غرض جن وجوہ سے اہل زبان کو اپنے ہان کے طبقۂ موجودہ کے روز مرّوں اور محاوروں کی تقلید سے گریز لازم نہیں اسی طرح مقلّد زبان پر بھی یہ فرض نہیں کہ وہ پرانی لکیر کا فقیر بن کر زبان قدما کی پیروی عیار سخن اور میزان زبان قرار دے۔
ہم دیکھتے ہیں جس طرح دہلی کو مرکز اردو سے حرف غلط کی طرح اڑایا جاتا ہے، اسی طرح لکھنؤ پر بھی منہ آیا جاتا ہے، گو اہل دہلی لکھنؤ کو بھی اس وجہ سے مرکز اردو نہ مانیں کہ اودھ میں دہلی ہی کے اہل زبان یہاں کے قدر دانوں کے مٹ جانے کے سبب وہاں جا کر رہے اور انھوں نے اسی اجڑے دیار یعنی دہلی کے محاورات و اصطلاحات کو وہاں بھی اپنے روز مرّہ برتاؤ اور بول چال میں برقرار رکھّا، چنانچہ ایک موقع پر سید محمد تقی میر نے فرمایا ہے۔ قطعہ۔۔۔
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار میں
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
ایک دفعہ حضرت غالب سے ناسخ کی بابت پوچھا تو آپ نے بھی طنزا جواب دیا۔
زبان میر اور مرزا کہاں ہے
مگر ہاں پربیوں میں خوش بیاں ہے
اس کے علاوہ جو خاندان شاہان اودھ کے مورث اعلی کے ساتھ بگڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے، وہ بھی اکثر دہلی کے امرا و شرفا کے خاندان تھے۔ جن کی آل و اولاد آصف الدولہ کے عہد سے لے کر سعادت علی خاں کے زمانہ تک تمام دربار پر حاوی و مسلّط رہی۔ اسی وجہ سے اعلی طبقہ کے لوگوں میں انھیں کی زبان جاری ہوئی، یہاں تک کہ شعرائے دہلی بھی نوّابان لکھنؤ کی قدر دانی کے باعث اسی طرف جھک پڑے، ادھر مرزا رفیع السودا اپنے بلیغ اشعار کا گراں مایہ سودا لے کر وہاں پہنچے، ادھر سید محمد تقی میر اپنی فصاحت کا ڈنکا بجاتے ہوئے درآمد ہوئے، اخیر میں مرزا غلام حسن متخلّص بہ حسن خلف میر میر غلام حسین ضاحک نے آسمان لکھنؤ میں بدر کمال اور ماہ منیر بن کر کھیت کیا، جب تک ان لوگوں کا دور دورا اور دم کا دمامہ رہا، انھوں نے اپنی زبان کو مشرقی زبان کے اختلاط سے برابر بچا ئے رکھا، مگر پھر جو زمانہ نے پلٹی کھائی تو وہاں کی وہ زبان جو خاص خاص لوگوں میں مروّج تھی، پوربی بھا کا آمیز اردو بن گئی، یہاں تک کہ نامی شعرا ئے لکھنؤ بھی اس سے بچ نہ سکے، کچھ نہ کچھ اثر آ ہی گیا، بلکہ محاورات کے علاوہ وہاں کے لب و لہجہ نے بھی وہی طرز اختیار کر لی جس سے اہل دہلی کے کان نہ جب آشنا تھے اور نہ اب آشنا ہیں۔ لکھنؤ کے صرف عوام نے ہی اس پر عمل نہیں کیا بلکہ خواص بھی خالی نہ رہے، اکثر تذکیر و تانیث کے فرق سے لے کر محاورات میں بھی بہت کچھ بل پڑ گیا، چنانچہ ہم تمثیلا نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں بلا ترتیب معرض تحریر میں لاتے ہیں، دونوں جگہ کے اہل زبان نظر انصاف سے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ فرق جو پایا جاتا ہے کیا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ ہر حالت میں دہلی کے سوا دوسرا مقام اردو کا مرکز ہوا ہے نہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جناب میر انیس مرحوم فخریہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے آبا و اجداد خاک پاک دہلی سے تھے، اب چند تمثیلیں ملاحظہ فرمائیے، مثلا۔
ساؤنی گانا، ساؤنی پھولنا اہل دہلی کبھی نہیں بولتے مگر حضرت امیر مینائی اور جناب احمد علی صاحب شوق وغیرہ کے کلام میں موجود ہے۔ امیر-:
جب چمن میں آگیا مستوں کو ساون کا خیال
ساؤنی گاتی ہوئی آئی گھٹا برسات کی
اور بھی لگائی آگ ساؤنی نے پھول کر
پیڑ پر میری نظر پھر پڑی نہ بھول کر
پانا بجائے لینا یا حاصل کرنا دہلی والے کبھی نہیں بولتے مگر امیر صاحب و حضرت شوق نے باندھا ہے، ملاحظہ ہو۔ امیر:-
" ہاتھ ہے کوتہ شاخ ہے اونچی پائیں گے کیونکر کوئی ثمر ہم"
پا کے تمھارے خط کو آج دل کی تڑپ بڑھی کچھ اور
دل میں بھڑک کے غم کی آگ جسم پہ تپ چڑھی کچھ اور
یا قدم رکھتی نہیں تو آنسوؤں کو پا کے شور
یا قدم جمتے نہیں غالب ہے تجھ پر ان کا زور
لاکھ بٹ جائے خیال آئے جو تو چـین ہی آجائے
شوق کو بھی یہ تمنّا ہے کہ تجھ کو پا ہی جائے
بولا چاہتی ہے، خاص پوربی اور کھڑی بول چال ہے، مگر حضرت امیر نے اسے بھی داخل فصاحت فرمایا ہے:-
خوشامد اے دل بیتاب اس تصویر کی کب تک
یہ بولا چاہتی ہے پر نہ بولے گی نہ بولی ہے
نشہ ہرن کرنا :-
بڑھاپے نے ہرن سب کردئے نشئے جوانی کے
علی ھذا لفظ جان جائیے :-
کیا ہے ہمارے دل میں بھلا جان جائیے
چکھّا چاہئیے :-
ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
کـچھ مزہ اس کا بھی چکّھا چاہئیے
چاٹ دینا :-
وہ چاٹ دوں کرے نہ مذمّت شراب کی
پیراک :-
دست و پا کتنے ہی پیراکوں نے مارے رہ گئے
ارے توبہ ۔ احمد علی شوق :-
ارے توبہ ستاروں پر ہوئے کیا کیا گماں دیکھو
تلوری :-
آ پڑا باشا تلوری پر وہ کندے جوڑ کر
کیا میں غل کردوں کہ یہ اڑ جائے اس کو چھوڑ کر
تتلی :- تتلیوں کے رنگ دیکھو کس قدر
سر پھرنا ملاحظہ ہو :-
تو نے رخ جدھر کیا دل کا رخ ادھر پھرا
تو پھرا جو یاس سے دل بھر آیا سر پھرا
پینگ آنا جانا :- پینگ آئیں جائیں گے اور ہلیگا دل مرا
پلنگ پر رہنا :-
وہ پلنگ انھیں کا ہے اسپہ اب رہے تو کون
خود آ کے وہ رہیں جا کے یہ کہے تو کون
چہرے کا رنگ کٹنا :-
ضعف سے جسم لٹ چکا، روح بدن سے ہٹ چلی
چہرے کا رنگ کٹ چلا، نبض کی چال گھٹ چلی
کرم کی لفظی رعایت :-
تم سے مرے نصیب میں شای د ابھی کرم نہیں
وہ ہیں بڑے ہی خوش نصیب ہجر کا جن کو غم نہیں
اسی طرح شعریں، برسیں، چپیتیں، سانسیں، چھان بنان، بجائے چھان بین، گتّھی بجائے گنجلک یا گلجھٹی، بھل بجائے بل، پلّا بجائے پلڑا، بھنگی آنکھ بجائے بھینگی آنکھ ۔
