کوئی کیسا ہی دعوی کرے، کبھی نہیں دکھا سکتا کہ اہل زبان مقلّد زبان کے کلام یا محاورے کا اتّباع کریگا، اس کے کان، اس کا لب و لہجہ، اس کی زبان کبھی گوارا نہیں کریگی کہ پوربی بھاکا یہ پنجابی آمیز اردو سے سند لے، وہ اپنے شہر کے ناخواندہ بچہ کو زبان کے فیصلہ کے واسطے پسند کرلیگا مگر مقلّد زبان کی بات کو ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کریگا۔ اہل انگلینڈ اہل آئرلینڈ کی زبان کو کیوں اپنی زبان پر ترجیح نہیں دیتے؟ کیا آئرلینڈ میں بڑے بڑے فاضل، بڑے بڑے مصنّف، بڑے بڑے انشا پرداز، ناول نگار موجود نہیں ہیں؟ امریکہ کی زبان انگلش کو اہل انگلستان کیوں مستند نہیں سمجھتے؟ حالانکہ اصلا نسلا ایک ہی جگہ، ایک ہی نسل اور ایک ہی زبان کے بولنے والے ہیں۔
ہم ہر ایک قابل کی قدر کرینگے، اردو کی خدمت، اردو کی دلسوزی کرنے والے کو اپنا دلی دوست، اپنا دلی ہمدرد اور خیر خواہ سمجھیں گے، خواہ وہ کسی ملک، کسی شہر اور کسی مذہب یا فرقہ کا کیوں نہ ہو، مگر قبلہ! یہ نہیں ہوسکتا کہ اسے اہل زبان اپنی زبان کے کسی فیصلہ کا جج سمجھیں، ہاں اگر اس نے دہلی میں جنم لیا ہے، یہاں کی مختلف صحبتیں دیکھی ہیں، شعرا و علما کی خدمت میں رہا ہے، غیر جگہ کے محاورات کو اس نے اپنی زبان پر چڑھا کر اردو میں نہیں ملایا ہے، تو بیشک وہ اہل زبان اور یہاں کی زبان کا قاضی القضات ہے، اس میں اگر کوئی جھنجھانوی درک دے تو ہم کھلے خزانے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناحق کی جھنجھٹ ہے، اور جو کوئی لاہوری اہل زبان بننے کا دعوی کرے تو ہم ان دلیلوں سے آگے دلیلیں مانگیں گے، اور انھیں توڑ توڑ کر انھیں کی زبان میں یہ کہیں گے، لا ہور، لا ہور، یعنی ابھی اور دلیلیں پیش فرمائیے یہ مکتفی نہیں ہیں۔
ہم نے یہ جو کچھ لکھا ہے، حب الوطنی اور واقعی حالت کی مناسبت سے لکھا ہے، جس طرح ہمارے دوست وجاہت نے اپنی وجاہت دکھا کر لاہور میں رہنے کا حق ادا کیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی اپنی تحقیقات اور معلومات کے اظہار سے اپنے شہر کو مرکزی حقدار ثابت کیا ہے، وگرنہ ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، بقول سعدی علیہ الرحمہ :-
ندانی کہ مارا سر جنگ نیست
وگرنہ مجال سخن تنگ نیست
ورنہ یہ مضمون اور اس کی ایک ایک شاخ ایک ایک کتاب سے کم نہ ہوتی، اس کے ماسوا ہمیں اپنے دوست سے کچھ پرخاش بھی نہ تھی، جس طرح انھوں نے اپنی دانست میں نیک نیتی سے کام لیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی انصاف کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے، مبصّران زبان دونوں کے مضامین سامنے رکھ کر آپ فیصلہ کرلیں گے کہ کون غلطی پر ہے اور کون راستی پر، کس نے پھیر کا راستہ اختیار کیا ہے، کس نے سیدھا؟ اور یوں تو:-
