وجاہت آج نوبت اٹھ گئی اڈورڈ ہفتم کی
بجی ہے دھوم سے دنیا میں طوطی جارج پنجم کی
اب میں آپ کے باقی امور کی طرف لگتے ہاتھ چند حق حق باتوں کو تسلیم کر کے اور قابل اعتراض امور کا مختصر جواب دے کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں، ورنہ یہ بحث اس قدر طویل ہے کہ برسوں میں بھی ختم نہ ہو اور ایک اصطلاح یا محاورہ ورق کے ورق سیاہ کرا دے۔
زبان کی صرف اتنی تعریف جامع نہیں کہ " زبان اس طرز و انداز گفتگو کا نام ہے جس سے ایک دوسرے پر خیالات کا اظہار کیا جائے۔" بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ زبان ان الفاظ و کلمات کا نام ہے جن سے اپنا مفہوم دوسروں پر حسب موقع انداز گفتگو کے ساتھ ظاہر کیا جائے، کیونکہ صرف طرز و انداز گفتگو کا نام زبان نہیں ہے، بلکہ موقع بھی شرط ہے، زمانۂ حال کے ایک نامی لاہوری اردو اخبار میں ہماری نظر سے گزرا کہ نیولا چالاکی سے سانپ پکڑتا ہے، یہ دراصل انگریزی سے ترجمہ ہوا تھا، لیکن مترجم کو اس موقع اور محل کا لفظ معلوم نہ تھا اس نے چالاکی ترجمہ کر دیا حالانکہ وہ پھرتی کا موقع تھا۔ گو چالاکی از روئے معنی اس کا مترادف ہے مگر اس جگہ محاورے کے برخلاف ہے جس سے نیولے کی صحیح تعریف ادا نہ ہوئی، علی ھ ذا ایک دفعہ یہ فقرہ نظر سے گزرا " فی الحال مسمانوں کو اردو زبان کی تحصیل پر چل پڑنا چاہئیے"۔ اہل دہلی جھک پڑنا بولتے۔
ایک حال کی تالیفات کیا قدامت سے پرانے اور نئے الفاظ میں تغیّر و تبدّل ہوتا آیا ہے، مگر لہجہ نہیں بدلا، آپ کا یہ فرمانا آپ کے نزدیک ٹھیک ہوگا کہ " لکھنؤ اور دہلی نے پچاس سال میں کچھ بھی لٹریری ماسٹر تیار نہیں کئے"۔ اگر حضرت شرر غدر سے پیشتر کی پیدائش نہیں ہیں اور غالبا نہ ہونگے کیونکہ ان کے چہرۂ مبارک سے اتنی بڑی عمر نہیں پائی جاتی تو یہ کس پچاس سال میں شمار ہوں گے۔ علی ھذا سید سجاد حسین صاحب اڈیٹر اودھ پنج وغیرہ۔ رہی دلّی اس غریب پر اگرچہ غدر کے طفیل یہ آفت آئی کہ اوّل تو یہاں کے نامی علماء و فضلاء کا صفایا ہوا اور اگر کچھ رہے تو انھیں عدم اطمینان اور فکر معاش نے تنگ کیا، سب سے ب ڑا غضب یہ ہوا کہ دہلی کالج جہاں سے بڑے بڑے لائق لٹریری مین تیار ہو کر نکلتے، صرف بارہ برس دہلی کی ہوا کھا کر لاہور سدھارا، اگر مسلمانوں کو اس زمانہ میں بھی انگریزی سے رغبت ہوتی تو دس بارہ برس کے عرصے ہی میں بہت کـچھ کر دکھاتے، اس کے علاوہ قلعہ کے اجڑنے سے ان کو پیٹ کی پڑ گئی، لٹریری مین کیونکر بنتے، جب کسی کام پر کمر باندھ کر اٹھے اگر ایک وقت کی روٹی بھی بے فکری سے مل گئی تو ان کی غفلت، ان کی سستی، ان کی کا ہلی نے یہی کہا (لیٹ رہو مین) جب خدا دے کھلانے کو تو بلائے جائے کمانے کو :-
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
مگر اس پر بھی لٹریری مینوں کی کمی نہ ہوئی، اوّل ہمارے ہندو ہم وطن بھائیوں کو دیکھو کہ انھوں نے اس تھوڑے سے وقت میں بھی اپنا کیسا جوہر دکھایا۔ دیوان سری رام صاحب ایم۔ اے علم تاریخ کے کیسے ماہر نکلے، لیکن ریاست الور کی مدار المہامی نے تصنیف و تالیف کی مہلت نہ دی، آنریبل رائے بہادر لالہ مدن گوپال صاحب ایم۔ اے بیرسٹر ایٹ لا، کس پائے کے لائق ہوئے کہ اردو میں صرف علم منطق پر ہی نہایت عمدہ رسالہ نہیں لکھا بلکہ قانونی کتابوں کے ترجمہ کے علاوہ میونسپل ایکٹ، کورٹ ایکٹ، ایکٹ مزارعان پنجاب، ایکٹ لگان پنجاب، لوز ایکٹ پنجاب وغیرہ تک بنا کر تیّار کر دیئے، اور اپنی روشن دماغی اس قدر ثابت کی کہ سب سے پہلے وہی آنریبل ہوئے، وائسرائے کی کونسل میں داخل ہونے والے تھے کہ اکیاون برس کی عمر میں چل بسے۔ لالہ سریرام صاحب ایم۔ اے، خلف الرشید آنریبل لالہ مدن گوپال صاحب مدوّن تذکرۂ ہزار داستان یعنی خمخانۂ جاوید جنھوں نے اساتذہ کے تا پید دیوان بہم پہنچا کر شائع فرمائے۔ کمال دہلی رسالہ نکلوایا ایک اعلی درجہ کے لٹریری مین ہیں۔ رائے بہادر ماسٹر ساگر چند جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کے ماہر کامل اور سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے فیض رساں رکن اعظم ہیں۔ رائے حکم چند صاحب ایم۔ اے کا حیرت افزا ذکر سنیں تو آپ یونہیں رہ جائیں جس زمانہ یعنی سنہ 69 ء میں انھوں نے ایم اے کا امتحان دیا تھا تو اس وقت شمالی ہند میں متعدد کالج تھے، دہلی کالج جسے ابھی چھ سات برس ہی جنم لئے ہوئے گزرے تھے اسی کالج سے رائے صاحب نے ایم اے کا متحان دیا اور تمام یونیورسٹی میں سب سے اول رہے، خیر لکھنؤ اور دہلی کو جانے دیجئے مگر کلکتہ کے پریسیڈنٹی کالج سے بازی لے جانا کارے دارد۔ کیونکہ بنگالی ماشاءاللہ علمی ترقی میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، انگریزی ان کی مدر ٹنگ بن گئی ہے۔ دماغ یورپ کے عالی دماغوں سے ٹکّر کھانے لگا ہے۔
