں اقبال پر ایک مختصر کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983)لکھی جس پر انھیں 1984کا ساہتیہ اکادمی کا قومی اردو ایوارڈ ملا۔
مصحفی (1751-1824)کو بالعموم، اردو ادب کی تاریخ میں ایک شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، لیکن مسعود حسین خاں کے نزدیک مصحفی ’’نقاد شاعر‘‘ تھے جنھوں نے تذکرہ نویسی کے ذریعے نہ صرف اپنے ذوقِ انتخاب کا، بلکہ تنقیدی شعور کا بھی ثبوت دیا ہے۔ مصحفی کے فارسی اور اردو شعرا کے تین تذکرے ملتے ہیں۔ انھی کی مدد سے مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’’مصحفی نقاد شاعر‘‘(1) میں مصحفی کے نظریۂ فن کا ’’خاکہ‘‘ تیار کیا ہے، پھر ان کی شاعری کو انھی کی پیش کردہ ’’تنقیدی کسوٹی‘‘ پر پرکھا ہے۔ مسعود حسین خاں کی یہ تنقیدی کاوش لائقِ ستائش ہے۔
شاعر نقادوں کے بارے میں مسعود حسین خاں کی رائے یہ ہے کہ ’’یہ نرے شاعر نہیں ہوتے، بلکہ انھیں تنقید کا بھی چسکا ہوتا ہے۔ ‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’فنِ شعر کے بارے میں سب سے گہری باتیں شاعر نقادوں ہی نے کہی ہیں۔ ‘‘ وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شاعر نقادوں کے یہاں تنقید بہت کم ملتی ہے اور شعرا کے تذکرے اور انتخاب زیادہ، تاہم ان کے خیال میں ’’شعرا کے کلام پر رائے دیتے وقت وہ اپنے نظریۂ فن کے بارے میں بلیغ اشارات کر گئے ہیں۔ ‘‘ مصحفی کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ خود ساختہ اصولِ فن پر اپنے کلام کے بیشتر اور بہتر حصے میں عامل بھی رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ’’تنقیدی کسوٹی‘‘پر پورے اترتے ہیں۔ (2)
مصحفی کے تذکروں سے ان کے نظریۂ فن کے بارے میں مسعود حسین خاں کو بہت سی باتوں کا علم ہوا جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاعر ’’بمقتضائے موزونیِ طبع‘‘ یعنی طبع یا طبیعت میں موزونیت کے تقاضے کے تحت شعر کہتا ہے۔ اگر اس کی طبیعت میں موزونیت نہیں ہے، یعنی اسے وزن کا احساس نہیں ہے تو وہ شعر نہیں کہہ سکتا۔ لہٰذا مصحفی کے نزدیک شاعر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ وزن کا احساس رکھتا ہو۔ ’’موزونیِ طبع ‘‘ ایک نوع کی تربیت و تہذیب چاہتی ہے جو کسی استاد کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے مصحفی نے اپنے تذکروں میں ’’فیضِ صحبتِ بزرگان‘‘ پر زور دیا ہے۔ اگر کسی کو استاد میسر نہ ہو تو وہ شعری تربیت سے محروم رہ جاتا ہے۔ مصحفی نے اپنے اس نظریے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی استادی سے نہ جانے کتنوں کو فیض پہنچایا اور ان کی شعری صلاحیتوں کی تربیت کی۔ لکھنؤ کے شاعرانہ ماحول میں اس کی اہمیت و افادیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
مصحفی کے نظریۂ فن سے متعلق دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ تخیلی اسلوب کو ناپسند کرتے تھے۔ تخیلی اسلوب’’ معنی بندیِ تازہ‘‘ کی شکل میں امام بخش نا سخ (1776-1838) کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ مصحفی ان کے بھی خلاف تھے۔ مصحفی، شیخ محمد بخش واجد کے ’’اشعارِ خیالی‘‘ کو بھی ناپسند کرتے تھے جن کے دو شعر یہاں نقل کیے جاتے ہیں :
لکھا ہے ہر غزل میں مَیں نے مضموں چشمِ گریاں کا
بجا ہے گر ہو تارِ اشک سے شیرازہ دیواں کا
حذر مینائے دل کو کیوں نہ ہو ان نرم رویوں سے
رگِ سنگِ صنم ہر تار ہے زلفِ پریشاں کا
مصحفی اس قسم کے چیستانی اسلوب کو ہرگز پسندنہیں کرتے تھے اور اس کے شدید مخالف تھے۔ ان کا یہ نظریہ ان کے تنقیدی شعور کا آئینہ دا ر ہے جس پر وہ خود عمل پیرا رہے، چنانچہ اس اندازِ تغزل سے ان کی شاعری ہمیشہ ’’عاری‘‘ رہی۔ مسعود حسین خاں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مصحفی معنی آفرینی کے قائل ہیں، لیکن ’معنی بندی‘ کے نہیں۔ وہ شعر محض خیال کی آرائش کے لیے نہیں کہتے۔ شعر ان کے لیے نہ تو بال کی کھال نکالنا ہے اور نہ خارجیت پرستی… نہ صرف زمینوں کے لیے وہ متقدمین کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں، بلکہ معنوی اعتبار سے بھی غزل گوئی کی معراج یہی سمجھتے ہیں کہ ’’شعر را سا دہ سادہ می گوید‘‘ … مصحفی نے اپنے کلام کے بہترین حصے میں لفظ پرستی اپنا شعار نہیں کیا، اور نہ خیال بندی کو کمالِ فن جانا۔ ‘‘(3)
مسعود حسین خاں مثال کے طور پر مصحفی کے درجِ ذ یل اشعار پیش کرتے ہیں :
ترے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا
مصحفی آج تو قیامت ہے
دل کو یہ اضطراب کس دن تھا
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
مصحفی شب جو چپ تو بیٹھا تھا
کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا
چمن میں آنے کی اس گل کے ہے خبر شا ید
جو مضطرب سی ہے بادِ صبا سحر سے آج
مصحفی نے اپنے تذکروں میں ’’معانی‘‘ پر زور دینے کے ساتھ ساتھ ’’مہارتِ تام‘‘ کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے جو مشق سے آتی ہے۔ ان کے تذکروں میں ’’کلام شستہ‘‘، ’’شعر درست‘‘ اور ’’زبان با مزہ و شیریں ‘‘ کی تراکیب بھی ملتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں زبان و ہیئت کی درستی، نرمی، رچاؤ اور مٹھاس کا کتنا شدید احساس تھا۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’’خود مصحفی کے کلام میں جو نرمی اور گھلاوٹ ہے وہ زبان کے صوتی پہلوؤں کے احساس کے بعد آئی ہے۔ کلام میں موسیقیت اور رچاؤ اسی وقت آتا ہے جب شاعر ہیئت اور الفاظ پر برسوں غور و فکر کرے۔ ‘‘(4)
مسعود حسین خاں نے جوش ملیح آبادی (1898-1982)کی شاعری پر بھی تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ انھوں نے جوش کی شاعری کے دو پہلو بیان کیے ہیں۔ یہ دونوں پہلو ان کی شاعری میں اس طرح ہم دگر ہیں کہ انھیں بہ یک وقت شاعرِ انقلاب بھی کہا جا سکتا ہے اور شاعرِ شباب بھی۔ مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’’جوش ملیح آبادی‘‘ میں جوش کی شاعری کے ان دونوں پہلوؤں کا بڑی تنقیدی بصیرت کے ساتھ احاطہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ’’اس انقلاب و شباب کو بہم کرنے والا خود جوش کا وہ عجیب و غریب ذہن ہے جو بہ یک وقت نرمی و سختی، لطافت و کثافت، جلال و جمال اور غفاری و قہاری کا حامل ہے۔ اس کی توجیہہ کسی حد تک خود جوش کے افغانی نسلی امتیازات اور اس لکھنوی معاشرت سے کی جا سکتی ہے جس میں ان کی پرورش ہوئی ہے۔ ‘‘(5)