کس نگوید کہ دوغ من ترش است : اپنی اپنی دانست میں وہ بھی حق پر ہیں اور ہم بھی۔
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
خیر آپس کی سر پھٹول تو چلی ہی جائیگی، مگر دیگر مخالفان زبان کی نسبت ہم اخیر میں اتنا کہہ دینا اور مناسب جانتے ہیں کہ ہمارے اسلامی بھائی دراصل ہندوستانی شائستہ اور مہذب مادری زبان کو اردو کہتے ہیں، اس سے پیشتر برج بھاکا اس کے بعد ریختہ اور آخر میں اردو کہنے لگے تھے، دہلی کا اردو بازار اب بھی کچھ کھنڈر لئے کھڑا ہے، جس کی بڑی وجہ اس میں مختلف زبانوں کی ایک خوبصورتی، تناسب و خوش اسلوبی کے ساتھ آمیزش ہے اور اسی آمیزش نے اس کا نام اردو ڈال دیا، کیونکہ اردوئے معلّی کہنے کا اب زمانہ نہیں رہا، لفظ معلّے اس کا جانی دشمن اور لفظ شاہجہاں اس کے خون کا پیاسا ہوگیا ہے، اس کے علاوہ یہ زبان باقاعدہ ہے، بالترتیب ہے، عام فہم ہے،سہولت پسند ہے،علم ادب،علم عروض، علم تاریخ وغیرہ کی بلحاظ تصانیف مختلفہ جان ہے، ایک زمانہ میں یہی شاہی زبان تھی، مگر اور قومیں جن کو اہل اسلام اور شاہان اسلام سے تعلیم موجودہ نے نفرت دلا دی ہے، وہ ہماری اس مادری زبان کو اردو لقب سے ملقّب ہونا پسند نہیں کرتیں، اور اسے خاص اسلامی زبان قرار دیتی ہیں جس کا سبب میرے نزدیک صریح ہٹ دھرمی اور نری مذہبی پچ کے سوا دوسرا نہیں ہے، نیز فرقہ آریہ کا یہ ایک ادنی کرشمہ ہے۔ اگر نظر تعمّق سے دیکھا جائے تو جسے اردو کہتے ہیں، اس میں سب سے بڑا حصہ ہندی، پراکرت، پالی اور سنسکرت کے سالم یا بگڑے بگڑائے الفاظ کا ہے، اس کے بعد فارسی کا، فارسی کے بعد عربی، ترکی، یونانی، پرتگالی کا بقدر وسعت اور فی زمانہ انگریزی الفاظ دریائے زخّار کی رو بن کر اس طرح اس کی رگ رگ میں دوڑ رہے ہیں کہ کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی، کوئی دن جاتا ہے کہ اس اردو ک و شاہجہانی ارد و کی بجائے انگلستانی یا کرانی اردو کہیں گے، مگر نہیں جو اس زبان کے اہل ، اس کے جوہری اور نقّاد ہیں وہ کھرے کھوٹے کو پرکھ پرکھ کر لے رہے ہیں، میل کھاتے ہوئے الفاظ کو جوں کا توں اور اکھیڑ کی لیتے ہوئے الفاظ کو ٹھیک بنا کر اپنی زبان میں ملا رہے ہیں، سپٹمبر کو ستمبر، فیبروئری کو فروری، کلکٹر کو کلٹّر، اسٹامپ کو اسٹام، لائن کو لین، آڈرلی کو اردلی، بوٹل کو بوتل، ریکروٹ کو رنکروٹ، رائفل کو رفل، کمانڈر کو کمانیر، لونگ کلوتھ کو لٹھّا، سفر مینا، سیپرز انڈ مائنز کو، ڈمٹی کو گمٹی، لنیٹرن کو لالٹین، ڈیپوٹی کو ڈپٹی، سینٹری کو سنتری، ڈزن کو درجن، ٹون ڈیوٹی کو پون ٹوٹی، سیلج کیرج کو سیج گاڑی کر کے کس خوبصورتی سے اپنی زبان کا مانوس جزو بنا لیا ہے، جو لوگ اردو کے خمیر، اس کی ترتیب اور موزونیت الفاظ سے واقف