اس کے بعد آپ نے ملازمت اختیار کی سنہ 73ء کے بنگال اور اڑیسہ کے قحط میں وہ لیاقت دکھائی کہ سنہ 77ء کے دربار قیصری کے موقع پر وایسرائے ہند نے اپنے دست مبارک سے در طلائی تمغے مرحمت فرمائے۔ اگر یہ جوڈیشنل سروس پنجاب سے 82ء میں استعفا نہ دیتے تو چيف کورٹ کی ججی کے واسطے بھی رپورٹ ہو گئی تھی، اب قانونی لیاقت کی طرف توجہ فرمائیے، تعزیرات ہند کی اردو شرح، ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری کی اردو شرح ایسی مقبول عام لکھی کہ انھیں ایک مطبع کر کے ماہواری قانونی رسالہ نکالنا پڑا۔ اس کے علاوہ لا آف کنسینٹ (Law of consent) کا نہایت عمدہ اور سب سے پہلا ترجمہ کیا، جس نے دقیق سے دقیق قانونی اصطلاحوں، ادق مضامین کو اردو میں نہایت آسان اور پانی کر کے دکھا دیا۔
اس کے بعد جب آپ حیدرآباد دکن تشریف لے گئے اور لیجس لیٹو کونسل کے سکریٹری مقرر ہوئے، تو وہاں بسر پرستئ اعلی حضرت بندگان عالی متعالی(Ris Pidicete) یعنی دفعہ تیرہ ضابطہ دیوانی کی شرح ہزار صفحوں پر ایسی مبسوط اور مدلل لکھی کہ امریکہ، فرانس اور انگلستان کے نامور مقننوں نے ان کی عالمگیر واقفیت و معلومات کی صرف داد ہی نہیں دی بلکہ ان کے مشرقی دماغ پر حیرت ظاہر کی۔
اگر ہندوستان کی کسی دوسری جگہ کا آدمی ایسا لائق ہوا ہو تو ہمیں دکھا دو، لیکن ان کو بھی بد نظروں کی نظر کھا گئی، سائم صاحب بہادر کو اپنے ان شاگردوں پر ناز تھا اور دہلی والوں کی روشن دماغی کی نظیر میں ان کے نام پیش کیا کرتے تھے۔ لالہ سورج نرائن متخلّص بہ مہر نے سر رشتۂ تعلیم پنجاب میں علمی کتابوں کی تصنیف سے جو کچھ مدد دی وہ اب تک پڑھائی میں داخل ہیں اور کلام مہر ان کی انوکھی شاعری کا اعلی نمونہ۔
لیٹنر صاحب کی دشمنی بھی ان کا کچھ نہ کر سکی، البتّہ شاہجہاں آباد ک ا پہلا سا علمی عزّ و شرف صرف انگریزی کی طرف توجہ نہ کرنے اور یہاں موجودہ سلطنت کا دارالصدر یا دار الحکومت نہ ہونے سے جاتا رہا، بلکہ ایک وجہ یہ بھی ہے اہل حرفہ، دستکاری پیشہ لوگوں نے تو پیٹ بھر لینے کو کافی سمجھا اور جو کھاتے پیتے تھے انھوں نے اپنا آبائی علم و ہنر چھوڑ کر یا تو دوسری طرف توجہ نہ کی یا بساط سے زیادہ مدارس کے اخراجات کی برداشت نہ کر سکے، قوت لا یموت پر مٹے رہے، لیکن پھر بھی اصحاب ذیل اس وقت اپنا جوہر طبیعت ایسا دکھا رہے ہیں کہ آپ کو ان کا نام سن کر اپنی ناواقفیت پر آپ افسوس آئے گا۔
خان بہادر میر ناصر علی صاحب مالک صلائے عام۔ مضمون آفرینی، مضمون نگاری، متانت، بلاغت، ظرافت میں کیسے شہرہ آفاق ہیں۔ شیخ محمد عنایت اللہ صاحب بی – اے خلف منشی ذکاء اللہ مرحوم مصنّف تذکرۂ ابو ریحان بیرونی و مترجم مضامین اشاعت الاسلام مصنّفہ جناب ٹی ڈبلیو آرنلڈ صاحب اور نیز آپ نے پریچک آف اسلام کا قابل قدر ترجمہ انگریزی سے اردو میں کیا لیکن موجودہ ملازمت نے ان کا سارا وقت لے لیا ہے جس سے یہ مجبور ہیں۔ مولوی احمد حسن صاحب سابق تعلّقدار ریاست نظام، علم عربی کے بڑے ادیب، تفسیر قران کے مفسّر اور ترجمہ مشکوۃ کے نامی مترجم ہیں۔ مولوی سید اشرف حسین صاحب بی اے جنہوں نے میر حسن کی مثنوی کا دیباچہ لکھا اور مخزن پریس میں مع مثنوی طبع ہوا، حافظ سید حسین صاحب عرشی ہمشیرہ زادۂ مولوی نذیر احمد صاحب ایل۔ ایل ڈی جن کے مختلف مضامین نظم و نثر مخزن و عصمت میں ن کلتے رہتے ہیں اور آج کل آپ تذکرۂ خواتین دکن و سلطانہ چاند بی بی تصنیف فرما رہے ہیں۔ مولوی بشیر الدین ا حمد صاحب مصنّف حرز طفلاں و اقبال دلہن وغیرہ۔ مولوی عبد الراشد صاحب الخیری مصنف صبح زندگی، منازل السائرہ، صالحات وغیرہ۔ قاری سرفراز حسین عزمی دہلوی مصنف شاہد رعنا، سعید و سعادت، انگریزی سلکشن آف دی قران۔ ڈاکٹر مشرف الحق صاحب ایم ۔ اے۔ پی۔ایچ۔ ڈی جنھوں نے انگلستان کے کتب خانہ کی لسٹ بڑی قابلیت سے تیّار کی، اور ان کے مضامین مخزن میں نکلے ہیں، مولوی عبد الجبار، مولوی عبد الستار خیری ایم۔ اے امریکہ یونیورسٹی جنھوں نے بیروت میں مسلمانوں کا دارالعلوم قائم کر دیا اور اس کے کورس تیار کئے۔ ماسٹر ذاکر حسین صاحب مصنف اتالیق انگریزی، پاٹ ہسٹری وغیرہ۔ یہ دس پانـچ برس سے ایک اور عظیم الشان تاریخ ملازمت چھوڑ کر لکھ رہے ہیں جو یقین ہے اس سال میں ختم ہوجائے، ان کی اور بھی کئی کتابیں ہیں، جن کا ہمیں اس وقت نام یاد نہیں۔ مولوی انعام الحق و مولوی احتشام الدین جن کے مضامین اور جن کی کوشش سے رسالۂ خاتون نے جنم لیا۔ مولوی احمد علی خاں جن کے دم سے سلسلۂ اتالیق نسواں تیار ہو کر شائع اور مفید مستورات ہوا۔ مولوی نصرت علی مالک نصرت الاخبار۔ شیخ نور الہی مصنف نا خواندہ مہمان و قتل شوہر وغیرہ، ان کے علاوہ منشی درگا پرشاد نادر مصنف کتب متعددہ بھی قابل ذکر ہیں۔ جب یہ لٹریری مین نہیں شمار ہو سکتے تو اور کون سے ہو سکتے ہیں۔