جوش نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’روحِ ادب‘(1921)کے دیباچے میں اپنے ’’مزاج کی بنیادی سختی‘‘ اور ’’لہجے کی درشتی‘‘ کا ذکر کیا ہے جس سے ان کے باغیانہ تیور کا پتا چلتا ہے۔ یہی باغیانہ تیور آگے چل کر انقلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے، لیکن مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ ’’جوش انقلابی نہیں، باغی ہیں ‘‘، کیوں کہ انھوں نے پہلے اپنے خاندان سے بغاوت کی، پھر حکومت اور سماج سے بغاوت کی، پھر خدا سے بغاوت کر بیٹھے۔ (6) جوش انقلابی رہے ہوں یا باغی، ان کی قومی اور وطنی شاعری سے انکار نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ بہ قولِ مسعود حسین خاں جوش نے اپنی قومی شاعری میں ’’تحریکِ آزادی کی شد و مد کے ساتھ ہم نوائی کی‘‘، نیز وہ تحریکِ آزادی کے ’’نقیب‘‘ بھی رہے ہیں۔ (7)
جوش کی جمالیاتی شاعری (جسے ’شبنمی شاعری‘ بھی کہتے ہیں ) کا محور غزل ہے، اور ان کے تغزل کے بنیادی عناصر ’’شبابیات اور خمریات‘‘ سے مرکب ہیں جسے انھوں نے ’’جدید رنگِ تغزل‘‘ سے تعبیر کیا ہے:
دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے
اسلوبِ سخن نیا نکالا ہم نے
لیکن مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ ’’غزل کے بارے میں جوش کا یہ دعویٰ صحیح نہیں، محض تعلّی ہے۔ ‘‘ جوش کی غزل گوئی کے بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں :
’’وہ [جوش]خود کو نہ تو غزل کی ہمہ گیر روایات سے بچا سکے اور نہ غزل میں کسی اسلوب کے بانی ہیں۔ ان کی رندی اور سرمستی میں وہ والہانہ کیفیت نہیں جو جگر کے یہاں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک رئیس زادے کی رندی اور سرمستی ہے جس میں مستی کم اور بدمستی زیادہ ہے۔ ‘‘(8)
مسعود حسین خاں کے خیال میں جوش ’’اچھی غزل‘‘ نہ لکھ سکے، اور جو غزلیں انھوں نے لکھیں ان میں ’’ان کا اپنا لہجہ نہیں ملتا‘‘:
’’نظموں کی طرح جوش کی غزلوں میں ان کا اپنا لہجہ نہیں ملتا۔ وہ لہجہ جو میر، غالب، حسرت، فانی اور اصغر کی شاعرانہ شخصیتوں کی پہچان کراتا ہے۔ جوش کے اچھی غزل نہ لکھنے کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ وہ لکھنؤ کے لالہ زاروں میں پلے تھے۔ غزل کے لیے جس قدر سپردگی، رقت اور خود میں ڈوب جانے کی ضرورت ہے وہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ کاوش سے غزل نہیں بنتی، لیکن کاوش لکھنوی شعرا کی طرح جوش کے مزاج کا بھی خمیر معلوم ہوتی ہے۔ غزل میرے خیال میں اترتی بھی نہیں ہے، یہ پھوٹتی ہے اور پھوٹنے کے لیے جوش کا دل سطح در سطح نہیں۔ وہ پہلی بات پھر یاد رکھیے کہ جوش کے مزاج میں ایک بنیادی سختی ہے۔ وہ ایک چٹان ہیں، جس سے سوتے نہیں پھوٹ سکتے!‘‘(9)
مسعود حسین خاں کو جوش کی غزلیں ’’حد درجہ پھیکی ‘‘معلوم ہوتی ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جوش کی غزلیں ’’فکر و تخیل کے افلاس‘‘ کی غمازی کرتی ہیں۔ موضوع کی یکسانیت اور قندِ پارسی کی زیادتی کی وجہ سے ہی جوش کی بیشتر غزلیں حد درجہ پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ جوش فارسی کی ترشی ترشائی ترکیبوں پر اکتفا کرتے ہیں، مثلاً حسنِ مجاز، محرمِ سوز و گداز، شمیم عنبر افشاں، غارت گرِ ایماں، گلشن بکف، خلد بداماں، کاکلِ پیچاں، گل بیز، گل افشاں، گوہر بار، وغیرہ۔ اس قسم کی تراکیب سے نہ تو رس ٹپکتا ہے اور نہ رنگ، بلکہ اکثر اوقات گہرے اور سچے جذبات ان خوش نما اور خوش رنگ ترکیبوں کے ڈھیر میں تربت بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادب میں اسلوب کا یہ انداز فکر و تخیل کے افلاس کا غماز ہوتا ہے۔ (10)
جوش کے ذہنی سفر میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جب وہ ’فطرت‘ (Nature)سے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ مسعود حسین خاں اسے ’’گریز‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو ’’انھیں دامنِ فطرت میں کھینچ کر لے جاتا ہے۔ ‘‘ جوش نے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے:
چھوڑ کر انسان کو فطرت کا شیدا ہو گیا
خوبیِ قسمت کہ فوراً ربط پیدا ہو گیا
جوش نے اس زمانے میں بہت خوب صورت نظمیں لکھیں جن میں منظر نگاری کے دل کش مرقعے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسعود حسین خاں نے اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ’’جوش کی فطرت پرستی کا اصل پس منظر میرانیس کی منظر نگاری ہے۔ ‘‘ اس کے با وصف انھیں جوش کو فطرت کا اچھا شاعر تسلیم کرنے میں تامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’جس طرح جوش انقلاب کے صحیح مفہوم سے ہمیشہ نا آشنا رہے اسی طرح نبضِ فطرت کو بھی دل کی دھڑکنوں سے ہربار ہم آہنگ نہ کر سکے… مشاہدہ کی باریکی اور تشبیہ و استعارہ کی ندرت کی وجہ سے وہ منظر نگار تو بن گئے، پیغمبرِ فطرت نہ بن سکے۔ یہ ان کی عام ذہنی سطح کے مطابق بھی ہے۔ وہ شاعری کے کوہسار پر کسی بھی رُخ سے یلغار کریں ایک خاص بلندی سے اوپر نہیں جا سکتے۔ ‘‘(11)
جوش کی شاعری کے بارے میں مسعود حسین خاں نے جہاں سخت تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے وہیں ان کے کلام کی قدر و قیمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ جوش پر اپنے متذکرہ مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید شعرا میں جوش کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے ہر دورِ شاعری میں مختلف ادبی تحریکات کا سنگم رہے ہیں۔ وہ رومانی اور قومی شاعری کے درمیان بہ طور ایک کڑی آتے ہیں۔ قومی اور عہدِ جدید کی اشتراکی شاعری کا نقطۂ اتصال بھی ان کی شاعری میں ملتا ہے، لیکن کسی جگہ بھی انھوں نے اپنا باغیانہ آہنگ نہیں کھویاہے۔ وہ جدید اردو شاعری کے ایک وسیع میدان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ‘‘ مسعود حسین خاں نے جوش کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’وہ منزل بہ منزل آگے بڑھتے رہے، ہر دور میں دوسروں سے آگے رہے، اپنے کو منواتے رہے۔ ‘‘ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’پچھلی نسل میں اقبال کو چھوڑ کر جوش ہی واحد شاعر ہیں جن کا ذہنی ارتقا مسلسل ہوتا رہا ہے…یہی جوش کی عظمت کا راز ہے۔ ‘‘