گواہی دینا ہوگی، لوٹ چلو، پلٹ چلو، بجائے پھر چلو، میں ان کے یہاں گیا تھا، وہ میرے کے یہاں آئے تھے، بجائے ہاں۔ ( سکت، آنکھ مچولا، دھاگا، چپت، طوطی، دریا، ہاتھی، وغیرہ بحالت تانیث) ۔ ( مالا، موتیا، فہم، ہتھنی، وغیرہ بحالت تذکیر) ۔
امیر:- کب زاہدوں کو مسئلہ عشق کا ہے فہم) ارے صاحب، ارے تو صاحب لے اب جائیے، لے اب جانے دیجئے، تمسّک لکھ گیا، روپیہ کھو گیا بجائے کھویا گیا، ابھی ابھی، سانسیں، سلّی بجائے پتھری، مچّھی بمعنی بوسہ نیز مچھلی، لے اب ہماری بھی سنو، جھوٹھا، اندھڑ بجائے اندھیاؤ، سارے دن بجائے تمام دن وغیرہ وغیرہ، اس موقع پر ہمیں دو لطیفے یاد آگئے، پہلا لطیفہ :- استاد ذوق کے پاس ایک مرتبہ ان کے ایک لکھنوی دوست شیخ ناسخ کی ایک تازہ غزل سنانے آئے جس کے تین شعر یہ ہیں۔
اشعار :-
کوئی غنچہ ہے کوئی گل ہے کوئی پژمردہ ہے
دیکھتے ہیں ہم تماشا گلشن ایجاد کا
عاشق جانباز کا ضائع نہیں جاتا ہے خوں
خسرو و شیریں سے پوچھو ماجرا فرہاد کا
باغ سے وحشت ہوئی یاد قد دل دار میں
دیو کا سایہ ہوا سایہ مجھے شمشاد کا
مگر استاد ذوق کے پاس یہ غزل پہلے ہی پہنچ چکی تھی اور وہ اس پر غزل بھی لکھ چکے تھے چنانچہ جھٹ اندر اٹھ کر گئے اور وہ غزل لاکر سنانے بیٹھ گئے جس کے تین شعر یہ ہیں ۔ اشعار :-
سرد عاشق ہوگیا اس غیرت شمشاد کا
غل مچایا قمریوں نے ہے مبارک باد کا
ہے قفس سے شور ایک گلشن تلک فریاد کا
خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیّاد کا
کچھ گداز عشق میں ہوتا اثر تو دیکھتے
کوہ کے چشموں سے ہوتا خوں رواں فرہاد کا
دوسرا شعر سنتے ہی چونکے اور فرمایا کہ ہیں؟ آپ نے طوطی کو مذکر باندھ دیا، حالانکہ اس میں یائے معروف علامت تانیث موجود ہے کل کو آپ جوتی کو بھی احاطۂ تذکیر میں لے آئیں گے، استاد ذوق نے فرمایا کہ حضرت محاورے پر کسی کے باپ کا اجارہ نہیں ہے، آج آپ میرے ساتھ چوک پر چلئے اور اکبر آباد کی یہ ضرب المثل کہ " چڑیمار ٹولا، بھانت بھانت کا جانور بولا" آزمائیے، دیکھئیے کہاں کہاں کے پکھیرو جمع ہوتے اور کیا کیا ہانک لگاتے ہیں، وہ اس بات پر راضی ہوگئے، جب شام کا وقت ہوا دونوں صاحب جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جہاں گذری لگتی ہے پہنچے، دیکھا، کوئی قسم قسم کے کبوتروں کا پنجرا بھرے بیٹھا ہے، کسی کے پنجرے میں لال ہیں، کسی کے بئے، کوئی اصیل مرغ کی گردن پر ہاتھ پھیر پھیر کر دکھا رہا ہے، کوئی مینا، کوئی اگن، کوئی بٹیر، کوئی تیتر لئے ہوئے ٹہل رہا ہے، ایک شہدے صاحب بھی ہاتھ میں طوطی کا پنجرہ اٹھائے دنڑ خم دکھاتے چلے آتے ہیں، استاد ذوق نے اشارہ کیا، ذرا ان سے بھی دیافت کر لیجئے، آپ نے بے تکلف پوچھا کہ " بھیا تمہاری طوطی کیسی بولتی ہے؟" بھلا شہدے سے ایسے موقع پر کب رہا جاتا ہے جواب دیا کہ میاں بولتی تمہاری ہوگی یاروں کا طوطی خوب بولتا ہے"، یہ غریب بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ استاد ذوق نے کہا کہ حضرت اس بات پر نہ جائیے کہ شہدوں کی زبان ہے، یہی دہلی کے خاص و خواص کی منطق ہے، جس موقع پر یہ محاورہ بولا جاتا ہے اس کے لئے مذکّر بولنا اور بھی باعث لطف ہوگیا۔
دوسرا لطیفہ :- سنہ 73 یا 74 ء کا ذکر ہے کہ اسی طرح ایک دفعہ کسی رئیس لکھنؤ وارد دہلی اور مرزا قربان علی بیگ سالک شاگرد رشید حضرت غالب سے بعض الفاظ کی کراہت، ثقالت، اور لطافت کی چھیڑ ہوئی، رئیس لکھنؤ نے بر وقت ملاقات حضرت سالک سے ارشاد کیا کہ حضرت آپ کے دلّی والے الفاظ کریہہ بولنے سے درگذر نہیں کرتے اور انہیں عین فصاحت سمجھ کر شربت کا سا گھونٹ پی جاتے ہیں، مرزا سالک نے فرمایا بھئی وہ کون سے لفظ ہیں جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے ذرا میں بھی تو سنوں اگر در حقیقت کریہہ الصوت اور کریہہ المعنی ہیں تو میں بھی ان سے اجتناب کروں گا، رئیس صاحب نے فرمایا دور کیوں جائیے ذرا کیچڑ ہی کے لفظ کو ملاحظہ فرمائیے، رائے ثقیلہ کا کیسا کریہہ اور ثقیل لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ حضرت سالک نے پوچھا آپ کے نزدیک اس لفظ کے بجائے کون سا فصیح اور موزوں لفظ ہے؟ کہنے لگے ارے حضرت کیچ بر وزن پیچ، دیکھئے کیسا چھوٹا سا اور سلیس لفظ ہے اور ہمارے کے یہاں یہی بولا جاتا ہے، حضرت سالک مسکرائے اور ذرا ستم ظریفی کو کام میں لا کر فرمایا کہ میری رائے میں بھی ایسی رائے ثقیلہ کو کل الفاظ سے نکال ڈالنا چاہئیے لیکن ذرا اتنا اور بتا دیجئیے کہ آپ کے ہاں سرین کے معنے میں کس لفظ کا استعمال ہے؟ کیا آپ اس کی رائے ثقیلہ کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ یہ فقرہ سنتے ہی ایسے لئے گئے کہ منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور یہی کہتے بنی کہ در حقیقت ہمارے کے یہاں بھی یہی رائے مثقّلہ بعض الفاظ میں اس قدر مستعمل ہے کہ جن الفاظ کو دہلی میں رائے مہملہ سے بولتے ہیں ہم انھیں رائے ثقیلہ سے استعمال کرتے ہیں گو یہ استعمال یہاں والوں کے کانوں کو اچّھا معلوم نہ دے مگر جس طرف جمّ غفیر ہو اسی طرف یہ فقیر نام کا امیر ہے۔ مثلا مچھّڑ، کنکڑ وغیرہ بہ رائے ثقیلہ ہم جائز رکھتے اور فصیح سمجھتے ہیں، لیکن دہی برے، پکورے، پکوریاں وغیرہ بہ رائے مہملہ ناجائز اور خلاف فصاحت جانتے ہیں گو آپ کے یہاں بہ رائے ثقیلہ اچھّا خیال کرتے ہیں چلو ہم دونوں برابر رہے اور اب کسی کو بھی کسی پر اعتراض کی گنجائش نہیں رہی، مرزا سالک نے فرمایا خیر یہی غنیمت ہے کہ آپ کی اڑ تو ٹوٹی کہ آپ نے دہلی اور لکھنؤ کو مساوات کا درجہ بخش دیا ورنہ صاحبان لکھنؤ تو دہلی کی زبان کو زبان ہی نہیں مانتے۔ جس روز یہ لطیفہ ہوا اس کے دوسرے ہی دن منشی بہاری لال مشتاق نے اکمل الاخبار میں یہ ساری کیفیت مع نام درج کر کے گلی گلی اور کوچہ کوچہ میں اس مناظرہ کی شہرت کر دی، اکثر لوگ اس لطیفہ کو حضرت غالب کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن یہ غلط ہے کیونکہ ان کا انتقال سنہ 69ء میں ہوچکا تھا اور یہ اس کے پانچ چھ سال بعد کا ذکر ہے چنانچہ اس امر کی دہلی کے ایک مستند رئیس قرابت دار حضرت غالب سے بھی تصدیق ہوئی وہ فرماتے ہیں کہ " مجھے خوب یاد ہے اسی زمانہ میں میری شادی ہوئی تھی اور اکمل الاخبار نے اس کا خوب خاکہ اڑایا تھا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اہل لکھنؤ غیر مانوس، غیر متعارف، دقیق اور بے میل الفاظ کو مستعمل کر لینا ترقّی زبان کا باعث خیال فرماتے اور آورد کو داخل حسنات سجھتے ہیں، چنانچہ اسی وجہ سے جو لوگ زبان کی خوبیوں سے واقف ہیں ان کا دہلی اور لکھنؤ کی زبان کے متعلق یہ فیصلہ ہے کہ لکھنؤ کی زبان آورد کے بغیر نہیں بولی جاتی، قافیہ پیمائی اور جگت بازی اس کی جان ہے، لفظی رعایت اس کا دین و ایمان۔
دہلی کی زبان تکلّف سے دور، تصنّع سے نفور، تکلفات سے منزّہ اور نہایت شستہ ہے۔ اگر دہلی زبان کے حق میں شیراز ہے تو لکھنؤ اصفہان، جس طرح شیراز شاہان ایران اور زبان فصیح کا سب سے پہلا اور قدیم دار السلطنت ہے اسی طرح اصفہان اس کے بعد طہران سب سے اخیر وقت کا دار الخلافہ ہے۔
ہم نے اوپر لکھا ہے کہ زبان لکھنؤ میں غیر مانوس اور بے میل الفاظ کی بھرتی ہے، اب ہم کہتے ہیں کہ بے جوڑ الفاظ کی آمیزش سے بھی لکھنؤ کو کبھی انکار نہیں ہوا، چند الفاظ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے اور یہ سمجھ لیجئے کہ ہم نظیرا پیش کرتے ہیں نہ کہ اعتراضا، ورنہ ،،
جو رو کر ابر کو دریا بہا دینے کا دعوی ہے
تو ہم کو اپنے رونے پر رلا دینے کا دعوی ہے
ہوا بمعنی خواہش، جناب احمد علی شوق:-
گرد جنگل بیچ جنگل میں فضا ہے باغ کی
دیکھ لیں گے جنگل کو پھر دل کو ہوا ہے باغ کی
گرم خو بجائے تند خو :- امیر۔۔۔
خدا ہی باندھے ہوا کچھ ایسی کہ دل ہو اس گرم خو کا پانی
ہاتھ فگار کرنا بجائے ہاتھ زخمی کرنا، امیر :-
ہاتھ گلچیں کے کئے باغ میں کانٹوں نے فگار
علی ھذا آنسو پاک کرنا، آنسو جوش تر آنا، آنکھ اٹھنے آنا، بلّی نانگھنا، آتشک نکلنا، آشنائی کھٹ کرنا، آگ ابلنا، اکھلا پن، آمد آمد پھیلنا، خشم بہنا، آنکھیں پڑ پڑ کرنا، تمھاری قضا پھڑ پھڑا رہی ہے، تلوار خچا خچ چلنے لگی، آنکھیں اگلنا، آنکھوں پاؤں بمعنی آنکھوں کے آگے پاؤں، کسی کے قدم بقدم چلنے کے بجائے پاؤں پر چلنا جیسا کہ حال میں ایک صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ " خدا امّت کے دل میں بھی ایسا ہی اثر ڈالے کہ اس کے فدائے قوم کے پاؤں پر چلے" وغیرہ وغیرہ، اسی طرح پوربی الفاظ نظم نثر میں مخلوط و آمیز ہوئے ہیں۔ جو اوپر ظاہر کر دیئے گئے ہیں، پس انہیں وجوہ سے ہم لکھنؤ کو خاص اردو یا ٹھیٹ اردو کا مرکز یا ماخذ نہیں کہ سکتے ورنہ باعتبار تصانیف و علم و عروض وغیرہ اس نے خاصی ترقّی کی ہے۔
لکھنؤ کی بحث تو ختم ہوئی اگر اس کو اردو کا مرکز نہ مانا جائے تو کچھ بیجا نہیں، اب لاہور کی طرف توجہ فرمائیے، یہ بات کچھ پوشیدہ نہیں کہ زندہ دلان پنجاب نے بلحاظ ترقی مردہ دلان دہلی کو پرے بٹھا دیا ہے اور ان کو پست ہمّتی، سستی، کاہلی، بے علمی، باوجود افلاس لنترانی نے رہا سہا کھو دیا ہے، مگر اس حالت میں بھی یہ نہیں کہ سکتے کہ وہ سرشتی اثر اور اپنی مادری زبان کو کھو بیٹھے، یہاں کی آب و ہوا اور فطرتی مناسبت کو رو بیٹھے، ہاں اگر یہاں کی سر زمین، یہاں کی آب و ہوا، یہاں کے گلی کوچے، یہاں کی سی صفائی گلو، حسب مخرج ادائے الفاظ کی قوّت اٹھ کر لاہور چلی جائے، تو اس کا زبان اردو کے واسطے مرکز قرار دے لینا کچھ قابل اعتراض امر نہیں مگر جس حالت میں لکھنؤ مرکز ثابت نہ ہو سکا اور اس کی قدامت نے بھی مرکز نہ بننے دیا تو لاہور کی تو وہی مثل ہے کہ آمدی کہ پیر شدی۔ اس میں اردو کے رواج کو کے دن کے راتیں ہوئیں، سب سے پہلے منشی ہرسکھ رائے صاحب نے جن کے ہاں منشی نول کشور جیسے اوالو العزم اور لائق کارکن تھے، غدر سے آٹھ نو برس پہلے بر وقت الحاق پنجاب سنہ 1848 و 49 میں اخبار کوہ نور بزبان اردو نکالا، اور وہ شمالی ہند کی نسبت ہمارے ہاں زیادہ خریدا گیا، سنہ 1856 میں محکمۂ تعلیم قائم ہوا۔ مگر بعد از فتح دہلی جب لاہور پنجاب کا دار الخلافہ قرار پایا اور دہلی اس میں شامل ہو کر سنہ 1864 ء میں لاہور گورنمنٹ کالج کی، سنہ 1882 ء میں لاہور مشن کالج کی وہاں بنیاد پڑی، سنہ 1877 ء میں دہلی کالج اجڑا، اور ڈاکٹر لیٹنر صاحب کی کوشش سے سنہ 1882 ء میں پنجاب یونیورسٹی با اختیار ہوئی تو ہر ایک محکمہ میں اردو کا تسلط زیادہ ہونے لگا۔
پنجابی اخبار سنہ 63 ء میں نکلا، منشی محمد عظیم اور ان کی لائق اولاد نے زبان دہلی کا چسکہ ڈالنا شروع کر دیا، اس کے دو برس بعد یعنی سنہ 65 ء میں اخبار انجمن پنجاب کا دور دورا ہوا، اس کے مضامین کی نفاست، زبان کی سلاست، تصانیف پر معقول تقریظوں وغیرہ نے تمام پنجاب کو ایک دفعہ ہی اردو زبان کا فریفتہ اور شیفتہ بنا دیا۔