زندہ دلان پنجاب خدا ان کی ہمّت، ان کی اولو العزمی، ان کے استقلال میں برکت دے باوجود عدم فراغبالی اس طرف جھک پڑے اور ایسے جھکے کہ اپنے وطن، اپنی قوم کی ناک کیا لاج رکھ ل ی، ہمیں ان پر فخر کرنا چاہئیے۔ دنیا میں ترقی ایک ہرتی پھرتی چھاؤں ہے، لیکن یہ اب بھی ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مقامی اثر کو کوئی نہیں بدل سکتا، ہر ایک چیز اپنی خاص جگہ میں خوب پھولا پھلا کرتی ہے، اور اصل جوہر وہیں دکھایا کرتی ہے، کشمیر کو زعفران کے ساتھ، باڑے کو چاولوں کے ساتھ، سرولی کو آموں کے ساتھ، سہارنپور کو شکر کے ساتھ، لمبے لمبے بالوں کو بنگالہ کے ساتھ، ناگپور کو رنگتروں کے ساتھ، بمبئی کو کیلوں کے ساتھ، بنگالہ اور دکن کو تاڑی کے ساتھ، انناس اور ناریل کو کلکتہ کے ساتھ، لاہور کو بید مشک کے ساتھ، میسور کو صندل کے ساتھ جو مناسبت ہے وہ ہر ایک سر زمین کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ بقول شخصے مانگے کے پردوں سے اڑا نہیں جاتا یعنی آمد اور آورد میں بہت بڑا فرق ہوجاتا ہے، لیکن اس پر بھی زبان اردو میں جس قدر انھوں نے ترقی کی، قابل داد و صاد ہے۔ مگر محاورات کے اختراع کرنے اور مادری زبان کی طرح اس پر قابو پانے سے ابھی کوسوں دور ہیں اور یہ فرق اگر اہل دہلی بھی اجڑ کر وہاں جا بسیں تو لاہور کے خطے کی آب و ہوا اس صورت میں بھی پنجاب کے لب و لہجہ کو چھوڑ کر تا وقتیکہ دہلی میں جنم نہ لیا جائے یہاں کے لب و لہجہ میں شامل نہ ہونے دے، اہل فارس کا لب و لہجہ اہل ہند کہاں سے لا سکتے ہیں، اہل عرب کی طرز گفتگو کیوں کر پیدا کر سکتے ہیں، یوریشین اور یورپین کی زبان میں کیوں فرق ہے، کربٹوں کی انگریزی اور دوغلوں کی انگریزی میں کیوں بل ہے، اٹیلین حرف ٹی کیوں نہیں نکال سکتے، یہ ساری باتیں مقامی اثر سے متعلق ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ جس طرح غیر ممالک کے مصنفوں نے طویل طویل کتابیں دوسری زبانوں میں لکھی، علوم و فنون کے ترجموں سے اپنے ہم وطنوں کو بڑے بڑے فائدے پہنچائے اسی طرح اہل پنجاب پہنچا رہے ہیں۔ البتہ شعر گوئی میں جس طرح اہل لکھنؤ اساتذہ کے کلام سے یا اصلاح سے مدد لے کر خاصے زبانداں بن گئے ہیں، اسی طرح باشندگان لاہور بھی ان سے پیچھے نہیں رہ سکتے، بلکہ لکھنؤ اور دہلی کی مسافت کا فرق ہانکے پکارے یہ کہہ رہا ہے کہ لاہور ضرور ایک دن دہلی کا بچہ بن جائے گا۔ اور اب بھی اس میں اردو زبان کے ایسے لائق اہل سخن پیدا ہونے لگے ہیں کہ انھوں نے حضرت داغ کا پورا پورا تتبع کر کے دکھا دیا ہے، بلکہ مغربی و فلسفی خیالات کی چاشنی نے مضامین کے لحاظ سے شاگردوں کو بھی مغربی استاد بنا دیا ہے، لیکن اس صورت میں بھی ہم لاہور کو مرکز کہنے میں مبادرت نہیں کر سکتے اور اس کا ادنی سا ثبوت یہ دے سکتے ہیں کہ لاہور کا کوئی سا تعلیم یافتہ کوئی سی ٹھیٹ اردو عبارت لکھ کر اسی عبارت کو اہل دہلی سے ملا کر دیکھ لے، ضرور کوئی نہ کوئی بات اہل زبان کے بر خلاف اس میں پائی جائے گی، گو لغوی غلطیوں سے، صرفی غلطیوں سے وہ پاک ہے، مگر آب و گل کے اثر کو نہیں بدل سکتی، یہ کہنا غلط بلکہ محض خوشامد ہے کہ لاہور ٹھیٹ اردو زبان کا مرکز کہے جانے کی قابلیت رکھتا ہے، ہاں ہندوستانی زبان یا اردو مخلوط زبان بولنے ، لکھنے، پڑھنے کی اس میں پوری پوری قابلیت و صلاحیت آگئی ہے، جو روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے اور یہ زبان خاص کر اہل اسلام سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔
البتہ اس بات کا ثبوت ہم کو ابھی تک نہیں ملا کہ داغ مرحوم آپ کے بقول زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ زبان بھی بدلتے چلے گئے، ہمارے نزدیک داغ نے اپنی پہلی ہی زبان قائم رکھ کر یہ عروج پایا، جو معالمہ بندی، جو روزمرّۂ دہلی وہ ابتدا سے لکھتے آئے تھے اسی کو لکھتے چلے گئے اور یہی ان کی قدردانی کا باعث ہوا اگرچہ دہلی مٹ گئی مگر اس کی زبان، اس کے چوچلوں، اس کے محاوروں، اس کے انداز کلام کو نہ مٹایا ، نیچری شاعری کو انھوں نے پسند نہیں کیا، کوئی ناول یا ڈراما انھوں نے نہیں لکھا، کوئی سائنس یا کسی اور علوم جدید کا پہلو انھوں نے اختیار نہیں کیا، پھر وہ کون سے زمانہ کی رفتار تھی جو انھوں نے اختیار کی، وہ تو ہمیشہ اپنے اسی رنگ میں ڈوبے رہے جس رنگ میں انھیں خدا داد ملکہ حاصل تھا، ہمارے وہ دوست تھے، فصیح اللغات میں انھوں نے ہماری فرہنگ آصفیہ سے کچھ مدد لی، جسے مقابلہ کر کے دیکھئے، تقاضا کر کے ہم سے کتابیں منگوائیں، جب ہم حیدرآباد گئے تو ہر بار دعوتیں کھلائيں، اپنے قصیدوں کی داد چاہی اور فرمایا کہ لوگ کہتے تھے کہ داغ قصیدہ نہیں لکھ سکتا، دیکھئے خدا نے یہ مشکل بھی کیسے آسان کی، احکم الحاکمین نے انھیں دہلی کی زبان کا بادشاہ بنایا تھا وہ اصناف سخن پر قادر تھے، گو بعض سخن سنج یہ فرماتے ہیں کہ حضرت داغ رباعی کے وزنوں کی پابندی سے آزاد رہے، مگر ان باتوں کو سخن فہم کی خوب سمجھ سکتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ " بعض موقعوں پر ان کا قدم رفتار زمانہ سے بھی کچھ آگے بڑھ کر پڑا"۔ جس کی نظیر کے واسطے ہمار دل بیتابی کے ساتھ منتظر ہے، داغ کا کلام سو برس کیا جب تک زبان اردو کا نام باقی ہے برابرا قائم و برقرار رہے گا، وہ کون سی بات ہے کہ دہلی کے اور شاعروں نے جس کی طرف توجہ نہیں کی، وہی پرانی ترکیبیں اور دقیانوسی محاورے ہوتے، جن پرانے محاوروں کی سمجھ سے آدمی عاری ہوتا ہے وہاں ایسے جملے زبان سے سرزد ہوا کرتے ہیں، خواجہ حالی کی برکھا رت، سیف الحق ادیب کی برکھا رت، بدر الاسلام شائق کی برکھا رت دیکھئے کس زبان میں ہے، حضرت داغ کی ان رنگوں کی طرف توجہ ہی نہ تھی، ایک دفعہ منشی احسان اللہ مخیّر ان کے استاد بھائی کا ذکر آیا فرمایا کہ ہم کو ان سے کمال محبت ہے اب کہاں ہیں کس رنگ میں ہیں، میں نے کہا کہ رڑکی میں ہیں مگر عاشقانہ شعر گوئی سے توبہ کر لی ہے، فرمایا بس تو اب ہم نے بھی یاری کٹ کر دی، اور سنو ایک دفعہ خواجہ حالی نے حضرت داغ کو لکھا کہ کیونکر گزرتی ہے؟ انھوں نے اس کے جواب میں اپنی دو تازہ غزلیں بھیجیں اور سید وحید الدین صاحب بیخود حاضر الوقت سے یہ سطریں لکھوائیں " کہ بھائی میں تمام دن گھر کی گنڈی لگائے اپنی زبان کی حفاظت کرتا رہتا ہوں"۔ یعنی وہی قدیم انداز، وہی بندش، وہی دائرہ ہے، اس سے باہر نکلنا منظور نہیں، اعتبار نہ آئے تو ان غزلوں کے رنگ کو دیکھ لو، اس بیان سے بھی یہی ظاہر ہے کہ کوئی نیا رنگ اختیار نہیں کیا، جو اشعار مقبول آپ کے کانوں کو مزہ نہ دیں تعجب ہے کہ اصلاح سخن میں انھیں الفاظ سے بھری غزلیں درج ہوتی رہتی ہیں۔ اور وہی پرانا عاشقانہ رنگ پایا جاتا ہے، دہلی اہل کمال کہاں سے پیدا کرے، پیٹ کو ٹکیا نہیں سونے کو کھٹیا نہیں، اطمینان ہو تو سب کچھ کیا جائے، وہی مثل ہو رہی ہے کہ مردے کو بیٹھ کر رویا جاتا ہے اور روٹی کو کھڑے ہو کر، اگر یہ لوگ کچھ اپنے مادّۂ خدا داد سے کر کے بھی دکھائیں تو اپنا قدر دان کہاں سے لائیں، خدا وہ دن کرے کہ کلکتہ کی بجائے دہلی دارالسلطنت ہوجائے یا لاہور کی لفٹنٹی یہاں آجائے تو ہم دکھا دیں کہ یہاں کے اجلی سمجھ والے کیا کچھ کر دکھاتے ہیں او ر اب تو رات دن روٹی کے دھندے میں لگے رہتے ہیں بقول خواجہ میر درد :-
وہ دن کدھر گئے کہ ہمیں بھی فراغ تھا
یعنی کبھو تو اپنا بھی دل تھا دماغ تھا
لیکن اب بھی جو دو چار ٹوٹے پھوٹے دم ہیں، غنیمت ہیں، بلکہ چھوٹی تانتی بھی جودت طبع، رسائی دماغ، بلند پروازئی خیالات میں اپنی آن بان دکھاتی رہتی ہے، اگر روزانہ پیسہ اخبار وغیرہ کا یہاں اسی طرح شوق رہا تو ان کے مطالعہ سے روز بروز علمی مذاق بھی بڑھتا جائیگا۔ اتنا تو ہوگیا ہے کہ جو لوگ بازار سے خرید کر پڑھنے کا مقدور نہیں رکھتے تو وہ دلّی پبلک لائبریری میں ضرور جا کر پڑھ آتے ہیں۔
تجارتی منڈی کے جو دھنی ہیں انھوں نے بھی قومی مدرسے کھول دئیے، جہاں سے تجارتی کاروبار اور ابتدائی تعلیم کی پلٹنیں نکلنی شروع ہوگئی ہیں، کوئی وکالت پر گرا ہے تو کوئی تجارتی مشغلہ پر باقاعدہ ڈھلا ہے۔ مضمون نگاری، انشا پردازی، مدرّسی، ماسٹری میں بھی قدم رکھنے لگے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دہلی کے پنجابی تاجر ہر فن مولا ہوجائیں گے۔ اصلاح قوم، اصلاح رسوم، درستئ اخلاق پر بھی ٹوٹ پڑے ہیں، دہلی کا نام رکھ لینے والے اگر ہیں تو اب یہی اصحاب ہیں، آسودگی نے سخاوت کا ڈنکا بھی انھیں کے نام کا بجوا دیا ہے، مگر بعض بعض سخاوتیں ایسی ہیں کہ وہ لوگوں کو رہا سہا سست، کاہل اور مجہول بنائے دیتی ہے۔ حرفت، پیشہ، مزدوری، ملازمت چھوڑ چھوڑ کر مردوں اور عورتوں نے بھیک مانگنے پر کمر باندھ لی ہے۔ زکوۃ سے، صدقہ سے، فطرہ سے، قربانی سے، مال میّت سے، فاتحہ درود کے لوازمات سے، حج کے نام سے لوگوں کو برابر مدد پہنچ رہی ہے، ہمارے نزدیک یہ سخاوت نہیں اہل اسلام کے ساتھ عین عداوت ہے۔ جن لوگو ں کو گھ ر بیٹھے بلا محنت و مشقّت روٹی ملے وہ کیونکر کوئی ایجاد یا اختراع رفع ضرورت کے واسطے بروئے کار لا سکتے ہیں، کیونکہ ہر ایک ایجاد و اختراع کی رہنما ضرورت ہے۔ جب ما یحتاج کی ضرورت نہ رہی تو کیوں کوئی فن نکالا یا علم ایجاد کیا جائے۔ یونان بھیک کو عیب نہ سمجھنے سے اپنے کاروبار چھوڑ کر ایک مرتبہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، اب ہندوستان کی باری ہے۔
اس میں کیا کلام ہے کہ آگرہ اور اودھ کے بعد پنجاب، دکن اور بہار نے اردو زبان کی بہت کچھ خدمت کی ہے۔ خان بہادر مولوی سید علی محمد صاحب شاد، مولوی فضل حق صاحب آزاد، حکیم سید فہیم الدین صاحب فہیم عظیم آبادی، مولوی حبیب الرحمن صاحب مونگیری، مولوی ابوالعاص صاحب ہوس عظیم آبادی ان سب روشن سیّاروں کے آفتاب مولوی قاری مولانا شاہ سلیمان صاحب پیر زادۂ پھلواری کیسے مقدّس، خوش بیان، خوش تقریر قابل فخر بزرگوار ہیں، مگر میرٹھ بھی کچھ کم نہیں ہے۔
پنجاب کی ترقی کو ہم دل سے مانتے اور سراہتے ہیں، لیکن دکن پر ترجیح نہیں دے سکتے، لٹریری ذخیرہ تیار ہونے میں جس وجہ سے قدرے کمی ہوئی وہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں، مگر اصلاح سخن کے مطلب کی فوج ہمیشہ تیار ہے، یعنی ابھی تک دہلی شعرائے گرامی قدر سے خالی نہیں ہے گو اہل لکھنؤ کی طرح یہاں ذرا ذرا سی بات پر دھوم مچا دینے کی عادت نہیں، لیکن ملکۂ خدا داد، طبع وقار، رسائی طبع، لطافت زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے، بچہ بچہ بلحاظ زبان، ذوق، میر،داغ،غالب، مومن بنا ہوا ہے، ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں۔ یعنی جو ان کا خمیر تھا وہی ان کا خمیر ہے، جس باغ کے وہ گل بوٹے تھے، اسی باغ کے یہ غنچے اور کلیاں ہیں۔ پشت پناہ سخن اردو عالی جناب سید ظہیر الدین حسین صاحب ظہیر دہلوی کا ولولہ انگیز، نزاکت آمیز کلام سنو اور انہیں ملجا و ماوائے سخن بے چوں و چرا نہ مانو تو ہم اپنا کان پکڑیں، سید وحید الدین احمد صاحب بیخود کا کلام سن کر بیخود نہ ہوجاؤ تو ہم ہارے تم جیتے، منشی کرم اللہ خاں صاحب شیدا کے کلام پر فریفتہ ہو کر نہ مر مٹو تو ہمارا ذمّہ، حضرت مولوی عبد الرحیم خاں صاحب طالب کے اشعار سنو تو شاگردی کے طالب ہوجاؤ، نوّاب سراج الدین احمد خاں صاحب سائل کی نغمہ سنجی پر کان لگاؤ تو فقیر بن جاؤ، آغا صاحب شاعر کی بلند پروازی تو انھیں آقائے سخن سمجھنے میں تامّل نہ کرو، علی ھذا القیاس ان سے آگے چلو تو منشی بہاری لال صاحب مشتاق کے پیارے کلام کے ہمیشہ مشتاق رہو، منشی قمرالدین صاحب قمر کے لئے چکور بن کر آسمان کے چکر کاٹتے پھرو، بابو مہاراج بہادر برق کے دھواں دھار اشعار کی برق اندازی پر نظر ڈالو اگر زمین پر لوٹے لوٹے نہ پھرو تو اس سمجھ پر بجلی ٹوٹے، مرزا تقی بیگ صاحب شیدا کے کلام پر شیداؤ والا بنو، منشی سورج نرائن صاحب مہر کی صوفیانہ و موحدانہ جلوہ افروزیوں سے آنکھ لڑاؤ اور چکا چوند سے سورج مکھی نہ بن جاؤ یا ان کے نرائن کی شکتی کو نہ مانو تو ہمیں مات دو، محمد مرزا خاں صاحب عابد کے لئے معبود کی قدرت دیکھ کر سر بسجود نہ ہو جاؤ تو ہمیں عبادت کا منکر سمجھو۔ پنڈت برجموہن دتاریہ صاحب کیفی کے سرور افزا اشعار سن کر مسرور نہ ہو تو ہمارے دعوے کو بے بنیاد ٹھیراؤ، حکیم اسد علی خاں صاحب مضطر کا کلام آپ کو مضطرب و بیقرار نہ پھرائے تو جو کچھ تم سے کہا جائے ہمیں کہہ لو، منشی گوری شنکر صاحب قیصر کے کثیر المعانی اور قیصر التعداد شاعرانہ الفاظ و وفادارانہ مضامین کو دیکھو اور یونہیں نہ رہ جاؤ تو ہمیں قصوروار ٹھیراؤ، نواب سید اکبر مرزا صاحب سید کا کلام سنو اور ساداتی کرشمہ کے معتقد نہ بنو یا انھیں گل شعرا کا سردار با وقار نہ مانو تو بیشک ہمیں قائل کرو، مرزا خورشید عالم بہادر گورگانی خورشید کے اشعار کا کبھی جلال کبھی جمال دیکھو اور آفتاب پرستی پر نہ اترو تو بے شک ہمیں شمّاسی خیال کرو، اسی طرح اگر ضیاء گورگانی کے کلام کی نور افزا اشعاع تار برقی کی طرح رگ رگ میں سرایت کر کے نورانی جلوہ نہ دکھا دے تو ہمیں معدوم العصر جانو، محمد تقی بیگ مائل کے لئے بصدق دل مائل ہو اور آکر ان کا کلام سنو تو قلعی کھلے۔
بے شک یہ لوگ شہرت طلب نہیں ہیں، یہ اپنی شہرت کو تشہیر اور اس قسم کی ناموری کے عین تحقیر سمجھتے ہیں مگر کوئی شائق آجائے ان کا کلام سنے یا سن کر لے جائے تو اس میں دریغ بھی نہیں فرماتے، یہ بھی ایک مرکزی ثبوت ہے۔
یہ بات تامّل طلب ہے کہ " دہلی یا لکھنؤ کے بعض محاورے پرانے ہوگئے ان کو قابل استعمال نہیں سمجھتے"۔ یوں تو ہر ایک زبان غیر مانوس الفاظ کو چھوڑتی اور مانوس کو اختیار کرتی جاتی ہے اور یہی حال دہلی کا بھی قیاس میں آسکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو قابل استعمال نہیں سمجھتے، اگر اہل دہلی ہیں تو یہ بات قابل اعتراض نہیں وہ حکّ و اصلاح کے مجاز ہیں جو کچھ کریں گے اپنی زبان اور رجحان کے موافق کریں گے، اگر باہر والے ہیں جن کی جہالت سے خدا نکالے اور ان کے بے میل، بے جوڑ الفاظ سے پالا نہ ڈالے تو یہ بات قابل تسلیم نہیں۔ اس کے علاوہ بعض کا اطلاق کل یہ کثرت پر نہیں ہوسکتا، جزو کی خاطر کل کو چھوڑنا انصاف کے برخلاف ہے۔
ایک پنجاب کے اخباروں پر کیا موقوف ہے جہاں کے اخباروں میں کوئی بات چھپیگی وہ سب میں مشتہر ہوجائیگی، اگر وہ اخبار کثیر الاشاعت نہیں ہے اور وہ بات اس قابل ہے کہ اس سے عام لوگوں کو باخبر کیا جائے تو کثیر الاشاعت اخبار خود اسے اپنے اخباروں میں جگہ دیں گے اور اگر جگہ نہ دیں گے تو پبلک کے گناہگار ٹھیریں گے، اس میں علمی زبان ہو یا لٹریری، مگر علمی زبان آپ کس کو کہتے ہیں، اگر علم سے غرض فنون، طبیعات، سائنس، ریاضی وغیرہ ہے تو ہر علم کی اصطلاحیں مخصوص ہوا کرتی ہیں، اور وہ اسی علم میں کار آمد ہوتی ہیں جس علم سے متعلق ہیں، نہ کہ خواہ مخواہ ہر ایک موقع پر دخل در معقولات سے کام لیں اور کھینچ تان کر بلا مناسبت ہر ایک جگہ پر لے آئیں۔
رو- آپ جانتے ہیں کہ پانی کے ریلے کو کہتے ہیں، مگر طبیعات یا سائنس کے ترجمہ میں بجلی کی دوڑتی ہوئی قوّت یا شعلہ کو برقی رو لکھّا گیا ہے، تو کیا ضرور ہے کہ ہم یہاں اس رو کو بھی پانی کی رو سمجھیں، یا اپنے سابقہ روز مرّہ کے موافق پانی کے ریلے کی بجائے برقی رو خیال کر لیں۔
مثبت اور منفی دراصل گریمر یا منطقی اصطلاحیں تھیں، لیکن سائنس کے ترجمہ میں بجلی کی تقسیم سے مراد لی ہے (یعنی قائم و مفر بجلی) تو کیا لازم ہے کہ ہم سائنس میں بھی منطق و صرف و نحو کی مجوّزہ اصطلاح سے کام لیں اور وہی بجلی کی اصطلاحی تقسیم برقرار رکھیں، خلاصہ یہ ہے کہ جو اصطلاح جس علم میں بیان ہوئی ہے وہ اسی علم کے متعلق مفہوم ہوگی، نہ کہ دیگر علوم سے بھی ویسا ہی تعلق رکھے گی۔