اصغر گونڈوی(1884-1936)کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مسعود حسین خاں نے اپنے مضمون ’’اصغر گونڈوی‘‘(12) میں ان کی شاعری کو ’’نیم صوفیانہ شاعری‘‘ کہا ہے۔ اسی مضمون میں ایک جگہ انھوں نے اصغر کی شاعری کو ’’ماورائی شاعری‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میں نے اصغر کی شاعری کو ماورائی بالقصد کہا ہے۔ صوفیانہ شاعری ہو کہ عشقیہ، اصغر کہیں بھی واردات میں مبتلا نظر نہیں آتے۔ ایک فاصلہ ہے جو ان کے اور واردات کے درمیان ضرور نظر آئے گا۔ اسی فاصلے کی وجہ سے ان کے کلام میں کمال درجہ کی شگفتگی آ گئی ہے۔ یہ شگفتگی براہِ راست اس بے لاگی سے پیدا ہوتی ہے جو شاعر اور اس کی واردات کے مابین ہے … بیسویں صدی کے غزل گو شعرا کو لے لیجئے۔ حسرت مبتلائے واردات ہیں، فانی کشتۂ واردات، جگر اس سے مخمور ہیں، لیکن اصغر محض چٹخارے لیتے ہیں اور دور کھڑے رہتے ہیں۔ ‘‘(13)
اصغر گونڈوی کی شاعری کے موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ’’محدود اور مخصوص دنیا‘‘ ہے۔ اصغر کی غزل کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ’’خلش ہائے روزگار‘‘ کی متحمل نہیں، کیوں کہ اصغر غمِ روزگار کو بھی غم جاناں میں تبدیل کر لیتے ہیں، مثلاً:
مجھ کو نہیں ہے تابِ خلش ہائے روزگار
دل ہے نزاکتِ غمِ لیلیٰ لیے ہوئے
اصغر کی شاعری کو مسعود حسین خاں نے ’’بے افادہ شاعری‘‘(14) کہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری کسی افادی پہلو(Utilitarian Aspect)کو پیشِ نظر رکھ کر کی جاتی ہے؟ اس کا مقصد تو جمالیاتی حظ(Aesthetic Pleasure) بہم پہنچانا ہوتا ہے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ اصغر کی شاعری پر تنقیدی سرمایے کی کمی ہے۔ اصغر پر مسعود حسین خاں کا مضمون بھی محض سات صفحات میں سمٹ کر رہ جاتا ہے، تاہم اصغر اور ان کی شاعری کے تعلق سے انھوں نے بعض گہری باتیں لکھ دی ہیں جن پر مزید تنقید و تحقیق کی ضرورت ہے۔ ذیل میں اصغر پر ان کے متذکرہ مضمون سے ان کی چند تنقیدی آراء پیش کی جاتی ہیں :
’’اصغر ایک غلط زمانے میں پیدا ہوئے۔ جب وہ اپنی نیم صوفیانہ شاعری میں مشغول تھے، زمانہ تیزی سے کروٹیں بدل رہا تھا۔ ‘‘(ص115)
’’اصغر کی شاعری کے اصل مآخذ ہماری سماجی زندگی کے تڑپتے ہوئے مسائل نہیں۔ اس کے سرچشمے اس انفرادیت پسند ذہن سے پھوٹتے ہیں جس کے پس منظر میں ولی، خواجہ میر درد، میر، آتش اور غالب کے افکار تھے۔ ‘‘(ص116)
’’اصغر نے دو عظیم جنگوں کے درمیان شاعری کی ہے۔ اردو ادب کے لیے یہ زمانہ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اس دور میں ہماری شاعری کے قلب و قالب دونوں بدلے ہیں۔ غزل بھی ایک نئے مزے سے آشنا ہوئی، لیکن اصغر کے ماحول، ان کی یک طرفہ علمیت، اور طرفہ طبیعت نے شاعری اور زندگی کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج حائل رکھی۔ ‘‘(ص116)
’’ان کے کلام میں نفسانیت کیا، حسیت تک نہیں ملتی۔ بوسہ و لب ان کے یہاں معدوم ہے۔ صرف رنگِ رخسار کا تذکرہ ملتا ہے۔ ممکن ہے یہ لکھنوی اندازِ شاعری کے خلاف ردِ عمل ہو… اس رجحان کو مزید تقویت اصغر کی صوفیانہ طبیعت سے ملی ہے جو بے حجابی کو بھی حجاب بنا لیتی ہے۔ بہرحال جب غزل میں حسن و عشق کی رسیلی باتوں کو بھی نہ آنے دیا جائے اور غمِ روزگار سے بھی اجتناب کیا جائے تو اس میں عارفانہ انداز کا آ جانا لازمی بات ہے۔ ‘‘(ص118)
’’ان کے یہاں جگر اور حسرت کی بہ نسبت فکر کا عنصر زیادہ ہے۔ وہ فانی سے دور ہوتے ہوئے بھی ان سے قریب ہیں۔ ‘‘(ص118)
’’اصغر نے غزل کی فرہنگ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا، البتہ پرانے نگینوں کے اَن چھوئے پہلوؤں کو اردو غزل میں شاید آخری بار اُجاگر کیا ہے۔ ‘‘(ص119)
مسعود حسین خاں کے مجموعۂ مضامین ’اردوزبان اور ادب‘ میں اقبال (1877 -1938)پر ان کے دو مضامین ملتے ہیں : (1’’اقبال (ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو!)‘‘، اور (2 ’’فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے‘‘۔ اول الذکر مضمون میں انھوں نے فکراِقبال کے تضاد کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس سے اس کی تنقیص مقصود نہیں۔ ان کے خیال کے مطابق فلسفۂ جدید میں تصورِ تضاد محمود ہے، نہ کہ نامحمود۔ ‘‘(15)
اقبال صحیح معنیٰ میں ایک دانش ور تھے۔ ان کا مطالعہ اور علم بہت وسیع تھا۔ انھوں نے نہ صرف مشرقی افکار کا غائر مطالعہ کیا تھا، بلکہ مغربی فکر و فلسفے سے بھی ان کی واقفیت بہت گہری تھی۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے فلسفے سے تصورات کی خوشہ چینی ہی سے اپنی ایک نئی فکر کی تشکیل کی تھی جس کی بنیاد، بہ قولِ مسعود حسین خاں، ’’تعلیماتِ اسلامی‘‘ تھی۔ انھوں نے اقبال کی اس نئی فکر کو ’’مرکب فلسفہ‘‘ کہا ہے جس کی کئی سطحیں ہیں، لیکن ان کے خیال کے مطابق ’’ہر سطح پر اقبال کا اجتہادی نقطۂ نظر قائم ہے۔ ‘‘ ان سطحات پر فکرِ اقبال کے تضادات کو بہ خوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال کے افکار کی پہلی سطح مابعد الطبیعیاتی ہے، دوسری سطح ان کا تصورِ کائنات ہے، تیسری سطح ان کا سماجی فلسفہ ہے اور چوتھی سطح کا تعلق ان کے سیاسی نظریات سے ہے۔ ان تمام سطحات پر اقبال کے فکری تضادات کا تجزیہ مسعود حسین خاں نے بڑی دقتِ نظر کے ساتھ کیا ہے۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں :
’’اقبال کے متضاد افکار کا سرچشمہ ہندی مسلمانوں کی یہی زندگی ہے جو ہندیت اور اسلامیت، مشرقیت اور مغربیت، عجم کے حسنِ طبیعت اور عرب کے سوزِ دروں سے مل کر بنی ہے۔ ہماری تاریخ کے صرف چند موڑوں پر ان عناصر میں اعتدال ملتا ہے۔ اقبال کے افکار اس اعتدال سے عاری ہیں۔ ‘‘(16)
متذکرہ کتاب میں شامل اقبال پر اپنے دوسرے مضمون’’فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے‘‘ میں مسعود حسین خاں نے پہلی جو بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ فلسفۂ اقبال ’’خودی کا فلسفہ‘‘ ہے۔ د وسری بات وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’خودی کا فلسفہ ہونے کی حیثیت سے یہ اثباتِ حیات کا فلسفہ ہے۔ ‘‘ تیسری بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ اقبال نے ’’مغرب‘‘ سے لیا ہے۔ مسعود حسین خاں کہتے ہیں کہ اس فلسفے کو اقبال نے ’’اپنی فطرت کے عین مطابق‘‘ پایا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال نے اسلام میں اس کا ’’جواز‘‘ پایا۔ ان کا یہ بیان بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’اس سے آج کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اقبال اسلام تک ایک دور دراز راستے سے پہنچے ہیں۔ ‘‘(17) مسعود حسین خاں کے متذکرہ مضمون میں بعض فلسفیانہ اصطلاحات کا ذکر با ر بار ملتا ہے، نیز مغربی فلسفیوں کانٹ(1724-1804)، شو پنہار (1788-1860)، نیٹشے (1844-1900)، برگساں (1859-1941)، وغیرہ کا بھی ذکر آتا ہے جس سے یہ مضمون کافی عالمانہ ہو گیا ہے۔