مولوی محمد حسین آزاد، منشی سید محمد لطیف جیسے ایڈیٹروں نے چار چاند لگا دیئے، اخیر میں مولوی سیف الحق ادیب اور میر نثار علی شہرت نے بھی زبان کی ترقی میں کچھ کسر نہ رکھی۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں ڈاکٹر لیٹنر کی صدر مجلسی نے نیچری نظم کا شوق ڈالا، مولوی محمد حسین صاحب آزاد، خواجہ حالی مد ظلہ العالی، خواجہ ضیاء الدین، مرزا ارشد، سیف الق ادیب، میر نثار علی شہرت وغیرہ نے اشعار کا ولولہ پیدا کیا۔ سنہ 71 ء میں سر رشتۂ تعلیم سے رسالۂ اتالیق پنجاب سر رشتہ تعلیم کے سرکاری اخبار نامی کے بجائے جو رائے بہادر ماسٹر پیارے لال صاحب آشوب کی ایڈیٹری اور حضرت آزاد کی سب ایڈیٹری سے نکلتا تھا جاری ہوا، اور اکثر اردو کے قابل قدر اخبارات جیسے رفیق ہند، رہبر ہند، شفیق ہند، اخبار عام وغیرہ نے ظہور پکڑا، دہلی کے خانہ خراب مضمون نگاروں کی بھی روزی نکل آئی، کرنل ہالرایڈ صاحب بہادر نے ڈائرکٹری کا چارج لیتے ہی دہلی کے اہل کمال کو نہایت اعزاز سے وہاں بلایا اور سر رشتہ تعلیم کی اردو تصانیف کو ایسا مانجھا کہ دہلی کی اصلی اور ٹکسالی زبان کا لطف آگیا۔ البتّہ ان کے بعد سائم صاحب کے زمانہ میں جس قدر جدید تصانیف ہوئی وہ بلحاظ زبان قابل اعتراض رہی اور ابھی تک یہ نقص باقی ہے، جس طرح شاہی زمانہ میں دہلی کے باکمال واہل خاندان لکھنؤ چلے گئے تھے اسی طرح غدر کے بعد بتلاش روزگار دہلی کے اکثر اہل زبان پنجاب میں اور زیادہ تر خاص لاہور میں دار الصدر ہو جانے کے باعث عاریتا جا رہے تھے۔ ان کے دم سے اردو کا زیادہ رواج ہوا، اخباروں کی ایڈیٹری ان لوگوں نے کی، نامہ نگار یہ بنے، کاتب یہ بنے، ناولوں کی زبان ان لوگوں نے درست کی اور ہر طرح سے لاہور کی اردو کو عیوب سے پاک کیا، چونکہ اہل پنجاب میں مادّۂ اخذ خدا داد ہے انھوں نے اس طرف توجہ کرتے ہی صاف و شستہ اردو لکھنی شروع کردی لیکن خاص خاص محاورات و اصطلاحات اور علی الخصوص لب و لہجہ میں بعد مسافت و فرق سکونت کے باعث بازی نہ لے سکے، جس کی وجہ سے ہم لاہور کو مرکز اردو کہنے میں متامّل ہیں۔ البتّہ اگر حیدرآباد دکن کی نسبت یہ خیال کیا جاتا تو وہ ایک حد تک درست اور بجا تھا، کیونکہ اول تو دہلی کے مغلیہ خاندان کے ساتھ یہاں کے شرفا و نجبا، اہل زبان ارکین سلطنت وہاں جا بسے تھے۔ عالم گیر نے مرتے دم تک دکن نہ چھوڑا، اس کی فوج، اس کے سپاہ سالار، اس کے وزرا، امرا اس کے دم کے ساتھ رہے۔ چنانچہ اب تک وہاں کی مستورات میں دہلی کے ٹھیٹ محاورے دہلی کے رسم و رواج، عورتوں کے قدیمی عقائد موجود پائے جاتے ہیں اور مرد تو دہلی الاصل تھے ہی۔ اس کے علاوہ وہاں کے بادشاہ نے خدا اسے سلامت رکھے اردو کی وہ سرپرستی اختیار کر رکھی ہے کہ کوئی حامئی اردو اس سے لگّا نہیں کھا سکتا، اردو کی گرتی ہوئی زبان کو اس نے سنبھالا۔ قدیم و جدید محاورات زبان کا مخزن اس نے جمع کرا دیا۔ ہر ایک علم و فن کی تصنیف کا ذخیرہ اس نے لگا دیا، بڑے بڑے اہل کمالوں کو فراہم کر لیا، گویا ڈوبتی ہوئی ناؤ کو ابھار لیا، اردو کے شعرا کا وہاں جمگھٹا ہے ، اردو کے انشا پردازوں کا وہاں ہجوم ہے، اہل زبان وہاں جمع ہیں اور مقلّد زبان وہاں، اس کے ما سوا سلطان دکن خلد اللہ ملکہ نے خود بھی اردو نظم کی طرف توجّہ فرمائی۔ کلام الملوک ملوک الکلام کی زندہ مثال دکھائی۔ سر رشتہ تعلیم و دفاتر میں اسی کو شاہی زبان ٹھہرا کر جگہ دی۔ اردو اخبارات اور رسالوں کی خریداری سے امداد فرمائی، مصنّفوں کو وظائف انعام و اکرام دے دے کر ان کی محنت کی داد دی اور ما یحتاج سے مستغنی فر ما کر اظہار خیالات و ترقّی زبان و علوم و فنون کا موقع دیا۔ نہ کہ جس طرح بعض مقامی گورنمنٹوں اور اردو کی مخالف ریاستوں نے تعصّب کو کار فرما کر اسے دودھ کی مکھّی طرح نکال کر پھینک دیا یا پھینک رہی ہیں۔ اس سلطنت نے بھی ایسا ہی کیا ہو۔ دکن کے خمیر میں چھ سو برس سے پہلے سلطان محمد عرف الغ خان نے دلّی شہر کو اجاڑ کر یہاں کی خو بو، عادت و خصلت کا وہاں ڈھچر ڈال دیا تھا مگر اردو زبان کے پیدا ہوتے ہی رؤسا دکن نے اس کے قالب میں ایک تازہ روح پھونک دی اگرچہ اردو شاعری کا چرچا اب سے 84 85 برس پیشتر عالی جناب نواب سکندر جاہ بہادر و نواب فلک انتساب ناصر الدولہ بہادر کے عہد میں جو تقریبا سنہ 1244-45 ہجری کا زمانہ ہے۔ راجۂ راجایاں مہاراجہ چندو لال صاحب مدار المہام ریاست حیدرآباد کے دم سے خوب زوروں پر رہا۔ بلکہ علم ادب، تصوّف، علم تاریخ، علم اخلاق پر بھی دیوان صاحب کی نہایت توجہ رہی جس کے سبب سے دہلی کے نامی شعرا میں سے شاہ نصیر شیخ وزیر علی مسرت، وجیہ الدین منیر اور ان کے بعد دیگر شعرا بھی پہنچے، حتی کہ استاد ذوق سے بھی یہ ذکر ایک مقطع میں لائے بغیر نہ رہا گیا چنانچہ فرماتے ہیں :-
گرچہ ہے ملک دکن میں ان دنوں قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
مگر اب کے اور جب کے زمانہ اور زبان میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس وقت وزیر دکن کو شوق تھا، خود بھی شاعر تھے، اور شاداں تخلّص فرماتے تھے، مگر اب شاہ دکن کو خود شوق ہے اور ان کی بدولت موجودہ وزیر دکن بھی جو اسی سخن سنج، سخن فہم خاندان کی یادگار ہیں، وہاں کے شعرائے ہمعصر میں سبقت لے گئے ہیں گو اپنا تخلّص شاد اپنے کلام و دیگر تصانیف میں درج فرماتے ہیں مگر اس تخلّص کو اسم با مسمّے بنا کر تمام دکن و اہل جوہر کا دل شاد اور ان کا گھر خوشی و خرّمی سے آباد کر رکھا ہے، ان وجوہ پر خیال کر کے ہم لکھنؤ پر بھی حیدرآباد دکن کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ لکھنؤ کی زبان کا سر پرست دنیا سے اٹھ گیا، وہاں کی ریاست و سلطنت مٹ مٹا گئی، صرف نام ہی نام باقی ہے، مگر حف نظر چشم بد دور ملک دکن حرسہا اللہ عن الشرور والفتن کی اسلامی ریاست زندہ و سلامت موجود ہے اور تا قیامت رہے گی جس نے ماموں رشید کا علمی زمانہ بھلا دیا، بغداد و قرطبہ کا لطف دکھا دیا، بلکہ اس تھوڑے سے زمانے میں خلفائے عبّاسیہ کی سلطنت سے بڑھا دیا اور بڑھا رہی ہے۔ اگر زمانہ ترقی کے موافق اردو کا مرکز کہہ سکتے ہو تو بلحاظ قدامت باعتبار بول چال و سرپرستئ زبان اردو حیدرآباد دکن کو کہو اور ان سے اس زبان کی پختگی، قیام اور روز افزوں ترقی کے واسطے مدد لو کیونکہ اس ریاست کا والی اردو زبان کا جوہر و مبصّر بلکہ نقّاد ہے اور اسی وجہ سے ہر ایک اہل زبان کی زبان پر حیدرآباد حیدرآباد ہے۔