دائرہ کی تعریف جو اقلیدس میں ہے کیا اس کے لئے ہم چکّر، کنڈل، منڈل، گھیرا، گتّا، گردہ، پیّہ، قرص، چکئی، حلقہ، کنڈلی وغیرہ اقلیدس کی تعریف کے برخلاف ہر ایک جگہ مستعمل کر سکتے ہیں؟ کیا کرہ کے واسطے گولا یا گیند کا لفظ خاص اصطلاح کو چھوڑ کر برتاؤ میں لا سکتے ہیں؟ کیا قوس کی مخصوص تعریف سے گزر کر اسے دھنک، دھنش یا کمان سے تعبیر کر سکتے ہیں، پس علمی زبان اور ہے اور روز مرّہ بول چال یا علم ادب اور کوئی سا علم کیوں نہ ہو اردو زبان میں آسکتا ہے، اس کا میدان وسیع ہے، ہندی کے الفاظ، سنسکرت کے الفاظ، عربی کے الفاظ، فارسی کے الفاظ، گریک یا لٹین کے الفاظ، ترکی کے الفاظ، انگریزی کے الفاظ جون سے چاہو اس میں کھپا سکتے ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ جہاں تک ہندی، فارسی، عربی کے الفاظ مل سکیں انھیں مقدّم سمجھیں اور باقی اصطلاحیں خواہ مرکّب کر کے خواہ مفرد حالت میں قائم رکھی جائیں۔ اردو زبان میں جو ناول، تاریخیں، الجبرا، اقلیدس، مساحت، ریاضی کا ترجمہ ہوا ہے کیا اس کے لئے الفاظ میسر نہیں آئے، اگر نہیں آئے تو یہ اتنے بڑے بڑے ترجمے کہاں سے کئے گئے۔ ہمارے ایک دوست نے صوبۂ بہار کی تعلیمی کتابوں کے واسطے کـچھ ٹھیٹ ہندی الفاظ گھڑے تھے، مثلا ادھ چکّر نصف دائر ہ کے واسطے، پورا چکّر پورے دائرے کے لئے، لیکن پہلے ترجموں میں جو عربی الفاظ مستعمل ہوگئے تھے ان کے آگے یہ سمجھ میں نہیں آئے۔
اسی طرح راجہ شیو پرشاد صاحب نے جو اردو صرف و نحو نام رکھ کر ٹھیٹ سنسکرت اصطلاحات کا اس میں نمونہ دکھایا وہ بھی پانی کے بلبلے کی طرح ابھر کر رہ گئی۔ اردو تو اردو ہندی خوانوں کو بھی اس کا سمجھنا اور اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوگیا،کسی نے بھی نہ جانا سارتھک کیا ہے؟ اور نرتھک کس جانور کا نام ہے، ہاں موضوع اور مہمل سب نے سمجھ لیا، سوبھاوک دھات اور کرترم کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ مصدر وضعی و غیر وضعی آسانی سے ذہن نشین ہوگیا، مشتق کی بجائے دھاتج، لازم کی بجائے اکرمک، نکرہ کی بجائے جات باچک وغیرہ الفاظ کا رواج چاہا مگر نہ ہوا۔ استاد نے ماضی کی بجائے بھوت سمجھایا، طالب علم اسے پریت اور بھتنا سمجھے، جس سے ثابت ہوا کہ اردو میں مغلق اور ثقیل الخارج الفاظ کے قبول کرنے کی صلاحیت نہی ں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فصاحت ایسے الفاظ اخذ کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ وہ تو عام فہم سہل الخارج کی دل دادہ ہے اور یہی مقبولیت عام کی وجہ ہے۔ اگر بدھ مذہب سنسکرت زبان میں اپنی انمول نصیحتوں کو بیان کرتا تو اس قدر ترقی نہ ہوتی جس قدر پراکرت یعنی عام زبان میں اس کی ہدایات نے رواج پاکر دل نشینی و خاطر گزینی کا مرتبہ حاصل کیا، یہی حال خاص اردوئے معلے یعنی دہلی کی مقبول عام زبان کا ہے نہ کہ لکھنؤ کی زبان کا کہ فقرے کے فقرے اگر ان میں سے چند ہندی روابط و افعال نکال دیئے جائیں تو خاصی فارسی کی عبارت بنتی چلی جائے، اب فرمائیے انوکھے محاورے یہ ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا یا جان چھڑکنا اور پھول پڑجانا، جن کے سمجھنے میں آپ نے خود غلطی کی اور بہت بڑی غلطی کی، دہلی کی زبان کا مرکز تو کیا؟ ہاں لکھںؤ کی زبان کا مرکز لاہو ر ہوسکتا ہے کیونکہ دونوں مقلد ہیں۔
آپ نے یہ کیونکر جانا کہ عربی نے اپنا پرانا وطن چھوڑ دیا، کیا وہاں اب یہ زبان بالکل نہیں بولی جاتی یا مستن د نہیں رہی۔ یہ فرمائیے چونکہ وہ اسلامی مرکز تھا وہاں کا وہیں بنا رہا، مگر اس کی زبان جو سلاست و فصاحت میں اپنا جواب نہیں رکھتی یہاں تک پھیلی کہ بیروت اور مصر جا پہنچی، اور ایسی مقبول ہوئی کہ عربی میں یہودی، نصرانی، قبطی، الجیرین، اسپینین، اہل مراکو، اہل نوبہ وغیرہ نے صرف یہ زبان ہی اختیار نہیں کی بلکہ اس زبان میں تصنیفات کے ڈھیر لگا دیئے، اخبار جاری کردئیے، اور اس قدر ترقی کی کہ جرمنی ، فرانس، اور انگلستان میں بھی اس فاضل نظر آنے لگے، لین صاحب کی مدّ القاموس آپ نے دیکھی ہوگی، جنھوں نے خاص عرب میں رہ کر جمع کی اور انگلستان میں آکر شاید بیس جلدوں میں چھپوائی، اہل عرب کو فخر کرنا چاہئیے کہ ان کی زبان زندہ زبانوں میں ہے، ڈیڈ لینگویج میں نہیں ہے۔ اس نے یہانتک ترقی کی کہ غیر قوموں اور غیر ملکوں میں بھی دوڑ گئی ہے، عرب کو سب پوچھتے ہیں اور جب تک مذہب اسلام اور خدا کا کلام قائم رہیگا برابر پوچھے جائیں گے، آپ جو بیروت اور مصر کو عربی کے حق میں قابل سند گردانتے ہیں کیا حلّ لغات قران و حدیث میں بھی بیروتی یا مصری عربی سند لی جاتی ہے، جس کا نام ٹھیٹ اردو زبان ہے وہ دہلی سے نکل کر اپنی اصلی حالت کے ساتھ لاہور نہیں چلی جائیگی، بلکہ لاہور والے خود دہلی کی زبان کے متّبع ہیں اور ہوتے چلے جائینگے۔ یہی دہلی کے واسطے مرکزی ثبوت اور اردو کی ترقی کا پورا پورا معیار ہے، جس زبان میں اپنے مقام پیدائش کی اصالت، شستگی مختلف قسم کی تصانیف کا مادّہ ہوتا ہے، اس میں ہر ایک علم جگہ پاتا چلا جاتا ہے، ہماری زبان میں جس طرح علوم قدیمہ کا ذخیرہ موجود ہے اسی طرح علوم جدیدہ کا اندراج بھی ہو رہا ہے اور روز بروز ہوتا رہیگا، دیوناگری کا دیو کیا؟ بڑے سے بڑے ناگ بھی حملہ کر کے اپنا زہریلا اثر اس پر نہیں پہنچا سکتا، کالے سے وہ ڈرے جس کے پاس اس کے کاٹے کا منتر نہ ہو۔