اقبال کے فلسفۂ خودی کا ذکر اقبال پر مسعود حسین خاں کی ایک دوسری کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ (1983)میں بھی ملتا ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے در اصل اقبال کی فکر سے زیادہ ان کے فن پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جتنا تنقیدی سرمایہ ان کی فکر پر جمع ہو گیا ہے، اس کی بہ نسبت ان کے فن پر توجہ کم کی گئی ہے، متذکرہ کتاب کے دو حصے ہیں : (1 اقبال کی نظری شعریات، اور (2 اقبال کی عملی شعریات۔ اقبال کی نظری شعریات کے تین ذیلی حصے کیے گئے ہیں : (الف) اقبال کا تصورِ حسن و فن ’خودی‘ سے پہلے، (ب) اقبال کا تصورِ فن و شعر ’خودی‘ کے بعد، (ج) اقبال کا تصورِ شعر۔ کتاب کے دوسرے حصے اقبال کی عملی شعریات کے بھی تین ذیلی حصے ہیں جن کا ذکر بعد میں آئے گا۔
اقبال کے تصورِ شعر کو مسعود حسین خاں ان کے تصورِ حسن و فن سے ماخوذ بتاتے ہیں، چنانچہ اقبال کے تصورِ شعر کو سمجھنے کے لیے ان کے تصورِ حسن و فن کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ جب اقبال 27-28سال کی عمر (1905)میں یورپ گئے تو وہ ’وجودی‘ تھے۔ مسعود حسین خاں نے خلیفہ عبدالحکیم کے حوالے سے لکھا ہے کہ یورپ کے دورانِ قیام میں بھی اقبال پر ’وحدتِ وجود‘ کا نظریہ طاری تھا۔ (18)اقبال کے تصورِ حسن سے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ خدا یا ہستیِ مطلق کو ’حسنِ مطلق‘ سمجھتے تھے جس کا موجودات کے تمام مدارج اور مظاہر میں بہ فرقِ مراتب ظہور ہوتا ہے۔ صوفیہ کے عقیدے کے مطابق ’حسنِ مطلق‘ ہمہ گیر ہوتا ہے، چنانچہ اقبال کہتے ہیں، ع
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
(’بانگِ درا‘)
’حسنِ مطلق‘ کو اقبال نے ’حسنِ ازل‘ بھی کہا ہے:
حسنِ ازل سے پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے
(’’جگنو‘‘)
’حسنِ مطلق‘ اور اس کی ہمہ گیری سے متعلق اقبال کے خیالات ان کی وجودی فکر کے زمانے کے ہیں جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1905میں کیمبرج پہنچے تھے۔ وہاں سے وہ جرمنی گئے اور 1908میں وطن واپس لوٹے۔ اسی دوران میں ان کی فکر میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی اور وہ وجودی فکر کے دائرے سے نکل کر فلسفۂخودی کے زیرِ اثر آ گئے۔ مسعود حسین خاں کا خیال ہے کہ وجودی فکر سے خودی کے فلسفے تک جو تبدیلی اقبال کے ذہن میں رونما ہوئی اس میں جرمنی کے حیات پرست مفکرین فشٹے (1762-1814)اور نیٹشے (1844-1900)کے افکار کا خاصا دخل ہے۔
مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کا تصورِ فن مکمل طور پر ان کے تصورِ خودی کے تابع ہے۔ ‘‘(19)فلسفۂ خودی کے جمالیاتی مضمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا تعلق ان کے تصورِ فن سے بھی ہے جس میں جلال و جمال کے تصورات کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ مسعود حسین خاں کے خیال کے مطابق اقبال جلال اور جمال دونوں کو حسن کی صفت مانتے ہیں، یا بہ الفاظِ دیگر دونوں حسن کے دو مظاہر ہیں، ایک قوت و جبروت اور قہاری و جباری سے عبارت ہے اور دوسرا لطافت و نزاکت سے۔ (20)اقبال کو مسجدِ قرطبہ میں دونوں کی جھلک نظر آئی:
تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
(’’مسجدِ قرطبہ‘‘)
مسعود حسین خاں کہتے ہیں کہ ’’اس جلال و جمال دونوں کا سرچشمہ ’خودی‘ ہے۔ ‘‘(21) اقبال کے تصورِ خودی اور تصورِ حسن و فن سے بحث کرنے کے بعد انھوں نے اقبال کے تصورِ شعر کا بھی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق اقبال ’’فن برائے زندگی‘‘ کے قائل تھے۔ وہ شعر کو محض الفاظ کی بازی گری نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے ’’وہبی اور ودیعی‘‘ تصور کرتے تھے۔ اقبال کا نظریۂ شعر کسی منطقی فکر کا نتیجہ نہیں، بلکہ ’’مقصدی‘‘ فکر کا زائیدہ تھا۔ ملکۂ شعر کے بارے میں اقبال کا خیال یہ تھا کہ یہ پیہم ریاضت کا طالب ہے۔ مسعود حسین کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’شعر و فن کے مقاصد میں حقیقت پسند ہونے کے باوجود، اقبال کا شعر و فن کا فلسفہ خالص وجدانی ہے۔ ‘‘(22)
اسلوبیاتی تنقید
’اسلوبیات‘(Stylistics)، اطلاقی لسانیات(Applied Linguistics)کی ایک شاخ ہے جس میں ادب کا مطالعہ و تجزیہ لسانیات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسے ’اسلوبیاتی تنقید‘ بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید در اصل لسانیاتی مطالعۂ ادب ہے جس میں لسانیاتی طریقِ کار سے کام لیتے ہوئے لسانیات کی مختلف سطحوں (صوتی، صرفی، نحوی، معنیاتی) پر ادبی فن پا رے کے اسلوبی خصائص (Style-features)کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اسلوبیاتی تجزیے میں نہ تو تاثرات اور ذاتی پسند و ناپسند اور وجدان سے کام لیا جاتا ہے اور نہ اقداری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ خالص معروضی تجزیہ ہوتا ہے جس میں ادبی فن پارے یا متن (Text)کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اسلوبیات کا لسانیات سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ لسانیات سے کماحقہٗ واقفیت کے بغیر اسلوبیاتی تنقید سے انصاف نہیں کیا جا سکتا۔
اسلوبیاتی تنقید مسعودحسین خاں کی علمی دل چسپی کا خاص میدان رہا ہے۔ اسلوبیات سے انھیں دل چسپی اس وقت پیدا ہوئی جب انھوں نے یورپ کی دانش گاہوں میں لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics)کی اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ وہ سب سے پہلے 1950میں لندن پہنچے جہاں انھوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز (لندن یونیورسٹی) کے شعبۂ لسانیات سے منسلک رہ کر لسانیات و صوتیات کی تربیت حاصل کی۔ اگلے سال وہ فرانس گئے اور دو سال بعد 1953میں پیرس یونیورسٹی سے لسانیات میں ڈی.لٹ (D.Lit رعر شا شا … اردو و )کی ڈگری حاصل کی۔ لسانیات میں اعلیٰ تربیت حاصل کرنے کے باعث ہی ان کا ذہن معروضی اور تجزیاتی طرزِ فکر کا حامل بن گیا تھا۔ وہ تخیل اور وجدان کے مقابلے میں مشاہدے اور تجربے کو اہمیت دینے لگے تھے، نیز ادب کے مطالعے میں وہ معروضی، توضیحی، اور تجزیاتی طریقِ کار کو پسند کرنے لگے تھے۔ ’مقالاتِ مسعود‘ (1989)میں وہ ایک جگہ لسانیاتی مطالعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس میں سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبہ و تخیل کی دنیا سے نکل کر انسان تعقلی استدلال اور منطقی فکر کو اپنائے۔ ‘‘ (ص179)