مرکز زبان کے متعلق تو جو کچھ محاکمہ کرنا تھا وہ کر چکے اب ذرا اس مضمون کو بھی پڑھ کر دیکھتے ہیں جس میں اس متعلق لمبی چوڑی بحث ہوئی ہے۔
یہ مضمون حضرت وجاہت جھنجھانوی مالک رسالۂ اصلاح سخن نے بزم اردو کے جلسۂ منعقدہ 19 انیس مئی سنہ 1910 ء میں پڑھا تھا اور سب سے پہلے ہمارے محترم دوست مولوی محبوب عالم صاحب نے اپنے معزّز و با وقعت روزانہ پیسہ اخبار مطبوعہ تیسری جون سنہ مذکور میں چھاپا تھا۔ اس کے بعد رسالۂ اصلاح سخن و فصیح الملک میں ہماری نظر سے گزرا اور معلوم ہوا کہ دیگر رسائل میں بھی یہ بحث چھڑی ہے، مگر ہم اپنی بیماری، عدم فرصت و مقدّمات دیوانی کی پیروی سے مجبور تھے ورنہ کچھ نہ کچھ ہم بھی اپنی رائے ظاہر کرتے، اب چند دوستوں کے سر ہوجانے سے رطب و یابس جیسا کچھ خیال میں آیا لکھنا پڑا۔
اس میں کلام نہیں کہ حضرت وجاہت نے جو کچھ لکھا بہ نظر اصلاح کہ یہ ان کا کام ہی ہے نیک نیتی سے لکھا اور زمانۂ حال و موجودہ رفتار کے موافق بظاہر بہت کچھ ذہن لڑایا، لیکن اس بحث کے اٹھانے میں انھوں نے غالبا اپنی ناواقفیت کے سبب تمثیلوں تک میں دھوکا کھایا، اگ ر غلطی نہیں کی تو سہو ضرور ہوا، اور یہ غلط فہمی کتب لغات کے حال و قدیم محاورات میں فرق نہ کرنے کے باعث واقع ہوئی۔ مثلا انھوں نے لکھّا کہ اہل دہلی زیادہ محبّت کے وسطے " جان چھڑکنا" بولتے ہیں اور آگ لگ جانے کے واسطے " پھول پڑا" استعمال کرتے ہیں، چنانچہ اس کی اصل عبارت یہ ہے کہ " وہ زمانہ دور نہیں کہ دہلی لکھنؤ کے ایجاد کردہ الفاظ لوکل بولی سے زیادہ وقعت نہیں رکھیں گے، مثال کے طور پر دہلی کے ایک آدھ محاورہ کا ذکر کیا جاتا ہے، جب کسی کو کسی سے زیادہ محبت ہو تو دہلی والے کہا کرتے ہیں کہ فلاں آدمی اس آدمی پر جان چھڑکتا ہے، جان کیا ہوئی گویا گلاب یا کیوڑے کا عرق ہے، اب علمی دنیا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ دہلی یا لکھنؤ کے اتّباع کی وجہ سے بے حد محبت کرنے کا مفہوم جان چھڑکنے سے ادا کرے، سیدھی بات کیوں نہ کہی جائے کہ ہم اس آدمی سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔"
اوّل اس پہلے فقرے کا جواب ملاحظہ فرمائیے کہ " دہلی اور لکھنؤ کے ایجاد کردہ الفاظ لوکل بولی سے زیادہ وقعت نہیں رکھیں گے"۔ ہم کہتے ہیں یہی الفاظ روز بروز زیادہ ترقّی کریں گے، اور ہر علم و فن کے الفاظ اسی زبان میں بڑھا کر اسے علوم و فنون کے لحاظ سے بھی زیادہ مکمل بنائیں گے، کیونکہ ان کی سادگی، سلاست، جامعیت، وسعت ایسی نہیں ہے کہ وہ دیگر زبان کے الفاظ تراش و خراش پیدا کر کے اپنے ساتھ شامل نہ کر لے۔ اردو زبان میں ہر ایک زبان کی اسی طرح کھپت ہے جس طرح شیخوں کی ذات کا ہر ایک مسلم و نو مسلم کے واسطے دروازہ کھلا ہوا ہے، چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے :-
سیّد اگل کھرے ہیں میاں کائنات میں
سب کی سمائی ہوتی ہے شیخوں کی ذات میں
کوئی زبان، کوئی علم، کوئی فن اپنی خاص خاص اصطلاحات و محاورات سے خالی نہیں، جن کاموں میں جس علم اور جس فن کی ضرورت پڑتی ہے اس میں انھیں کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، انشا پردازی کا جزو اعظم، قصّوں، ناولوں، ڈراموں، رزمیہ داستانوں، بزمیہ افسانوں کی جان اصطلاحیں اور محاورے نہیں ہیں تو اور کون سی بات ہے جو روتوں کو ہنساتی، ہنستوں کو رلاتی، لومڑیوں کو شیر بناتی، سنگدلوں کو رحم دل دکھاتی، بخیلوں کو سخاوت کی طرف توجّہ دلاتی، قوموں میں ہمدردی پھیلاتی، قومی قوّت بڑھاتی، سخیوں کو ان کی حیثیت سے زیادہ دریا دلی پر آمادہ کر دیتی ہے، صرف زبان اور محاورے ہی تو ہیں جو ہر ایک بیان کا سماں باندھ کر لوگوں کے دلوں پر قابو کرا دیتے ہیں۔
کیا آپ نے یہ نہیں سنا؟ کہ یورپ میں جس قدر نامی و گرامی مقرّر یعنی اسپیکر ہوئے ہیں اور جس قدر بڑے بڑے انشا پرداز ہیں ان سب نے اپنی اس قوّت کو زیادہ تر ناولوں کے مطالعہ سے بڑھایا ہے، اور وہاں ناول خاص کر اسی غرض سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں کہ ان میں سے زود اثر، پر اثر، دل گداز، ہیبت افزا، رعب نما، معنی خیز وغیرہ ہر قسم کے فقرے یا الفاظ چن چن کر اپنی زبان پر چڑھائے اور بر وقت ضرورت حسب موقع کام میں لائے جائیں، یہ باتیں صرف ٹکسالی زبان کو حاصل ہوتی ہیں اور اسی میں یہ جادو بھرا ہوا ہے۔
رہے علمی اور فنونی الفاظ یا اصطلاحیں جس قدر اور جس وقت میں جس علم یا جس فن کا دور دورا ہوا اسی کے واسطے سینکڑوں اور ہزاروں الفاظ بن گئے بلکہ اس میں سے بھی بعض اصطلاحیں لے کر روز مرّہ میں داخل کر لی گئیں، مثلا کھٹائی میں ڈالنا، سناروں کی اصطلاح ہے مگر اردو میں تعویق کے موقع پر استعمال ہونے لگی، علی ھذا، انگرکھے کا بند، تیر بہدف، لیس ہونا بمعنی تیار و مستعد ہونا، کتر بیونت، پاپڑ بیلنا، چھکّے چھوٹنا وغیرہ ہزاروں اصطلاحیں اور محاورے ایسے ہیں کہ وہ اہل حرفہ، اہل پیشہ، اہل فن، اہل علم وغیرہ کے خاص خاص علوم و فنون سے استنباط کئے گئے ہیں۔ علم ریاضی، حساب، علم جبر و مقابلہ، اقلیدس، تاریخ، جغرافیہ، علم مثلّث، لوکارثم، مساحت وغیرہ کے ترجمے کیا حسب ضرورت نہیں ہوئے؟ اور اب سائنس و طبیعات کے کیا نہیں ہو رہے ہیں؟ اسی طرح فقہ، حدیث، علم کلام، علم منطق وغیرہ کے ترجموں کو کیا اہل زبان نے چھوڑ دیا ہے؟ خاص ہماری دہلی میں خان بہادر منشی ذکاء اللہ مرحوم نے کون سے علم کا ترجمہ نہیں کیا، ایل ایل ڈی مولوی نذیر احمد صاحب نے عربی ترجموں سے کون سی دینی خدمت نہیں کی، اردو میں منطق لکھی اور مضامین کے بیسیوں رسالے شائع فرمائے۔ مولوی کریم بخش صاحب نے جبر و مقابلہ کا کیسا ترجمہ کیا۔ مولوی مملوک علی نے عربی سے اقلیدس کا ترجمہ کیسا کیا؟ مولوی امام بخش صہبائی نے قواعد اردو کیسی بنائی؟ ماسٹر رام چند نے ریاضی میں کیسا نام پایا کہ یورپ تک دھوم مچ گئی۔ ان کی کتابیں تذکر ۃ الکاملین، رسالۂ خواب، سریع الفہم وغیرہ اور بہت سے رسالے ہماری نظر سے گذرے۔ مولوی نواب قطب الدین خاں مرجوم نے کیا مشکوۃ وغیرہ کا ترجمہ نہیں کیا؟ کیا مولوی نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی نے، مولوی عبد الرب واعظ دہلوی نے، مولوی حفیظ اللہ خاں صاحب دہلوی نے اردو زبان کی دینی خدمت کچھ کم کی؟ ایل ایل ڈی مولوی ضیاء الدین صاحب نے کیا اصول علم طبعی کے رسالے نہیں لکھّے؟ کیا مولوی ع بدا لحق صاحب نے اردو میں تفسیر حقّانی نہیں لکھّی؟ کیا مولوی رفیع الدین صاحب نے لفظی اور مولوی شاہ عبد القادر صاحب نے قران شریف کا عام فہم اردو با محاورہ ترجمہ نہیں کیا؟ کیا شمس العلماء مولوی نذیر احمد صاحب کا ترجمۂ قران مجید مقبول خاص و عام نہیں ہوا؟ کیا ان باشندگان دہلی کو ان ترجموں کے واسطے لاہور، لکھنؤ یا دیگر امصار و دیار سے الفاظ لانے پڑے؟ کیا سر رشتۂ پنجاب کے دہلوی مترجموں نے تعلیمی کتابوں کو اس زبان میں انگریزی سے نہیں ڈھالا؟ کیا مولوی کریم الدین نے کوئی زبان سر رشتۂ تعلیم کی تصانیف میں برتی؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کرنل ہالرائڈ صاحب بہادر نے اپنے سر رشتہ کی کتابوں کا ترجمہ کس طریقہ سے ٹھیٹ اردو میں کرایا؟ اگر نہیں معلوم تو ہم سے سن لیجئے، ہم بھی یہ کام بک ڈپو کے نائب مترجم رہ کر کر چکے ہیں، وہ اوّل تو انگریزی دانوں سے جس کتاب کا ترجمہ مقصود ہوتا کراتے۔ جب وہ کر چکتے تو ایسے دہلوی اہل زبانوں کو دیتے جو مطلق انگریزی نہیں جانتے تھے اور فرماتے کہ اس کو اپنی بول چال کے موافق بنا دو۔ انگریزی سے اکثر ترجمے رائے بہادر ماسٹر پیارے لال صاحب یا ماسٹر چندو لال صاحب یا مولوی محمد یوسف مرحوم کیا کرتے، ان کی نظر ثانی کبھی مولانا آزاد صاحب، کبھی خواجہ ضیاء الدین صاحب مرحوم، کبھی خواجہ حالی مد ظلہ العالی، کبھی مولوی مرزا اشرف بیگ خاں صاحب، کبھی مولوی محمد سعید صاحب، کبھی بندۂ سید احمد، کبھی مرزا ارشد گورگانی، کبھی سیف الحق ادیب، کبھی مولوی مرزا بیگ خاں صاحب دہلوی وغیرہ کیا کرتے تھے۔ رائے بہادر ماسٹر پیارے لال صاحب نے جو کلاں تاریخ گلستاں یا دربار قیصری کا ترجمہ کیا ہے، بھلا دوسرا کوئی کر تو لے۔ جس وقت لارڈ لٹن کی زبردست ، معنی خیز، پہلو دار، مغلق اور زبردست اسپیچ کے ترجمہ کا موقع آیا تو بندہ بھی سنہ 80 ء میں اس وقت وہیں موجود تھا، اور کچھ اس نے بھی ماسٹر صاحب کے حکم سے اسے دیکھا تھا انصاف یہ ہے کہ ماسٹر صاحب سا لائق آدمی ہو اور نہ یہ ترجمہ قابل تعریف کیا جائے۔ ان کے علاوہ قصص ہند حصّہ اوّل وغیرہ بھی آپ ہی کی تالیف ہے۔ ان کتابوں میں اگر دہلی کے ایجاد کردہ لفظ نہیں ہیں تو کیا کرانے جھنجھانے سے یہ لڈوے کی پال آئی ہے؟ اگر یہ لوکل الفاظ مانے جائیں تو اور بھی زیادہ قابل وقعت ہیں کیونکہ خواص ہر جگہ مخصوص ہوا کرتے ہیں اور عوام غیر محدود :-
سب مذاہب میں یہی ہے نہیں اسلام میں خاص
کہ جہاں عام ہے ہوتا ہے وہا ں عام میں خاص
ساغر دل کی تو واقف نہیں کیفیّت سے
دیکھ عکس رخ ساقی ہے اسی جام میں خاص
اب ذار اس مثال کی طرف رخ فرمائیے جس کے سبب سے محاورات دہلی پر بائی کاٹ کا حکم لگایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی اس کا مفہوم بھی اس طرح بتا دیا ہے۔" جب کسی کو کسی سے زیادہ محبّت ہو تو دہلی والے کہا کرتے ہیں کہ فلاں آدمی اس آدمی پر جان چھڑکتا ہے، جان کیا ہے گویا گلاب یا کیوڑے کا عرق ہے"۔ اس محاورے کا لطف اور اس کی عدم واقفیت تو ہم آگے چل کر بیان کریں گے لیکن پہلے انہیں کی عبارت میں سے دو ایک فقرے پیش کر کے الزامی جواب دیتے اور ان کی طرف سے یہ مصرع ہ پڑھتے ہیں۔ مصرعہ :- میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا۔
" کانوں کو مزا نہیں دیتے" کان نہ ہوئے کوئی زبان ہوئی جو ذائقہ سے تعلق رکھّے۔ " صورتیں فسانہ ہوگئیں۔" صورتیں نہ ہوئیں کوئی ذکر اذکار ہوئے جو فسانہ سے نسبت دے گئی۔ " دنیا کی ہر چیز انقلاب پسند ہے"۔ لفظ پسند کو ملاحظہ فرمائیے اور ہر چیز کو جو ذی روح بن کر انقلاب پسند فرماتی ہے۔
خیر اس باتوں کو جانے دیجئیے، جان چھڑکنا اوّل تو یہ فرمائیے کہ آپ نے اپنے کانوں سے سنا ہے؟ کہاں سنا ہے؟ اور کس سے سنا ہے؟ مردوں سے یا عورتوں سے یا صرف کتب لغات میں دیکھا ہے؟ یا کسی استاد کے کلام میں نظر پڑا ہے؟ بے شک جان چھڑکنا بولا جاتا ہے مگر عورتوں میں اور وہ بھی اولاد یا مثل اولاد کسی نہایت قریبی رشتہ دار کی محبّت میں، نہ کہ عام محاورہ ہے اور ہر جگہ فرط محبّت کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ اگرچہ عورتیں اس کی اصلیت سے واقف نہیں مگر اس موقع کے واسطے اس سے بہتر اور پر اثر لفظ ملنا مشکل ہے، جان کے لغوی معنی روح ہیں اور اطبّا کی اصطلاح میں جوہر لطیف یا بخار لطیف۔ ان دونوں صورتوں میں جان کا سیّال ہونا پایا جاتا ہے اور سیّال چیز کا چھڑکنا ممکنات سے ہے اور اس جگہ فرط محبّت سے جان نثار کرنے کے معنی ہیں۔ اب ایک اور طرح سے سنئیے، اردو محاورہ میں جان بمعنی خون بھی آجاتا ہے جیسے خوف کے موقع پر جہاں دم خشک ہونا بولتے ہیں وہاں جان سوکھنا بھی استعمال کرتے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، آپ نے کام سے جان چرانا بھی سنا ہوگا، بھلا اس جگہ جان نہ ہوئی کوئی گھٹھری یا جوکھوں ہوئی کہ کوئی چرا کر لے جا ئے گا، حالانکہ صرف اسی کی ذات کے متعلق بولتے ہیں جو جان بوجھ کر کام سے بچتا ہے، اب دیکھئیے یہ گلاب کا عرق ہے یا کیوڑا، اور لیجئے جانفشانی فارسی کا محاورہ ہے اور اسی کا یہ ترجمہ ہے، اہل فارس پر آپ کا اس موقع کے لئے فرمائیے کیا اعتراض ہے؟ اسی جگہ آپ فرماتے ہیں " کہ اب علمی دنیا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ دہلی یا لکھنؤ کے اتّباع کی وجہ سے بے حد محبّت کرنے کا مفہوم جان چھڑکنے سے ادا کرے، سیدھی بات کیوں نہ کہی جائے کہ ہم اس آدمی سے بے انتہا محبّت کرتے ہیں۔" اگر آپ بے انتہا محبت یا صرف کسی کے ساتھ محبت کرنے کے دوسرے معنی پر توجّہ فرماتے تو ہرگز ہرگز یہ لفظ زبان پر نہ لاتے، ایسی ہی باتیں آدمی کو پابندئ زبان سے آزادی حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہیں، ہمارے نزدیک علمی دنیا کو سب سے زیادہ زبان دانی کی ضرورت ہے ورنہ مفہوم کچھ ہوگا اور سمجھا کچھ جائے گا۔
اب دوسرے محاورے اور لفظ کو بھی ملاحظہ فرمائیے! آپ ارشاد کرتے ہیں کہ " اسی طرح کسی کے گھر میں آگ لگ جانے کا مفہوم اہل دہلی یوں ادا کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے گھر میں پھول پڑا، آگ نہیں کہتے، اس کو لوگ بد شگونی سمجھتے ہیں، یہ اچھّا پھول پڑا کہ سارا گھر جل کر خاک ہوگیا اور یہاں خیر سے انگارے کو ابھی تک پھول ہی سمجھے بیٹھے ہیں، صاف بات کیوں نہ کہی جائے کہ فلاں آدمی کا گھر جل گیا۔" مہربانی فرما کر اوّل تو یہ ارشاد کیجئے کہ آپ کبھی دہلی میں آئے بھی ہیں یا نہیں؟اگر آئے ہیں تو آپ کو بگوش خود اس محاورے کو سننے کا اتفاق ہوا ہے یا نہیں؟ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کسی کتاب یا کبھی کسی شعر میں دیکھ لیا ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس محاورے کو عورتیں بولتی ہوں گی یا مرد؟ اگرچہ آپ کا یہ فقرہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ اس کو وہ لوگ بد شگونی سمجھتے ہیں، یعنی یہ محاورہ ہو نہ ہو عورتوں کا ہو، کیونکہ یہی فرقہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ نہیں نکالتا جس سے بد شگونی ہو۔ مثلا "خیر سے" آپ نے ہی کئی جگہ برتا ہے۔ "خدا کی سنوار" بجائے خدا کی مار آپ نے سنا ہی ہوگا۔ " تمھیں خدا کی نیکی" بھی گوش زد فرمایا ہوگا۔ "وہ جمی جم گھر میں ہیں" یہ بھی کبھی نہ کبھی ضرور گوش آشنا ہوا ہوگا۔ اسی طرح پھول پڑنا بھی ظاہر کر رہا ہے کہ اس کو عورتیں ہی بولتی ہوں گی، مگر آپ نے اپنے ثبوت میں مرد و زن سب کو لے لیا اور بہت بڑی اپنی نا واقفیت ظاہ ر فرمائی۔ اب ہم سے سنئیے دہلی میں کوئی بھی اس محاورے کو اب نہیں بولتا اور نہ پہلے یہ محاورہ شہر کے اندر بکثرت بولا جاتا تھا۔ البتّہ قلعۂ معلّے میں بیگماتوں نے اس کا کسی قدر استعمال کر رکھا تھا، لیکن عام آگ لگنے کے واسطے نہ تھا، اگرچہ رنگین کے ایک شعر میں یہ محاورہ موجود ہے مگر اس میں جو لفظ گوئیاں آگیا ہے یہ اس امر میں شبہ ڈالتا ہے، کیونکہ گوئیاں خاص پوربی محاورہ ہے جو آج تک دہلی کیا اطراف دہلی میں بھی نہیں بولا جاتا، وہ شعر یہ ہے:-
بھول کر بھی جو کسی اور کے گھر بھول ہو
تو الہی کرے گوئیاں مرے گھر پھول پڑے
عجب نہیں جو یہ شعر انشاء اللہ خاں کا ہو اور بالفرض اگر رنگین کا مانا جائے تو اس زمانہ کا ہوگا جس زمانہ میں سعادت یار خاں رنگین لکھنؤ میں جا کر اپنے پگڑی بدل بھائی انشاء اللہ خاں کے ہاں ٹھیرا کرتے تھے، اور باہم دونوں صاحبوں کی ریختیوں کا موازنہ ہوا کرتا تھا، لیکن رشک لکھنوی نے اس کو صاف کر دیا ہے چنانچہ اس کا شعر ہے :-
اہل جنّت کو ہو جنّت پر جہنّم کا خیال
پھول اگر پڑ جائے میری آہ آتش بار کا
اس سے ہماری یہ غرض نہیں کہ کسی شاعر نے بھی نہیں باندھا، جن لوگوں نے مردانہ زبان کا نام ریختہ اور بیگماتی بول چال کا نام ریختی رکھ چھوڑا تھا، انھوں نے اس زمانہ میں شاذ و نادر باندھا ہے۔ اہل لکھنؤ میں سے بحر اور انشا نے صرف ایک ایک شعر میں استعمال کیا ہے اور اہل دہلی میں سے نکہت اور رنگین نے۔ ان کے سوا ذوق، ظفر، مونس، درد، غالب وغیرہ کسی نے بھی اس کا استعمال نہیں فرمایا، اگر یہ محاورہ مروّج خاص و عام ہوتا تو کوئی بھی اسے نہ چھوڑتا، اہل لغت کو چونکہ ہر زمانہ کا محاورہ دکھانا منظور تھا انھوں نے بے شک داخل لغات کر دیا، محاورہ کی خوبی میں شبہ نہیں، لیکن آپ نے بے وقت مثال دی۔
پھول کے لفظ پر آپ نے طعنہ مارا تھا یہاں وہ طعنہ بیکار ہوا بلکہ آپ نے جو لکھا ہے کہ " یہاں خیر سے انگارے کو ابھی تک پھول ہی سمجھے بیٹھے ہیں۔" سبحان اللہ کیا اچھا خیال ہے، انگارے کی تعریف بھی جناب کو معلوم نہیں، کیا انگارا اڑ کر جا سکتا ہے؟ یا انگارا اڑ سکتا ہے؟ اگر آپ ان الفاظ کے محل موقع سے واقف ہوتے تو اس جگہ چنگاری، شرارہ یا آگ کا پتنگا تحریر فرماتے، دیکھئے اہل زبان اور مقلّد زبان میں کس قدر فرق ثابت ہوا، اب دوسری طرح سے اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے، جب کوئلے جلتے وقت چٹختے ہیں تو ان کو آپ کیا فرمائیں گے؟ کیا ان کے روشن ذروں کو پھول یا چنگاری یا پتنگے سے تعبیر نہیں کریں گے؟ کبھی آپ نے چراغ کو بھڑکتے ہوئے دیکھا ہوگا تو اس وقت جو روشن پتنگا سا یا اس کی جلتی ہوئی ٹیم نیچے گرتی ہے تو اسے بھی پھول کہتے ہیں یا نہیں؟ کیا توا جس وقت جلتے میں جگمگ جگمگ کرتا ہے تو اسے توا ہنسنا کسی وجہ سے کہتے ہیں یا نہیں؟ آتش بازی کے پھول تو آپ نے ضرور سنے ہوں گے، ان کو انگارا کیوں نہیں کہا؟ پھلجھڑی، ہتھ پھول، مہتابی، انار، جائی جوئی، بتاسے وغیرہ آتش بازی میں نظر اقدس سے گذرے ہونگے، ان میں سے انگارے اچھلتے ہیں یا پھول نکلتے ہیں، تیسری مثال اور لیجئیے، منہ سے پھول جھڑنا کیوں بولتے ہیں، منہ نہ ہوا کسی باغ کا بوٹا یا گل گلزار و جاہت ہوا۔