ہیں وہ اس قسم کا تصرف کئے بغیر نہیں رہتے، سیکریٹری کو جب کہیں گے سکتّر ہی کہینگے، لارڈ کو لاٹھ، لفٹیننٹ کو لفٹنٹ، کرنل کو کرنیل بولیں گے، اب فرمائیے اس میں انگریزی کے تلفّظ نے بگڑ کر اپنی زبان سے کون سی مغائرت کر لی، انگریز بھی حرفگیر نہ ہوئے اور اردو کے اہل زبان بھی گھر کے گھر رہے، ثقیل و غیر مانوس الفاظ کو گھڑ گھڑ کر اپنی زبان کا ہم رشتہ بنایا، جس طرح کوئی بڑھئی کسی بیڈول اور ان گھڑ لکڑی کو چھیل چھال کر سڈول اور موزوں بنا لیتا ہے اسی طرح انھوں نے الفاظ کو تراش خراش کر خوشنما بنا لیا۔
اب اگر جھگڑا ہے تو صرف لفظ اردو کا جھگڑا ہے، لیکن اس کو مذ ہبی پہلو پر لے جانا اور مذ ہبی قیود کا ایک جزو بنا کر اسے مغلوب کرنے یا مٹانے کے درپے ہوجانا، ایسا ہی ہے جیسے کسی درخت پر بیٹھ کر اپنی ہی طرف سے اس کا ٹہنا کاٹنا اور خود گر کر پچھتانا۔
اس زمانہ میں نہ تو پیور ہندی ہی بول چال میں باقی ہے نہ خالص اردو، ہر ایک مرکّب ہوگئی اور ہوتی چلی جائے گی، یہاں تک کہ برج بھاکا، جو ایک رسیلی، ولولہ انگیز، سلیس اور فصیح زبان تھی اب وہ بھی اپنی اصلی حالت پر نہ رہی مگر پھر بھی اس کی آن لبھائے بغیر نہیں رہتی۔
مسلمانوں میں پردہ نشینوں، علم سے بے بہرہ عورتوں میں اور برج میں وہاں کی دہقانی آبادیوں میں خالص زبان کا پتہ چلتا ہے، ورنہ اس زمانے کی مردانہ تصنیف نے عورتوں کی زبان کو بھی کچھ سے کچھ کر دیا، جس سے دن بدن زبان کا لطف اٹھتا اور اصلیت کا معیار گھٹتا چلا جائیگا، مردان ہ زبان میں رسالوں،اخباروں وغیرہ کا لکھا جانا اور عورتوں کے واسطے انھیں مخصوص بنانا خالص زبان کے ساتھ علانیہ دشمنی ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں کو پڑھاؤ لکھاؤ نہیں، مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اپنے الفاظ کا مفہوم سمجھا کر ان سے ان کی زبان کے سے پیارے اور میٹھے الفاظ بنواؤ، انگریزی لیڈیوں کے سے ملائم نرم اور نازک الفاظ ان کی خلقت کے موافق رواج دو اور دلواؤ، تازہ گھڑے ہوئے الفاظ کو منہ نہ لگانے دو، خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا، نکتہ کی بات سنو اور اس پر صاف دل سے عمل کرو، دیکھو زبان کو مذہبی پالا بنانا آئندہ کی ترقی، علمی، کتابی اور درباری زبان سے دیس نکالا دینا ہے، اگر ایک قوم اس کا نام اردو قائم رکھے جو درحقیقت اس کا صحیح لقب ہے اور دوسری قوم اسے ہندوستانی زبان کہے جو دراصل کچھ بیجا نہیں ہے تو بتاؤ کیا نقصان ہے؟ کیونکہ یہ زبان کچھ آج سے نہیں آٹھ نو سو برس سے مخلوط ہو کر گرگٹ کے سے رنگ بدل رہی ہے، سنسکرت اور ہندی بھاکا بلحاظ ماخذ ایک اور باعتبار زبان دو جداگانہ زبانیں ہیں، بقول فاضل سنسکرت میکسمولر ہندی ملک ہندوستان کی ایک زندہ زبان ہے اور سنسکرت یعنی ویدوں اور برہمنو کا لٹریچر ایک دوسری مردہ زبان ہے، گو اس کی اصل وہیں سے ہے جہاں سے سنسکرت نے خروج کیا ہے، آج کل کی اردو کی نسبت سر لائل جیسے محقق زبان کی بھی یہی را ئے ہے کہ " یہ دراصل سولھویں صدی کی ہندی ہے، جس میں حسب ضروت فارسی الفاظ مل گئے ہیں"۔