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعود حسین خاں ادب اور لسانیات کو ’’ہم دگر‘‘ دیکھنا چاہتے تھے اور لسانیات سے جو علمی بصیرت حاصل ہوتی ہے اس سے وہ ادب کے مطالعے میں فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے اور زبان ہی کے سائنسی مطالعے کا نام ’لسانیات‘ ہے، لہٰذا ادب کے لسانیاتی مطالعے کا وافر جواز پایا جاتا ہے۔
مسعود حسین خاں مطالعۂ ادب کے داخلی، تاثراتی اور وجدانی انداز کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ ناقدینِ ادب کے بلند بانگ دعووں اور مبالغہ آمیز تعمیمات سے بیزار ہو چکے تھے اور تنقید کے خالص داخلی و سوانحی رنگ کو بے جا تصور کرتے تھے۔ اسی طرح خالص ذوقی اور وجدانی تنقید بھی ان کے لیے کارِ عبث تھی۔ اپنے اس نظریے کا اظہار انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘(1988)میں ایک جگہ یوں کیا ہے:
’’میں ادبی تنقید کی نعرے بازی اور قولِ محال سے بیزار تھا ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، مقدس وید اور دیوانِ غالب‘‘، ’’غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔ ‘‘ جن فقروں پر لوگ سر دُھنتے تھے، میری سمجھ میں ان کا مفہوم نہیں آتا تھا۔ میں زیادہ سے زیادہ انھیں انشا پردازی کہہ سکتا ہوں، ادبی تنقید ہرگز نہیں۔ ان سے مجھے لطف مل سکتا ہے، بصیرت نہیں ملتی۔ جہاں تک قدماء کے مشاہدات کا تعلق ہے ان میں کچھ جان پاتا تھا، لیکن ہر سطح پر علوم کے حوالے سے ان کی نئی تشریحات کی ضرورت محسوس کرتا۔ بیان و بلاغت کی کتب میں ’حرف‘ کا تصور اس طرح چھایا رہا ہے کہ ’صوت‘ کا کہیں پتا نہیں چلتا، حالاں کہ حرف تو صرف جامہ ہے، زبان کی جان تو صوت ہوتی ہے۔ ‘‘(ص180)
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعود حسین خاں روایتی تنقید کے داخلی اور تاثراتی انداز سے مطمئن نہ تھے اور ایک ایسے تنقیدی رویّے کی تلاش میں تھے جس میں ادب اور لسانیات کا امتزاج پایا جاتا ہو، اور جو معروضی اور تجزیاتی طرز کا حامل ہو، چنانچہ اسلوبیاتی مطالعۂ ادب کی تحریک صحیح معنی میں انھیں اس وقت ملی جب انھوں نے امریکہ کی ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) کے انگریزی اور لسانیات کے استاد آرکی بالڈ اے. ہِل(1902-1992)کے لکچرز میں شرکت کی۔ اس امر کا ذکر مسعود حسین خاں نے ’ورودِ مسعود‘میں ان الفاظ میں کیا ہے:
’’پروفیسر ہل کے لکچروں میں، جن میں مَیں پابندی سے حاضری دیتا تھا، وہی پایا جس کی مجھے تلاش تھی، یعنی لسانیات اور ادب کو کس طرح ہمدگر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘(ص179-80)
مسعود حسین خاں کو مشہور امریکی ماہرِ سماجی لسانیات جان جے.گمپرز (1922 -2013)کی تحریک پر 1958میں امریکہ کی ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (Association of South Asian Studies)کی جانب سے ’سینیر فیلوشپ‘ تفویض ہوئی تھی جس کے تحت انھوں نے ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) اور ہارورڈ یونیورسٹی میں قیام کے دوران میں لسانیات اور اسلوبیات میں اعلیٰ تربیت حاصل کی۔ ٹیکسس یونیورسٹی میں انھوں نے مشہور ماہرِ اسلوبیات آر کی بالڈ اے. ہل(Archibald A. Hill)جو انگریزی اور لسانیات کے استاد تھے، کے لکچرز میں شرکت کر کے اسلوبیاتی طریقِ کار کا علم حاصل کیا اور ہارورڈ میں رہ کر وہ ادب پر لسانیات کے اطلاق کے با رے میں غور و خوض کرتے رہے اور اپنے مطالعے کو وسعت دیتے رہے۔ اپنی سینیر فیلوشپ کے اختتام کے بعد وہ جان جے.گمپرز(John J. Gumperz)ہی کی دعوت پر 1959میں برکلے چلے گئے جہاں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں ان کا تقرر وِزِٹنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ایک سال کے لیے ہو گیا۔ وہاں بھی وہ ز بان اور ادب کے رشتوں پر غور کرتے رہے اور اسلوبیات سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ اگلے سال (1960)وہ ہندوستان واپس آ گئے۔
مسعود حسین خاں نے امریکہ سے ہندوستان واپس آنے پر اردو میں اسلوبیاتی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مضامین میں انھوں نے اسلوبیاتی طریقِ کار کو واضح کیا اور مطالعۂ ادب کے لسانیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈا لی، نیز مصنف کے احوال و کوائف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے فن پارے کی مرکزیت کو تسلیم کیا اور لسانیات کی ہر سطح پر اسلوبیاتی تجزیے کے امکانات بیان کیے اور مثالیں پیش کیں۔ ان کے یہ تجزیے معروضی اور توضیحی اہمیت کے حامل ہیں، روایتی ادبی تنقید کی طرح داخلی اور تاثراتی نہیں۔
مسعود حسین خاں نے پہلا اسلوبیاتی مضمون بہ عنوان ’’مطالعۂ شعر (صوتیاتی نقطۂ نظر سے)‘‘ 1962کے آس پاس لکھا اور آخری اسلوبیاتی مضمون بہ عنوان ’’اسلوبیات‘‘ 2002 میں تحریر کیا۔ گویا چالیس سال کے عرصے تک وہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو فروغ دینے کا کام سر انجام دیتے رہے۔ جس وقت انھوں نے اردو میں اسلوبیاتی موضوع پر مضامین کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس وقت نہ تو کوئی اسلوبیات سے واقف تھا اور نہ اسلوبیاتی تنقید سے۔ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو متعارف کرانے کا سہرا صحیح معنی میں مسعود حسین خاں ہی کے سر ہے۔ وہ بلا شبہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزار ہیں۔ انھوں نے اردو میں نہ صرف ایک نئے دبستانِ تنقید کی بنیاد ڈالی، بلکہ ایک پوری نسل کی ذہنی تربیت کا کام بھی انجام دیا، اور اپنے شاگردوں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے ان سے تحریک پاکر اسلوبیاتی موضوعات پر مضامین لکھے اور کتابیں شائع کیں، اور ان کی قائم کردہ علمی روایت کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ممتاز ناقد سلیم اختر لکھتے ہیں :