سنہ 73 ء کا ذکر ہے صوبۂ بہار میں ایک دفعہ یہ ہلہلہ اٹھّا کہ فارسی حروف کی بجائے کائیستی ہندی حرفوں میں حکما عدالتی کاروائی کی جائے گی، چنانچہ اس پر عمل در آمد ہونے لگا، مسلمان گھبرا اٹھّے کہ اب ہمیں نہ تو روزگار ملیگا اور نہ ہماری یہ زبان رہیگی، ہم بھی اتّفاق سے دانا پور میں موجود تھے، بہتیرے مسلمانوں نے ہندی سیکھنی شروع کر دی اور بہتیرے روزگار چھوڑ دینے پر مستعد ہوگئے، با وجودیکہ وہاں کی عدالتوں میں ہندی حروف کا رواج ہوگیا اور شاید صوبہ بہار کا گورنمنٹ گزٹ بھی اسی میں چھپنے لگا، مگر وہاں کی جو اردو زبان تھی وہ آج تک نہ مٹی، اڑتیس برس ہوگئے، وہی شاعری کا چرچا، وہی تصنیف کا ذوق شوق، وہی زبان کی ترش خراش بنی رہی، یہانتک کہ آپ کے قلم سے بھی یہی نکلا کہ " آگرہ اور اودھ کے بعد پنجاب، دکن اور بہار کا نمبر ہے، جہاں اردو نے غیر معمولی ترقی کی ہے"۔ جب یہاں اردو زبان کی بیخ کنی نہ ہوسکی تو صوبحات متّحدہ میں اور خاص کر پنجاب میں کیونکر ہوسکتی ہے، گو صوبحات متّحدہ میں ناگری حروف عدالتی کاروائی کے واسطے مختص ہوگئے، گوالیار میں مرہٹی و ناگری حروف میں لکھے جانے کی پخ لگ گئی، مگر زبان وہی رہی اور رہیگی، پٹیالہ میں گرمکھی کا رواج دیا گیا تو کیا وہاں کے لوگوں کی زبان کٹ گئی، اسی طرح اگر بفرض محال اگر تمام پنجاب میں گرمکھی حروف اور پنجابی زبان کا سر رشتۂ تعلیم میں رواج دیا جائے گا تو کیا اردو زجان سلب و مفقود ہوجائیگی، نہیں ہرگز نہیں، یہ ایک ایک کے گھٹ میں بیٹھی ہوئی ہے، دلوں میں اتر گئی ہے، رگ و پے میں پیوست ہوگئی ہے، اس کے الفاظ ملائے بغیر چارہ ہی نہیں، فانونی اصطلاحیں، علمی الفاظ اس میں سے نکلنے مشکل اور بسا مشکل ہیں۔ پہلے قانونی اصطلاحوں کو بدلو، عام ملکی مذاق کو چھوڑو، سر رشتۂ تعلیم کے ذخیرہ کا دیوالہ نکالو، جب زبان پر یہ لفظ لاؤ کہ ہماری ہندوستانی زبان جس کی اردو زبان ایک دوسری شان ہے ترقی سے گر کر تنزّل کے رستے پر پڑنے لگی، کوئی زبان جب تک اس کے بولنے والے زندہ رہتے اور بازار کے سودا سلف، رسوم مروّجہ کا اس سے کام پڑتا رہتا ہے کبھی نہیں مرتی، ممالک متحدہ میں جس قسم کی تصنیفات کی ترقی تھی اسی قسم کی اب ہے ، وہی ناول نگاری، وہی انشا پردازی ، وہی شاعری اب تک برابر دھوم مچا رہی ہے۔
یہ شور مچانا کہ ہائے اردو چلی! ہائے اردو چلی! ہماری زبان کی الٹی کمزوری ثابت کر رہا ہے حالانکہ ہم محالفوں کی زبان اس کی روز مرّہ نمایاں ترقی اور حالت موجودہ سے کیل سکتے ہیں، لیڈروں کا منہ بند کر سکتے ہیں، گورنمنٹ مانے یا نہ مانے، رؤساء ہند ساتھ دیں یا نہ دیں، اردو زبان نے وہ ہردلعزیزی اور عمومیت پیدا کر لی ہے کہ یہ مٹی ہے نہ مٹیگی، ریلوں میں بیٹھ کر، جہازوں پر سوار ہو کر، ملک اور ملک پھر کر دیکھ لو، کہاں کہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے، پھر گھبرانے اور تلملانے سے کیا فائدہ؟ اہل اسلام کی یہ گھر کتّی کی بولی ہے، اور صاحبان ہنود کی تسلیم و پسند کردہ، ملکی، مہذّب، درباری اور علمی زبان ہے، اگر یہ بات نہیں تو اس قدر اور اس کثرت سے صاحبان ہنود میں شاعر، انشا پرداز، ناول نگار، مصنّف، مترجم کیوں ہیں؟ اردو میں صاحبان ہنود، اخبار، رسالے کیوں نکال رہے ہیں، اگر وہ ضدّم ضدّا میں آکر ٹھیٹ ہندی کا استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں تو کوئی سطر، کوئی عبارت تمہاری اس زبان اور اس کے الفاظ سے خالی نہیں پائی جاتی۔ گو غرض کی جگہ گرج، عرض کی جگہ ارج، قرض کی جگہ کرج، غریب نواز کی جگہ گریب نواج، عقل کی جگہ اکّل، بادشاہ کی جگہ باچھّا، حضور کی جگہ ہجور، حضرت کی ہجرت، فرمان کی جگہ پھرمان، حکم کی جگہ ہکم، پیغام کی جگہ پیگام، غافل کی جگہ گاپھل، باتوں کی جگہ باتاں، تکلیفوں کی جگہ تکلیفاں، شرابوں کی جگہ شراباں، قلموں کی جگہ قلماں، گھاتوں کی جگہ گھاتاں، انگریزوں کی جگہ انگریجوں لکھدیں ، مگر کہنے میں یہی آئیگا کہ اردو کا منہ چڑانا ہے، اس کے الفاظ کو بگاڑا نہیں بلکہ سنوارنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
ہم اس بات کے بالکل برخلاف ہیں کہ اردو کے واسطے آل انڈیا کانفرنس، انجمن حامئ اردو، انجمن ترقی اردو قائم کی جائیں، اور ان سے یہ بات حاصل ہوجائے کہ آپ کی اردو کو چھوڑنے والے بھی آپ کے ساتھی بن جائیں، ترقی دینے کی یہ صورتیں نہیں ہیں یہ تو نری دھما چوکڑی ہے، ترقی کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس میں جس بات کی کمی ہو اسے پورا کرو جس طرح کوئی موجد یا کوئی صنّاع اپنی صنعت یا ایجاد میں ایک نہ ایک ایسی نئی بات نکال دیتا ہے کہ اس سے پیشتر کی چیزیں گرد ہوکر بیٹھ جاتی ہیں اور اس کا ایجاد اس کی نئی چیز کو لے اڑتا ہے، سب اسی طرف از خود ٹوٹ پڑتے ہیں، نہ کہ واویلا کر کے کسی چیز کو کسی کے سر ڈالنا، اور تجربہ کے برخلاف زبانی تعریف سے یقین دلانا، یہ تو ایک دھینگا دھینگی ہوئی نہ کہ ترقی۔