مسلمانوں نے جس شوق سے ہندی الفاظ کا ذخیرہ اپنی زبان اور اپنی روزمرّہ میں خزانہ سمجھ کر بھرا دوسری قوم خاص کر ہند کی آریہ قوم نے اس کے پاسنگ بھی ان کی زبان کی طرف توجہ نہیں کی اگرچہ سکند ر لودھی کے زمانہ سے فارسی میں سب سے اول کایستھوں نے اپنا قدم رکھا مگر ان کی فارسی بھی ایک خاص طرز اور ہندی لہجہ آمیز فارسی ہوگئی، مسلمانوں میں سب سے اول مقام غزنہ سے ہند میں آکر جس شخص نے ہندی ضخیم دیوان لکھا وہ امیر سعداللہ مسعود تھا، جس کی نسبت محمد عوفی اپنے اس تذکرہ میں جو سنہ 600 ہجری میں لکھا گیا تھا اس طرح سخن سرا ہوتا ہے کہ اس کی تین دیوان ہیں ایک عربی میں ، دوسرا فارسی میں، تیسرا ہندی میں۔ حضرت امیر خسرو اپنی کتاب غرّۃ الکمال میں اس امر کی تصدیق فرماتے اور اس کے تینوں ضخیم دیوانوں کی از حد تعریف کرتے ہیں۔ تقی کاشی کا بیان ہے کہ امیر مسعود غزنہ میں پیدا ہوا، یہ شخص امرا و عمائد غزنوی میں شمار کیا جاتا ہے، جو غزنی کا بخشی اور میر منشی رہا تھا، سنائی اس کی تعریف میں لکھتا ہے :-
اے عمیدے کہ باز عزلی را
صورت و سیرتت گلستاں کرد
حضرت امیر خسرو کے زمانہ میں امیر مسعود کے ہندی شعر مشہور تھے۔ ( ابو ریحان بیرونی کی کتاب الہند جو محمود غزنوی کے وقت میں لکھی گئی، اور اس کی سنسکرت کی لیاقت، علم جوتش، ہندی فلسفہ کی کما حقہ واقفیت دیکھئے جس نے سنہ 430 ہجری میں انتقال فرمایا، کبیر کے موحدانہ بھجن پڑھئیے۔ محمد جائسی کی پدماوت بھاکا کا ملاحظہ فرمائیے۔ امیر خسرو دہلوی کے چوچلے بھری ہندی تصانیف پر نظر ڈالئیے۔ عبدالرحیم خاں خانخاناں، فیضی، فیاضی، عبد الجلیل بلگرامی کی سنسکرت دانی کی داد دیجئے، جعفر زٹلی کی ہندی زٹل، عبد الرحمن دہلوی کی کتاب جمک ستک یعنی ضلع جگت دارا شکوہ کی ہندی و سنسکرت سے واقفیت پر توجہ فرمائیے، شمس العلماء مولوی سید علی بلگرامی سلمہ اللہ تعالی کی سنسکرت پر بلا مبالغہ عشعش کیجئے اور دیکھ لیجئے کہ مسلمانوں کو اس زبان سے خاص انس اور دلچسپی رہی ہے یا نہیں۔ افسوس صد افسوس کہ 3 مئی سنہ 11 ء کو رحلت سے دار مفارقت دے گئے) مقطع کا بند یہ ہے کہ ہندوستانی زبان اور اردو زبان ایک ہی ہے صرف تراش و خراش، اسلوب تربیت و ترکیب اور دلچسپی کا فرق ہے، جس کے سبب ریختہ اور ہندوستانی زبان کہنے کے بجائے اردو زبان کہنا نہایت موزوں ہے جو ہر ایک زبان کے اختلاط کا نتیجہ اور اس کا مزیدار پھل پیش کر رہی ہے، ہاں ضد، ہٹ، تعصب کی دھندلی عینک ان خوبیوں کو کیونکر ٹھنڈے پیٹوں دیکھنے دیگی۔