’’پروفیسر مسعود حسین خاں بنیادی طور پر ماہرِ لسانیات ہیں …مگر انھوں نے محض لسانیات پر تکیہ کرنے کے برعکس ذہنی جستجو کا سفر جاری رکھا جس کا اظہار متنوع سوچ کی حامل تحریروں کی صورت میں ہوا۔ اسلوبیات سے دل چسپی بھی ذہنی جستجو کے اسی عمل کا مظہر ہے، بلکہ بھارت میں تو اسے یونیورسٹی میں تدریسی سطح تک لے آنے کا سہرا بھی ان ہی کے سر بندھا ہے، اور اگر ڈاکٹر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ جیسے شاگردوں کو اسلوبیات کی راہ پر لگا دیا تو گویا ان کی کاوش با ثمر ہوئی۔ ‘‘(23)
مسعود حسین خاں نے بھی اپنے دونوں شاگردوں مغنی تبسم(1931-2012)اور راقم السطور کا ذکر اپنے ایک مضمون میں ان الفاظ میں کیا ہے:
’’صوتیاتی سطح پر تجزیے کے اس انداز کو میرے دو شاگردوں پروفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ نے اپنی تحریروں میں آگے بڑھایا۔ مغنی تبسم کا فانی کی شاعری کا تجزیہ اور ’’غالب کی شاعری بازیچۂ اصوات‘‘ قابلِ ذکر ہیں اور مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ (فیض اور اقبال کی نظمیں ’ تنہائی‘)‘‘ اس قسم کے تجزیے کی اچھی مثالیں ہیں۔ ‘‘(24)
جیسا کہ مذکور ہوا، چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار ز بان ہے، اس لیے ادب کی تخلیق میں زبان جو ر ول یا کردار ادا کرتی ہے اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ زبان کی اسی کارکردگی یا رول کے مطالعے کو لسانیاتی مطالعۂ ادب کہا گیا ہے۔ اسی کا دوسرا نام اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید ہے۔ مسعود حسین خاں اس نظریۂ تنقید کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اس کا اندازہ ان کے درجِ ذیل بیان سے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے:
’’لسانیاتی مطالعۂ شعر، در اصل شعریات کا جدید ہیئتی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ جامع ہے، اس لیے کہ یہ شعری حقیقت کا کلی تصور پیش کرتا ہے اور قدماء کے مشاہدات اور اصطلاحاتِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتا ہے۔ لسانیاتی مطالعۂ شعر صوتیات کی سطح سے ابھرتا ہے اور ارتقائی صوتیات، تشکیلیات، صرف و نحو اور معنیات کی پر پیچ وادیوں سے گذرتا ہوا ’اسلوبیات‘ پر ختم ہو جاتا ہے۔ ‘‘(25)
وہ آگے چل کر اس کے اور بھی اہم نکات بیان کرتے ہیں :
’’لسانیاتی مطالعۂ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات۔ اہمیت در اصل ہوتی ہے اس فن پارے کی جس کی راہ سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘(26)
مسعود حسین خاں نے اسلوبیاتی تنقید کی نہ صرف نظری بنیادیں (Theoretical Foundations)فراہم کی ہیں اور اس کی مبادیات سے روشناس کرایا ہے، بلکہ اردو شعر و ادب کے حوالے سے اسلوبیاتی تجزیے بھی پیش کیے ہیں۔ جہاں تک کہ اسلوبیاتی تنقید کے نظری مباحث کا تعلق ہے، ان کے ذیل کے مضامین خصوصی اہمیت کے حامل ہیں :
1 ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے۔ ‘‘(27)
2 ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر۔ ‘‘(28)
3 ’’ادب میں اسلوب کی اہمیت۔ ‘‘(29)
4 ’’تخلیقی زبان۔ ‘‘(30)
5 ’’اسلوبیات۔ ‘‘(31)
مسعود حسین خاں نے اسلوبیاتی تنقید کے جو نمونے پیش کیے ہیں ان میں شعر کے صوتی تجزیوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے غالب، اقبال اور فانی بدایونی کے کلام کے صوتی آہنگ کا بڑی باریک بینی کے ساتھ تجزیہ کیا ہے جس سے ان شعرا کے شعری آہنگ کی لسانیاتی بنیادوں کا پتا چلتا ہے اور ان کے کلام کی انفرادیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ شعری تجزیوں سے متعلق مسعود حسین خاں کے قابلِ ذکر مضامین یہ ہیں :
1 ’’کلامِ غالب کے قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ۔ ‘‘(32)
2 ’’کلامِ غالب کے صوتی آہنگ کا ایک پہلو۔ ‘‘(33)
3 ’’اقبال کا صوتی آہنگ۔ ‘‘(34)
4 ’’فانی کا صوتی آہنگ: ایک غزل کا لسانیاتی تجزیہ۔ ‘‘(35)
مسعود حسین خاں نے اسلوبیاتی تنقید کے شعری نمونوں کے علاوہ نثری نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے حسبِ ذیل تین مضامین کا پتا چل سکا ہے:
1 ’’غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت۔ ‘‘(36)
2 ’’خواجہ حسن نظامی: زبان اور اسلوب۔ ‘‘(37)
3 ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش۔ ‘‘(38)
مسعود حسین خاں نے امریکہ سے واپسی کے بعد گذشتہ 40سال (1962 -2002) کے دوران میں بے شمار اسلوبیاتی مضامین لکھے جن میں سے بعد از تلاشِ بسیار صرف متذکرہ بارہ مضامین ہی کا پتا چل سکا ہے۔ ان کے اس نوع کے متعدد مضامین پرانے رسائل میں دبے پڑے ہوسکتے ہیں، جنھیں ڈھونڈ نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں !
اسلوبیاتی تجزیے
جیساکہ مذکور ہوا، مسعود حسین خاں نے اسلوبیات کی نظری بنیادیں (Theoretical Foundations) فراہم کرنے کے علاوہ اسلوبیاتی تجزیے بھی پیش کیے ہیں جن میں غالب، اقبال، فانی بدایونی وغیرہ کے کلام کے تجزیے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے بعض نثری تجزیے بھی کیے ہیں۔ ذیل میں ان تجزیوں کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
مسعود حسین خاں نے اقبال کے کلام اور ان کے فلسفے، نیز فکر و فن کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ ان کی شاعرانہ عظمت کے ہمیشہ قائل رہے ہیں، چنانچہ اقبال پر اپنی کتاب ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983) کے پہلے حصے ’’اقبال کی نظری شعریات‘‘ میں انھوں نے ان کے تصورِ فن و شعر پر، ان کے فلسفۂ خودی کے حوالے سے، تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، لیکن اس کتاب کے دوسرے حصے ’’اقبال کی عملی شعریات‘‘ میں انھوں نے اقبال کی لسانی صلاحیت اور شعور، نیز صوتی آہنگ اور ہیئتی تجربے سے بڑی عالمانہ بحث کی ہے اور ان کی دو نظموں ’’ایک شام (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر)‘‘ اور ’’حقیقتِ حسن‘‘کا صوتی سطح پر اسلوبیاتی تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔
مسعود حسین خاں نے ’’ایک شام‘‘ کے تجزیے سے یہ ثابت کیا ہے کہ شعری پیکر میں ’’صوت و معنی‘‘ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس نظم میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شا م کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ ‘‘(39)ان کے تجزیے کے مطابق اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں چھے بار آیا ہے۔ یہ لفظ پانچ اصوات یعنی صوتیوں (Phonemes)کو ترکیب دینے سے بنا ہے جویہ ہیں :خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس نظم کی کلیدی اصوات ہیں جنھیں غالب اصوات (Dominant Sounds)بھی کہتے ہیں۔ انھیں اصوات کی مدد سے اقبال نے ماحول کی خاموشی اور قدرتی مظاہر و مناظر میں پائے جانے والے سکوت و سکون کی بڑی کامیابی کے سا تھ عکاسی کی ہے۔