ہم نے آپ کے پہلے اعتراض اور اس کی مثال کے متعلق آپ ہی کے فقروں سے تھوڑا سا الزامی جواب دیا تھا، اب آپ اس کی نسبت اور نظیریں بھی ملاحظہ فرما لیجئے، زبان دینا کس معنی میں آپ خود بولتے ہیں، کیا زبان کی بوٹی کاٹ کر دے دی جاتی ہے؟ یا زبان نکال کر حوالہ کر دی جاتی ہے؟ یہ وہ لفظ ہے جو آپ کے روزمرّہ میں داخل ہے، سانچ کو آنچ نہیں، کیا سانچ کوئی مجسّم چیز ہے، یا کوئی درخت یا از قسم نباتات ہے؟ اسی طرح پیسہ کی آنچ، کیا پیسہ کسی قسم کی آگ ہے؟ تلوار کی آنچ، کیا تلوار کوئی شعلہ ہے؟ آنچ آنا بمعنی صدمہ پہنچنا بھی آپ نے سنا ہی ہوگا، چنانچہ کہا کرتے ہیں کہ تمھارے بچے کو ذرا آنچ آئے تو میرا ذمّہ۔ اب پھول کے چوتھے معنی اور لیجئے کہ پتّی یا برگ کے معنی میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے، مثلا سوکھی میتھی کے دو پھول ڈال دینے سے مچھلی اڑ جاتی ہے، یعنی خوشبودار اور خوش ذائقہ ہوجاتی ہے، پوربی زردے یعنی تمباکو کے دو پھول بھی سر پھرا دیتے ہیں، بھنگ کے دو پھول مانگ کر نشہ جما لو، ابھی سیاہی پھیکی ہے دو پھول اور ڈال دو، پانچویں اور لیجئے، برص یا کوڑھ کے دھبے اور دو آتشہ شراب کو بھی پھول کہتے ہیں۔ چھٹے معنی بھی ملاحظہ فرما ئیے، کانسی دھات کو بھی پھول کہتے ہیں، پھول کا کٹورا، پھول کی تھالی سینکڑوں دفعہ سنی ہوگی، معلوم نہیں یہ کس درخت اور کس موسم کے پھول ہیں؟ علی ھذا القیاس اس قسم کے سینکڑوں اور بہتیرے استعارے یا محاورے ہیں جو ہر ایک زبان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ زبان کی خوبی انھیں باتوں پر موقوف ہے، اور تو اور گنواری یعنی ادنی سے ادنی دہقانی زبان بھی ایسے استعاروں اور محاوروں سے خالی نہیں پائی جاتی، کجا کہ شہری اور خاص کر ٹکسالی زبان ان سے معرّا ہو، یا بائی کاٹ یعنی متروک الاستعمال کر دی جائے۔ گنوار لوگ بیوقوف کو بچھیا کا باوا کہتے ہیں، کیا وہ در حقیقت گاؤ زادہ ہوتا ہے؟ پنجاب کے عوام الناس نا فہم کو ڈھگا کہتے ہیں، کیا وہ فی الواقع بیل ہوتا ہے؟ گدھا اسی معنی میں تمام ہندوستان کیا عرب تک میں مستعمل ہے ، آپ نے سنا ہوگا الکاتب کالحمار۔ علی ھذا ہری چگ خود غرض کے حق میں، لاد جانا دودھ سے ہٹ جانے کے موقع پر، پسر چرانا پچھلی رات سے ڈھور چرانے لیجانے کو، بیس بسوے بجائے غالبا، سو بسوے یا بیسوں بسوے بجائے بالضرور، شرطی، بیچ کھیت بجائے علانیہ، بیٹی کا باپ بجائے نامرد یا بودا۔ ٹھور رکھنا بجائے کھیت رکھنا، کام تمام کرنا۔ سوت کے بنولے کر دیئے، بنا بنایا کام بگاڑ دیا، قدر گھٹا دی۔ جیوڑی سے گردن گھسنی، تمام عمر نباہ کرنا۔ لٹیا ڈبو دی، بات بگاڑ دی۔ بھاڑے کا ٹٹو جو بھروسے کے قابل نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری گنواری باتیں اصطلاحات سے خالی نہیں ہیں۔ میسور اور بمبئی کے خیال سے ان سب کو بائی کاٹ فرمائیے، بلکہ دیہاتی تعلیمی کتابوں میں سے بھی نکال دیجئے۔
اب فرمائیے اس مثال سے کس کا گھ ر جل کر راکھ ہوگیا اور کس نے انگارے کو پھول سمجھا؟ کلکتہ ہو یا بمبئی، لاہور ہو یا پشاور، ملتان ہو یا بلوچستان جہاں کے لوگ اردو کو اردو سمجھ کر بولیں گے، اس کی تصانیف پڑھیں گے، وہ سب جان لیں گے کہ کہاں کون سا محاورہ بولا جاتا ہے۔ اوّل تو آپ کا یہ دعوی ہی غلط تھا کہ دہلی میں پھول پڑنا آگ لگنے کے موقع پر بولا جاتا ہے، جس حالت میں آج کل کے اہل دہلی نے نہیں سنا اور نہ زبان پر لائے تو آپ نے کہاں سے سن لیا؟ یوں فرمائیے کہ ایک اعتراض جڑنا تھا سو جڑ دیا اور وہ بھی بلا تحقیق، بلا مشاہدہ اور بلا تجربہ، کسی پرانی کتاب میں دیکھ کر۔
علمی زبان جو شاید خود آپ ایجاد فرمائیں تو وہ اس لوکل امتیاز کو مٹا دیگی، مگر پہلے آپ نے تو اس لوکل زبان کو اپنے مضمون میں نہ رہنے دیا ہوتا، ملاحظہ فرمائیے کہ یہ لوکل محاورے نہیں ہیں تو اور کون سے ہیں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں؟ جوتیاں چٹخاتے پھرنا، خالی موچھوں پر تاؤ دینا، جو جی بچے گا دیکھ لے گا، گھر میں چوہے قلابازیاں کھا رہے ہیں، پھولنا پھلنا۔ دقیانوسی محاورے، کیا ان کو بمبئی اور میسور والے بخوبی سمجھ لیں گے، اور دقیانوس کی تاریخ اور اس کی وجہ تسمیہ پر ان کو فورا عبور ہوجائے گا، ہرگز نہیں، تا وقتیکہ اہل زبان کی تصانیف ان کی نظر سے نہیں گزریگی، آپ کے ان محاوروں کو بھی وہ نہیں سمجھ سکیں گے، اور تو اور آپ کی تازہ نظم مسلم یونیورسٹی بھی دہلی کے محاوروں سے خالی نہیں، مثلا ڈنکا بجانا، جامہ پہننا، چھاتی پر مونگ دلنا، بیل منڈھے چڑھنا وغیرہ۔
اب ذرا اپنے خاص الخاص محاورات پر بھی نظر ڈال لیجئے، جس سے معلوم ہوجائے کہ آپ نے با وجودیکہ اصلاح سخن کے مدّعی ہیں کہاں کہاں ٹھوکر کھائی ہے، ٹکے بھر کی زبان، اس کی بجائے ٹکا سی یا ٹکا بھر کی زبان فرما سکتے تھے، ٹکے بھر نہیں بولتے اظہار مقدار کے واسطے ایسے موقع پر ٹکا بول سکتے ہیں، حقہ کی متواتر گڑگڑاہٹ پر بیشک کہتے ہیں کہ ٹکے گن رہا ہے۔ " شاہی تاج زمین پر گر پڑا۔" اس کی بجائے شاہی تاج تاراج یعنی غارت ہوا کہتے ہیں۔ " گنے چنے با کمال۔" اس جگہ صرف گنتی کے با کمال بولتے ہیں۔ " دل جسم کا بادشاہ ہے زبان اس کی وزیر۔" دہلی اور لکھنؤ کے محاورے گھس پھٹ کر پرانے ہوگئے، یہ اس کی جگہ گھس پس کر کہا ہوتا۔ مگر یہ محاورہ بھی عورتوں ہی میں کپڑے کے ساتھ مستعمل ہے، چونکہ آپ نے کو اپنے دعوے کے برخلاف کپڑے سے استعارہ فرمایا اس وجہ سے اس پر زیادہ بحث نہیں کی جاتی، اس وقت آپ کا ایک شعر بھی یاد آگیا جو ایڈورڈ ہفتم کی وفات پر لکھّا ہے، جس میں طوطی بجنا کا محاورہ خاص آپ ہی کا ایجاد ہے :-