ہمارے نزدیک جو لوگ اردو زبان سے نفرت کر کے اس کی بول چال، انداز گفتگو، طرز لب و لہجہ کو بگاڑیں گے، وہ اپنی ہنسی آپ اڑائیں گے، غیر ملک کا کوئی فصیح، کوئی بلیغ، کوئی عالم، کوئی فاضل، کوئی مصنّف، کوئی لکچرار اس زبان کی بے ترتیبی، انمیل الفاظ، عجیب ترکیب و غریب انشا پردازی کو دیکھ کر تمسخر کئے بغیر نہ رہیگا۔ رنگروٹی زبان کا خطاب دیکر چلا جائیگا، اس کی انشا پردازی نفرت سے دیکھی جائیگی، اور اس کی خوش بیانی سر تا سر اوچھوں اور جاہلوں کی بولی ثابت ہوگی۔ ادھر پادریوں نے ادھر آریوں نے اردو کو اردو کیا، ہندوستانی زبان بھی نہ رکھا، ان کی تصانیف دل پر بوجھ ڈال کر پڑھی اور لکھی جاتی ہے، نہ وہ کتابی زبان ہے، نہ روزمرّہ کی بول چال، اردو زبان کے علمی، درباری اور مہذب ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ اس کے بالمقابل اگر کوئی اور زبان عام یا ملکی زبان ہے اور وہ ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک اردو کے الفاظ کی آمیزش کے بغیر بولی جاتی ہے تو اس میں کثرت سے تصنیفات بھی ہوگی۔ اور رسالے یا اخبارات بھی بافراط نکلتے ہوں گے، تاریخی ذخیرہ اس میں ہوگا، سفرناموں کا خزانہ اس میں ملیگا، غرض ہر قسم کی کتابوں اور تصانیف سے معمور ہوگی، اور جو اس میں نہ تو ایسا ذخیرہ ہوگا اور نہ عام بولی ہوگی اور نہ کوئی آسانی سے سمجھ سکیگا تو کسی عقلمند کے نزدیک بھی وہ ملکی زبان کا استحقاق نہیں رکھے گی۔
تعجب یہ ہے کہ جو لوگ اردو کو نکّو بناتے اور حقارت کی نظر سے چھی چھی کر کے پرے ہٹ جاتے ہیں وہ بھی اپنی بول چال می ں صرف چن د ہندی یا سنسکرت بے میل الفاظ ملا کر بولنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں، غرض اس بحث سے کچھ ہو یا نہ ہو مگر ہمارے ملک کی زبان کا ستّیاناس غیر قوموں میں جا کر ضرور ہوجائیگا۔ اگر دونوں قومیں مل گئی ہیں اور دل سے ملی ہیں تو اس زبانی جدید امتیاز کو درمیان سے اٹھا دیں۔ اردو اور ہندوستانی زبان کو ایک ہی سمجھیں اور درحقیقت ہیں بھی دونوں ایک ہی مرکّب زبان، آگے اپنی اپنی رائے اور اپنی اپنی سمجھ ۔
اس کے ساتھ ہی دیو ناگری میں لکھنے کا مسئلہ بھی چھڑا ہوا ہے اور حکام وقت کو صحیح تلفظ، زود نویسی، اور درست تحریر کے لئے اس سے بہتر حروف نہیں بتائے جاتے، مگر ہم کہتے ہیں کہ اس میں زود نویسی کہاں سے آئیگی؟ اول تو ہر ایک حرف کی پوری شکل بنانی پڑتی ہے دوسرے اس کا کوئی اختصاری قاعدہ مقرر نہیں ہے، مگر اردو حرفوں میں ابتدا ہی سے شورٹ ہینڈ کا قاعدہ ڈال کر پورے پورے حرفوں کی شکلوں کی بجائے حرفوں کے صرف سروں، شوشوں یا نقطوں سے کام لیا ہے، بلکہ نقطوں کے بغیر بھی نقطوں کا کام نکل جاتا ہے، چنانچہ مشہور ہے کہ عاقلان پیروئی نقطہ نکنند، پس اختصار کے حق میں بھی اردو رسم الخط نہایت موزوں ہے۔ اور اس اختصار کا ہم لوگ چاہیں تو اور اختصار بھی کر سکتے ہیں، لیکن موجودہ ناگری میں یہ بات کیونکر ممکن ہوسکتی ہے۔