مسعود حسین خاں نے اقبال کی جس دوسری نظم کا صوتی تجزیہ پیش کیا ہے وہ ’’حقیقتِ حسن‘‘ ہے۔ ان کے قول کے مطابق اقبال نے اس نظم میں ’’اردو اصوات کے وہ تانے بانے بن دیے ہیں کہ خیال اور حسنِ صوت ایک ہو گئے ہیں۔ ‘‘ انھوں نے اس نظم کے کلیدی لفظ کا تعین ’’حسن‘‘ کیا ہے اور کلیدی اصوات ح+س+ن اور پیش بر ’ح‘ بتائی ہیں۔ ان کے خیال میں اس نظم کا لہجہ ’’حزنیہ‘‘ ہے جس کی عکاسی ؍ن؍ کی 21بار تکرار سے ہوتی ہے۔ ؍ن؍ کی الم انگیز صوتی کیفیت کو نظم کی دوسری انفی آواز ؍م؍ اور غنیّت (Nasalization)کی تائید حاصل ہے جو تکرار کے ساتھ اس نظم میں موجود ہیں۔
اقبال کے لسانی شعور اور صوتی آہنگ کا محاکمہ کرتے ہوئے مسعود حسین خاں ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983) میں لکھتے ہیں :
’’اقبال نہ لفظ پرست شاعر ہیں اور نہ ’صوت پرست‘۔ ان کی شاعری کے بہترین حصوں میں لسانیات کی پانچوں سطحات صوتیات، صوتیہ یات، تشکیلیات (صرف)، نحو اور معنیات مکمل طور پر برآمد ہوتی ہیں۔ اس طرح کہ صوت لفظ کا ساتھ دیتی ہے اور لفظ صرف و نحو کا، اور سب مل کر معنی و مفہوم کا جو شاعر کا اصل مقصود ہوتا ہے… اقبال ایک محتاط فن کار ہیں۔ انھیں نہ صرف اردو کی تذکیر و تانیث کی فکر رہتی تھی اور نہ صرف اردو محاورے اور روزمرے پر نظر رکھتے تھے، بلکہ اردو فارسی شاعری کے وسیع مطالعے اور اپنے ذوقِ موسیقی کی بدولت الفاظ کی صوتی قدرو قیمت کا پورا احساس تھا، اور وہ جہاں چاہتے تھے اس کو کمال کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ ‘‘(ص79)
مسعود حسین خاں نے اپنے ایک مضمون(40) میں اردو کلامِ غالب کے قافیوں اور ردیفوں کے صوتی آہنگ کا دل چسپ اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس مطالعے کے لیے انھوں نے جو مواد لیا ہے وہ متداول دیوانِ غالب کی معروف اور منتخب غزلیں ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں ’’صوتی نقطۂ نظر سے سب سے اہم اور نازک مقام قافیے اور ردیف کا نقطۂ اتصال ہے، ‘‘ کیوں کہ قافیے اور ردیف کی ’’چولیں بٹھانا‘‘ کوئی آسان کام نہیں۔ (41)
غزل کے حوالے سے قافیے اور ردیف کے سلسلے میں مسعود حسین خاں کے مشاہدات حسبِ ذیل ہیں :
ہر ردیف ہر قافیے سے تال میل نہیں رکھتی۔
قافیے کی چولیں بٹھاتے وقت شاعر کے ذہن کو رد و قبول کی سخت آزمائش سے گذرنا پڑتا ہے۔
قافیے میں تنوع کی گنجائش ملتی ہے۔
ردیف کی شکل مقررہ ہوتی ہے اور اس کی تکرار ضروری ہوتی ہے۔
ردیف ایک لفظ بھی ہوسکتی ہے اور ایک فقرہ بھی۔
ردیف جس قدر طویل ہوتی ہے قافیے سے اس کا ہم آہنگ کرنا اسی قدر مشکل ہوتا ہے۔
ان عمومی باتوں یا عام مشاہدات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ کلامِ غالب کے قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ کے تجزیے کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا طریقِ کار یہ رہا ہے کہ پہلے وہ مواد (Data)اکٹھا کرتے ہیں (جو کلامِ غالب کی شکل میں انھیں دست یاب ہے)، پھر اس کے تمام قافیوں اور ردیفوں کا صوتی سطح پر تجزیہ (Analysis)کرنے کے بعد اعداد و شمار تیار کرتے ہیں، اس کے بعد نتائج (Findings)تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان نتائج سے غالب کے صوتی آہنگ کے طریقِ کار پر روشنی پڑتی ہے۔ ‘‘(42)
مسعود حسین خاں کا یہ طریقِ کار خالص مشاہداتی (Observational)ہے، قیاسی (Speculative)نہیں، اور اس حوالے سے سائنٹفک بھی ہے کہ سائنس کی بنیاد مشاہدے پر قائم ہے، نہ کہ قیاس پر۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر اسلوبیاتی مطالعے یا تجزیے کے لیے مواد یا متن کا ہونا ضروری ہے، یہاں تخیل سے کام نہیں لیا جا سکتا۔
اس تجزیے سے مسعود حسین خاں جو نتائج اخذ کرتے ہیں وہ نہایت دل چسپ ہیں، مثلاً یہ کہ غالب ردیف کی موسیقیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ردیف کی تکرار اور پابندی سے غزل میں شدتِ تاثر اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے جس سے انھوں نے بھرپور کام لیا ہے، اور قافیے اور ر دیف کے درمیان عام طور پر صوتی گرہ کامیابی کے ساتھ لگائی ہے۔ اس کی چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں :
1 مصوتوں (Vowels)کا ردیف کے پہلے جزو کے مقابلے میں قافیوں کے اختتام پر آنا، مثلاً:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی (۱/ک)
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے (ا/ک)
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں (ا/ک)
2 قوافی و ردیف کے صوتی اتصال میں غنّے (Nasalization)کا استعمال، مثلاً:
شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا (اں /ن)
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے (اں /م)
3 ارتعاشی مصمتہ(Tirll)، یعنی /ر/ کا دیگر مصمتوں (Consonants)کے ساتھ اتصال، مثلاً:
حیراں ہوں دل کو پیٹوں کہ روؤں جگر کو میں (ر/ک)
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر (ر/ک)
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی (ر/ک)
4 ایک مصوتے (Vowel)کی گرہ دوسرے مصوتے کے ساتھ نہیں لگتی۔ بہ قولِ مسعود حسین خاں ’’غالب نے اس قسم کی ناکام کوشش صرف چار جگہ کی ہے اور ثقالتِ صوتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ‘‘(43)مثلاً :
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا (ا/آ)
ہم سے کھل جاؤ بہ وقتِ مے پرستی ایک دن (ی/اے)
کوئی دن گر زندگانی اور ہے (ی/او)
مسعود حسین خاں کے نثری تجزیے بھی اسلوبیاتی تجزیے کی بہترین مثالیں ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش‘‘(44) میں نیازکی نثر کے ’اسلوبی خصائص‘ (Style-features)سے مع مثالوں کے تفصیل سے بحث کی ہے۔ یہ خصائص اسلوب کی سطح پر ان کی انفرادیت کے ضامن ہیں۔ مسعود حسین خاں نے نیاز کی نثر کا وصفِ خاص ’’الفاظ میں تخیل کی کشیدہ کاری‘‘ بتایا ہے جس سے ان کا سارا ادب بھرا پڑا ہے۔ تخیل کی کشیدہ کاری کا یہ کام نیاز نے ’’اچھوتی تشبیہات اور استعارات‘‘ کے ذریعے انجام دیا ہے۔ نیاز کے ادبی اسلوب کی جاذبیت کا ذکر کرتے ہوئے مسعود حسین خاں نے بجا طور پر ان کی نثر میں پائے جانے والے ’’وزن‘‘ پر زور دیا ہے جو بہ قول ان کے ’’کچھ مصوتوں اور مصمتوں کے تانے بانے سے بنتا ہے اور کچھ جملوں کے درو بست سے۔ ‘‘نثر کے اس اسلوب کے ڈانڈے جس میں وزن ’’صوتی آرکسٹرا‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے، شعر سے جاملتے ہیں۔ (45)نیاز کا یہ نثر پارہ دیکھیے:
’’راجپوتوں کی لڑکیاں ہیں بلند و بالا، صحیح و توانا، تیوریاں چڑھی ہوئی، گردنیں تنی ہوئی، آنکھوں میں تیر، مانگوں میں عبیر، ابروؤں میں خنجر، بالوں میں عنبر، ہاتھوں میں مہندی، ماتھے پر بندی، اب آپ سے کیا کہوں کیا چیز ہیں۔ ‘‘(46)
نثری اسلوب کے تجزیے سے متعلق مسعود حسین خاں کا ایک اور مضمون ’’خواجہ حسن نظامی: زبان اور اسلوب‘‘(47)ہے۔ مسعود حسین خاں نے خواجہ حسن نظامی کو بعض لحاظ سے ’’دہلی کی زبان‘‘کا سب سے اچھا نمائندہ کہا ہے، لیکن ان کے اسلوب کو ’’خانقہی اسلوب‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے، کیوں کہ انھوں نے دہلی کی زبان میں بے شمار ایسے الفاظ اور تراکیب داخل کیے ہیں جن کا تعلق خانقاہ اور صوفیانہ مسلک سے تھا۔ (48)
بہ قولِ مسعود حسین خاں خواجہ حسن نظامی کے اسلوب میں رنگینی و رعنائیِ خیال کی کمی ہے، لیکن قافیہ اور وزن ان کی نثر کا ایک اہم وصف ہے۔ وہ رعایتِ لفظی سے بھی کام لیتے ہیں جس کی چند مثالیں یہ ہیں :
’’برسات وہ اچھی جس میں بَر ساتھ ہو۔ ‘‘
(’سی پارۂ دل‘، ص10)
اپنا چِت چِتا کی سلگتی آگ میں لگا۔ ‘‘
(’سی پارۂ دل‘، ص148)
خواجہ حسن نظامی کے نثری اسلوب کی ایک خصوصیت مسعود حسین خاں کے خیال میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے عربی و فارسی الفاظ کے علاوہ ہندی اور ہندو مت کے تہذیبی الفاظ بھی برمحل استعمال کیے ہیں جس سے ان کے انفرادی ذہن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے جدت پسند ذہن نے اسلوب میں کئی اختراعات کیے، لیکن ’’دِلّی کی اصل زبان‘‘کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔
مسعود حسین خاں نے فانی بدایونی کی ایک نمائندہ غزل کا بھی صوتیاتی تجزیہ کیا ہے۔ (49)اس غزل کا مطلع یہ ہے:
دَیر میں یا حرم میں گذرے گی
عمر تیرے ہی غم میں گذرے گی
انھوں نے اس تجزیے سے یہ واضح کر دیا ہے کہ شاہکار شعری تخلیقات میں نہ صرف لفظ و معنیٰ ہم آہنگ ہوتے ہیں، بلکہ اس کا سلسلہ اصوات تک پہنچتا ہے جو بالذات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ انھوں نے فانی کی متذکرہ غزل کے تجزیے کے بعد اس کا کلیدی لفظ ’’غم‘‘ بتایا ہے اور کلیدی آواز’’م‘‘ کی نشان دہی کی ہے جو ایک انفی آواز ہے، اور اس غزل میں کثرت سے واقع ہوئی ہے۔ مسعود حسین خاں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کا صوتی تانا بانا غزل کے المیہ موڈ سے ہم آہنگ ہے۔ (50)
٭٭
حواشی
1 مسعود حسین خاں، ’’مصحفی نقاد شاعر‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘ از مسعود حسین خاں
(علی گڑھ :ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1983)، ص102114۔
2 تفصیلات کے لیے دیکھیے ایضاً، ص102105۔
3 ایضاً، ص110111۔
4 ایضاً، ص112۔
5 مسعود حسین خاں، ’’جوش ملیح آبادی‘‘، مشمولہ’ اردو زبان اور ادب‘، ص81۔
6 ایضاً، ص88۔
7 ایضاً، ص 8995۔
8 ایضاً، ص 86۔
9 ایضاً، ص 87۔
10 ایضاً، ص 8687۔
11 ایضاً، ص85۔
12 مسعود حسین خا ں، ’’اصغر گونڈوی‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘، ص11522۔
13 ایضاً، ص11617۔
14 ایضاً، ص 117۔
15 مسعود حسین خاں، ’’اقبال( ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبال تو!)‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘، ص56۔
16 ایضاً، ص68۔
17 مسعود حسین خاں، ’’فلسفۂ اقبال پر تنقیدی اشارے‘‘، مشمولہ ’اردو زبان اور ادب‘، ص6970۔
18 مسعود حسین خاں، ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، 1983)، ص13۔
19 ایضاً، ص36۔
20 ایضاً، ص34۔
21 ایضاً، ص34۔
22 تفصیل کے لیے دیکھیے ایضاً، ص 4346، اور ص60۔
23 سلیم اختر، ’’مسعود حسین خاں بہ حیثیتِ نقاد(’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ کی روشنی میں )‘‘، مشمولہ ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ(علی گڑھ: تعلیمی مرکز، 1989)، ص16465۔
24 مسعود حسین خاں، ’’لسانیاتی اسلویبات اور شعر‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، بابت جون 1991، ص 4۔
25 مسعود حسین خاں، ’’مطالعۂ شعر(صوتیاتی نقطۂ نظر سے)‘‘، مشمولہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ از مسعود حسین خاں (حیدرآباد، 1966)، ص16۔
26 ایضاً، ص18۔
27 مشمولہ ’مقدماتِ شعر و زبان‘ازمسعود حسین خاں (حیدرآباد، 1966)۔
28 مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، بابت جون 1991۔
29 مطبوعہ پندرہ روزہ ’آواز‘(نئی دہلی)، بابت یکم مارچ 1983۔
30 مطبوعہ پندرہ روزہ ’آواز‘ (نئی دہلی)، بابت یکم دسمبر 1986۔
31 مطبوعہ مجلہ ’اطلاقی لسانیات‘ (شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)، شمارہ 12، بابت20022003۔
32 مشمولہ ’اردو میں لسانیاتی تحقیق‘، مرتبہ عبدالستار دلوی (بمبئی: کوکل اینڈ کمپنی، 1971)۔
33 مطبوعہ ماہنامہ ’آج کل‘ (نئی دہلی)، غالب نمبر، بابت فروری 1969۔
34 مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘ از مسعودحسین خاں (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، 1989)۔
35 مشمولہ ’تحفۃ السرور‘، مرتبہ شمس الرحمن فاروقی (نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1985)۔
36 مشمولہ ’غالب: فکر و فن‘ (گورکھپور: شعبۂ اردو، گورکھپور یونیورسٹی، 1970)۔
37 مطبوعہ روزنامہ ’قومی آواز‘(نئی دہلی)، بابت 4مارچ1984۔
38 مطبوعہ رسالہ ’نگارِ پاکستان‘ (کراچی)، بابت فروری1987۔
39 مسعود حسین خاں، ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘(1983)، ص7980۔
40 مسعود حسین خاں، ’’کلامِ غالب کے قوافی و ر دیف کا صوتی آہنگ‘‘، مشمولہ ’اردو میں لسانیاتی تحقیق‘، مرتبہ عبدالستار دلوی(بمبئی: کوکل اینڈ کمپنی، 1971)، ص35461۔
41 ایضاً، ص354۔
42 ایضاً، ص355۔
43 ایضاً، ص35657۔
44 مسعود حسین خاں، ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)۔
45 ایضاً، ص 76۔
46 نیاز فتح پوری، ’مکتوباتِ نیاز‘(حصہ اول)۔
47 مسعود حسین خاں، ’’خواجہ حسن نظامی: زبان اور اسلوب‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997ئ)۔
48 ایضاً، ص 80-81۔
49 مسعود حسین خاں، ’’فانی کی ایک غزل کا صوتیاتی تجزیہ‘‘ مشمولہ ’مقالاتِ مسعود‘ (نئی دہلی: ترقیِ اردو بیورو، 1989)۔
50 ایضاً، ص150۔