اگر اردو میں کوئی وصف ہے تو وہ منکروں کو اپنا مقر بنائے گی، غیر قوموں کے مصنّفوں کو اپنا ساتھی کر لے گی۔ عدالتی کاروائیوں کو اس زبان کا گرویدہ بنا لے گی، اور جو وہ اپنے ذاتی جوہر، ذاتی وصف سے خالی ہے تو یہ غل شور اور اس قدر شورا شوری اپنی آپ تھپڑی پٹوائیگی، اس سے پارٹی فیلنگ کا مسئلہ ثابت ہوجائیگا اور یہ ہمارے حق میں گورنمنٹ کی طرف سے مضر پڑیگا، تم کسی کو ترغیب نہ دو، کسی کو ساتھی نہ بناؤ، خود آپ چشمۂ شیریں بنو او ر سب کو اپنی طرف کھینچ بلاؤ، بلکہ سمجھ لو کہ ناگری سے ڈراؤنے حملے ہمارا کچھ نہیں کر سکتے، جو تیر از دست رفتہ ہے اسے کوئی پکڑ کر نہیں لا سکتا، جو بات طشت از بام ہوگئی جس کو ایک ایک شخص نے جان لیا، وہ کبھی قابو میں نہیں آسکتی، عدالت لوگوں کو منع نہیں کر سکتی کہ اپنے گھروں میں اردو نہ بولو، شاہی دربار کسی زبان کو اس کے بولنے والوں، شہروں اور گاؤں گنویں کے رہنے والوں میں سے کبھی نہیں نکال سکتا کہ یہ درباری زبان نہیں ہے اسے نہ بولو، سر رشتۂ تعلیم کہ نہیں کر سکتا کہ اگر وہ اس کو ملکی یا علمی زبان قرار نہ دے یا لازمی نہ گردانے تو تمہارے ملک سے بھی یہ زبان خارج البلد ہوجائے، جس حالت میں ہر ایک فرقہ کی خاص خاص بولی نہیں بند کی جاسکتی تو اتنی بڑی بولی جو ہندوستان کے ایک بڑے احاطہ کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے بولنے والوں میں سے اگر صرف ایک ہی فرقہ کو لیا جائے تو چھ سات کروڑ اور بصورت دیگر دس بارہ کروڑ اہل ہندو اردو زبان بولتے ہیں پھر کیونکر خارج از ملک ہوسکتی ہے، ہاں سب کی ایک سرے سے زبانیں نکال لی جائیں اور صرف اشاروں پر کاروبار آن ٹھیرے تو ممکن ہے۔ لیکن غیر ملکوں سے اخراج کرنا پھر بھی ناممکن و دشوار ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ " اہل پنجاب کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں کثیر الاشاعت اخبار و رسائل ہیں، جو بات منہ سے نکالیں غور سے دیکھ لیا کریں کہ اس میں لفظی یا معنوی سقم تو نہیں ہے۔" یہ بات نہایت بودی اور اوچھی ہے اور آپ کے مرکزی دعوے و امید کو زور کے ساتھ توڑتی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ غل غپاڑا کہ آپ کی زبان اردو زبان ہے محض ایک دل لگی اور اوپری دل سے دعوی ہے ورنہ اس قول کے موافق آپ کی اردو میں ہر قسم کے سینکڑوں نقص موجود ہیں۔ میں اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ لاہور کی اردو میں اس قدر نقص ہیں، میرے نزدیک وہ ایسے عیوب اور نقائص سے پاک ہے، اس کے اردو اخباروں نے دہلی کے برائے نام اردو اخباروں کو پرے بٹھا دیا ہے۔ اہل لاہور کی زبان میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا جتنا کہ اہل زبان اور مقلّد زبان میں ہوا کرتا ہے، پنجاب کے سر رشتۂ تعلیم میں سب سے زیادہ پنجاب یا تعلیم یافتہ اہالیان لاہور نے حصّہ لے رکھّا ہے، ان کا ترجمہ نہایت صاف اور قابل گرفت عیوب سے مبرّا ہوتا ہے، حمایت الاسلام کی کتابیں دیکھو، انشاء اللہ خان صاحب مالک وطن کے مضامین پڑھو، پیسہ اخبا ر کے ایڈیٹوریل یا ریڈنگ آرٹیکل مطالعہ کرو، ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب کی نظم جن کی مسلم استادی کا سب کو اقبال ہے استماع فرماؤ، خان احم د حسین خاں صاحب بی- اے کی عاشقانہ غزلیں، نعتیہ اشعار اور ناولوں کی بھر مار گوش زد فرماؤ، پرفیسر خواجہ دل محمد صاحب ایم- اے کا جنھیں شعرائے پنجاب کا دل کہنا چاہئیے پاکیزہ کلام ملاحظہ فرماؤ، رسالۂ مخزن پر نظر ڈالو، علی ھذا مولوی ظفر علی خان صاحب بی- اے ایڈیٹر اخبار زمیندار کی لیاقت، تصانیف، تراجم، اردو بول چال، زوردار مضامین اور نظموں کو دیکھو، کس دھڑلّے کی نظمیں اور مضمون ہیں کہ بڑے بڑے قابل عشعش کرتے ہیں۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں کچھ عیب ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ رہے خاص خاص محاورے ان کی بات دوسری ہے، ان میں کون نہیں چوکتا، لیکن یہ چوک زبان کے امتحان میں بحالت مجموعی فیل نہیں کرسکتی، پاس ایبل نمبر دلا ہی دیتی ہے، اس سے آگے جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ اس کا نقیض ہے۔
بے شک اس میں ہمیں اتفاق ہے کہ " اردو زبان کی قابلیت رکھنے والا، کسی ملک، کسی شہر، کسی قوم، کسی مذہب کا کیوں نہ ہو وہ قابل قدر اور واجب التعظیم ہے۔" اس میں تعصّب کو راہ دینا گویا انصاف کا خون کرنا اور اہل جوہر کی ترقی کو مٹانا ہے، آپ کی یہ رائے بھی قرین قیاس ہے کہ اگر کوئی مسئلہ متنازع فیہ یا رائے طلب ہو تو کسی لٹریری رسالہ میں پیش کر کے طے کرلیا جائے، مگر یہ بالکل ناواجب ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کو بائیکاٹ کر دیا جائے، کیونکہ جب تک زبان کے متعلق اہل زبان کی شرکت نہ ہو وہ فیصلہ انقطاعی یا حتمی قرار نہیں پا سکتا، اہل زبان کی انانیت اول تو سرے سے اپنی سمجھ کی غلطی ہے اور اگر بالفرض ہے تو اس کی پروا نہ کی جائے، ان سے موافق یا نا موافق جواب ضرور لیا جائے، جن وجوہ سے وہ فیصلہ کریں گے مقلد بجز اس کے کہ اساتذہ کے کلام، اساتذہ کی تصانیف کو جس میں کاتبوں کی طرف سے غلطیوں کا ہوجانا ممکن ہے، پیش نظر رکھ کر سندیں لائیں اور جواب دیں، اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، اس کے علاوہ ان کی موجودہ زبان نے جو تبدیلیاں کی ہونگی انھیں بھی دیگر امصار کے اہل قلم نہ دیکھ سکیں گے، ایران کی پہلی اور اب کی زبان ہی کو دیکھ لو، سفرنامۂ شاہ ایران کو پڑھ لو، کس قدر فرق ہوگیا ہے، یہی حال دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا سمجھ لینا چاہئیے۔