اس میں عربی، فارسی کا املا کیونکر درست ہوگا جس میں الف کی بجائے عین، عین کی بجائے الف، صاد کی بجائے سین اور سین کی بجائے صاد، علی ھذا ضاد کی بجائے زے اور زے کی بجائے ضاد کچھ سے کچھ معنی پیدا کر دیتا ہے، اگر یہ کہو کہ ان الفاظ کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی؟ تو ہم اس کو جب تک قانونی کتابوں کا ترجمہ اردو میں موجود ہے، جب تک عدالتوں کی پرانی اور نئی مسلیں ثابت ہیں۔ جب تک صیغۂ مال کے رجسٹروں میں جاگیروں اور زمینوں کے نام ہیں، جب تک یونیورسٹیوں میں اس زبان کا کچھ نہ کچھ رواج ہے، برابر عربی، فارسی، ترکی الفاظ کی ضرورت پڑے گی، مچلکہ ترکی لفظ ہے مگر کس قدر مستعمل ہے، اجارہ عربی لفظ ہے مگر ہندی ٹھمریوں تک میں موجود ہے، مثلا :-
ایسے تم ہی ہو کیا ؟ برج کے اجار دار
موری انگیا کے کر دینے تار تار
چسپاں فارسی لفظ ہے مگر لفظ ثمن چسپاں کرنے کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے۔ علی ھذا عرضی، دعوے، قرقی، طلبانہ، شجرہ بہتیری مثالیں ہیں، ہماری رائے میں اگر تبدیلی بغیر چارہ ہی نہیں اور نستعلیق سے بھی ناگری حروف بڑھ گئے ہیں تو ناگری کی بجائے تو رومن کا جاری ہونا حاکم و محکوم دونوں کے واسطے مفید ہے، رومن ناگری کی نسبت انگریزی حروف میں جلدی بھی لکھی جاتی ہے، اور ایک حد تک تلفظ بھی بہت صحیح ادا ہوتا ہے، بعض علامتیں جو مقرر ہوگئی ہیں ان پر خیال رکھنا کافی ہے، لیکن ہمار تجربہ زور کے ساتھ یہی کہتا ہے اور یہی دکھا دیگا کہ حکام کو سب سے زیادہ وقت ناگری کاروائی میں صرف کرنا پڑے گا، اور گزشتہ سارا انتظام درہم برہم ہو کر بہت کچھ رعایا سے واویلا مچوائیگا، اردو اور ہندوستانی زبان کو فارسی کے نستعلیق خط کے ساتھ ایک خاص مناسبت اور موزونیت ہوگئی ہے، شکستہ لکھنے والوں اور کچّے عدالتی محرّروں نے بیشک اس میں دقتیں پیدا کردی ہیں تاوقتیکہ عدالتوں میں، اسکولوں میں خوشخطی لازم نہ گردانی جائے گی یہی دقتیں پیش آتی رہیں گی۔ جس قدر ہماری زبان کی تصانیف اور اخبارات یا رسائل ہیں وہ نستعلیق میں لکھے جاتے اور آسانی سے پڑھے جاتے ہیں، نہ تلفظ میں غلطی ہوتی ہے نہ ان کے قیام وردانی کے جملوں میں ندا، ٹھیراؤ یا رہاؤ وغیرہ کی ساری صورتیں بنی رہتی ہیں، اگر یہ زبان دوسرے خط میں لکھی گئی، تصانیف کی صحیح قرات ناممکن اور بے لطف ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ سچّے دلی اثر کو اس ناقص ادائے تلفظ سے بالکل بے بہرہ کر دے گی۔ فقط
سید احمد دہلوی 12 فروری سنہ 1911 ء